The Latest
سابق امیر جماعت اسلامی و چیئرمین ملی یکجہتی کونسل قاضی حسین احمد کی صدارت میں ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ جس میں کونسل میں شریک تمام جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گزشتہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں ماہ رمضان اور محرم الحرام میں خطباء و ذاکرین اور بانیان مجالس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ کسی بھی منبر و محراب سے ایسی گفتگو یا تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی جو معاشرے میں تفرقے کا باعث بنے۔ اس اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی کو ملی یکجہتی کونسل کا سیکرٹری فنانس منتخب کیا گیا۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق جون 2012ء میں برما کے وسطی علاقہ میں دس مسلمانوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف جب مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے میں احتجاج کیا تو برما کی پولیس نے مسلمانوں پر بے دریغ اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے ان پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے اور براہ راست مظاہرین کے سروں کے نشانے لیے، جس سے ہزاروں مظاہرین موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ’’ٹونگوپ‘‘ نامی شہر میں 3 جون کو مسلمانوں کی بس پر بدھوں نے حملہ کیا، جو نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے، اور اس حملے میں بعض اطلاعات کے مطابق بدھوں نے پرانا کوئی حساب چکانے کے لیے مذہبی عصبیت کی بنیاد پر بس کے مسافروں کو اس بے دردی سے زدوکوب کیا،جس سے دس مسلمان شہید ہوگئے۔
ردعمل میں مسلمانوں نے 8 جون کو ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا جس میں بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مقامی انتظامیہ سے آنکھ مچولی بھی ہوئی۔ معاملات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بجائے 10 جون کو ریاست کے صدر کی طرف سے مسلمانوں کے علاقے شمالی اراکان میں زبردست قسم کی ہنگامی حالت نافذ کرکے عسکری اداروں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ کسی قسم کی تحقیقات و دستاویزی ثبوت کے بغیر مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کریں۔ عسکری اداروں نے پوری بدمعاشی کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں پر دھاوا بولا خوب پکڑ دھکڑ اور بازاروں میں لوٹ مار کے بعد عورتوں بچوں اور بوڑھوں سمیت پوری آبادی کو زدوکوب اور مار دھاڑ کا نشانہ بنایا۔
عینی شاہدین کے بیان کے مطابق ٹرکوں کے ٹرک مسلمانوں سے بھر کر نامعلوم مقام کی طرف لے جائے گئے اور اب تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ یہ ساری گرفتاریاں اور مار دھاڑ بغیر کسی قانونی کارروائی کے عمل میں آئی اور بعض آزاد ذرائع کی طرف سے ہزاروں افراد کے قتل کی اور بعض مقامات پر مسلمانوں کے زندہ نذر آتش کرنے کی خبریں بھی ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہاں کسی بین الاقوامی ادارے کے صحافی کو جانے اجازت نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک نوے ہزار مسلمان لاپتہ ہیں اور اس تعداد میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ حالات کے مارے، لٹے پٹے مسلمانوں نے جب ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف رخ کیا، تو وہاں کی ’’سیکولر‘‘ قیادت نے ان ’’انسانوں‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا،کیونکہ سیکولرازم صرف ان کو انسان مانتا ہے جو مغربی تہذیب کی گنگا جمنا میں نہائے ہوئے ہوں، فرزندان توحید، عاشقان مصطفٰی، غلامان اہل بیت اور داڑھی، ٹوپی، پگڑی اور مقامی لباسوں میں ملبوس تو سیکولرازم کے نزدیک انسان نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ان کے جانوروں کے برابر بھی ’’انسانی حقوق‘‘نہیں رکھتے۔ پس اب تک وہاں مہاجرین کے خیموں کی لمبی لمبی بستیاں قائم ہو چکی ہیں، جنہیں کوئی ریاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، صرف اس لیے کہ وہ کلمہ گو ہیں۔
برما کے مسلمانوں پر یہ کوئی نیا شب خون نہیں ہے، یہاں کے مسلمان گزشتہ کئی نسلوں سے اپنی بقاء کی سیاسی و نیم عسکری جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1050ء میں ’’بیاط وائی‘‘ نامی مسلمان سردار کا ذکر ملتا ہے، جسے ’’مان‘‘ خاندان کے بادشاہ نے اس لیے قتل کر دیا تھا کہ وہ قوت جمع کر رہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، سامراج کے جہاز کرہ ارض کے سمندروں پر قابض رہیں اور ان کی ظالم افواج باراتوں اور جنازوں پر بمباری کرتی رہیں تو بھی وہ امن عالم کے ٹھیکیدار ہیں اور مسلمان اپنے گھر میں دفاعی جنگ لڑے تو بھی دہشتگرد اور عسکریت پسند ہے۔
برما کے مشہور تاریخی ہیرو بادشاہ ’’کیان سیتھا‘‘ نے اپنے وقت کے مسلمان سردار ’’رحمان خان‘‘ کو سیاسی و مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کرا دیا تھا، اور اس مسلمان کے قتل کے لیے اس بادشاہ نے جلاد کو خصوصاً اپنی ذاتی تلوار دی تھی۔ 1652ء میں ہندوستان کے بادشاہ شہنشاہ خرم شاہجہاں کا دوسرا بیٹا شاہ شجاع کو اس کی بدقسمتی برما لے گئی، اس نے وہاں سے نکلنے کے لیے بھاری رقم برما کے بادشاہ ’’سانٹھا سدھاما‘‘ کو پیش کی اور کہا کہ اس رقم کے عوض اسے ایک بحری جہاز دے دیا جائے، تاکہ وہ حج پر جاسکے، برما کے لالچی بادشاہ نے آداب سفارت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی شہزادے کو قتل کر دیا، اس کی دولت پر قبضہ کر لیا اور اس کی عورتوں کو پس زنداں ڈال دیا، جہاں وہ بھوک کے ہاتھوں ہلاک ہوگئیں۔
اس ظالمانہ اقدام کے خلاف جب برما کے مسلمانوں نے بے چینی کا اظہار کیا تو ہر داڑھی والے کو مسلمان سمجھ کر تہہ تیغ کر دیا گیا، جو بچ گئے وہ مجبوراََ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ 1589ء میں برمی بادشاہ ‘‘بے انٹاؤنگ‘‘ نے ریاست کے بچے کھچے مسلمانوں کو زبردستی بدھ مذہب میں شامل کرنے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن پھر بھی کچھ مسلمان جب استقامت پذیر رہے اور انہوں نے برما میں شمع ایمان روشن رکھی۔ 1760ء میں ’’النگ پایا‘‘ نامی برمی بادشاہ نے مسلمانوں کے ذبیحے پر پابندی لگا کر انہیں حلال گوشت سے محروم کر دیا۔
1819ء میں برمی بادشاہ ’’بداوپایا‘‘ نے چار علماء دین اسلام کو خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا، انکار پر اس ظالم بادشاہ نے چاروں کو قتل کرا دیا۔ مشہور ہے کہ ان ائمہ اربعہ کی شہادت کے بعد سات دنوں تک برما میں مکمل اندھیرا رہا، جس کے باعث بادشاہ نے توبہ اور ندامت کا اظہار، کیا تب اجالا نمودار ہوا۔
برطانوی دور حکومت میں 1921ء کے سروے کے مطابق برما میں نصف ملین سے زائد مسلمان آباد تھے، لیکن انگریز کی ’’سیکولر جمہوریت‘‘ ہندوستان کی طرح وہاں بھی غیر مسلموں پر ہی مہربان رہی۔ 1845ء میں برما مسلم کانگریس (BMC) بنی، عبدالرزاق اس کے صدر منتخب ہوئے، جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی بدھوں کی مذہبی کتاب کی قدیمی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں نے اس پلیٹ فارم سے برما کی آزادی میں بھی بھرپور کردار ادا کیا، لیکن آزادی کے بعد 1955ء میں مسلمانوں کی اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد کی حکومتوں نے محسن کش رویہ اختیار کرتے ہوئے برما کو بدھ ریاست قرار دے دیا اور ذبیحے تک پر پابندی لگا دی گئی اور حاجیوں کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جانے لگے۔
1962ء میں ’’جنرل نی ون‘‘ کے دور کا آغاز ہوا، جو مسلمانوں کے ابتلاو آزمائش کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا، انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیا گیا اور معاشرے میں ان کے لیے ’’کالا‘‘ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیر کی جانے لگی اور مسلمانوں کے لیے اپنی شریعت پر چلنا بھی دشوار تر کر دیا گیا۔ افغانستان کے اندر’’بامیان‘‘ کے مجسموں کے معاملے کے بعد برما میں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذرآتش کیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھا، حالانکہ اگر بامیان کا معاملہ غلط بھی تھا تو برما کے مسلمان تو اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔
اس بہت بڑے سانحے کے بعد بعض مسلمان نوجوانوں نے ریاست سے ٹکرانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق یہ ایک فطری معاملہ تھا، لیکن مسلمانوں کی بیدار مغز قیادت نے انہیں اس امر سے باز رکھا۔ 16 مارچ 1997ء کو بدھوں کا ایک بہت بڑا گروہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور مسلمانوں کی مسجد کو آگ لگا دی، اس کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتب کو جمع کرکے نذرآتش کیا، پھر مسلمانوں کی املاک اور کاروباری دکانوں میں لوٹ مار کی، کئی لوگوں کو قتل کیا اور بے شمار لوگ زخمی بھی ہوئے، اور اس سارے عمل میں ریاست تماشائی بنی رہی۔
15 مئی 2001ء کو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں، چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگا دی اور دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے اور انہیں اس قدر پیٹا گیا کہ وہ جان کی بازی ہار گئے، بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر دیا جائے، جسے حکومت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیا اور متعدد مساجد زمیں بوس کر دی گئیں اور بعض کو مقفل کر دیا گیا۔ مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کے لیے مجبور کئے گئے اور بعض نے ہجرت کرلی۔
اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2009ء میں تھائی لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر انہیں کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا، جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں کو نگل گئی اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔ اس دوران حکومت برما اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے، مذاکرات، بیانات، رپورٹس، قراردادیں اور سرویز مگرمچھ کے آنسؤں سے زیادہ ثابت نہ ہوئے، جن کی تفصیل کے لیے ایک علیحدہ دفتر درکار ہے۔
برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا ایک حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً سے بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہو اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں، عالمی اداروں کے نمائندے اپنے کارندوں کے ہمراہ مظلومین کے ایک ایک فرد کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی این جی اوز ان کے حالات پر ڈاکومینٹری فلمیں اور ڈرامے بنا کر عالمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہوتیں اور مسلمانوں کے حکمران ان کے غم میں ہلکان ہو چکے ہوتے۔
افسوس ہے ان سیکولرازم کے پیروکاروں پر جن کا قبلہ مغرب اور جن کا خدا پیٹ اور جن کا مذہب پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔ انہیں مملکت خداداد پاکستان کے کسی دور دراز گاؤں میں پٹتی ہوئی عورت تو نظر آتی ہے، لیکن نسلوں سے خون میں نہاتے ہوئے، جمہوریت کے اس دور میں حق خودارادیت و مذہبی آزادی تک کے حق سے محروم برمی مسلمان نظر نہیں آتے۔ لیکن آخر کب تک ؟؟؟ ظلم کی رات کتنی ہی تاریک ہو، آخر کو اسے ختم ہونا ہے۔
پوری دنیا پر یورپ کی غلامی کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا، لیکن برمی مسلمانوں پر انگریز کی غلامی کے بعد اس سے بدتر غلامی مسلط کر دی گئی اور سیکولرازم کی لگی اندھی عینک سے دنیا کی قیادت کو صرف وہی نظر آتا ہے، جو امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں ’’عالمی برادری‘‘ کے نام پر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سجھا دیتی ہیں۔
امت مسلمہ کی عملی جدوجہد کے باعث گزشتہ صدی ہیل ہٹلر اور سرخ سویرے جیسے ہاتھیوں کو نگل گئی اور اس صدی کا سورج امریکہ کے زوال کی خوشخبری لے کر طلوع ہوا ہے۔ سامراج اپنے استعماری نعروں سمیت غرقاب ہوگا اور پس دیوار افق فاران کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی روشنی ایک بار پھر عالم انسانیت کو اپنی آسودگی و راحت بھری گود میں بھرلے گی، انشاءاﷲ تعالی۔
ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے تہران میں خواتین اور اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سامراجی ممالک جھوٹے نعروں کے ذریعے اقوام کے ذخائر کی لوٹ مار کرتے ہیں۔ فارس نیوز کے مطابق ڈاکٹر احمدی نژاد نے آج تہران میں خواتین اور اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ غلامی کے دور میں ظلم بہت نمایاں تھا، انہوں نے کہا کہ سامراجیوں نے انسانی حقوق، اقوام کی آزادی اور دفاع، بہتر معیار زندگی اور آسائش کے وعدوں اور عظیم اقتصادی اور سیاسی ترقی و پیشرفت کے نعروں کے ذریعے اقوام کو بہت زیادہ دھوکہ دیا ہے تاکہ ان کے ذخائر کو لوٹ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ آج انسان اور حقیقت انسان پر ایسا ظلم کیا جارہا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ڈاکٹر احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ ہم سب کا فرض ہے کہ بشریت کی نجات اور دنیا میں عدالت کی برقراری کے لئے مل کر کوشش کریں اور اس کے لئے ہمیں امریکہ اور اسرائیل کی حکمرانی ختم کرنی ہوگی، انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم وہ وقت آنے والا ہے جب اس دنیا سے امریکہ اور اسرائیل کے وجود کا خاتمہ ہو جائے گا۔ڈاکٹر احمدی نژاد نے کہا کہ خدا نے انسان کو اس لئے خلق نہیں کیا کہ وہ حقارت و ذلت کی زندگی بسر کرے، خدا نے انسان کو خلیفہ کامقام عطا کیا اور اسکو اسقدر کرامت سے نوازا کہ اسکے ہر فعل سے خدا کی عظمت کی جھلک نظر آئے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے، آج انسان پر بدترین ظلم و ستم ہو رہے ہیں۔ آج تین ارب سے زیادہ لوگ فقر کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اور اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بیداری صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہے۔ایرانی صدر نے انسانی زندگی میں عورت کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی بیداری اور اس میں آنے والے تحولات میں خواتین مردوں سے زیادہ موثر ہیں۔ خداوند نے عورت کو بہت سے فضائل سے نوازا ہے، جو ہے وہ عورت کی قلبی کیفیت سے ہے۔ بچے کی پاک سرشت میں اسکی ماں کے پاک دودھ کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر عورت ارادہ کر لے تو دنیا کو تبدیل اور اسکی اصلاح کر سکتی ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ غرب میں عورت کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔انہوں نے تقریب میں موجود خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے کی خواتین بیدار ہیں وہ معاشرہ بھی بیدار ہے۔ آپ سب کا وظیفہ بہت سنگین ہے، جس میں اپنے گھر کے ساتھ معاشرے کی تربیت بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ تہران میں آج صبح خواتین اور اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور علمی میدانوں میں سرگرم ایک ہزار پانچ سو ایرانی اور غیر ملکی خواتین نے شرکت کی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع وہاڑی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر مولانا اعجاز رضا غدیری نے کہا ہے کہ قرآن و سنت کانفرنس کی عظیم کامیابی پر ہم خدا وندمتعال کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے۔ یہ خدا کی نصرت تھی جوقرآن و سنت کانفرنس کی صورت میں ملت جعفریہ کی عزت کا باعث بنی ۔ان کا کہنا تھا کہ قرآن و سنت کانفرنس کا اجتماع ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ کا یادگار اجتماع تھا جس سے قوم کو ایک نئی امید کی کرن نظر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی ، صوبائی ، مقامی قائدین اور کارکنان کامیاب کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور نیٹو سپلائی کی بحالی پر ان کا کہنا تھا کہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کے لئے اسلحہ اور دیگر عسکری سامان کی پاکستانی سرزمین سے سپلائی ملکی قوانین اور عوامی امنگوں کے منافی اقدام ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نیٹو سپلائی کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع ہنزہ نگر کے زیر اہتمام ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی کال پر قرآن وسنت کانفرنس کی عظیم کامیابی پر ملک بھر میں یوم تشکر اور نیٹو سپلائی کی بحالی کی مخالفت کا دن منایا گیا۔ ضلع ہنزہ نگر کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد موسیٰ نے خطبہ جمعہ میںسینکڑوں مومنین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم خداوند کریم کے شکر گزار ہیں کہ جس کی خاص کرم و عنایت سے ملت جعفریہ کی وحدت کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کی کامیابی کا سہرا مرکزی و صوبائی قیادت سمیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے تمام کارکنان کے سر جاتا ہے جنھوں نے شب وروز محنت کر کے نہ صرف قوم کو بیدار کیا بلکہ دنیاوالوں کو بھی پیغام دیا کہ ملت جعفریہ دشمن شناس بھی ہے اور دشمن اسلام و پاکستان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ مولانا موسیٰ کا کہنا تھا کہ قوم نے بھرپور شرکت کر کے شہید قائد سید عارف حسین الحسینی کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کی تجدید کر دی ہے۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کو ملکی وقار و خودمختاری کے خلاف گہری سازش قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہی قومیں تاریخ میں زندہ رہتی ہیں جو اپنے فیصلے اپنے قومی مفاد اور عوامی امنگوں کی روشنی میں کرتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نیٹو سپلائی کا فیصلہ فوری طور پر معطل کیاجائے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی تین اگست کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی میڈیا سیل سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل تین اگست کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک روزہ دورہ کریں گے۔ اپنے اس دورے میں وہ پریس کانفرنس کے علاوہ وہ کمالیہ بھی جائیں گے جہاں مقامی سیاسی و مذہبی شخصیات سے ان کی ملاقات شیڈول میں شامل ہے۔ بیان میںمزید بتایا گیا ہے کہ علامہ امین شہیدی کی تین اگست کوکمالیہ میں دیگر مصروفیات میں ان کا سالانہ مجلس عزا سے خطاب بھی شامل ہے۔ ایم ڈبلیو ایم ٹی ٹی ایس کی جانب سے ان کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام بھی کیا جائے گا جس میں مقامی مومنین، عزادار اور شہر کے عمائدین شریک ہوں گے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کا اجلاس ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی زیر صدارت مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں میں پیر اور منگل کی درمیانی شب منعقد ہوا جس میں مینار پاکستان لاہور پر ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس میں اعلان کیے گئے سیاسی روڈ میپ اور آئندہ کے لائحہ عمل سمیت کئی اہم فیصلے کیے گئے۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کے تمام اراکین نے اپنے اپنے شعبہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی ۔ ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری خارجہ امور علامہ شفقت شیرازی نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شرکاء کو بریفنگ دی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان عالم اسلام کی سربلندی اور وطن عزیز کے استحکام کے لئے میدان میں اتری ہے۔ ایم ڈبلیو ایم امت مسلمہ کی صفوں میں اتحاد کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستانیت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ ہمارے شہید قائد نے فرمایا تھا کہ ہماری تین حیثیتوں سے تین ذمہ داریاں ہیں۔ اول ہم مسلمان ہیں لہٰذا عالم اسلام کے مسائل سے غفلت نہیں برت سکتے، ثانیاً ہم پاکستانی ہیں اپنے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اس کی سا لمیت اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے اسے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے کوشاں رہنا ہماری ذمہ داری ہے اور تیسرا ہمارا تعلق مکتب اہل بیت سے ہے۔ ملت جعفریہ کے مسائل و مشکلات سے غافل رہنا ہمارے لئے ممکن نہیں ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اپنے قائد شہید کی فکر اور ادھورے خوابوں کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے۔ اجلاس کے اختتام پر مادر وطن کی سا لمیت، استحکام اور عالم اسلام کی سربلندی کے لئے دعا کی گئی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو ملنے والی بیرونی امداد پر حکومت کی طرف سے ایکشن نہ لیے جانے پر چیف جسٹس آف پاکستان سوموٹو ایکشن لیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں کوئٹہ میں امن و امان کیس کی سماعت کے دوران دیے گئے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کیا جس
امریکی فوج کے ایک مسلمان افسر کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کے بعد سے امریکی فوج میں شامل مسلمان اہلکاروں کے بارے میں تفتیشی عمل کے بعد معلوم ہوا کہ ایک سو کے قریب فوجیوں پر انتہا پسندی کا شبہ ہے۔ امریکی فوج کے جن سو اہلکاروں پر شبہ کیا جا رہا ہے وہ سب 2009ء میں امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک فوجی مرکز فورڈ میں فائرنگ کرنے والا میجر ندال حسن سے متاثر ہیں۔ میجر ندال حسن فائرنگ کے اس واقعے میں جوابی فائرنگ سے زخمی ہوگیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے کورٹ مارشل کا منتظر ہے۔ فوجی عدالت کی جانب سے میجر حسن کو سزا تیس اگست سے شروع ہونے والے فوجی مقدمے کے مکمل ہونے پر سنائی جائے گی۔میجر ندال حسن فوج میں القاعدہ کا ایک ہمدرد خیال کیا جاتا ہے۔ امریکی فوج میں مشتبہ افراد کے بارے میں تفتیشی عمل ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے شروع کر رکھا ہے۔ ان ایجنٹوں کی رپورٹوں کے مطابق ایک درجن کے قریب افراد حقیقت میں فوج کے اندر ایک بڑے خطرے کے مساوی ہیں۔ ایف بی آئی نے ان مشتبہ فوجیوں کو باقاعدہ خطرہ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ امریکی فوج پر حملے کی سوچ رکھنے کے علاوہ خطرناک انتہا پسندوں کے ساتھ رابطوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایف بی آئی کی تفتیش کو امریکہ کے ریڈیو پر عام کیا گیا ہے۔ ایف بی آئی نے اپنے تفتیشی عمل کے بعد مرتب ہونے والی خفیہ رپورٹوں کو ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مشترکہ کمیٹی کے سامنے بھی پیش کیا۔ امریکی کانگریس کے ایوانوں کی اس مشترکہ کمیٹی میں اس رپورٹ پر بحث بھی کی گئی۔ ایف بی آئی کے مطابق خطرے کا زیادہ احساس ان حاضر سروس فوجیوں سے ہے، جن کو اسلحے تک رسائی حاصل ہے۔ امریکی فوج کے صدر دفتر پینٹاگون نے اس رپورٹ کے مندرجات پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی فوج کے بارے میں مکمل ہونے والی ایف بی آئی کی رپورٹ میں اِن فوجیوں سے بھی خطرہ ظاہر کیا گیا ہے جو انتہا پسندانہ عقائد کے مالک ہیں اور ایکٹیو فوج کی بجائے صرف جزوقتی طور پر فوج کے لیے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے کے مطابق فوج کے ساتھ رابطے میں وہ سویلین بھی باعث خطرہ ہیں، جن کے انتہا پسندوں کے ساتھ رابطے ہیں یا وہ القاعدہ کے نظریات سے متاثر ہیں۔ امریکی کانگریس کی جس مشترکہ کمیٹی کے سامنے فوج سے متعلق یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی، اس کے سربراہ سینیٹر جوزف لیبرمین ہیں۔
سینیٹر جوزف لیبر مین کا کہنا ہے کہ لاکھوں میں یہ ایک بہت ہی قلیل تعداد ہے جو فوج میں شامل ہوتی ہے اور ان میں بھی یہ ایک مختصر تعداد ہے جو فوج کے ساتھ براہ راست یا فوج کے کنٹریکٹر کے ساتھ شریک ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب میں حملہ صرف ایک میجر ندال حسن نے کیا تھا اور اس کے حملے میں تیرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ میجر ندال حسن کے بارے میں جو تفتیشی رپورٹ مکمل کی گئی ہے، اس کے مطابق وہ یمن کے مقتول بنیاد پرست مبلغ انور العولقی سے متاثر تھا۔ العولقی ستمبر 2011ء کے دوران ایک فضائی کارروائی میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ایران میں تعینات انڈنیشیا کے سابق سفیر نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں سے بحران کا شکار عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بدھ کے روزاسلامی جمہوریہ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پابندیاں لگانے سے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی حل نہیں نکل سکے گا کیوں کہ پابندیاں ایک غیر انسانی فعل ہے جو عام انسان کی زندگی کو متاثر کرتاہے،انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران اب تک تمام پابندیوں کا مقابلہ کرتا رہا ہے اورکہا کہ اس بار بھی ایران اس مسئلے سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹ لے گا۔انڈنیشیا کے سابق سفیر نے مزید کہا کہ صرف یورپی ممالک کی ایران سے تیل نہیں خریدتے بلکہ بھارت اور چین جیسے بڑی معیشت رکھنے والے ملک بھی ایران سے تیل خریدتے ہیں اور وہ ایران کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک کی تجارتی سرگرمیوں کو پابندیوں سے حدود کرنے کا مقصد مغرب کی عالمی منڈی میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا ہے،عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے انہوں نے بڑی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ کشیدگی بڑھا کر دنیا کی معیشت کو مزید کمزور نہ کریں۔