وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے وزیر ستان اور تربت میں سکیورٹی فورسزپر دہشت گردوں کے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ دونوں دہشت گرد حملوں میں پاک فوج کے 10 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔مادر وطن پر اپنی قیمتی جانیں قربان کرنے والے تمام شہداءکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو اس وقت بارڈر کے اندر اور باہر دونوں جانب سے شدید خطرات کا سامناہے ۔ داعش کا منحوس سایہ ہماری سرحدوں پر منڈلارہا ہے ۔ پاکستان کے غیور عوام اپنے مسلح افواج کے شانہ بشانہ تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیارہیں ۔ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ۔ بزدل دشمن پیچھے سے وار کرکے بہادری کے دعوے کرتا ہے ۔ بھارت اور این ڈی ایس پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپہ ہیں ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) وفاقی وزارت مذہبی امور نے حج پالیسی کی طرح زیارات مقامات مقدسہ کیلئےزیارات پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزراء اور شیعہ علما و عمائدین کاباضابطہ مشاورتی اجلاس وزارت مذہبی امور کے دفترمیں منعقدہوا۔تفصیلات کے مطابق زیارات پالیسی کے تحت حج عمرہ کی طرز پر ٹوور آپریٹرز ماڈل برائے زائرین تیار کیا جائے گا۔ زیارات پالیسی کی حج 2019ء کے بعد کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔وزارت مذہبی امور کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا۔
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے شرکائے اجلاس کے سامنےمسائل کے حل کیلئے لانگ ٹرم پالیسی کے نکات پیش کرتےہوئے کہاکہ وائس آف کاروان سالار، بلوچستان شیعہ کانفرنس، سندھ خیبرپختونخواکی مختلف تنظیمات سے مشاورت کے بعد ایک پالیسی دستاویزتشکیل دی ہے جسے وفاقی وزارت مذہبی امور کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
لانگ ٹرم پالیسی پر پیش رفت میں وقت درکار ہے جبکہ محرم اور صفر ایک ماہ کا قلیل وقت رہ گیاہے لہذٰا شارٹ ٹرم پالیسی کے تحت کچھ ہنگامی اقدامات کرنا ضروری ہیں ، سب سے پہلے وزارت مذہبی امور کے تحت بنائی گئی امور زائرین کمیٹی کو فوری طور پر ختم کیا جائے جس سے وفاق المدارس الشیعہ پہلے ہی علیحدگی اختیارکرچکاہے ۔ اس کمیٹی کے خاتمے کے ساتھ ہی پرانے نظام کو دوبارہ نافذالعمل کیا جائے ۔ دوسرے صوبوں سے زیارت کیلئے جانے والے زائرین سے بلوچستان میں داخلے پر این او سی کا قانون ختم کیا جائے، بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہےاور اپنے ہی ملک کے ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کیلئے کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ کوئٹہ سے تفتان تک 635 کلومیٹر کا راستہ ہے جس میں کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں، زائرین کو نماز، استراحت اور بیت الخلا ءکی سہولیات فراہم کی جائیں۔علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ کانوائے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ زائرین کو کوئٹہ اور تفتان میں لمبے عرصے تک قیام کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔اس پر حکام نے یقین دہانی کروائی کہ انشاءاللہ کوئٹہ تفتان روٹ پر ہر 150سے 200کلومیٹر کے فاصلے پر استراحت گاہیں اور ہوٹل قائم کیئے جائیں گے ۔
سربراہ مجلس وحدت مسلمین نے کہا کہ بغداد میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے عملے کو نجف یا کربلا مین تعینات کیا جائے تاکہ زیارات کے دوران جن زائرین کے پاسپورٹ گم ہوجاتے ہیں انہیں اپنے ملک واپس آنے کیلئے فوری دستاویزات فراہم کی جاسکیں۔انہوں نے حکومتی نمائندوں سے کہا کہ جو لوگ تفتان بارڈر پر دوران اربعین کیمپ (موکب)لگانا چاہتے ہیں انہیں این او سیز جاری کی جائیں اورعراق میں موکب کیلئے ادویات لے جانےوالے افراد کو سہولیات فراہم کی جائیں۔
حکام نے کہاکہ ڈی جی حج کی طرح ڈی جی زیارات تعینات کیاجائے گا۔پہلے سے موجود زیارت ڈیکس کو مزید وسعت دی جائے گی۔زیارت ڈیکس کے تحت ڈائریکٹر جنرل کی کربلا میں تعیناتی جبکہ مشہد اور نجف میں زیارتی آفیسرز تعینات کیئے جائیں گے۔کربلا میں پاکستان ہاؤس کی فوری تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔حج کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں قائم حج مشن کی طرز پر ایران ، عراق اور شام میں زائرین مشن قائم کیئے جائیں گے۔ زائرین کی آمد ورفت کیلئے ٹرین ، بس ، فیری اور ہوائی جہاز کے ذرائع کا موثر استعمال یقینی بنایا جائے گا۔
وزارت مذہبی امور نے کہاکہ کوئٹہ میں موجود حاجی کیمپ کو زائرین کیلئےکھولا جائے کیونکہ حج کے علاوہ یہ پورا سال بند رہتا ہے۔اس پر علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہاکہ حاجی کیمپ کوئٹہ شہر سے باہر ہونے کے باعث وہاں کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی سہولیات کا فقدان ہے لہٰذا وہاں ایک مارکیٹ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ زائرین کو کوئی مشکل پیش نا آئے ۔
اجلاس میں ایران اور عراق زیارتوں کی پالیسی کے خدوخال پر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور نے بریفنگ دی۔ اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ زیارات میں حضرت امام رضاؑ، حضرت امام حسینؑ، امام عبدالقادر جیلانی، امام ابو حنیفہ، بہاالدین نقشبندی بخاری کے مزارات شامل ہیں۔وزارت مذہبی امور کے حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ سال میں تقریباً6لاکھ سے زائد زائرین ایران ،عراق جاتے ہیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور نےمزید کہاکہ وزارت مذہبی امور کےماتحت زائرین ڈیسک 1979سے فعال ہے جوکہ پاکستا ن اور ہندوستان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت تشکیل دی گئی تھی جس کے تحت ہر سال ہندو، مسلم اور سکھ یاتری پاکستان اور ہندوستان کے مختلف مقدس مقامات کی زیارت پر جاتے ہیں ۔
اس موقع پر پیر نور الحق قادری نے کہا کہ اس سال ایران، عراق جانے والے زائرین کے لئےزیارات پالیسی کی حج کے فوری بعد وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے کہا کہ امسال زائرین ایران وعراق حج عمرہ کی مانند زیارات پر جائیں گے۔ حکومت زائرین کو مکمل سہولیات اور سکیورٹی فراہم کرے گی۔پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں شیعہ علمائے کرام کے ساتھ ملکر زیارات پالیسی مرتب کی جائے گی۔
زیارات پالیسی کی تشکیل کے لئے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری ،پارلیمانی سیکریٹری برائے مذہبی امور آفتاب جہانگیر ، وفاقی سیکرٹری محمد مشتاق احمد،علامہ امین شہیدی، علامہ عارف واحدی ،علامہ محمد حسین اکبر، غضنفر مہدی،سید محسن شہریار نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کراچی) سندھ حکومت شہر قائد میں آوارہ کتوں کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات کرے۔شہر کے مختلف علاقوں میںلاکھوں معصوم بچے اور دیگر شہری ان کتوں کی ذرپر ہیں ۔آواہ اور پاگل کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ شہریوں کو ویکسینیشن کے حصول میں بھی شدید دشواری کا سامنا ہے ۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے پولیٹیکل سیکریٹری میر تقی ظفرنے وحدت ہاؤس کراچی سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کیا۔
انہوں نے کہاکہ فیڈرل بی ایریا، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی،، ناظم آباد، پاپوش،، اورنگی ٹاؤن، سولجر بازار، ملیر، جعفرطیار، سعود آباد، محمود آباد، لانڈھی ،کورنگی ، گلستان جوہر ، کھارادراور شہر کے دیگر علاقوں میں آوارہ کتوں نے شہریوں کی آمد رفت کو مشکل بنا دیا ہے ۔ ان آوارہ اور پاگل کتوں کے خوف نے معصوم بچوں اورخواتین کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ اسکولوں کے اطراف میں یہ آوارہ کتے طلباء کیلئے بھی خوف کی علامت بننے ہوئے ہیں ۔ شہر قائد میں طویل عرصہ سے ان کتوں کے خلاف کوئی آپریشن عمل میں نہیں آیاجس کےسبب شہر میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے بعد لگایا جانے والا ٹیکہ بھی نایاب بناہواہے ۔ چھوٹے بڑے اسپتالوں میںverorabانجیکشن ناپید ہوچکے ہیں ۔ کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ شہری15سے 20ہزار روپے کے انجیکشن پرائیوٹ اسپتالوں سے لگوانے پر مجبورہیں ۔ صوبائی حکومت اور شہری حکومت آوارہ کتوں کے خاتمے کے لئے فوری اورٹھوس اقدامات بروئے کار لائے اور شہر کے تمام جھوٹے بڑے سرکاری اسپتالوں میں verorabانجیکشن کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے ۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دنیا نائیجیریا میں جاری انسانیت سوز مظالم کا نوٹس لے کیونکہ بہاری حکومت نے جس طرح معصوم انسانوں کا قتل عام کیا ہے اورپرامن شہریوں پر گولیاں چلائی ہیں اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ نائیجریا کے مرد آھن علامہ محمد ابراہیم زکزاکی اور ان کے ساتھیوں کے بے مثال صبر اور حوصلے نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، علامہ زکزاکی اپنے چھ جوان بیٹوں کی المناک شہادت اور اپنی اھلیہ سمیت طویل اسیری کے باوجود پہاڑ کی طرح مستحکم میدان میں کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابراہیم زکزاکی کی حمایت عالم انسانیت پر فرض اور قرض ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالم انسانیت اس فرض اور قرض کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر میں سراپا احتجاج بن چکی ہے۔ لندن،نیویارک انڈونیشیا سے لے کر پاکستان تک کروڑوں انسان حضرت بلال حبشی ؓ کے اس حقیقی پیرو کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ زکزاکی کسی ایک سرزمین کے ہی نہیں اب ایک عالمی لیڈر کا درجہ رکھتے ہیں۔ دنیا کے با ضمیر انسان زکزاکی خاندان اور ان کے ساتھیوں کے لہو کے ہر قطرے کا ظالموں سے جواب لیں گے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ چند روز قبل ایک بار پھر نائیجریا میں نائیجیرین پارلیمنٹ کے سامنے اور ملک کی شاہراہوں پر جس طرح پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں اس نے عصر حاضر کے یزید و حرملا کا چہرا دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ انہوں نے اپیل کی کہ 29جولائی کو اسیر بے خطا زکزاکی کی پیشی سے قبل 28 جولائی کو زکزاکی کے حق میں عالمی یوم احتجاج منایا جا رہا ہے دنیا بھر کے اہل حق کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مظلوم زکزاکی کے حق میں آواز بلند کریں۔
وحدت نیوز(کراچی) صوبائی سیکریٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ و دعا کمیٹی کے زیر اہتمام ہفتہ وار دعائے توسل برائے صحت و سلامتی آیت اللہ شیخ ابراہیم زکزاکی،انکی اہلیہ و شیعیان علیؑ نائجیریاکی رہائی کیلئے محفل شاہ خراسان روڈ پر دعا اور احتجاج کا انعقاد کیا گیا۔احتجاجی جلسہ اور دعامیں مختلف شخصیات، شعراء، رہنماو?ں اور مومنین و مومنات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مولانا نعیم الحسن نے دعائے توسل کی تلاوت کا شرف حاصل کیا۔ دوران دعا شاعر اہلبیتؑ انوار رضوی، ولی حسن نیشیخ ز کز اکی کے لئے خصوصی کلام پیش کیا۔
بعدازاں مولانا نعیم الحسن، صوبائی رہنما ناصر الحسینی نے شرکائے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہلبیتؑ اطہار علیہ السلام پر بھی ظلم و ستم ہواآج انکے ماننے والوں پر پوری دنیا میں ظلم کیا جارہا ہے۔ آج امام حسین علیہ السلام کی سیرت و کردار کے پیرو آیت اللہ ابراہیم ز کزا کی انکی اہلیہ اور مومنین کو یزیدِعصر نائیجیریا حکومت نے قیدِ و بند کی صعوبتیں تکلیف میں رکھا ہواہے۔ عدالتی حکم کے با وجود نائیجیریا کی فوج تحریک اسلامی کے سربراہ ابراھیم ز کز کی کو رہا کرنے سے گریزاںہے اور انہیں زہر د ے کر قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہیں۔ نائیجیریا کی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے عالمی انسانی حقوق کے ادارے اس پر ایکشن لیں اس موقع پر شرکاء نے شیخ ابراھیم ز کز کی کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں اور ابراھیم ز کز کی و اہلیہ اور مومنین نائیجریاکو رہا کرو کے نعرے لگا رہے تھے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) گذشتہ ماہ بحرین کے دارلحکومت منامہ میں امریکی و اسرائیلی تیار کردہ پلان یعنی صدی کی ڈیل کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس اور ورکشاپ کے بعد عرب دنیا سمیت مسلم دنیا اور بالخصوص فلسطین میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہاہے کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے عرب حکمرانوں کے تعلقات کس کروٹ بیٹھیں گے؟ ان تعلقات کے پس پردہ اور عیاں مقاصد پر بھی عرب دنیا کے سیاست مدار سوالات اٹھا رہے ہیں اور شدید مضطرب ہیں۔
امریکہ و اسرائیل کی جانب سے مغربی ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خاص طور پر فلسطین کا سودا کرنے کے عنوان سے جس کانفرنس کو ترتیب دیا گیا تھا اس کے انعقاد کے لئے امریکہ نے نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی یورپی ممالک میں سے کسی کا انتخاب کیا بلکہ اس کانفرنس یعنی صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کانفرنس کو عرب دنیا کے ایک ایسی ریاست میں منعقد کیا گیا جس کا خود اسرائیل کے ساتھ رسمی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے تاہم اس پلان کے تحت ایک طرف جہاں فلسطین کا سودا بحرین میں بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی گئی وہاں ساتھ ساتھ بحرین اور اس جیسی اور چھوٹی چھوٹی عرب خلیجی ریاستوں کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب لانا بھی اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا۔
بہر حال منامہ کانفرنس اور اس میں پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل دونوں ہی بری طرح اس لئے بھی ناکام ہو گئیں کیونکہ مغربی ایشیاء کے متعدد عرب ممالک نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا اور اسے مسترد کیا تاہم بحرین کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ صرف غرب ایشیاء کی ریاستوں کے لئے تشویش کا باعث ہیں بلکہ مسلم دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو بھی ایسے معاملات پر شدید تشویش لاحق ہے۔فلسطین بھر میں منامہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی بحرین اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سمیت امریکہ کے شیطانی منصوبوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری تھے البتہ ان مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی تھی جب بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی انتہائی حیرت انگیز بیانات دئیے۔ وہ اسرائیل کے ٹی وی چینل نمبر 10 سے بات چیت کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا: ''ہمارا عقیدہ ہے کہ اسرائیل باقی رہے گا اور ہم اس سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔'' بحرین کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرب حکمران کا اسرائیلی ٹی وی چینل سے انٹرویو کوئی معمولی بات نہیں، کہا: ''یہ کام بہت عرصہ پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے بات چیت ہمیشہ تناؤ میں کمی کا باعث بنتی ہے۔'' خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ کے اس انٹرویو کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور فلسطین کی تما م اکائیوں نے بحرینی وزیر خارجہ اور حکومت کے اسرائیل کے ساتھ روابط اور اسرائیل کی حمایت میں بیانات کو فلسطین کش اقدامات قرار یتے ہوئے فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بحرینی وزیر خارجہ کے اس بیان کو فلسطین کاز کے خلاف منحوس ارادے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حماس اپنی طاقت اور مضبوط ارادے کے ذریعے فلسطین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔
آئیں ہم بحرین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور قربت کے پس پردہ اور عیاں مقاصد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک طویل عرصہ سے صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ عادی سازی یعنی نارملائزیشن کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اور اسی عادی سازی کے عنوان سے اسرائیل کے وفود جہاں عرب دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ عرب خلیجی ممالک کے وفود بھی فلسطین و قبلہ اول پر قابض صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ چند ماہ میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کا مسقط کا دورہ اور صہیونی ریاست کی خاتون وزیر کا عرب امارات کا مفصل دورہ اور پھر اسرائیلی اولمپئین ٹیم کا دبئی میں شاندار استقبال سمیت عرب امارات کے گراؤنڈ میں اسرائیلی دھن پر قومی ترانہ چلایا جانا چیدہ چیدہ واقعات ہیں اور پھر حال ہی میں بحرین میں فلسطین کے خلاف منعقد ہونے والی کانفرنس جس کا مقصد فلسطین کا سودا کرنا تھا منعقد کی گئی یہ سب وہ اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ عرب خلیجی دنیا کے حکمران رفتہ رفتہ صہیونیوں کی دوستی قبول کر چکے ہیں۔
ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ عرب دنیا خاص طور سے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین سمیت چند دیگر خلیجی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ظاہری مقاصد کے حصول میں ایران دشمنی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے جبکہ پس پردہ مقاصد میں ان عرب دنیا کے حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ان کی بادشاہتیں قائم و دائم رہیں گی اور جمہوریت کے نعروں سے ان کو دور رکھا جائے گا۔جیسا کہ منامہ کانفرنس میں پیش ہونے والی صدی کی ڈیل میں امریکہ نے عرب بادشاہوں کو پیش کش کی ہے کہ وہ فلسطین کے سودے پر راضی ہونے والے خلیجی ممالک کے بادشاہوں کو آئندہ پچاس سال تک بادشاہت پر براجمان رہنے کی ضمانت دے گا۔
سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی جانب سے پیش کردی آرا ء کو باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں کسی قسم کا مغالطہ نظر نہیں آتا ہے اور بحرین اور اسرائیل کے تعلقات کے مابین پس پردہ اور عیاں مقاصد میں درج بالا بیان کردہ دو ہی باتیں نظر آتی ہیں، ایران سے دشمنی جو کہ عرب خلیجی ممالک کے بارے میں پوری دنیا واقف ہے اور دوسری اہم بات عرب حکمرانوں کے تخت وتاج اور بادشاہتوں کا قائم رکھنا یا یوں کہا جائے کہ ذاتی مفادات۔خلاصہ یہ ہے کہ عرب خلیجی دنیا امریکہ اوراسرائیل جیسے شکست خوردہ کھلاڑیوں پر تکیہ کر کے کہیں صدی کی ڈیل کی آڑ می صدی کا سب سے بڑا دھوکہ تو نہیں کھا رہے کیونکہ امریکہ پوری دنیا میں ہر محاز پر ناکامی کا شکار ہے خود امریکی معیشت تیزی سے ڈوب رہی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل ہے جو کھی عظیم تر اسرائیل کے خواب دیکھا کرتا تھا آج ان خوابوں کے چکنا چور ہونے کی صدائیں فلسطین سے نکل کر پوری دنیا تک سنی جا رہی ہیں۔آخر ایسے شکست خوردہ مہروں کا سہارا لے کر عرب دنیا کے حکمران کس طرح اپنی بقاء کو یقینی رکھ پائیں گے؟ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عرب دنیا امریکہ اور اسرائیل کا سہارا لینے کے بجائے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کے عنوان سے کوئی کارنامہ سر انجام دے۔کاش بحرین میں ہونے والی کانفرنس اور صدی کی ڈیل اگر مسلم امہ کے اتحاد کے بارے میں ہوتی تو یقینا اس ڈیل اور معاہدے کو صدی کی سب سے بڑی ڈیل اور صدی کی سب سے بڑی حقیقت قرار دیا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکی و صہیونی شیطانی چالوں میں پھنسی عرب خلیجی دنیا صدی کا سب سے بڑا دھوکہ اپنے مقدر میں لکھنے پر فخر محسوس کر رہی ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی