The Latest
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ پنجاب بھر میں بے گناہ قید اسیروں کو رہا کیا جائے، ڈسٹرکٹ جیل میں سید حسن رضا شمسی کی شہادت کے بعد ملت جعفریہ سمجھتی ہے کہ ملت جعفریہ کے اسیر جو کہ پورے پاکستان کی مختلف جیلوں میں ہیں وہ غیر محفوظ ہیں، ہم حکومت پاکستان اور پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جیلوں میں قید ہمارے اسیروں کو مکمل تحفظ دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے دربار سخی سلطان علی اکبر سورج میانی ملتان میں شہید حسن رضا شمسی کی چہلم کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ جیلوں میں شہادت ہوتی ہے تو وہ بھی ہمارے ہی مومنین کی ہوتی ہے اور سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ بھی شیعیان حیدر کرار (ع) کا قتل ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ کبھی ہمارے مومنین کو بسوں سے اُتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی خودکش حملوں کا شکار کیا جاتا ہے، پاکستان کی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہمارا خون نہ بہایا گیا ہو۔ چہلم کی مجلس سے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملتان کے ڈویژنل صدر تہور حیدری، ذاکر اہلبیت (ع) موسیٰ رضا خان، ذاکر اہلبیت (ع) اعجاز حسین، ذاکر اہلبیت (ع) ناصر عباس جام، حافظ سلیم رضا شمسی، ڈاکٹر باقر حسین، فخر نسیم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
حکومت اور متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں ملک کی چھ مذہبی ودینی جماعتوں نے آئی جے آئی طرز پر نیا اتحاد تشکیل دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔ آئندہ سال ہونیوالے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے حصہ لینے کیلئے متحد ہونے کیساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے۔ ایم ایم اے کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام ’’سمیع الحق‘‘ کے سربراہ سینیٹر مولانا سمیع الحق نے جماعت اسلامی، جماعت اہلحدیث، جمعیت علماء اسلام ’’نظریاتی گروپ‘‘، اہلسنت والجماعت اور جمعیت علماء پاکستان سواداعظم پر مشتمل ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کیلئے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں چھ مذہبی ودینی جماعتوں کا سربراہی اجلاس آئندہ ہفتے ہونے کا قوی امکان ہے۔ جے یو آئی کے مولانا سمیع الحق نے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، جماعت اہلحدیث کے ابتسام الٰہی ظہیر اور اہلسنت والجماعت کے مولانا احمد لدھیانوی سمیت دیگر رہنماؤں کیساتھ رابطے کئے ہیں اور جلد ہی نیا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کے حوالے سے اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ آئندہ سال ہونیوالے انتخابات میں آئی جے آئی طرز پر ایک بڑا سیاسی اتحاد تشکیل دیا جا سکے جو حکومتی اتحاد اور ایم ایم اے کا سیاسی میدان میں بھرپور مقابلہ کرے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کو نواز لیگ کی پس پردہ حمایت حاصل ہے، نواز لیگ چاہتی ہے کہ وہ مذہبی ووٹ بینک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لائے اور اس سارے سیٹ اپ کی تشکیل کے لئے سرمایہ نواز شریف کی جانب سے ہی فراہم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اس اتحاد کی تشکیل کے لئے جماعت اسلامی زیادہ متحرک ہے جسے اس بات کا دکھ ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان کی شمولیت کے بغیر ایم ایم اے کو فعال کر لیا ہے۔ دوسری جانب بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے پیچھے وہ قوتیں ہیں جنہوں نے دفاع پاکستان کونسل بنوائی تھی اور اب وہی قوتیں اس اتحاد کی تشکیل کے لئے سرگرم ہیں۔
جشن آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ
جشن آزادی گلگت بلتستان پورے اہل وطن کے لئے پرمسرت دن ہے اور جشن
آزادی گلگت بلتستان کے شہداء مشترکہ قومی ہیروز ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اپنی مدد آپ جدوجہد کرکے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے
زیر میں دی گئی رپورٹ ڈان نیوز ویب سائیٹ سے لی گئی ہے ۔۔۔
گزشتہ دس سالوں میں کالعدم جماعت حزب التحریر پاکستان فوج میں سرایت کرنے کی اب تک تین کوششیں کر چکی ہے۔حال ہی میں بریگیڈئیر علی خان اور ان کے چار ساتھی فوجی افسروں کو اس جماعت کے ساتھ روابط پر سزائیں دی گئی ہیں۔
تین اگست کو ایک فوجی عدالت نے بریگیڈئیر علی، میجر سہیل اکبر، میجر جواد بشیر، میجر عنایت عزیز اور میجر افتخار کو حزب التحریر سے تعلق ثابت ہونے پر پانچ سال سے اٹھارہ ماہ تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔
دو ہزار تین میں اس جماعت نے فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے تیرہ کمانڈوز سے رابطے قائم کیے تھے۔
دو ہزار نو میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک کے فوجی افسران کو اس جماعت سے تعلقات کی وجہ سے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار نو اور گیارہ میں فوجی افسران سے رابطہ کرنے والے حزب التحریر کے ایک ہی کارکن تھے۔
فوجی حکام کی جانب سے ان افسران کے خلاف کورٹ مارشل کا عمل شروع کیے جانے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
ڈان کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق، حزب التحریر کے رکن عبدالقدیر اور ڈاکڑ احمد نے دوہزار نو میں کرنل شاہد بشیر اور دو ہزار گیارہ میں بریگیڈئیرعلی سے رابطے کیے تھے۔
ان دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ کالعدم جماعت کے اِن دونوں کارکنوں نے کرنل شاہد اور بریگیڈئیر علی سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک ہی طریقہ استعمال کیا تھا۔
دونوں فوجی افسران سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مشترکہ دوستوں کا سہارا لیا گیا اور بعد ازاں انہی دونوں افسران کے ذریعے دیگر فوجی افسران سے بات چیت بڑھائی گئی تھی۔
خصوصی تفتیشی برانچ ( ایس آئی بی) کے میجر کاشف سلیم کی تیار کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بریگیڈئیر علی اپنے ساتھی افسروں کے ساتھ مل کر سویلین اور فوجی قیادت کو ایک ہوائی حملے میں ہٹانے کے بعد ملک میں نظامِ خلافت کے قیام کے لیےراہ ہموار کرنے کی سازش کر رہے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق، حزب التحریر کے عبدالقادر، احمد اور رضوان بریگیڈئیر علی سے ملے اور انہیں سازش تیار کرنے کی ترغیب دی۔
بریگیڈئیر علی نے اس حوالے سے بعد ازاں دوسرے فوجی افسران بریگیڈئیر نعیم صادق، بریگیڈئیر محمد امین اور بریگیڈئیر عامر ریاض سے رابطے کیے۔
لیفٹیننٹ کرنل شاہد بشیر کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عبدالقدیر اور ڈاکٹر احمد (جن کا اصل نام معلوم نہ ہو سکا) ہی کرنل بشیر اور ایک دوسرے لیفٹیننٹ کرنل کے کورٹ مارشل کے ذمہ دار تھے۔
کرنل بشیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں موجود ڈرون حملوں کے لیے امریکہ کے زیر استعمال ائیر بیسزکے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات حاصل کی تھیں۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ مالاکنڈ میں جاری فوجی آپریشن اور دوسرے علاقوں میں تعینات فوج کے حوالے سے بھی معلومات لے رہے تھے۔
کرنل بشیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل حبیب اللہ سمیت نو دیگر فوجی افسروں کو ترغیب دی تھی کہ وہ ان کی کوششوں میں ان کا ساتھ دیں۔
دو ہزار نو میں فوج کی قانونی شاخ میں بطور جج ایڈوکیٹ جنرل فرائض سر انجام دینے والے بریگیڈئیر (ر) واصف خان نے بتایا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ حزب التحریر کے کارکنوں عبدالقادر اور ڈاکٹر احمد کے نام کرنل بشیر کے خلاف کورٹ مارشل کی سماعت کے دوارن سنے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب بریگیڈیئر علی اور چار میجروں نے ان سے اپنی وکالت کے لیے رابطہ کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ اس کیس میں بھی کالعدم جماعت کے وہی دونوں کارکن ملوث تھے۔
بریگیڈئیر (ر) واصف نے بتایا کہ انہوں نے فوجی عدالت کے پریزائیڈنگ افسر کو ایک درخواست کے ذریعے ان دونوں کارکنوں کی گرفتاری کی گزارش کی تھی کیونکہ یہ لوگ فوج کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے افسروں کو بھی ذہنی طور پر آلودہ کر رہے تھے، تاہم حکام نے ان کی درخواست قبول نہیں کی۔
جیگ برانچ کے ایک اور سابق افسر نے ڈان کو بتایا کہ دو ہزار تین میں حزب التحریر نے فوج میں داخل ہونے کی کوشش کی اور ایس ایس جی کے تیرہ کمانڈوز کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب رہی۔
انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں اس جماعت کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن جب فوج کو اس کی کوششوں کے بارے میں معلوم ہوا تو اس وقت کے صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نومبر دو ہزار تین میں اسے کالعدم قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت فوج نے ان کمانڈوز کے خلاف کورٹ مارشل کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف انتظامی کارروائی پر اکتفا کیا اور انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فوجی حکام ماضی میں اس جماعت کے کارکنوں کے خلاف بھی کارروائی میں ناکام رہی۔
گزشتہ سال جولائی میں بریگیڈئیر علی کی گرفتاری کے فوراً بعد آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ملک بھر سے حزب التحریر کے بعض انتہائی سرگرم کارکنوں کو اٹھا لیا تھا۔
ان کارکنوں میں سے عمران یوسف زئی، حیان داوڑ خان، اسامہ حنیف، ڈاکٹر عبد القیوم، ڈاکٹر عبدالوحید اور ڈاکٹر عبدالواجد کچھ عرصے تک لاپتہ رہے۔
بعد ازاں اُن کے رشتہ داروں نے گزشتہ سال جولائی اور اگست میں اُن کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی تھیں۔
جس پر عدالت نے یہ معاملہ بارہ اکتوبر کو جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بھجوا دیا تھا۔
بعد ازاں، ڈاکٹر واجد کو اگست میں، حیان کو ستمبر ، اسامہ حنیف اور عمران یوسف زئی کو دسمبر دو ہزار گیارہ جبکہ ڈاکٹر قیوم اور ڈاکٹر واحد کو رواں سال اپریل میں چھوڑ دیا گیا۔
ڈان کے نمائندے نے اس معاملے پر جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بریگیڈئیر عتیق سے رابطہ کیا تو ان کے کہنے پر سوالات کو بذریعہ ای میل بھیجا گیا۔
تاہم اس رپورٹ کی اشاعت تک اُن کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آ سکا...شکریہ ڈان نیوز
مجلس وحدت مسلمین کے ایک وفد نے پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری کی سربراہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کے روز ہینڈ گرنیڈ حملے میں زخمی ہونے والے 7 افراد کی عیادت کی، اس موقع پر مجلس وحدت ضلع بھکر کے سیکرٹری جنرل سفیر حسین شہانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر علاج زخمیوں سے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا اور نیک تمناوں کا اظہار کیا۔
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دورہ بلوچستان عوامی ملاقاتیں ،فلاحی پروجیکٹس کا اعلان
ڈیر ہ الہ یار سٹی کے حسینی امام بارگاہ میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور حالات حاضرہ پر گفتگو کی ،جبکہ ڈیرہ الہ یار میں جمعیت علمائے اسلام ٖ ف کی جانب سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اعزا میں دی گئی ایک چائے پارٹی کی دعوت میں شرکت بھی کی اور اس دعوت میں جمعیت علمائے اسلام کے عہدہ داران سے ملکی اور عالم اسلام کے مسائل پر گفت و شنید کی گئی
مجلس وحدت مسلمین یونٹ مورو کا اجلاس زیر صدارت یونٹ سیکریٹری جنرل منظور علی رند کی ہوا جس میں یونٹ کی جنرل باڈی نے شرکت کی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ انسانیت کی خدمت کرنا مجلس وحدت مسلمین کا نصب العین ہے انہوں کہا کہ احساس زمیداری ، محنت اور لگن کے ساتھ جو امور انجام دیے جاتے ہیں ان کے نتائج شاندار برآمد ہوتے ہیں - انہوں کہا کہ عید الاضحی ا کا دن ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے یہ وہ عظیم دن ہے جس دن الله تعالی ا کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم (ع) نے اپنے پیارے لخت جگر حضرت اسمٰعیل (ع) کو راہ خدا میں قربانی کے لیےپیش کیا اسی دن سے رہتی دنیا تک عالم اسلام کے لیے عظیم یادگار بنا دیا اور ہمیں پیاری سی پیاری چیز قربان کرنے کا سبق دیا -اس سے بڑھ کر عظیم سے عظیم تر قربانی مولا امام حسین (ع) کی ہے جس کی بدولت آج ہم انسان ہیں کیونکہ یزید جیسا ظالم اور فاسق حکمران اسلام پر قابض تھا آج اسلام پر ایک بار وقت کا یزید امریکا قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور ہر حسینی کی ذمیواری ہے کہ وقت کے یزید کا مقابلہ کریں کیونکہ یہ زندگی مولا حسین کا دیا ہوا صدقہ ہے آخر میں محرم الحرام کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور مختلف کامتیاں بنائیں گئیں-
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری کا کہنا ہے کہ حکومت محرم الحرام سے قبل دہشتگردی کے ذریعے امن و امان کی فضاء خراب کرنے والے عناصر کیخلاف کارروائی کرے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اتوار کے روز ہینڈ گرنیڈ حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے ذیشان حیدر اور یاسر فیاض کی نماز جنازہ کے موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگرد عناصر محرم الحرام سے قبل ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، تاہم شیعہ سنی عوام اور علماء کرام ملکر ان ملک دشمنوں کی اس سازش کی ناکام بنا دیں اور حکومت قیام امن کیلئے شرپسند عناصر کو کنٹرول کرے، انہوں نے ہینڈ گرنیڈ حملے اور فائرنگ کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں اہل تشیع کا قتل عام جاری ہے اور حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈی آئی خان کی انتظامیہ دہشتگردی کے اس حملے میں ملوث شرپسندوں کو فوری طور پر گرفتار کرے اور شہر کے امن کو خراب کرنے کی کوششوں کو فوری نوٹس لے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا،جو کہ ان دنوں بلوچستان کے دورے پرہیں ڈیر ہ الہ یار پہنچنے پر مجلس وحدت کے عہدہ داران، کارکنوں اور عوام کا کی جانب سے پرتپاک استقبال کیا گیا ،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ڈیر الہ یار میں ایک اجتماع سے خطاب کیا اور پھر آپ نے سیلاب متاثرین کے لئے مجلس وحدت کے شعبہ ویلفیر خیر العمل فاؤنڈیشن کی جانب سے قائم خیمہ بستی کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا نیز ان کی مشکلات کو قریب سے دیکھا سیکرٹری جنرل نے سیلاب متاثرین کے لئے قائم خیمہ بستی اور سیلاب زدگان کی امدادرسانی کے عمل کو تسلی بخش قراردیتے ہوئے شعبہ ویلفیر کی خدمات کو سراہا اور
سوشل میڈیا پر ان دنوں عرب حکمرانوں کے اسرائیل کے خلاف راست اقدام کے بیانات کی گونج ایک مرتبہ پھر سنائی دینے لگی ہے۔ نوجوان بلاگرز اور سوشل میڈیا فالورز کا کہنا ہے کہ 'زبانی جمع خرچ' پر مبنی عرب حکمرانوں کے یہ بیان محض عوام کو 'لبھانے' کا وقتی ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں سوڈانی دارلحکومت خرطوم میں یرموک اسلحہ ساز فیکٹری پر اسرائیلی حملہ دراصل ماضی کے عرب حکمرانوں کے تند و تیز بیانات کی یاد آوری کا باعث بنا۔ بیانات میں اسرائیل کو للکارنے کا سلسلہ صدر جمال عبدالناصر کے فلسطین آزاد کرانے سے متعلق اعلان سے شروع ہو کر عراق کے سابق ڈکٹیٹرصدام حسین پر ختم ہوتا ہے کہ جو سن 1981ء میں اپنی ایٹمی تنصیاب پر اسرائیلی حملے کے بعد صم بکم کی عملی تفسیر بنے رہے۔
انٹرنیٹ بلاگرز نے موجودہ شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت قرار دینے سے متعلق بیان کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ چھے برس قبل اللاذقیہ میں اپنے محل پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی پرواز کو اسی 'دلیر رہنما' نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا۔ سن 2001ء کو شامی علاقے البیدر میں اسرائیل کے شامی رڈاروں پر حملے اور بعد میں دیر الزور میں 'کبر' ایٹمی تنصیبات پر حملے پر خاموشی بھی بشار الاسد کے کاغذی مزاحمتی کردار کی قلعی کھولنے کے لئے کافی تھی۔
بشار الاسد کے والد اسرائیلی قبضے میں جانے والی گولان کی پہاڑیوں کو آزاد کرائے بغیر ہی دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔
کویتی صحافی فؤاد الھاشم نے عرب قیادت کے اسرائیل کو للکارنے سے متعلق دلچسپ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کویت میں سن 1972ء کو لیبی سفارتخانے نے 18 سے 24 سال کے عرب نوجوانوں کی بھرتی کا اعلان کیا، جنہیں فلسطین آزاد کرانے کے لئے متحدہ عرب فورس میں شامل کیا جانا تھا ۔۔۔۔ فلسطین کی آزادی تو خواب ہی رہی تاہم اس کا پرچار کرنے والے کرنل معمر القذافی اپنے ہی عوام کے ہاتھوں مارے گئے۔
جمال عبدالناصر سن 1963ء میں سعودی عرب کو نجران ایئرپورٹ پر کھڑے چھے لڑاکا جہاز پانچ منٹ میں تباہ کرنے کی دھمکی دیتے رہے جبکہ 1967ء میں اسرائیل نے صرف سات منٹ پر محیط کارروائی میں مصر کو پوری فضائیہ لپیٹ کر رکھ دی۔
فؤاد الھاشم نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت جب حافظ الاسد کو اشتعال دلاتی تو ایسے میں شامی میڈیا ان کے مشہور بیان سے تادیر گونجتا رہتا ۔۔۔۔ 'کوئی ہم پر جنگ مسلط نہیں کر سکتا، ہم میدان جنگ اور اس کے وقت کا تعین کریں گے'۔
کویتی دانشور نے مصری رہنماؤں کے اسرائیل مخالف بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اخوان المسلمون خود آزادی فلسطین کے لئے 1948ء میں جنگ کرنے کے اعلانات سے لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہی ہے لیکن اب اسی جماعت کے حکمران ڈاکٹر محمد مرسی اپنے اسرائیلی ہم منصب کو اپنا عزیز دوست قرار دیکر محبت نامے کا اختتام کرتے ہیں۔
فؤاد الھاشم نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عرب دنیا کیونکر اپنی ساری قوت ایک فرد واحد کے پلڑے میں ڈال دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دانشوروں وہ اسباب کو تلاش کرنا ہوں گے کہ جن کے ہاتھوں مجبور ہو کر عرب عوام حکمرانوں کے 'عشق' میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ فرد واحد کے عشق میں مبتلا ہونے کا عمل بہت سے ممالک کے نظام ہائے حکومت کی ڈکشنری میں موجود نہیں۔