وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی شروع سے ہی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔
اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں ہزار ہا رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔
حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔
حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای اس عظیم عبادت اور حجاج کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:(قال الله تعالی: وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَج یا ْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاتِينَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشہَدُوا مَنَافِعَ لہُمْ وَيَذکُرُوا اسْمَ اللہ ِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَات} آسمانی آواز بدستور دلوں کو بلا رہی ہے اور صدیاں اور زمانے بیت جانے کے بعد بھی انسانیت کو توحید کے محور پر جمع ہو جانے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ دعوت ابراہیمی تمام انسانوں کے لئے ہے اور اس اعزاز سے سب کو نوازا گیا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ سماعتیں اسے نہ سنیں اور غفلت و جہالت کی گرد تلے دبے بعض دل اس سے محروم رہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنے اندر اس دائمی اور عالمی ضیافت کا حصہ بننے کی صلاحیت پیدا نہ کر پائيں یا کسی بھی وجہ سے یہ توفیق انھیں حاصل نہ ہو۔ آپ اس نعمت سے بہرہ مند ہیں اور ضیافت الہی کی پرامن وادی میں آپ وارد ہو چکے ہے۔ عرفات و مشعر و منی، صفا و مروہ و بیت، مسجد الحرام و مسجد نبوی، ان مناسک اور شعائر کی ہر ایک جگہ روحانیت اور روحانی ارتقا کی ایک کڑی ہے اس حاجی کے لئے جو اس توفیق کی قدر و منزلت سے آگاہ ہے اور اس سے اپنی طہارت کے لئے استفادہ کر رہا ہے اور اپنی بقیہ عمر کے لئے زاہ راہ جمع کر رہا ہے۔
ایک اہم نکتہ جو ہر صاحب فکر اور تجسس رکھنے والے انسان کو دعوت فکر دیتا ہے، وہ تمام انسانوں، تمام نسلوں کے لئے ہر سال ایک خاص جگہ اور ایک خاص وقت پر دائمی جائے ملاقات کا تعین ہے۔ وقت اور مقام کی یہ وحدت فریضہ حج کے اصلی رموز میں سے ایک ہے۔ بے شک "لِّيَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ" کا ایک نمایاں مصداق خانہ خدا کے پہلو میں امت اسلامیہ کے افراد کی یہی سالانہ ملاقات ہے۔ یہ اسلامی اتحاد کا راز اور اسلام کی امت سازی کا ایک نمونہ ہے جو بیت اللہ کے زیر سایہ ہونا چاہئے۔ خانہ خدا کا تعلق سب سے ہے۔ سَوَاءً الْعَاکِفُ فِيہِ وَالْبَادِ ۔
ہمیشہ اور ہر سال اس مقام پر اور ایک خاص وقت پر حج اپنی زبان گویا اور صریحی منطق سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور یہ دشمنان اسلام کی خواہش کے بالکل برعکس ہے جو تمام ادوار میں اور خاص طور پر دور حاضر میں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل محاذ آرا ہونے کی ترغیب دلاتے تھے اور دلا رہے ہیں۔ آج آپ مستکبر اور جرائم پیشہ امریکہ کا رویہ دیکھئے۔ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اس کی اصلی پالیسی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس کی خباثت آمیز خواہش اور کوشش، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام، ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دینا، ظالم محاذ کی پشت پناہی کرنا، اس کے ہاتھوں مظلوم دھڑے کی بے رحمی سے سرکوبی کرنا اور اس ہولناک فتنے کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھنا ہے۔ مسلمان ہوشیار رہیں اور اس شیطانی پالیسی کو ناکام بنائیں۔ حج اس ہوشیاری کی زمین فراہم کرتا ہے اور یہی حج میں مشرکین اور مستکبرین سے اعلان برائت کا اصلی فلسفہ ہے۔
ذکر خدا حج کی روح ہے۔ اپنے دلوں کو ہم اس باران رحمت سے زندگی اور نشاط بخشیں اور اس پر اعتماد و توکل کو، جو در اصل قوت و شکوہ اور عدل و خوبصورتی کا سرچشمہ ہے، اپنے دلوں میں گہرائی تک اتاریں۔ ایسی صورت میں ہم دشمن کی چالوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ حجاج کرام! آپ شام، عراق، فلسطین، افغانستان، یمن، بحرین، لیبیا، پاکستان، کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں کے مظلوموں اور امت اسلامیہ کو اپنی دعا میں فراموش نہ کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ امریکہ، دیگر مستکبرین اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھ کاٹ دے۔)
آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئےشیطان صفت تکفیری داعشی گروہ کی مادی مدد کر کےاورانہیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔یمن کے مظلوم مسلمانوں کو حج جیسے عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ آخر میں تمام حجاج کرام سے التماس ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق جبکہ ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے خصوصی دعا کریں۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وزیر اعظم عمران خان نےدورہ امریکہ میں پاکستان کے بیانے کو بہتر انداز میں پیش کیا،علامہ راجہ ناصرعباس
وحدت نیوز(اسلام آباد) مقبوضہ فلسطین پر امریکی موقف کے پیش نظر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر اعتمادکرنا مشکل ہے ۔امریکہ کے فیصلوں نے ہمیشہ پاکستان کو مشکل سے دوچار کیا ہے وزیر اعظم عمران خان نےدورہ امریکہ میں پاکستان کے بیانے کو بہتر انداز میں پیش کیا،ہمیں ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر دنیا سے بات کرنا ہے سابقہ حکمرانوں کی جی حضوری نے ملکی وقار کو نقصان پہنچایا ہے۔امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کرنا ہے ملکی مفاد میں ہے، ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ پر میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے بیانات کے بعد دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کسی قسم کی بے چینی اور جنگ نہیں چاہتا۔ ہم گزشتہ ادوار کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ستر ہزار جانوں اربوں ڈالرز کے نقصان کی شکل میں بھگت چکے ہیں،امریکہ کی جنگی جنونیت کے مقابل خطے میں امن کی خواہش اور ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کی خارجہ پالیسی ملکی امن استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔
انہوںنے مزیدکہاکہ امریکہ رو بہ زوال ہے دنیا میں پاکستان کے وقار اور وطن عزیز کی ترقی کے لئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی آزادانہ روش کو مظبوط بنانا ہو گا ۔ امریکی صدر کےمسئلہ پر کشمیر ثالثی پیشکش نے ہندوستان کا کشمیر پر موقف کی تردید کر دی ہے جنوبی ایشیا میں پائدار امن کے لئے کشمیر حل طلب مسئلہ ہے ۔ مظلوم کشمیری عوام کا لہو ضرور رنگ لائے گا اور انشاءاللہ انہیں بھارتی ظالم وجابر قابض افواج سے ضرور آزادی مل کر رہے گی ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امریکہ نا قابل اعتماد دوست ہے جس کے فیصلوں نے ہمیشہ پاکستان اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ کے جنگی جنون کے مقابل امن کی خواہش اور ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے لیے امن و اخوت کا پیغام پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہئے۔انہوں نےکہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش اہمیت کی حامل ہے۔
انہوںنےکہاکہ ہمیں یقین ہے کہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا خون ناحق آزادی کشمیر کی نوید ثابت ہو گا۔ کشمیر کے مقدر کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔ امریکن صدر کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کشمیر پر بھارتی موقف غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نےکہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر غیر منصفانہ موقف کے پیش نظر کشمیر سے متعلق ٹرمپ پر اعتماد کرنا بہت مشکل ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل )اسلامی تعلیمات کے مطابق نعمت پر شکر ادا کرنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے، کیونکہ شکر نعمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور پہلے سے عطا شدہ نعمتوں کی بقاء کی ضمانت بھی ہے
اس وقت اللہ تعالی کے فضل لامتناہی سے ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت وجود رکھتی ہے جو بہت سی خوبیوں کا ایک حسین مرقع ہے۔
اگر ان کی علمی زندگی پہ نظر کریں، تو انہوں نے قم المقدسہ سرزمین قیام وانقلاب پر تحصیلات علوم آل محمد کے لئے تقریبا اٹھارہ سال کا عرصہ گزارا اور حوزہ علمیہ کے عظیم علماء وفقہاء سے کسب فیض کیا. صرف بحث خارج جیسے عمیق، مفید اور انتہائی اہم درس میں تقریبا دس سال مسلسل شرکت کی، اور جن مجتہدین سے کسب فیض کیا، وہ اپنے زمانے کے بہترین استاد شمار ہوتے ہیں، جن میں آية الله العظمى المرحوم مرزا الشيخ جواد تبريزي قدس سرہ ، آية الله الشيخ وحيد خراساني، آیۃ اللہ العظمی الشیخ مکارم شیرازی اور العلامة استاذ الشیخ اعتمادی (جو درس وتدریس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) شامل ہیں۔
جبکہ عرفان وتفسیر جیسے عظیم علوم میں، آیة اللہ العظمی الشیخ جوادی آملی و آیۃ اللہ العظمی حسن زادہ آملی سے فیض حاصل کیا جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔
عربی ادب جو دینی تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس علم کو اپنے زمانے کے بہترین استاد علامہ الشیخ مدرس افغانی سے حاصل کیا، اور بلا شبہ مدرس افغانی صاحب، عربی ادب میں ید بیضا کے مالک تھے
اور جب تک قم میں رہے، ہمیشہ درس وتدریس میں مشغول رہے، اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ علمیہ قم کے ایک نمایاں محصل واستاذ اور مدیر حوزہ تھے.
بلاشبہ اگر اجتماعی ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان نہ آتے، تو آج درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے
۔جہاں تک محور مقاومت سے وابستگی کا تعلق ہے، تو یہ وابستگی پچھلے 35 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، یہ اس زمانے میں قم رہے، کہ جب محور مقاومت کے اعلی سطح کے رہنما وہیں قم میں موجود تھے، اور ان سے ہمیشہ رابطہ میں رہے، سید حسن نصر اللہ اور شہید محراب آیۃ اللہ السید باقر الحکیم ان رہنماؤں میں سرفہرست ہیں، یہ نعمت ان کے علاوہ شاید بہت کم پاکستانی علماء کو میسر ہوئی ہے۔امام خمینی ، فرزند امام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینى اور رھبر معظم انقلاب اور ان کے خط سے وابستگی انقلاب کی ابتداء سے رہی اور آج تک قائم ودائم ہے۔قائد شہید کے زمانے میں تحریک کے ایک فعال اور نہ تھکنے والی شخصیت کے طور پر سامنے آئےاور شہید مظلوم بھی ان سے کافی لگاؤ رکھتے تھےاور انکی قیادت کے زمانے میں تحریک قم کے روح رواں تھے۔
معاشرے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا امام علی (علیہ السلام) کے ان ارمانوں میں سے ہے، جن کی خاطر آپ کوفہ کے ویرانوں میں روتے رہے، اس مقدس فریضے کے انجام دینے کے لئے ان کی خدمات کسی سے چھپی نہیں۔ان کے تربیت یافتہ طلبہ اس وقت حوزہ قم، نجف اشرف اور دمشق (راقم الحروف کے علاوہ) کے بہترین طلبہ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے کئی ایک اسلامک یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں، یہ طلبہ اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ جو کہ ایک دینی طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے
عزاداری جو کہ ہمارے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے وہ خود ایک بہت بڑے عزادار اور مجالس عزاء کے بانی ہیں. اس کے علاوہ اس کے معیار کو بلند کرنا، اسے صحیح جہت دینا، اس سلسلے میں ان کی کوششیں قابل قدر ہیں، باقی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اچھے، پڑھے لکھے اور درد رکھنے والے خطباء تیار کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی ہمیشہ صف اول میں نظر آئے
ذاکرین امام حسین (علیہ السلام) کی تاثیر معاشرے پر کسی سے چھپی ہوئی نہیں، ان سے رابطہ رکھنا، انہیں صحیح جہت دینا، انہیں قریب کرکے ان کی بعض غلطیوں کی انتہائی اچھے انداز سے اصلاح کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی، اور پڑھے لکھے نئے ذاکروں کی تربیت (جو ذاکری کو ہدایت خلق کا وسیلہ سمجھتے ہیں) بھی کر رہے ہیں۔
جس زمانے میں اجتماعی وسیاسی امور کی قیادت سنبھالی وہ ایک پر آشوب اور تشیع پاکستان کے لئے ایک کٹھن دور تھا. سب ذمہ دار افراد جانتے ہیں کہ وہ زمانہ اندورنی اور بیرونی دونوں حوالوں سے انتہائی مشکل اور حساس زمانہ تھا، مشکلات کے پہاڑ اور انہیں حل کرنے کے لئے ایک ایسے رستے سے گزرنا جہاں سوائے خاردار جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ ہولیکن جہاں صرف بھروسہ اللہ پہ ہو، اور عزم و ارادے کی پختگی انتہاء پہ ہو، اخلاص اور بصیرت وفہم و فراست کی بیساکھی ہاتھ میں لئے، انہوں نے قوم کی بکھری ہوئی طاقت کو اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی تسبیح کے دانوں کی طرح پھر سے یکجا کرکے، بہت سارے قومی مسائل حل کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجے میں ہم ایک دفعہ پھر ایک سیاسی اور اجتماعی قوت کے طور پر سامنے آئیں، اور جیسے پہلے آپ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا، اب نہیں کیا جاتا
اس زمانے میں انہوں نے قوم کی آواز کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کی جہاں ایک طرف بیرونی مخالفین کی جانب سے سخت دباو اور مشکلات کا سامنا تھا، تو دوسری جانب اندورنی طور پر انتخابات اور دیگر مسائل کو کچھ اس طرح سے پیچیدہ کرکے پیش کیا گیا کہ اس میں شرکت گویا دین خدا کے خلاف اعلان جنگ کی مانند ہے، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود، سب طعن وتشنیع کے باوجود انہوں نے بھر پور انداز میں، انتخابات میں شرکت کی، اور حالیہ حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کے بعد جو کہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا آپکی جماعت ایک پر امن، سنجیدہ، قومی مسائل پر حل اور مشورہ دینے والی اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی
بعض دفعہ مذہبی جماعتیں یا مذہبی رہنما اپنے مذہبی ہونے اور وطن سے محبت کرنے میں توازن نہیں پیدا کر پاتے، لیکن یہ ان کی فہم وفراست اور حکمت و دانشمندی کی وجہ ہے کہ خود بھی وطن سے محبت کرنے والوں میں سرفہرست رہے، اور وطن کی ترقی کو بھی ہمیشہ اولین ترجیح سمجھا۔
اتحاد بین المسلمین جہاں ہمارا انسانی، اخلاقی، دینی اور مذہبی فریضہ ہے وہاں یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس سلسلے میں ان کی کوششیں آپ سب کے سامنے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جماعت کے ساتھ دھرنوں میں شرکت ہو، یا دوسرے اہل سنت رہنماؤں اور پارٹیوں کے ساتھ انتہائی اچھے انداز سے تعلق قائم رکھنا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر ان کی وابستگی اور تعلق ایسے افراد یا جماعتوں سے ہے جو اس وقت نہ صرف عالمی استکبار اور ظلم و ستم کے علمبرداروں سے نبرد آزما ہیں بلکہ ہمارے مملکت خداد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی بھی ہیں۔(طوالت کے لئے معذرت چاھتا ھوں لیکن یقین رکھیں اس وقت ہمارے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک انتہائی مخلص شخصیت موجود ہیں، جو علم وعمل کے ساتھ ساتھ، عالمی حالات سے نہ صرف باخبر بلکہ گہری نظر رکھنے والے ایک مضبوط سیاسی بصیرت کے حامل وطن سے محبت کرنے والے اپنی قوم کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں،میں اپنے مربی واستاد اور ایک شفیق روحانی باپ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی بات کر رہا ہوں، اللہ ان کی توفیقات خیر میں اضافہ کرے اور انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ طولانی عمر عطا کرے۔)
محمد اشفاق۔23/7/2019۔
وحدت نیوز(گلگت) ضلع غذر کے نالے ہندرب سے مغوی افراد کو فوری بازیاب کروایا جائے۔اغوا کار کا علم ہونے کے باوجود اب تک کاروائی نہ کرنا انتہائی زیادتی ہے۔غذر سمیت گلگت کے تمام نالوں میں ناخوشگوار واقعات سے بچنے کیلئے گلگت سکائوٹس کی چوکیاں قائم کی جائیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے ہندرب نالے سے مغوی افراد کو تاحال بازیاب نہ کروانے اور کسی اغواکاروں کیخلاف کسی قسم کی کاروائی نہ کرنے پر صوبائی حکومت کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے حدود میں خیبر پختونخواہ کی جانب سے مسلسل تجاوزات ناقابل برداشت ہیں۔گورنر گلگت بلتستان اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے مغوی افراد کی فوری بازیابی کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ ہندرب نالے سے دن دیہاڑے اسلحے کے زور پر 4 افراد کا اغوا حکومت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں جبکہ اغوا کار کا نام بھی سامنے آنے کے باوجود کاروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ اغواکار بااثر ہے اور وہ طاقت کے زور پر غذر کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔حکومت مغویوں کی فوری بازیابی کیلئے کاروائی کرے اور رکن اسمبلی سمیت واقعے میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کرکے قانونی کاروائی کی جائے۔
وحدت نیوز(گلگت) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان آغا سید علی رضوی کی سربراہی میں ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے وفد نے نو منتخب صوبائی صدر پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان سید جعفر شاہ کے ساتھ ملاقات کی ۔آغا علی رضوی نے جعفرشاہ کو پی ٹی آئی گلگت بلتستان کا صدر منتخب ہونے پر مبارک پیش کی ۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے ملکر کام کرنے اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں، سیاسی اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے اور مختلف ایشوز پر اصولی موقف اپنانے پر اتفاق کیا۔جعفرشاہ نے ایم ڈبلیوایم کے وفد کا آمد پر شکریہ اداکیا۔وفد میں ایم ڈبلیوایم کے رہنماغلام عباس، الیاس صدیقی ،عارف قمبری ، الیاس موسوی ودیگر بھی شامل تھے ۔