The Latest
پاکستان پیپلز پارٹی کے شعلہ بیاں رہنما اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کے مشیر برائے سیاسی امور فیصل رضا عابدی نے گزشتہ دنوں اپنے پارٹی عہدے یعنی پی پی کراچی کی صدارت اور صدر کے مشیر کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ موصوف نے اپنے ان استعفوں کی وجہ ملک بھر میں اہل تشیع کے قتل عام کی کارروائیوں اور عدلیہ کی مسلسل خاموشی کو قرار دیا ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ انہوں نے سینٹ کی رکنیت سے استعفی نہیں دیا، مختلف نجی ٹی وی چینلز پر اپنے استعفوں کے اعلان کے ساتھ سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ایک اور اعلان بھی کیا اور وہ اعلان ''اعلان جنگ'' تھا۔ جو بقول ان کے تشیع کے قتل عام کے ذمہ دار دہشتگردوں اور اعلی عدلیہ کے ان ججز کے خلاف ہے جو سینکڑوں قاتلوں کو رہا کرنے کے علاوہ قتل و غارت گری پر بے حسی کا مظاہرہ کرنے کے مرتکب ہوئے۔
مختلف نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں فیصل رضا اس قتل و غارت گری کا ذمہ دار دہشتگردوں اور عدلیہ کو قرار دیتے رہے، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ این آر او کیس کے بعد سے پیپلزپارٹی اور عدلیہ کے درمیان جاری سرد و گرم جنگ سے ملک کا ایک عام شہری بھی بخوبی آگاہ ہے، اس خاموش لڑائی میں ہمیشہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے احترام کی باتیں کی گئیں، تاہم کبھی ایگزیکٹیو کے احکامات کو عدلیہ نے کالعدم قرار دیا تو کبھی حکومت نے عدالتی احکامات کو مذاق سمجھا، جس کا خمیازہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی چھٹی کی صورت میں بھگت چکے ہیں، بعض حلقوں کی جانب سے حالیہ ارسلان افتخار کیس کے تانے بانے بھی چیف جسٹس کے خلاف حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے جوڑے گئے، جس کی مثال نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے ایک ٹاک شو کے دوران ملک ریاض کو اس وقت کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی ہدایات پر مبنی ٹیلی فون کال کا آنا ہے۔
اگر ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر فرقہ وارانہ کارروائیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس پر عدلیہ کی خاموشی اس مکتب فکر کے پیروکاروں کیلئے انتہائی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، اور بارہا مطالبات اور اپیلوں کے باوجود معمولی معمولی واقعات پر سوموٹو ایکشن لینے والے قابل احترام ججز نے کوئی ایکشن نہ لیا، بلکہ کمزور پراسیکوشن کو جواز بناتے ہوئے بدنام زمانہ دہشتگرد ملک اسحاق سمیت سینکڑوں ملک و اسلام دشمن عناصر کو رہائی دی گئی، یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس کمزور پراسیکوشن کا فائدہ اہل تشیع اسیروں کو نہیں ملا، اس صورتحال میں سینیٹر فیصل رضا عابدی کی عدلیہ پر تنقید بالکل بجا ہوگی، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا موصوف کا حالیہ "اعلان جنگ" مبنی برحق ہے یا کوئی سیاسی چال۔
اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے ایک قومی روزنامہ ایکسپریس کے کراچی ایڈیشن میں 4 جولائی کے شمارے میں صفحہ آخر پر شائع اس خبر کا حوالہ دینا لازمی سمجھوں گا، جس میں قومی روزنامہ اپنے باوثوق ذرائع کے حوالے سے دعوی کرتا ہے کہ ان استعفوں سے قبل گزشتہ چند ماہ سے فیصل رضا عابدی پارٹی میں غیر فعال ہوچکے تھے، پیپلزپارٹی کراچی کے ضلع جنوبی اور ضلع ملیر کے عہدیداروں کو بھی ان کی مرضی کے بغیر ہٹایا گیا، جس کا سبب پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کا اضطراب بتایا جاتا ہے، اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو فیصل رضا عابدی سے کئی شکایات بھی تھیں، مذکورہ اخبار کی اس خبر کی حقیقت کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فیصل رضا عابدی اور پارٹی قائدین کے مابین اس امر پر کوئی اختلاف ضرور تھا، اور شائد مذکورہ استعفے کا سبب بھی یہی اختلاف بنا ہو۔
پیپلزپارٹی کی ایک اہم شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گزشتہ دنوں راقم کو بتایا کہ حکمران جماعت کی قیادت کو آج کل شیعہ ووٹ بنک میں کمی آنے کا خدشہ ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 فیصد سے زائد شیعہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ملتا ہے، اس وقت ملک میں اہل تشیع کیخلاف جاری کارروائیوں، ملت کی بیداری اور شیعہ تنظیموں بالخصوص مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے آئندہ الیکشن میں بھرپور کردار ادا کرنے کے اعلانات نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو یقینا تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، جب راقم نے پیپلزپارٹی کی اس اہم شخصیت سے یہ سوال کیا کہ شیعہ ووٹ بنک کو کہیں اور جانے سے بچانے کیلئے پی پی کیا کچھ کر رہی ہے تو موصوف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یقینا کچھ تو کرنا ہوگا۔
اہل تشیع کا جتنا قتل عام فیصل رضا عابدی کی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، شائد ہی ملکی تاریخ میں کبھی ہوا ہو، مگر نہ جانے فیصل رضا عابدی نے ایوان صدر میں رہنے کے باوجود کوئی کرداد ادا کیوں نہیں کیا، اور اگر پارٹی قیادت ان کی بات نہیں مانتی تھی تو انہوں نے اس پارٹی کو چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ جو ان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کا تحفظ نہ کرسکے، کیا یہ سمجھا جائے کہ تشیع کے تحفظ کیلئے حال ہی میں اعلان جنگ کرنے والے فیصل عابدی کو پارٹی کہیں زیادہ عزیز ہے، دنیا بھر میں تشیع کا سب سے بڑا دشمن تو امریکہ کو کہا جاتا ہے، اور یقینا فیصل عابدی کی پارٹی وہی ہے جو امریکہ کی مرضی کیخلاف پر بھی نہیں مار سکتی، آج تک فیصل عابدی نے شیطان بزرگ کے خلاف کیوں اعلان جنگ نہیں کیا؟ کیونکہ دنیا میں دہشتگردی کا باعث امریکہ ہی تو ہے۔
جناب فیصل رضا عابدی کا استعفوں کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم تشیع کا قتل عام روکنے میں بے اختیار ہیں، جس ملک میں حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بے بس ہو، وہاں عوام کس سے انصاف مانگیں گے؟ اگر 120 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستوں اور ہر برے کام میں ساتھ کھڑے رہنے والے اتحادیوں کے باوجود بھی پی پی حکومت بے بس ہے تو کیا اقتدار سے چمٹے رہنے کا مقصد صرف قوم کا پیسہ بٹورنا ہے؟ تشیع کے قتل عام کیخلاف اعلان جنگ کرنے والے پیپلزپارٹی کے سینیٹر کے اپنے شہر کراچی میں آئے روز دیگر بے گناہ افراد کی طرح شیعہ شہری بھی دہشتگردوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور اس صوبے میں بھی فیصل عابدی کی جماعت کی حکومت ہے، موصوف نے آج تک متعلقہ وزیراعلی کے سامنے احتجاج کیا نہ استفسار۔
یہ فیصل عابدی کی پارٹی کی حکومت کا دور ہی ہے جس میں فرقہ پرست تنظیمیں روز بروز منظم اور فعال ہو رہی ہیں، اگر یہ حکومت دہشتگردوں کو گرفتار کرنے اور انہیں سزائیں دلوانے میں بے اختیار تھی تو کم از کم ان فرقہ پرست تنظیموں پر پابندیاں عائد کرکے ان کے رہنمائوں کی نقل و حرکت کو تو محدود کیا جا سکتا تھا، صدر مملکت آصف علی زرداری، جن کے فیصل رضا عابدی گن گاتے نہیں تھکتے، نے دو روز قبل شہید ڈاکٹر علی رضا پیرانی کے قتل میں ملوث لشکر جھنگوی کے دو خطرناک دہشتگردوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد موخر کروا دیا، کیا اب عابدی صاحب کا صدر کیخلاف اعلان جنگ کرنا لازمی نہیں بنتا؟ فیصل عابدی صاحب نے کبھی اپنی ہی جماعت کے غیر سنجیدہ بلوچ وزیراعلی سے پوچھا کہ سانحہ مستونگ کے موقع پر آپ نے یہ کیوں کہا کہ ''ملک کی آبادی تو کروڑوں میں ہے، اگر تیس، پینتس لوگ مر بھی جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے، اور میں مقتولین کے گھر ٹیشو پیپرز کے ٹرک بھجوا دوں گا''۔
فیصل رضا عابدی کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں ملت تشیع اب بیدار ہوچکی ہے، میڈیا پر آکر صرف جذباتی دعوے کرنے سے قوم متاثر نہیں ہوگی، اب اس قسم کے لالی پوپس دکھا کر اس کے ووٹوں کو خریدا نہیں جاسکتا، پاکستانی قوم اس فلم کا پہلا حصہ ذوالفقار مرزا کی شکل میں دیکھ چکی ہے کہ جب ایم کیو ایم کیساتھ اتحاد کے بعد پی پی کی مقبولیت گرنے لگی تو ذوالفقار مرزا کو مولا جٹ بنا کر الطاف حسین کے پیچھے لگا دیا گیا، اور مقصد پورا ہونے کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے والے مرزا صاحب ایسے غائب ہوئے کہ انہیں میڈیا والے بھی تلاش نہ کرسکے، اور معلوم ہوتا ہے کہ فیصل رضا عابدی کا حالیہ اعلان جنگ بھی اس فلم کا دوسرا حصہ ہے، جس میں ایک طرف تو چیف جسٹس کے خلاف کھولے گئے محاذ کو تقویت پہنچے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی شیعہ ووٹ کی ہمدردیاں حاصل کرسکے، جو شائد اب ممکن نہ ہو۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے ملت جعفریہ کو وارث زمانہ امام العصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی ولادت باسعادت کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالم بشریت تشنہ عدالت ہے جس کی تشنگی عدل کی شراب طہور سے ہی بجھ سکتی ہے۔بشریت کو خدا اور اس کا نظام عدل چاہیے اور پندرہ شعبان المعظم کادن عدل کی روشنی میں حق دار کو اس کے حق لوٹانے کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں درس دیتا ہے کہ ہم عدالت، انسانی حقوق، مظلوموںکی حمایت، حاکموں کے رعیت اور رعیت کے حاکموں پر حقوق کی ادائیگی کا درس دیتا ہے۔ کیونکہ اس دن جو ہستی اس دنیا میں تشریف لائی وہ عدل الٰہی کی مظہر ہے اور جب وہ غیبت کبریٰ کے خاتمے کے بعدحکم خدا سے ظہور کرے گی تو اس دنیا کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گی جیسے یہ دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اسلام آباد میں مرکزی آفس کے سٹاف اور مقامی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ نظام الٰہی چاہے تو تکوینی نظام کائنات ہو یا تشریعی نظام دونوں کی اساس اور بنیاد عدل پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا وند کریم نے انسانیت کی ہدایت کے لئے اپنے عدل کے مظہر معصوم انبیاء اور آئمہ طاہرین کو بھیجا جن کی زندگیاں معاشرے سے ظلم و بربریت اور نا انصافی کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے صرف ہوئیں۔ اسلام نے جو ضابطہ حیات دنیا کو دیا اس کی بنیاد بھی عدل ہے۔ ابو الآئمہ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے مولائے کائنات سے پوچھا کہ عدل افضل ہے یا سخاوت ؟ تو آپ نے فرمایا کہ عدل افضل ہے کیونکہ عدل کی بنیاد پر نظام حیات کو تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا معاشرے سے ظلم کا خاتمہ اور عدالت کا قیام ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے تاریخ تشیع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب عدالت کو گھر میں محصور کر دیا گیا اور ظلم وہاں جا بیٹھا جہاں کا اہل نہیں تھا تو اس وقت حضرت سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا نے ظلم کے خلاف قیام کیا۔ اور یہی بعد میں آنے والے آئمہ طاہرین کے لئے مشعل راہ بنا۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف اٹھنانہ صرف مردوں بلکہ خواتین کی بھی شرعی ذمہ داری ہے۔ ہم شیعیان حیدر کرار انبیاء کرام اور آئمہ طاہرین کے مبارزات کے وارث ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہ صرف خود کو عالمی انقلاب امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے لئے تیار کرنا چاہیے بلکہ اس انقلاب کے لئے جس میں پوری انسانیت کی فلاح ہے زمین ہموار کرنی چاہیے اور اس راستے میں مشکلات سے گھبرانا ملت جعفریہ کا شعار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ دنیا کی بہترین ملت ہے اور اس کے اخلاص کا موازنہ کسی بھی دوسرے سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو طاقتور بنائیں اور اپنی ملت کے لئے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔
مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی نے صدر پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر رضا پیرانی کے قاتلوں کی پھانسی کی تاریخ میں توسیع کے احکامات پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ صدر پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کی پھانسی کی سزا کی تاریخ کو موخر کرنا پیپلز پارٹی کی طرف سے اسلام و پاکستان کے دشمنوں کے حوالے سے نرم گوشہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے بعض اراکین میڈیا پر آکر شیعہ قتل عام پر واویلا کرتے ہیں ۔اور ہر صورت میں صدر زرداری ہی کو اپنا قائد تصور کرتے ہیں لیکن آج ملت جعفریہ یہ سوال کرتی ہے کہ ڈاکٹر رضا پیرانی کے قاتلوں کی پھانسی کو موخر کرنے پر وہ اپنے قائد کوحالات اور شیعہ قوم کے جذبات سے آگاہ کریںاگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ملت جعفریہ ٹی وی چینلز پر ان کے شیعہ قتل عام پر شور مچانے کو محض سیاسی ڈرامہ تصور کرے گی۔پہلے تو ملت جعفریہ کو عدالتوں کی طرف سے انصاف نہیں ملتا تھا اب سیاسی حکومت بھی اگر کوئی عدالت کسی قاتل کو پھانسی کی سزا سناہی دے اس پر عدالتی حکم کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ اگر حکومت وقت نے دہشت گردوںکی پھانسی میں مزید تاخیر کا مظاہرہ کیا تو اسے شیعہ دشمنی تصور کیاجائے گا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر پیرانی کے قاتلوں کو اٹھارہ جولائی کو پھانسی دی جانی تھی جس میں صدر کی طرف سے تاریخ میں تیس ستمبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔
امریکہ سمیت یورپ کے بشارالاسد حکومت کے خلاف جارہانہ رویے پر روسی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب کی طرف سے شام کے صدر کو ماسکو میں سیاسی پناہ کی تجویز دے کر مغرب نے شام کے متعلق روس کی پوزیشن کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ غیر سنجیدہ اور اصولوں سے عاری ایسے لوگوں کی کوشش ہے جنہیں خارجہ پالیسی کا علم ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس شام کے حوالے سے سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد مسترد کر دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کا جارہانہ رویہ شام میں بڑی جنگ چھڑ نے کا باعث بن سکتاہے۔ سرگئی لاروف نے خبردار کیا ہے کہ مغربی رویئے سے شام میں حالات مزید خراب ہو رہے ہیں، تشدد روز بروز بڑھ رہا ہے جو بالآخر خطے میں بہت بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
مجلس وحدت مسلین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ یکم جولائی کی کامیاب قرآن و سنت کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والے اعتماد کو جاری رکھتے ہوئے ملک کے عوامی مسائل کے حل کی تحریک کا ایم ڈبلیو ایم ہراول دستہ بنے گی۔انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کانفرنس سے پیدا ہونے والی بیداری کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل کے ذریعے ملک سے عسکریت پسندوں کو تنہا کریں گے۔ دہشت گردوں کی حمایتی جماعتوں اور امیدواروں کو اسمبلی میں نہیں جانے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی استعماری پالیسیوں کو پاکستان کے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا سبب سمجھتی ہے۔ ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بیدار ملت بنانے کیلئے ملک بھر میں امریکی مفادات کے خلاف مہم چلائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ایم ڈبلیو ایم کے مر کزی سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ قرآن و سنت کانفرنس کے بعد تحریک انصاف، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ہم خیال نے اتحاد کے لئے رابطہ کیا ہے، لیکن مجلس وحدت مسلمین کسی سے سیاسی اتحاد نہیں کرے گی، رابطہ ہر جماعت سے رکھا جائے گا۔ اور آئندہ انتخابات میں امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ اپنی اعلان کر دہ پالیسی کے مطابق کریں گے۔
امام زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھویں اور سلک امامت علویہ کی بارھویں کڑی ہیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتون تھِیں۔ آپ اپنے آباء و اجداد کی طرح امام منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات ہیں۔ آپ بچپن ہی میں علم و حکمت کے زیور سے آراستہ تھے۔ آپ کو پانچ سال کی عمر میں ویسی ہی حکمت دے دی گئی تھی، جیسی حضرت یحیی علیہ السلام کو ملی تھی اور آپ بطن مادر میں اسی طرح امام قرار دیئے گئے تھے، جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرار پائے تھے۔ آپ علیہ السلام کا مقام انبیاء سے بالاتر ہے۔ آپ کے بارے میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بےشمار پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اور وضاحت کی ہے کہ آپ حضور کی عترت اور حضرت فاطمة الزہرا کی اولاد سے ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور آخری زمانہ میں ہو گا اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام میرے خلیفہ کی حیثیت سے ظہور کریں گے اور "یختم الدین بہ کما فتح بنا" جس طرح میرے ذریعہ سے دین اسلام کا آغاز ہوا اسی طرح ان کے ذریعہ سے مہر اختتام لگا دی جائے گی۔ آپ نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا اصل نام میرے نام کی طرح اور کنیت میری کنیت کی طرح ہو گی۔ وہ جب ظہور کریں گے تو ساری دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کر دیں گے جس طرح وہ اس وقت ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ ظہور کے بعد سب پر واجب ہے کہ ان کی فورا بیعت کریں کیونکہ وہ خداکے خلیفہ ہوں گے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت با سعادت:
مورخین کا اتفاق رائے ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھجری بروز جمعہ بوقت طلوع فجر ہوئی ہے۔ جیسا کہ (وفیات الاعیان، روضة الاحباب، تاریخ ابن الوردی، ینابع المودة، تاریخ کامل طبری، کشف الغمہ، جلاءالعیون، اصول کافی، نور الا بصار، ارشاد، جامع عباسی، اعلام الوری، اور انوار الحسینیہ وغیرہ میں موجود ہے)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئی تو آپ نے فرمایا کہ پھوپھی جان آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہیئے کیونکہ خداوند عالم مجھے آج ایک وارث عطا فرمائے گا۔ میں نے کہا کہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ بطن نرجس سے متولد ہوگا۔ میں نے کہا :بیٹے! میں تو نرجس میں حمل کے آثار نہیں پاتی۔ امام نے فرمایا کہ پھوپھی جان، نرجس کی مثال مادر موسی جیسی ہے۔ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کا حمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہر نہیں ہوا تھا، اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہر ہو گا۔
غرضیکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی۔ جب آدھی رات گذر گئی تو میں اٹھی اور نماز تہجد میں مشغول ہو گئی اور نرجس بھی اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے لگیں۔ اس کے بعد میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ صبح قریب ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے جو کہا تھا وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔ اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی: پھوپھی جان جلدی نہ کیجئے، حجت خدا کے ظہور کا وقت بالکل قریب ہے۔ یہ سن کر میں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی۔ نرجس مجھے راستے ہی میں ملیں، مگر ان کی حالت اس وقت متغیر تھی۔ وہ لرزہ براندام تھیں اور ان کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیا اور سورہ اخلاص، قدر اور آیة الکرسی کی تلاوت کرنے لگی۔ بطن مادر سے بچے کی آواز آنے لگی، یعنی میں جو کچھ پڑھتی تھی وہ بچہ بھی بطن مادر میں اس کو دہراتا تھا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن و منور ہو گیا۔ اب جو میں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پر سجدہ میں پڑا ہوا ہے۔ میں نے بچہ کو اٹھا لیا۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی: پھوپھی جان! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے۔ میں لے گئی۔ آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا اور اپنی زبان بچے کے منہ میں دے دی اور کہا: اے فرزند! خدا کے حکم سے کچھ بات کرو۔ بچے نے اس آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم و نرید ان نمن علی اللذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین" کی تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ "ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پر جو زمین پر کمزور کردیئے گئے ہیں اور ان کو امام بنائیں اور انھیں زمین کاوارث قرار دیں"۔ اس کے بعد کچھ سبز طائروں نے آ کر ہمیں گھیر لیا۔ امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائر کو بلایا اور بچے کو دیتے ہوئے کہا کہ اس کو لے جا کر اس کی حفاظت کرو یہاں تک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے، کیونکہ خدا اپنے حکم کو پورا کر کے رہے گا۔ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائر کون تھا اور دوسرے طائر کون تھے؟۔ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے اور دوسرے فرشتگان رحمت تھے۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا گیا۔ کتاب شواہد النبوت اور وفیات الاعیان و روضة الاحباب میں ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو مختون اور ناف بریدہ تھے اور آپ کے داہنے بازو پر یہ آیت منقوش تھی "جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" یعنی حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے قابل تھا"۔
آپ کا نسب نامہ:
آپ کا پدری نسب نامہ یہ ہے: محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی۔ آپ فرزند رسول، دلبند علی اور نور نظر بتول علیھم السلام ہیں۔ آپکا سلسہ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاٴ وصی حضرت عیسی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ علامہ مجلسی اور علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھیں ، جن کا ایک نام "ملیکہ" بھی تھا۔ نرجس خاتون یشوعا کی بیٹی تھیں، جو روم کے بادشاہ "قیصر" کے فرزند تھے۔ ان کا سلسلہٴ نسب وصی حضرت عیسی علیہ السلام جناب شمعون تک منتہی ہوتا ہے۔
آپ کا اسم گرامی:
آپ کا نام نامی و اسم گرامی "محمد" اور مشہور لقب "مہدی" ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کا نام زبان پر جاری کرنے کی ممانعت ہے۔ علامہ مجلسی رہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "حکمت آن مخفی است" یعنی اس کی وجہ پوشیدہ اور غیر معلوم ہے۔
آپ کی کنیت:
سب علماء متفق ہیں کہ آپ کی کنیت "ابوالقاسم" اور "ابوعبداللہ" تھی اور اس پر بھی علماء متفق ہیں کہ "ابوالقاسم" خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجویز کردہ ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی"۔
آپ کے القاب:
آپ کے القاب مہدی، حجة اللہ، خلف الصالح، صاحب الامر، صاحب العصر و الزمان، القائم، الباقی اور المنتظر ہیں۔ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کا لقب منتظر قرار دیا ہے۔
شمائل حضرت مہدی عج:
کتاب اکمال الدین میں شیخ صدوق رہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مہدی، شکل و شباہت، خلق و خلق، شمائل و خصائل، اقوال و افعال میں میرے مشابہہ ہوں گے۔ آپ کے حلیہ کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ آپ کا رنگ گندم گون، قد میانہ ہے۔ آپ کی پیشانی کھلی ہوئی ہے اور آپ کے ابرو گھنے اور باہم پیوستہ ہیں۔ آپ کی ناک باریک اور بلند ہے۔ آپ کی آنکھیں بڑی اور آپ کا چہر ہ نہآیت نورانی ہے۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے "کانہ کوکب دری" جو ستارہ کی مانند چمکتا ہے۔ آپ کے دانت چمکدار اور کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کی زلفیں کندھوں پر پڑی رہتی ہیں۔ آپ کا سینہ چوڑا اور آپ کے کندھے کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کی پشت پر اسی طرح مہر امامت ثبت ہے جس طرح پشت رسالت مآب پر مہر نبوت ثبت تھی۔
تین سال کی عمر میں حجت اللہ ہونے کا دعوی:
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اور سعد الاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا۔ جب سامنا ہوا تو امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ اے احمد! تم جو دل میں لے کر آئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دیئے دیتا ہوں۔ یہ فرما کر آپ اپنے مقام سے اٹھے اور اندر جا کر یوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پر ایک نہآیت خوب صورت بچہ تھا جس کی عمر تین سال تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد! میرے بعد حجت خدا یہ ہو گا۔ یہ تیرے آخری نبی کا ہم نام ہے اور اس کی کنیت بھی ابوالقاسم ہے۔ یہ خضر کی طرح زندہ رہے گا اور ذوالقرنین کی طرح ساری دنیا پر حکومت کرے گا۔ احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی ایسی علامت بتا دیجئے کہ جس سے دل کو اطمینان کامل ہو جائے۔ آپ نے امام مہدی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کرفرمایا: بیٹا! اس کو تم جواب دو" ۔ امام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصیح فرمایا: "انا حجة اللہ و انا بقیة اللہ"۔ میں ہی خدا کی حجت اور حکم خدا سے باقی رہنے والا ہوں۔ یہ سن کر احمد خوش و مسرور اور مطمئن ہو گئے۔
پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات:
یعقوب بن منقوش، محمد بن عثمان عمری، ابی ہاشم جعفری اور موسی بن جعفر بن وہب بغدادی کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی مولا! آپ کے بعد امر امامت کس کے سپرد ہو گا؟ اور کون حجت خدا قرار پائے گا؟۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد میرے بعد حجت اللہ فی الارض ہو گا۔ ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروا دیجئے۔ آپ نے فرمایا وہ پردہ جو سامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ۔ ہم نے پردہ کو اٹھایا تو اس سے ایک نہآیت خوب صورت بچہ جس کی عمر پانچ سال تھی برآمد ہوا اور وہ آ کر امام حسن عسکری علیہ السلام کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ امام نے فرمایا کہ یہی میرا فرزند میرے بعد حجت اللہ ہو گا۔ محمد بن عثمان کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اور ہم سب نے ان کی زیارت کی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اندر واپس چلے جائیں اور ہم سے فرمایا: "تم آج کے بعد پھر اسے نہ دیکھ سکو گے"۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور غیبت صغری شروع ہو گئی۔ امام حسن
عسکری علیہ السلام کی شہادت:
امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کو زہر دے دیا جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرما گئے۔ "و خلف من الولد ابنہ محمد" اور آپ نے اولاد میں صرف امام مہدی علیہ السلام کو چھوڑا۔ علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو سارے شہر سامرہ میں ہلچل مچ گئی۔ فریاد و فغاں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ سارے شہر میں ہڑتال کر دی گئی۔ لوگوں نے اپنے کار و بار چھوڑ دیئے۔ تمام بنی ہاشم، حکام، منشی، قاضی، ارکان عدالت، اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑ پڑے۔ حالت یہ تھی کہ شہر سامرہ قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تجہیز اور نماز سے فراغت کے بعد آپ کو اسی مکان میں دفن کر دیا گیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام مدفون تھے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت:
بادشاہ وقت خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی جو اپنے آباء و اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑ چکی تھی۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھر پر چھاپہ ڈلوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کر لے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری کو سرداب میں جا کر غائب ہو چکے تھے اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیویوں کو گرفتار کر لیا اور حکم دیا کہ اس امر کی تحقیق کی جائے کہ آیا کوئی ان میں سے حاملہ تو نہیں ہے۔ اگر کوئی حاملہ ہو تو اس کا حمل ضائع کر دیا جائے۔ کیونکہ وہ حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشین گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں میرا ایک فرزند جس کا نام مہدی ہو گا عالمی انقلاب کا ضامن ہو گا۔ اور اسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا۔ لہذا اس نے آپ کی تلاش اور قتل کی پوری کوشش کی۔
سامراء کی آبادی بہت ہی قدیمی ہے اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اسے سام بن نوح نے آباد کیا تھا۔ اس کا اصلی نام "سام راہ" تھا جو بعد میں سامراء ہو گیا۔ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے خلیفہ معتصم نے فوجی کیمپ بنا کر آباد کیا تھا اور اسی کو دارالسلطنت بھی بنا دیا تھا۔ اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی۔ اسے اس نے نہآیت خوبصورت شہر بنا دیا تھا اسی لئے اس کا نام سرمن رائے رکھ دیا تھا۔ یعنی وہ شہر جسے جو بھی دیکھے خوش ہو جائے۔ عسکری اسی کا ایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظر بند تھے۔ بعد میں انھوں نے دلیل بن یعقوب نصرانی سے ایک مکان خرید لیا جس میں اب بھی آپ کا مزار مقدس واقع ہے۔ حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کا سرداب وہیں ایک مسجد کے کنارے واقع ہے جو کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزار اقدس کے قریب واقع ہے۔
آسمانی کتابوں میں امام مہدی علیہ السلام کا ذکر:
حضرت داؤد پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب "زبور" کی آیت ۴ مرموز ۹۷ میں ہے کہ "آخری زمانہ میں جو انصاف کا مجسمہ انسان آئے گا اس کے سر پر بادل سایہ فگن ہو گا"۔ کتاب زبور مرموز ۱۲۰ میں ہے "جو آخرالزمان آئے گا اس پر آفتاب اثرانداز نہ ہو گا"۔ صحیفہ شعیا پیغمبرکے باب ۱۱ میں ہے کہ "جب نور خدا ظہور کرے گا تو عدل و انصاف کا ڈنکا بجے گا۔ شیر اور بکری ایک جگہ رہیں گے۔ چیتا اور بزغالہ ایک ساتھ چریں گے۔ شیر اور گوسالہ ایک ساتھ رہیں گے"۔ پھر اسی کتاب کے باب ۲۷ میں ہے کہ "یہ نور خدا جب ظاہر ہو گا تو تلوار کے ذریعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا"۔ صحیفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ "ظہور کے بعد ساری دنیا کے بت مٹا دئیے جائیں گے۔ ظالم اور منافق ختم کر دئیے جائیں گے۔ یہ ظہور کرنے والا کنیز خدا (نرجس) کا بیٹا ہو گا"۔ توریت کے سفر انبیاء میں ہے کہ "مہدی ظہور کریں گے۔ عیسی آسمان سے اتریں گے۔ دجال کو قتل کریں گے"۔ انجیل میں ہے کہ "مہدی اور عیسی دجال اور شیطان کو قتل کریں گے"۔
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ:
خالق کائنات نے انسان کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور کثیر التعداد اوصیاء بھیجے۔ پیغمبروں میں سے سب سے آخر میں چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تھے لہذا ان کے جملہ صفات و کمالات و معجزات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جمع کر دئیے اور چونکہ آپ کو بھی اس دنیائے فانی سے جانا تھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر قسم کے کمالات سے آراستہ کر دیا تھا۔ سرور کائنات کے بعد دنیا میں صرف ایک علی علیہ السلام کی ہستی تھی جو کمالات انبیاء کی حامل تھی۔ آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیاء میں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی علیہ السلام تک پہنچے۔ خلیفہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ قتل ہو جاتے تو دنیا سے انبیاء و اوصیاء کا نام و نشان مٹ جاتا اور سب کی یادگار ختم ہو جاتی۔ چونکہ انھیں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم متعارف ہوا تھا لہذا اس کا بھی ذکر ختم ہو جاتا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کو محفوظ رکھا جائے جو جملہ انبیاء اور اوصیاء کی یادگار اور سب کے کمالات کی مظہر تھی۔
دوسرا یہ کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے "و جعلھا کلمة باقیة فی عقبہ"۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں کلمہ باقیہ قرار دیا ہے۔ نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے۔ ایک اسحاق اور دوسرے اسماعیل۔ اسحاق کی نسل سے خداوند عالم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ و باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر لیا تھا۔ نسل اسماعیل سے بھی امام مہدی علیہ السلام کو باقی رکھا۔
تیسرا یہ کہ سنت الہی ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔ چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انھیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لئے انھیں محفوظ و مستور کر دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اور انھیں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے (بحار الانوار)۔
غیبت صغری اور آپ کے نائبین:
آپ کی غیبت کی دو حیثیتیں تھیں، ایک صغری اور دوسری کبری۔ غیبت صغری کی مدت 69 سال تھی۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہو گئی۔ غیبت صغری کے زمانے میں آپ کا ایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذریعہ ہر قسم کا نظام چلتا تھا۔ سوال و جواب، خمس و زکوة اور دیگر مراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے۔ خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذریعہ اور سفارش سے سفراٴ مقرر کئے جاتے تھے۔
سب سے پہلے نائب خاص حضرت عثمان بن سعید عمری تھے۔ آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اور اصحاب خاص میں سے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد بحکم امام مہدی علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعید اس عظیم منزلت پر فائز ہوئے۔ آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روح اس منصب عظیم پر فائز ہوئے۔ حضرت حسین بن روح کی کنیت ابوقاسم تھی۔ ان کی وفات شعبان ۳۲۶ ھجری میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد بحکم امام مہدی علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ ٴجلیلہ پر فائز ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی۔جب آپ کا وقت وفات قریب آیا تو آپ سے کہا گیا کہ آپ اپنے بعد کا کیا انتظام کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ روز قبل امام مہدی علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا جس میں ان کی وفات کا ذکر اور سلسلہٴ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا۔ امام مہدی علیہ السلام کے خط کے الفاظ یہ ہیں:
"بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
اے علی بن محمد! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائیوں اور تمھارے دوستوں کو اجر جزیل عطا کرے، تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ روز میں وفات پانے والے ہو۔ تم اپنے انتظامات کر لو۔ اور آئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجویز نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہو گئی ہے اور اذن خدا کے بغیر ظہور ناممکن ہو گا۔ یہ ظہور بہت طویل عرصہ کے بعد ہو گا"۔
جشن میلاد امام زمانہ ع کے سلسلے میں عملدار روڈ کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اب جبکہ اقوام عالم، عالمی سامراج کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں ایسے میں امام مہدی ع کے عالمی اسلامی انقلاب کے لئے ماحول سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ عاشقان امام زمانہ ع اپنی تاریخی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں آئیں۔ بانی انقلاب اسلامی، امام امت خمینی کبیر رح کے پیروکار عصر حاضر کے معرکہ حق و باطل میں یزیدیت سے ٹکرانے کے لئے آمادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے کارکن اپنے کردار سازی پر توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ چار جولائی 2003 کے ان نمازیوں پر ہمارا سلام، جنہوں نے کربلائے کوئٹہ میں حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے کوئٹہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد یاسین کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر اسد زیدی کو 2009 میں دہشتگردوں نے شہید کر دیا تھا، جس کے بعد دہشتگرد گرفتار کر لئے گئے تھے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر 2 کے جج سید محمد فیصل نے سابق ڈپٹی اسپیکر کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ۔جرم ثابت ہونے پر 5 مجرموں فیضان، بنیامین، فاروق احمد، میر باز اور ارشد امان کو 3 مرتبہ سزائے موت اور فی کس 3 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ایک مجرم شکیل احمد کو 3 مرتبہ عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ جبکہ دیگر 2 مجرموں امجد علی اور منصور کو پانچ پانچ سال قید کی سزا اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے جبکہ 2 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے سابق ڈپٹی اسپیکر سید اسد زیدی کو 2 ساتھیوں سمیت 20 اپریل 2009 کو گلگت کشروٹ کے مقام پر کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا تھا۔ سزا پانے والے ملزمان کو فیصلے کے خلاف چیف کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ فیصلے کے وقت عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
قرآن و سنت کانفرنس کی کامیابی میں نوجوانوں کا کردارقابل ستائش ہے۔حسینی فکر سے آراستہ نوجوان ملت جعفریہ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری برائے امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی نے مرکزی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے میڈیا سیل کے دورے پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مینار پاکستان کے سائے تلے ملی جذبے سے سرشار ہماری نوجوان نسل نے منظم اور بھرپور شرکت کرکے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ تحریک کربلا کے حقیقی وارث ہیں اور ان کے لئے حضرت علی اکبر اور حضرت قاسم کی زندگیاںمشعل راہ ہیں۔ علامہ اعجاز بہشتی نے تیس جون کو پولیس انتظامیہ کی غندہ گردی کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے جب مزدوروں کو کام سے روکااور دھمکیاں دینا شروع کیں توپنڈال میں موجود نوجوانوں نے ان کی ہمراہی میں پنڈال میں خود کرسیاں لگانے کا کام شروع کر دیا۔اس وقت لبیک یا حسین کو صدائیں مینا ر پاکستان میں گونج رہی تھیں اور نوجوانوںکا جذبہ دیدنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے خبیر اور کوئٹہ سے گلگت بلتستان تک ملک کے گوشے گوشے سے جوان اس کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ ہماری نوجوان نسل جس سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دست و بازو ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی نوجوان نسل بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے پیغام وحدت و بیداری کو ہر سطح پر عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
عوامی جمہوریہ چین کے دفتر خارجہ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ مغرب کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاںنہ صرف بلاجواز ہیں بلکہ انہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ چین اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران سے خام تیل کی برآمد جاری رکھے گا۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ملک کے موقف کودہراتے ہوئے مزید کہا کہ چین کی طرف سے ایران پر پابندیوں کی مخالفت انہوں نے اپنے ملکی قوانین کی روشنی میں کی ہے جس میںہمارا موقف یہ ہے کہ کسی تیسرے ملک کے حوالے سے پابندیاں بلاجواز ہیں۔