وحدت نیوز(ہمایوں شریف) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے ہمایون شریف میں منعقدہ مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی سوائے اس شئ کے جو خدا کے لئے ہو۔ اسی لئے راہ خدا میں شہادت فناء کا نام نہیں بلکہ بقاء کا نام ہے۔
انہوں نےکہا کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب خدائی نظام دنیا پر غالب آئے اور دنیائے گفر و شرک اور طاغوت کا زوال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ نظام ولایت و امامت نور کی شمع بن کر آج دنیا کی تاریکیوں کو روشنی میں بدل رہا ہے۔ آج دنیا بھر کی طاغوتی قوتیں شیطان بزرگ امریکہ کی قیادت میں دین مقدس اسلام کے انقلابی پیغام سے خائف ہوکر میدان میں آچکی ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ یمن لبنان عراق نائیجیریا سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں حق و باطل صف آراء ہے۔ ہم اھل حق کے ساتھ ہیں ہم کربلائے عصر میں خاموش تماشائی بننے کی بجائے حق بات کریں گے اور حق والوں کا ساتھ دیں گے۔ سلام ان عاشقان خدا پر جنہوں کربلا والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین خدا پر اپنی ھستی لٹا دی ۔
انہوں نےکہا کہ قائد شہید علامہ سید عارف حسین حسینی کے پیروکار فکر خمینی اور خط ولایت کی روشنی میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ حق و باطل کی اس جنگ میں ہم بے طرف نہیں بلکہ فریق ہیں ہم حق والوں کے ساتھ ہیں اور باطل کے خلاف ہیں۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا کہ مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے شہریوں کو تشویش میں ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال نظر نہیں آ رہیں جس کی وجہ سے بازاروں میں ناجائز منافع خوروں نے مہنگائی کا مصنوعی طوفان کھڑا کر کے غریب عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے وعدے پورے کریں اور گرانفروشوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ جبکہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیا خوردنوش کی کمی بھی ایک قابل تشویش عمل ہے جس پر حکومت ایکشن لے اور عوام کو مہنگائی کے طوفان سے بچایا جائے۔ علامہ عبدالخالق اسدی نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہیں پنجاب حکومت غریب عوام کا احساس کرے گی اور ریاست مدینہ کے دعووں پر عملدرامد کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(ہنگو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع ھنگو کی طرف سے 27 نومبر بروز بدھ کو 2 بجے سہ پہر عیدگاہ مسجد میں سیرت النبیؐ واتحاد امت کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ایم ڈبلیوایم ضلع ہنگو کی جانب سے سیرت النبیؐ واتحاد امت کانفرنس کی دعوتی مہم کا باقائدہ آغاز کردیا گیاہے۔
ایم ڈبلیوایم کےضلعی سیکریٹری جنرل مولانا شیر افضل عسکری نے وحدت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مولاناعامر شیرازی کے ہمراہ انہوں نے ڈی سی او، ڈی ایس پی اور ٹی ایم او ہنگو سے ملاقات کی اور انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام پورے کا پورا امن وآشتی، الفت و محبت سے عبارت ہے جس کی واضح دلیل اسلام "سلم " اور "ایمان" امن سے نکلا ہے، اور دونوں کا لفظی مطلب امن اور سکون ہے۔ اسلام کے امن اور سلامتی کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ جھتی ہے۔ کیونکہ اسلام کے امن واشتی کا تصور اتنا وسیع ہے کہ انسان کو بدگمانی کی زرہ برابر اجازت نہیں ہے۔ اور بدگمانی کو صریحا حرام قرار دیا اور قانون دیا کہ فعل المسلم یحمل علی الصحۃ۔ کہ فعل مسلم کی توجیہ کرے مگر کوئی بدگمانی نہ کرے۔ یعنی اسلام کا تصور امن و سلامتی اتنا وسیع ہے کہ کسی مسلم کو اتنی بھی اجازت نہیں ہے کی کوئی کسی پر اپنے ذھن اور خیال میں بھی تہمت کے تیر پھینکے۔ جب اسلام نے تہمت کے تیر پھینکے کو حرام قرار دیا ہے تو ناحق کسی کی جان کوقتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ جوکچھ دنیا میں ہو رہا ہے یہ کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کی دنیامیں اسلام کے نام پر جو کچھ دہشت گردی اور انتہاء پسندی ہو رہی ہے اس کا اسلام سے کوسوں دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر استکباری، سامراجی اور عالم طاقتوں نے اسلام کے مقدس دین اور آئین سے دور رکھنے اور پوری دنیا پر تسلط اورحکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام تھا، کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں نمایاں فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ: اسلام کا ایک دائرہ ہے اور ایمان کا دوسرا دائرہ۔ اسلام ایک ظاہری شکل وصورت کا نام ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت اور صورت کا نام ہے۔ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے لئے اسلام کے بنیادی عقائد کا اظہار زبان سے کافی ہوتا ہے۔ اور اسلمنا کہنا کافی ہوتا ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار صرف زبان سے ناکافی ہوتا ہے بلکہ: دل سے ایمان، زبان سے اقرار اور عمل سے اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا اسلام سے مسلم بنتا ہے اور ایمان سے مومن بنتا ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونا آسان ہے جبکہ دائرہ ایمان میں داخل ہونا سخت اور مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہر مومن مسلم ہوتا ہے مگر ہر مسلم مومن نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ: قالت الاعراب امنا، اعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں کہہ دیں تم ایمان نہیں لائے ہیں بلکہ کہہ دو اسلمنا: ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے۔ (سورہ حجرات ۔) اس آیت سے اسلام اور ایمان کا فرق واض ہو رہا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق مسلم ہونا نا کافی ہے بلکی مومن ہونا ضروری ہے ۔مسلم ہونے کے لئے ارکان خمسہ کا اظہار ضروری ہے جس طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ :قال الرسول ص بنی الاسلام علی خمس :علی شہادۃ ان لاالہ الااللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ و اقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ اس حدیث مبارکہ میں اسلام کے پانچ ارکان بیان ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ :اسلام کی بنیاد کلمہ شہادتین، اقامت صلاۃ، زکات کی ادائیگی، ماہ رمضان کا روزہ اور حج بیت اللہ ہیں۔ کلمہ شہادتین سے مراد خدا کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اللہ ص کی رسالت اور عبدیت کا اقرار ضروری ہے۔ اقامت صلاۃ کا مطلب پانچ اوقات کی نماز بھی ضروری ہے۔ اسی طرح صاحب نصاب پر زکات جبکہ صاحب استطاعت (مستطیع) پر زندگی میں ایک بار حج واجب اور باربار حج کی سعادت حاصل کرنا سنت موکدہ اور مستحب عمل ہے۔
یہ تو ارکان اسلام ہیں۔ مگر قرآنی آیات میں اور احادیث مبارکہ میں ارکان ایمان مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف بیان ہوئے ہیں۔ جب ایمان کے بارے میں رسول اکرم ص سے پوچھا حدیث جبرئل ع میں تو آپ ص نے فرمایا کہ: ایمان دل سے معرفت ذبان سے اظہار اور اللہ، رسل، کتب، ملائکہ اور آخرت پر یقین سے عبارت ہے۔ اسی طرح پوچھا گیا حضرت علی ع سے کہ :یا علی ما الایمان؟ توحضرت علی ع نے فرمایا کہ الایمان علی اربع دعائم :علی الصبروالیقین والعدل والجھاد :یعنی ایمان کے چارستون ہیں اور وہ صبر، یقین، عدل اور جھاد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار اجزاء ہیں۔ صبر کے چار اجزاء شوق، شفق، زھد اور ترقب (انتظار موت) ہیں۔ جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کیا اس نے خواہشات کو بھلا دیا اور جسے جہنم کا خوف حاصل ہوا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زھد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصور کرتا ہے اور موت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔ یقین کے چار اجزاء ہیں:ہوشیاری کی بصیرت، حکمت کی حقیقت رسی، حکمت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت گویا یقین کی چار بنیادیں ہیں۔ اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔ حقائق کو پہچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اور صالحین کے کردار پر عمل کرے ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط وھم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔ عدل کے بھی چار اجزاء ہیں : تہہ تک پہونچ جانے والی سمجھ ، علم کی گہرائی، فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔ اسی طرح جھادکے بھی چار شعبے ہیں: امر با لمعروف، نہی عن المنکر، ہر مقام پرثبات قدم اور فاسقوں سے نفرت و عداوت۔ گویا جھاد کا انحصار بھی چار میدانوں پر ہے۔ امر با لمعروف کا میدان، نھی عن المنکر کا میدان ، قتال کا میدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ ان چاروں میدانوں میں جھاد کا حوصلہ نہیں ہے تو تنہا امر و نھی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاھد کہے جانے کے قابل ہے۔ اس کا مطب یہ ہوا کہ جھاد کے چاروں میدانوں میں اگر کوئی کام کرے تو جھاد کا حق ادا ہوگا وگرنہ تنہا امرونہی سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کوئی مبلغ اسلام۔
میرا سوال ان مبلغان سے ہے جوصرف امر و نھی کو ہی جھاد اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جبکہ باقی دو میدان کو مکمل نظر انداز کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کی تنہا امرونہی میں کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہے جبکہ قتال اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کے میدان میں جان کی بازی لگانا اور فاسقوں سے نفرت کے میدان میں ہر ایک کی دشمنی مول لینا پڑتا ہے نتیجتا مبلغان دین اور مفتیان اسلام تنہا امرونھی کرنے میں ہی اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ اور تنہا امرونھی کا فائدہ اتنا نہی ہوتا جتنا باقی دومیدانوں میں (قتال وفاسقوں سے نفرت)کے میدان کا فائدہ ہوتا ہے۔ قتال اور فاسقوں سے نفرت وعداوت کے میدان کوترک کرنے کی وجہ سے انسانی معاشروں میں فاسق وفاجرکی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور اگر فاسقوں سے نفرت کے قرانی اور نبوی نسخے پر عالم اسلام کے مسلمان اور علمائے اسلام عمل پیرا ہوں تو انسانی معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ اور انسانی معاشرے میں جرائم و کرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجائے۔ وگرنہ صرف مزمتی بیان یا جمعے کے خطبوں میں تذکرہ کرنے سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کسی کی ذمہ داری ادا ہوتی ہے۔ مگر ان دو میدانوں میں کودنے کے لئے پیغبراکرم ص جیسا دل اور سینہ، اخلاص اور کردار چاہئے۔ حضرت علی ع جیسا حاکم اور مبلغ کی ضرورت ہے۔ پس اسلام اور ایمان میں یہ فرق ہے کہ اسلام ظاہری شکل اور زبانی اقرار کا نام ہے جبکہ ایمان دل کی ایک باطنی کیفیت کا نام ہے اسی وجہ سے حکیم امت نے فرمایا تھا:
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اب ہر مسلمان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ صرف مسلم ہے یا مومن بھی ہے۔
تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
(سکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو)
وحدت نیوز (بھٹ شاہ) اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان کا مرکزی کنونشن "مھدی امید مستضعفین جہان اور اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان کے مرکزی میراث مصطفیٰ قرآن و اہلبیت کنونشن بھٹ شاھ میں منعقد کی گئیں، کنونشن کے آخری روز کو جلسہ عام بعنوان یوم صادقین کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماحجتہ السلام والمسلمین علامہ مختار احمد امامی، بزرگ عالم حجتہ السلام والمسلمین علامہ محمد باقر نجفی،شیعہ علماء کونسل سندھ کےصوبائی صدرحجتہ السلام علامہ ناظر عباس تقوی،چئیرمین اصغریہ تحریک مفکر اسلام انجنئیرسید حسین موسوی، ادارہ تعلیم و تربیت منہاج القرآن کے مرکزی نائب ناظم مولانا غلام ربانی، علامہ سجاد حسین آہیر، مولانا قربان علی بھٹ شاہی، مولانا جواد ہادی، ممتاز شخصیت دانشور سید امتیاز حسین بخاری نے خطاب کیا، اس موقع پر اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان اور اصغریہ علم و عمل تحریک پاکستان کے مرکزی صدر محمد عالم ساجدی نے الوداعی خطاب کرکے سال پورا ہونے پراستعفیٰ پیش کیا۔
جب کہ نئے سال کے مرکزی صدر کے لیئے الیکشن کا نتیجہ اور صدارتی خطاب فرماتےہوئے حجتہ السلام والمسلمین علامہ محمد باقر نجفی نے نئے مرکزی صدر کا اعلان کیا جس کے مطابق اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان کے مرکزی صدر ایک بار پھر محسن علی اصغری جب کہ اصغریہ علم و عمل تحریک کے مرکزی صدر برادر سید شکیل شاھ حسینی منتخب ہوگئے۔
اس موقع پہ شرکاء نے اپنے مرکزی صدور کا والہانہ استقبال کیا ، جب کہ اسٹیج پرموجود مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مختار احمد امامی نے پھول کے ہار پہناتے ہوئے دونوں مرکزی صدور کو مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
وحدت نیوز(کراچی) امت مسلمہ حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے متحد اورکامیاب ہوسکتے ہیں۔ماہ ربیع الاؤل برکتوں، جشن کا مہینہ ہے اور ان کی نسل سے تعلق رکھنے والے حضرت امام جعفر علیہ اسلام کی تشریف آوری بھی اسی مہینے میں ہوئی ہے۔مسلمانوں کی وحدت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلے میں اکٹھے ہوکر اسے شکست دیں اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اپناکر پوری دنیا پر غالب آسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین سندھ سیکرٹریٹ و دعا کمیٹی سولجر بازار کے تحت محفل شاہ خراسان روڈ پر منعقدہ ہفتہ وار دعا ومحفل جشن صادقین بسلسلہ ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفی ﷺ و امام جعفر صادق علیہ السلام پر مقررین نے خطاب میں کیا۔
دعا کی تلاوت کی بعد محفل میلاد سے مولانا نعیم الحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ﷺکو تمام جہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجا اور فرمایا کہ تم میں ایک امت کا ہونا ضروری ہے جو امن کی دعوت دے، اس کا مصداق وحدت اسلامی ہے، جو اس امت کوامت بنانے کیلئے جدوجہد کرے، مشائخ اورعلماء کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے مکاتب اورمساجد میں اس فریضہ الٰہی کیلئے کوشش کریں، جو اختلاف اورفرقے کی بات کرے اسے روکاجائے، ایک امت بننے کیلئے مساجد کے دروازے دوسرے مسالک کیلئے کھولنا ہوں گے، مساجد مسلمانوں کے مورچے ہیں، ایک امت بن کر ہی ہم کامیاب امت بن سکتے ہیں۔
محفل جشن صادقین سے خطاب میں رہنما مجلس وحدت مسلمین ناصر الحسینی کا کہنا تھا کہ نبی کریم ﷺسے محبت ہمارا جز ایمانی ہے،آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو انسانیت کا درس دیا اورانہی کیلئے پرودگار نے کائنات کو خلق کیا امت مسلمہ کو چاہیے کہ رسول خدا ﷺ کی سیرت کی پیروی کریں آج مسلمانوں کی تنزلی کی بڑی وجہ رحمت العالمین و اہلبیت ؑ کی حقیقی تعلیمات سے دوری ہے رسول خدا و امام جعفر صادق ؑ نے امت کو اخوت، روداری و بھائی چارگی کا درس دیا ہے دشمنان اسلام و استعماری طاقتیں اسلام کے روشن چہرے کو بدنما ظاہر کرنے کی مزموم کوشش کررہے ہیں جشن میلاد صادقین میں مختلف شعرائے کرام، نعت خواں سید ناصر آغا، حکیم فیض سلطان قادری، نوید حسین رضوی، محمد فیضان رضا قادری، محمد تقی لاھوتی، علی رضا جعفری، بردار ابوطالب، راحیل عباس تقوی، عامر کاظمی، عمران نقوی، اقبال کاظمی،نے بارگاہ رسالت و امامت میں نعت و منقبت خوانی کر کے نذرانہ عقیدت پیش کیاجشن میں بوتراب اسکاوٹس محمد ضامن، خا دمان علم کمیٹی ندیم حسین رضوی، سماجی رہنما وجہہ الحسن عابدی، انجمن دربتول عظیم جاوا، سماجی رہنما ڈاکٹر حیدر تیموری اور دعا کمیٹی کے اراکین نے شرکت کی۔