وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات اور فوکل پرسن حکومت پنجاب سید اسد عباس نقوی نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔بھارت کے جارحانہ عزائم سے عالمی امن کوشدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی آداب کے منافی بھارتی اقدامات اخلاقی تقاضوں کی بدترین پامالی ہے۔بھارت کا جنگی جنون اسے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا۔ پوری پاکستانی قوم وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے۔کسی بھی قسم کی پیش قدمی بھارت کی سا لمیت و بقا کو داو پر لگا دی گی۔
انہوں نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے لانس نائیک محمد عمران کی شہادت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد ملک و قوم کے دشمن ہیں اور ان کا ج±رم ناقابل معافی ہے۔ اس ملک کو جتنا نقصان دہشت گردی نے پہنچایا ہے اس کی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دہشت گرد عناصر نے مذہب کے نام پر اس ملک میں طویل عرصہ تک خون کی ہولی کھیلی۔
انہوں نے کہا پاک فوج اور ملت تشیع دہشت گردانہ کاروائیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ سرحدی علاقوں کی غیرمعمولی نگرانی کر کے ان دہشت گرد عناصر کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان کو دہشت گردوں کی باقیات سے پاک کرنے کے لیے موثر کاروائیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی شوری کے اہم اجلاس ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں آغاز ہو چکاہے۔دو روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی صدارت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کر رہے ہیں۔آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور چار صوبوں سے شوری کے اراکین اجلاس میں موجود ہیں۔
اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال سمیت تنظیمی امور زیر بحث لائے جائیں گے۔امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز و خطرات، اسلام کے خلاف عالم استکبار کی سازشیں، ملک میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس،مہنگائی، طبقاتی کشمکش ،ریاستی ذمہ داریاں اور عوامی مشکلات پر گفتگو بھی اس اجلاس کاحصہ ہے۔
اتحاد بین المسلمین کے لیے ایم ڈبلیو ایم کی جاری کوششوں میں مزید تیزی لانے کے لیے اہم اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا۔اجلاس کے اختتام پر اتوار شام چار بجے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں علامہ راجہ ناصر عباس اور شوری کے اہم اراکین پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
وحدت نیوز(پشاور)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے جامعہ شہید عارف حسین الحسینی پشاور کا دورہ کیا۔ انہوں نے جامعہ شہید کے مدیر اعلیٰ علامہ سید جواد ہادی سمیت مختلف شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔
جامعہ کے طلباء کیساتھ نشست سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی سیرت کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید قائد نے اپنی زندگی کو ملک و ملت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ان کی فکری بصیرت اعلیٰ درجے کی تھی۔ وہ اتحاد امت کو قومی ترقی اور باہمی امن کے لیے وسیلہ سمجھتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شہید قائد پاکستان میں اخوت و اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے۔ فروعی اختلافات کی بنیاد پر امت مسلمہ میں فتنے کھڑے کرنے والوں کو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کا ہتھیار سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ عارف الحسینی کو شہید کرنے والی طاقتیں شیعہ سنی اتحاد پر کاری ضرب لگانا چاہتی تھیں۔ ان مذموم عناصر کے فکری جانشین اب بھی سرگرم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں قائد شہید کے نظریات کے مطابق اتحاد و اخوت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے۔ ہم نے میدان عمل میں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم قائد شہید کے غیرت مند روحانی فرزند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات کے فروغ میں جامعہ شہید کا کردار بے مثال اور قابل تقلید ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے مختلف شہروں میں جانے کااتفاق ہوا اور کچھ موضوعات پہ تبادلہ خیال ہوا۔ اور اسی طرح گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا اور مختلف لوگوں سےملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ملے جلے اظہار خیال سے۔اور آج اپنے بچپن کے محلے کے ایک استاد سے" جوبہت کچھ اخلاقیات سیکھایاکرتے تھے " ان کی دکان پہ ملاقات ہوئی اور حالات حاضرہ پرتفصیل سے بات چیت ہوئی۔ لوگوں کی گفتگو' مختلف پارٹیوں کے چہل پہل 'سوشل میڈیاپرتشہیری مھم اور (لوٹوں کے پارٹیاں بدلنے کے انداز) نے مجھے بھی کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ اور قلم اٹھایا اور مندرجہ بالاموضوع پے لکھناشروع کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جب بھی کوئی سیاست کالفظ سنتاہے تو اس سے مراد لوٹ مار 'کرپشن'، اپنوں کو ٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنے اور اجارہ داری قائم کرلینے " کے معنوں میں لیتا ہے۔ سیاست مدار بھی انہی خامیوں اور گالیوں کے بل بوتے پر ذندہ رہتا، اورسیاست دان رہتا ہے۔ نتیجہ آج سیاست کا لفظ ایک گندا ترین لفظ تصورکیاجاتاہے۔جب کی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی سیاست ایک مقدس اور پاکیزہ لفظ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کامفہوم اورمعنی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کوتلاش کرنے کے لئے ہمیں کچھ تفصیل میں جانا ہوگا اور سیاست کے لفظ کی گہرائی میں جاناہوگا۔تاکی سیاست کامفہوم ہم پرواضح ہواوراس کی پاکیزگی ہم پرعیاں ہوتاکی معاشرے کاہرفرداس مقدس عبادت میں مشغول ہو۔لھذاپہلے ہمیں سیاست کے لفظی ولغوی معنی پھراس کے اصطلاحی معنی سے اشنا ہونا ہوگا۔ اہل لغت کے بقول "سیاست" کا لفظ ,ساس' سے مشتق ہے سیاسۃ البلاد تولی امورھا وتسییراعمالھاالداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیرشوونھا۔سیاسۃ الامرالواقع ای التسلیم بماھوواقع وکذالک سیاسی مشتق من سوس :الذی یعنی بشوون السیاسۃ 'الحقوق السیاسۃ "حقوق کل مواطن فی ان یشترک فی ادارۃ بلادہ اوممارسۃ اعمالہ الوطنیہ کالانتخاب ونحوہ : سیاست کالفظ ساسۃ سے مشتق ہے جس کالغوی مطلب تدبیرکرنا'انتظام کرنا'نظم ونسق پیداکرنا۔جبکی اصطلاح میں اس کامفھوم :ساسۃ البلاد تولی امورھا وتسییر اعمالھا الداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیر شوونھا یعنی سیاست کامطلب ملک کے امورکی سرپرستی کرنا'ملک کے داخلی اور خارجی پالیسی کواسان اورملک کے مفاد میں بنانا اورریاست کے امورکی بہترین تدبیرکرنا۔جبکی اصطلاح میں سیاست کامطلب یعنی اپنے گھر'محلے اورملک کی بہترین تدبیرکرنا 'ریاست کے ان امورکی تدبیرکرناجس کے مرتب کرنے میں اور اس کےفائدے میں تمام شہری شریک ہوں۔جیسے انتخاب وغیرہ۔یعنی ریاست کے وہ امور جس میں بلاواسطہ تمام شہری شریک ہوں اورریاست کے جملہ امورکےفوائدمیں بھی تمام لوگ مشترک ہوں۔
لغوی اوراصطلاحی مفھوم سے ہی پتہ چلاکہ سیاست سے مراد گھرکی تدبیر'علاقے کی تدبیراورریاست اورملک کی تدبیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ سیاست ہرگھرمیں ہو جس گھرمیں سیاست نہیں وہ ناکام ترین گھرانہ ہوگا۔سیاست ہرمحلے میں ہوجس محلے میں سیاست نہیں ہے وہ ناکام ترین محلہ ہوگا ۔سیاست ہرمسجد میں ہوجس مسجد میں سیاست نہیں ہےوہ مسجد'مسجدضرارکی طرح کی کوئی مسجدہوگی مسجد نبوی ص کی طرح کی کوئی مسجد نہیں ہوگی اورہرعالم کوسیاسی ہوناچاہئے اس لئے کے ہر دین ہررکن میں سیاست کاپہلوپایاجاتاہے لہذاسیاست کانہ انافخرنہیں بلکی نااہلی ہے۔ سیاست ہرملک میں ہوجس ملک میں سیاست نہیں ہے وہ ملک ناکام ترین ملک ہوگا۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ السیاسۃ لاتنفک عن الاسلام :کہ اسلام عین سیاست ہے ۔سیاست اسلام سے جدانہیں ہے۔پس اگر گھر کی تدبیر'محلے کے امور کی تدبیراورریاستی معاملات کی تدبیر کرناسیاست ہے تویہ عبادت ہے اور یہ عبادت ہرایک پر فرض اورضروری ہے "مگرملک پاکستان کاسب سے بڑاالمیہ یہ رہاہے اوررہے گاکہ اہل علم میدان ساست سے مکمل لاتعلق ہے، اورمیدان سیاست کوخالی چھوڑاہے۔ مگر جو میدان خالی ھوگااس نے تو پر ہونا ہی ہے، یا وہ میدان اچھے اوراہل لوگوں سے پرہوگا یا برے اور نا اہل لوگوں سے پر ہوگا۔ "چونکہ میدان سیاست اور حکومت ایک اہم ترین رکن اساسی ہے مملکت میں، جس کی وجہ سے رب کائنات نے قران کریم میں بھی جابجا واضح انداز میں سیاست حکومت اورحکام کے فرائض کوتفصیل سے بیان فرمایاہے جس کی تفصیل بعد میں بیان ہوگی ۔اسی طرح پیغمبراکرم ص نے بھی ایساطرزحکومت وسیاست اپناکے دیکھادیاہے۔اب ریاستی امورکی تدبیرکے لئے مدبر کا ہونا ضروری ہے اورمدبرہرکوئی تونہیں ہوسکتاہے بلکی ایک عالم 'فاضل اورملکی اوربین الاقوامی حالات پرمکمل گرفت رکھنے والاہی مدبرہوسکتاہے کیونکہ جس ملک کے چھوٹے سے چھوٹامعاملہ بھی بین الاقوامیں حالات سے جڑاہواہواس ملک میں ہرکوئی تدبیرنہیں کرسکتاہے۔ بلکہ تدبیر امور کے لئے ایک بین الاقوامی حالات پر یدطولی رکھنے والاعالم 'فاضل 'نظریاتی اورخوف خدارکھنے والے شخص کاہونا ضروری ہے ۔
حقیقت تویہ ہے کہ :گھرکےامور کوبھی چلانے کے لئے ایک ماھر 'حازق اوربہترین فردکا انتخاب کیاجاتاہے اوراس ماھر کے بغیر گھرکانظام نہیں چل سکتاہےاسی طرح محلے کے لئے بھی ایک ماھرفردکاانتخاب کیاجاتا ہے تاکی نظام بہتراندازمیں چل سکے۔ارے ایک ٹیم میدان میں اچھے کپتان کے بغیرمیچ کھیل نہیں سکتی ہے ۔اب گھراورمحلے کانظام ماھرکے بغیرنہیں چل سکتا ہے توملک کا نظام ایک نالائق'ان پڑھ اورخائن کے ذریعے کیسے چل سکتاہے ۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ ووٹ ایک امانت ہے جوکسی امین کو ملنا چاہئے۔اورمیدان سیاست کے لئےبھی ایک بہترین مدبرا' ماھرترین اورلائق فردکاانتخاب کرناضروری ہے تاکی بہترین انتظام وانصرام کے ذریعے سے ملک کومادی اوروحانی ترقی کی راہ پےگامزن کرسکے۔
اس کامطلب یہ ہواکی سیاست ہر گھر'علاقہ اورملک کاجز لاینفک ہے جس کے بغیر گھر اور علاقے کانظام چل نہیں سکتاہے۔ اسی طرح سیاست کے بغیر ملک کانظام بھی چل نہیں سکتاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نظام مملکت کوچلانے کے لئے لوگ کس قسم کے فردکاانتخاب کرتے ہیں ۔اہل کاانتخاب کرتے ہیں یانااہل کا انتخاب کرتے ہیں ۔اب دوسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ اہل سے کیامرادہے؟اس کاجواب بھی بلکل واضح ہے کہ :ملک کے معاملات کوچلانے کے لئے 'داخلہ اورخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے اورعوام کی فلاح وبہبود کے لئے فردکاانتخاب کیاجاتاہے تواس کے لئے اہل فردکاانتخاب کیاجائے۔اوریہاں اہل سے مراد پڑھالکھا، بین الاقوامی حالات پرگہری نظر رکھنے والا اور معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والاہو تاکی یہ منتخب اہل فردپانچ سال سیرسپاٹے میں مغرور ہوکے نہ گزارے بلکی انے والی نسلوں سے جڑے اوربین الاقوامی معاملات سے جڑے ہوئے مسائل کاحل نکالے اورعوام کی بھرپورخدمت کرے تاکی اگلے پانچ سال پھرخدمت کی بنیاد پر دوبارہ جیت جائے اور اس کی جیت یقینی ہو۔
لھذا اگر سیاست کامطلب مذکورہ بالامعنی میں لیاجائے توعبادت ہے اور اگرسیاست کامطلب ملک میں رائج طریقہ لیاجائے، یعنی سیاست سے مراد سیاست دان کی اجارہ داری 'کرپشن 'لوٹ مار'اقرباپروری'کمیشن خوری اوراپنوں کوٹھیکوں اورنوکریوں سےنوازنا ہے توسیاست عبادت نہیں ہے خیانت ہے۔اب اتے ہیں بلتستان میں مروجہ سیاست پے جہاں گذشتہ کئی سالوں سے مختلف نشیب وفرازدیکھااور مختلف علاقوں اورسیاست مداروں کوپڑھنے 'سمجھنے اورحالات کو بغور دیکھنے کاموقع ملاجس کے بعدپورے یقین واثق سے کہہ سکتاہوں کہ بلتستان میں سیاست دان عبادت نہیں خیانت کرتے ہیں کیونکہ یہاں سیاست دان کامحورتھیکہ دارہوتاہے اورتھیکہ دارکا محور سیاست دان ہوتاہے نتیجہ ٹھیکہ دارکےپورے کاپوراھم وغم ٹھیکہ ہی ہوتاہے جس کی بناپرہواکے رخ کے ساتھ ہی اپنارخ بھی بدل دیتاہے جس کی ضمیرکی قیمت بس ٹھیکہ ہی ہوتی ہے جس کاثبوٹ گذشتہ پی پی پی اور اج نون لیگ کے دورحکومت میں دیکھاجاسکتاہے اوراب مفاد پرست ٹولے کارخ پی ٹی ائی کی طرف ہوگیاہے۔کچھ خیانت کارتووہ ہے جوکمیشن 'ٹھیکہ اوراثررسوخ کے بل بوتے پرہی سیاست کرتے ہیں اورکچھ تو وہ ہیں جوٹھیکوں کی خریدوفروخت میں مشغول ہیں اگرسکردوشہر کے منصوبوں پرایمانداری سے پیسہ خرچ کیاجائے اورذیادہ بچت کی فکر نہ ہو تو سکردو جیسا چھوٹا سا شہرایک بے مثال شہربن سکتا ہے کسی ضلع کے نمائندہ کو%30 اے ڈی پی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب محترم قاری خودفیصلہ کرے کہ پاکستان میں بالعموم اور بلتستان میں بالخصوص سیاست عبادت ہے یاخیانت۔
تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان (ضلع سکردو بلتستان )
وحدت نیوز(آرٹیکل)عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں روز بہ روز شدد آرہی ہے اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن اور اقتصادی مشکلات کے خلاف اٹھنے والی یہ مظاہرے اب عوام کے ہاتھوں سے نکل کر تیسری قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں۔ تقریبا دو ماہ سے جاری ان مظاہروں میں اب تک چار سو کے قریب جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہزاروں کے تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اس کے علاوہ سرکاری تنصیبات اور عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس وقت سب سے اہم بات مظاہرین کا اپنے اصل ہدف سے دور ہونا اور تشدد کی جانب بڑھنا ہے۔ خصوصا مذہبی حلقوں اور حشد الشعبی کے خلاف قدم اٹھانا ہے جنہوں نے ان کو داعش کے شر سے نجات دلایا تھا۔
معاملہ اب کرپشن اور اقتصاد کے دائرے سے باہر ہے اور حالات ایسے ہی برقرار رہے تو خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ مظاہرین کے درمیان سازشی عناصر نے نفوذ پیدا کیے ہیں اور وہ مظاہرین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سازشی عناصر کو حکومت نے تیسری قوت قرار دیا ہے۔ تیسری قوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عراقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ قوتیں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ان مظاہروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر جگہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا کیوں نام آتا ہے مظاہرے تو عراقی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے ہی مطالبات کے حق میں تو یہاں امریکہ کا کیا کام؟ جواب یہ ہے کہ جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں وہاں پر مستحکم حکومت کبھی امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوتا، یہ بات ہم افغانستان سے لیکر افریقہ تک جہاں جہاں امریکہ ہے باخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر حکومت مستحکم ہوں اورعوام باشعور ہوں تو پھر امریکہ کے کالے کرتوت کھل جاتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس وقت روس اور چین کے بڑھتے اثرورسوخ اور ایران سمیت مقاومتی بلاک کا مشرق وسطی میں بڑھتی کامیابی نے امریکی سپر پاور ہونے کے دعوے کو للکارا ہے اور شام، عراق اور لبنان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عراق میں مظاہرین کا روخ تشدد کی جانب مڑ نا، ایرانی کونسل خانے کو جلانا اور عراقی مذھبی شخصیات کے دفاتر پر حملہ کرنا یہ عام عراقی عوام نہیں کرسکتے ہیں۔
امریکہ کو عراق کے مذھبی حلقوں سے شکایت کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بات بتاتا چلوں کہ امریکہ جس ملک میں بھی اپنا اڈہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلاتا ہے، سقوط صدام کے بعد داعش کا سر اٹھانا امریکی پلانگ کا حصہ تھا داعش کے ذریعے امریکہ نے بیک وقت شام اور عراق دونوں میں خانہ جنگی شروع کروادی تھی اور اسی بہانے امریکہ نے یہاں رہنا تھآ اور ان کے قدرتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنا تھا۔ اب آئیں جواب کی طرف امریکہ کو دھچکہ اس وقت لگا جب عراق کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ سیستانی نے داعش کے خلاف جنگ کا فتوی دیا جس کا اثر یہ ہوا کی لاکھوں کی تعداد میں عراقیوں نے لبیک کہا اور امریکی و داعشی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ جس کا براہ راست نقصان امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ داعش کو بنانے ان کی تربیت کرنے اور ان کو فنڈنگ کرنے میں ان تین ممالک کا مستقیم ہاتھ تھآ۔
اب امریکہ عراق میں میں ناکام ہوچکا تھآ اُس نے جس مقصد سے داعش کو بنایا تھا اس کا سو فیصد ثمر اس کو نہیں ملا بلکہ اس کے برعکس عراق میں آیت اللہ سیستانی کے فتوی کی وجہ سے ایک ایسی قوت حشد الشعبی کے نام سے ابھر آئی جنہوں نے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ امریکیوں کو بھی عراق چھوڑنے کا حکم دیا، دوسری طرف عراق کے رضاکار فورسیز نے اسرائیل کو بھی آنکھیں دیکھائی جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک دو بار عراق میں حشد الشعبی سے متعلق ملٹری بیس پر فضائی حملے بھی کئے۔ عراق میں حشد الشعبی کی بڑھتی مقبولیت اور عراق ایران کے بہتر ہوتے تعلوقات امریکہ اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔
دوسری جانب عراقی الیکشن میں امریکہ مخالف پارٹیوں کی کامیابی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ جب عوام حکومت سے اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ لئے سڑکوں پر نکل آئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ ایک بہترین موقع ثابت ہوا اور انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عوام میں یہ باتیں پھیلانا شروع کیا کہ عراق کی اقتصادی بحرانوں کا اصل سبب حشدالشعبی، مقاومتی بلاک اور ایرانی اثرورسوخ ہے جسکی وجہ سے آج عراقی مظاہرین کا ہدف تبدیل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس وقت بد امنی پھیلانے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکہ اور داعش حمایتی افراد سے ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ابھی بھی عراقی باسی اور قبائلی افراد آیت اللہ سیستانی کی جانب دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کے حکم سے ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کا سر کچل سکے۔ مگر آیت اللہ سیستانی، مقتدا الصدر، عمار الحکیم سمیت اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے پُر امن مظاہرے کی حمایت اور حکومت سے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی پُر تشدد واقعات کا سختی سے مذمت کی ہیں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پر امن رہیں۔
اس وقت عراق کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام عوام کے خلاف برسرپیکار ہے جن کو قابو کرنا حکومتی بس کی بات نہیں ہے اور آخر میں ان تمام مشکالات کا حل مراجع اور مذھبی شخصیات ہی نکال سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس دفعہ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام ہونگے اور انکے ناپاک عزائم خاک میں مل جائینگے، ساری دنیا کی نظریں آیت اللہ سیستانی پر ہیں اور مرجع تقلید حالات کی بہتری کی جانب پُر امید نظر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انشااللہ آئندہ جلد عراق کے حالات بہتری کی طرف لوٹ آئنگے۔
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز(ٹنڈومحمد خان) مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن صوبہ سندھ ضلع ٹنڈو محمد خان کے تحت بعد نماز جمعہ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی کی سربراہی میں گستاخ امام زمان (ع) ملعون ستار جمالی کے خلاف ریلی نکالی گئی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ باقر عباس زیدی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئمہ معصومین (ع) کی شان میں گستاخی کرنے والے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور اس حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ آئندہ ایسے کسی گستاخ کو ہمت نہ ہو۔