The Latest
وحدت نیوز(آرٹیکل) محرم الحرام ہر سال ہماری زندگیوں میں آتا ہے، اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے، جس کا احترام دور جاہلیت میں بھی کیا جاتا تھا، اکسٹھ ہجری میں کربلا کے عظیم فاجعہ کے بعد امت مسلمہ بالخصوص جن لوگوں کو کربلا کی عظیم قربانی سے کچھ روشنی ملتی ہے کہ وہ تاریک راہوں میں چلتے ہوئے اس روشنی سے بھٹکنے سے بچ جاتے ہیں، ان کیلئے اکسٹھ ہجری کے محرم و عاشور کے بعد آنے والے ہر محرم پر کیفیات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی یہ ماہ آتے ہیں، کربلا کے تپتے ریگزار پر صبح عاشور سے لیکر عصر عاشور تک دی جانے والی قربانیوں کے نقوش خیالات کی صورت ذہن کے اوراق پر ابھرتے ہیں تو دل مغموم ہو جاتا ہے، جیسے جیسے اس دن کے واقعات کی یادیں آنکھوں کے سامنے یعنی چشم تصور میں آتی ہیں تو مغموم دل کیساتھ آنکھیں تر ہونے لگتی ہیں اور مزید آگے بڑھیں تو انسان بلک بلک کر رونے لگتا ہے، صدائے گریہ بلند ہوتی ہے، اپنے آس پاس، بڑے چھوٹے، مرد و زن، اپنے پرائے کا احساس کیے بنا انسان شہدائے کربلا کی داستانوں کو یاد کرتے ہوئے بے ساختہ ماتم کرنے لگتا ہے، شاید ماتم ہونا بھی ایسے ہی چاہیئے۔۔ بے ساختگی کیساتھ۔
اگر ہم اس ماہ مقدس میں کربلا کے مجاہدین، خانوادہ رسالت کے پروردگان، اصحاب باوفا، عاشقان شہادت و سعادت کے تمام کرداروں کو ایک ایک کرکے زیر بحث لائیں، ان کے کرداروں کا مطالعہ کریں تو ہر ایک بے مثال دکھائی دیتا ہے، ایسے بے مثال جو اپنی مثال آپ تھے، جن میں سے ہر ایک کا کردار جیسے منتخب کرکے دیا گیا ہو اور اس نے اسے توقع سے بڑھ کر نبھایا ہو، ایسی کوئی دوسری مثال سامنے لانا ممکن نہیں کہ امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب باوفا حتیٰ اس کی عمر اسی سال تھی یا چھ ماہ، 13 سال تھی یا 18 سال کی کڑیل جوانی، اس کی ذمہ داری میسرہ کی تھی یا میمنہ کی، وہ جرنیل تھا یا سپاہی، قلب لشکر پہ تھا یا علمدار لشکر، ہر ایک کا کردار ایسا یاد گار ہے کہ ان پر چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی سال بھر مجالس و ذکر کی مجالس و محافل میں تذکرے جاری رہتے ہیں، مگر اس تذکرہ کی چاشنی، جاذبیت، اثر کم نہیں ہوتا، کسی کو بوریت نہیں ہوتی، بلکہ ہر دن اس تذکرہ سے نئی تازگی محسوس ہوتی ہے۔
لہذا یہ تذکرہ، یہ قربانی، یہ ذکر وقت سے ماورا ہے، یہ صدیوں پر حاوی ہے، یہ بھی ایک اہم ترین خوبصورت پہلو ہے کہ یہ تذکرہ اور اس کا اثر جس طرح زمانے سے ماورا ہے، اسی طرح یہ تذکرہ، یہ ذکر سرحدوں سے بھی ماورا ہے، ایک عرب سرزمین پر چودہ صدیاں پہلے ایک واقعہ رونما ہوا، مگر اس نے وقت کی قید سے آزاد ہو کر اپنے اثرات سے ہم پر غلبہ حاصل کیا ہے، ہم اس کے زندہ گواہ ہیں، ہماری کیفیات اس کی زندہ گواہ ہیں، ایسے ہی ہم سے ہزاروں میل دور ایک دوسرے ایریا میں ہونے والے اس واقعہ نے زبان، ثقافت، رسومات، ریاست، حکومت الگ ہونے کے باوجود اپنے سحر میں آج تک جکڑ رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس واقعہ کو چھپانے، اس پہ پردہ ڈالنے، اس کی گہرائیوں سے نابلد رکھنے اور اسے حتی متنازعہ بنانے کیلئے کہیں بڑھ کر کام ہوا، مگر اس میں ناکامی ہوئی۔ اس لئے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہر غیرت مند لفظ یزید سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ اپنے بچوں کا نام نہیں رکھتا بلکہ اگر کوئی بطور گالی بھی کسی کو یزید کہہ دے تو ردعمل شدید ترین ہوتا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ محرم و کربلا جس کے بارے میں مرد حریت و انقلاب امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ "ہمارے پاس جو کچھ ہے، یہ محرم و عاشورا کی بدولت ہے" آج بھی انسانوں کی معراج کا نام ہے، محرم و عاشورا آج بھی عزت و غیرت کے متوالوں کی شان ہے، جس پر وہ فخر کرتے ہیں، محرم و عاشورا بلا شک و شبہ شجاعت و استقامت کی روشن مثال ہے، جس کی روشنی میں انسانیت رشد پاتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے حق و حقیقت کی بقا ممکن ہوتی ہے۔ محرم و عاشورا بلا شبہ احترام انسانیت، حقوق و فرائض سے آگاہی اور ادائیگی کا نام ہے کہ جن کو ادا کئے بنا معاشرہ مکمل نہیں ہوتا۔ محرم و عاشورا بلا شک و شبہ بیداری و شعور کا دوسرا نام ہے کہ جس کے ذریعے معاشروں میں ترقی، رشد، تقویت، قوانین کی پاسداری اور ایک نظام کے تحت چلنے کی طرف آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
محرم و عاشورا ایثار و قربانی کے روشن چراغوں کی داستان زندہ ہے کہ جن کے جلتے ہوئے تاریکیوں سے نکل کر معاشرے اپنے اصولوں پر قائم رہ پاتے ہیں اور بھٹنے سے محفوظ رہتے ہیں، یہ ایثار و قربانی کے بے مثل نمونوں سے بھرپور ایسی داستان ہے کہ جس کے ہر ورق سے سورج سے بڑھ کر روشنی پھوٹتی ہے، ایسی روشنی جس نے چودہ صدیوں سے یزید اور اس جیسوں کی پھیلائی تاریکی کی سازش کے چہروں سے نقاب الٹنا ہوتا ہے۔ محرم و عاشورا اور کربلا سچائی و صداقت کی ایسی روشن مثال ہے کہ جس نے جھوٹوں، کذب پروردوں، مکاروں، منافقوں اور محسن کشوں کو مقابل پا کر تاریخ کے صفحات پر ملی ان کی کالک کو اپنی نورانیت سے صاف کیا ہے، ورنہ تو انہیں کا راج ہوتا، انہی کو صداقت و سچائی کا درجہ ملتا۔ محرم، عاشورا، کربلا بلا شبہ مزاحمت و مقاومت کا ایسا استعارہ اور روشن راستہ ہے، جس پر چل کر دنیا غاصبوں، ظالموں، فرعونوں، نمرودوں، شدادوں، یزیدوں سے نجات پانے کے نقوش قدم پاتے ہیں اور ان پر چل کر ہی انہیں منزل آزادی مل پاتی ہے۔
اس دور کی آزادی و مزاحمت و استقامت کی تحریکوں میں اگر کربلا کے میدان میں دی گئی قربانیوں کی جھلک ہے تو وہ کامیاب ہیں، انہیں زوال نہیں۔ اگر آج کی تحریکوں میں عاشورائی قربانی و ایثار کا جذبہ ہے تو دنیا کے ظالمین انہیں شکست دینے سے قاصر ہیں، آج کی تحریکوں میں اگر اکسٹھ ہجری کی لازوال داستان شجاعت و استقامت اور ٹکرانے کا جوش و ولولہ ہے تو یزیدان عصر نو ان پر فتح حاصل نہیں کرسکتے، انقلاب اسلامی ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے کربلا، محرم سے روشنی پا کر خطے کی سب سے بڑی ظالم طاقت اور اس کے سرپرستوں کو شکست سے دوچار کیا اور گذشتہ چوالیس برس سے ان کی ناک رگڑ رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں، جب کربلا سے تمسک قائم کرنے والے بیت المقدس کے آزادی کیلئے جانوں پر کھیل جانے والے کربلا کے فرزندان کے ہاتھوں اسرائیل جیسی ناجائز، ظالم ترین طاقت بھی اپنے انجام پر پہنچ جائے گی اور امام حسین ؑ کے فرزند مہدی دوران، حجت آخر کی قیادت و رہبری میں ہم بھی بیت المقدس میں نماز ادا کریں گے۔
وحدت نیوز(قاضی احمد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے نائب صدر علامہ مختار احمد امامی نے کہا ہے کہ حسینی فکر و فلسفے اور کردار کو اپنا کر دنیا کو امن کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے، یہی فکر کربلاء کے شہیدوں نے ہم تک پہنچائی اور مسلمانوں کو آج بھی استحکام کے ساتھ یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ عشرہ محرم کی مجلس سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ اس وقت مظلوم اور محروم طبقات کسمپرسی کا شکار ہیں اور ان کی داد رسی کرنیوالا کوئی نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عدل و انصاف کا قیام ہو اور یتیم مسکین اور بے سہارا مسلمانوں کو بھی جینے کا حق دیا جائے، عوام بیدار ہوں اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کریں۔
علامہ مختار امامی نے مزید کہا کہ مسلم امہ بیداری کے ساتھ ساتھ اپنے اندر حسینی فکر جرأت و بہادری اور صبر و تحمل کو اپنائیں تاکہ انسانیت کو ریلیف ملے اور پریشان حال مومنین بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں اور یہ بات رسول اکرمؐ نے واضح طور پر کہی ہے خدا ان کو پسند کرتا ہے جو حسینؑ سے محبت کرتے ہیں لہٰذا ہمیں سچے عاشق رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ امام حسینؑ کا عزادار بھی بننا ہوگا۔
وحدت نیوز(فیصل آباد)مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے رہنماء ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی نے فیصل آباد میں پیر فیض الرسول حیدر رضوی، علامہ محمد ریاض کھرل، پیر محمد ایوب شاہ، پیر ابو احمد محمد مقصود مدنی اور و دیگر علماء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ محرم الحرام کے ایام میں امہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کو نیاز عقیدت پیش کرتی ہے، حضرت امام حسین علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کی قربانی تا حشر زندہ رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نواسہ رسولﷺ نے اسلام کے پیغام کو دُنیا تک پہنچایا، غلبہ اسلام کے لیے آپؑ کی نا قابل فراموش جدوجہد تقاضا کرتی ہے کہ آپؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے، محراب و ممبر سے پیغام امام حسین علیہ السلام کو عام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی صورتحال، بڑھتی ہوئی فتنہ گری، عالمی استعماری قوتوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی پنجہ آزمائی وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وطن عزیز کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ رواداری کے فروغ کے ذریعہ دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے، آج کی اس پریس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام، مشائخ عظام، تاجر برادری، وکلا برادری، طالب علم اور سول سوسائٹی کا شریک ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کے استحکام پاکستان کے لیے تمام طبقات اکٹھے۔ ان کا کہنا تھا سویڈن حکومت کی طرف سے دوبارہ قرآن پاک کی بے حرمتی ایک سوالیہ نشان ہے، مسلم امہ مسلم ممالک اور او ائی سی اگر آزادی اظہار رائے کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کروائیں گے تو عالمی امن خطرات میں گھر جائے گا اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان خوفناک تصادم ہوگا جو کسی کے مفاد میں نہیں البتہ او آئی سی کی طرف سے سویڈن کے خصوصی ایلچی کی حیثیت معطل کر کے ایک اچھا پیغام دیا گیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سویڈن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں کی حمایت کر کے مسلم دنیا کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں لیکن حالیہ دنوں میں افغانیوں اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا، جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور افغانستان کو متنبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی اسے مہنگی پڑے گی۔ وطن عزیز میں مسلسل بارشوں کی وجہ سے بہت سارا علاقہ زیر آب آ چکا ہے اور خطرہ ہے کہ مزید علاقے بھی زیر آب آئیں گے، ہم حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسے علاقوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں، فیصل آباد میں اگرچہ ڈسٹرکٹ ڈویژن انتظامیہ نے بھرپور اقدامات اٹھائے ہیں لیکن حالیہ بارشوں سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اُمید ہے کہ تمام ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے۔ ہم ان مثالی اقدامات پر ڈسٹرکٹ ڈویژن انتظامیہ کے مشکور ہیں، اسی طرح عزاداری کے پروگرامز میں بھی بہت سے مسائل ہیں اُمید ہے ان مسائل کے حل کے لیے بھی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاکستان کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، پاکستان بنانے کے لیے جس طرح ہم سب اکٹھے تھے آج بھی ہم پاکستان کے دفاع اور استحکام کے لیے اسی طرح متحد ہیں، ہم اپنے تمام سیکورٹی اداروں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا تعاون ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گا۔ آرمی چیف نے وطن عزیز کی ترقی کے لئے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کو خوش آئند سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ شہدائے کربلا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے پاکستانیوں اور اداروں کے شہدا کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔
وحدت نیوز(کراچی)مسجد و امام بارگاہ عابدیہ لیاقت آباد کراچی میں منعقدہ عشرہ محرم کی مجلس سے خطاب کے دوران مجلس وحدت مسلمین کے رہنما ذاکر اہلبیتؑ علامہ مبشر حسن نے کہا کہ مسلمان ذلت و رسوائی نے بچنے کیلئے حسینی فکر و فلسفے کی پیروی کریں کیونکہ امام عالی مقامؑ نے ظلم، جبر اور بربریت کے خلاف علم جہاد بلند کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی فکر اور سوچ کے خلاف کسی نظریہ کو قبول نہ کریں کیونکہ ہمارا دشمن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور مسلم دنیا کے اندرونی معملات میں مداخلت کا سلسلہ جاری ہے، آج سامراجی قوتیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ مسلم امہ کے فیصلے ہماری مرضی سے کئے جائیں، اہل بیت رسولؑ کے پیروکاران طاغوتی طاقتوں کے ان منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے میدان عمل میں آچکے ہیں اور کربلاء، نجف، شام، یمن، ایران، بحرین اور دیگر مسلم ممالک میں بیداری کا پیغام پہنچ چکا ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)گلگت نومل میں علم کشائی کے شرکاء پر ایف آئی آر کا اندراج بدنیتی پر مبنی ہے، متعصبانہ وغیر قانونی ایف آئی آر کی مذمت کرتے ہیں، ان خیالات کا اظہار مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس وحدت مسلمین پاکستان سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ اس ایف آئی آر کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ سریحا بلاجواز اور اشتعال انگیز اقدام ہے، دو درجن سے زائد افراد کی گرفتاری محرم الحرام میں پر امن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے، عمائدین نومل اور عمائدین گلگت علامہ نئیر عباس مصطفوی کے ساتھ ہیں، علامہ نیئر عباس مصطفوی گلگت بلتستان میں اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، ان پر آیف آئی آر کا اندراج سراسر زیادتی ہے، یہ محرم الحرم کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کو ایک پرامن خطہ دیکھنا چاہتی ہے، جہاں تمام مسالک آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی عبادات و رسومات کو انجام دے سکیں، جو کہ تمام شہریوں کا بنیادی مذہبی اور آئینی حق بھی ہے،حکومت تکفیری گروہوں کے ہاتھوں استعمال ہونا بند کرے، حکومت محرم الحرام کا تقدس پامال نہ کرے اور خطے میں کشیدگی کی فضاء بنانے سے گریز کرے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو لاپتہ کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے، ہم کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور متاثرہ فیملیز کے ساتھ کھڑے ہیں، کسی بھی پاکستانی شہری کو مسنگ کرنا بذات خود ایک جرم ہے، یہ درد ناقابل برداشت ہے، اس طرح کی ماورائے آئین و قانون کاروائیاں عالمی انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں اور یہ اقدامات ملکی آئین وقانون کی پامالی کے مترادف ہے ، جن پر پاکستانی عدلیہ کو سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ملک کو جنگل بننے سے روکنا چاہیے، اس طرح کی غیر آئینی گرفتاریوں کی کسی بھی قوت کو ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے جو کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کے لیے جگ ہنسائی کا باعث ہے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے بچوں اور خواتین کا ملکی عدالتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس ایشو کے فوری حل کو یقینی بنائیں، اگر کسی بھی لاپتہ فرد پر ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہے تو اسے عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، مسنگ پرسنز کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا پورا حق حاصل ہے، آگے عدالتوں کا دائرہ کار ہے کہ وہ کس کو سزا دیں یا بری کریں، یہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی سخت خلاف ورزی ہے، جب ایک شخص کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو اس کی فیملی جس کرب اور اذیت سے گزرتی ہے یہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے، کسی خاندان کا کوئی فرد اگر شہید کر دیا جائے تو لواحقین کو صبر آ جاتا ہے لیکن مسنگ پرسنز کے گھر والے روزانہ جیتے اور مرتے ہیں، انہیں شدید ذہنی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہذا اس ملک میں آئین وقانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے اور آئین کے مطابق ہی معاملات کے حل کو عدالتی کارروائی کے ذریعے ممکن بنایا جائے، جو کہ مسائل کو حل کرنے کا صحیح طریقہ کار ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی کی متنازعہ فرقہ وارانہ بل کو منظور کروانے کی کوشش کے خلاف دیگر مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس،پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خوبصورت ناموں کے ساتھ متنازعہ بل پاس کرنے کی کوششں کی جا رہی ہیں، اپنے عنوان کے برعکس اس کا مواد انتہائی متنازعہ ہے اور شدت پسندانہ سوچ پر مبنی ہے، بائیس ارکان اسمبلی کے ساتھ ایک حساس ترین بل کو قومی اسمبلی میں چور رستے سے پاس کیا گیا، اب ایک مرتبہ پھر اسی متنازعہ فرقہ ورانہ بل کو ایوانِ بالا سے منظور کروانے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے، اس بل میں سزاؤں کو بڑھا کر عمر قید میں بدلا گیا ہے، ہم تمام مسالک فکر کے مقدسات کی توہین کو حرام سمجھتے ہیِں، اس میں توہین اور اختلاف کی کوئی تعریف نہیں کی گئی، تاریخی حقائق کو بیان کرنا کیا توہین کے زمرے میں آتا ہے، اس بل کی منظوری سے توہین توہین کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، یہ متنازعہ ترمیمی ایکٹ ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مجموعی فضاء کو زیر آلود کرنے کا باعث بنے گا، جسے متشدد سوچ والے گروہ اور عناصر، معصوم لوگوں پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے طور پر ناجائز استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر پاکستانی شہری اپنے عقیدے کی ترویج میں آزاد ہے، آئین کہتا ہے کہ کسی پر بھی اس کے مسلک یا مذہب کے عقائد کے برخلاف زبردستی تعلیمات لاگو نہیں کی جا سکتیں، جب بل کی بنیاد ہی اسلامی معاملات سے متعلق ہے تو اسے مذہبی اسٹک ہولڈرز کے ساتھ ڈسکس ہونا چاہئے تھا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور ملی یکجہتی کونسل جیسے مذہبی اداروں کو بھی اس پر غور وفکر کا موقع نہیں دیا گیا، یہ سب قائد اعظم رح اور علامہ محمد اقبال رح کے مسلم پاکستان کی تصویر کو مسخ کرنے کے مترادف ہے، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہم اس ترمیمی بل کو خاموشی سے پاس کروانا چاہتے تھے، اس بل کے نتیجے میں نیا انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ہم اس مسلکی اور متنازعہ بل کو چور رستے سے پیش کیئے جانے کو یکسر مسترد کرتے ہیں، سینٹ اور قومی اسمبلی جیسے اداروں کا مسلکی انتشار کے لئے استعمال بند ہونا چاہیے، اس حساس ترین ایشو کے حوالے سے ہم اپنے آئینی و قانونی احتجاج کے تمام آپشنز محفوظ رکھتے ہیں۔
وحدت نیوز(قم) سربراہ مجلس علماء امامیہ و سیکرٹری امور خارجہ ایم ڈبلیو ایم ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے قم المقدس میں محرم الحرام کی سلسلہ مجالس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کربلا کے وقوع پزیر ہونے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے اہم ترین سبب یہ تھا کہ لوگوں نے ولایت کا انکار کر دیا تھا. اگر تمام مسلمان ولایت امیر المومنین پر متفق ہو جاتے تو کربلا میں نواسہ رسول و خانوادہ رسول کو قتل نہ کیا جاتا۔ ولایت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے حاکم کو سلطان بنا لیا جائے چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ فاسق و فاجر حکمرانوں کو سیاسی بیانیے کی بنیاد پر مسلمانوں پر مسلط کیا گیا۔ حالانکہ اس طرح کے حاکم و سلطان کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جب کہ رسالت مآب نے بھی نفی کی ہے اور خود سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس طرح کے حاکم کے خلاف قیام کر کے بتایا کہ دین محمدی میں اس طرح کے حکمرانوں اور انکی حاکمیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ سید الشہداء نے اس طرح کے حاکم کے خلاف قیام کا درس دیا ہے۔
جب کہ بنو امیہ کی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف قیام کو حرام قرار دیا گیا اور انکی حاکمیت کو بچانے کیلئے تاریخی حقائق مسخ کیے گئے اور حتی جعلی و من گھڑت احادیث و روایات گھڑی گئیں۔ آج تاریخی حقائق کو چھپانے کیلئے پاکستانی امپورٹڈ حکومت ایسی قانون سازی کرنے میں دلچسبی رکھتی ہے کہ بہت جلد ایسا قانون پاس کروایا جائے کہ جس میں توہین کے نام پر تاریخی حقائق کو مسخ کر کے زبردستی مسلمانوں پہ مسلط کرنے کی کوشش کہ جارہی ہے۔ اس بیانیے کو تقویت دینے کیلئے دجالی میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے اور مسلسل میڈیائی تکفیری ذہنیت رکھنے والے اینکرز کے ذریعے اس قانون سازی کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ جب کہ ملت تشیع ہمیشہ تاریخی حقائق کو دلیل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے حالیہ سویڈن کے اندر ہونے والے قرآن سوزی کے واقعات کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک آزادی اظہار رائے کے دوہرے معیار رکھتے ہیں۔ قرآن سوزی قطعاً آزادی اظہار رائے میں شمار نہیں ہوتا۔ عالم اسلام کو عراق و لبنان کی پیروی کرتے ہوئے سویڈن کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دینا چاہیے اور عالمی فورمز ہر بھر پور احتجاج کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ان واقعات کے تکرار سے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر اٹھی ہے۔ ملت تشیع کے ہر فرد سے گزارش ہے کہ ایام عزا میں ہر مجلس، جلوس و دیگر عزا کے پروگراموں میں اہانت قرآن کے خلاف بھر پور احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
سربراہ امور خارجہ ایم ڈبلیو ایم نے شیعہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں مسنگ پرسنز کا معاملہ اہم ترین معاملہ ہے۔ ہمارے اداروں کے پاس جب کوئی دلیل نہ ہوتو وہ اس طرح کے حربے اپناتے ہیں۔ جب کہ اداروں کا یہ رویہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے منافی ہے اور آئین پاکستان کی سراسر مخالفت ہے۔ ہمارے بے جرم مومنین کو بنا کسی جرم ثابت کیے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور انہیں سالہا سال عدالتوں میں پیش تک نہیں کیا جاتا تاکہ وہ اپنا قانونی دفاع تو کر سکیں۔ اور ظلم کی انتہا یہ ہے خانوادگان کو خبر تک نہیں دی جاتی ہے کہ انکے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اس انداز کا ظلم ناقابل تحمل ہے کیونکہ اسکے اثرات پورے خاندان پر ہوتے ہیں۔
مجلس عزا میں ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے مصائب علی اکبر علیہ السلام پڑھتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی اکبر کی شہادت ہمارے جوانوں کو راہ حق میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کرنے کا درس دیتی ہے۔ آج کے جوان کو چاہیے کہ وہ سنت جناب علی اکبر اپناتے ہوئے موجودہ حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز سے پورا کرے۔
وحدت نیوز(لاہور)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وائس چیئرمین علامہ سید احمد اقبال رضوی لاہور میں کرشن نگر (اسلام پورہ) میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس عزاء سے خطاب فرما رہے ہیں۔جس میں مومنین کی ایک کثیر تعداد شرکت کرتی ہے ۔ مجالس عزاء کے بعد علامہ صاحب مختلف علاقوں (یونٹس)کے دورہ جات بھی فرمارہے ہیں ۔ جس سے یونٹس کے جوانوں میں مزید جذبہ اور ولولہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ابھی تک مجلس عزاء کے بعد 3 مقامات کا دورہ کرچکے ہیں ۔ جن میں برانتھ سٹریٹ ، نیک کالونی اورجعفریہ کالونی شامل ہیں ۔ رانا کاظم صاحب نائب صدر مجلس وحدت مسلمین لاہور، ان دورہ جات کو منظم کررہے ۔علامہ سید احمد اقبال رضوی صاحب وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دورہ جات میں رانا کاظم صاحب نائب صدر مجلس وحدت مسلمین لاہو ،عزاداری ونگ کے صدر فخر حسنین رضوی ایڈووکیٹ ،ٹاؤن صدر فرقان حیدر،برادر عامر رضا،برادر باقر،برادر وسیم زیدی بھی شامل تھے ۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی نےامام بارگاہ کرشن نگر لاہور میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہر سال محرم الحرام کا مہینہ ہمیں نواسہ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتول اور فرزند شیر خدا امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ اور جانثار ساتھیوں کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے خالصتاً اللہ کی خوشنودی ، دین اسلام کی سربلندی اور باطل قوتوں کے طمع و لالچ کے حربوں کو ٹھکراتے ہوئے دیں۔ کربلا کا واقعہ تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جو اس بات کا درس دیتا ہے کہ اسلام دشمن اور طاغوتی طاقتوں کے آگے کبھی سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو گمراہی، تاریکی اور معاشرتی غلاظتوں کی دلدل سے نکالنے اور لوگوں کو نیکی اور سیدھی راہ پر چلانے کے لئے حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا۔ حضرت محمد ﷺنے اہل عرب کو دنیا کے بہترین دین’’اسلام ‘‘ کی دعوت دی جو امن و آشتی کا علمبردار ہے جس کی بنیاد حق و انصاف ، مساوات اور باہمی ہم آہنگی پر ہے ۔ اسلام ایک مکمل دین ہے جو مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت اور بھائی چارے کے مضبوط رشتے قائم کرنے پر زور دیتا ہے ۔
اسلام ایک خدا ایک رسولﷺ اور ایک کتاب (قرآن پاک)کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ اسلام دنیا کا پہلا دین ہے جو گروپ بندی، برادری ازم جو کہ پیشے ، طبقے، رنگ و نسل اور علاقہ کی بنیاد پر قائم ہوں کی نفی کرتا ہے اور یہ بغیر کسی فرق کے لوگوں میں توحید کا درس دیتا ہے۔ توحید اورا تحاد کے جذبے نے ہی مسلمانوں کو ناقابل تسخیر قوت بنا دیا تمام غزوات اور جنگیں اتحاد اور قوت ایمانی کے بل بوتے پر جیتی گئیں اگرچہ تمام جنگوں میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے ہمیشہ زیادہ ہوتی مگر فتح و نصرف ہمیشہ مسلمانوں کا مقدر بنی۔آخر میں علامہ صاحب نےسویڈن میں قرآن پاک کی توہین کی دوبارہ ناپاک جسارت کی شدید الفاظ میں مذمت کی جسے مومنین نعروں کا جواب دے کر تائید کی ۔ امام بارگاہ کی فضا لبیک یارسول اللہﷺ ،لبیک یاحسینؑ،لبیک یا زینب ؑ، لبیک یازہراء(س)لبیک یا مھدی کے نعروں سےگونجتی رہی ۔
وحدت نیوز(جیکب آباد)نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی بے مثال قربانی کی یاد میں مدرسہ المصطفی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیکب آباد میں (پیغام کربلا کانفرنس) منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی میزبانی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تنظیم علامہ مقصود علی ڈومکی نے کی۔ کانفرنس سے مختلف سیاسی سماجی اور مذہبی رہنماؤں نے خطاب کیا۔
کانفرنس سے ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما انتظار حسین چھلگری ،ممتاز عالم دین علامہ سید اشفاق حسین نقوی، انجمن سپاہ علی اکبر علیہ السلام کے وائس چیئرمین راجہ سید ریاض علی شاہ ،سماجی رہنما محترمہ غلام کبریٰ، ایم ڈبلیو ایم یوتھ ونگ ڈویژن لاڑکانہ کے صدر منصب علی بروھی، سید کامران علی شاہ، مسیحی رہنما پادری منیر بشیر، پادری شیرون یوسف، کونسلر دلمراد لاشاری ،خطیب اہل بیت حسین بخش عابدی و دیگر نے خطاب کیا۔
اس موقع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا قیام اور تحریک کربلا بنی نوع انسان کے لئے عظیم درسگاہ کا درجہ رکھتی ہے اپنے آفاقی پیغام اور ظلم و استکبار سے ٹکرانے کے سبب امام حسین علیہ السلام ہر دور کے اھل حق کے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ اپنی بے مثال قربانی کے سبب امام حسین عالی مقام ہر رنگ نسل اور مذہب کے انسان کے محبوب ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسیحی پادری منیر بشیر نے کہا کہ دنیا بھر کے مسیحی حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں کربلا میں جناب وھب جناب جون اور دیر راہب کے واقعات میں مسیحیوں کی امام حسین عالی مقام سے محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتظار حسین چھلگری نے کہا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے سرکیڈارو میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کی لازوال قربانی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔کانفرنس کے اختتام پر معزز شرکاء کو سیرت و سوانح حضرت امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے کتابوں کے تحفے پیش کئے گئے۔