The Latest

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسد ی کی چیئرمین عزادار سیل حاجی امیر عباس مرزا کے ہمراہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ سے پنجاب سیکرٹریٹ میں ملاقات،ملاقات میں علامہ عبدالخالق اسدی نے صوبائی وزیر داخلہ کو پنجاب بھر میں بے گناہ شیعہ افراد خصوصا مجلس وحدت مسلمین کے بے گناہ کارکنان کو ہراساں کرنے کے واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ نے دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے بری قربانیاں دی ہیں،اور ہم نے دشمن کے سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا،ملت جعفریہ نے ہمیشہ ملکی سلامتی واستحکام کے خاطر جانوں کا نذرانہ دیا،ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ الحمدللہ ہمارے دامن پر وطن دشمنی کا کوئی داغ نہیں اور نہ ہی ہمارے ہاتھوں سکیورٹی فورسسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی نقصان پہنچا،ہم نے ہمیشہ وحدت اور اتحاد بین المسلمین کے لئے جدو جہد کی،فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ہم حرام سمجھتے ہیں۔

علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ ایک طرف شیعہ قوم دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں دوسری طرف پنجاب میں انتظامیہ ہمارے کارکنان اور جوانوں کو ہراساں کر رہے ہیں جو سراسر ظلم ہے جسے کبھی قبول نہیں کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ مجالس اور عزاداری کے محفلوں کو این او سی کے نام پر بانیان کو حراساں کرنے کا عمل سراسر انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،علامہ اسدی نے شرپسندوں کے ہاتھوں توہین رسالت ﷺ ایکٹ غلط استعمال کرنے کے واقعات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے والوں کیخلاف پنجاب حکومت موثر کاروائی کرے ۔

وحدت نیوز (کشروٹ) مجلس وحدت مسلمین کے امید وار محمد مطہر عباس کا الیکشن کمپین کے سلسلے میں کشروٹ کا دورہ۔ عمائدین و نوجوان نے پر جوش انداز میں استقبال کیا۔عمائدینِ کشروٹ نے محمد مطہر عباس کے دورہِ کشروٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے امید وار حقیقی معنوں میں علاقے کی ترقی اور قیامِ امن کے لیئے کوشاں ہیں۔عمائدین کا کہنا تھا ہماری اولین ضرورت امن اور بھائی چارہ ہے آپ ہمارا سب کچھ لے لیں ہمیں ہمارا امن و محبت والا ماحول لٹا دیں۔محمد مطہر عباس نے عمائدین اور نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کی مجلس وحدت مسلین کا اولین مقصد گلگت کے عوام کو یکجا کر کے ان کو بنیادی ،آئینی اور سیاسی حقوق دلانا ہے اس مقصد کے لیئے جتنی بھی قربانیوں کی ضرورت ہو ،حاضر ہیں۔

چند لوگ اور ان کے کرتوت

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) نویں تا تیرہویں صدی کے چار سو برس منطقی علوم میں مسلمانوں کی فتوحات کا سنہری دور کہلاتے ہیں۔ دسویں صدی کے آغاز سے بارہویں صدی کے خاتمے سے ذرا پہلے تک فاطمی سلطنت تیونس تا یمن اور یمن تا شام پھیلی ہوئی ہے۔ علم و حکمت کا مرکز بغداد دورِ زوال میں داخل ہے اور قاہرہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اس میں مشرق کی پہلی جدید یونیورسٹی جامعۃ الازہر مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اہلِ تخلیق کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ انھی میں ابن الہیثم جیسا ماہرِ فلکیات و طبیعات و ریاضی دان بھی ہے جس نے دوربین کا عدسہ بنا کے روشنی کی رفتار ماپ کر زمین کا دیگر سیاروں سے فاصلہ ماپ لیا ہے۔ اب فاطمی خلیفہ امام الحکیم کی خواہش ہے کہ ابن الہیثم دریائے نیل میں پانی کے سالانہ اخراج کو بھی ماپ دے تا کہ نئی زمینوں کی آبادکاری کی آبی منصوبہ بندی ہو سکے۔
اسی قاہرہ سے بہت دور نصیر الدین طوسی نے ایک ایرانی قصبے مرغہ میں ایسی رصدگاہ بنا لی ہے جہاں چین تک سے سائنسی طلبا نظامِ شمسی کی نپائی کا ہنر سیکھنے آ رہے ہیں۔ نصیر الدین طوسی کی نگرانی میں ان طلبا کے تیار کردہ فلکیاتی شماریاتی چارٹوں میں سے کچھ ہزاروں کلو میٹر پرے اندلس پہنچتے ہیں اور وہیں سے ایک یہودی عالم ابراہام زکوٹو ان کی نقول پرتگال کے شاہ جان دوم کے دربار میں لے جاتا ہے۔ ان شماریاتی چارٹوں کی مدد سے اصطرلاب (قطب نما) ایجاد ہوتا ہے اور اسی اصطرلابی مدد سے واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کر لیتا ہے۔ یوں مشرق کا دروازہ مغرب کے نوآبادیاتی عزائم کے لیے کھل جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر ساٹھ کلومیٹر قطر کے ایک گڑھے کا نام نصیر الدین یونہی نہیں رکھا۔
اور اسی دور میں بلخ میں ابو علی سینا پیدا ہوتا ہے جو جدید طب اور طبیعات کا باپ ہے کہ جس کے ساڑھے چار سو میں سے دو سو ساٹھ مقالات طب و فلسفے اور منطق پر ہیں۔ باقی کام ریاضی، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، فقہہ اور شاعری پر ہے۔ ابنِ سینا وہ دروازہ ہے کہ جس میں سے دورِ تاریک کا یورپ چھلانگ لگا کر دورِ جدیدیت کی جادوئی دنیا میں آن گرتا ہے۔
اور کہیں آس پاس ہی ابو عبداللہ جعفر ابنِ محمد بھی شعر لکھ رہا ہے۔ دنیا اسے رودکی کے نام سے جانتی ہے۔ اس پیدائشی نابینا نے جدید فارسی اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد شعر کہے اور غربت میں مر گیا۔
اور یہیں کہیں عظیم سیاح، فلسفی اور ادیب ناصر خسرو بھی انیس ہزار کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہے۔ ہر کوس کا تجربہ اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہے۔ (ذرا تصور کیجیے گیارہ سو برس پہلے مشرقِ وسطی کا انیس ہزار کلومیٹر کا سفری دائرہ پا پیادہ…)۔
اور سائنسی و منطقی سوچ کے انقلابی چلن میں مگن مشرقِ وسطی سے دور ملتان نامی دور دراز علاقے میں کوئی شمس الدین سبزواری دعوت و تبلیغ کا کام کر رہا ہے۔ ابھی بت شکن محمود غزنوی کا ظہور نہیں ہوا۔ ابھی منگولوں کے پاس مسلمان عقلیت پسندی کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلنے میں کچھ وقت ہے اور ابھی اسپین سے بھی مسلمانوں کو بیک بینی دوگوش نکالا جانا ہے اور ابھی جاہل صلیبی غول در غول بچا کھچا مسلمانی علم و حکمت تہہ و بالا کرنے کے بارے میں بس سوچ رہے ہیں۔۔۔
آئیے ماضی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ابراہیم رحیم ٹلا بمبئی میونسپلٹی کے صدر، دوسرے عشرے میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے صدر اور تیسرے عشرے میں برٹش انڈیا کی مرکزی لیجسلیٹو کونسل کے صدر بنتے ہیں اور چوتھے عشرے میں دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ گوکھلے، اینی بیسنٹ اور جناح صاحب کی طرح ابراہیم رحیم ٹلا بھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر شمار ہوئے۔
اور پھر اسی بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پاکستان بننے سے ایک ماہ پہلے ایک صنعت کار امیر علی فینسی مشرقی افریقہ میں اپنے سارے اثاثے فروخت کر کے پاکستان پہنچتا ہے اور پہلی سرمایہ کاری اسٹیل کے شعبے میں کرتا ہے اور اسی پاکستان کے بائیس امیر صنعتی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔
اور اسی پاکستان کے بنتے ہی غلام علی الانہ نامی ایک صاحب مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری بنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ کراچی کے مئیر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ پہلے اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پھر اقوامِ متحدہ والے انھیں لے جاتے ہیں اور ان کے ذمے انسانی حقوق کی عالمی نگرانی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی مقامی حکومت انھیں شہر کی طلائی چابی پیش کر دیتی ہے۔ ان شہروں میں سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، بفلو، پیٹرسن، پیرس، روم، جنیوا اور پراگ بھی شامل ہیں۔ اتنی مصروف زندگی میں بھی غلام علی الانہ نے اچھی خاصی انگریزی شاعری کر لی اور درجن بھر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور سن پچاسی میں رخصت بھی ہو گئے۔
اسی دور میں ایک صدر الدین بھی گزرے جو انیس سو چھیاسٹھ سے اٹھتر تک ( بارہ برس ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلاحِ مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ رہے اور کروڑوں مہاجرین کی دیکھ بھال کے فن کو ایک جدید شکل دی جس کے سبب انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے اندرونی و بیرونی مہاجروں اور بے وطن بہاریوں کو بھی اچھا خاصا سہارا ملا اور پھر یہ تجربہ لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے بھی کام آیا۔ یہ وہی صدرالدین ہیں کہ جن کے بھائی علی خان سن اٹھاون تا ساٹھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اور اسی اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے پیرس ہیڈ کوارٹر میں اسماعیل گل جی کی بھی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ گل جی پہلے پاکستانی پینٹر تھے جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز کے قابل جانا۔
اور اب تذکرہ کچھ شمالیوں کا۔
یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کو مٹھی بھر سپاہیوں نے پھٹیچر اسلحے کے بل بوتے پر آزاد کروایا۔ ان بے خوفوں کی قیادت کرنل حسن خان اور کیپٹن راجہ بابر خان تو کر ہی رہے تھے مگر ان کے دیگر ساتھیوں میں کیپٹن شاہ خان اور صوبیدار صفی اللہ بیگ بھی شانہ بشانہ تھے۔ باون برس بعد انھی کے نقشِ قدم کو حوالدار لالک جان نے کرگل کے پہاڑوں میں اتنا گہرا کر دیا کہ اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوگئے اور نشانِ حیدر کی صف میں جگہ پا گئے۔
پہاڑ ہوں اور کسی گلگتی و بلتستانی کا دل نہ مچلے کیسے ممکن ہے۔ اشرف امان کا دل مچلا تو وہ انیس سو ستتر میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس کارنامے کے تئیس برس بعد نذیر صابر نے پہلے کے ٹو سر کی اور پھر دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا پاکستانی جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کارنامے کے تیرہ برس بعد ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی جو ماؤنٹ ایورسٹ پر جا پہنچی۔
(ثمینہ کے ساتھ دو بھارتی لڑکیاں تاشی اور ننگاشی ملک بھی تھیں۔ یوں بھارتی ترنگا اور پاکستانی سبزہ پہلی بار ایک ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک عام جنوبی ایشیائی انسان کی دو طرفہ خواہشِ امن کا مشترکہ استعارہ ہو گیا)۔
بھارت کا تذکرہ آیا تو لگے ہاتھوں بھارت کے سب سے امیر مسلمان، سب سے بڑے سافٹ وئیر ساز اور مخیر عظیم پریم جی کی بھی بات ہو جائے کہ جس نے اپنے پندرہ ارب ڈالر کے اثاثے کا بیشتر حصہ فلاحِ عام کے لیے وقف کر دیا۔
مگر ان سب شخصیات میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ یہ بھان متی کا کنبہ میں کیوں جوڑ رہا ہوں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ سب اسماعیلی ہیں۔
(کچھ اور نابغہِ روزگار بھی اس مضمون کا حصہ ہونے چاہئیں۔ مگر اس وقت مجھے ان کے ناموں سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے)۔
اور یاد آیا کہ ایک اسماعیلی آغا خان سوم بھی تو تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے وہ تمام سونا اور جواہرات تعلیم پر لٹا دیے کہ جس میں انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بارہا تولا گیا تھا۔ اس کرامت کا زندہ پھل شمالی علاقہ جات ہیں جہاں عمومی خواندگی پچھتر فیصد اور اسی علاقے کی سابق ریاست ہنزہ میں پچانوے فیصد تک ہے۔ اور انھی آغا خان سوم کے پوتے نے پچھلے ستاون برس سے ایشیا تا افریقہ اور یورپ تا امریکا تعلیم، صحت اور مسلم فنِ تعمیر کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
ہاں ایک اور اسماعیلی بھی تو تھے جو بعد میں اثنا عشری ہو گئے اور پھر کئی علما نے انھیں ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی جدو جہد کے عین عروج کے دوران کافرِ اعظم بنا ڈالا اور پھر یہی علما اور ان کے وارث اسی ’’غیر شرعی‘‘ ملک کے مامے بن گئے۔
(ان میں سے شائد کسی نے سن دو ہزار پانچ کے اعلانِ نامہِ عمان کا تذکرہ سنا ہو۔ یہ اعلان نامہ اردن کے شاہ عبداللہ بن حسین کی دعوت پر پچاس مسلمان ممالک کے لگ بھگ ڈھائی سو علما اور اسکالرز نے تین دن کے بحث مباحثے کے بعد تیار کیا۔ اس اعلان نامے میں جن فقہی اسکولوں کو تسلیم کیا گیا جن کے ماننے والے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ ان فقہی اسکولوں میں جعفریہ اور زیدیہ فقہ بھی شامل ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ان کا فرقہ جعفریہ فقہہ کا حصہ ہے اور دیگر تمام فقہوں کی صوفیانہ تعلیمات و روایات کو بھی تسلیم کرتا ہے)۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)

وحدت نیوز(بشکریہ ڈان اخبار)نئی دہلی: فاطمہ بھٹو نے کہا ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے والی ہلاکتوں میں شیعہ فرقے کے افراد کی ہلاکتیں ہندوؤں اور عیسائیوں سے کہیں زیادہ ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے پاکستان ایک آفت زدہ ملک بن گیا ہے۔

جمعہ کے روز ہندوستانی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’متاثرین اور مجرمین دونوں ہی ہرجگہ موجود ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اسماعیلی مسلمانوں کی ایک پُرامن برادری تھی، جو ملک کی شیعہ اقلیت سے قریب تر تھی، اور یہی وجہ ہے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا۔

فاطمہ بھٹو نے کہا ’’پاکستان کے 70 فیصد مسلمان سنّی ہیں۔ اور مسلم اکثریت کے حامل اس ملک میں قدامت پسند اور بنیاد پرست گروہوں کی جانب سے ہندوؤں اور عیسائیوں کو تشدد کے اس قدر بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے، جیسا کہ شیعہ مسلک کے لوگوں کو خطرے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ہم طویل عرصے تک لوگوں کو مرتے ہوئےنہیں دیکھ سکتے، محض اس لیے کہ مرنے والے ہمارے اپنے نہیں ہے۔ ہلاکتوں کی فہرست تیزی سے مخصوص سے عام لوگوں تک منتقل ہورہی ہے۔

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ کیا آپ ہزارہ ہیں؟ آپ شیعہ ہیں؟ کیا آپ ایک احمدی ہیں؟ اگر آپ ان میں سے کوئی ہیں تو آپ کو قتل کردیا جائے گا۔

بنگلہ دیش میں متعدد بلاگرز کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جلد ہی یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آپ لبرل ہیں؟

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے حمایتی اور ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم نوجوان پاکستانی پہلے ہی انٹرنیٹ پر اپنی پوسٹنگ کے ذریعے کسی پر بھی حملہ کردیتے ہیں۔ جو بھی صحافی ان کی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، وہ ان کی نظر میں ’لفافہ جرنلسٹ‘ ہے۔ یعنی عقل استعمال کرنے کے بجائے ان کے خلاف برے الفاظ ہی استعمال کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی بنگلہ دیش کی طرح آپ سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا آپ ایک مصنف ہیں؟

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ یہاں تشدد ہر جگہ موجود ہے، دھمکیوں کی صورت میں اور پُرتشدد کارروائیوں کی صورت میں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہولناک حملوں سے دوچار ہر صوبہ بھولنے کی بیماری کاشکار ہے۔ سندھ کی انتہائی بدعنوان حکومت 43 افراد کا تحفظ نہ کرنے کے جرم کا دفاع کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ دہشت گردی پورے ملک میں ہورہی ہے، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی۔

فاطمہ بھٹو نے یاد دلایا کہ پاکستان میں دسمبر کےد وران سزائے موت پر پابندی ختم کردی گئی تھی۔ پچھلے چھ مہینوں کے دوران لگ بھگ 100 افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں 8000 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں، ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ کی تمام اپیلیں مسترد کی جاچکی ہیں۔

انہوں نے کہا ’’یہ پشاور اسکول پر سفاکانہ حملے کا ردّعمل تھا، کہ سزائے موت کے مجرموں کو پھانسی دینے سے ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے بعد سے ہمیں کہیں زیادہ خونریزی دیکھنی پڑی ہے۔‘‘

وحدت نیوز (حیدرآباد) ایم ڈبلیو ایم وحدت یوتھ سندھ کے وفد نے اسماعیلی  جماعت خانہ میں اسماعیلی کمیونٹی کے صوبائی صدر اقبال علی اور کمری پرویز حیدرآبادکے موکھی جاوید ضلعی صدر عرفان علی سے مبارک کالونی حیدرآبادمیں ملاقات کی اورصفورہ واقعے پراظہار افسو س کیا اورتعزیت پیش کی وحدت یوتھ سندھ کے وفد میں صوبائی ڈپٹی سیکریٹری آغاندیم جعفری ایم ڈبلیوایم کے ضلعی ترجمان مولاناگل حسن مرتضوی ،مولانا ادیب علی آدابی ،ڈویزنل حیدرآبادکے سیکریٹری یوتھ سید دیباج حیدرجعفری بھی موجودتھے۔

وحدت نیوز( گلگت) خدا کی نصرت اورعوام کی تائید سے ہنزہ نگر کی پسماندگی آئندہ پانچ سال میں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور گلگت بلتستان کو ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن کرینگے۔ ماضی میں مفاد پرست سیاست کاروں نے علاقے کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اپنے مفاد کی خاطر عوامی مینڈیٹ کا کوئی احترام نہیں کیا۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدوار برائے حلقہ جی بی ایل اے 4 ہنزہ نگر II  ڈاکٹر علی محمد نے چھلت میں کارنر میٹنگ میں کارکنان اور عمائدین علاقہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کامنشور ایک خوشحال اور خود مختار گلگت بلتستان ہے ،ہماری جماعت برسر اقتدار آکر گلگت بلتستان کو وفاقی بھیک سے نجات دلائے گی اور علاقے کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرکے گلگت بلتستان میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھائے گی۔روزگار کی فراہمی اور غریب عوام کی خدمت ہماری اولین ترجیح ہوگی،میرٹ کی بالادستی کو یقینی بناکر عوام کی دہلیز پر انصاف فراہم کیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ بعض مفاد پرست جماعتیں ماضی کے پرانے اور فرسودہ نعروں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سیاسی دنگل میں اپنا راستہ بنانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور مختلف سازشوں کے ذریعے عوام کو آپس میں لڑواکر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام ہوشیار رہیں اور مفاد پرست عناصر کو پہچان لیں اور میرٹ کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تاکہ معاشرے میں صالح قیادت ابھر کر سامنے آئے اور حقیقی معنوں میں انقلابی اقدامات کے ذریعے گلگت بلتستان کی بگڑی ہوئی تقدیر کو سنوار سکیں۔انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین مظلوم و محروم طبقات کی نمائندہ جماعت ہے جو دنیا بھر کے محروم و مظلوم عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے ہر قسم کے تعصبات کا خاتمہ چاہتی ہے۔ انہوں نے کراچی میں دہشت گردی کے شکار ہونے والے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے فوجی آپریشن کو ناگزیر قرار دیا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے رہنما میثم جلالوی اور آصف صفوی کا کہنا ہے کہ ہ دن دور نہیں کہ جب قبلہ اول بیت المقدس اسرائیلی قبضہ سے آزاد ہوگا اور ہمارے فلسطینی بھائی واپس اپنے گھروں کو جائیں گے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی نیست و نابود ہونگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاؤس میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے فرمان پر 16 مئی یوم مردہ باد امریکہ کی مناسبت سے وحدت ہاؤس میں جاری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے قلب میں گھونپے گئے اس خنجر نے عالم اسلام کو تب سے زخمی کر رکھا ہے۔ سڑسٹھ برس ہوگئے، کسی دن ایسا نہیں ہوا کہ اس ارضِ مقدس فلسطین پر بے گناہ مسلمانوں کا خون نہ گرا ہو اور کوئی شام ایسی نہیں ہوئی کہ کسی ماں کی گود نہ اْجڑی ہو، 67برس ہو رہے ہیں کہ یہاں ہر روز قیامت ہے، ہر دن بلا ہے، ہر لمحہ مصیبت ہے، ہر ساعت دْکھ، درد اور ابتلا ہے، یہاں ہر روز زلزلے برپا کئے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امام خمینی ? کی فکر اور علامہ سید عارف حسین الحسینی ? کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے امامیہ نوجوانوں نے امریکہ کی اسلام دشمن پالیسی کی وجہ سے 16 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا، تاکہ اس پاک وطن میں امریکہ و استعماری مظالم کو آشکار کیا جاسکے، اس روز دنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ امریکہ ہی ہے جو مسلمانوں کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار ہے۔ رہنماؤں نے مزید کہا کہ ہم کل بھی اسرائیل کے جارحانہ اقدامات اور امریکہ کی سرپرستی نیز اس کے ظالمانہ، متکبرانہ، جارحانہ رویوں کی وجہ سے اسے مردہ باد کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں اور اس وقت تک کہتے رہیں گے جب تک دنیا اس کے نجس وجود سے پاک نہیں ہوجاتی اور امت اسلامی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر لیتی۔

يوم النكبہ ( يوم مرده باد امريكہ)

وحدت نیوز(آرٹیکل)النكبہ ايک فلسطينی اصطلاح ہے اس كا لغوی معنی ايک درد ناک مصيبت ہے۔ يہ اصطلاح اس زمانےكی طرف اشاره كرتی ہے جس دن دنيا كی استعماری طاقتوں نے كہ جنكی سربراہی امريكہ كر رها تها انهو ں نےملكر عالم اسلام كے دل سرزمين انبياء عليهم السلام فلسطين كو دنيا كے نقشہ سے مٹانے كی سازش كوعملی جامہ پہنایا. اور اربوں مسلمانوں كے قبلہ اول پر یہودی تسلط اور ظلم وبربريت اورطاقت كی بل بوتے پر نجس اسرائيلی حكومت قائم كرنيكا اعلان كيا. اور وهاں كے حقيقی باسيوں كو ہجرت پر مجبور كيا. 15 مئی 1948 كو 750000 فلسطينی مسلمانوں نے اسرائيليوں  كی بربريت اور قتل وغارت كی وجہ سے بے گھر هوئے اور مهاجر بنے.اورانكے 500 گاؤں تباه كئے گئے . انہیں زبردستی اپنے وطن سے نكالا گیا اسی لئے اس يوم كو فلسطينی يوم نكبہ كے نام سے یر سال مناتے ہیں اور اس عزم كا اظهار كرتے ہیں كہ هم يقيننا ايک نہ ايک دن واپس اپنے وطن لوٹیں گے اور اسرائيلی غاصب حكومت كا خاتمہ كريں گے. اور همارا ملک نجس صهيونيوں سے آزاد ہو گا.

15 مئی يوم مرده باد امريكہ كيوں؟

شهيد قائد علامہ السيد عارف حسين الحسينی ايک جهان اسلام كی با بصيرت قائد تهے انكی نگاه فقط پاكستانی مسائل پر نہیں بلكہ وه پورے جهان اسلام اور دنيا كے مستضعفين كا درد محسوس كرتے تھے.  اس لئے انهوں نے اسی يوم نكبہ  15 مئی كو پاكستان ميں "يوم مرده باد امريكہ "كانام دياتها. وه پاكستانيوں كو بتانا چاہتے تھے كہ يہ غاصب اسرائيلی وجود امريكہ كی مدد سے وجود ميں آيا . اور امريكہ كی مدد سے ہی قائم ہے.  تاكہ پاكستان کی غيور مسلم عوام اور جہان اسلام كے امريكہ نواز حكمرانوں اور عوام كوبتاياجائے كہ امريكہ كتنا مسلمانوں كا مخلص اور دوست ہے. جس كی دوستی  اور غلامی پر همارے حكمران فخر كرتے ہیں. اورشہید قائد یہ چاہتے تھے كہ پوری امت مسلمہ متحدہو  كر امريكی ہاتھوں كو اس خطہ سے كاٹے اور اس ناپاک اسرائيلی حكومتک كا خاتمہ هو.
حق العوده سے كيا مراد ہے؟    

فلسطينی مجبورا جہاں بھی جاكر آباد ہوئے انهوں نے اپنے وطن كو نہيں بهلايا. اور برملا پوری دنيا كے سامنے اظهار كرتے ہیں كہ اپنے آباءواجداد كی سرزمين پر واپس آنا ہمارا حق ہے اور اس "حق العوده" يعنی وطن واپس آنے کے حق سے ہم كسی قيمت پر بهی دست بردار نہیں ہونگے. اور ان کے اس عزم وارادے سے صهيونی اسرائيلی غاصب ہميشہ پريشان رہتے ہیں. اور چاہتے ہیں كہ انہیں كسی اور ملک ميں بسا كر انكا يہ حق ان سے چھین ليا جائے.


فلسطينيوں كی ہجرتيں:
•    1948 كی فلسطين سے هجرت اسرائيلی مظالم كی وجہ سے ہوئی۔ اور ان کے گھروں اور املاک پر يهودی قابض ہوئے. اور اپنی آبادياں تعمير كیں. اور فلسطينيوں كی ايک بہت بڑی تعداد اپنے ملک كے اندر كيمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے اور كچھ فلسطينيوں نے ہمسایہ ممالک ميں جاكر كيمپوں میں آباد ہوئے. اور كيونكہ مسلسل فلسطين ميں 67 سال سے جنگ جاری ہے تو فلسطينيوں كی ہجرت كا سلسلہ بهی جاری ہے.
•    1950 كے عشرے ميں عراق ,سعودی عرب اور ليبيا سے فلسطينی مزدوروں كو بڑی تعداد ميں ہڑتال کرنے كے جرم ميں نكالا گیا.
•    1980 کے عشرے كی ابتداء ميں جب فلسطينيوں كے تعاقب كی آڑ ميں اسرائيل نے لبنان پر قبضہ كيا تو لاكهوں فلسطينی لبنان سے ہجرت كر كے ليبيا , تيونس اور ديگر عرب ممالک ميں جا كر آباد ہوئے.
•    جب 1991 ميں عراقی صدر صدام حسين كويت پر حملہ كيا تو فلسطيی رہنما ياسر عرفات نے صدام كی حمايت كی اور جس كی بدولت كويت حكومت نے 2 لاكهـ فلسطينی جو وہاں كام كرتے تھے انہیں واپس آنے كی اجازت نہیں دی۔
•    1993 جب فلسطينيوں اور اسرائيل كے مابين اوسلو معاہده ہوا تو رد عمل كے طور پر ليبا كے صدر كرنل معمر قدافی نے دسیوں ہزار فلسطينيوں كو لیبیا سے نکال دیا.
•    2003 ميں جب امريکہ نے عراق پر حملہ كيا تو 21 ہزار فلسطينی جو وہاں مقيم تھے ہجرت پر مجبور ہوئے.
•    2007 ميں جب تكفيری دہشت گردوں نے شمال لبنان کی نہر البارد فلسطينی كيمپ كو اپنی آماجگاہ بنایا اور پهر لبنانی عوام اور لبنانی فوج پر حملے كئے. تو اس جنگ كے نتيجہ ميں 32 ہزار لوگ ہجرت پر مجبور ہوئےس. ياد رہے كہ ان تكفيری مسلح دہشت گردوں كو آل سعود كے اشاروں پر سعد الحريری پارٹی شام ميں داخل كرنے كے لئے وہاں پر اكٹھا كر رہی تهی.
•    شام فلسطينی عوام اور قضيہ فلسطين كا سب سے بڑا حمايت كرنے والا ملک تها . يہاں پر نكبہ 1948 سے آخری ايام تک فلسطينی عوام اور ليڈرشپ كی آمد جاری رہی. يہاں پر 6 لاكهـ سے زيادہ فلسطينی آباد تھے. اور انہیں عام شامی عوام كی طرح كے حقوق حاصل تھے. اور جب پوری دنيا جہان كے دروازے فلسطينئ جہادی وسياسی ليڈر شپ كے لئے بند ہو چکے تهے. امريكہ اور اسرائيل كی رضا اور انكے ڈر سے سب عرب حكمران انہیں اپنے  ممالک ميں پناه دينے پر راضی نہیں تهے. شام حكومت نے انكے لئے اپنے دروازے كهول رکھے تھے. انہیں پناہ بھی دی اور سپورٹ بهی كی. اور يہاں سے اميد تهی كہ آزادی فلسطين كی فوج تيار ہوگی اور بيت المقدس كوآزادكراياجائيگا. اسی لئے كئی دہائیوں سے مقاومت كی پناہ گاہ اس ملک كا اقتصادی اور سياسی محاصرہ كيا گیا. پھر امريكہ اور اسرئيل نے عرب ممالک كو تيار كيا كہ وه اپنے بنائے ہوئے تكفيری دہشت گردوں كے ذريعے اس ملک كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں اور وه فوج جو اسرائيل سے لڑنے كی تياری كر رہی ہے اسے تكفيری مسلح گروہوں سے لڑائی ميں مصروف كردیا جائے.

افسوس تو اس بات كا ہے كه ملک بھی مسلمانوں كا تباه ہو رہا ہے دونوں طرف سے قتل ہونے والے بهی مسلمان ہیں. اور جنگ پر سرمايہ بهی عرب مسلمانوں كا خرچ ہور ہا ہے۔ كاش يہ خليجی ممالک بالخصوص قطر اور سعودی عرب وه سرمايہ جو انہوں نے شام وعراق كی تباہی پر صرف كيا ہے اگر وه ان ممالک كی ترقی اور آبادی پر صرف كرتے ہوتے تو هميشہ هميشہ كے لئے ان پر حكومت كرتے اور تاريخ بهی انہیں اچھے الفاظ سے ياد كرتی.

اے کاش شام ، حزب اللہ اور فلسطینی مجاہدین کو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ میں مدد کی ہوتی نہ ان کو انہی کی داخلی جنگ میں الجھایا ہوتا تو آج اسرائیل کا وجود اس صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا ۔ یہ وہ خیانت ہے جو عرب ممالک نے تحریک فلسطین کے ساتھ کی اور خانہ خدا یعنی بیت المقدس کو اسرائیلی کے پنجے میں ہمیشہ کے لئے دے دیا۔ لیکن تاریخ کبھی بھی خیانت کرنے والوں کو معاف نہیں کرتی۔ اور آج پوری دنیا کے سامنے وہ ممالک کہ جنہوں نے مظلوم اور بے گھر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی آج ان کا اصل چہرہ دنیائے اسلام کے سامنے بے نقاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے فلسطینی بھائی واپس اپنے گھروں کو جائیں گے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی نیست و نابود ہونگے۔ انشاءاللہ

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر شید شفقت شیرازی



وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اسکردو چندا میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی صفورا چونگی کے دلخراش واقعے سے واضح ہوگیا کہ سندھ اور وفاقی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے باوجود اسماعیلی برادری کا قتل عام عالمی تکفیری سازشوں کا شاخسانہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ صفورا کراچی کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے دونوں حکومتیں دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ نہیں حالیہ واقعہ تکفیری مدارس کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے وزیرخارجہ اور امام کعبہ کی پاکستان آمد اور مخصوص افراد سے ملاقات ، مخصوص تنظیموں اور مدارس میں دورہ جات اور انکی اخلاقی و مالی معاونت سے تکفیری ذہنیت کو فروغ ملا ہے ۔ نواز حکومت کی دہشتگرد نواز پالیسیوں کی وجہ سے سانحہ صفورا پیش آیا۔ نواز حکومت نے تکفیری اجماعات اور تظاہرات کی اجازت دی جس کے سبب تکفیر ی عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ کراچی میں اہل تشیع ، اسماعیلی اور سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دہشتگردی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے ۔ان حملوں کے پیچھے تکفیری عناصر کا ہاتھ جنہوں نے اسماعیلی برادری کی تکفیرکے بعد جواز فراہم کیے ۔ تکفیریت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور نواز حکومت ان مدارس کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تیارنہیں جہاں تکفیر کی جاتی ہے ۔ ہم سیکیورٹی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام اداروں کے خلاف کاروائی کرے جہاں تکفیریت کو فروغ دی جاتی ہے اور دہشتگردی کے لیے جواز فراہم کی جاتی ہے۔ تکفیر پورے ملک اور تمام سیکیورٹی اداروں کے لیے خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور پورے ملک میں دہشتگرد دھندناتے پھر رہے ہیں اور اب یہ جماعت گلگت بلتستان کی طرف رخ کرنا چاہتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں نواز لیگ کے لیے کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہاں کی عوام لسانی ، علاقائی اور مذہب سے بالاتر ہوکر میرٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان تمام جماعتوں کو مسترد کریں گے جنہوں نے ماضی میں اس عوام کے ساتھ دھوکہ کیا اور انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے علاوہ یہاں پر تفرقے کو ہوا دی اور مسلکی اختلافات میں اضافہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے عام انتخابات میں دھاندلی کے شواہد سامنے آنے کے بعد گلگت بلتستان انکی حیثیت صفر ہو کر رہ گئی ہے، یہ جماعت اپنی شکست کو دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے اور اوچھے ہتھکنڈے پر اتر آئی ہے ، طاقت کے استعمال ، قبل از انتخابات اور اعلانات کے ذریعے یہاں کے عوام کو یرغمال بنانا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات فوج کی نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات فوج کی نگرانی کرائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے گی اور انکے حقوق کی جنگ پورے ملک میں لڑی جائیگی۔ ہم گلگت بلتستان کوبااختیار اورخودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے نواز لیگ کی حکومت کو یہ آفر دی تھی کہ اگر یہ حکومت مخلص ہے تو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے اور انکو وہ مقام دے جس کا یہ خطہ حقدار ہے تو ہم پورے گلگت بلتستان میں انکے حق میں دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں ۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ نواز لیگ یہاں کے عوام سے مخلص نہیں وہ یہاں پر حقوق دینے نہیں بلکہ یہاں کے وسائل لوٹنے آئے ہیں ۔عوام آئندہ انتخابات میں ان تمام جماعتوں کو مسترد کریں گے جنکی وجہ سے یہ خطہ اب تک محروم رہا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اس قوم کو ہمیشہ لاشوں کے تحفے دیے۔ یہ دونوں پارٹیاں جب بھی اقتدار میں آئیں ملک میں دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ سانحہ صفورا جیسی بربریت دیکھنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو اس ملک میں صرف دہشت گردوں کا راج ہوگا۔ وہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے علماء کے وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو پھر ملک بھر کے ان تمام مراکز کے خلاف بھی آپریشن کرے جہاں دہشت گردی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ جب تک یہ دہشت گرد ساز فیکڑیاں بند نہیں ہوں گی، تب تک ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے اس بیان کو سراہا کہ سانحہ صفورہ میں ملوث تمام دہشت گردوں سمیت ان کے سہولت کاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔  دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افواج پاک کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہیے کہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر فیصلہ سازی کرے۔ کراچی میں رونما ہونے والے اتنے بڑے سانحہ کے بعد گلگت بلتستان کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اگر اقتدار میں آجاتے ہیں تو پھر ہماری یہ پُرامن وادی بھی کراچی و کوئٹہ کی طرح آگ و خون کے شہر میں تبدیل نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے ملک میں امن کے خواں ہیں۔ پورے پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے موقع پرست سیاستدانوں کی اس علاقے میں کوئی جگہ نہیں۔ ہم گلگت بلتستان ان کے حوالے کرکے اس کو جہنم نہیں بنا سکتے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree