وحدت نیوز(آرٹیکل) میں اپنے اس دوست کو نہیں بھول سکتا، جو آج سے تقریبا دس سال پہلے ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم سب کو پرنسپل صاحب کے کمرے میں لے گیا، مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں محرم الحرام کے دس دن مکمل چھٹی ہونی چاہیے، مدیر صاحب نے ہماری بات سنی، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ کی دس دن کی چھٹی کا امام حسینؑ سے کیا تعلق؟
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ لوگ یہ مطالبہ کرتے کہ ان دس دنوں میں اس بین الاقوامی یونیورسٹی میں امام حسینؑ کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے، میں آپ لوگوں کو شاباش دیتا کہ اگر آپ لوگ میرے پاس کچھ ایسی کتابوں کے تعارف کیلئے آتے جن کے مطالعے سے آپ امام حسینؑ کے اہداف اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے، بہترین مقالہ جات لکھ سکتے، اور لیکچرز میں ان علمی کتابوں سے استفاد کرتے، انہوں نے کہا کہ میں کتنا خوش ہوتا کہ اگر آپ لوگ سیرت امام حسینؑ کو سمجھنے کیلئے مقالہ نویسی کے کسی مقابلے کے سلسلے میں مجھ سے رہنمائی لینے آتے۔۔۔
قارئین یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ پرنسپل صاحب نے پورے دس دن کی چھٹی نہیں دی اور طبق قاعدہ نو اور دس محرم کو ہی چھٹی کی گئی۔ ان بقیہ آٹھ دنوں میں ہمارا وہ دوست یا تو کلاس میں آتا نہیں تھا اور اگر آئے بھی تو یہی گلہ کرتا تھاکہ میں ان لوگوں کی امام حسینؑ سے شکایت کروں گا، یہ پکے وہابی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پندرہ محرم الحرام سے ہمارے ٹرم کے امتحان شروع ہوئے تو اُن صاحب کا اعلان تھا کہ امتحان جانے اور امامؑ جانے، بہر حال حسبِ امید وہ صاحب ساری کتابوں میں فیل ہوگئے، اسی ربیع الاول میں انہوں نے عمامہ اور عبا قبا پہن لی اور تقریباً چند ہی مہینوں بعد ملت کی ہدایت کیلئے واپس پاکستان تشریف لے گئے۔۔۔۔آج کل مشہور علامہ ہیں۔
میں اپنے اس کلوس فیلو کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہی دنوں ہر کلاس میں آتے تو تاخیر سے لیکن کلاس سے نکلنے کی انہیں بہت جلدی ہوتی۔ ایک دن علم کلام کی کلاس میں ان سے استاد نے کچھ سوال پوچھے جن کے جوابات سُن کر ساری کلاس کشتِ زعفران بن گئی۔
کلاس کے بعد میں نے عرض کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں علمِ کلام میں مانے ہوئے استاد نصیب ہوئے ہیں، اس پر وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ ہمارے عقائد کتابوں اور استادوں کے محتاج نہیں ہیں، ہمارے عقائد ہماری ماوں نے دودھ میں ملا کر ہمیں پلا دئیے ہیں۔ہم عقیدے اور معرفت کی اس منزل پر پیدا ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے یا کلاس میں جانے سے ہمارے علم، عقیدے یا معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بالکل صحیح فرمایا تھا وہ اس کے بعد سات آٹھ سال تک ہمارے ساتھ رہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس دوران واقعتاً ان کے علم، عقیدے اور معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آج کل وہ بھی پاکستان میں ہیں اور خیر سے وہ بھی علامہ ہیں۔
اس وقت اس ہستی کا ذکر کیسے نہ کروں کہ جس کے دعوے کے مطابق اس نے اجتھاد و عرفان کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی، وہ جب اپنا شجرہ نسب بیان کرتے تھے تو اکثر نئے اور پرانے مراجعِ عظام اور مجتھد ین کرام سے ان کی خونی رشتے داریاں ثابت ہو جاتی تھیں اور جب عرفا کا ذکر کرتے تھے تو وہ خود ہی عرفا کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے لہذا انہیں شعرا کے اشعار کی طرح عرفا کی سینکڑوں کرامات ازبر تھیں۔ ان کا یہ بھی ادعا تھا کہ ان کے دادا نے دیوار پر بیٹھ کر گھوڑی کی طرح سے سواری کی تھی اور ایک درخت پر بیٹھ کر کشمیر کی سیر کی تھی۔
عرفان کی کلاس میں وہ اکثر استاد کو روک کر عرفانی قصہ سنانے کی اجازت مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے، وہ فرماتے تھے کہ یہ جو یہاں پر عرفان پڑھا ، سمجھا اور بتا رہے ہیں یہ سب ان کے اپنے ڈھکوسلے ہیں۔
البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ عرفان کے علاوہ دیگر کلاسوں میں بھی ان کی حالت قبلِ رحم ہوتی تھی، کئی مرتبہ انہیں استادوں سے نمبروں کی بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔۔۔ کچھ سال انہوں نے بھی رگڑا کھایا، آج کل وہ بھی پاکستان میں دین کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں اور علامہ صاحب ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی دینی مدارس سے بھی نکلے ہوئے ایسے بے شمار علامہ حضرات موجود ہیں جو تین چارسال فقط ادبیات اورایک حد تک اصول اورفقہ پڑھنے کے بعد قوم کو دن رات دین سکھانے میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ جو ایک دو سال میں ہی علامہ بن جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔
ہر سال نجانے کتنے ہی اس طرح کے علامے پاکستان کے معاشرے میں منبر پرجلوہ افروز ہوتے ہیں اور محراب میں جگمگاتے ہیں۔ چنانچہ اب آپ پاکستان میں دیکھ لیں کہ پہلے کسی زمانے میں ذاکرین حضرات کے القابات پر علمائے کرام اور عام لوگ بھی اعتراض کرتے تھے لیکن اب علمائے کرام کہلوانے والوں کے القابات، ذاکرین سے بھی زیادہ لمبے چوڑے ہو گئے ہیں اور اب یہ رونقِ منبر بننے والے سب کے سب علامہ صاحب ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو ان القابات سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فرشِ عزا بچھانے والے اگر علامہ سے کم کسی کو بلائیں تو محلے، علاقے اور شہر میں ان کی مجلس کا معیار گر جاتا ہے لہذا جو منع کرے اسے بھی زبرستی علامہ بنا دیا دیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان علامہ حضرات کی مجالس سنیں، آپ دیکھیں گے کہ ان کی علمی و تحقیقی سطح ایک ذاکر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چارہ ذاکر اتنے چھل بل نہیں جانتا جتنے یہ جانتے ہیں، ذاکر اگر غلو کرے تو بے چارہ سیدھا سادھا غلو اور شرک کرتا ہے اور انہیں چونکہ تھوڑی بہت مدرسے کی ہوا لگی ہوتی ہے ، اس لئے یہ تھوڑا بہت چھپا کر اور بات کو گھما پھرا کر غلو اور شرک کرتے ہیں، بس جو بات ایک ذاکر کرتا ہے، اس نے بھی کسی مدرسے کی تعلیمی نصاب سے حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ وہ غریب کی اپنی محنت ہوتی ہے اور جو کچھ یہ علامہ حضرات بیان کرتے ہیں وہ انہوں نے بھی مدرسے سے بطورِ نصاب تعلیم نہیں سیکھا ہوتا، لہذا یہاں بھی غریب کی اپنی ہی محنت ہوتی ہے۔ لہذا دونوں طرف کے غریبوں کی گفتگو کی صرف لفاظی مختلف ہوتی ہے لیکن عملا اور نتیجے میں ان کی محنت کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
مثلا!، ایک آدمی منبر سے عرفانی مسائل بیان کرتا ہے ، حالانکہ وہ حوزہ علمیہ میں عرفان کا طالب علم ہی نہیں رہا، معاشرے ، اقتصاد اور عمرانیات جیسے حساس موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے لیکن بے چارے کی ساری اپنی محنت ہوتی ہے، وہ کسی موسسے یا مدرسے میں ان علوم کا طالب علم ہی نہیں رہا ہوتا، ایک علامہ صاحب آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن وہ علمِ تفسیر کے شعبے میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہوتے، ایک علامہ دہر عقائد کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے علم کلام کے شعبے میں کسی مدرسے میں حصولِ علم کا شرف ہی حاصل نہیں کیا ہوتا تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ جب غریب نے اپنی ہی محنت کرنی ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ عمامہ پہنے یا جناح کیپ، وہ داڑھی بڑی رکھے یا چھوٹی، وہ سر کو ڈھانپ کر منبر پر بیٹھے یا ننگے سر کھڑا ہو جائے۔۔۔اس نے قوم کی خدمت کیلئے سارا خرچہ تو اپنی جیب سے ہی کرنا ہے۔
اس وقت رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای کے اس فرمان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آج تحقیق کا مسئلہ صرف دوسروں کو دکھانے (تجمل گرائی) کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری بقا اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اربابِ اختیار کلمہ تحقیق سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں، لیکن میرا اس پر ٹھوس یقین ہے کہ آج ہمیں اپنی شناخت، اپنے وجود ، اپنے استقلال اور اپنے مستقبل کیلئے جو دو تین اہم کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک علمی تحقیق ہے۔[1]
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاد کا مطلب میدان میں ہدف و ایمان کی خاطر مجاہدت کے ساتھ موجود رہنا ہے، لہذا یہ جو جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم ہے، اس میں جہاد بالنفس کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ میدان جنگ میں جا کر اپنی جان قربان کر دیں یہی جہاد بالنفس ہے!؟ نہیں جہاد بالنفس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رات سے صبح تک اپنے وقت کو ایک تحقیقی کام پر صرف کریں، آپ کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہو، جہاد بالنفس یہ ہے کہ تحقیق کیلئے اپنی تفریح کو چھوڑ دیں، اپنے بدن کے آرام کو بھول جائیں، بہت سارے ایسے کاموں کو کہ جن سے آپ بہت ساری دولت کما سکتے ہیں ، انہیں چھوڑ دیں اور اپنے آپ اور اپنے وقت کو تحقیق میں صرف کریں۔[2]
اس کے بعد ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب یہ ہماری دنیا بہت بدل چکی ہے، یہ عہد دادی اماں اور نانی اماں کی کہانیوں کے بجائے تحقیق اور تخصص کا ہے، آج ایک طرف تو تعلیمی اداروں اور علمی محافل میں تحقیق کے بغیر کسی کا ایک لفظ قبول نہیں کیا جاتا اور لیکن دوسری طرف ہم علم کے نام پر اپنی مجالس و محافل میں کیا تقسیم کر رہے ہیں۔
ہم آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک علمی تحقیق وہ نہیں ہوتی کہ کسی ڈائجسٹ یا اخبار کے مطالعے کی طرح اِدھر اُدھر سے چند باتوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جائے، بلکہ ایک علمی تحقیق وہ ہوتی ہے، جس کے منابع کے درجات کا تعین ہوتا ہے، جس کا محقق علمی و تحقیقی معیارات کے مطابق تربیت یافتہ ہو تا ہے اور جس کے مفروضا ت کو پہلے ماہرین کی محفل میں نقد و بررسی کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پھر اگر علمی ماہرین یعنی علما اس کی تصدیق کر دیں تو تب جا کر اس بات کو انسانیت کی خدمت اور ہدایت کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔یہ ہے وہ تحقیق جو اقوام کی شناخت ، وجود ، استقلال اور مستقبل کی بقا کے لئےمطلوب ہے۔ لیکن جہاں تخصص اور تحقیق کے بغیر ہی لوگ علامہ بن جاتے ہوں وہاں اقوام کا وہی حال ہوجاتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تنظیم سازی علامہ سید غلام شبیر بخاری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں امت مسلمہ کو ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کایوم ولادت باسعادت تمام مسلمانوں کے درمیان یکساں احترام اور عقیدت کا دن ہے ۔اس دن رب العالمین نے محمد مصطفیٰ ؐکو رحمت اللعالمین بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔یوم ولادت رسول خداؐتمام مسلمین کے درمیان اتحاد ووحدت کی علامت ہے۔
علامہ شبیر بخاری نے کہاکہ مجلس وحدت مسلمین ہر سال کی طرح سال بھی جشن عید میلاد النبی ؐکو شایان شان اندازمیں منائے گی ۔ تمام صوبائی مسئولین ضلعی اور یونٹ عہدیداران کو ہدایات جاری کریں کہ وہ شرکائے جلوس کے استقبال کی بھرپورتیاریاں کریں۔ایم ڈبلیوایم کےکارکنان عاشقان مصطفیٰؐ کے لئے استقبالیہ کیمپس لگائیں گے سبیلیں لگا کر ان کی تواضع کریں گے جبکہ تمام اضلاع جشن میلاد کے موقع پر چراغاں ، محافل اورسیمینارز کا انعقاد کریں ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ سیاسیات کے زیراہتمام وحدت کانفرنس منعقد کی جائے گی ۔17نومبر بروز اتوار ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ اس کانفرنس میں ملک بھر سے جید شیعہ سنی علمائے کرام، زعمائے کرام ، سجادہ نشین حضرات شرکت کریں گے ۔ جبکہ خصوصی خطاب سربراہ ایم ڈبلیوایم پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کریں گے ۔
مرکزی سیکریٹریٹ سےمیڈیا کو جاری بیان میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اور فوکل پرسن برائے بین المذاہب ہم آہنگی حکومت پنجاب سید اسدعباس نقوی نے کہاکہ نبی کریم ؐ کی ذات اقدس تمام مسلمانوں کے درمیان نقطہ وحدت ہے ۔ وطن عزیز میں بین المسالک ہم آہنگی کے لئے یہ کانفرنس سنگ میل ثابت ہوگی ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو درپیش چیلنجز خصوصاًانتہا پسندی، دہشت گردی ، فرقہ واریت اور مذہبی مقدسات کی آڑمیں مذموم مقاصد کے حصول کی کوششوں کے خلاف تمام محب وطن شیعہ سنی علمائے کرام اور اکابرین اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے ۔ اسدعباس نقوی نے مزیدکہاکہ وحدت کانفرنس میں شرکت کیلئے معززمہمانان گرامی کو دعوت دینے کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے ۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل اور مجاہد عالم دین علامہ آغا سید علی رضوی نے کہاکہ سر زمین اہلبیت ؑمیں یوم حسین ؑپر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یونیورسٹی آف بلتستان میں آج یوم حسینؑ کے موقع پر متعصب رجسٹرار نے بلاوجہ تعطیل کا اعلان کرکے اپنے آپ یزیدی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
انہوں نے یوم حسینؑ کمیٹی سے گزارش کی کہ جس دن بھی یونیورسٹی کھلے اسی دن یوم حسینؑ منائیں۔ یونیورسٹی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ اب ہر قیمت پر یوم حسینؑ یونیورسٹی میں ہی ہونا چاہیے، کسی قسم کی ناخوشگواری کی صورت میں تمام تر ذمہ داری متعصب رجسٹرار پر عائد ہوگی۔ اور یاد رکھیں جو بھی حسینیت سے ٹکرائے اس کا انجام اپنے آباو اجداد کی طرح ہوگا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ابوبکر البغدادی ذرائع ابلاغ اور دنیا کے لئے ایک معروف نام ہے کیونکہ یہی وہ شخص تھا کہ جس کو داعش نامی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ اور قائد کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ابھی گذشتہ دنوں امریکی صدر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ کچھ بہت بڑا ہوا ہے۔اس جملے کے لکھنے کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ اور ان سے متاثر خلیجی ذرائع ابلاغ نے ایک ہی خبر کی رٹ لگا دی کہ شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی امریکی حملوں میں مارا گیا ہے۔
دراصل دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ پر امریکی وصہیونی لابی کا مضبوط کنٹرول دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو جس سمت چاہتا ہے موڑ دیتا ہے اور اہمیشہ مغربی سامراج نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کے ذریعہ دنیا میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی رائے کو بدلنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی صدر نے جو ابو بکر البغدادی کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے آخر کس حد تک سچائی رکھتا ہے یا یہ کہ اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟دنیا اس حقیقت کو اب بخوبی جان چکی ہے کہ امریکہ نے پہلے طالبان قیادت بنائی اور بعد میں اسی طالبان قیادت اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعہ ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔اب شام اور عراق میں خود امریکہ کی بنائی ہوئی داعش نامی دہشت گردتنظیم کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کو امریکہ نے ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
آج امریکی صدر نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پیش رو امریکی صدور نے عراق اور شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے داعش نامی دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔یہ بات بھی واضح رہے کہ ابو بکر البغدادی کے پہلے بھی کئی مرتبہ مارے جانے کی اطلاعات مل چکی ہیں جن کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی اور اسی طرح حالیہ امریکی آپریشن میں بھی دہشتگرد تنظیم داعش کے سرغنہ ابو بکر البغدادی کے قتل ہونے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
امریکہ جو غرب ایشیا کے خطے میں سنہ2001ء کے بعد سے مسلسل فلسطین، لبنان، شام، افغانستان، عراق و ایران میں شکست کھا رہاہے اور خطے پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی مدد سے بھی اپنے ناپا ک عزائم کی تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
امریکی سرکار نے داعش کو اس لئے بنایا تھا تا کہ شام و عراق کو کنٹرول کر سکیں اور اسی طرح اس خطے کو کئی حصو ں میں تقسیم کریں جبکہ اس سارے عمل کا فائدہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں تھا کہ اسے تحفظ فراہم ہو سکے لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ کئی سال تک داعش نے شام و عراق اور لبنان کے علاقوں میں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کے باوجود شکست کھا گئی ہے اور اب حال ہی میں امریکی صدر کا ابو بکر البغدادی کو قتل کردینے کے دعویٰ نے امریکی سرکار پر مزید سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
غرب ایشیائی ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین امور سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایسے وقت میں شام کے علاقہ ادلب میں کاروائی کی ہے کہ جب پہلے ہی ترکی کی فوجیں اس علاقہ میں فوجی چڑھائی کر چکی ہیں۔یہ امریکی آپریش بھی ترکی میں موجود امریکی بیس سے کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید امریکہ کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ابو بکر البغداد ی ترک افواج کے ہاتھ زندہ سلامت آ جاتا ہے تو پھر امریکیوں کے بہت سارے ایسے راز جو دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں وہ سب کے سب آشکار ہو جائیں گے اور امریکہ کا سیاہ چہرہ مزید دنیا کے سامنے عیاں ہو جائے گا تاہم امریکی سرکار نے اس علاقہ میں جلد بازی میں کاروائی کرتے ہوئے ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا
دعویٰ کر لیا ہے۔کچھ ماہرین سیاسیات کاکہنا ہے کہ امریکہ کیونکہ شام و عراق میں داعش کا بانی ہے اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کر رہاہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں سرگرم عمل ہے تاہم اب ایسے حالات میں کہ جب شام، ایران، روس اور حزب اللہ نے مشترکہ طور پر لبنان، شام اور عراق میں داعش کا صفایا کیا ہے تو امریکہ خطے میں داعش کے خلا ف اس کامیابی کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے حصہ میں نہیں جانے دینا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ امریکی سرکار نے بغدادی جیست دہشت گرد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے خطے میں داعش پر فتح حاصل کرنے کا تمغہ اپنے سینہ پر سجانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے لیکن دنیا پہلے ہی اس بات کو جانتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہی ہیں کہ جنہوں نے خطے کے عرب خلیجی ممالک کے اشتراک سے نہ صرف داعش بلکہ متعدد کئی دہشت گرد گروہ تشکیل دئیے تھے کہ جن کا کام شام کی تقسیم، عراق کی تقسم اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچا کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی بقاء کویقینی بنانا تھا۔
چند ایک ماہرین نے امریکی سرکار کے داعش کے سرغنہ کو ہلاک کرنے کے دعویٰ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے کہ آخر ایسی کون سی قیامت آئی ہے کہ امریکہ نے گذشتہ سات برس میں تمام تر ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کو نشانہ نہیں بنایا اور سات سال تک شام و عراق میں داعش کی جانب سے جاری خونریزی پر کوئی ایسا حملہ سامنے نہیں آیا کہ جس میں داعش کے عمومی دہشت گردوں کو بھی قتل کیا گیا ہو۔آخر اب کس طرح امریکہ کو معلوم تھا کہ داعش کا دہشت گرد ابو بکر البغدادی ادلب کے علاقہ میں عین اسی مقام پر موجود تھاکہ جہاں امریکی فوج نے حملہ کیا او ر اسے ہلاک بھی کر دیا۔آخر یہ حملہ داعش کے شام و عراق میں قابض ہوتے وقت کیوں نہیں کیا گیا تھا کہ جس زمانے میں ابو بکر البغدادی جیسے دہست گرد کھلم کھلا علاقوں میں خون کا بازار گرم کر رہے تھے۔
یہ رائے رکھنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکہ دراصل روز اول سے ہی ابو بکر البغدادی کے ساتھ رابطے میں تھا اور خطے میں انارکی اور دہشت گردی کروانے کے لئے سرگرم عمل تھا تاہم اب بغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر کے امریکہ کھیل کو اپنی طرف پلٹ کر دنیا کے سامنے ہیروبننے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور شاید ایک بہانہ بھی تلاش کر لیا گیا ہے تا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلاء کو باعزت طور پر انجام دے پائے۔
ایک اور سیاسی رائے کے مطابق ماضی میں امریکی صدر نے طالبان دہشت گردوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کرنے کے اعلان کے بعد دوسرا امریکی الیکشن جیت لیا تھا تاہم موجودہ امریکی صدر نے بھی اپنے پیش روصدر کی روایت کے مطابق خود اپنے ہی پیدا کردہ دہشت گرد سرغنہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاکہ امریکی عوام آنے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب کر سکیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس خبر کو صرف ذرائع ابلاغ سے لیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ اس ہلاکت کی تصدیق کی جائے۔بہر حال امریکہ خطے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے دہشت گردانہ عزائم پرپردہ ڈالنے کے لئے چاہے اپنے بنائے ہوئے ہزاروں ابو بکر البغدادی بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کر لے تو امریکہ کے انسانیت مخالف جرائم میں کسی طرح کمی نہیں آئے گی۔دنیا کی نظر میں امریکہ کل بھی لاکھوں مظلوم انسانوں کا قاتل تھا اور آج بھی امریکہ کی پوزیشن دنیا کے عوام کی نگاہوں میں ایک قاتل اور ظالم سے بڑھ کر نہیں ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل ) الحشد الشعبی ہی کیوں امریکی بلاک کے نشانہ پر ہے؟
حشد وہ عوامی رضا کار فورس ہے جس کی بنیاد آیت اللہ العظمی السید سیستانی دام ظلہ کے فتوی اور مقاومت کے بلاک کی دفاع عراق ومقدسات کی حکمت عملی کے تحت رکھی گئی۔جس وقت داعش موصل پر قبضہ کر چکے تھے اور بغداد وکربلا کے چند کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے تھے۔
ہر ملک کا دفاعی نظام آرمی اور امنیتی ادارے اس ملک کی امنیت کے ضامن ہوتے ہیں لیکن عراق میں الحشد الشعبی استحکام وطن کی ضمانت بن چکا ہے۔اس لئے اب امریکی بلاک تقسیم عراق کے منصوبے کی ناکامی اور داعش کی شکست کا انتقام اب منافقین کے ذریعے حشد سے لینا چاھتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق کی مسلح افواج اور امنیتی فورسز کہاں تھیں؟ داعش اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی چلی گئی کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوئی ؟ ۔عراق جس نے 8 سال عراق کے خلاف جنگ کی اور کویت پر قبضہ کیا اسکی لمبا فوجی تجربہ رکھنے والی عرب دنیا کی ایک مضبوط فوج کہاں تھی.؟
عراق کے خلاف ایک خطرناک سازش
امریکا نے سیاسی نظام کے ساتھ 2003 میں دفاعی نظام کو بھی تباہ کر دیا۔عراق کو ہمیشہ کمزور ، داخلی فتنوں اور جنگوں میں مبتلا رکھنے اور عراق کے امریکا مخالف ھمسایہ ممالک کی امنیت کو ہمیشہ خطرات سے دوچار کرنے کے لئے امریکا نے ایک بڑی سازش کے تحت عراقی مسلح افواج کا نظام ہی تحلیل کر دیا اور اس ملک کو مکمل طور پر کھوکھلا کر کے کسی وقت بھی خانہ جنگی کا ماحول بنا دیا . فوج کی تحلیل کا فرمان امریکی وائسرائے بول بریمر جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کا حکمران بنا اس نے جاری کیا تھا. عراق کے ہمسایہ ملک ایران میں جب شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور امام خمینی رح کی قیادت میں عوامی اسلامی انقلاب آیا. تو حضرت امام خمینی نے ایران کو مضبوط رکھنے کے لئے ملک کے دفاعی نظام کو نہیں توڑا۔بلکہ جہاں کمی محسوس کی وہاں نئی دفاعی فورسز بنا لیں اور ملک کو دفاعی طور پر مضبوط کیا۔
جب امریکا نے داعش بنانے کا پروگرام بنایا تو اسی تحلیل شدہ عراقی فوج کے کمانڈرز اور فوجیوں کو استعمال کیا انکی دھڑیاں بڑھوا کر تکفیری گروہوں کی کمانڈ ان کے حوالے کر دی پھر جو تباہی ہوئی وہ سب نے دیکھی اور عراقی عوام اور ملک کی امنیت کی حفاظت کے لئے اگر فوری طور پر عراقی غیرتمند ، بہادر اور محب وطن قیادت اور جوانوں پر مشتمل یہ حشد شعبی تشکیل نہ پاتا تو آج مقدسات انبیاء و اھل بیت وصحابہ واولیاء سب مسمار ہوچکے ہوتے اور جنت البقیع کا منظر پیش کر رہے ہوتے. عراق کی ثروت سے پورے عالم اسلام کی مزید حکومتیں گرائی جاتیں اور عراق صحراء میں تبدیل ہو چکا ہوتا. اور قتل وغارت گری کا بازار ہر جگہ گرم ہوتا. اس حشد شعبی نے بیش بہا قربانیاں دیکر فقط عراق کی امنیت کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی امنیت کو محفوظ کیا ہے۔
ان عظیم خدمات اور قربانیوں کا صلہ سادہ لوح عراقی عوام اور دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا منافقین اس حشد کے ابطال کو شہید کر کے دے رہے ہیں۔وہی سازش جو صفین میں ہوئی اور امیرالمؤمنین. علی ابن ابی طالب ع جیسی کامل واکمل معصوم قیادت سے سادہ لوح عبادت گزاروں کو دور کیا گیا اور فتح کا علم بلند ہونے کے قریب تھا اور منافقت کا سر کچلا جا رھا تھا مقدس نماوں نے جنگ کا نقشہ بدل دیااور اسی طرح جیسے امیر مختار کی فوج کو کمزور کرنے اور اس کی صفوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے خناس اور منافق وارد میدان ہوئے آج تاریخ ایک بار پھر دھرانے کی کوشش جاری ہے۔
بعض مقدس نما لیڈرز اور سازش کا شکار سادہ لوح علماء کے پیروکار آج ایک طرف حشد شعبی کے دفاتر ومراکز پر پُرامن مظاہروں کی آڑ میں حملے کروا رہے ہیںاور حشد کے اھم کمانڈر پر قتلانہ حملے کر رہے ہیں اور انکے گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور پھر بیان آتے ہیں کہ حکومت امن وامان کی بحالی کے لئے حشد شعبی کو استعمال نہ کرے اور انکا آخری ھدف عراق کی سابقہ فوج کے بعد اب ایک بار پھر حشد شعبی کی تحلیل ہے. تاکہ یہ ملک کمزور سے کمزور تر رہے۔
البتہ حشد کی قیادت کہ جس نے عسکری میدان میں امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب امارات کی تمام تر کی جانی والی داعش پر سرمایہ گزاری کو اپنی حکمت وشجاعت اور صبر وبصیرت سے شکست سے دوچار کیا۔
ان شاء اللہ اس فتنے کے میدان میں بھی دشمن کو شکست سے دوچار کریں گے. اور عراقی عوام اور پوری دنیا کے سامنے انہیں ذلیل ورسوا کر کر کے انکا اصلی مکروہ ومنحوس چہرہ دنیا کو دیکھائیں گے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹرسید شفقت شیرازی