وحدت نیوز(شکارپور) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری جنرل اور شہداء کمیٹی کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی نے وارثان شہداء شکارپور کے ہمراہ شکارپور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شکارپور پولیس کی جانب سے دھشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک سے متعلق ہمارا موقف درست ثابت ہوا۔ ایس ایس پی اور اے ایس پی سمیت متعلقہ اہلکار قابل تعریف ہیں سیکورٹی مزید سخت کی جائے۔ سیکورٹی سے ہم مطمئن نہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ شریف شہریوں کے نام کس قانون کے تحت شیڈول 4 میں ڈالے گئے۔کیا ایک جمہوری ملک میں پرامن احتجاج جرم ہے۔کیا دھشت گردی کے خاتمے کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد جرم ہے اور کیا مظلوموں کے لئے انصاف طلب کرنا جرم ہے؟
انہوں نےکہا کہ وارثان شہداء اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے ہمارا سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ 21 نکاتی معاہدےپر عمل کرے۔انہوں نےکہا کہ ہم وطن کے با وفا بیٹے ہیں ارض پاک کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ہماری کمشنر سے ملاقات ہوئی ہے جس نے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔پریس کانفرنس میں اصغر علی سیٹھار قمرالدین شیخ سکندر علی دل ریاض حسین منصور صدیقی و دیگر شریک ہوئے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حالیہ دنوں ابو ظہبی میں او آئی سی کی وزرائے کارجہ کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے لئے ان کو خصوصی دعوت ابو ظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر ممبر ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچی جس کے جواب میں پاکستان فضائیہ نے بھی ایک کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا جسے دو روز بعد امن مقاصد کے خاطر واپس بھارت کو دے دیا گیا۔ان تمام باتوں سے ایک طرف کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ایسے ایام میں کہ ایک طرف پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اور اس حد تک کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناًپہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں،۔
دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے ؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جد وجہد کو صرف نظر کرے؟ بہر حال اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کر لی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کیجا رہی ہے ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں ۔سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے کافی اہمیت دی گئی،سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہئیے کسی کو حق نہیں کوئی کسی پر زور زبردستی کرے، لیکن سشما جی یہاں پر یہ بتانا بھول گئی تھیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیر اعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بھی ہیں تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آ کر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کو خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ شیخ عبد اللہ بن زید کو سشما سوراج کو اس کانفرنس میں خطاب کی دعوت دینے کے لئے زبردست شکریہ کے کلمات ادا کئے اور ان کو اپنا بہتری دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں ۔
انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت وشرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نقاط پر بھی زور دار گفتگو کی۔بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے تاہم یہاں پر ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کشمیر میں کوئی مظلوم بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیں ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لا پتہ کر رکھا ہے؟ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے ؟کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں ان کو معافی دے دی جائے گی ؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تونہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کر لی جائے ؟بہر حال سشما جی کو سوچنا چاہئیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تا کہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔انہوں نے خلیج ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو، سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں موجود ایسے عرب حکمران موجود تھے کہ جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن شاید یہ حکمران اس لئے بھی برداشت کر گئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔
سشما سورا ج نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اظہار خیا ل کیا اور کہا کہ اس وقت خطر ناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے ۔یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ساتھ دیں ۔انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں،سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے،سنسکریت مذہبی کتاب ،سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں ، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے کیان ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں ہے۔جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت انہی رکن ممالک کی ہے ، اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کے لئے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے ۔جہاں قطر ، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کرے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی جانب سے6 مارچ2019 بدھ رات شب شھادت ڈاکٹر شھید محمد علی نقوی ،مجلس وحدت کے دفتر میں ایک پروگرام بعنوان،"ایک شام شھید کے نام " رکھا گیا۔ جسمیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کی کابینہ، مجلس مشاورت ,نمائندگان طلاب, نمائندگان جوامع روحانیت,نمائندگان جامعہ بعثت , جامعہ ولایۃ و امام رضا,ڈاکٹر صاحب کے رفقاء کار اور سینئر علماء و فضلاء نے خصوصی شرکت کی۔اس صمیمانہ نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا اور طالب علم ، ملک اعجاز اعوان نے منقبت اور آقا سید اقتدار نقوی نے ترانہ شہادت پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔اس کے بعد مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کے سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام آقای عادل مھدوی صاحب نے ابتدائی گفتگو کی اور حاضرین کو اس نشست کے رکھنے کے ھدف اور اھمیت کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد، شھید عدیل کے بڑے بھائی حجۃالاسلام سید میثم ہمدانی صاحب کو گفتگو کیلئے دعوت دی گئی،جنہوں نے کہا کہ بہت چھوٹی عمر میں ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔اور جب ڈاکٹر صاحب کو شھید کیا تو ہم لاہور ہی تھے اور آپ کے جنازے میں بھی شرکت کی ۔ڈاکٹر شھید کے کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ درست ہے کہ ڈاکٹر شھید آئی ایس او اور اکثر تنظیموں کے بانی شمار ہوتے ہیں مگر وہ کبھی بھی تنظیم کو بت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے موقف سے کسی بھی صورت میں پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
ان کے بعد ،قائد شھید اور ڈاکٹر شھید کے دور میں،کوئٹہ کی تنظیمی اور فعال شخصیت جناب فدا آقا نے شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شھید ایک انتھک اور بے لوث شخصیت تھے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔شھید کا گھر تنظیمی فعالیت کا مرکز تھا،کسی وقت بھی رات اور دن ہو ،شھید ہمیشہ دوستوں کی مھمان نوازی بڑھ چڑھ کر کرتے اور اس میں ان کی زوجہ کا ساتھ بھی رہتا۔اس کے علاؤہ آقا فدا حسین نے ڈاکٹر شھید کی تنخواہ کن کاموں پر خرچ ہوتی تھی اس بارے تفصیل بتائی اور ڈاکٹر شھید کے فلمسٹار دلیپ کمار کا استقبال نہ کرنے پر نوکری سے استعفیٰ دینے کی وجہ بھی بیان کی۔
پروگرام کے آخری مھمان، شھید کے رفیق اور دوست ملک ابرار حسین نے بھی ڈاکٹر شھید کے ساتھ گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ،شھید کی زندگی کو سب کیلئے نمونہ عمل کہا۔ان کا کہنا تھا کہ شھید کے ساتھ تقریبا دو سال گزارے اور کبھی بھی ان کی نماز شب قضا ہوتے نہیں دیکھی ۔ان کی مناجات،تعقیبات اور گریہ عجیب تھا ،شاید کوئی یہاں کا طالب علم بھی ایسے گریہ و زاری نہ کرتا ہو ۔۔ان کے مطابق شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی اس حدیث کہ" ان للقتل الحسین حرارۃ لا تبرد ابدا" کو بیان کرتے اور کہتے کہ امام حسین علیہ السلام کا قتل اور خون مومنین کے دلوں میں ایک چنگاری پیدا کرتا ہے۔ایک شعلہ پیدا کرتا ہے جو کبھی بھجنے والا نہیں۔شھید کی محفل میں ایک بار جو جوان چلا جاتا پھر انہی کا ہو جاتا،شھید جوانوں میں ایک ولولہ پیدا کرتے تھے۔اور شھید اس قدر خالص تھے کہ ہر محفل کو مو لیتے تھے۔شھید میں جمود نہیں تھا اور ہر وقت حرکت میں رہتے ۔اور یہی فعالیت سبب بنی کہ آپ خود موت کی طرف چل کر گئے۔اور شھادت کو گلے لگایا۔اس صمیمانہ نشست کا اختتام دعائے امام زمانہ سے کیا گیا اور آخر میں مھمانان گرامی نےطعام تناول فرمایا۔
وحدت نیوز(لاہور) سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒ کی دختر ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی محترمہ زہرانقوی نے اپنے والد گرامی کے 24ویں یوم شہادت پر تعزیتی پیغام میں کہاہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں اس شھید کی بیٹی ہوں جو راہ کربلا کا مسافر تھا ، میرے بابا ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت نے فقط مجھے یتیم نہیں کیا بلکہ پوری ملت تشیع خود کو بے سہارا اور یتیم محسوس کرنے لگی ،شھید عارف حسین الحسینی کی المناک شہادت کے غم ابھی تازہ تھے کہ ایسے میں دشمن کی ایک اور کاری ضرب نے ملت تشیع کو زخمی کردیا ،شھید نے جوانوں کی نظریاتی و فکری تربیت کی ، انھیں انسانیت کا نصاب پڑھایا ، انھیں مقصد حیات بتایا،انھوں نے سکھایا کہ طاغوتی طاقتوں کے مقابل سر اٹھا کر کیسے جیا جاتا ہے،باطل طاقتوں کے آگے کیسے کلمہ حق بلند کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ شہید ڈاکٹرؒ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے،شھید نقوی وہ عظیم ہستی تھی کہ جن کے لگائے ہوئے پودے آج ثمر آور درخت بن چکے ہیں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسا شجرہ طیبہ اور تنظیمی نوجوانوں کی تربیت ، ملک پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہ کی ترویج ، خط امام خمینی کا تعارف اور عالمی استکباری قوتوں کی سازشوں سے ملت کو روشناس کروایا، شھید نے عظیم جدوجہد ، انتھک محنت اور اپنے پر خلوص عمل کی بدولت منزل شہادت کو پا لیا۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم خط شھید پر کس قدر عمل پیرا ہیں اور اپنے وظیفے کو کس حد تک انجام دے دہے ہیں ۔
وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے اپنے صوبائی اور ضلعی مسئولین کی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق فکری، نظریاتی اور صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے تنظیمی و تربیتی ورکشاپس کا سلسلہ 3 ماہ قبل شروع کیا گیا تھا، سندھ، بلوچستان، سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے بعد تربیت کا یہ سلسلہ خیبر پختونخوا پہنچ گیا۔ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں معروف دینی درسگاہ جامعہ شہید عارف حسین الحسینی میں اس تربیتی ورکشاپ اور صوبائی شوری کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ تنظیم سازی کے تحت ہونے والی یہ ورکشاپ بروز ہفتہ شیڈول کے مطابق صبح 9 بجے شروع ہوئی، تلاوت کلام پاک کے ساتھ باقاعدہ ورکشاپ کا آغاز ہوا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تنظیم سازی شفیق حسین طوری نے انجام دئیے۔ ابتدائی کلمات جماعت کے صوبائی عبوری سیکرٹری جنرل مولانا سید وحید عباس کاظمی نے ادا کئے۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ آج سے 4 ماہ قبل مجھے جب یہ اہم ذمہ داری ملی تو ہم نے مل جل کر بھرپور انداز میں تنظیمی دورہ جات کا آغاز کیا اور کوشش کی کہ تنظیم کو جلد متحرک کریں تاکہ ملت تشیع کی یہ نمائندہ جماعت مضبوط مذہبی و سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے، الحمد اللہ اپنی اس کوشش میں ہم کسی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ورکشاپ میں مجلس وحدت مسلمین کی صوبائی کابینہ اور اضلاع کے ذمہ داران شریک ہوئے، مولانا وحید عباس کاظمی کے بعد ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ تنظیم سازی کے مرکزی کوآرڈینیٹر سید عدیل عباس زیدی کو دعوت دی گئی، انہوں نے اس ورکشاپ کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی ورکشاپس کی ضرورت جماعت میں بہت شدت سے محسوس کی جارہی تھی، الحمد اللہ سندھ، بلوچستان، سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے بعد اب خیبر پختونخوا میں اس تنظیمی و تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد بدلتے ہوئے عالمی اور ملکی حالات کے مطابق اپنے تنظیمی مسئولین اور کارکنان کی جدید خطوط پر تربیت کرنا ہے، حالات حاضرہ سے آگاہ، فکری تربیت یافتہ تنظیمی مسئول ہی بہتر انداز میں اپنے دین اور ملک و قوم کی خدمت کرسکتا ہے۔
بعدازاں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی معاون سیکرٹری تنظیم سازی آصف رضا ایڈووکیٹ نے ایم ڈبلیو ایم کی روز اول سے اب تک حاصل ہونے والی ملی و قومی کامیابیوں کے موضوع پر خطاب کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین جب میدان میں آئی تو پاکستان میں ظلم ہو رہا تھا، ہم نہتے تھے، ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں تھے، ہم نے عوامی و سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، ہم نے پاراچنار کا محاصرہ توڑا، دہشتگردوں کیخلاف دوٹوک موقف اپنایا۔
آصف رضا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین قوم کی نمائندہ جماعت ہے، اپنی قوم کو مزید مضبوط بنانے اور حقوق کے تحفظ کیلئے ہمیں ایم ڈبلیو ایم کو ایک مضبوط اور فعا ل جماعت بنانا ہوگا۔ آصف رضا کے بعد معروف صحافی اور تجزیہ نگار محمد ابراہیم خان نے میڈیا کی اہمیت اور پریس ریلیز بنانے کے اصولوں پر ورکشاپ سے خطاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی اس کا میڈیا سیل ہوتا ہے، میڈیا سیل اس جماعت کا آئینہ ہوتا ہے، یہ میڈیا کا دور ہے، انہوں نے شرکائے ورکشاپ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی جماعت کی کامیابی اس صورت میں ہی ممکن ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی جماعت کے میڈیا سیل کو متحرک کریں، میڈیا نمائندوں کے ساتھ اچھے روابط قائم کریں اور اپنی پریس ریلیز صحافتی اصولوں کے عین مطابق بنائیں۔
بعدازاں انہوں نے پریس ریلیز بنانے کے اصولوں سے بھی ایم ڈبلیو ایم کے مسئولین کو تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ ابراہیم خان کے بعد طعام اور نماز ظہرین کا وقفہ ہوا، جس کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے کامیابی کیسے ممکن کے عنوان پر تربیتی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہمیں اپنی سمت کا تعین ہوگا اور ہم مضبوط ارادے سے آگے بڑھیں گے تو کامیابی حاصل کرنا ہمارے لئے آسان ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے مسئولین کو چاہئیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا ویژن کلئیر کریں، اپنے اہداف کا تعین کریں اور پھر خلوص نیت کیساتھ آگے بڑھیں، جب جذبہ ہو اور آگے بڑھنے کی لگن ہوتو خدا کی مدد بھی شامل ہوجاتی ہے، مجلس وحدت سے قوم کو بہت امیدیں ہیں، اور یہ سب خلوص اور نیک نیتی کیوجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔
بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تربیت مولانا ڈاکٹر یونس حیدری نے اپنا لیکچر شروع کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ دین اور سیاست کو الگ سمجھنا ہمارے مکتب کی تعلیمات نہیں، ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہماری قوم میں اس سوچ اور نظریہ کو پروان چڑھایا جارہا ہے کہ دین اور سیاست الگ ہیں، دین کا سیاست اور سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں، ہمارے ہاں اکثریت اسی سوچ کے حامل افراد کی ہے۔ ہمارے لوگوں کو اجتماعی کاموں سے روکا گیا، انہیں ڈرایا گیا کہ اجتماعی جدوجہد میں آپ کی جان جاسکتی ہے، آپ کو نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ امام خمینی (رہ) کے مقابلہ میں بھی مجتہدین کو کھڑا کیا گیا، ہمارا ملک بھی اس وقت اینٹی ظہور بلاک میں ہے، ہمیں اپنے ملک کو اینٹی ظہور بلاک سے نکالنا ہوگا اور عالمی سطح پر موجود اس عالمی تحریک کا حصہ بننا ہے، جس کی بنیاد امام خمینی (رہ) نے رکھی تھی۔
ڈاکٹر یونس حیدری کے خطاب کے مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کی شوری کا اجلاس شروع کردیا گیا، اس اجلاس میں خصوصی شرکت اور خطاب ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی سید مہدی عابدی نے کیا، اجلاس کے باقاعدہ اجلاس نماز مغربین کے بعد ہوا، آغاز میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی عبوری سیکرٹری جنرل مولانا وحید کاظمی نے کارکردگی رپورٹ پیش کی، جس کے بعد اضلاع کے مسئولین نے کارکردگی رپورٹس پیش کیں، بعد ازاں ڈسکشن ہوئی اور آخر میں مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی سید مہدی عابدی نے حالات حاضرہ پر اجلاس سے خطاب کیا، اس موقع ان کا کہنا تھا کہ دشمن نے منظم منصوبہ بندی کے تحت پاراچنار، کوئٹہ، کراچی، گلگت بلتستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، دشمن کی کوشش تھی کہ ان علاقوں کو ہماری کمزوری میں بدلا جائے لیکن درحقیقت یہ علاقے ہماری کمزوری نہیں ہماری طاقت ہیں، قوم نے اس سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، خیبر پختونخوا میں بھی مجلس وحدت مسلمین کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط ملت اور قوم ہی اپنے حقوق اور وطن کا دفاع کرسکتی ہے۔ بعدازاں سید مہدی عابدی نے شرکائے اجلاس کے سوالوں کے جوابات دئیے، پھر اجلاس کا اختتام دعائے امام زمانہ عج سے ہوا۔
تحریر: ایس اے زیدی
ملت جعفریہ کو بیدار کرنے والوں میںشہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نام سر فہرست ہے، علامہ مبارک علی موسوی
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید مبارک علی موسوی کا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 24ویں برسی کے موقع پر کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر ٘محمد علی نقوی پاکستان کے تمام انقلابی جوانوں کے لیے آئیڈل شخصیت ہیں ۔ڈاکٹر شہید اوائل سے انقلابی سوچ کے حامل تھےاور آخری سانس تک انقلابی فکر کے ساتھ قائم رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ کو جن لوگوں نے بیدار کیا ان میں سر فہرست شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا نام ہے ، علامہ مبارک علی موسوی کا مزید کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں ملت تشیع کو منظم کیا اور سیاسی و فکری میدان میں بیدار کیا۔ انہوں نے ملت تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے شب و روز محنت کی ۔ شہید کی برسی کو بھرپور طریقے سے منانے کا مقصد اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنا ہے کیوں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔