The Latest

وحدت نیوز (کراچی) کشمیر، یمن ، بحرین، افغانستان ، شام اور دیگر مقبوضہ اسلامی ریاستوں کی امریکی اور اسرائیلی ناپاک پنجوں سے آزادی یوم القدس سے ہی مشروط ہے ، امام خمینی نے یوم القدس منانے کا اعلان ظالم سے نفرت اور مظلوم سے محبت کے فلسفے کی روشنی میں دیا تھا ، اور آج ان کے پیروکار دنیا بھر میں ظالموں سے برائت اور محروموں سے عشق کے اظہار کے لئے یوم القدس مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ منائیں گے، کراچی میں نکالی جانے والی مرکزی آزادی القدس ریلی میں اہلیان کراچی سے بھرپور شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔تحریک آزادی القدس کے کنوینئر علامہ عقیل موسیٰ ،مجلس وحدت مسلمین کے رہنماءعلامہ دیدار جلبانی، آئی ایس او کراچی ڈوٰثن کے صدر محمد عابدی ،امامیہ آگنائزیشن کراچی کے لئیق الزماں، ھئیت آئمہ مساجد کے باقرزیدی اور دیگر تنظیموں کے رہنماﺅں نے پاک محرم ہال کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ مجلس وحدت مسلمین، ھئیت آئمہ مساجد علماءامامیہ ،امامیہ آگنائزیشن اور دیگر تنظیموں کی امامیہ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویثرن کی جانب سے نکالی جانے والی مرکزی آزادی القدس ریلی کی حمایت کا اعلان کرتی ہے ،فلسطین مسلم امہ کے اتحاد کا مظہر اور محور ہے، علمائے کرام نماز جمعہ کے خطبات میںیوم القدس کے حوالے سے خصوصی خطبات دیں اور پاکستان کے غیور عوام یوم القدس کے اجتماعات میں بھرپور شرکت کریں۔

مقررین کاکہنا تھا کہ جمعة الوداع یوم القدس در اصل مظلوموں کے ظالموں سےمقابلے میں قیام کرنے کا دن ہے ،یوم القدس کو پوری مسلم امہ کو چاہئیے کہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن جائے اور ان سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دے۔رہنماﺅںنے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران کے عظیم بانی اور بیسویں صدی کے عظیم الشان رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطینیوں اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کا دن قرار دیتے ہوئے ”یوم القدس “ قرار دیا ہے تاہم امت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی آزادی کے لئے یوم القدس کو قبلہ اول کی بازیابی کے احتجاجی ریلیاں او ر مظاہرے منعقد کرے اور دنیا بھر کے تمام ممالک کی فضائیں مردہ باد امریکہ اور نامنظور اسرائیل کے نعروں سے گونج اٹھنی چاہئیں اور در اصل یہی عالمی سامراجی قوتوں کی موت کا دن ہے۔

مقررین نے پاکستان کے غیور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جمعة الوداع یوم القدس کو امام خمینی (رح) کے فرمان کے مطابق اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے نکالی جانے والی القدس ریلیوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں ۔ان کاکہنا تھا کہ جمعة الوداع یوم القدس کے موقع پر پاکستان کی فضاﺅں کو امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھنا چاہئیے ۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین مسلم امہ کے اتحاد کا مظہر اور محور ہے، علمائے کرام نماز جمعہ کے خطبات میںیوم القدس کے حوالے سے خصوصی خطبات دیں اور پاکستان کے غیور عوام یوم القدس کے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے امریکہ اور غاصب اسرائیل کے مضموم عزائم کو خاک میں ملا دیں ۔

وحدت نیوز (پشاور) عالم اسلام کے دشمن متحد ہو کر مسلم امہ کو تقسیم کرنے کی گھنائونی سازشوں مین مصروف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج پینسٹھ برسوں سے اسلامی مقبوضات کشمیر اور فلسطینی سامراجی شیطانی قوتوں کے غاصبانہ قبضے میں ہیں۔ مسئلہ کشمیر سمیت، عراق، افغانستان، مصر، شام اور فلسطین مسلم دنیا اور مسلم امہ کے اہم ترین مسائل ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے مسلم امہ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہو اور غاصب اسرائیلی دشمن کے خلاف مشترکہ قیام کا اعلان کرے۔اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم تمام پاکستانی مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کل سڑکوں پر نکل کر عالمی استعماراور اسلام دشمنوں سے اعلان برآت کریں اور یوم القدس کو بھرپور انداز میں منائی ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخواہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرلز علامہ عبد الحسین الحسینی ، علامہ عامرحیدر شیرازی اور دہگر رہنمائوں نے پشاور پریس کلب میں یوم القدس کے سلسلے میں منعقدہ پرحجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہو ئے کیا۔

جمعة الوداع یوم القدس در اصل مظلوموں کے ظالموں کے مقابلے میں قیام کرنے کا دن ہے ،یوم القدس کو پوری مسلم امہ کو چاہئیے کہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن جائے اور ان سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دے۔ انقلاب اسلامی ایران کے عظیم بانی اور بیسویں صدی کے عظیم الشان رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطینیوں اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کا دن قرار دیتے ہوئے ''یوم القدس '' قرار دیا ہے تاہم امت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی آزادی کے لئے یوم القدس کو قبلہ اول کی بازیابی کے احتجاجی ریلیاں او ر مظاہرے منعقد کرے اور دنیا بھر کے تمام ممالک کی فضائیں مردہ باد امریکہ اور نامنظور اسرائیل کے نعروں سے گونج اٹھنی چاہئیں اور در اصل یہی عالمی سامراجی قوتوں کی موت کا دن ہے۔
ہم پاکستان کے غیور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جمعة الوداع یوم القدس کو امام خمینی (رح) کے فرمان کے مطابق اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے نکالی جانے والی القدس ریلیوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں ۔ جمعة الوداع یوم القدس کے موقع پر پاکستان کی فضائوں کو امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھنا چاہئیے ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا کہ سانحہ پارہ چنار اور دہشت گردوں کی جانب سے ڈی آئی خان کی جیل پر دھاوا بول کر خطرناک قیدیوں کو آزاد کرانا کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ہیں ، حکومت کو عالمی یوم القدس کے جلوسوں کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے ٹھوص اقدامات اٹھا نا ہوں گے ، اگر خدا نخواستہ اس موقع پر کوئی سانحہ رونما ہوا  تو اس کی براہ راست ذمہ داری حکومت اور سیکورٹی اداروں پر ہو گی، انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کے دوران کیا ، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے دیگر راہنما علامہ اقبال بہشتی ، ملک اقرار حسین اور علامہ علی شیر انصاری بھی موجود تھے ۔

 علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پارا چنار کے خونی بم دھماکوں سے نہ صرف تین سو گھرانے متاثر ہوئے بلکہ بے گناہ روزے داروں کی مظلومانہ شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ،اسکے اثرات مستقبل میں بھی ظاہر ہوں گے ۔

 علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ملکی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ ڈی آئی خان میں ہوا جس میںجدید خود کار اسلحہ سے مسلح ڈیڑھ سو افراد نے جیل پر حملہ کیا اور گولہ بارود کی سرنگیں بچھاکر چار گھنٹے مسلسل دھماکے کئے اور نہ صرف جیل میں بند دہشت گردوں کو آزاد کرایا بلکہ ملت تشیع سے تعلق رکھنے والے چھ قیدیوں سجاد حسین ، جمعہ خان ، اختر حسین ،ا سلم حسین ،ذوالقرنین شاہ اور رجب علی کو گلے کاٹ کر شہید بھی کر دیا اور اور فرار ہوتے وقت چھ خواتین کو بھی اپنے ہمراہ  وزیرستان لے گئے ۔

انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ ڈی آئی خان سے وزیرستان دوگھنٹے کا سفرہے ، راستے میں آرمی ، پولیس ، ایف سی اور دیگر اداروں کی چیک پوسٹیں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ڈیڑھ سو دہشت گردوں کا لائو لشکر ڈی آئی خان پہنچ کر جیل پر حملہ آور ہوا اور اپنے ساتھیوں اور یرغمالی خواتین کے ہمراہ آسانی کے ساتھ واپس چلا گیا۔

 علامہ امین شہیدی نے کہا کہ کہ ان چیک پوسٹوں پر ایک عام آدمی کی کلیئرنس پر تو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں لیکن دہشت گردوں کو روکا تک نہیں گیا ، انہوں نے کہا کہ اس وقت فورسز کہاں تھیں جب سنٹرل جیل ڈی آئی خان دھماکوں سے لرزہی تھی ۔علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ڈی آئی خان میں اس سانحہ کے بعد لگایا جانیوالا کرفیو  دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے نہیں بلکہ انہیں واپسی کا محفوظ راستہ فراہم کرنے کیلئے لگایا گیا ۔

 ایم ڈبلیو ایم کے نائب سربراہ کاکہنا تھا کہ جیل انتظامیہ کو ایک ہفتہ قبل اس حملے کی تمام جزیات کا علم تھا لیکن اس کے باوجود کوئی حفاظتی اقدام نہیں اٹھایا گیا، اب ادارے ایک دورے کو مورد الزام ٹھہرا کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے دو ٹوک الفاط میں کہا کہ ڈی آئی خان جیل پر ہونے والا یہ حملہ حکومت ، فورسز اور دہشت گردوں کی ملی بھت کا نتیجہ ہے اور یوم القدس کے موقع پر کسے بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ یوم القدس اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کے خلاف عوامی امنگوںکا ترجمان ہے، یہ دن امریکہ، عرب ممالک ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میںمنایا جاتا ہے اسی دن کی بدولت قدس کاا یشو زندہ ہے جبکہ عرب حکومتیں فلسطین کو بیچ کر کھا چکی ہیں ، یوم القدس کی ریلیوں کو روکنے کیلئے تین برس قبل کوئٹہ میں پچاسی سے زائد افراد جن میں پندرہ برادران اہلسنت بھی شامل تھے کو شہید کر دیا گیا لیکن حکمرانوں کی کارکردگی محض رسمی طور پر افسوس کرنے تک محدود رہی ،نواز حکومت کی دو ماہ کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کو تیار ہیں، دہشت گردی کو کنٹرول کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

 ایک سوال کے جواب میں علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ریاستی ادارے جس ہاتھ میں گن دیکھتے ہیں اس کے سامنے تو جھک جاتے ہیں لیکن محب وطن افراد کو جینے کا حق نہیںد دیتے ، انہوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں کو متنبہ کیا کہ وہ یوم القدس کے جلوسوں اور ریلیوں کی حفاظت یقینی بنائیں ۔   انہوں نے بتایا کہ جمعة لاوداع کے موقع پر پاکستان کے ایک سو اسی سے زیادہ شہروں میں القدس ریلیاں نکالی جائیں گی جس کی سیکورٹی کی تمام تر ذمہ داریاں حکومت کو پوری کرنا ہوں گی ۔

وحدت نیوز (لاہور ) فلسطین عالم اسلام کا صف اول کا مسئلہ ہے۔ بیت المقدس قبلہ اول کی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دنیا بھر کے مظلومین کے ساتھ اور عالمی استعمار امریکہ کے خلاف صفِ آراء رہیں گے۔ڈیرہ اسماعیل خان جیل کا سانحہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کی ناکامی کا بیّن ثبوت ہے اور تاحال مجرموں کیخلاف کسی سطح پر کاروائی کا نہ ہونا ملی بھگت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری(حفظ اللہ) نےایمبیسیڈرہوٹل لاہور میں پر حجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکیا ۔

ان کا کہنا تحا کہ یوم القدس امت مسلمہ کیلئے عظیم دن ہے۔ یہ دن تجدیدِ عہد کا دن ہے کہ ہم غاصب اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور بیت المقدس کی آزادی حقیقی جہاد سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی ملت اسلامیہ نے آزادی فلسطین کے کاز کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں جس میں 72شہداء القدس کوئٹہ سرفہرست ہیں ۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ مظلومین کی حمایت کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔

ہم شام میں امریکہ، نیٹو اور ان کے بعض عرب حواریوں کی سرپرستی میں تکفیری گروہوں کے ہاتھوں شامی عوام کی بے گھری اور قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان وحشیوں نے بزرگ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، حضرت عمار یاسرؓ  ، حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت حجر بن عدی و دیگر صحابہؓ کے مزارات کو شہید کرنے کے بعد حرمِ جناب سیدہ زینب بنت علی ؑ نواسی رسول اللہ ؐ پر حملہ کیا ہے جو قلبِ پیغمبرؐ پر حملہ ہے۔ ان خود کش خارجیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ضمن میں ہم سنی اتحاد کونسل کے 50مفتیانِ کرام کے فتوے کو بروقت اقدام اور قابلِ تحسین سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں انہی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں قانون، عدلیہ، پاکستان آرمی کے وقار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سینکڑوں خطرناک دہشت گردوں کو رہا کروانا اور جاتے وقت شیعہ قیدیوں کا قتل عام ایک قومی سانحہ ہے۔ جس کے براہِ راست ذمہ دار صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پاکستان آرمی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور اُن کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کیلئے منظم مربوط اور بے رحمانہ آپریشن کیا جائے تاکہ عوام کو اس ناسور سے نجات دلائی جاسکے ۔ ان خوارج کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چائیے جسطرح حضرت علی علیہ السلام کے دورِ حکومت میں خوارج کے ساتھ کیا گیا تھا۔

پاکستان میں د ہشت گردی کے عروج کے دورانیہ میں امریکی وزیرِ خارجہ کی پاکستان آمد خطرے کی گھنٹی ہے اور امریکی توانائی کے متبادل منصوبوں کے نام پر پاکستان ایران گیس پائپ لائن کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش کررہے ہیں۔ ہم اسے پاکستانی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی، ڈرون حملے اور امریکیوں کا پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ناقابلِ قبول ہے۔ ہم حکومت پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کیلئے ریڈ کارپٹ استقبال اور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی بجائے چین اور ایران جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے مسائل کو حل کیا جائے اور تجارت کو فروغ دیا جائے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے اسلام ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی منتقلی نواز لیگ کو ہو چکی ہے، دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن بھی مذاکرات کی باتیں جاری ہیں جبکہ دوسری جانب واقعات در واقعات ہورہے ہیں، اس پورے منظر نامے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں جو حالیہ الیکشن ہوئے، یہ ایسے انتخابات تھے کہ جس میں جیتنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور پی پی پی بھی کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پس اس انتخابات پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر جماعت کی طرف سے سوالیہ نشان ہے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہر پارٹی کو کسی حد تک اتنا شیئر دے دیا گیا تھا کہ وہ زیادہ شور نہ کرے اور اس پر ہی راضی ہو جائے۔ اب چونکہ حکومت بن گئی ہے تو اب اس کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو بنیادی تحفظ فراہم کریں۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور ناامنی کا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے مال، جان اور نفوس کی حفاظت کریں۔ پچھلی حکومت تو پانچ سال ناکام رہی ہے اور کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔ پچھلی حکومت کے دور میں ناامنی، دہشت گردی، معاشی مسائل و دیگر بحران میں شدت آئی۔ گزشتہ حکومت کی خارجہ و داخلہ پالیسی ان مسائل کو حل نہ کر سکی۔ اسی طرح انرجی کرائسز بڑھ گئے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھی دہشت گردی عروج پر ہے۔

پاکستان کو ان بڑے مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے راہ حل تلاش کرنا ہوگا اور اس کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان بنیادی فیصلوں میں جب تک پاکستان کو جہاں اس کی جگہ بنتی ہے وہاں پر نہیں لایا جائے گا تب تک پاکستان ان مسائل کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا۔ امریکہ اور اس کے حواری، سعودیہ پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکے ہیں۔ بس پاکستان کو اس بلاک سے باہر نکالنا ہو گا۔ امریکن بلاک پاکستان کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے مفادات و مقاصد کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کو طاقتور پاکستان ایک نظر نہیں بھاتا، یعنی یہ ممالک چاہتے کہ پاکستان ہمیشہ کمزور ہی رہے تاکہ وہ پاکستان میں اپنی مرضی سے جو چاہے کھیل سکیں۔ کمزور پاکستان انرجی کرائسز کا شکار ہوگا، جس میں ناامنی عروج پر ہوگی اور دہشت گردی عام ہوگی۔

جب حکومتیں کمزور ہوتی ہیں تو طاقتور گروپ وجود میں آتے ہیں اور ان کا اپنا ایک دائرہ کار بن جاتا ہے۔ جب سے پاکستان امریکن بلاک میں گیا ہے تب سے پاکستان وہ باقی ماندہ پاکستان نہیں رہا بلکہ روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کمزور ملک ہے، جس میں ادارے کمزور ہیں، حکومت بے بس ہے۔ وزیر داخلہ اور واپڈا کے وزیر ہمیں بتاتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں، یہ ہونا چاہیے، بھائی ہمیں آپ سے خبریں تو نہیں چاہیے، یہ تو ہمیں بھی پتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہم آپ سے خبریں سننا نہیں چاہتے۔ یہ سب ہم جانتے ہیں۔ ہمیں پلاننگ چاہیے، منصوبہ بندی چاہیے، یعنی کیا آپ کے پاس درست راستہ ہے کہ جس سے پاکستان کے حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جا سکے۔ اس میں اولین ترجیح پاکستان کے مفادات ہیں۔ اس میں نہ امریکہ اور نہ ہی سعودی عرب و دیگر ممالک کے مفادات ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی اولین ترجیح پاکستان ہونی چاہیے۔ ہمیشہ پاکستان کی عوام کے مفادات کی بات کرنی چاہیے۔ حکومت کی پہلی ترجیح امن ہونی چاہیے اور اس کے بعد پھر انرجی کرائسز ہے اور اسی طرح دیگر مسائل ہیں۔

جس ملک میں قانون کی حکومت نہیں ہوتی، وہاں کے نہ معاشی حالات سدھرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ ملک کے اندر دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔ پشاور سے لے کر کراچی تک آپ نگاہ دوڑا کر دیکھ لیں کہ ہر جگہ پر افغان لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کی دکانیں اور تجارت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ناجائز اسلحے کے ساتھ کس طرح پیسہ کما رہے ہیں، یہ عام مسائل ہیں۔ چونکہ کمزور پاکستان امریکہ اور اس کے حواریوں کو اچھا لگتا ہے، اس لیے یہ تمام بحران انہوں نے کھڑے کیے ہیں۔ پس ہمارے حکمرانوں کو اپنے وطن کی خاطر ایک مضبوط نظام حکومت قائم کرنے کے لیے، قانون کی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھا نظام بنانا چاہیے، چیزوں کا درست استعمال درست سمت میں کرنا چاہیے۔ پاکستان کا آئین اور دستور جو نہیں مانتا وہ باغی ہے اور باغیوں کے ساتھ جیسا سلوک کرنا چاہیے، ویسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ جو دہشت گرد ہیں، ان کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ ملنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ہم نے دہشت گردی کی وجہ سے اپنے پیاروں کی بہت سی لاشیں اٹھا چکے ہیں، اکثر جماعتوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں،حتیٰ علامہ ساجد علی نقوی نے بھی کہا کہ اگر طالبان کے ہتھیار ڈالنے کی گرانٹی مل جائے تو ان سے مذاکرات ہوسکے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جو دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور جن ممالک کے پاکستان میں مکروہ عزائم ہیں اور ان کی وجہ سے آئے دن بے گناہ پاکستانی مار رہے ہیں۔ پاکستان میں بھتہ خوری عروج پر ہے، نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ ہی کو وی آئی پی شخصیت محفوظ ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے ادارے محفوظ ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک قسم کا مافیہ پاکستان میں وجود میں آیا ہوا ہے جو سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے اندر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ موجود ہونا، انہیں جہادی تربیت دینا اور انہیں اسلحہ فراہم کرنا ہمارے ریاستی و سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بائیں جماعت والے لوگ ان کی حمایت نہیں کرتے اور کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ دائیں جماعت والے لوگ ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں نفوذ کر جانا اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے میں دائیں جماعت والے لوگ شامل ہیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور مختلف دینی و سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی ہیں حتیٰ کہ مسلم لیگ ن بھی انہی دائیں جانب والوں میں شامل ہے۔ انہوں نے ہی افغانستان کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی، اسی پالیسی سے پاکستان کے اندر دہشت گردی آئی۔ پاکستان میں لوگوں کو لایا گیا اور انہیں جہادی تربیت دی گئی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اگر پاکستان کے ساتھ دائیں جانب والے لوگوں کو یا کسی کو بھی محبت ہوتی، یعنی اگر دیکھیں کہ اتنی بھاری مینڈنٹ سے جیت کر حکومت میں آنے والی جماعت کو دیکھنا چاہیے کہ عوام نے انہیں اس لیے ووٹ دیا تاکہ وہ حکومت میں آ کر قانون و دستور کی حکمرانی کریں اور دہشت گردوں کو جو کہ پاکستان کے دستور و آئین کو نہیں مانتے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور پاکستان میں امن قائم کیا جائے۔ اگر حکومت اس کے خلاف عمل کرتی ہے تو یہ اپنی عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردوں کو ڈیڈ لائن دے کہ مثلاً دو ماہ تک راہ راست پر آ جاؤ، ورنہ اس کے بعد آپ کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اے پی سی بلانے میں حکومت کو کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: کئی ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان کی حکومت طاقتور ہو، ہمارے فوجی جرنیل بھی نہیں چاہتے کہ حکومت طاقتور ہو۔ اس کے علاوہ علاقائی قوتیں بھی نہیں چاہتیں کہ پاکستان کی حکومت مضبوط ہو۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ روکا گیا اور اس طرح بعض کاموں میں سعودی عرب رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہم نواز شریف کو گوادر کے منصوبے کے کوشش کرنا، چائنہ سے دوستی کو مزید آگے بڑھانے میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کی سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ جتنے تعلقات مضبوط ہوں گے، اتنے ہی پاکستان کے ترقی کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایٹمی طاقت ہے، یہ بڑا مضبوط ملک بن سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھٹیا قسم کے ممالک سعودی عرب، قطر، ابوظہبی کہ جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ان کا غلام نہیں بننا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کی طرف موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اتحاد امت مسلمہ کے حوالے سے کیا پالیسی ترتیب دی ہے اور اب تک اس حوالے سے کیا کرکاردگی رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: وحدت بین المسلمین اور وحدت بین المومنین کا نقصان اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور پہنچتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر وقت اختلاف کی فضاء قائم رہے۔ شیعہ سنی کے درمیان حتیٰ کہ شیعوں کے آپس میں اور سنیوں کے بھی آپس میں جھگڑتے رہیں تاکہ جہان اسلام آپس میں الجھا رہے اور دشمنان اسلام اس سے خوب فائدہ اٹھا سکے۔ پس ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس وحدت کی فضاء قائم کریں اور آپس کے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کریں، اس میں ہمارے باہمی روابط مضبوط ہونے چاہیں، ہم پاکستان میں ان موضوعات پر مختلف جگہوں پر سیمینارز و کانفرنسز کا انعقاد کر چکے ہیں اور اب کر بھی رہے ہیں، انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا تاکہ ہمارے آپس میں اچھے تعلقات استوار ہوں۔ اسی طرح یوم القدس ایک بہت بڑا موقع ہے کہ جس کو منانے کے ساتھ ساتھ تمام شیعہ و سنی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ یوم القدس کسی ایک فرقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جہان اسلام کا مسئلہ ہے، اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی جہان اسلام کا مسئلہ ہے۔ بہرحال اب بھی شیعہ سنی بھائیوں کے تعلقات کی ایک اچھی فضاء بن چکی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ آنے والے چند دنوں میں انشاء اللہ مثبت نتائج نکلیں گے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: شام کے جہادیوں میں فرنٹ لائن کے اتحادی ممالک سعودی عرب، امریکہ و دیگر شریک ہیں۔ شام ایسا ملک ہے جو فلسطینیوں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ لبنان نے شام کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے۔ شام ہمیشہ سے ہی اسرائیل کے مدمقابل والے بلاک میں رہا ہے، یعنی امریکہ مخالف بلاک میں رہا ہے۔ اس سے ہمیشہ فلسطین اور فلسطین کے مقاصد کو فائدہ ہوا ہے، نقصان کبھی نہیں ہوا۔ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔ شام کی پالیسیاں امریکہ مخالف رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایران سے لے کر لبنان تک ایک بلاک وجود میں آیا اور جب عرب دنیا میں بیداری آنا شروع ہوئی تو مخالف ممالک نے یہاں پر دہشت گرد بھیجنے شروع کر دیئے۔ سعودی عرب، قطر، ابوظہبی، ترکی، اردن اور حتیٰ کہ پورا یورپ اکٹھا ہو کر شام کے خلاف ہوگیا ہے اور وہاں کی حکومت کو گرانا ان کا بڑا مقصد ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک ایسا نہیں کر سکے۔
شام کو جس مشکل مرحلے میں داخل کیا گیا، اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسانی دی اور صبر عطا فرمایا۔ ایران عراق کی جنگ میں جب ایران باہر نکلا تو طاقتور ترین ملک بن گیا۔ 2006ء میں حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھی لبنان طاقتور ہو گیا۔ آج وہ حزب اللہ نہیں جو 2006ء کی جنگ میں تھی بلکہ آج اس سے کہیں زیادہ طاقتور بن چکی ہے۔ اسی طرح شام کے اندر بھی پوری دنیا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور شام کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں لیکن اب تک وہ اس مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پوری دنیا سے دہشت گرد اکٹھے کر کے شام میں بھیجے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان 28 ماہ میں وہ شام کی حکومت نہیں گرا سکے۔ شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ کہ حکومت مضبوط ہے اور ان کی فوج بھی مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور آمادہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ عوامی طاقت بھی اکٹھی ہو چکی ہے اور دشمنوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ دشمنوں و دہشت گردوں نے رسول پاک ﷺکی پیاری نواسی حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے مزار کی بے حرمتی کی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے اور شرم کی بات ہے۔

اسلام ٹائمز: فرض کریں کہ ساری کفر کی طاقتیں اکٹھی ہو کر شام کی حکومت گرا دیتی ہیں تو اس کے بعد کیا منظر نامہ ہوگا اور ایران کا اس کے بعد کیا کردار ادا کرے گا؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں اس وقت شام کی حکومت کو گرانا تقریباً ناممکن ہے۔ کفار جو طاقت لگانا چاہتے تھے سب کی سب لگا چکے ہیں۔ اب ان دہشت گردوں کو وہاں پر جگہ جگہ مار پڑ رہی ہے۔ بہت سے دہشت گرد جنہوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا تھا وہ اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے رات کو ہی ایک خبر میں پڑھا کہ بہت سارے دہشت گرد مایوس ہو کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ سیریا کے حالات جو یورپین میڈیا پیش کر رہا ہے، اصل حالات اس کے برعکس ہیں۔ فرض کر بھی لیں کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ جیسا آپ نے کہا تو پھر سیریا تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ جن میں ایک حصہ علویوں کے پاس، دوسرا حصہ بریلیوں کے پاس اور تیسرا حصہ دہشت گردوں کے پاس۔ اس کے باجود پھر بھی حزب اللہ وہاں پر ناکام نہیں ہوگی کیونکہ حزب اللہ کے وہاں پر اپنے علاقے ہیں۔ وہ علاقہ جو لبنان کے ساتھ ملتا ہے وہاں پر دہشت گرد کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ تقسیم کسی کے حق میں بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع کی گئی ہے کہ یوم القدس منانے کے بجائے یوم دفاع تشیع منایا جائے، اس سوچ کے پیچھے کیا حقیقت ہے؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ہمیں اپنے مکتب کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمارے امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہمیشہ ظالموں کے دشمن بن کر رہو اور مظلوموں کے حامی۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مظلوم ہیں اور بیت المقدس ہم سب مسلمانوں کی یکجا میراث ہے۔ اپنے ملک کا یوم دفاع منانا اور یوم القدس منانا الگ نہیں ہیں، دونوں اکٹھے بھی منائے جا سکتے ہیں۔ دیکھئے یوم القدس ملت تشیع کا محور و مرکز بن سکتا ہے۔ ابھی تک تو جس طرح سے یوم القدس کو منانا چاہیے تھا، اس طرح سے منا ہی نہیں سکے۔ اگر ہم میں حکمت و تدبیر ہوتی تو قدس شیعہ و سنی کا محور و مرکز بنتا اور ہمارے اتحاد کا نقطۂ ہوتا۔ یوم القدس شیعہ سنی وحدت کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے اور مظلوموں کی حمایت کے لیے بھی سب سے بہتر پلیٹ فارم ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہمیں جو مکتب اہل بیت نے چیزیں دی ہیں، ہم ان سے درست استفادہ نہیں کر سکے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم گلی گلی، کوچے کوچے لوگوں کے گھروں تک جاتے اور لوگوں کو قدس کی آزادی کے لیے میدان میں لے کر آتے، اسی طرح پھر کشمیر کی آزادی کی بات ہوتی اور دیگر مسلمان ممالک جہاں پر مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے لیے آواز بلند کرتے، ہم ان کا ہراول دستہ بنتے اور لیڈ کرتے۔ ہمیں تنگ نظری سے ان مسائل کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوم القدس وہ عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امام خمینی (رہ) کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ یوم القدس یوم اسلام ہے، یوم وحدت مسلمین ہے، یہ دن مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے خلاف قیام کا دن ہے لہٰذا یوم القدس ہمارے شرعی فرائض میں سے بھی ہے اور ایک عظیم پلیٹ فارم بھی ہے، پس ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی کہ یوم القدس کو ایک مسلک نے نتھی کردیا ہے، اس کو عالم اسلام کا دن بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان گلی گلی، کوچہ کوچہ، گھر گھر جائیں اور لوگوں کو یوم القدس میں شرکت کی دعوت دیں۔ جس طرح ہم ناموس رسالت (ص) پر اکٹھے نظر آئیں ہیں بالکل اسی طرح یوم القدس پر بھی ہمیں اکٹھا ہونا چاہیے۔ ہم نے اس دفعہ اسلام آباد و راولپنڈی میں کوشش کی ہے کہ اہل سنت افراد کی بھی کثیر تعداد اہل تشیع افراد کے ساتھ مل کر یوم القدس میں شریک ہو، اس کے علاوہ باقی شہروں میں بھی ہم نے التماس کی ہے کہ عام عوام کو بھی جتنا ہو سکتا ہے اس پروگرام میں شریک کریں۔ اس میں میرے خیال میں تربیت اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز:قدس کے حوالے سے ہم دوسروں کی بات تو کرتے ہیں کہ وہ شریک ہوں جبکہ ہماری اپنی ریلیاں ایک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں شیعہ علماء کونسل کے دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور ہمارے ساتھ بات چیت کریں، وہ ہمیں تعاون کرنے والا پائیں گے اور وحدت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا پائیں گے۔ ہاں اس کے لئے ہم سے وہ بندہ آ کر بات کرے کہ جس کے پاس کچھ اختیار بھی ہو، یہ نہ ہو کہ وہ کہے کہ میں نے تو ابھی جا کر پوچھنا ہے۔ میرے خیال میں یوم القدس کو اہمیت ہونی چاہیے نہ کہ پارٹیوں کو اہمیت ہونی چاہیے۔ میں اب بھی کہتاہوں کہ آئیں بیٹھیں اور جن جن چیزوں میں مشترکات پر قدم اٹھائے جا سکتے ہیں، ہمیں اٹھانے چاہیں، فرار کرنے سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ہم تھرڈ کلاس سیاستدانوں کے ساتھ تو بیٹھ جائیں لیکن اتنے بے حس ہوجائیں آپس میں نہ بیٹھ سکیں۔ میں آپ کے توسط سے انہیں دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر بیٹھیں، انشاء اللہ آپ ہمیں تعاون و مددگار پائیں گے۔ ہمارے پاکستان کی عوام یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے، ان کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ رائے عامہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے اور بالآخر ہمارے یہ ساتھی مجبور ہوں گے کہ قومی کاموں میں کھلے دل سے بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز: مصر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے، کیا اس کا فلسطین پر کوئی اثر پڑے گا؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت آئی۔ اہل سنت بہت خوش تھے کہ ان کی حکومت مصر میں بن گئی۔ الاظہر اور اخوان المسلمین و شیعہ مل کر جہان اسلام کو درپیش چیلنجز سے باہر نکال دیں گے۔ بہرحال یہ توقع کی جا رہی تھی۔ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو امریکہ کے سفارتخانہ کو بند کرکے فلسطین کا سفارتخانہ کھولا گیا، شیعہ سنی جھگڑے کی باتیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود ایران نے سب کو اکٹھا لے کر چلا اور آپس کی رنجشیں دور کیں۔ بالکل ایسی ہی توقع اخوان المسلمین کے ساتھ کی جا رہی تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی حکومت آئی تو اس کے بعد اسرائیل کا سفارتخانہ بند کر دیا جاتا اور ان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے جاتے اور جہان اسلام کے حوالے سے ان کا دل کھلا ہوتا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مصر کے اخوان نے بہت بڑی غلطی کی، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط کو برقرار رکھا اور اخوان نے وہی کام کرنے شروع کر دیئے جو امریکہ، اسرائیل اور قطر چاہتے تھے۔ اخوان کے دور حکومت میں شیعہ عالم دین کو ڈنڈوں سے مارا گیا، یہ وہ ظلم جو پہلے کسی اور کے دور میں نہیں ہوا، وہ اخوان حکومت میں ہوا۔ بہت محدود سوچ رکھنے والی اخوان المسلمین اپنے کیے کی وجہ سے ہی اپنی شہرت کھو بیٹھی اور ایسا گندا کردار ادا کیا جس کی ان سے توقع نہیں تھی۔

شام میں اگر عوام بشارالاسد کے ساتھ نہ ہوتی تو 28 مہینے کیسے حکومت قائم رہ سکتی ہے، یہ سوچنے والی بات ہے۔ اگرچہ فوج کو یہ حق نہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ جس ملک کی عوام نے ان حکمران پر اعتبار کیا تھا، وہ حکمران ہی امریکہ کی ایماء پر چلنے لگے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے۔ فوجی حکومت کو سب سے پہلے خوش آمدید سعودی عرب نے کیا تھا۔ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ایک عمل سے گزرا اور آج وہ ایک مضبوط ملک ہے، اس کے علاوہ ان کا نظام یعنی نظام ولایت فقیہ بھی ایک مضبوط نظریہ ہے۔ مصر میں چونکہ اس طرح کے کسی نظام پر انقلاب نہیں لایا گیا اور نہ اس طرح کا کوئی راستہ اپنایا گیا لہٰذا وہ شروع ہی میں ڈگمگا گئے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بیداری اسلامی کے بارے میں جتنے بھی خطابات کیے ہیں، ان میں باقاعدہ مصر کے حوالے سے اخوان المسلمین کی رہنمائی کی ہے کہ کس طرح مشکلات سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پس ان کی حکومت نہ ہی اسلامی ہے اور نہ ہی کچھ اور۔ اگرچہ فوجیوں کا حکومت پر قابض ہونا اچھی بات نہیں ہے اور ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اخوان المسلمین نے اپنے کیے کی سزاء پائی ہے۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن کا شام کے بارے میں ایک بیان شائع ہوا، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ان کا یہ بیان بہت ہی اچھا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قطر، ترکی، یو اے ای اور اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر شام کے حالات خراب کرنے کے درپے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپین صہیونسٹ و مسلم کیمونسٹ سب مل کر شام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کو مزید واضح اشاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس پر خاموش رہیں تو وہ وقت قریب جب یہی صورتحال پاکستان میں پیدا کی جائے گی اور پورا جہان اسلام ان کے مظالم کا شکار ہو جائے گا اور کہیں بھی امن و سکون نہیں ہو گا لہٰذا تمام مسلم ممالک پاکستان سمیت تمام حکمرانوں کو ان کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تاکہ ان خائن لوگوں کی شناخت بھرپور ہو جائے اور آئندہ اگر یہ ہمارے ملک میں خیانت کرنا چاہیں تو ان کا راستہ روکا جا سکے۔

وحدت نیوز( پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین الحسینی نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ اور 6 شیعہ قیدیوں کے بیہمانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ریاستی اداروں کے منہ پر طمانچہ اور ملک کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔

 اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ دہشتگرد جتھوں کی شکل میں آتے ہیں اور جیل پر حملہ کرکے اپنے خطرناک قیدیوں کو چھڑا کر لے جاتے ہیں، جبکہ پولیس، انتظامیہ اور دیگر سیکورٹی ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں نے جیل میں قید 6 اہل تشیع کو بے دردی سے قتل کردیا اور پولیس اہلکار اپنی جانیں بچاتے پھرتے رہے، جو لوگ عوام کی حفاظت نہیں کرسکتے وہ انہیں وردیاں پہننے کا کوئی حق نہیں۔

 علامہ عبدالحسین نے کہا کہ ملک میں اس وقت جنگل کا قانون اور دہشتگردوں کا راج ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے عالمی سطح پر لوگ ہمارا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہ دہشتگرد کل اس سے بڑی کارروائی کرنے کی جرات بھی کرسکتے ہیں۔

ملت پاکستان جمعۃ الوداع کو تمام نسلی اور لسانی امتیازات کو فراموش کرتے ہوئے امت واحدہ بن کرفلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے امام خمینی (رح) کے فرمان پر یوم القدس منائے ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان لاہور
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن لاہور کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ملت پاکستان جمعۃ الوداع کو تمام نسلی اور لسانی امتیازات کو فراموش کرتے ہوئے امت واحدہ بن کرفلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے امام خمینی (رح) کے فرمان پر یوم القدس منائے ۔انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کے دشمن متحد ہو کر مسلم امہ کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازشوں مین مصروف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج پینسٹھ برسوں سے اسلامی مقبوضات کشمیر اور فلسطینی سامراجی شیطانی قوتوں کے غاصبانہ قبضے میں ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر سمیت، عراق، افغانستان، مصر، شام اور فلسطین مسلم دنیا اور مسلم امہ کے اہم ترین مسائل ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے مسلم امہ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہو اور غاصب اسرائیلی دشمن کے خلاف مشترکہ قیام کا اعلان کرے۔

مقررین کاکہنا تھا کہ جمعۃ الوداع یوم القدس در اصل مظلوموں کے ظالموں کے مقابلے میں قیام کرنے کا دن ہے ،یوم القدس کو پوری مسلم امہ کو چاہئیے کہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن جائے اور ان سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دے۔رہنماؤں نے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران کے عظیم بانی اور بیسویں صدی کے عظیم الشان رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطینیوں اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کا دن قرار دیتے ہوئے ’’یوم القدس ‘‘ قرار دیا ہے تاہم امت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی آزادی کے لئے یوم القدس کو قبلہ اول کی بازیابی کے احتجاجی ریلیاں او ر مظاہرے منعقد کرے اور دنیا بھر کے تمام ممالک کی فضائیں مردہ باد امریکہ اور نامنظور اسرائیل کے نعروں سے گونج اٹھنی چاہئیں اور در اصل یہی عالمی سامراجی قوتوں کی موت کا دن ہے۔

مقررین نے پاکستان کے غیور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جمعۃ الوداع یوم القدس کو امام خمینی (رح) کے فرمان کے مطابق اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے نکالی جانے والی القدس ریلیوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں ۔ان کاکہنا تھا کہ جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پاکستان کی فضاؤں کو امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھنا چاہئیے ۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین مسلم امہ کے اتحاد کا مظہر اور محور ہے، علمائے کرام نماز جمعہ کے خطبات میںیوم القدس کے حوالے سے خصوصی خطبات دیں اور پاکستان کے غیور عوام یوم القدس کے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے امریکہ اور غاصب اسرائیل کی ناک زمین پر رگڑ دیں۔

وحدت نیوز (مظفرآباد)مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے قبلہ اول آج بھی صہیونیوں کے قبضہ میں ہے مسلمان ممالک میں اکثر کے حکمران مظلوم فلسطینیوں سے دشمنی اور اسرائیل سے خفیہ دوستی پال رہے ہیں اور بڑے شیطان امریکہ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور القدس کے مسئلہ کو فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دے چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے لہذا امام خمینی کے فرمان کے مطابق آج دنیا بھر کی طرح آزاد کشمیر میں بھی یوم القدس منایا جائیگا ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مظفرآباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مذید کہا کہ یوم القدس نہ فلسطینیوں کا مسئلہ ہے اور نہ ہی شیعہ سنی مسئلہ ہے، بلکہ روز قدس ایک اسلامی دن ہے، اور استعماری قوتوں سے مقابلے میں مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد وحدت و ہم آہنگی کا دن ہے، یہ دن مسلمانوں کی عزت و عظمت کا دن ہے، یوم القدس ظالموں کے خلاف مظلوموں کے جہاد کا دن ہے، یہ دن قدس کی آزاد ی کے لیئے مسلمانوں کی تربیت اور منظم ہونے کا دن ہے، اس روز مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں یہ دن ہمیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتاہے کہ ہم دنیا میں عزت و آبرو کے ساتھ رہیں، یا ذلت کو اختیار کریں۔

علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمان اسرائیلی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں اور مسلمانوں کی مدد کے منتظر ہیں لہذا یوم القدس منانے کا مقصد یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو قدس کی اازادی کے لیئے آمادہ کیا جائے جب پوری دنیا سے جذبہ شہادت سے سرشار غیور مسلمانوں کے قافلے بیت المقدس کی طرف نکلیں گے تو اسرائیل کا وجود اپنے آقاؤں کی تمام تر آشیرباد کے باوجود ختم ہو جائے گا۔

علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا میں میڈیا کے توسط سے آزاد کشمیر بھر کے غیور مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آج کچھ لمحات کے لیئے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول کی آزادی کی تحریک کو تقویت دینے کے لیئے یوم القدس کے اجتماعات میں ضرور شریک ہوں،انہوں نے بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ سٹوڈنٹس و دیگر تنظیمات کے اشتراک سے آج آزاد کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے اور جلوس منعقد ہوں گے جبکہ مرکزی اجتماع امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، امامیہ آرگنائزیشن آزاد کشمیر، مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں کشمیر، جعفریہ سپریم کونسل آزاد کشمیر اور دیگر تنظیمات و انجمن ہا کے اشتراک سے منعقد ہوگا، ریلی کا آغاز بعد از نماز جمعہ مرکزی امام بارگاہ مظفرآباد سے ہوگا، علامہ مفتی سید کفایت حسین نقوی، سید شبیر حسین بخاری، سید نجف علی نقوی ، سید اشتیاق حسین سبزواری اور تمام تنظیمات کے سربراہان و علماء کرام ریلی کی قیادت کریں گے، اور امام خمینیؒ کے فرمان کے مطابق مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں گے۔

وحدت نیوز (لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سید مبارک علی موسوی نے شب شہادت مولائے کائنات (ع) کی مناسبت سے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شب بیداری کے ساتھ ساتھ اب وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی بیداری کا بھی ثبوت دیں، جس دور میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں واقعاً یہ ظہور امام زمانہ کا دور ہے، سفیانیوں کا خروج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہم غافل رہیں تو ناصرین امام (ع) کے صفوں سے ہم دور ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو بیدار ہو کر باہر نکلنا ہوگا، اپنی قیادت کے حکم پر لبیک کہنا ہوگا، میرے مولا کا فرمان ہے کہ ایسی قوم بنو جب پکارا جائے تیار نظر آؤ۔

انہوں نے کہا کہ شب ہائے قدر میں قرآن کو سروں پر رکھنے کی بجائے قرآن کو سینے میں اْتاریں، تاکہ حقیقی معنوں میں قرآن سے ہمارے قلوب روشن ہوں۔ انہوں نے یوم علی (ع) پر مومنین سے اپیل کی کہ وہ جلوس ہائے عزا میں بھرپور شرکت کرکے دشمن اسلام کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کی یہ سازش ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات سے ہماری قوم کو ڈراتا ہے۔ دشمن خبریں چلواتا ہے کہ یوم علی (ع) پر دہشت گردی کا امکان ہے، اتنے دہشت گرد لاہور میں داخل ہوگئے، وغیرہ، یہ دشمن کے ہتھکنڈے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں اور جلوس میں نہ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہم کربلا کے ماننے والے ہیں، ہم موت سے نہیں ڈرتے بلکہ موت تو ہمارے لئے شہد سے زیادہ شیریں ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری (حفظ اللہ)نے اکیس رمضان یوم شہادت حضرت امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اگر مسلم امہ امام علی علیہ السلام کی سیرت مبارکہ سے درس حاصل کرتی تو آج مسلم امہ مسائل کا شکار نہ ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں کفر سے تو باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے نہیں، یہی وجہ ہے کہ امام علی علیہ السلام نے اپنے وقت کے ظالم و جابر افراد کے خلاف جنگ کی اور اسلام کی حفاظت فرمائی۔

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے معاشرے میں عدل کے قیام کی جدوجہد کی اور آج ہم بھی عدل و انصاف کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ معاشروں میں عدل قائم ہو تو معاشرے خوش حال اور بہتری کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں اور اگر کسی معاشرے میں عدل ہی نہ ہو تو وہ معاشرے جنگل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور آج سرزمین پاکستان کو جنگل بنانے کی گھناؤنی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری افواج، ہمارے اداروں، بازاروں، مساجد، جلوسوں غرض تفریحی مقامات تک کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت میں بیٹھے افراد بے حس بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے پیغام میں پوری پاکستانی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ یوم علی علیہ السلام کے جلوسوں میں شرکت کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستانی عوام ظالم قوتوں کے خلاف اور مظلوموں کی حامی ہے۔ انہوں نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور سکیورٹی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یوم علی علیہ السلام کے موقع پر ملک بھر میں فول پروف سکیورٹی کے انتطامات کو یقینی بنائیں اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree