وحدت نیوز(اسلام آباد) چیف جسٹس آف پاکستان بدنام زمانہ دھشت گرد داود بادینی کی رہائی کا نوٹس لیں ۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے سینکڑوں معصوم انسانوں کے قاتل بدنام زمانہ دھشت گرد داود بادینی کی رھائی انصاف کے خون کے مترادف ہے کئی بار کے سزائے موت کے دہشتگرد کی رہائی ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ،داود بادینی کی رھائی کسی سانحہ سے کم نہیں ہے ان خیالات کا اظہار ترجمان ایم ڈبلیو ایم علامہ مقصود علی ڈومکی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نظام انصاف سے عوام کی مایوسی کا سبب یہی ہے کہ یہاں ملک اسحاق اور داود بادینی جیسے دھشت گرد باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ نظام انصاف کی پیچیدگیا ں اور اداروں میں موجود کالی بھیڑیں معاشرے میں عام عوام تک انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ چیف جسٹس کو اس المناک سانحہ کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان اور اپیکس کمیٹی کے ذمہ داران اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ آخر جس قاتل دھشت گرد کو عدالتیں کئی بار سزائے موت سنا چکی ہیں اور وہ سینکڑوں معصوم انسانوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے وہ کیسے با عزت بری ہو سکتاہے۔ بدنام زمانہ دھشت گرد کی رہائی نے ریاستی اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ بلوچستان کے سینکڑوں ہزارہ شیعہ شہداءکے وارث مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دیا جائے۔ وارثان شہداءکا مطالبہ ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے سے لے کر کوئٹہ کے قتل عام تک ان سانحات میں ملوث تمام مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ اس سے قبل سانحہ شب عاشور جیکب آباد میں ملوث دھشت گردوں کو بھی باعزت بری کیا گیا ہے اس لئے قانون ساز ادارے بھی اقتدار کی رسہ کشی کی بجائے انسان دشمن دھشت گردوں کے خلاف نئی قانون سازی کریں اور عدلیہ اپنے نظام عدل میں موجود سقم دور کرے۔ تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان اور اختلافات لازم و ملزوم ہیں، ہر انسان دوسروں سے مختلف ہوتا ہے، یہ اختلاف سوچ، عقیدے اور نظریے سے لے کر رنگ، نسل، قبیلے، زبان،آداب، اخلاق ،تجارت، سیاست اور ہر طرح کے علمی و عملی شعبوں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ہر انسان مختلف بنیادوں پر دوسروں سے اور دوسرے بھی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔یہ اختلاف ہی ہے کہ جس سے دوسروں کے درمیان انسان کی انفرادیت قائم رہتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ صرف اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کیلئے بھی اختلاف کرنے کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ یوں انسانی معاشرے میں اختلاف کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جن مفاد پرست لوگوں نے اختلاف کی طاقت اور توانائی کو سمجھا ہے انہوں نے ہر دور میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اختلاف کو بطورِ ہتھیار استعمال بھی کیا ہے۔
مثلاً اگر کوئی ناعاقبت اندیش مسلمان ، غیر مسلم طاقتوں کی ایما پر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہے تو اس کیلئے سب سے آسان اور سستا نسخہ یہ ہے کہ وہ اسلامی عقائد سے کھل کر انکار تو نہ کرے لیکن ڈٹ کر اسلامی عقائد کی مخالفت کرنی شروع کردے۔ چونکہ کھل کر انکار کرنے سے لوگ اسے کافر اور مشرک کہنا شروع کردیں گے لہذا انکار کے بجائے اقرار بھی کرے اور اقرار کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد کو رد بھی کرے۔جیساکہ اسلام کا بنیادی اور اساسی عقیدہ توحید ہے۔ اسلامی معاشرے میں جو شخص کھل کر توحید کا انکار کرے گا وہ مشرک کہلائے گا، لہذا مغرض افراد کھل کر توحید کا انکار نہیں کرتے بلکہ مختلف الفاظ، کلمات ،آیات، روایات اوراصطلاحات کے ساتھ توحید کو عوام النّاس کیلئے مشتبہ بنا دیتے ہیں۔تلبیسِ حق کا یہ عمل جس قدر اسلامی لبادے میں ہوتا ہے اسی قدر لوگ زیادہ دھوکہ کھاتے ہیں۔
یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کے منبر سے توحید کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا تو اس کیلئےکسی دوسرےپلیٹ فارم کی نسبت اسلام کے منبر سے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنا آسان ہوگا، پھر اگر یہی شخص اپنے نام کے ساتھ نعوذباللہ مداح و ثناخوان رسولﷺ، نعت خوا ن ،ذاکرِ اہلبیتؑ، مبلغِ اسلام، ڈاکٹر اورعلامہ ۔۔۔وغیرہ بھی لگا ئے گا تو لوگ اور بھی دھوکہ کھائیں گے اور پھر اگر ایسا شخص عمامہ اور عبا قبا بھی پہن لے تو پھر تو اس کا شر اور بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔پس تلبیسِ حق کا عمل حق کے لبادے میں ہی آسانی سے انجام پاتا ہے۔
استعماری طاقتیں جیسے مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہیں اسی طرح مسلمانوں کے احساسات و جذبات، معیشت و اقتصاد، سیاست و اخلاق، وحدت و بھائی چارے، علم و ٹیکنالوجی، بیان و ہنر نیز ہر شعبہ زندگی پر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔استعماری طاقتوں کے کچھ ایجنٹ منبر و محراب کے ذریعے واردِ عمل ہیں اور کچھ قلم، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی ذمہ داری کونبھا رہے ہیں۔منبر ومحراب والوں کی بات ہوچکی اب ذرا قلم اور ذرائع ابلاغ والوں کی بھی خبر لیجئے۔ یہ ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کیلئے متحرک اور فعال رہتے ہیں۔ یہ کبھی بھی سی آئی اے، ایم آئی سکس ۔۔۔ یا مستشرقین کی سازشوں کی کوئی بات میڈیا پر آنے ہی نہیں دیتے اور نہ ہی اس سلسلے میں مستقل طور پر تجزیہ و تحلیل کے کسی سلسلے کو چلنے دیتے ہیں بلکہ یہ ہمارے ہاں کے مسلمانوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ آپ کے دشمن ہندوستان ، امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل نہیں بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز،امام احمد رضا خان بریلوی ، امام خمینی اور سید علی خامنہ ای ۔۔۔وغیرہ ہیں۔ چنانچہ یہ مختلف کتابوں میں لکھے ہوئے پرانے اختلافات، کہنہ غلط فہمیوں، ناخوشگوار واقعات اور قدیمی فتووں کو ہر دور میں زندہ کرتے ہیں، اور لوگوں میں ان کی تکرار کرتے ہیں تاکہ مسلمان کبھی بھی آپس میں متحد نہ ہو سکیں۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عصرِ حاضرمیں استعماری طاقتوں کی چالوں کو ایران میں اسلامی انقلاب کے رہنماوں نے خود بھی اچھی طرح سمجھا ہے اور عوام النّاس کو بھی احسن طریقےسے سمجھایا ہے۔استعمار کی سازشوں کا توڑ کرنے کیلئے ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماوں نے علمی اور عملی طور پر اہل تشیع اور اہل سنّت کے درمیان اتحاد اور وحدت کیلئے ہر قربانی دی ہے اور ہر قدم اٹھایا ہے۔یہانتک کہ ایران میں شیعہ اکثریت ہونے کے باوجود کبھی کسی شیعہ فقیہ نے اہل سنت یا وہابی و دیوبندی مسلمانوں کے خلاف کفر یا واجب القتل ہونے کا فتویٰ نہیں دیا، صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اہل سنت کے کسی بھی فرقے کے خلاف کوئی ایسا جلوس نہیں نکالا گیا کہ جس میں کافر کافر فلاں فرقہ کافر کے نعرے لگائے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر اور ولی فقیہ نے باقاعدہ یہ فتوی دیا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات و اکابرین کی توہین اور ان کی دل آزاری حرام ہے۔صاحبانِ علم و فکر بخوبی جانتے ہیں کہ بلاشبہ مسلمانوں میں بصیرت پیدا کرنے، استعمار کو پہچاننے اور آپس میں اتحاد و وحدت کے حوالے سے ایران کے مذہبی رہنماوں کی کوششیں آبِ ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان ، دشمن شناسی، بصیرت، استعمار کے مقابلے اور باہمی اتحاد و وحدت کی فضا استعمار ی طاقتوں کو ہر گز گوارا نہیں چنانچہ وہ ایک طرف تو مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہیں، ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بار بار زندہ کرتے ہیں اوردوسری طرف وہ مسلمانوں کو ہر اس مرکزو محور سے بد ظن کرنے میں مصروف ہیں جو مسلمانوں کو متحد کرنے کا باعث بنے۔
ایسا ہی کچھ حالیہ دنوں میں عروج پر ہے۔ ان دنوں امام حسینؑ کے چہلم کی تقریبات کے خلاف بھی استعماری طاقتیں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایام حضرت امام حسین عالی مقام کے چہلم کے ایّام ہیں۔ان ایّام میں صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل اسنت بھی جوق در جوق کربلا جانے کیلئے عراق کا رخ کرتے ہیں۔بلکہ غیرمسلم بھی عراق آتے ہیں، یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد، بے مثل اور انوکھا عظیم الشّان اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شیعہ اور سنی نہیں ہوتا، کوئی عربی و عجمی نہیں ہوتا، کوئی کالا اور گورا نہیں ہوتا، المختصر یہ کہ اگر عصرِ حاضر میں کسی نےمسلمانوں کے درمیان اخوّت، بھائی چارے، فداکاری، جانثاری، رواداری اور دینداری کی زندہ مثال کو دیکھنا ہوتو وہ ایک مرتبہ ضرور اس اجتماع کو قریب سے دیکھے۔مسلمانوں کے درمیان یہ اخوّت،یہ بھائی چارہ، یہ محبت ، یہ فداکاری،یہ جانثاری، یہ رواداری اوریہ دینداری کسی بھی صورت میں استعماری طاقتوں کو نہیں بھاتی۔ خصوصاً یہی عراق کہ جو گزشتہ چند سالوں تک استعمار کی ایک کالونی تھا اب اس میں مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد نے استعمار کی نیندیں اڑا رکھی ہیں اور اب اسی عراق میں فرزندانِ اسلام کا یہ سالانہ عظیم الشّان اجتماع امریکہ و برطانیہ کیلئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔
چنانچہ امسال اس اجتماع کے موقع پر مسلمانوں کو ہراساں اور بدظن کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ خصوصاً بی بی سی لندن پیش پیش ہے۔ ایک تو لوگوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس اجتماع میں شرکت کرنے کیلئے گھروں سے نہ نکلیں اور دوسرے اس اجتماع کے تقدس کو پامال کرنے کیلئےایسی تحریریں اور ڈاکومنٹریز وائرل ہو رہی ہیں کہ جن سے عام لوگوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اس اجتماع میں جنسی بے راہروی اورخواتین کی خرید و فروش کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔
مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمان اس اجتماع میں شرکت نہ کریں خواہ وہ بدامنی اور جنگ سے ڈریں اور خواہ وہ اس اجتماع کو غیر مقدس سمجھ کر اسے اہمیت نہ دیں ۔ قابل ذکر ہے کہ راقم الحروف کو خود بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے البتہ اس مرتبہ ویزہ نہ مل سکنے کے باعث شامل نہیں ہوسکا ورنہ بی بی سی کا مکمل طور پر پول کھولنے میں مجھے بہت آسانی ہوتی۔اس کے باوجود آئندہ قسط میں اربعین امام حسینؑ کے موقع پر استعمار ی ذرائع ابلاغ خصوصابی بی سی کی کارستانیوں کے حوالے سے مزید کھل کر بات کی جائے گی۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کی ابتداء کو آئندہ ماہ ایک سو دو برس مکم ہو جائیں گے۔ تاریخ میں عام طور پر مسئلہ فلسطین کی ابتداء 1948ء سے کی جاتی ہے جب غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا ناپاک وجود قیام عمل میں آیا تھا تاہم اگر دقیق نگاہ سے ا س مسئلہ کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کی ابتداء تو اسی دن ہو گئی تھی جب بوڑھے استعمار برطانیہ کے اعلیٰ عہدیدارجیمز بالفور نے ایک اعلان نامہ کے ذریعہ فلسطین کی تقسیم صہیونیوں کے حق میں کرنے کے لئے حکومت برطانیہ کو خط لکھا تھا۔ اس اعلان کو اعلان بالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ 2نومبر سنہ1917ء کی بات ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے فوری بعد صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کی ٹھان لی تھی۔اقوام متحدہ جو اس وقت لیگ آف نیشن کے نام سے کام کر رہی تھی،فلسطین کا مقدمہ پیش کیا گیا تو عالمی طاقتوں کی ایماء پر اس مقدمہ کو صہیونیوں کے مقابلہ میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو پائی۔سنہ1922ء کے بعد 1947ء میں نئی اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر 181کے ذریعہ فلسطین کی ناجائز تقسیم کا اعلان کر ڈالا۔نتیجہ میں دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں کے لئے جعلی ریاست اسرائیل سنہ1948ء میں قیام عمل میں آ گئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ بنیادی مسائل کی فہرست میں ٹاپ پر رہا ہے اور اس عنوان سے اقوام متحدہ نے کئی ایک قرار دادیں منظور کی ہیں جن کو بعد ازاں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا رہاہے۔
بہرحال ہم بات کرتے ہیں اقوام متحدہ کے 74ویں سالانہ اجلاس کی کہ جو فلسطین پر صہیونیو ں کے غاصبانہ تسلط کے 72سال مکمل ہو نے پر ہو رہا ہے۔اس اجلاس کی تمام تر روئیداد کو دیکھنے اور طائرانہ نظر دوڑانے پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر دنیا کے سب سے اہم ترین اور پہلے مسئلہ کی طرف کسی نے توجہ مبذول کروائی ہے تو ایران اور ترکی تھے کہ جن کے سربراہان مملکت نے اپنی تقاریر میں فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط کے خلاف بات کی اور فلسطینیوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران کی اگر بات کریں تو ایران، سنہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت فلسطینیوں کی تحریک آزادی اور فلسطین کی آزادی کا سب سے بڑا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور ر فلسطین کاز کا مدد گار بھی ہے، حتیٰ کہ ایران کے دستور میں فلسطین سمیت دنیا کے تمام مظلوموں کی حمایت بنیادی اصولوں کی دستاویز کے طور پر درج بھی ہے۔لہذا ایران کے صدر روحانی نے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے بھی فلسطین کاز کی حمایت کو اقوام متحدہ کے فورم پر بیان کیا اور فلسطین کا مقدمہ پیش کیا ہے۔
دوسری طرف ترکی کے سربراہ مملکت رجب اردگان ہیں کہ جو ایران کے ہمسایہ بھی ہیں۔ماضی میں بھی فلسطین کا زکی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں حالانکہ حکومتی سطح پر ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات موجودہیں لیکن اردگان حکومت نے گاہے بہ گاہے فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ترکی کے صدر کے طرز حکومت اور دنیا کے بدلتے سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔حالانکہ شروع شروع میں ترکی شام کے خلاف سرگرم تھا اور یہی اردگان کہتے تھے کہ بشار الاسد کی حکومت کو جانا ہو گا لیکن اب ان کا موقف تبدیل ہو چکا ہے اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ شام سمیت عراق کو غیر مستحکم کرنے کا امریکی منصوبہ جہاں شام و عراق کو تباہ کر دیتا وہاں ساتھ ساتھ ترکی بھی اس کا شکار بنے بغیر نہ رہتا۔
بات کرتے ہیں اقوام متحدہ کے حالیہ سالانہ اجلاس کی اور اس میں فلسطین کا مقدمہ پیش کرنے کی تو ایران کے بعد ترک صدر تھے کہ جنہوں نے فلسطین کا زکی کھل کر حمایت کی اور صہیونی جرائم کو آشکار کرتے ہوئے صہیونیوں کی مکاریوں اور ظلم و ستم کی داستانوں کو بیان کیا۔اردگان کی تقریر کے تاریخی جملوں میں قابل ذکر جملے یہ تھے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ نا انصافی فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہی ہے۔ آج مقبوضہ فلسطین صہیونی مظالم کی زدمیں ہے اور سب سے زیادہ ناانصافی فلسطینی عوام کے ساتھ ہو رہی ہے جبکہ غاصب اسرائیل کہ جو سنہ1947ء سے پہلے کوئی وجود نہ رکھتا تھا آج تک ظلم و ستم کے ساتھ مقبوضہ فلسطین پر قابض ہے اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہاہے۔یہاں اردگان کے جملوں کو تاریخی جملے کہنے کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ انہوں نے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی اصل حقیقت کی قلعی کھول دی ہے اور بتایا ہے کہ سنہ1947ء سے پہلے اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ تھی، اس کا واضح مطلب یہی بنتا ہے کہ اردگان نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے فلسطین کی آزاد ریاست کہ جس کی بنیاد سنہ1948ء سے قبل کی ہے اس کی حمایت کی ہے جس میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست وجود نہیں رکھتی۔
اردگان نے اسرائیل کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے اقوام عالم سے سوال کیا کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ جولان کی پہاڑی علاقوں کو جعلی ریاست اسرائیل دنیا کی آنکھوں کے سامنے اپنے اندر ضم کر لے جیسا کہ پہلے بھی اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو مقبوضہ بنا رکھا ہے۔یعنی اس عنوان سے اردگان کا موقف شام کی حمایت میں بھی سامنے آیا ہے جو بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
اردگان کی تقریر میں اہم ترین بات جو غاصب صہیونیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کو زائل کرنے کے لئے کافی تھی وہ اردگان کا تقریر کے دوران ہاتھوں میں مقبوضہ فلسطین کا نقشہ اٹھا کر اقوام عالم کو دکھانا تھا۔اردگان کے ہاتھوں میں موجود فلسطین کا نقشہ در اصل صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ان جھوٹے اور منفی پراپیگنڈوں کا جواب بھی تھا کہ جس میں وہ گذشتہ برس ہاتھوں میں ایسی من گھڑت تصاویر لے کرآئے تھے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور دیگر بتا رہے تھے تاہم اس مرتبہ اردگان کے ہاتھوں میں فلسطین کا نقشہ صہیونی ریاست کے وجود کی نفی کے ساتھ بہترین حربہ تھا جس پر اب تک صہیونی ذرائع ابلاغ میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی تکلیف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے ترک صدر کو فلسطین کے حقائق بیان کرنے اور صہیونی ریاست کی نفی کرنے کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اردگان نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی نفی کے معاملے میں جھوٹ بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ اردگان نے کہا تھا کہ سنہ1947ء سے قبل دنیا میں کسی بھی جگہ اسرائیل نام کی کوئی ریاست وجود نہ رکھتی تھی۔یقینا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے تاہم صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو اس بات پر شدید برہم ہیں۔نیتن یاہو نے ساتھ ساتھ ترک صدر کو کرد عوام کا قاتل بھی قرار دیا ہے۔
نیتن یاہو کے جواب میں ترک صدر کے ترجمان ابراھیم کالن نے نیتن یاہو کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک صدر کی جانب سے تاریخی حقائق بیان کرنے پر لگتا ہے کہ نیتن یاہو کا دماغی توازن خراب ہو چکا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے حالیہ سالانہ اجلاس میں مسلم دنیا کے 57ممالک میں سے صرف ایران اور ترکی ہی واضح طور پر فلسطین کی حمایت میں کھڑے نظر آئے ہیں جبکہ امید یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریر میں کشمیر کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے اولین مسئلہ فلسطین کو بھی اجاگر کریں گے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی اور ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ نے اسلام آباد میں علامہ شہنشاہ حسین نقوی سے ملاقات کی اور قومی و ملی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران علامہ شہنشاہ نقوی کی طرف سے پیش کیے گئے نکات پر بھی بات چیت کی۔
اسلام آباد میں ایم ڈبلیو ایم کے عہدیداروں کی علامہ شہنشاہ نقوی سے ملاقات کے موقع پر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر سید محمد قاسم شمسی، سابق مرکزی صدر سید حسن زیدی اور مقامی شیعہ رہنماء بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) اسلام آباد کے شہریوں پر صفائی ٹیکس کا نفاذ قبول نہیں کریں گے۔ اختیارتی تقسیم نے شہرکو مسائلستان بنا دیا ہے شہری انتظامیہ شہرکے معاملات چلانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔وفاقی دارالحکومت میں شہری انتظامیہ کو غیر سیاسی ہونا چاہئے ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیوایم اسلام آباد انجینئرسید ظہیر عباس نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی نظام کے لوئے لنگڑے نفاذنے ناصرف اداروں کے درمیان کھنچاتانی پیدا کی بلکہ شہرکے مسائل میں اضافہ کردیا۔ اس وقت وفاقی دارلحکومت پانی ،سیوریج ،صفائی ڈینگی،پارکوں کی بدحالی سمیت امن وامان کے حوالے سے بھی مسائل میں گھیرہواہے یہ انتظامی غفلت ہے کہ ابھی تک کئی علاقوں میں ڈینگی سپرے نہیں کیا جاسکا ۔گذشتہ ایک سال میں شہر میں نا کوئی نیا کام ہوا ہے اور ناہی پہلے سے موجود سٹریکچرکی بحالی اور مینٹینس پر کام ہوا ۔
شہری انتظامی اختیارات کی اداروں میں بٹ چکے ہیں اور یہ سب آپس میں دست وگریبان ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ عوا م پہلے ہی مہنگائی اور کاروبارکی تنزلی سے پریشان حال ہے۔حکومت کو نت نئے ٹیکس لگانے کی سوجھ رہی ہے شہری ایڈمنسٹریشن کے معاملات کو درست کیا جائےکپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو مذید موثر اور بہتر ادارہ بنایا جانا چاہئے تھا اور اس میں سے کرپشن کو ختم کیا جاتا لیکن ایسانہیں کیاگیا۔اگر حکومت وفاقی دارالحکومت کوبہتری کی جانب لے جانا چاہتی ہے تو میئر سمیت کمشنر ،اور کپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اختیارات کوضم کر کے ایک چھتری تلے لایا جائے اور ایک ماڈل شہری انتظامیہ کی تشکیل عمل میں لائی جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں یمن کی متحدہ افواج نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد خطے کی صورتحال شدید متاثر ہوئی تھی۔ شروع شروع میں سعودی حکومتی ذرائع نے ان حملوں کا الزام ایران اور عراق پر عائد کیا تاہم بعد ازاں حقائق اور شواہد نے ثابت کیا کہ یہ حملہ یمن کے اندر سے ہی کیا گیا تھا اور اس کا مقصد سعودی حکومت کو یمن میں جارحیت کو روکنا تھا۔
یمنی افواج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی افواج نے یہ کارروائی سعودی عرب کے اندر موجود کچھ خیر خواہوں اور سعودی حکومت کے قریبی ذرائع جو یمن پرامریکی و سعودی جارحیت کے خلاف ہیں، ان کی مدد سے انجام دیا ہے، انہوں نے مزید تفصیلات میں بتایا تھا کہ یمنی افواج نے اس کارروائی میں دس ڈرون طیارے استعمال کئے جو خود کش حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ٹھیک ہدف پر کامیابی کے ساتھ نشانہ بنائے گئے تھے۔
ان حملو ں کے نتیجہ میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل فیلڈ آرامکو کو شدید نقصان پہنچا او ر اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے تاحال امدادی ٹیمیں کاموں میں مصروف ہیں۔
یمنی افواج کے اس حملہ سے جہاں دنیا میں تیل کی آمد و رفت اور خرید و فروخت متاثر ہوئی وہا ں سب سے اہم بات امریکہ اور سعودی حکومتوں کی وہ مشترکہ سیکورٹی ہے جو اس حملہ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
ماہرین سیاسیات جہاں ایک طرف معاشی اعتبار سے اس حملہ کے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں وہاں دنیا کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے نزدیک حقیقت میں آرامکو پر ہونے والا حملہ امریکی سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنا کر کیا گیا ہے۔یمنی افواج نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ کی جدید ترین سیکورٹی آلات اور اربوں ڈالر ک اسلحہ برائے نام ہے اور سعودی حکومت کی حفاظت نہیں کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر چار سال قبل یمن کے خلاف زمینی،، فضائی اور سمندری جنگ کا آغاز کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں دسیوں ہزار معصوم انسانی جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے جبکہ یمن کے بعض علاقو ں میں وبائی امراض کے ساتھ ساتھ قحط کا مسئلہ بھی درپیش رہا ہے۔ اس اثنا میں امریکی حکومت نے نہ صرف سعودی اتحادیوں کی ہر طریقہ سے مدد کی ہے بلکہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی دیا ہے جس کا بے دریغ استعمال تاحال یمن کے علاقوں میں کیا جا رہا ہے۔
آرامکو پر ہونے والے یمنی افواج کا حملہ جہاں سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا اور واضح پیغام تھا وہاں ساتھ ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک کیلئے بھی پیغام تھا کہ جو یمن کے خلاف جنگ میں امریکی و سعودی اتحاد کا حصہ ہیں۔اسی طرح ان حملوں نے امریکہ کے دفاعی نظام کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے بعد اب سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام پیغامات کے ساتھ ساتھ یمنی افواج کی جانب سے اسرائیل کے لئے بھی ایک سخت پیغام ہو۔
کیونکہ اگر سعودی تیل تنصیبات کی دفاعی صلاحیت کو ناکام بنا کر اتنا بڑا حملہ کیا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل پر بھی اس سے بڑے حملے ہو سکتے ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے قریبی کسی بھی ممالک سے انجام دئیے جا سکتے ہیں یا پھر شاید یمنی افواج ہی اس صلاحیت کی حامل ہو ں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے ایک اور بڑے شیطان اتحاد ی اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا ڈالیں۔
کچھ عرصہ قبل حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ آزمائی کرنے سے پرہیز کرے ورنہ جوابی کارروائی میں اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا یا جائے گا جس کے نتیجہ میں غاصب صہیونی ریاست میں بسنے والے صہیونی سب سے پہلے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔سید حسن نصر اللہ نے اس موقع پرصہیونی آباد کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا وزیراعظم نیتن یاہو ان کو جھوٹ بولتا ہے اور حقائق سے آگاہ نہیں کرتا ہے تاہم صہیونی آباد کاروں کو چاہئیے کہ اپنے اپنے وطن میں واپس لوٹ جائیں کیونکہ اگر اسرائیل نے لبنان یا حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمت کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی تو جواب بہت سخت ہو گا اور پھر اسرائیلی قابض ریاست کا وزیر اعظم سب سے پہلے انہی صہیونی آباد کاروں کو جنگ کا چارہ بنا دے گا۔
حالیہ دنوں یمنی افواج کی جانب سے آرامکو پر ہونے والے کامیاب حملہ کے بعد غاصب صہیونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگاروں نے اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ اگر سعودی آرامکو کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل کی اہم تنصیبات بشمول ایٹمی تنصیبات کی سیکورٹی کو بھی توڑا جا سکتا ہے۔صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے پہلے ہی گذشتہ دنوں حزب اللہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں سات کلو میٹر اندر داخل ہو کر کی جانے والی اسرائیل مخالف کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ترین ہو چکا ہے تاہم انہی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرامکو پر ہونے والے حملوں کے بعد اب بعید نہیں ہے کہ اسی طرز کی کاروائی اسرائیل کے حساس مقامات کے خلاف بھی کی جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام ظالم و جابر قوتیں وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کے وعدوں کے مطابق سر نگوں ہو رہی ہیں، دنیامیں جہاں کہیں بھی مظلوم ہیں اوت صبر و استقامت کا مظاہر کر رہے ہیں یقینا الہی وعدوں کے مطابق سرخرو ہو رہے ہیں۔کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، عراق، لبنان، شام، فلسطین ہرسمت مظلوموں کا ایک اتحاد ابھرتا ہو نظر آ رہاہے جو دنیا کے سامراجی وشیطانی نظام و اتحاد کے بالمقابل سیننہ سپر ہے اور اسی پائیدار استقامت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج یمن کے پا برہنہ مجاہدین نے دشمن کے خلاف عظیم کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کامیابیوں کے دور رس نتائج یہ ہیں کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اپنی بقاء کے لئے سوال اٹھا یا جا رہا ہے اور صہیونیوں کے دلوں میں خوف بیٹھ چکا ہے کہ اب آرامکو کے بعد اسرائیل کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا، اور اس بات میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہیے۔
یہ الہی وعدہ ہے کہ ظالمو ں کو نابود ہونا ہے اور مستضعفین کی حکومت قائم ہونی ہے چاہے یہ بات خدا کے دشمنوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔
تحریر: صابر ابو مریم