وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادجموں وکشمیر کے سیکریٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی پر دوسری مرتبہ حملے کی کوشش، گذشتہ رات فیملی کے ہمراہ کسی عزیزکی تعزیت کرکے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں واقعہ پیش آیا۔ وحدت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہماری گاڑی کے ساتھ رانگ سائڈ سےموٹرسائیکل جان بوجھ کر ماری گئی اور موٹر سائیکل سوار نے علامہ صاحب سے بدتمیزی شروع کر دی۔موٹرسائیکل سوار کے الفاظ تھے کہ میں تمیں اڑا دونگا شوٹ کر دونگا جو کہ وہاں کھڑے لوگوں نے بھی سنے۔
اس پر علامہ صاحب کا سرکاری گن مین نیچے اترا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور ایسا کیوں کررہے ہو۔موٹرسائیکل سوارنےاپنے آپ کوپاک آرمی کا کمیشنڈ آفیسربتایا۔اس کے شور مچانے پر وہاں بہت زیادہ لوگ اکھٹے ہو گئےجن میں تین،چار اس کے حامی بھی شامل تھےجنھوں نے گاڑی پر لاتیں مکے برسائےاور وینڈو شیڈزتوڑ دیئے۔حملہ آوروں نےگاڑی کے اندر منہ کر کے علامہ صاحب کو اور ان کے گن مین کو باہر کھینچنے کی کوشش کی اور گالیاں دیں جس پر علامہ صاحب کے ڈرائیورنے گاڑی سٹی تھانہ پولیس کی طرف موڑ لی جہاں پر ایف-آئی-آر درج کر دی گئی۔
علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین کے قائدین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، علامہ احمد اقبال رضوی ،ناصرشیرازی ، اسدعباس نقوی ودیگر نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت وقت سے فوری نوٹس لینے ، حملہ آوروں کی فوری گرفتاری اور علامہ تصور نقوی کی فول پروف سکیورٹی کا مطالبہ کیاہے ۔ ایم ڈبلیوایم قائدین نے کہاکہ علامہ تصور جوادی کی جان ومال کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے ۔
وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا ہ کے وفد کی ہوم سیکرٹری خیبرپختونخواہ اکرام اللہ سے پشاور میں ملاقات ۔ شیعہ شخصیات کو بے جا فورتھ شیڈول میں ڈالنے، لاپتہ افراد، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ سمیت اہم امور پر گفتگو ۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وفد کی قیادت صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ جہانزیب علی جعفری کر رہے تھے۔
اس موقع پر علامہ جہانزیب علی جعفری نے کہا کہ کے پی کے حکومت کو حالات کی سنگینی کو سمجھنا ہو گا۔ ہم ملک میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں ۔ ہمیں نئی حکومت سے بہت سی توقعات تھیں اور اب بھی ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت سابقہ ادوار کی سیاسی انتقامی پالیسیوں پر نظر ثانی کرئے گی۔ ملاقات میں سیف سٹی پروجیکٹ اور محرم الحرم کے جلوسوں پر ناجائز ایف آئی آر پر بھی بات چیت ہوئی۔
اس موقع پر ہوم سیکرٹری اکرام اللہ نے کہا کہ آپ کے مطالبات اور خدشات قابل غور ہیں ہم فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی لسٹ پر نظرثانی کریں گے ۔ انہوں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی درخواست اعلیٰ حکام تک پہنچانے کا بھی وعدہ کرتے ہیں۔وفد کے ہمراہ ارشاد حسین بنگش اور نئیر جعفری بھی موجود تھے ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا سب پر فرض ہے دنیائے اسلام مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دے۔ان خیالات کا اظہار مرکزی ترجمان ایم ڈبلیوایم علامہ مقصود ڈومکی نے میڈیا سیل اسے جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ تین ماہ سے مقبوضہ وادی کشمیر میں جاری بدترین کرفیوپر دنیا کی خاموشی مجرمانہ ہے ۔ دنیائے اسلام کوکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں یک زبان ہو کر آواز بلند کرنا ہو گی ۔ پاکستان ہر اسلامی ملک کے مسائل میں ان کے ساتھ کھڑا نظر آیا اب وقت ہے کہ مسلم ممالک کشمیر ایشو پر مظلوم کشمیروں کے ساتھ پاکستان کے موقف کی تائید میں دنیا بھر میں پاکستان کا ساتھ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی غلامی کی بجائے ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے بننی چاہئے جو ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت پر مبنی ہو۔ ہمیں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و وحدت کیلیے کام کرنا چاہیے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔
وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیم کو فوکس کرنے کے دعوت جھوٹے نکلے۔ گرلز ڈگری کالج گلگت کے ہاسٹل کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا تعلیم دشمن اقدام ہے۔ محکمہ تعلیم کے دفاتر اور سکول کالجز کی عمارات کو دیگراداروں کے حوالے کرنے سے صوبائی حکومت کی علم دشمنی عیاں ہو گئی ہے۔ ایک بیان میں الیاس صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ گرلز ڈگری کالج سے ملحقہ گرلز ہاسٹل کی عمارت جو دور دراز کی طالبات کی سہولت کیلئے تعمیر کی گئی تھی جسے آج تک مختلف اداروں کی تحویل میں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ماضی میں یہ عمارت چترال سکاؤٹس اور جی بی سکاوٹس کے قبضے میں رہی بعد ازاں سیکرٹری ایجوکیشن کی سپردگی میں رہی اور حال ہی میں اس عمارت کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا تعلیم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرلز ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز سے آنے والی کئی غریب طالبات تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے گرلز کالج کی بلڈنگ ناکافی ہے اور اگر ہاسٹل نہیں بنانا ہے تو پھر یہ بلڈنگ کالج کے حوالے کیا جائے تاکہ وہاں کلاسز کا اجراء کیا جا سکے۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی فروغ تعلیم میں رکاوٹ بننے والی اس پالیسی کے خلاف چیف جسٹس سو موٹو ایکشن لیں اور تعلیم دوست افراد اور ادارے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن کمیشن کا آفس ان کی ضروریات کے مطابق کافی ہے جبکہ اتنی بڑی بلڈنگ الیکشن کمیشن کے حوالے کرنا سنگین زیادتی ہے۔ انہوں نے فورس کمانڈر احسان محمود سے بھی اپیل کی کہ وہ اس تعلیم دشمن پالیسی کے خلاف کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ انسانی حقوق کونسل میں کشمیر کے عنوان پر قرار داد جمع کروانے کے لئے سولہ ممالک کی حمایت لینے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ قرار داد فلور پر پیش ہونے سے قاصر رہی حالانکہ اسی انسانی حقوق کونسل میں سولہ سے زائد مسلمان اسلامی ممالک بھی موجود تھے جن کے لئے پاکستان ہر مقام پر گاہے بہ گاہے اپنی خارجہ پالیسی کی بھی پروا نہیں کرتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان تمام ممالک میں سولہ ایسے ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھے کہ جو اس قرار داد کو جمع کروانے کے لئے اس پر دستخط ہی کر دیتے۔
یہ خبریں دیکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید دکھ کا احساس ہوا کہ آخر ہماری پالیسی کو کیا ہو اہے؟ کیوں آخر پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کے ساتھ کھڑے ہونے والے سولہ ممالک بھی نہیں ہیں؟آخر کیوں شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں کشمیر کا مقدمہ روزانہ کی بنیادوں پر کمزور سے کمزور ہو رہا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے جستجو کرنے سے معلوم ہو اکہ ماضی قریب میں یہی وزیر خارجہ جب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا بیان دے سکتے ہیں تو پھر کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی بھارتی مظالم کو ظلم کہہ سکتے ہیں؟
اسی طرح کی ایک اور قرار داد بھی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی، یہ قرار داد یمن کے عنوان سے پیش کی گئی تھی کہ جہاں سعودی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے باعث دسیوں ہزار بے گناہ انسان موت کی نیند سو چکے ہیں۔
اس قرار داد پر پاکستان نے دستخط نہیں کئے یقینا یہ قرار داد شاہ محمود قریشی صاحب کی میز پر پہنچی ہو گی جس کو انہوں نے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بعد اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو گا کیونکہ اس قرار داد میں سعودی حکومت کے ظلم کی داستانیں موجود تھیں۔ اب ذرا خود بتائیے کہ ایک طرف کشمیر میں ہونے والا ظلم و بربریت ہے جس کی ذمہ دار بھارتی افواج و حکومت ہیں اور دوسری طرف یمن پر مسلسل چار برس سے سعودی افواج کی بمباری اور حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی دسیوں ہزار اموات اور بمباری اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے سبب وبائی امراض کا شکار ہونے والے لاکھوں بے گناہ انسان ہی۔
کیا کشمیر اور یمن کے مظلوموں میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا بھارت کے اور سعودی عرب کے مظالم میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا اسرائیل کی غاصب افواج کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام ظلم نہیں کہلائے گا؟
جب اسرائیل ظالم ہے، بھارت بھی ظالم ہے تو پھر سعودی عرب کی حمایت میں کیوں وزیر خارجہ نے قرار داد پر دستخط نہیں کئے؟ کیوں پاکستان کو ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا کہ جہاں یمن کے مظلوموں اور کشیر کے مظلوموں میں تقسیم پیدا کر دی؟
اب میرا سوال پاکستان کے تمام ذی شعور انسانوں سے ہے کہ جب پاکستان ایک طرف انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے عنوان سے پیش ہونے والی قرار داد پر دستخط نہیں کرے گا تو دوسری طرف خود کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے لئے قرار داد پر دوسرے ممالک کی حمایت مانگے گا؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس طرز عمل نے پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف اقدامات نہیں کئے؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ کرو؟ کیا قائد اعظم نے یہی دستور بنایا تھا کہ یمن میں انسان قتل ہوں تو پاکستان قاتل کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور کشمیر میں انسان قتل ہو جائیں تو پاکستان مقتول کے ساتھ ہو؟ آخر ایک ہی مقام پر کس طرح پاکستان ایک کیس میں قاتل اور دوسرے میں مقتول کا ہمدرد بن کر کشمیر کا مقدمہ جیت سکتا ہے؟بہر حا ل پاکستان نے یمن کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد پر دستخط تو نہیں کئے لیکن یہ قرار داد دیگر ممالک کی حمایت سے بحث کے لئے منتخب کر لی گئی البتہ پاکستان کی جانب سے کشمیر کے موضوع پر پیش کردہ قرار داد مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے کے باعث ناکامی کا شکار ہو گئی۔
ہماری غلط پالیسیوں نے ہی ہمیشہ ہمیں رسوا کیا ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مظلوم اقوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیں گے تو پھر کبھی بھی کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں
پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔مظلوم چاہے فلسطین کا ہو، کشمیر کا ہو، یمن کا ہو،لبنان و شام کا ہو، عراق و ایران کا ہو، افغانستان کا ہو یا پھر برما کا ہو یا پھر کسی اور خطے کا ہو، مظلوم کی پہچان صرف یہی ہے کہ مظلوم مظلوم ہی ہے۔
اسی طرح ظالم چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، ظالم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، بھارت کی شکل میں، اسرائیل کی صورت میں، سعودی عرب یا امریکہ کی صورت میں، اسی طرح کسی اور صورت میں موجود ہو ظالم کی پہچان صرف اورصرف ظالم ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک طرف قاتل کی حمایت کرے اور دوسری طرف دوسرے قاتل کو ظالم و قاتل ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کس طرح مطلوبہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔
کہ جب ایک مقام پر ایک قاتل کی حمایت اور دوسرے مقام پر دوسرے قاتل کی مخالفت؟
خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب فی الفور وزارت خارجہ کے عنوان سے تفصیلی جائزہ لیں اور شاہ محمود قریشی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے ذہنی سکون کرنے کے لئے رخصت دے دیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بنائے گئے سنہرے اصولوں کی روشنی میں مرتب کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے اور آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن عزیز اور ملت پاکستان کے وقار اور عزت و سربلند ی کے لئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو دنیا میں پاکستان کے لئے ہزیمت و پشیمانی کا باعث بنیں۔
از قلم : صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک خاتون سہمی ہوئی ہے، ویڈیوکلپ میں وہ کہہ رہی ہے کہ میں ڈر رہی ہوں، وہ ڈرتے ہوئے اربعین واک کی طرف جاتی ہے،اس کا کہنا ہے کہ مجھے محتاط ہوکر ریکارڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ہم یہاں ان الزامات کی حقیقت جاننے آئے ہیں کہ چند مذہبی شخصیات مذہب کی آڑ میں عورتوں کو جسم فروشی کیلئے تیار کر رہے ہیں،حتّی کہ چند پر دلالی کا بھی الزام ہے، اس کے بعد پسِ منظر میں کربلا میں لوگوں کے ہجوم کامنظر اور سکرین پر یہ عبارت لکھی ہوئی نظر آتی ہے کہ “شیعہ اسلام کے سب سے مقدس مقامات پر ہم نے کچھ علما کو اختیارات کا ناجائز استعمال اور قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے پایا۔ وہ کم عمر لڑکیوں سے نکاحِ متعہ کرانے کے پیسے لیتے رہے، یہاں پر شادی کے نام پر سیکس پر سخت پابندی سے بچنے کیلئے نکاح متعہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پسِ منظر میں کربلا کے مختلف گلی کوچوں میں لوگوں کو چلتے پھرتے دکھایاجاتا ہے اور ایک شخص مدہم سی آواز میں کسی سے عربی میں بات چیت کرتا ہے جسے سکرین پر ان الفاظ میں لکھا ہوا دکھایاجاتا ہے،اس عالم سے ایک ۱۳ سالہ لڑکی سے نکاحِ متعہ کے بارے میں پوچھا گیا،بہتر ہے ایک دن کیلئے کر لیں، اگرآپ بھٹک جائیں ۔۔۔۔
مذکورہ ویڈیو کے علاوہ بھی استعماری نشریاتی داروں کی کارستانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہ انسانوں کے درمیان تخریب کا کام تعمیر کے نام پر، گمراہی کا کام آگاہی کے نام پر، اختلافات کا کام تحقیق کے نام پرانجام دیتے ہیں۔مذکورہ بالا ویڈیو میں خاتون کو اسلامی حجاب میں دکھایا گیا ہے، یعنی جیسا دیس ویسا بھیس جوکہ مستشرقین کا طریقہ واردات ہے، اس کے بعد جو کچھ وہاں لوگوں سے پوچھا گیا اور سکرین پرلکھا ہوا دکھایا گیا اس کا اربعین واک سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ نکاحِ متعہ کو اس کی شرائط کے ساتھ فقہ جعفری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس کو آپ چاہے کسی شیعہ عالمِ دین سے سے پاکستان میں پوچھیں یا امریکہ میں، سعودی عرب میں پوچھیں یا عراق میں وہ اس کا ایک ہی جواب دے گا کہ ہاں متعہ کرنا جائز ہے۔اب ان سوالات کو چہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں پکچرائز کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ چہلم کے موقع پر لوگ جنسی تسکین کیلئے کربلا میں جمع ہوتے ہیں، ساتھ ہی اس جھوٹ کو گاڑھا کرنے کیلئےا یک لڑکی کے کردار کوبھی فلمایا گیا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ عقدِ متعہ سے اس کے خلاف سوئے استفاد کیاجاتا ہے۔
عقل و فہم رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ نکاح چاہے دائمی ہو یا عقدِ متعہ دونوں سے سوئے استفادہ ممکن ہے، اور اس سوئے استفادے کو کسی بھی لحاظ سے بھی امام حسینؑ کے چہلم کے ساتھ ایک خاموش ربط دینا استعمار کی ایک مکارانہ چال کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
بی بی سی کی اس چال کو ہم مندرجہ زیل مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً حج کے تقدس کو پامال کرنے کیلئے، کوئی مستشرق سعودی عرب جائے، وہاں کے نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز اور وہاں ہونے والی جنسی بے راہروی کے بارے میں چند شاکی افراد سے بات چیت کر کے ایسا کلپ تیار کرے جس کی بیک گراونڈ میں مکے اور مدینے کی سڑکیں، خانہ کعبہ، مسجد نبوی، حاجی لباسِ احرام میں طواف کرتے ہوئےاور وہاں کے باشندےشکایات کرتےدکھائی دیں۔جس سے غیر محسوس انداز میں انسان کے لاشعورمیں یہ پیغام پہنچ رہا ہو کہ نعوذباللہ حج کے موقع پر یہ سب کچھ ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ان نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز اور جنسی بے راہروی کا حاجیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔
چہلمِ امام حسینؑ کے موقعے پر بی بی سی کا یہ پروپیگنڈہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیساکہ ہمارے بچپن میں مائیں اپنے بچوں کو دس محرم کو بازار نہیں جانے دیتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ اس دن شیعہ حضرات لوگوں کا خون نکال کر پیتے ہیں، لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں، تھوڑے بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ شیعوں کا جلوس دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، پھر پتہ چلا کہ شیعہ نمازِ جنازہ کی پانچویں تکبیر میں میت پر لعنت بھیجتے ہیں، پھر پتہ چلا کہ شیعوں کے گھروں میں چالیس پاروں کا قرآن ہے اور ان کا قرآن اہلِ سنت کے قرآن کے علاوہ ہے، صرف یہی نہیں بلکہ بعض لوگ بی بی سی کی طرح کہتے تھے کہ ہم نے خود امام بارگاہوں میں جاکر دیکھا ہے کہ شامِ غریباں کو شیعہ مردوخواتین باہم مخلوط ہوکر جنسی اختلاط کرتے ہیں۔شامِ غریباں سے اربعینِ امام حسینؑ تک ہر طرف وہی پست فکر اور غلیظ پروپیگنڈہ ہے ۔یہ پروپیگنڈہ اس لئے کیا جا رہا ہے چونکہ اس وقت امریکہ و یورپ کے تھنک ٹینکس ایرانی حکومت کی بصیرت اور مقاومت سے خوفزدہ ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی سیاسی و مذہبی طاقت شیعت کا علمی و دینی مرکز ہونے کی وجہ سے ہےاور وہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شیعیت کی طاقت کااظہار چہلم امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں ہوتا ہے۔چونکہ ساری دنیا کے لوگ حضرت امام خمینیؒ، شیعہ مراجع کرام، ولی فقیہ سید علی خامنہ ای اور حزب اللہ لبنان کی برجستہ شخصیات خصوصا سید حسن نصراللہ کی وجہ سے شیعہ علما کی بصیرت، پرہیزگاری اور دوراندیشی سے بھی متاثر ہیں لہذا ایسے کلپس میں شیعہ علما کے چہرے کو بھی منفی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
استعمار یہ بھی جانتا ہے کہ چہلمِ امام حسینؑ صرف شیعیت کی طاقت کا مظہر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی وحدت کا مظہر ہے اور اس وقت شیعہ علما صرف اہل تشیع کے دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پورے عالمِ انسانیت اور خصوصا مظلوم اہل سنت کی بقا اور حقوق کی جنگ لڑنے میں مشغول ہیں، آج بھی وہ کشمیر ہو یا فلسطین یہ ایران کے شیعہ علما ہی ہیں جنہوں نے آج تک ان مظلوموں کا ساتھ دینے کا حق ادا کیا ہے اور سید حسن نصراللہ نے دنیا میں صرف شیعوں کی ہی نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام کی خاص کر عربوں کی آبرو قائم رکھی ہوئی ہے۔
بہر حال جو استعماری آلہ کاروں کا کام ہے اسے تو ہم نہیں روک سکتے البتہ ہمیں اپنے طور پر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسےچہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر ہونے والے اس عظیم اجتماع کو عالمِ اسلام کیلئے مفید بنا سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع میں شریک ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کو کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع سےتمام اسلامی ممالک پاکستان، ایران، سعودی عرب، افغانستان، عرب امارات۔۔۔ کے درمیان وحدت اور بھائی چارے کیلئے استفادہ کر سکتے ہیں اور ہم کیسے اس اجتماع کی وساطت سے تمام اسلامی مذاہب مالکی، حنفی، شافعی، جعفری حتّی کہ سلفی ، دیوبندی، اہلحدیث کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو ختم کر سکتے ہیں!؟
جب استعمار ہمارے اہم ایّام کے موقع پر ہمارے مذہبی و فقہی اختلافات کو ہمارے ہی خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرتا ہے تو ہمیں بھی ان ایّام میں اپنے مذہبی و فقہی مشترکات کو استعمارکے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرنا چاہیے۔
آخر میں ہم اپنے قارئین کی اطلاع کیلئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چہلمِ امام حسینؑ کے خلاف صرف استعماری نشریاتی اداروں نے ہی ان ایّام میں مہم نہیں چلائی بلکہ انہی دنوں میں عراق میں مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی اور ایران میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے منصوبے کو بھی عملی کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ ان ایّام میں عراق میں عوامی تصادم اور خونریز فسادات کی کوشش بھی کی گئی ، اگرچہ عراق میں ہونے والے مظاہروں کا سبب اقتصادی ناہمواری اور سیاسی خلفشار ہی ہے لیکن انہی ایّام میں ان فسادات کا شدت سے رونما ہونا ، اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے ان فسادات کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر کوریج دینا، یہ سب چیزیں پسِ پردہ استعماری محرکین کا پتہ دیتی ہیں۔
اگلی قسط میں ہم ان شااللہ ان وجوہات کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے بی بی سی سمیت استعمار کے تمام نشریاتی اور جاسوسی ادارے اربعین واک سے خوفزدہ ہیں۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.