The Latest
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ فکری اور علمی اختلافات اچھی چیز ہیں لیکن اسے دشمنی میں تبدیل کرنے اور اپنی مخصوص سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنے سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اختلاف کو اللہ کے رسول (ص) نے رحمت قرار دیا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار امامیہ آرگنائزشن پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد ہوٹل میں ''امت مسلمہ کے مسائل کا حل اور اور اتحاد بین المسلمین'' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں کی مخالفت کرنے والے اب خود لانگ مارچ اور دھرنوں کی بات کر رہے ہیں۔ احتجاج اور دھرنوں کو غیر آئینی کہنے والوں کے پاس اب احتجاجی دھرنے دینے کا کیا جواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید کرتے تھے، اب انہوں نے دس دن بھی نہیں گزرنے دیئے اور دھرنا دینے کی بات شروع کر دی ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ نے یہ گفتگو۲۵۔۵۔۱۳۶۳ (۱۹۸۳ء) میں حزب جمہوری اسلامی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے تہران سے اس حزب کے ممبران اور عہدیداروں کے اجلاس میں پیش کی تھی، جو حزب موتلفہ اسلامی(Islamic Confedration Party) ۔
کی طرف سے ان کے مجلہ ماہانہ ’’ذکر‘‘ کے۶۳ویں شمارے ، ماہ ’’دی ۱۳۹۰‘‘ میں چھپی ہے۔
اہداف:
تنظیمی فعالیت کا ہدف اورضرورت کیا ہے؟
اسلامی تنظیم کی رکنیت ہم پر کیا اضافی ذمہ داری ڈالتی ہے؟
کیا غیر آگاہانہ تنظیمی فعالیت کا کوئی فائدہ ہے؟
کس قسم کے لوگ تنظیم کے مخالف ہوتے ہیں؟
تنظیمی افراد کے باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہیءں؟
میں یہاں تشریف لانیوالے عزیز برادران اور خواہران کو خوش آمدید کہتا ہوں، یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ کچھ مسائل پر آپس میں تبادلہ خیال کر سکیں۔اسی طرح آپ برادران اور خواہران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ان نشستوں میں منظم انداز سے شرکت کی،یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے ۔
تنظیم کی اقسام اور ذمہ داریاں:
حزب جمہوری اسلامی جیسی ایک سیاسی اور فکری تنظیم کی آج ہمارے دور میں دواہم ذمہ داریاں ہیں، ایک لائق افرادکو فکری اور عملی طور پر منظم کرنا دوسرے اس تنظیم کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا ۔ان میں سے پہلی ذمہ داری وہ ہے جس کی دنیا کی تمام فکری اور سیاسی جماعتیں قائل ہیں ،یعنی لائق افراد کو ذہنی (فکری) اور عملی طور پر منظم کرنا۔ اب اس لیاقت سے کیا مراد ہے؟ گو کہ تنظیموں کے درمیان طرز تفکر میں اختلاف پایا جاتاہے، لیکن اس کے باوجو دہر جماعت ، حزب اور تنظیم ایسے افراد کو جو اس کے اہداف و مقاصد کے لحاظ سے لا ئق اور مناسب ہوں تلاش کرکے ایک خاص نظم و ترتیب سے انہیں منظم کرتی ہے ،پھر ان کے درمیان وہ کام انجام دیئے جاتے ہیں جو آپس کی فکری ہم آہنگی اور اتحاد کا مقدمہ بنتے ہیں، اور یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک کچھ لوگ فکری لحاظ سے آپس میں ہم آہنگ نہ ہوں وہ عملی لحاظ سے بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتے ۔
یہ دنیا کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کی فعالیت کا محور ہے، گو کہ تنظیموں کے اہداف و مقاصد مختلف ہوتے ہیں ، بعض تنظیمیں اپنے سیاسی افکار کی ترویج و اشاعت کیلیئے یہ کام انجا م دیتی ہیں اور اسے اپنی ایک ذمہ داری سمجھتی ہیں، بعض تنظیمیں اپنے فکری مقاصد کی خاطرتو کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو طاقت کے بل بوتے پر حکومت کے حصول کیلئے تنظیم سازی کرتی ہیں۔ جبکہ بعض تنظیموں کی ،مختلف افکار اور گوناگوں قسم کی سیاسی جدو جہد کے لحاظ سے، تقسیم بندیاں کی جاتی ہیں،غرض یہ کہ اہداف مختلف ہیں۔ لیکن دنیا بھر کی یہ تنظیمیں اپنے موردنظر اور مطلوبہ افراد کے درمیان ایک فکری ہم آہنگی اور اس کے سائے میں ایک عملی ہم آہنگی کو وجو د میں لانا اپنی ذمہ د اری سمجھتی ہیں۔ یہی ہدف آپ کا بھی ہے اور حزب جمہوری اسلامی کا بھی۔
ایک اسلامی تنظیم کی پہلی ذمہ داری:
لہٰذا حزب جمہوری اسلامی کی یہ ذمہ د اری ہے کہ افراد کے درمیان اسلام کے فکری نظا م پر عمل درآمد کرانے کیلئے ایک فکری ہم آہنگی پیدا کرے تا کہ اس ہم آہنگی و اتحاد سے معاشرے اور اسلامی انقلاب کو ارتقاء بخشنے کی رفتا رکو تیز کرنے نیز انقلابی مقاصد کے حصو ل کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ تنظیم ہمیں اس مقصد کے لیئے چاہیے ۔
اگردوسرے افراد دنیاکے گو شہ و کنا ر میں اور خود ہمارے ملک میں بھی مختلف سیا سی مقاصد رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں میں اس لیئے شامل ہوتے ہیں کہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیں، اقتدار میں آجائیں اور نظام حکومت اپنے ہاتھو ں میں لے لیں، تو ہم یہ واضح کرنا چاہتے کہ ہماری ایسی سوچ نہیں ہے۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاشرے کے افراد کی فکر کو اسلامی تعلیمات و افکار کی گہرائی نیز سیاسی حالات کے ادراک اور تجزیہ و تحلیل کے شعور کو مناسب اور اس گہرائی تک لے جائیں کہ معاشرے کے افراد سیاسی اور فکری حالات و واقعات کی شنا خت کے لحاظ سے ہم فکر ہو جائیں ، اور ایک طولانی مدت کیلئے ہم آہنگ اجتماعی حرکت کو جاری رکھ سکیں۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنے آپ میں ایک فکری اور عملی ہم آہنگی پیداکرنی چاہیے ، یہی ہماری تنظیم سازی کی دو ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، اس پرذرا اچھی طرح غور کریں۔
تنظیمی رکن سازی:
برادران اور خواہران ، جب ہم کہتے ہیں کہ معاشرے کے افراد کو منظم کیا جانا چاہیے تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ہماری تنظیم یا جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ہم نہ توایسی کسی چیز پر اصرار کرتے ہیں اور نہ ہی ہمارا ایسا کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی ہماری نظر میں اس کی کوئی ضرورت ہے۔ بنا براین سب سے پہلی چیز جس کی ہم نفی کرتے ہیں وہ یہی کہ حزب جمہوری اسلامی اپنی تنظیم سازی اور تشکیل کیلئے معاشرے کے تمام لوگوں کو اپناعضو بنا نا چاہتی ہے، ہم اسکی نفی کرتے ہیں،نہ ابتداء میں ہم اس فکر میں تھے نہ ہی اب ہیں۔بلکہ سرے سے ایسی تنظیم سازی عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے مطلوبہ نتائج برآمد ہو نگے ۔
تنظیم کا معاشر ے سے رابطہ:
دوسری چیز جس کی ہم نفی کرتے ہیں وہ یہ کہ لوگوں میں سے کچھ افراد کوتنظیم سازی کے نام پران کے گرد ایک حصار کھینچ کرانہیں معاشرے کے دوسرے لوگوں سے علیحدہ کردیں ۔ اس کی ہم سختی سے تردید کرتے ہیں۔جو لوگ ابتداء سے اس حزب کے مخالف تھے ،بلکہ تنظیموں کے ہی مخالف تھے وہ یہی پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ تنظیم یعنی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا ،لیکن اس بارے میں پہلے تفصیلی گفتگو کی تھی، اور ثابت کیا تھا کہ ’’تحزّب اورو حدت‘‘ ( تنظیم اور اتحاد) آپس میں سازگار ہیں، جو کتابچہ کی صورت میں شائع بھی ہوا تھا اور اس پر کافی بحث و مباحثہ بھی کیا گیاتھا۔ تنظیم کبھی بھی تنظیمی افراد اور دو سروں کے درمیان دیوار نہیں کھینچتی اور نہ ہی دوری پیدا کرتی ہے۔ جیسے ایک کلاس کے شاگر د ایک کلاس میں جمع ہونے ایک سبق پڑھنے ایک استا د سے کسب علم کرنے اور ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے کلاس سے باہر یا دوسری کلاسوں میں موجو د شاگردوں کے درمیان جدائی اور دوری کاسبب نہیں بنتے ۔ صحیح ہے کہ ایک کلاس کے شاگردوں کا آپس میں اتحاد ہو جاتا ہے لیکن یہ اتحاد دوسری کلاسوں میں یا باہر موجود لوگوں کے درمیان تعارض یا مخالفت کا باعث نہیں بنتا ۔ یہ توممکن ہے کہ ایک بچہ کسی دوسرے بچے سے آشنا نہ ہو ،لیکن ایک کلاس میں جانے ،ایک چار دیواری کے اندر ایک چھت کے نیچے تیس یا چالیس طالب علموں کے ایک ساتھ بیٹھنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں سے جدا ہیں، تنظیم بھی بالکل ایسی ہی ہے ۔
تنظیم ایک عظیم درسگاہ:
تنظیم ایک بہت بڑی کلاس اور وسیع و عریض درسگاہ ہے۔ تنظیم یعنی اپنے معاشرے کو صحیح اسلامی نظریات اور اس میں وقوع پذیر ہو نے والے واقعات کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرانا ہے ۔جولوگ تنظیم کا حصہ بنتے ہیں وہ اسی لیئے شمولیت اختیار کرتے ہیں کہ اس سے مکمل فائدہ حاصل کر سکیں، فکری اور عملی طور پر منظم ہوں۔ایک تنظیمی نظام اسی لیئے ہوتا ہے تاکہ اس کے اراکین جہاں کہیں بھی ہوں حقیقی اسلامی اور سیاسی فکر سے آگاہ ہو سکیں۔
یہ ڈویژن، مختلف شعبہ جات، ملک بھر میں پھیلے یونٹ اور دیگر مراکز اسی لیئے ہیں تاکہ صحیح عقائد اور سیاسی فکر پر مبنی جو کتابچے وغیرہ بنائے جاتے ہیں انہیں ملک کے کونے کونے تک آٹھ، دس یا پندرہ ،پندرہ افراد کے گروہوں (یونٹس) میں صحیح و سالم پہنچایا جائے اور وہ مل بیٹھ کر اس کا مطالعہ کریں، آپس میں بحث کریں اور سیکھیں۔
ایک تنظیم اپنے اراکین کے درمیان دوسری دلچسپیوں سے بڑھ کر آپس میں باہمی ہم فکری اوروابستگی کوجنم دیتی ہے ، لیکن ان کے اور دوسرے تمام افراد کے درمیان ہر گز جدائی اور دوری نہیں ڈالتی ۔
تنظیم کب ضرورت اختیار کر جاتی ہے؟:
اس کے ساتھ ہی ہم ایک اور بات کا بھی شدت سے انکار کرتے ہیں وہ یہ کہ تنظیم کے بغیر معاشرے میں ایک مضبو ط اور پائیدار اتحاد کو دراز مدت کے لیئے قائم کیا جاسکتا ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ معاشرے میں تنظیم سازی کے بغیر لمبے عرصے تک ایک پائیدار اور دیرپا وحدت وجود میں نہیں لائی جاسکتی۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یا قو میں شعارات کے سائے میں جمع اور متحد ہوتی ہیں یا مضبوط اور طاقتورقیادتوں کے گرد جمع ہوتی ہیں جیساکہ ہم نے اپنے اسلامی انقلاب میں خود مشاہدہ کیا ہے ۔ لیکن وہ چیز جو طولانی مدت کیلئے معاشرے کے افراد کو مختلف اجتماعی گرو ہوں اورطبقات کو ایک دوسرے سے منسلک و متحد کرتی ہے ،وہ ایک فکری وعملی ہم آہنگی اورایک تنظیم ہے ۔یہاں تنظیم کاوجو د ناگز یر ہو جاتا ہے ۔انسانیت کو آج تک حاصل ہونے والے تجربات اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں ۔
کب تنظیم کی افادیت ختم ہو جاتی ہے؟
جی ہاں ،جس دن دینی افکار و نظریات اور اسلا می سوچ معاشرے کے تمام افراد تک سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ پہنچا دی گئی تو اس وقت ہمیں تنظیم کی کو ئی ضرورت نہیں ہو گی ۔کیو نکہ اس وقت پورامعاشرہ خود ایک تنظیم بن جائے گا جس کی باگ ڈوراس کے اپنے سیاسی اور اسلامی رہبروں کے ہاتھ میں ہو گی۔اس مرحلے تک پہنچنے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔
تنظیم کی اہمیت:
بنا برین تنظیم اورسیاسی تنظیم سازی معاشرے کے اتحاد و اتفاق کی ضامن ہے۔اسی وجہ سے ہم تنظیم کے وجو دپر اصرار کرتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ لوگ جو تنٓظیم کی مخالفت کرتے ہیں وہ دو حالتوں سے باہر نہیں ہیں، یا وہ غافل اور بے تو جہ ہیں، یا مغرض ہیں۔
ممکن ہے کہ فلاں گروہ فلاں ادارہ یا جماعت و تنظیم مثالی اور آئیڈیل نہ ہو تو یہ ایک فطری سی بات ہے اوراس میں بحث کی ضرورت بھی نہیں ہے ممکن ہے کہ کوئی کسی شخصیت کا مخالف ہو اور کوئی اس کا حامی اس میں بھی کوئی برائی نہیں ہے ،اسی طرح اس بات میں بھی کوئی برائی نہیں کہ کو ئی کسی تنظیم کا حمائتی ہے تو ممکن ہے کوئی دوسرا اس کا مخالف ہو کیو نکہ معاشرے میں اختلاف نظر کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی تنظیم کے و جود کا سرے سے ہی انکار کرے تو یا اسے اس بات کی جانب تو جہ نہیں ہے کہ معاشرے اور لوگوں کیلئے تنظیمی وجود اور اس کے ذریعہ ہونے والی تربیت کے کیا فوائد ہیں یا پھر،خدا نہ کرے، وہ مغرض ہے اور کسی خاص ہدف کے تحت یہ باتیں کرتا ہے۔
پہلی ذمہ داری کی ادائیگی کا طریقہ کار:
یہاں ایک بار پھراس نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ حزب جمہوری اسلامی کی دو ذمہ داریوں میں سے ایک یہی ہے کہ اپنے اندر حقیقی معنوں میں نظم اور ہم آہنگی پیدا کرے۔البتہ تنظیم کے مسؤل کو بھی چاہیے کہ وہ اعتقادی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں کو فعال کرے جو نہ صرف معاشرے کے افراد کے اذہان کو فکری غذا فراہم کرتے ہیں بلکہ تنظیم کے تمام اراکین کے اذہان کوبھی ۔
ہمیں ان شعبوں کو اس طرح فعال کرنا چاہیے جیسا ان کا حق ہے یعنی پوری تنظیم میں مرکزی عہد ے سے لے کر یو نٹ تک سب کی یہ ذمہ داری ہے۔تمام مختلف شعبوں سے وابستہ اراکین پر بھی پابندی اور حفاظت کی ذمہ داری بنتی ہے، میٹنگوں میں بر وقت حاضری کواہمیت دینا، تنظیم کی طرف سے مہیا کیے گئے مواد کا مطالعہ کرنا، اراکین کا آپس میں صحیح اور ہدف مند بحث کی انجام دہی کو رواج دینا اور پھر ان تصورات اور افکار کو معاشرے کے دوسرے افراد میں ان کی ملازمت ،زندگی اورخاندان میں منتقل کرنا، یہی امور نظام اور تنظیم کو استحکام کا باعث بنتے ہیں۔اہم ترین کام یہی ہیں۔
ایک اسلامی تنظیم کی دوسری ذمہ داری:
اس کے علاوہ حزب جمہوری اسلامی کی ایک اور ذمہ داری بھی ہے جو دو سری جماعتوں میں نہیں ہے۔پوری دنیا میں تو نہیں ہے خود ہمارے ملک میں بھی شاید کہہ سکتے ہیں کہ واقعاً دوسری تنظیموں ، جماعتوں اور گروہوں میں بھی اس ذمہ داری کا احساس موجود نہیں ہے، اور وہ ہے ایک اسلامی اور الٰہی تنظیم کا آئیڈیل پیش کرنا ۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے لوگوں کو اسلامی جماعتوں کا ماضی میں ایک لمبے عرصہء مشروطیت (Constitutionalism)سے پہلے سے لے کر آج تک نہ تو کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی کبھی سابقہ پڑا ہے۔پہلے تو سرے سے تنظیم بندی کی اس رائج ثقافت کا تصور ہی نہ تھا، اور جب سے سیاسی جماعتیں اور سیاسی تنظیمیں ایران میں روشناس ہوئی ہیں اور جماعتی ثقافت نے آجکل جو شکل اختیار کر لی ہے ، ہمارے لوگوں نے کبھی بھی ایک اسلامی سیاسی جماعت نہیں دیکھی تھی۔ البتہ اسلامی معاشروں میں جماعت بندی موجود تھی، ایسا نہیں ہے کہ اسکا وجود ہی نہ تھا۔ ہمارا اپنا اعتقاد یہ ہے کہ تشیع آغاز اسلام سے ہی ایک جماعت اور تنظیم تھی ،اس بارے میں ہم نے طاغوت کے گھٹن آلود دور میں آئمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی پر گفتگو کے دوران تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ ولایت جو کہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اس لفظ کا ذکر قرآن میں بھی انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے، ’’مالکم من ولایتھم من شییء حتی یھاجروا‘‘، یہ وہی سماجی تعلق ہے جس کی آج ایک بڑی شکل اور معاشرے میں مدغم صورت ایک سیاسی جماعت اور تنظیم ہے۔
اتفاق سے یہ بھی میں تفصیل سے گذشتہ مباحث میں واضح کر چکا ہوں کہ و لایت درحقیقت اسلامی تنظیم ہی ہے اور پوری تاریخ اسلام میں جہاں جہاں ظالم حکمران اور طاغوت کا راج رہا ہے وہا ں مخفی اور زیر زمین (انڈر گراؤنڈ) ادارے اور تنظیمیں فعال رہتیں جو چھپ چھپا کران ظالم حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی جد و جہد کرتی تھیں، جبکہ دور حاضر کی تنظیمیں اور جماعتیں ایسی نہیں ہیں ۔سابقہ ادوار کی جماعتیں موجودہ دنیا میں رائج جماعت یا تنظیم کے مقابلے میں صرف ایک نا قص وجو د شمار کی جاتی ہیں۔ماضی میں جب سے جماعت بندی ایران میں شروع ہوئی ہے اکثر جماعتیں اور تنظیمیں دینی نہیں تھیں یعنی اسلام مخالفت تھیں، یا اگر ان میں کوئی دینی تھیں بھی توان کی بنیا د صحیح فقہی اور اسلامی نہیں تھی ،یاان میں سے کچھ اسلامی تو تھیں مگر لوگوں میں اچھی طرح قدم نہیں جماپائیں اور معاشرے میں انہیں کوئی بھی دینی جماعت یاتنظیم کی حیثیت سے نہیں جانتا تھا یا پھر ان کی قیادت غیر معروف تھی، جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ کئی دہائیوں میں لوگوں کے سامنے جو جماعتیں مشہور ہوئیں وہ غیر اسلامی عقاید کی حامل تھیں۔ایسی کوئی تنظیم جو قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر صحیح اسلامی نظریات کیساتھ، قرآنی اور دینی تعلیمات کے جاننے والے اور ماہر افراد کے ذریعے سے بنائی گئی ہو اور معاشرے میں روشناس کرائی گئی ہو یا لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا گیا ہو،کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا۔
حزب جمہوری اسلامی کی تشکیل کا تاریخچہ:
اس تجربے کا آغازانقلاب اسلامی کے بعد حزب جمہوری اسلامی کی تشکیل اور پھیلنے سے ہو ا ،خود ہمارے ذہن میں بھی نہیں تھااس قسم کی جماعت بندیوں اور تنظیموں کے ہو تے ہوئے لوگ حزب جمہوری کا اتنا شاندار استقبال کریں گے ۔
اس میں حرج نہیں آپ بھی سن لیں، جب ہم اس حز ب کا منشور لکھ رہے تھے تو ہم نے طے یہ کیا تھا کہ اس کاپہلا عمومی اجلاس تب بلائیں گے جب اس کے اعضا ء کی تعداد 313تک ہو جائے گی۔ یعنی اصحاب بدر و اصحاب طالوت جتنی۔
یہ ہم اس وقت سوچ رہے تھے جب دوتین دن بعد ہم نے اس حز ب کی تاسیس کا اعلان کرنا تھا، اور ہمارے خیال میں اعلان کے بعد ایک آدھ بندہ آئے گارکنیت کیلئے ،پھر دو،تین اور آئیں گے، پھرکچھ اور اضافہ ہو ں گے ۔ یوں دوتین ماہ تک 313ارکان پورے ہو ہی جائیں گے ۔اسی تعداد کو ہم نے حزب کے آئین میں بھی لکھا تھا یعنی 300اراکین ،313اس لئے نہیں لکھا کہ لو گ یوں نہ کہیں کہ یہ اپنے آپ کو اصحاب بدر کے درجے کا سمجھ رہے ہیں ۔ لہٰذا 300لکھا گیا، لیکن ہمارے دل میں وہی 313کاعدد ہی تھا ۔
اب جس دن اس حزب کا اعلان کیا گیاتو ظہرتک تقریباً کئی ہزار افراد عضو بن گئے ،اور اگلے چند دنوں میں اسی ہزار لوگوں نے اپنا نا م لکھوا دیا تھا اور عملاً عمومی اجلاس بلانا ہی ہمارے لیئے محال ہو گیا۔ اور دو تین سال تک ہم عمومی اجلاس ہی نہ بلوا سکے ۔البتہ الحمداللہ پچھلے سال تو فیق حاصل ہوئی اور یہ اجلاس برگزار کیا گیا ۔جس طرح کے خیالات جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں اس ملک کے لوگو ں کے افکار پر حاکم تھے، ہمیں امید نہیں تھی کہ ہماری جماعت یہاں پاؤں جماپائے گی ۔اس وجہ سے کچھ متدین لوگ جو عرصے سے اسلام ، قرآن اور اسلامی افکار پر کام کر رہے تھے اس حزب کی عضویت سے پہلے امام ؒ کے پاس گئے اور ان سے باقاعدہ اجاز ت لی تاکہ اس حزب کے رکن بنیں ۔باوجود اس کے کہ انہیں ہم پر اعتماد تھا ،ہمیں جانتے تھے، پھر بھی کیونکہ جماعت بندی اور تنظیم سازی سیاسی کام تھا جب تک امام ؒ سے پوچھ نہ لیا اور جب امام نے انہیں کہا کہ اس میں کو ئی حرج نہیں اور بے شک اس کے رکن بنیں، تب تک انہوں نے عضویت اختیار نہ کی۔
ایسے حالات تھے اور ہماری جماعت پہلی بار جماعت بندی سے متعلق ایک لمبے عرصے کی بد اعتمادی بد بینی اور بے اعتناعی کی فضا ء کے ہوتے ہوئے وجود میں آئی۔
اس کی قیادت میں بھی وہ افراد تھے جنہیں لوگ تقریباً جانتے تھے ۔ہر علاقے میں کچھ افراد انہیں پہچانتے تھے اوراگر زیادہ مشہور نہ بھی تھے تو کم از کم ایسے تھے کہ لو گ ذرا سی کو شش سے ان کی زند گی کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیتے اور کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کا ماضی خراب ہوتا، لہٰذا لوگو ں نے قیادت پر اطمینان کا اظہار کیا اور جب امام ؒ نے بھی حمایت کی تو حزب نے پوری قوت سے اپنے آئین اور منشور کے تحت اپنے اسلامی اور منطقی اہداف کیلئے کام کرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی مدت میں اس کا اتنا استقبال ہو ا کہ شاید دو میلین (20لاکھ ) سے زیادہ عضویت کی درخواستیں آگئیں ۔اب ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح ان کی تنظیم سازی کی جائے ،کیونکہ اس قسم کا ہمیں تجربہ ہی نہ تھا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ 20،30 لا کھ افراد کو کس طرح منظم کریں گے ۔یہ تجربہ بالکل نیا تجربہ تھا ۔یہ تجربہ آج تمام لوگو ں کیلئے اور ان کے لئے جو آئندہ آئیں گے اور تمام اسلامی دنیا کے ان افراد کیلئے جو اس ملک اور انقلاب کا مطالعہ کر رہے ہیں اور بڑی توجہ سے مشاہدہ کر رہے ہیں سب کیلئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے، ایک اسلامی تنظیم سازی ۔
اسلامی اخلاق اور اسلامی اصول و قوا نین کی مکمل اور بے چوں و چراپابندی واطاعت ایک اسلامی تنظیم کی اضافی ذمہ داری ہے جو شاید دوسری تنظیموں میں نہیں پائی جاتی یااگر اپنی ذمہ داری سمجھتی بھی ہیں تو اس شدت سے عمل نہیں کرتیں۔
ہمارا شروع سے یہ دعوی ہے کہ تنظیم شہرت کی ہوس مٹانے کے لیئے نہیں، طاقت کے حصول کا ذریعہ نہیں، مقام و منصب کے حصول کی سیڑھی نہیں ہے۔ سماجی حیثیت اور مرتبے کو حاصل کرنے کا وسیلہ نہیں ہے، اس کی دلیل بھی یہی ہے کہ اس کے اہم ترین شخص یعنی شہید آیت اللہ بہشتی رضوان اللہ علیہ نے حزب جمہوری کی بنیاد پر نہ فقط سماجی حیثیت پیدا نہیں کی بلکہ اسکی وجہ سے دشمنوں کے بد ترین حملوں کا نشانہ بنے اور آپ سب کو معلوم ہی ہے کہ مرحوم ڈاکٹر بہشتی کے ساتھ کیا کچھ ہوا تھااور بے پناہ خصوصیات کے علاوہ کہ جن کی بدولت بد خواہوں کے حملوں کا ٹارگٹ بنے ایک وجہ ان حملوں کی یہی حزب تھی جس کے وہ رکن تھے اگر اس میں نہ ہوتے تو شاید ان پر اس قدر حملے نہ کیئے جاتے۔
تنظیم ایک وسیلہ:
پہلے سے ہم یہ اعلان کر چکے ہیں کہ تنظیم انقلاب کے اہداف کی خدمت کے لیئے ایک وسیلہ اور آلہ ہے۔ ایک وسیلہ انقلاب کے وعدوں تک پہنچنے میں آسانی کی خاطر،کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ہماری تنظیم نے ایک دن خدانخواستہ انقلاب اسلامی کے راستے سے معمولی سابھی انحراف کیا تو ہم خود سب سے پہلے اس کا مواخذہ کریں گے۔ایک ایسی تنظیم کے وجود کا انقلاب کی خدمت اور انقلاب کے اہداف کے سوا کوئی فلسفہ ہی نہیں اور نہ ہی اس کے وجود کی کوئی دلیل ہے۔
اسلامی تنظیم کے اندرونی روابط:
ایک تنظیم جو ان خصوصیات کی حامل ہو ، اس کے اندر ونی تعلقات اور رابطوں کو سو فیصد سیاسی اخلاقیات پر مبنی ہو نا چاہیے۔اگرایسا نہ ہو تو ہم نے اپنی تنظیم کا حق ادا نہیں کیا اور اس سے وفا نہیں کی،مثلا تنظیمی برادران اور خواہران کو ایک دوسرے کی غیبت سے پرہیز کرنا چاہیے،ایک دوسرے کے بدخواہ نہ بنیں ،خواہ وہ انسان برا ہی کیوں نہ ہو، کسی اچھے انسان کے لیئے تو ویسے ہی کوئی برائی کا نہیں سوچتا ۔ جس کے بارے میں جب کوئی یہ فرض کر لیتا ہے کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے تو اس سے بد دل ہو کر اسکی بد خواہی پر اتر آتا ہے، آپ یوں بھی نہ کریں۔
(توجہ رہے کہ تنظیم کے ا ن افراد کے بارے میں کہ جن کے برے ہونے سے اجتماعی برائی اور تنظیم کے برے ہونے کا خطرہ لاحق ہو تو یہاں اصول تبدیل ہو جائے گا)
اسلامی طرز فکر یہ نہیں ہے کہ انسان تمام بندگان خدا کے لیئے بلااستثناء خوش دلی،محبت اس کی ہدایت پر مصّراور مہربانی کا سلوک روا رکھے۔ بلکہ کچھ افراد کی مخالفت بھی ضروری ہے ۔انبیاء(ع) روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد پر مہربان اور ان سے محبت کرنے والے تھے، البتہ وہ ’’اشداء علی الکفار‘‘بھی تھے، لیکن پہلے وہ کافروں کو پیار محبت سے خدا پرستی اور توحید کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ گمراہوں کی ہدایت کریں ، لیکن جب اس میں کامیاب نہ ہوتے اور کافر انبیاء (ع)کی ہدایت میں رکاوٹ نہیں بنتے تو انبیاء ؑ بھی ان سے کو ئی سروکار نہ رکھتے۔ لیکن جب کافر اس بات میں رکاوٹ اور مانع بنتے تھے کہ انبیاء(ع) اپنی ہدایت اور نور کو لوگوں تک پہنچائیں تو پھر وہ ایسی رکاوٹ کو اپنی راہ سے ہٹادیتے تھے ۔انبیاء (ع)کا یہ عمل بھی در حقیقت ایک قسم کی محبت تھی، دوسرے مسلمانوں کی خاطر۔
ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے تما م برادران اور خواہران کو جاننا چاہیے کہ ان کی بنیادی ترین ذمہ داری میں سے آپس میں ایک دوسرے سے پیارو محبت اور مہربانی کا سلوک اور اسکے ساتھ ساتھ دوسرے افرادسے بھی پیار ومحبت کا سلوک رکھنا ہے ۔تو جہ رہے کہ اگرآپ ایک دوسرے پر تعمیری تنقید بھی کریں تو یہ بغض اور دشمنی کا موجب نہ بنے ،ایک دوسرے کی نسبت کینہ کو اپنی دل میں آنے نہ دیں ،دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ افراد ان اخلاقی اصولوں کی پابندی نہیں کرتے اور جان لیجئے کہ یہ ایک اسلامی تنظیم کے اخلاق میں سے نہیں ہیں ۔
اسلامی تنظیم کودرپیش اندرونی خطرات:
ایک بار پھر میں ان امور کی تکرار کروں گا کہ جس پر آپ لوگوں کو توجہ کرنی چاہیے کہ اگر تنظیم اسلامی اخلاق اورباہمی محبت اور ایک دوسرے کیلئے اچھے خیالات اور صاف دل رکھنے سے عاری ہو تو جان لیجئے کہ تنظیم کے افکار و پیغام کو پہنچانے کیلئے جس اتحاد اور وابستگی کی ضرورت ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا،یا وجود میں ہی نہیں آئے گا ۔اس بنا پر ہم سب کافرض ہے کہ ہم اسلامی اخلاق کواپنائیں تا کہ دوسروں کیلئے مثالی نمونہ بن سکیں اور اپنی تنظیم کے اتحاد اور وحدت کی حفاظت کر سکیں ۔
اگر آپ دیکھیں کہ کسی یونٹ میں آپ کا کوئی بھائی یا بہن اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح آپ پسند کرتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ آپ اسے ادھر ادھر اس کی برائی کرنے کا ہتھیار بنا لیں۔میں یہاں موجود برادران اور خواہران کے لیئے یہ بات نہیں کر رہا ، آپ کے درمیان شاید ایک بھی ایسا نہ ہو کہ اس میں ایسی کوئی منفی صفت پائی جاتی ہو۔ بلکہ یہ تنظیمی طرز فکر ہے کہ جسے آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں ، حتی آپ اگر اس کے مخاطب شمار نہ بھی ہوں۔بعض افراد کسی تنظیم میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ ایک معمولی سی غلطی اور بہانے سے کسی کے خلاف محاذبنالیتے ہیں ۔جان لیجئے کہ یہ کام تنظیم میں گروپنگ اور دھڑے بندی کا باعث بنتاہے اور یہ ایک بہت بڑاخطرہ ہے
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی عہدے کے لیئے کسی فرد کا یا کسی تنظیمی عہدے دار کا نام لیا جائے تو فوراً اس کا کوئی عیب بیان کر کے اسے نظرانداز کر دیتے ہیں ۔اگر طے یہ ہو کہ آپ کسی ایسے انسان کو قبو ل کریں کہ جس میں کوئی بھی عیب موجود نہ ہو تو ایسا انسان آپ کو کہاں سے ملے گا۔یوں اگر آپ میرے عیوب کو تلاش کرنے لگ جائیں تو ایک بہت ضخیم کتاب مرتب کر لیں گے، لیکن آپ لوگوں نے مجھے قبول کر رکھا ہے۔(اس تنظیم میں)ہم نے ایک دوسرے کو ان عیوب اور نقائص کے ساتھ قبول کررکھا ہے ۔ایک ٹیم ورک اور گروہی صورت میں کرنے والے غیرمعصوم افراد اسی نظر یے کے تحت آپس میں تعاون کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے میں موجود نقائص اور عیوب قبول کر یں گے۔مثلًا اگر آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئے کہ جسے آپ پسند کرتے ہیں ایک دوسرا اسے پسند نہیں کرتا تو یہ آپ کی نظر میں اس کا ایک عیب شمارہونے لگے گا ۔ لیکن کیا یہ اس بات کا موجب بننا چاہیے کہ آپ اسے بالکل جھٹلا دیں۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات تنظیموں میں دونوں طرف کچھ افراد ایسے موجود ہو تے ہیں جو دھڑے بندیوں اور جماعت میں ایک اور جماعت بندی جیسے مسائل پھیلانے کا باعث بنتے ہیں ۔جان لیجئے کہ یہ تمام باتیں کسی بھی صورت میں تنظیم کی مصلحت میں نہیں ہیں اور یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہیں۔اسلامی تنظیم کے اصول سب کے لیئے روشن اور واضح ہیں۔
ہمیںیہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایک مذہبی تنظیم و جماعت کی فعالیت و سیاست کا بنیادی اور اصلی محور اسلامی اصول و قوانین ہیں جن کی بنیاد پر اسے اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کیلئے کام کرنا چاہیے ۔اگر کوئی یہ کہے کہ میں فلاں شخص کو فلاں سے زیادہ پسند کرتاہوں اور دوسرا اس کے جواب میں یہ کہے میں بھی فلاں شخص کو فلاں سے زیادہ پسند کرتا ہوں اور وہ ا س بات پر ایک دوسرے سے اختلاف کریں تو یہ تنظیمی اصولوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اتحاد کو پارہ کرنے والا ہے اور کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں !
تنظیم سے تعلق رکھنے والے تمام بھائیوں اور بہنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تنظیم کی بھاری ذمہ داری کو پیش نظر رکھتے ہوئے تنظیم میں دوسروں سے متعلق اپنے حسن ظن اور محبت کو زیادہ کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے یونٹ میں سیاسی مسائل اور حالات پر بحث اور تجزیہ وتحلیل نیز اسلامی قوانین کے اوامر و نواہی پر گفتگو کے بجائے کسی خاص سیاسی تفکر اور سیاسی دھڑے بندیوں پرگفتگو شروع کر دیں !
مثلاً ایک مدرسے کا ایک خاص تفکر ہے اور دوسرے میں ایک اور فکر رائج ہے،اب شروع کر دیں ایک دوسرے کی بد گوئی ، ہمارے مشاہدے میں ہے بعض افراد ایک جگہ بیٹھتے ہیں اورفلاں علمی شخصیت یا فلاں علمی فکر کی برائیاں شروع کر دیں گے، ادھر سے اٹھ کر جائیں گے تو ایک اور شخص اور سیاسی جماعت کی بدگوئی میں لگ جائیں گے ، حتی ایک مخصوص دھڑا بنا لیتے ہیں، البتہ ان میں اتنی پائیداری نہیں ہوتی لیکن ہرچیز کا مسئلہ بنا کر اس کی برائی شروع کر دی جائے تو اسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟
کچھ افراد تنظیم سے باہر کسی موثق اور معتبر آگاہی کے بغیر حالات و واقعات کی اپنی بیماراور مریض ذہنیت سے تحلیل شروع کردیتے ہیں کہ جناب فلاں تنظیم تو دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے ،ایک اور کہے گا تین جبکہ تیسرا کہے گا چار حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے ،ان میں سے ہر ایک ہر دھڑے کیلئے ایک سربراہ کا بھی تقررکر دے گا ،فلاں کی فلاں سے نہیں بنتی ، فلاں اسکا مخالف ہے، اور فلاں اسکا ایک نمبر مخالف ہے ، فلاں دو نمبراور یوں اس کام سے ایک اہم ترین ، بڑی اور بہترین سیاسی جماعت کو معاشرے میں داغداربنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ تنظیم سے باہر رہ کر تنظیم کے داخلی معاملات کو زیر بحث لاتے ہیں ،انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک ہی تنظیم میں آپ کو دو افراد ایسے ملیں کہ جن کے عقائد سو فیصد ایک جیسے نہ ہوں ۔کیا آپ دنیا میں دو انسان ایسے تلاش کرسکتے ہیں جن کے عقائد سو فیصد ایک جیسے ہوں !کیا ہم پانچ آدمی جو شروع سے اکٹھے ہیں اور حزب کی بنیاد ہم نے ڈالی ہے ہر چیز کے بارے میں ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں؟ کیا ہماری آپس میں کبھی بحث نہیں ہوئی؟شوری مرکزی میں شہید بہشتی ، شہید باہنر اور دوسروں میں اختلاف رائے کبھی پیش نہ آیا تھا؟ بے شمار ایسے مواقع پیش آئے ہیں ۔
اسلامی تنظیم کا بنیادی اصول:
انسان کا باہمی اشتراک، تعاون ،اخوت اورآپس کی گفتگو کا مطلب یہ نہیں کہ سب کے سوچنے سمجھنے اور عمل کا انداز ایک جیسا ہو اور مسائل کے بارے میں سب کی تشخیص ایک جیسی ہو، انسانوں کا نقطہ نگاہ بعض اوقات ایک دوسرے سے مختلف اور مخالف ہوتا ہے لیکن عقلمند اور با شعور ترین انسان وہی ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی دوسرے انسان کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو اختلافی اور معارض نقاط تلاش کرنے کے بجائے مشترک نقاط کو تلاش کرتے ہیں اور مشترک نقطہ کو مضبوط بناتے ہیں ۔
دیکھیے کہ قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتاہے ۔"قل یا اھل الکتاب تعالو ا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم "اے اہل کتاب، اے یہود ، اے نصاری ، اے ہمارے قسم خوردہ دشمنوں!تم سب آؤ ،نہ کہ ہم سے دور چلے جاؤ ،آؤ قریب آؤ ،یہ ہے اسلام کا لہجہ "تعالو" ،کہاں آؤ "الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم "آؤ اس محور پر جمع ہو جائیں جو ہمارے اورتمہارے درمیان مشترک ہے ،آؤ مل کر اس پر جمع ہو جاتے ہیں ،وہ محور کیاہے ؟وہ توحید ہے :"ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا یتخذ بعضناً بعضاً اربا باً من دون اللہ "
جب اسلام یہود ،نصاری سے کہہ سکتا ہے کہ آؤ ایک محورپر جمع ہو جاؤ تو کیوں ہم اپنے ایک مسلمان بھائی سے ،امام کے پیروکار ، تنظیمی سے یہ کہیں کہ چلے جاؤ ! کیوں؟یہ کون سی فکرہے ؟ آپ کی کو شش ہو نی چاہیے کہ افراد کو جذب کریں ۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض افراد تنظیم میں رہتے ہوئے اپنی تنگ نظری سے تنظیمی اتحاد و وحدت کو مخدوش اور داغدار بناتے ہیں اور چپقلش اور باہمی کشمکش پیداکرتے ہیں لیکن تنظیمی بہن بھائیوں کی اکثریت اس قسم کے اختلافی مسائل اور باہمی کشمکش سے دور ہیں،اگر سو فیصد نہ بھی ہوں تو اکثریت ان حرکتوں سے مبرّا ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو یہ اختلافی صورتحال پیدا کرتے ہیں، لیکن ان اختلافات اور کشمکش کے دونوں طرف موجود افراد کی اکثریت اچھی اور سالم فکر کی مالک ہے ۔یہ کچھ لوگ ہیں جو پہلے ایک طرف کے کچھ لوگوں کے پاس جا کر کسی دوسرے کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں، پھر انکے پاس جا کرانہیں پہلے والوں کے خلاف اکساتے ہیں ۔ جبکہ خود تنظیمی برادران اور خواہران میں شاید اس قسم کے حقیقی اختلاف سرے سے موجودہی نہ ہوں!
جبکہ کچھ لوگ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ،کسی تنظیمی معاملے پر ،کسی اخبار کے مقالے پر، ایک چھوٹے سے مسئلے پر ،ایک تصویر پر،کسی اخبار کی سرخی پر ،کسی وزیر کے منتخب ہونے پر کسی تقریر پر اور کسی کی زبان سے ادا ہونے والے ایک لفظ پربے دلیل اختلافات کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیتے ہیں !
انشاء اللہ ہم اپنے تربیتی ، سیاسی اور اقتصادی شعبوں کو اور مضبوط کرنے اور فعال کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ فکری مواد تیار ہو اور تنظیم کو مہیا کریں اوریہ شعبے تنظیم میں مرکزی حیثیت کے حامل ہوں تاکہ ان کے بل بوتے پر برادران اور خواہران تنظیمی سیٹ اپ اوراپنے اتحاد کو مزیدقوی کر سکیں۔
میری آپ سب کو یہ نصیحت ہے کہ آپ سب تنظیمی برادران اور خواہران کو چاہیے کہ وہ حتی الا مکان اختلا فات کو ختم کریں ۔یہ با ت جان لیں کہ اگر ایک دوسرے کی خطاؤں سے چشم پو شی اور در گذر نہ کریں گے تو تنظیم سے باہر دشمن آپ کی تاک میں بیٹھا ہے، اور ایک موقع کی تلاش میں ہے کہ تنظیم پر کاری ضرب لگائے اور اسے منہدم کردے ۔
اب یہ دشمن جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے یا دوسروں کے ہاتھوں فریب میں مبتلا ہے ؟میں یہاں فی الحال کو ئی یقینی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اگر تلاش کیا جائے تو ایسے افراد کا جو دوسروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اورجو خود مغرض ہیں کا پتا چلایا جا سکتا ہے ،جو ہمیشہ تنظیم کو خراب کرنے کے موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں، افواہیں پھیلا کر ، غلط باتیں تنظیم سے منسوب کرکے،تنظیم کے عہدیداروں کو متہم کرکے یا تنظیم کے فیصلوں پر اعتراض کر کے اسے داغدار اور خراب کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔ البتہ تنظیم کو مضبوط بنانا ہمارا فرض ہے ، تنظیمی فعالیت کو بنیادی نوعیت کا کام سمجھتے ہیں ۔ہم خدا سے توفیق کی درخواست کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس بنیادی کام کو انشاء اللہ انجام دے سکیں ۔
انشاء اللہ یہ توفیق پروردگار ہم سب کو عطا فرمائے کہ انقلاب کے اہداف اور اس کی آخری منازل تک زیادہ تیزی سے قدم بڑھا سکیں۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع پشاور، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور ڈویژن، شیعہ علماء کونسل ضلع پشاور اور مختلف ماتمی دستوں کے زیر اہتمام ہفتہ وحدت کی مناسب سے عید میلاد النبی (ص) وحدت ریلی نکالی گئی۔ جو محلہ حسینیہ ہشتنگری سے شروع ہو کر مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی قصہ حوانی میں اختتام پذیر ہوئی۔ جس میں بڑی تعداد میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے عاشقانِ رسول (ص) نے بھرپور جذبہ ایمانی کیساتھ شرکت۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع بھکر، تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام وحدت المسلمین کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے 12 ربیع الاول کو بھکر شہر میں جشن عید میلاد النبی (ص) ریلی نکالی گئی۔ جس میں عاشقان رسول (ص) نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں نے تحریک منہاج القرآن کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں بھی شرکت کی۔
لاہور میں امامیہ آرگنائزیشن کے دفتر میں علامہ ناصر عباس جعفری کے اعزاز میں عشائیہ
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے مسجد صاحب الزمان حیدر روڈ لاہور میں شہدائے کوئٹہ کے ایصال ثواب کے لئے مجلس سے خطاب کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کربلا کے ماننے والوں کو موت سے کوئی ڈر نہیں، شیعیان علی پاکستان میں عرصہ دراز سے قربانی دے رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ آئندہ ووٹ کرپٹ افرا کو نہیں بلکہ صالح امیدواروں کو دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے ووٹ جاگیرداروں اور شرابیوں کے حق میں استعمال ہوں۔ بعدازاں ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کے اعزاز میں امامیہ آرگنائزیشن کے دفتر میں عشایئے کا بھی اہتمام کیا گیا۔
مجلس وحدت المسلمین کے وفد نے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی کی قیادت میں قباء آڈیٹوریم میں امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سے ملاقات کی۔ رہنماؤں نے ملک کی سیاسی صورتحال اور باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں نے کوئٹہ کے شہداء کے حوالے سے دیئے گئے ملک بھر کے دھرنوں میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد کی وفات پر فاتحہ خوانی بھی کی۔ وفد میں عبداللہ مطہری، مولانا احمد اقبال رضوی، اصغر عباس زیدی جبکہ جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکرٹری ممتاز حسین سہتو، نائب امیر عبدالغفار عمر، ناظم عمومی محمد دین منصوری، پروفیسر غفور احمد کے صاحبزادے طارق فوزی اور سیکریٹری اطلاعات مجاہد چنا بھی موجود تھے۔
بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ جماعت اسلامی تمام جماعتوں سے ملکر مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی، مسلک کے بجائے مذہب کی تبلیغ اور ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی ضرورت ہے، آج رنگ و نسل اور فرقہ کی بنیاد پر لوگوں کو قتل اور عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ پاکستان میں عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، جس میں موجودہ حکمران مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
بارہ جنوری 2013 کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میتوں کے ساتھ احتجاجی دھرنے میں موجود ہیں ۔ یہ دھرنا گزشتہ 43 گھنٹوں سے جاری ہے۔ واضح رہے کہ کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے ان بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تھی جن میں سو افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ اے ایف پی تصویر
یہ گذشتہ سے پیوستہ ہفتہ تھا۔ آٹھ دن کی مدت میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر دو مختلف مگر شدید ترین احتجاج ہوئے، جن کی حقیقت شبہ سے بالاتر تھی۔
دس جنوری کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر ہونے والے بم حملوں میں سو کے قریب ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، جس کے بعد انہوں نے طے کرلیا کہ بس! اب بہت ہوچکا۔
شیعہ ہزارہ برادری گذشتہ کئی برسوں سے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔
ابتدائی طور پر ان کا مضبوط اور مثبت مزاحمتی احتجاج، نااہل اور مجرمانہ حد تک لاتعلق صوبائی حکومت کے خلاف تھا۔ بہت جلد پورے ملک میں ان سے ہمدردی کی لہر پھیل گئی اور ملک کے طول و عرض میں، ان کی حمایت میں جگہ جگہ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اگرچہ پاکستان المیوں کا گڑھ ہے مگر وہاں کھلے آسمان تلے بیٹھی، آنسو بہاتی سسکیاں بھرتی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں نے بھی اُس وقت تک اپنے خاندانوں کے مرد متاثرین کے تابوتوں کے پاس سے اٹھنے سے انکار کردیا تھا، جب تک اُن کے مطالبات پورے نہیں کردیے جاتے۔
اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا کچھ سست رفتار ہے، اسے بھی جڑواں بم دھماکوں میں اپنے درجنوں پیاروں کو کھو دینے والے اُن احتجاجی متاثرین کے دکھ اور حقیقت کو سامنے لانے میں وقت لگا۔
متاثرہ خاندان اس حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کررہے تھے، جن کے سربراہوں کو متاثرین سے تعزیت کے دو بول کہنے کی بھی کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرین کے چار روزہ احتجاج نے ہی وفاقی حکومت کو نوٹس لینے پر مجبور کیا۔
وزیراعظم کی سربراہی میں وفاق کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچی اور دن بھر کی مشاورت کے بعد، علمدار روڈ پر بیٹھے ماہرین سے بات چیت کے بعد وزیراعظم نے صوبائی حکومت کی برطرفی کے فیصلے کا اعلان کیا۔
مظاہرین کی طرف سےشہر کا اختیار فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری یا ایف سی کے حوالے کرنا کا مطالبہ تھا۔ ایف سی پر الزام ہے کہ وہ قتل و غارت روکنے کے لیے کچھ کرنے میں ناکام رہی۔ کسی کو اس مطالبے سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وہ یہ مطالبہ کرنے والوں کے دکھ اور جذبات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
خطرے کی زد پر کھڑی متاثرہ ہزارہ برادری نے اپنے پُرامن احتجاج اور نرم رویے سے ثابت کردیا کہ اس کے ذریعے بھی بڑی سے بڑی کٹھن منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ شیعہ ہزارہ کے دیگر مطالبات جیسا کہ لشکرِ جھنگوی کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ، تحریک کی صورت جاری رہے گا۔
جب کوئٹہ میں متاثرین کی تدفین کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ایک احتجاج ختم ہورہا تھا، اُسی وقت اسلام آباد میں ایک اور احتجاج شروع ہونے جارہا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں شروع کیا جانے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد، پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارتوں کے سامنے دھرنا دینے جارہا تھا۔ ناانصافیوں کے خلاف کیے جانے والے اس مارچ کی تیاریاں ہفتوں سے کی جارہی تھیں۔
یہ احتجاج ایک مذہبی عالم کی سربراہی میں تھا جو خود کو بطور اسکالر دیکھتے ہیں۔ وہ کنیڈا میں اتنے طویل عرصے سے مقیم تھے کہ جو شہریت کے حصول کے لیے کافی ہے لیکن وہ اچانک لاہور پہنچ جاتے ہیں۔
فوج نے ان سے اور ان کے مارچ سے خود کو فاصلے پر رکھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوئے۔ ان کا نعرہ تھا ‘انتخابی اصلاحات’ کا جیسا کہ اکثر فوجی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں اپنے خدشات کے اظہار میں کہتے ہیں۔
اس مارچ کے دوران فوجی مداخلت کے خدشات بھی اٹھے۔ تب کیا ہوتا جب پُرامن احتجاج اگر تشدد میں تبدیل ہوجاتا؟
دسمبر میں، لاہور میں خطاب کے دوران انہوں نے انتخابات کے بجائے ایک طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹس طرزِ حکومت کی بات کی تھی، ایسا ہونا ان کے لیے معاون ثابت نہ ہوتا۔
لیکن پھر بھی ان کی اسلام آباد آمد اور دھرنے سے صرف حکومت کی ہی نیند خراب نہ ہوئی بلکہ تمام جمہوری قوتوں کے درمیان بھی کھلبلی مچ گئی، جس کی وجہ سے وہ سب یک زبان ہوگئے۔
انتخاب میں تاخیر اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی امکانی کوششوں کی مذمت ہونے لگی۔ وہ سب آئین و قانون کی بالا دستی پر متفق ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے بعد جمہوری قوتیں جس طرح متحد ہو کر انہیں تنہا کرنے اور ان کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئیں، پاکستانی سیاست میں وہ ایک نہایت منفرد نظارہ تھا، لیکن امن میں شگاف پڑجانے اور پھر اس کے نتائج کا خطرہ بدستور ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ جمعرات کی شام ڈاکٹر قادری اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ممتاز رہنماؤں کے درمیان کئی گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے اور اس کے بعد مارچ کی قیادت کرنے والے رہنما نے معاہدے کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر قادری کے مطابق مذاکرات کامیاب رہے تھے تاہم لگ یہ رہا تھا کہ جیسے یہ ان کے لیے فیس سیونگ کا معاملہ ہو۔
ایک اچھا معاہدہ طے پاچکا تھا۔ جس کے بعد اسلام آباد کے مرکز میں اپنے مذہبی پیشوا کے ساتھ موجود بڑی تعداد عورتوں، بچوں، مردوں اور بزرگوں کامجمع پُرامن طور پر منتشر ہونے لگا۔
دارالحکومت میں آمد کے بعد سے معاہدہ ہونے کے چند گھنٹوں پہلے تک، یہ بہت بڑا مجمع وہیں پُرامن طور پر موجود رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنے حامیوں پر گرفت تھی۔ مجمع آخری وقت تک قابو کے اندر اور منظم رہا۔
اب یہ بحث تو ہفتوں چلے گی کہ ان کے پُرامن رہنے کا سبب ڈاکٹر قادری تھے یا پھر ان کے خلاف کسی کارروائی سے حکومتی اتحاد کا گریز تاہم ایک بات بالکل واضح ہوچکی ہے۔ آزاد الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے تحت نئے شفاف انتخابات کا انعقاد کسی بھی طور تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
وہ لوگ جو ‘انجینئرڈ’ انتخابات کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، شاید ان کی طرف سے یہ آخری کوشش تھی لیکن یہ رکاوٹ بھی کامیابی سے عبور کی جاچکی ہے۔
ماضی میں اس طرح کے اقدامات کا مقصد کسی ایک جماعت پر اپنی پسند کی دوسری جماعت کو فوقیت دیتے ہوئے، اسے اقتدار میں لانا ہوتا تھا تاہم اگلے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا، چاہے اس کے نتیجے میں ایک کمزور اور لچکدار اتحادی حکومت ہی کیوں نے بنے، اسے ترجیح دی جانی چاہیے۔
بجائے اس کے کہ بہت زیادہ پیسہ اور توانائی صرف کی جائے، جمہوری قوتوں کو چاہیے کہ حلقہ انتخاب میں اپنی دانشمندی اور حکمتِ عملی کے باعث رائے دہندگان کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے، غلط اور درست کا فرق سمجھانے کے لیے زیادہ کچھ درکار نہیں۔
اس کا اظہار باڑہ میں دیے جانے والے مختصر دھرنے سے ہوچکا، جہاں قبائلی اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور احباب کے اٹھارہ جنازے لے کر پشاور پہنچے تھے، جنہیں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک فوج آپریشن کے دوران مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
اس وقت الیکٹرانک میڈیا طاہرالقادری شو میں بُری طرح الجھا ہوا تھا اور اس نے احتجاج اور دھرنے پر وہ توجہ مرکوز نہیں کی جو اُس کا حق تھا۔
دھرنے کے نتیجے میں مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں طے پایا کہ ان ہلاکتوں کی تفتیش کی جائے گی اور اس جرم کے مرتکب افراد پر ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
اگرچہ یہ ایک چھوٹا قدم تھا لیکن خوش آئند اور درست سمت کی جانب۔ کم نہیں اورزیادہ جمہوریت ہی ہمارے تمام تر مسائل کا جواب ہے۔
اگر سیاسی طور پر اس بات پر اتفاق رائے ہوجائے کہ دہشت گردی کے سوا جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، تو پھر امید ہے کہ اس مسئلے کا بھی سدِباب کیا جاسکے گاَ۔شکریہ ڈانیوز ویب سائیڈ
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات برادر ناصر عباس شیرازی نے ایک وفد کے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی سربراہ غنویٰ بھٹو سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات سندھ برادر عبداللہ مطہری اور ڈویژن سیکریٹری سیاسیات برادر اصغر عباس زیدی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ غنویٰ بھٹو نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کا اعلان کیا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی نے ایک وفد کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات سندھ برادر عبداللہ مطہری، کراچی ڈویژن کی سیکریٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی اور ڈویژن سیکریٹری سیاسیات برادر اصغر عباس زیدی جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے فردوس نقوی اور علی زیدی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کو جاری رکھنے کی تاکید کی ۔واضح رہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت پی ٹی آئی نے بھی کی تھی اور اس سلسلے میں عمران خان خود کوئٹہ دھرنے میں اظہار یکجہتی کے لئے پہنچے تھے ۔
مجلس وحدت مسلمین نے بلوچستان میں امن وامان کی ابتر صورتحال پر انتیس جنوری کو کوئٹہ میں کل جماعتی کانفرنس بلالی ہے۔ جس کا عنوان آل پارٹیز امن کانفرنس دیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔وحدت سیکرٹریٹ اسلام آباد سے جاری بیان کے مطابق، کانفرنس کے کوآرڈینیٹر و ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصودڈمکی کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کیلئے تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور امید ہے کہ اس کانفرنس میں اچھی شرکت دیکھنے کو ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اس کے علاوہ بی این پی مینگل کے رہنما میر اکبر ، جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنماء عبدالمتین اخونزادہ، جمعیت اہل حدیث کے رہنماء نجیب اللہ اور جمہوری وطن پارٹی کے سابق سیکرٹری اطلاعات میر عبدالرؤف نے شرکت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائیگی۔علامہ مقصود ڈمکی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر تمام پارٹیز کا مشترکہ موقف حاصل کرنا اور دہشتگردی کیخلاف متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائیگا۔