وحدت نیوز(کراچی)مرکزی مسجد و امام بارگاہ حیدر کرار ٹرسٹ اورنگی ٹاؤن سیکٹر 5-E میں منعقدہ مجلس چہلم امام حسین (ع) سے خطاب کے دوران مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ خانوادہ رسول (ص) اور شہداء کی عظیم اور لازوال قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائیگا، جن مقاصد کیلئے انہوں نے اپنی جانیں قربان کیں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا، خاندان رسالت (ص) کی ان عظیم اور مقدس ہستیوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے اسلام کے پرچم کو سربلند کیا اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کو پیغام دیا کہ جب بھی دین پر وقت پڑے تو اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر میدان عمل میں آکر اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) چند برسوں سے صفر کے مہینے میں سوشل میڈیا اربعین واک کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھر جاتا ہے جن میں ہر کوئی عراقیوں کے جذبہ مہمان نوازی کو سراہاتا نظر آتا ہے۔ لیکن ان تصاویر اور ویڈیوز کے پسِ منظر میں کیا اہم موقع ہے، یہ شاید بہت کم افراد جانتے ہیں۔ اربعین واک کے بارے میں پڑھیے بی بی سی کی منزہ انوار کی تحریر۔

وہ ایک 80 کلومیٹر طویل سڑک تھی۔ ایک عام شاہراہ جو کسی بھی ملک میں دو شہروں کو ملانے کے لیے تعمیر کی جاتی ہے لیکن شیعہ مسلمانوں کے لیے مقدس سمجھے جانے والے دو عراقی شہروں نجف اور کربلا کو ملانے والی اس سڑک پر منظر کچھ خاص تھا۔

یہاں جا بجا دورانِ سفر کسی بھی مسافر کو پیش آنے والی ہر ضرورت کا مفت انتظام تھا۔ کوئی زبردستی آپ کو جوس پلانا چاہتا تو کوئی کجھوریں یا دیگر اشیائے خوردونوش پکڑا دیتا۔

کچھ بچے ملے جو درخواست کر رہے تھے کہ ہم ان سے اپنے جوتے پالش کروا لیں تو کوئی چاہتا تھا کہ آپ انھیں اپنی ٹانگیں دبانے کی سعادت دے دیں۔

سڑک کنارے ایک طرف صوفے لگے ہوئے تھے تاکہ تھکے ہوئے مسافر ان پر بیٹھ کر آرام کر لیں تو دوسری جانب کسی نے اپنے گھر کے بہترین گدے بچھا رکھے تھے۔

آخر یہ کون لوگ ہیں اور اس سڑک پر یہ ساری چیزیں مفت کیوں بانٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کا بہترین سامان سڑک پر کیوں لے آئے ہیں؟

یہ منظرعراق میں ہر برس صفر کے اسلامی مہینے میں ہونے والی اربعین واک کا تھا۔ 'مشی' کے نام سے معروف یہ عمل ہر برس لاکھوں افراد نواسۂ رسول کے چہلم کے موقع پر نجف سے کربلا کا پاپیادہ سفر کر کے سرانجام دیتے ہیں۔

اور اس موقع پر غریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

مجھے یہ جان کر خاصی حیرت ہوئی کہ جنگ زدہ ملک کے یہ باسی جو خود بمشکل گزارہ کرتے ہیں انھی دنوں کے لیے سال بھر پیسے بچاتے ہیں تاکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔.


اربعین کیا ہے؟

اربعین عربی گنتی میں 40 کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً کسی شخص کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منائے جانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔

عراق میں اربعین کا تہوار سنہ 61 ہجری میں دس محرم کو پیش آنے والے کربلا کے واقعے کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔

اربعین واک کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مصدقہ طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم نجف کے حوزة علمیة سے تعلق رکھنے والے عالم سید رضا کے مطابق 'تاریخی روایات کے مطابق جابر بن عبد اللہ الانصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔'

آج، کربلا کے واقعے کے 1400 سال بعد بھی نواسۂ رسول کی قربانی کی یاد میں دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد کربلا پہنچتے ہیں۔


صدام حسین کے دور میں اربعین

عراق کے سابق صدر صدام حسین کے دورِ حکومت میں اربعین واک پر سخت پابندیاں عائد تھیں اور حکام ہر برس عراقی عوام کو اربعین کے موقع پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے تاہم اس کے باوجود اس سفر کا سلسلہ جاری رہا۔

سنہ 2003 میں صدام حسین کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اربعین واک کا سلسلہ ایک نئے جذبے سے شروع ہوا اور تب سے ہر سال اس سفر کے لیے کربلا پہنچنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اربعین کے لیے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا ایک بڑا حصہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے زیرِ اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کے سفر سے اجتناب برتنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
اربعین کے سفر کا آغاز

عموما ً اس سفر کا آغاز نجف سے ہی ہوتا ہے اور اربعین کے لیے سفر کرنے والے زیادہ تر افراد نجف کے ہوائی اڈے پر ہی اترتے ہیں لیکن میرے لیے اس سفر کا آغاز عراقی شہر بصرہ سے ہوا تھا۔

سنا تھا غیر شادی شدہ خاتون کوعراقی ویزہ نہیں دیتے تاہم میرا نمبر آنے پر ٹوٹی پھوٹی انگریزی عربی میں صرف اتنا پوچھا گیا کہ عراق کیوں آئی ہو، میں نے جواب دیا 'زیارت حسین'۔

نہ کوئی سوال نہ مزید تفتیش۔ شیشے کے پیچھے موجود نوجوان نے ٹھک سے میرے پاسپورٹ پر دو ہفتے کا ویزہ لگایا اور 'مرحباک فی عراق' کہتے ہوئے پاسپورٹ واپس تھما دیا۔

دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے اور وہ بھی زیادہ قیمت پر لیکن بصرہ ایئرپورٹ پر زائرین کے لیے پانی کا مفت انتظام تھا۔

دیکھا جائے تو اربعین کے موقعے پر سوائے جہاز کے ٹکٹ اور ویزے کے ہر چیز ہی تقریباً مفت ہے۔

اس بات کا اندازہ ایئرپورٹ سے نکل کر ہوا۔ ایئرپورٹ کے باہر سینکڑوں بسیں اور کاریں کھڑی تھیں۔

بصرہ سے کربلا یا یا نجف یا جہاں کہیں بھی آپ جانا چاہیں، ایک مناسب قیمت طے کرنے پر یہ ڈرائیور آپ کو وہاں لے جائیں گے اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں، بصرہ کے رہائشی بنا کسی قیمت کے مفت میں یہ خدمت انجام دینے کو بھی تیار نظر آئے۔

نجف جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہونے لگی تو اس کے دروازے پر بھی ڈرائیور نے بنا کچھ کہے مجھے پانی کی بوتل اور کجھوروں کا ایک پیکٹ تھما دیا۔

بصرہ سے نجف تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سارے راستے میں چیک پوسٹوں اور سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بہت رونق دکھائی دی۔

کہیں لوگ سر پر سامان رکھے پیدل ہی نجف کی جانب رواں دواں دکھائی دیے تو کہیں ایسے مسافروں کی خدمت کے لیے لوگ سٹال لگائے بیٹھے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس اہم تہوار میں پورا ملک شریک ہو۔

تین گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ ہماری گاڑی رکی۔ سڑک کے درمیان ایک شخص ایک سیاہ پرچم لیے کھڑا تھا اور کسی گاڑی کو آگے جانے نہیں دے رہا تھا۔

خواہش تھی کہ زائرین اس کے ریستوران پر کھانا کھا کر دوبارہ سفر شروع کریں۔ نجف پہنچنے کی جلدی تھی لیکن میزبان کا اصرار اتنا شدید تھا کہ اترنا پڑا۔

ریستوران، امام حسین اور ان کے اصحاب کے لیے تعریفی کلمات اور اربعین کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے استقبالہ بینرز سے سجا تھا۔

مرد حضرات کے لیے ریستوران کے باہر کرسیاں لگائی گئی تھیں جبکہ خواتین کے لیے ریستوران کے ساتھ ملحقہ مکان میں آرام اور کھانے کا انتظام تھا۔

خواتین کے لیے آرام کی غرض سے قالین پر گدے بچھے تھے۔ ایک جانب جائے نماز موجود تھیں تو دوسری جانب کچھ عرب اور ایرانی خواتین کھانا کھا رہی تھیں۔

شیخ کا پورا خاندان اس خدمت میں انتہائی خوش دلی سے مگن تھا۔.


نجف سے کربلا کا پیدل سفر

اس مختصر سٹاپ کے بعد ہماری بس مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد نجف پہنچ گئی۔ اربعین کے لیے آنے والے زائرین کا سفر نجف میں حضرت علی کے روضے پر سلام سے شروع ہوتا ہے۔

ہر برس چہلمِ امام حسین کے موقع پر نجف سے کربلا کا رخ کرنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اربعین کے موقع پر اس علاقے میں تین کروڑ سے زیادہ افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔

نجف پہنچتے ہی ہر کسی کو کربلا کا رِخ کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد اپنا سامان نجف میں چھوڑتے ہیں اور چھوٹے بیگوں میں سفری ضرورت کا سامان لے کر پیدل کربلا کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔

نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 80 کلومیٹر ہے۔ نجف سے کربلا جانے والی سڑک کو 'این نجف' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اربعین کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد اسی سڑک پر مشی (پیدل چلنا ، پیادہ روی ) کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔

اب یہ آپ کی قوت، صحت اور حوصلے پر منحصر ہے کہ آپ روزانہ کتنا چلتے ہیں اور یہ فاصلہ کتنے دن میں طے کرتے ہیں لیکن عموماً نجف سے کربلا مشی کرنے والے افراد تین سے چار دن میں یہ سفر طے کر لیتے ہیں۔

اگر آپ پہلی مرتبہ اربعین واک میں شرکت کر رہے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ میری طرح اپنے بیگ میں دنیا بھر کے لوازمات بھر کے مت لے جائیے گا کیونکہ یہاں سب کچھ مفت ملتا ہے۔ خواہ مخواہ وزن اٹھانے کی زحمت ہی ہو گی۔

این نجف پر کربلا جانے والے زائرین کے لیے ہر قسم کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔

دنیا کے ہر ملک کی خوراک سے لے کر بچوں کے پیمپر اور ٹشو پیپر تک مفت دستیاب ہیں۔

جگہ جگہ عراقیوں نے اپنے اپنے خاندانی ناموں کے ساتھ ’موکب‘ لگا رکھے ہیں۔ انھیں آپ آرام گاہیں بھی کہہ سکتے ہیں اور طعام و قیام کی جگہیں بھی۔

یہاں آپ نماز پڑھنے کے لیے رکنے سے لے کر جتنی دیر چاہیں آرام کر سکتے اور اس دوران اپنا موبائل اور دوسری اشیا چارج کر سکتے ہیں۔

موکب کے اندد چارجنگ کی تاروں، وائی فائی، گرما گرم کھانے، مساج اور پیر دبوانے سے لے کر آپ کے گندے کپڑے دھلوانے تک کی سہولت میسر ہے۔

اگر آپ کی طبعیت ناساز ہو جائے یا آپ کو کسی دوا کی ضرورت ہے تو اس کے لیے ہر چند کلو میٹر پر میڈیکل کا سٹال بمعہ عملہ بھی موجود ہے۔

چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بڑے بڑے تھال میں کھانے کی اشیا رکھے نظر آتے ہیں۔ اِن سب کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ ان کا کھانا ضرور کھا کر جائیں۔

کئی مقامات پر طویل دسترخوان بچھے نظر آتے ہیں، اس سڑک کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان کہنا غلط نہ ہوگا۔

عراقی نہ صرف اربعین کو بلکہ اس کے لیے آنے والوں کی خدمت کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور پورے پورے عراقی خاندان اس خدمت میں بخوشی مگن دکھائی دیتے ہیں۔

ایک عراقی نے بتایا کہ اس عمل میں بچوں کو خاص طور پر اس لیے شریک کیا جاتا ہے تاکہ زائرین کی خدمت کا عمل نسل در نسل جاری رہے۔

اگرچہ نجف سے کربلا تک سڑک پر کیے گئے 99 فیصد انتظامات مقامی عراقی ہی کرتے ہیں لیکن یہاں تقریباً ہر ملک کا کوئی نہ کوئی سٹال نظر آتا ہے۔

کہیں پاکستانی بریانی اور چائے تیار کرکے آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں اچانک کوئی لبنانی آپ کے سامنے آکر فلافل تھما دیتا ہے۔

اربعین واک میں جہاں صنف اور عمر کی کوئی تفریق نہیں وہیں یہ سفر صرف شیعہ مسلمانوں تک بھی محدود نہیں بلکہ سنی، کرد، یزیدی، عیسائی غرض ہر مذہب اورفرقے کے لوگ باہمی ہم آہنگی سے رواں دواں نظر آئے۔

ایک ایرانی خاتون اپنے ڈیڑھ ماہ کے بچے کو لیے جانبِ کربلا جا رہی تھیں۔ ان کے دو بچے واکر میں بیٹھے تھے جنھیں ان کے شوہر چلا رہے تھے۔

کچھ فاصلے پر ایک نوجوان ایک برقع پوش خاتون کی ویل چیئر چلاتا نظر آیا۔

دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی ضعیف والدہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس سال اربعین کے موقعے پر کربلا جائیں۔

ایک مقام پر سیاہ برقعوں میں ملبوس عورتوں کو اونٹوں کی ایک قطار میں دیکھا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے تھے۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اربعین کے موقعے پر عراق کے مختلف علاقوں سے کئی قبیلے واقعہِ کربلا کی یاد میں ایسے جلوس کی صورت میں کربلا پہنچتے ہیں جو اس دوران پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کر سکیں۔


کربلا اور روزِ اربعین

 

کربلا کی حدود میں پہنچے ایک چیک پوسٹ پر خواتین کو ایک کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک آپ کا سامان چیک کیا جا رہا ہے آپ سکون سے بیٹھیں اور چائے پیئیں۔

ہمارا قافلہ جس وقت کربلا میں داخل ہوا تو فجر کا وقت تھا۔ ہم شہر کی حدود میں داخلے کے بعد دم لینے کو بیٹھے ہی تھے کہ چند نوجوان عراقی چائے لے آئے۔

یہاں بھی فری وائی فائی میسر تھا سو میں نے چائے پیتے پیتے گھر والوں کو کربلا پہنچنے کی اطلاع دی۔

کچھ فاصلے پر واقع چیکنگ پوائنٹ پر زائرین کے سامان کی چیکنگ کے لیے بڑے بڑے سکینرز لگائے گئے تھے۔ سکیورٹی پر مامور اہلکار خوش اخلاق لیکن چیکنگ کا عمل انتہائی سخت تھا۔

ہماری لائن میں موجود سب افراد کو انتظار کرنے کو کہا گیا ہے کیونکہ ایک صاحب کے سامان سے زنجیرزنی میں استعمال ہونے والی چھریاں برآمد ہوئیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اربعین کے دوران کربلا میں کسی قسم کا چاقو، چھری وغیرہ لے جانے پر پابندی ہے۔

کربلا شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں کوئی تفریح کی غرض سے نہیں جاتا۔ یہاں آنے والے تقریباً سبھی افراد نواسۂ رسول اور ان کے اہلِ خانہ کی عظیم قربانی کی یاد منانے آتے ہیں۔

امام حسین کے روضے میں داخلے کے لیے کل 10 دروازے ہیں اور ہر دروازے پر اتنا رش تھا کہ خدا کی پناہ۔

ابتدا میں تو مجھے لگا کہ میں کبھی اندر نہیں جا پاؤں گی اور اگر جانے کی کوشش بھی کی تو ہڈیاں تڑوا بیٹھوں گی۔ خیر یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔

اربعین کے موقعے پر چونکہ کروڑوں افراد کربلا آتے ہیں اور ہر ایک کا مقصد روضۂ امام حسین تک پہنچنا ہی ہوتا ہے تو عراقیوں نے ایسا انتظام کر رکھا ہے جس میں آپ کو دو سے تین گھنٹے تو لگ جاتے ہیں لیکن ہر شخص روضے تک ضرور پہنچتا ہے۔

زائرین ایک طرف سے آتے ہیں روضے کو چھوتے ہیں اور سیدھے باہر نکلتے جاتے ہیں۔

یہاں کھڑے ہونے کا سوچیے گا بھی مت۔ وہاں تعینات سیاہ چادروں میں ملبوس انتہائی مستعد خواتین نے نرم جھالر دار چھڑیاں اٹھا رکھی تھیں، جیسے ہی آپ ایک سیکنڈ بھی زیادہ رکے وہ اس چھڑی سے آپ کو باہر کا راستہ دکھا دیتی ہیں۔

ایک پاکستانی خاتون کو یہ کہتے سنا ’ہم اتنے دور سے آئے اور ہمیں چند منٹ یہاں کھڑے بھی نہیں رہنے دیا جا رہا۔‘

یہ سب ناگوار تو بہت لگتا ہے لیکن اگر ہر کسی کو وہاں قیام کی اجازت دے دی جائے تو کوئی شخص روضے تک نہیں پہنچ پائے گا۔
کربلا میں زائرین کے لیے انتظامات

کربلا میں بھی این نجف جیسے انتظامات تھے۔ جابجا کھانے کے سٹال اور موبائل واش رومز والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔

جو لوگ ہوٹلوں میں رہنے کی سکت نہیں رکھتے ان کے لیے موکب لگائے گئے ہیں جن میں گدے، کمبل، تکیے اور واش روم کا مفت انتظام ہے۔

جن کو موکب میں جگہ نہیں ملی انھوں نے گلیوں میں چھوٹے ٹینٹ لگا رکھے تھے۔ جو خیمے نہیں لائے انھوں نے ایک کمبل نیچے بچھا رکھا ہے اور ایک اوپر لیے مزے سے فٹ پاتھ پر سو رہے تھے۔

راتوں رات یہ کمبل کہاں سے آتے ہیں اور صبح کہاں غائب ہو جاتے ہیں یہ اگلے روز معلوم ہوا جب میں نے کمبلوں سے بھرے ایک بہت بڑے ٹرک کو دیکھا۔

ہر روز رات کو ایسے کئی ٹرک کربلا کی سڑکوں پر چکر لگاتے اور کمبل پھینکتے جاتے ہیں۔ اگلے دن فجر کے بعد یہی ٹرک دوبارہ آکر یہ کمبل اکٹھے کرتے ہیں۔

یہ چھوٹا سا شہر کروڑوں افراد کو کیسے سمو لیتا ہے یہ میں آج تک نہیں سمجھ پائی۔

روزِ اربعین

20 صفر کا دن بہت اہم ہے۔ ہر شخص اپنے کام کاج چھوڑ اور راستے کی صعوبتیں برداشت کرکے اسی دن کے لیے یہاں پہنچتا ہے۔

رش کی صورتِ حال یہ تھی کہ صرف روضے کے بیرونی دروازے تک جاتے جاتے مجھے تین گھنٹے لگ گئے جبکہ یہ دروازہ بالکل میرے ہوٹل کے سامنے چند منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔

تاہم اتنے زیادہ ہجوم کے باوجود یہ مجمع انتہائی پرسکون تھا۔ نہ کوئی کسی سے جھگڑتا نظر آیا نہ کہیں بھگدڑ مچتے دیکھی۔

سب سکون سے روضہ امام حسین کی جانب جا رہے تھے جیسے یقین ہو کہ کچھ بھی ہو جائے وہ روضے تک ضرور پہنچیں گے۔

اگر کسی نوجوان کے پیچھے کوئی عورت چل رہی ہے تو وہ اپنے آگے والے شخص کے کندھے پر ہلکا سے تھپتپھا کر بتاتا ہے کہ عورتیں ہیں راستہ بناؤ اور سب جتنا ہو سکے ادھر ادھر کھسک کر آپ کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔

اس ہجوم میں شامل افراد کسی ایک فرقے یا تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ کہیں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد صلیب اٹھائے روضہ امام حسین کی طرف بڑھ رہے تھے تو کہیں سفید لباس میں ملبوس بوہرہ برادری کے افراد ایک گروپ کی صورت میں روضے میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔

یورپی اور افریقی ممالک کے لوگ بھی اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے اپنی زبانوں میں کلمات پڑھتے اندر جا رہے تھے۔

نواسۂ رسول کے روضے اور اردگرد کی گلیوں میں ہر افراد کی زبان پر ایک ہی ورد جاری تھا ’لبیک یا حسین، لبیک یا حسین‘۔

میں سوچ رہی تھی کہ 14 صدیاں قبل دینِ اسلام کے لیے جان دینے والے ایک فرد کی قربانی میں کیا طاقت ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد ان کا غم منانے اور ان کی دی گئی قربانی کی یاد تازہ کرنے کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے اور عراقیوں کے خاندان در خاندان اس خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔

 

(بشکریہ بی بی سی اردو)

وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا: خدا  وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا  العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔

جابر رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ  بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف  اور غزوہ تبوک  ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب  سے پہلے قرار دیتے  ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم   کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو  زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں  عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا  جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب  علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس  سے انکار کرے تو اس کی ماں  کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔

ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا  کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم  انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔

جابر کہتے ہیں: ہم  بصرہ میں امیر المومنین  علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں  رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا  تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟  میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا  کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ  پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر  امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے  اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔

کتاب  وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے  ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا  موقف  اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ  کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو  اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو  لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ  ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ  کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا  جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے  علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔  قبیلہ بنی سلمہ  جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے  پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک  ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا  اس لئے  وہاں سےبھاگ  گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم  ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ  نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔

جابر نے ایک رات  سوچنے  کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں  نے  جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان  ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں  یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔

اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔

شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے  اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا  ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا:  یہ دو  نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری  وغیرہ  ۔28۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی  تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر  قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔

طبری  اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی  علیہ السلام  کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو  اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم  اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا  ۔ اس نے  قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب  میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں  آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس  کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا  کے فرزند ہیں   اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول  نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے  اگرچہ مومنین آپ  کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو  ایسی  شہادت نصیب ہوئی  جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

اس کے بعدجابر نے سید الشہداء  علیہ السلام کے اطراف میں موجود  قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ  لوگوں پر اے پاکیزہ   ہستیاں کہ آپ  لوگوں نے حسین  ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ  یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے   حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم  بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے  نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن  ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا  اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے  یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی  کسی گروہ کو چاہتا  ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور  ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ  بھی  وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس  کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے  کوفہ کی طرف لے چلو۔

جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے:  اے عطیہ! کیا  تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو  جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت  اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی  بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک  آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "‌یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔

جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌‌الحدید، ج 13، ص 229؛ ابن‌شہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابن‌اثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «‌ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔

وحدت نیوز(نواب شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے بچھیری ضلع نواب شاہ زمیں وھیب زرداری کی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اور اربعین حسینیؑ کی مناسبت سے اصغریہ آرگنائزیشن کے زیراہتمام شہر کے مین چوک پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کربلا معلی میں کروڑوں انسانوں کا عالمی اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ کربلا کا پیغام آج عالم گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج کی پریشان انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیغام کربلا میں پوشیدہ ہے۔

انہوں نےکہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر حکومت فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنائے۔ انہوں نےکہا کہ 80 ھزار شہداء کے وارث آج بھی ریاستی اداروں سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ پاکستان کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں پینے کا صاف پانی صحت صفائی اور معیاری تعلیم جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی محروم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے  عوامی مسائل کی بجائے اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز افسوس ناک ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) حکومت عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات، مجالس و جلوس ہائے عزاء کو سہولیات فراہم کرے۔ گزشتہ حکومت کی ایس او پی ابھی تک جاری ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔ہم کسی کو اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حق پر قد غن لگانے کی اجازت نہیں دینگے، ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔

انہوں نےکہا ہےکہ اس وقت ہنگو اور کوہاٹ کے اندر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جار ہی ہیں ۔ بعض علاقوں میں متعصب انتظامیہ اور ڈی پی او رسول پاکؐ کے نواسےؑ کی عزادری میں رکاوٹیں ڈال رہےہیں ۔خیبر پختونخواہ حکومت شرپسندوں کو لگام دے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بجائے ملکی سلامتی کا جوتقاضہ ہے اس کے روح کیمطابق عمل کیا جائے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ محرم امام حسین ؑکا مہینہ ہے اور صفر ثانی زہرہ حضرت زینب سلام علیہ اور اسیروں سے منسوب ہے ۔ چہلم امام حسین کے دن دنیا کے کاموں کو ترک کرکے بھر پورانداز میں اربعین کے جلوس عزا میں شرکت کی جائے یہ ہمارا فریضہ ہے یہ ہم پر ان ہستوں کا حق ہے جنہوں نے پوری بشریت کی نجات کے لئے عظیم قربانیاں دیں ہجرت کی اپنے بچے قربان کئے ۔جنہوں نے ہمیں ظالموں کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دینے کے لئے عظیم قربانیاں دیں صبر کیا ان کا حق ہے ہماری گردن پر کہ ہم ہر زمانے کے یزیدوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان سے سکھیں اور ان کا شکر یہ ادا کریں اور ان کی عزاداری میں شریک ہوں ۔

انہوںنے مزیدکہاکہ  اہلسنت اور اہل تشیع سب حسینی چہلم امام حسین ؑ کو شایان شان طریقے سے منعقد کریں ہمیں یقین ہے کہ اس عمل پر رسول خدا ؐراضی ہونگے کہ ان کے نواسےؑ کے غم کو منائیں وہ حسینؑ جو کہ راکب دوش مصطفیؐ تھا جسے کربلا کی زمین پر شہید کرنے بعد جس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات درحقیقت ظلم کے خلاف احتجاج ہے جو رہتی دنیا جاری و ساری رہےگا۔

وحدت نیوز(انٹرویو) ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ یمن جنگ، اس کے نتائج اور اس جنگ کے تناظر میں ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ کشیدگی کے موضوع پہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا، اس انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ پیش ہے۔ (ادارہ)

سوال: کیا امریکہ ایران پہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران نے امریکہ اور اس کے مغربی بلاک کو بڑا موثر جواب دیا ہے، امریکہ کے کہنے پہ جب برطانیہ نے ایران کے ایک بڑے تیل بردار جہاز کو جبرالڈ میں روک کر عملے سمیت اسے اپنی تحویل میں لیا تو ایران نے کم ازکم چار جہاز جس میں ایک بڑا برطانوی جہاز شامل ہے کو خلیج کے اندر روک کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس وقت تک ایک جہاز بھی واپس نہیں کیا کہ جب تک ایران کا بحری جہاز اپنا پورا سفر مکمل کرکے واپس نہیں پہنچ گیا۔ تو ایران نے ملٹری چیلنج دیا ہے۔ آج کے دور کے اندر برطانوی جہازوں کو پکڑنا، یورپی ممالک کے جہازوں کو روکنا، امریکی جہاز کو گرانا بڑے چیلنج ہیں اور ایران نے یہ کر دیکھائے ہیں۔ امریکہ خلیج میں جو عالمی فوج تعینات کرنا چاہتا تھا تو وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف ایران کا اثرورسوخ خطے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی جنگ ہوئی تواس کا میدان بھی ایران کا منتخب کردہ ہو گا۔

 امریکہ خطے میں اجنبی ہے جبکہ اسی خطے میں ایران نے ہر حوالے سے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ وہ ممالک جہاں امریکی بیڑے موجود ہیں، وہاں کی حکومتوں کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ جن جگہوں پہ امریکی اڈے موجودہیں وہ ایرانی ہتھیاروں کی پہنچ اور دسترس میں ہیں۔ خواہ وہ پانچواں بحری بیڑا ہو، قطر کے اندر ان کے اڈے ہوں۔ سعودی عرب، عرب امارات کے اندر امریکی اڈے ہوں تو یہ تمام ایران کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں بلکہ ایران کے میزائلز کی رینج میں اور نشانے پہ ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ باتوں میں تو کہیں آگے تک جا سکتا ہے مگر جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایرانی سفارتکاری کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یورپ کے اندر بھی امریکہ کو بدنام کیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ اپنے اندر توانائی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکا۔

سوال: امریکی پابندیوں کا ہتھیار اب کی بار کتنا کارگر ثابت ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے سیاسی اور اقتصادی یہ فائدہ حاصل کیا ہے کہ تقریباً ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے ایران اور چین کے درمیان معاہدے طے پائے ہیں۔ یادر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ٹوٹل چھپن ارب ڈالر کا ہے جبکہ چین اور ایران کے درمیان ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے بھی انکار کیا ہے کہ ہم ایرانی تیل کی خریداری بند نہیں کریں گے۔ اسی طرح روس نے انکار کیا ہے یعنی امریکہ جو پابندیوں کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہا تھا۔ ایران نے عملی طور پر اس ہتھیار کو بھی بیکار کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بلآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ امریکہ اس خطے کے اندر رہ کر ایران کے ساتھ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے عراق سے بھی ردعمل مل سکتا ہے، شام سے مل سکتا ہے۔ لبنان، یمن، ایران سے جواب مل سکتا ہے۔ اس کی سمندری، زمینی فوجیں سب غیر محفوظ ہیں، وہ کوئی بڑا آپریشن لانچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خطے میں جو امریکی اتحادی ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی جنگ کی صورت میں یورپ کے اوپر جو اثر پڑے گا، اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران کا بھی خدشہ ہے، یورپ اس کے لیے تیار نہیں ہے لہذا ایک بڑی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خطے میں سیاسی جنگ جاری رہے گی، جیسی کہ ایک جنگ ابھی عراق میں جاری ہے کہ جس میں ایران ٹارگٹ ہے۔ عراق میں حکومت کے مخالف جو مظاہرے جاری ہیں، ان کے پیچھے بھی امریکہ ہے، اس میں بھی امریکہ کو شکست ہو گی کیونکہ زمینی صورتحال میں ایرانیوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ایرانی اتحاد خطے کے اندر روز بروز مضبوط اور پاور فل ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر زمینی حقائق آپ کے موافق نہ ہوں، تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو مخالف فریق کی قوت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو بھی بالآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ خطے میںفیصلہ سازقوت ایران ہے۔ نتیجے میں جو پرو ایران عناصر مزید مضبوط ہوں گے اور پرو امریکہ عناصر رفتہ رفتہ کمزوری کا شکار ہوتے جائیں گے۔

مستقبل قریب میں ایران اور امریکہ کے مابین براہ راست مذاکرات کا امکان بھی دیکھائی نہیں دیتا اور ایران امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ بھی طے پاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پچھلے معاہدے کے اندر جو ایران کی کمزوری تھی اور امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کی صورت میں انہیں اس کمزوری پہ قابو پانے کا بہانہ مل گیا۔ اس وقت ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو بھی بڑھا رہا ہے اور نیوکلیئر استعداد کو بھی بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں کسی ملک کے پاس ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس قوت کے اظہار کیلئے ان کے پاس سیاسی قوت اور عوامی تائید بھی موجود ہو تو پھر کوئی ملک ان کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ لہذا ایران نے پرامن مقاصد کیلئے اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی بڑھانا شروع کیا ہوا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے۔ چنانچہ خطے میں امریکہ کا مستقبل زوال پذیر ہے۔ یمن نے امریکہ اور پرو امریکہ عناصر کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف انقلابی رجحان اور مزاحمت کو تقویت ملی ہے۔ یہ مزاحمت کی فتح ہے کہ اس نے اسرائیل کو اس طریقے سے ہٹ کیا ہے کہ اب اسرائیل سکڑنا شروع ہوگیا ہے۔ بالآخر اسرائیل بھی اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا، جو کہ ایک اور بڑی امریکہ کی شکست ہو گی۔ ڈیل آف دی سنچری ناکام ہو چکی ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں اسرائیل کا پھیلاؤ رک گیا ہے۔ اس میں ایران کا کردار ہے، ایران کی کامیابی ہے اور اسی طرح خطے میں اب اسرائیلی اہداف اور آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ گولان کے اندر بھی اسرائیل کے خلاف شام کی طرف سے مزاحمت شروع ہو چکی ہے۔

سوال: امریکہ ہمیشہ سے ناقابل اعتبار ہے، مسئلہ کشمیر پہ ثالثی کا کردار کیا ایران کو سونپا جا سکتا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اچھا ثالث ہے یا امریکہ۔ دونوں کے موثر ہونے کی قوت کو شمار کرتے ہیں۔ امریکہ ایک بڑا ملک جو کہ سپرپاور ہونے کا دعویدار ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ میں بہت موثر ہے۔ امریکہ ایک بڑی ملٹری پاور بھی ہے۔ پاکستان کے جتنے تعلقات امریکہ کے ساتھ ہیں، اس سے کہیں زیادہ امریکہ کے تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے اور کئی گنا بڑی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں بھی امریکہ بھارت کے ساتھ ہے، اقتصادی، سیاسی تعلقات کے لحاظ سے بھی امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، جیسا کہ اسرائیل کا معاملہ ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں کے مفادات ،معاہدات اور تعلقات اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کرا تو سکتا ہے مگر اس مسئلہ کا حل نہیں کرا سکتا۔ جب تک کوئی ملک جارح کو جارح کہہ کر اسے پیچھے ہٹنے پہ آمادہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس وقت تک وہ ایک اچھا ثالث نہیں بن سکتا۔

دوسری جانب ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے اب تک چار سطحوں پہ پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ردعمل دیا ہے۔ اب تک امریکہ نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کیلئے کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہر مرتبہ یہ کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کہیں گے تو میں ثالثی کیلئے تیار ہوں، مطلب نہ بھارت کہے گا اور نہ ثالثی ہو گی۔ ایران سٹینڈ لینے والا ملک ہے۔ ایران کی جو ٹاپ لیڈر شپ ہے، نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس کا نوٹس لیا ہے بلکہ اس پہ بات کی ہے۔ اسے عالمی مظلوم خطوں میں شمار کیا ہے۔ پوری دنیا کو کشمیر کیلئے صدا بلند کرنے کا درس دیا ہے۔ اسی طرح ایران کی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے کم ازکم دو سیشن ہو چکے ہیں، جس میں بھارت کے خلاف مشترکہ قرارداد پاس ہوئی ہے۔ اسی طرح ایران میں جو آئمہ جمعہ ہیں، جو مراجع عظام ہیں، انہوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کو عالم اسلام کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں ایران یہ پوزیشن رکھتا ہے کہ اس سے ثالثی کرائی جائے۔ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی وہی کرا سکتا ہے کہ جو جارح کو جارح کہہ سکے۔ پاکستان کو نام نہیں بلکہ موقف سوٹ کرتا ہے۔

امریکہ نہ ظالم کو ظالم کہہ سکتا ہے اور نہ مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے، اس کے مقابلے میں ایران میں یہ چیز تو ہے۔ اب ایسا نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں مگر ان مراسم کے باوجود ایران نے اپنے اصولی موقف کو غالب رکھا ہے۔ اس بات کی پروا نہیں کی ہے کہ اس اصولی موقف کے نتیجے میں اس کے معاشی یا اقتصادی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن پاکستان چونکہ امریکہ کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے بجائے ایران کو ثالثی کا کردار دے۔ ایران کشمیر کے معاملے پہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو کم تو کر سکتا ہے مگر ثالثی کا کردار اس وقت ادا ہو سکتا ہے کہ جب دونوں ممالک اسے یہ اختیار و مقام دیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کیلئے امریکہ سے زیادہ ایران سودمند ہے۔ جب تک اس خطے میں اس مسئلہ کو گھمیر نہیں سمجھا جائے گا، اس وقت تک اس مسئلہ کا عملی طور پر حل شائد ممکن نہ ہو۔ مسئلہ کو گھمبیر بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو اتنا فلیش پوائنٹ بنایا جائے کہ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ آو مذاکرات کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرو اورکشمیریوں کو بھی ایک فریق کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کیا جائے۔

 کشمیریوں نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ خوف بھارت کے اوپر ہے۔ بھارت کی دس لاکھ فوج خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہ کرفیو ختم نہیں کرر ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہاں حالات کو غیر معمولی انداز میں قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو بھارت نے جو آرڈیننس پاس کیا ہے ، یہ آرڈیننس اسی طرح اپنی مدت پہ ختم ہو جائے گا اور اسے باقاعدہ قانونی شکل نہیں دے سکیں گے۔ کشمیری اس آرڈیننس کے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان اس قضیئے کا وکیل ہے، اگر پاکستان نے اچھی وکالت کی تو بھارت پہ اتنا دباؤ بہرحال آئے گا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پہ کوئی پیش رفت کر سکے۔ کشمیر ی اگر اپنے اصولی موقف پہ اسی طرح ڈٹے رہے اور انہوں نے اگر اپنی مزاحمت کو عالمی مزاحمت کے ساتھ اٹیچ کرلیا تو یقینا ان پہ بھی کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے، مگر اس کیلئے انہیں قربانی کے ایک بڑے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہو گی۔ میرے خیال میں کرفیو کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کو کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور عالمی سطح پہ فضا ایسی بن جائے گی کہ بھارت کو بالآخر مذاکرات کی جانب آنا پڑے گا۔

سوال: مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پہ تحفظات ہیں یا نہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ پہ تحفظا ت ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے خود صاف ہونا چاہیئے اور اپنے ہی دعویٰ کے برعکس اس نے کوئی کام نہ کیا ہو۔ مولانا فضل الرحمان اس جگہ پہ مظاہرے اور لاک ڈاؤن کو شام غریباں قرار دیتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ بڑا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے کیونکہ ایسی چیزیں پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں، مذاکرات سے ایسے معاملات حل ہوتے ہیں اور یہ خانہ بدوشوں والا سلسلہ نہیں ہے کہ جو بھی اٹھے اور آکر اپنی جھونپڑی لگا لے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان کو آج اس جگہ آنا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی اسلام آباد لاک ڈاؤن ہوا تھا تو کئی اپوزیشن جماعتیں یک جان تھیں اور حکومت کے خلاف اکھٹی تھیں مگر آج جب مولانا اسلام آباد کا رخ کرنے جا رہے ہیں تو اس وقت لیڈنگ اپوزیشن پارٹیوں جن میں پی پی پی ہے، پی ایم ایل نواز ہے، انہوں نے بھی مولانا کا ساتھ دینے بالخصوص مذہبی کارڈ کی بنیاد پہ ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ مولانا مسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر ان کا ایجنڈا اس وقت عوامی نکتہ سے بالکل کلیئر نہیں ہے۔

مہنگائی و دیگر مسائل کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے نفرت کی فضا میں نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی عوامی مسائل پہ سیاست نہیں کی ہے بلکہ مہنگائی و دیگر عوامی مسائل جب جب ہوئے ہیں تو مولانا فضل الرحمان خود اس میں فریق رہے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ ایک حکومت مولانا کے بغیر چل رہی ہے، مولانا کا حصہ نہ وفاق میں ہے اور نہ خیبر پختونخوا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کیلئے قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کیلئے وہ متحرک ہیں، انہیں خبر ہے کہ اگر مزید کچھ عرصہ ایسا گزرا کہ جس میں وہ پاور کوریڈور میں نہ ہوئے تو وہ مزید اپنے سیاسی وجود کو بچا نہیں سکیں گے۔ یہ خوف ہے کہ جس کی وجہ سے وہ احتجاج کرر ہے ہیں مگر نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ یہ تنہائی کسی طرح ان کیلئے مفید نہیں ہے اور ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں جو کہ معاشی لحاظ سے بھی سودمند نہیں اور عوامی مسائل میں بھی مزید اضافے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

سوال: حالیہ اربعین امام حسین (ع) پہ عراقی حکومت نے پاکستانی زائرین کیلئے ویزوں کا اجرا بند رکھا، اس پالیسی پہ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: عراقی حکومت کی پاکستانی زائرین کیلئے ویزہ پالیسی قابل مذمت ہے۔ بدقسمتی سے دو پرانے حلیف پاکستان اور بنگلہ دیش صرف ان دو ممالک کیلئے یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ ان دو ممالک سے جو مسائل ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ عسکریت پسند زائرین کے کور میں عراق گئے ہیں، بعض لوگ جاب وغیر ہ کیلئے بھی گئے ہیں کہ یہاں سے گئے ہیں اور وہاں جاکر جاب کیلئے رہ گئے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ ہیں، ان سب کو حقیقت مان بھی لیں تو بھی اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے پالیسی ان چیزوں سے مبرا ہونی چاہیئے۔ ان کیلئے بعض دیگر اقدامات کیئے جا سکتے ہیں تاکہ دشمن عناصر اس سے استفادہ نہ کر سکیں۔ پاکستان دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا ملک ہے کہ جہاں سے زائرین کی بہت بڑی تعداد زیارات کیلئے جاتی ہے۔ زائرین کا حق ہے کہ انہیں بروقت ویزہ ملے اور ان کے زیارات کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت کی جو منیجمنٹ ہے، اس کی صلاحیت پہ بھی بہت سارے سوالات ہیں۔ کرپشن، بیروزگاری ہے وہاں۔ یہ عراقی حکومت کی انتظامی نااہلی ہے کہ زائرین سید الشہدا کو ویزہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ عراقی حکومت کو منفی چیزوں کی روک تھام کیلئے ضرور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے مگر ویزوں کے جاری نہ کرنے کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ اس پالیسی کی ہم سب مذمت کرتے ہیں۔ اس بات کی تاکید و مطالبہ کرتے ہیں کہ محرم اور اربعین کے موقع پہ زائرین امام حسین (ع) کو فوری اور آسان ویزوں کے اجرا ء کا عمل ممکن بنایا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree