The Latest
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے صوبائی آفس میں منعقدہ امن و امان کی صورتحال کے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لاہور میں کالعد م دہشت گرد جماعت کو کھلی چھٹی دے کر پنجاب انتظامیہ نے امن و امان کی تباہی کے اسباب پیدا کر دئیے ہیں گزشتہ روز پریس کلب لاہور پر تکفیر ی نعرے لگاتے اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی لیکن پنجاب انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ ہم حکومت پنجاب کے اس متعصبانہ رویے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں ۔ محرم الحرام کی آمد سے قبل ان شر پسند عناصر کو فعال کرنا او ر ان کی پشت پناہی کرنا ایک منظم سازش ہے ۔ جس میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ شریک ہے۔
علامہ اسدی نے کہا ہما ری امن پسند ی اور وطن دوستی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ مسلم لیگ (ن )ہو ش کے ناخن لے اور اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالیں۔بصورت دیگر مجلس وحدت مسلمین پنجاب بھر میں دہشت گردوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو شیعہ ووٹ سے محروم کر دے گی۔ اجلاس سے سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پنجاب سید اخلاق حسین شیرازی نے بھی خطاب کیااور کہا کہ ہم پنجاب کی صورتحال سے غافل نہیں ۔ پنجاب کی سیاست پر ہماری گہری نظر ہے۔ مجلس وحدت مسلمین حالیہ الیکشن میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنی قوت کا بھر پور مظاہر ہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب انتظامیہ مکمل طور پر دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور پنجاب میں امن و امان کی صورتحال روز بروز بگڑ رہی ہے۔ کالعدم دہشت گرد گروہ کو مسلم لیگ ( ن ) نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی من مانی کریں ۔ ہم پنجاب حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر آئندہ کس جگہ تکفیری نعرے اور فرقہ واریت کو ہو ا دینے کی کوشش کی گئی تو مجلس وحدت مسلمین پر امن ردعمل کا اظہار کرے گی۔
ہمارے پر امن ردعمل سے پنجاب انتظامیہ بخوبی واقف ہے ۔ اجلاس کے آخر میں مطالبہ کیا گیا کہ گزشتہ روز پریس کلب لاہورکے سامنے کالعد م دہشت گرد گروہ کے شیعہ مخالف تقاریر اور تکفیر ی نعروں پر ملکی قانون 295Aکے تحت حکومت پنجاب نوٹس لے کر مقدمہ درج کرے بصورت دیگر تمام تر حالات کے ذمہ دار وزیر قانون اور پنجاب حکومت ہو گی
اسلام دشمنی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی چمپئین آنگ سان سوچی بھی کسی سے کم نہیں۔ برما میں حزب اختلاف کی رہنماء آنگ سان سوچی نے ملک کے مغربی علاقوں میں نسلی فسادات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے۔ تاہم انھوں نے پر تشدد فسادات کے حوالے سے صبر و برداشت کی اپیل کی ہے۔ میڈیا کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ فسادات کے مسئلے کی بنیاد کو دیکھے بغیر وہ روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بول کر اپنی اخلاقی قیادت کا غلط استعمال نہیں کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں صبر کی اپیل کرتی ہوں۔ انہوں یہ بات ماننے سے بھی انکار کیا کہ آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو برمی شہریت نہیں دی جا رہی، ان کا کہنا تھا کہ 1982ء میں بنائے گئے متنازع قانون کو دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کی رو سے برما کے روہنگیا مسلمانوں کو شہری حقوق کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ تکلیف میں رہنے والی اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ ملک کے مشرقی علاقے رخائن میں حالیہ فسادات کے دوران ساٹھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق برما میں تقریبا آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو حکومت شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔ برما میں بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر قانونی مہاجرین سمجھتے ہیں اور ان کو برما سے نکالنا چاہتے ہیں
اسلم رئیسانی ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ہاشم موسوی کوئٹہ میں نماز جمعہ کے خطبے سے خطاب کرتے ہوئے رکن شوری عالی علامہ سید ہاشم موسوی نے سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان حکومت کی نااہلی کے حوالے سے فیصلہ پر گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ اسلم رئیسانی کو ہٹ دھرمی کے بجائے سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لینا چاہیے
انہوں نے کہاکہ جب سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم گھر جا سکتا ہے تو وزیر اعلی کیوں نہیں جا سکتا ؟
انہوں نے کہا کہ اسلم رئیسانی کے پاس اب کوئی قانونی حثیت نہیں رہ جاتی ،بلوچستان حکومت کا احتساب ہونا چاہیے
خاص طور پر بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بلوچستان حکومت جوابدہ ہے انہوں نے کہا بلوچستان حکومت کے دور میں کرپشن تارگٹ کلنگ اغوا برائے تعاوان مسخ شدہ لاشیں ایسے مسائل ہیں جن سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں اہل تشیع ھزارہ کا منظم قتل عام کی تحقیقات میں بلوچستان حکومت کی ناہلی کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جتنی جلدی ہوسکے گورنر راج قائم کیا جائے تاکہ مزید حالات خراب نہ ہوں
یوم آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سےمجلس وحدت کی جانب سے موٹر سائیکل ریلی کا اہتمام
یوم آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت مجلس وحدت مسلمین گلگت کی جانب سے ایک موٹر سائیکل ریلی نکالی گئی جو شہر کے مختلف اہم شاہراہوں پر آزادی کے حق میں نعرے لگاتی رہی
اس ریلی کااہتمام مجلس وحدت مسلمین شعبہ جوان گلگت نے کیا تھا جس کی قیادت علامہ شیخ عاشق حسین ،غلام عباس ،سعید الحسین،اور محمد حسین نے کی ۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے زیراہتمام پنجاب بھر میں یوم غدیر عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ لاہور میں جشن غدیر مختلف مقامات پر ہوئے محلہ شیعیان اندرون موچی دروازہ میں علامہ حیدر الموسوی نے خطاب کیا۔ امام بارگاہ کاروان ابوطالب ایجرٹن روڈ میں علامہ محمد علی جوہری نے جشن غدیر کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اسی طرح اقبال ٹائون صوبائی سیکرٹریٹ میں علامہ حسنین عارف نے جشن غدیر کے سلسلے میں منعقد تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ اسلام میں آج کے دن کی اہمیت کو تمام مکاتب فکر کے مسلمہ اور مصدقہ تاریخ کتب میں درج ہیںاور اعلان ولایت پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ مریدکے میں جشن غدیر کے اجتماع سے علامہ ابوذر مہدوی ، علامہ محمد فاضلی ، علامہ سر فراز حسینی مسئول شعبہ تربیت حوزہ علمیہ دمشق اور علامہ حسن ہمدانی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع شیخوپورہ نے خطاب کیا اور غدیر کی اہمیت سے اہل اسلام کو آگاہ کیا ۔رانا ٹائون ، حیدر روڈ مسجد علی شیخوپورہ ، ننکانہ صاحب ، فیصل آباد میں بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوئے جس میں مقررین نے مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے اعلان ولایت پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ سیالکوٹ میں بھی سب سے بڑ ا اجتماع واپڈا گرائونڈ میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں فرزندان ولایت شریک ہوئے ۔ اسی طرح قصور میں جشن غدیر کے اجتماع حاجی صبح صادق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع قصور کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سرگودھا میں علامہ عبدالخالق اسدی صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب نے اجتماع سے خطاب کیا۔ جشن غدیر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے خواتین اور بچوں کے لئے عید غدیرفیسٹول اور چراغاں کا اہتمام کیا گیا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے عید غدیر کی مناسبت سے سالانہ جشن عید غدیر و چراغاں کا انعقاد علامہ رشید ترابی پارک انچولی سوسائٹی میں کیا گیا۔ پروگرام میں بچوں کی تفریح کے لئے تفریحی گیمز اور جھولے بھی موجود تھے، جبکہ اس موقع کھانے پینے کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے۔ پروگرام میں میدان غدیر کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے پالان کا منبر بھی بنایا گیا اس موقع پر پورے پارک میں چراغ روشن کئے گئے۔ بعد ازاں وسیم الحسن عابدی سمیت دیگر منقبت خوانوں نے امام علی (ع) کی شان میں اپنے کلام پیش کئے جبکہ مولانا میثم خوئی نے اختتامی دعا کرائی، اختتامی دعا کے بعد بچوں میں عیدی بھی تقسیم کی گئی۔ پروگرام میں مومنین و مومنات نے اپنی فیملی کے ہمراہ بڑی تعداد میں شرکت کی
عمران خان جب اپنی سیاسی تحریک کو سونامی کہتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب یہ قاتل لہریں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو فورا ہی پیچھے ہٹنے لگتی ہیں – مجھے ڈر ہے کہ شاید ان کی پاکستان تحریک انصاف بھی ایک سال پہلے اپنے بلند ترین نشان کو چھوچکی ہے اور اب اس کا اتار شروع ہو چکا ہے .
ابھی صرف ایک سال پہلے ہی جب عمران خان نے لاہور میں اپنی بڑی ریلی نکالی تو ہماری یہ سونچ کہ یہ پاکستانی سیاست میں تبدیلی کا لمحہ ہے قابل معافی تصور ہونا چاہئے- احساس یہ تھا کہ عمران خان اور ان کے نوجوان حامیوں کے سامنے لامحدود امکانات روشن ہو گئے ہیں- ریلی کے موقع پر جوش و خروش اور توانائی سے بھرپور جذبہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا -
مجھ جیسے سخت نکتہ چیں بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ایک نئی قوت کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ضمیر فروش سیاسی نظام میں ایک نیے آدرش کو جنم دیگی جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے .
لیکن جس طرح مکھیاں شہد پر لپکتی ہیں اسی طرح کامیابی بھی موقع پرستوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے- چنانچہ چند ہفتوں بعد ہمیں کراچی کی ریلی میں وہی سارے پرانے چہرے نظر آے جنھیں ہم اپنے سیاست کے میدان میں برسہا برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں- انھیں غالبا یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اقتدار کی دیوی عمران خان پر مہربان ہے .اور شاید انہوں نے ہمارے مطلق العنان انٹلیجنس ایجنٹوں کی گمراہ کن سرگوشیاں بھی سن لی تھیں .سو انہوں نے جرات سے کام لیتے ہوے اپنی قسمت کی باگ ڈور اس ابھرتے ستارے کے ساتھ باندھ دیں-
ان میں سے بعض اب اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں – کم از کم دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئ کی ایک امیدوار اس بات پر بر افروختہ ہیں کہ عمران خان نے انھیں دوسروں کے سامنے شرمندہ کیا- انھیں وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا رہنما سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریگا چنانچہ انہوں نے علاقے کے ممتاز اکابرین کو ان سے ملنے کے لئے مدعوکر لیا .
عمران خان نے آخری لمحے اپنا دورہ منسوخ کر دیا جس کی وجوہات خاصی بودی تھیں- پارٹی کے مقامی حامیوں کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے اس قسم کی بے توقیری شدید ناراضگی کا سبب بنتی ہے- اگرچہ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ آزاد خیال لوگوں کے مقابلے میں دیہی معاشرے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں ، یہ واقعہ تکبر کی بد نما مثال ہے .
گو کہ اس واقعہ کو اپنی نوعیت کی واحد مثال دیکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے، پی ٹی آئ کے سربراہ سالہا سال سے دوسرے لوگوں کے نظریات کی جانب جو انکی طرح قد آور نہیں ہیں مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہارکرتے آے ہیں- انکا یہ یقین کہ وہ ‘ اور صرف وہی’ راست باز ہیں ٹی وی کے ہر شو میں واضح نظر آتا ہے- لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایسے لوگوں کی کمی نہیں -
اور جب انھیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو مجھے ابھی تک یہ سننے کا اتفاق نہیں ہواکہ انہوں نے اپنی غلطی کا کبھی اعتراف کیا ہو- مثلا جب ٢٠٠٩ میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو عمران خان نے فورا اپنی انگلی کا اشارہ سرحد کے اس پار کر دیا، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ قاتل کبھی پاکستانی نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم سب کرکٹ سے محبت کرتے ہیں اور کبھی خواب میں بھی سونچ نہیں سکتے کہ ہم مہمان ٹیم کے اراکین کو ہلاک کرنے کی کوشش کرینگے- لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ قاتلوں کا تعلق پنجابی طالبان سے تھا تو عمران خان نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ غلط تھے-
اپنی تحریک کا مقابلہ پی پی پی کی اس تحریک سے کرنا انہیں بہت مرغوب ہے جس نے 1970 کے انتخابات کو بھاری اکثریت سے جیتا تھا- بنیادی فرق یہ تھا کہ بیالیس سال پہلے ذوالفقارعلی بھٹو نے بہت سے گمنام چہروں کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی حثییت سے متعارف کروایا تھا. چنانچہ وہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نیے نعرے کو، جو ان کی پارٹی کا بنیادی نظریہ تھا آلودہ نہیں کر پاۓ تھے.
گو کہ عمران خان نے ایک نئی سمت دکھائی ہے لیکن جو ٹیم انہوں نے اکٹھا کی ہے وہ بڑی حد تک اسی پرانے ، فرسودہ نظام سے تعلق رکھتی ہے جسے وہ مٹا دینا چاہتے ہیں .
چنانچہ وہ لوگ بھی جو ان کے حامی ہیں، مایوس ہونے میں حق بجانب ہیں- ان کا ہیرو یہ کہکر ان پرانے چہروں کے انتخاب کی مدافعت کرتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں سے ” منتخب ” ہو سکتے ہیں .
ہو سکتا ہے یہ لوگ واقعی اگلے انتخابات میں منتخب ہو جاییں،لیکن کیا یہ مناسب ہوگا کہ محض چند نشستوں کی خاطراپنے حامیوں کی کثیر تعداد کو نظرانداز کر دیا جاۓ؟ کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ کوشش کرتے اور نیے چہروں کے ساتھ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتتے؟ جیسا کہ بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں کیا تھا- نہ کہ محض دس بارہ محفوظ نشستوں پر اکتفا کرتے؟
درایں اثنا شاید پی ٹی آئ کے جانبازوں کو یہ بات بری لگے لیکن پی ٹی آئ کو غالبا کم و بیش دس سے لیکر پندرہ تک نشستیں مل سکتی ہیں -سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین سے بات چیت کے بعد اسی پر سب کا اتفاق راۓ نظر آتا ہے- لاہور کی پرجوش ریلی پر پلٹ کر نظر ڈالی جاۓ تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئ کی مقبولیت میں اتنی تیزی سے کمی آئ ہے.
حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں تک عمران خان کے متضاد نظریات کا تعلق ہے تو میں ان سے بہت کم اتفاق کرتا ہوں- یقینا میں اس بات پر خوش ہوں کہ انہوں نے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو سیاست میں دلچسپی لینے کا راستہ دکھایا ہے- جب تک انکا یہ پیغام سامنے نہیں آیا تھا نوجوان پاکستانی مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا یہ وہ کھیل ہے جسےعمررسیدہ سیاستدان اپنے مفاد میں کھیل رہے ہیں-
یقینا میری خواہش تھی کہ عمران خان اپنی منفرد صلاحیت اور شخصی کشش کو استعمال کرتے ہوۓ نوجوان نسل کو ایک ترقی پسند نئی راہ دکھاتے نہ کہ شدید مغرب دشمنی اور قدامت پسندی کی راہ، جو انکی راہ ہے- میں اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور انکی ناکام پالیسیوں پر انکی تنقید سے بڑی حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن افسوس کہ جو متبادل راہ وہ پیش کرتے ہیں وہ میرے لئے کشش نہیں رکھتی .
ایک اور بات جسے عمران خان محسوس نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نظام انتخاب میں ( فرسٹ – پاسٹ – دی پوسٹ الیکٹورل سسٹم یعنی ووٹنگ کا ایسا نظام جس میں جیتنے والے امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیگر تمام امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے لیکن ڈالے جانے والے ووٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کرنا ضروری نہیں) شخصی مقبولیت کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ پارٹی کثیر تعداد میں نشستیں جیت لے- ہو سکتا ہے شہری حلقوں میں وہ ریکارڈ اکثریت سے جیت جاییں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں بہ حثیت مجموعی کامیابی حاصل ہوگی .
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں ویسی کامیابی نہ ہوگی جس کا انہوں نے وعدۂ کیا ہے- چنانچہ اپنی مدافعت میں ” پول سے پہلے کی دھاندلی” کی باتیں شروع کرکےوہ اپنے لئے زمین تیار کر رہے ہیں-
ان کی ان باتوں میں ہمیں اصغرخان کے اس دعوے کی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ 1977 کے انتخابات میں پی این اے کامیاب ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ قابل قبول نہ ہوگا- جب اصغر خان نے پی پی پی اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پرخچے اڑا دئے تو پی پی پی کی حکومت کو گرانے کی پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ضیا کو فوجی بغاوت کرنے کا موقع ملا.
لوگوں کی بڑی تعداد کو عمران خان کی متبادل قیادت پرکشش نظر آئ تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اصولوں پر سودے بازی سے انکار کر دیا تھا – لیکن اب وہ خود مصا لحت کرنے پر اسی طرح تیار نظر آتے ہیں جیسے کوئی راہ چلتا عام سا عیارسیاست دان-
مثال کے طور پر ابتدا میں تو انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین کرنے سے انکار کر دیا تھا- بلکہ وہ تو بہت سی دستاویزات لیکر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس گئے تھے جس میں انہوں نے مجوزہ طور پر الطاف حسین کو مختلف جرائم میں ملوث دکھایا تھا – اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب ماضی کی بات تھی اور انہیں ایم کیو ایم سے اب کوئی مسئله نہیں ہے.
لیکن اپنی پوزیشن میں ان تبدیلیوں سے بدتر انکی وہ کوششیں ہیں جو وہ متواترداییں بازو کی مذہبی پارٹیوں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے – تاہم اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے ان تمام امکانات کے ضا یع ہونے کا گہراافسوس ہے جس کی علامت عمران خان کی گھٹتی ہوئی مقبولیت ہے
کراچی۔ملت جعفریہ پاکستان 18اٹھارہ ذوالحج تا24چوبیس ذوالحج ہفتہ ولایت مناے گئی۔ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی ،اور دیگر رہنماؤں نے مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام عید غدیر کی مناسبت سے منعقدہ محفل چراغاں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماؤں کاکہنا تھا کہ عالم اسلام کو عید غدیر کے با مسرت موقع پر پورے عالم اسلام کو مبارک باد دیتے ہیں اور 18اٹھارہ ذوالحج تا24چوبیس ذوالحج ہفتہ ولایت منانے کا اعلان کرتے ہیں۔ رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حج الوداع کے روز پیغمبر اکرم کے توسل سے خدا نے دین کو مکمل کر دیا اور حضرت محمد ﷺ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ولایت حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کی گئی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنماؤں کاکہنا تھا کہ اٹھارہ ذوالحج کی مناسبت سے عید غدیر کے عنوان سے ملک بھر کی طرح کراچی شہر میں بھی چراغاں ،سیمینارز،لیکچرز،اور دیگر تربیتی پروگرام سمیت محافل میلاد کا انعقاد کیا جائے گا اور جس میں اٹھارہ ذوالحج کی اہمیت کے عنوان پر علماء اور اسکالرز خطابات کریں گے اور اس عظیم عید کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ مسلم امہ کے اتحاد اور یگانگت کے لئے عید غدیر کا موقع انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس موقع پر غدیر اور ولایت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما مولانا علی انوار ،مولانا کریمی ۔اصغر زیدی ، ،آصف رضوی ،آغامبشیر حسن ،میثم عابدی ، بھی ہمراہ موجود تھے
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ شیعان حیدر کرار ملکی بقاء کے ضامن ہیں، جو وطن عزیز کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ تاہم بدقسمتی سے ملک دشمن قوتوں کو ان کا یہ ایثار اور جذبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیصل آباد میں ’’عزاداری اور عزاداروں کے تحفظ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ شیعہ نسل کشی ملک دشمنی کے مترادف ہے، جس کو روکنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر قانون دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
سیکرٹری سیاسیات نے صوبائی اجلاس میں کابینہ کو
بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں سیاسی مہم کو تیز تر کیا جائے اور اس مہم کو گلی محلے کی سطح تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے اپنے دورہ چنیوٹ،سرگودھا اور فیصل آباد کے بارے میں بھی صوبائی کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سرگودھا، چنیوٹ اور فیصل آباد میں ضلعی ارکان اور مذہبی و سیاسی شخصیات کے اجتماعات سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیاسی کلچر کو بدل کر اسلام محمدی (ص) کی اقدار کو زندہ کرے گی۔