وحدت نیوز (آرٹیکل) گذشتہ روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان نجی ٹی وی چینل پر دکھایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ بیان شاہ محمود قریشی نے ایسے وقت میں دیا ہے کہ جب ایک طرف کشمیر میں آگ بھڑک رہی ہے اور کشمیر کے مظلوم عوام پاکستان کی طرف امید کی نگاہیں لگائے دیکھ رہے ہیں لیکن نتیجہ میں وزارت خارجہ کی کرسی پر براجمان شاہ محمود قریشی کشمیر کامقدمہ بھی اپنے ذاتی مفادات کی آڑ میں عالمی برادری کے سامنے رکھنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی ناکامی کی ایک سب سے بڑی دلیل خود ان کا گیارہ ستمبر ک جنیوامیں دیا گیا وہ بیان ہے کہ جس میں انہوں نے شکست خوردہ لہجہ میں اعتراف کیا کہ یورپی ممالک ان کی حمایت نہیں کر رہے۔
اس بیان کے فوری بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ پر وزیر خارجہ کی طرف سے اسرائیل کی جعلی ریاست کی حمایت میں بیان نشر کیا گیا ہے جو یقینا شاہ محمود قریشی نے امریکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے دیا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس بیان کی آڑ میں انہوں نے نہ صرف قائد اعظم محمدعلی جناح کے افکار اور امنگوں اور پاکستان سے وابستہ امیدوں کا قتل کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی پاکستان سے لگی امیدوں کو بھی تہس نہس کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات سے بالا تر رکھا ہے۔وزیر خارجہ کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا بیان در اصل شاہ صاحب کی امریکی و برطانوی وفاداری کا ایک ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کے چند ایک حکمرانوں کو بھی خوش کرنے کی کوشش ہے کیونکہ شاہ محمود قریشی صاحب سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ و برطانیہ سمیت عرب دنیا کے بادشاہوں کو انہوں نے خوش کر دیا تو پھر یقینا وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لئے وہی بہترین امید وار قرار پائیں گے۔ پاکستان چونکہ اس وقت مشکل ترین اور نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں پاکستان کو بھارت اور اسرائیل جیسے بیرونی دشمنوں کا خطر ہ ہے وہاں ان تمام خطرات سے بڑا خطرہ ایسے عناصر ہیں جو پاکستان میں بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ مفادات کے لئے ان کے پے رو ل پر کام کر رہے ہیں۔
ان عناصر میں ہروہ شخص سیاست دان اور سابق فوجی جرنیل اور نام نہاد علماء شامل ہیں کہ جن کی زندگیوں کا ہدف و مقصد صرف اور صرف ذاتی مفادات کا حصول ہے۔پاکستان کے طالب علم افواج پاکستان کے سابق جنرل امجد شعیب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اسرائیل کے مفادات کی بات کرنا بھارت کے مفادات کی بات کرنے مترادف نہیں ہے؟ کیا بھارت اور اسرائیل کے پاکستان دشمن عزائم ایک جیسے نہیں ہیں؟کیا ایک سابق فوجی جرنیل کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے حق میں بیانات دے؟ایسے بیانات کی حمایت کرے کہ جس سے مملکت خداداد پاکستان کی نظریاتی اساسوں کو خطرات لاحق ہوں؟پاکستان کے طالب علم نوجوان سیاست دانوں سے زیادہ افواج پاکستان کی وفاداریوں اور فدا کاریوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن جب ان اداروں کے اندر سے نکل کر اعلی افسران پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں اور ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہیں تو پھر ہمارا سوال سپہ سالارسے یہ بھی ہے کہ پاکستان کے نوجوان ہنر مندان کس دروازے پر جائیں؟آج پاکستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہر نوجوان سوالیہ نگاہوں سے صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سمیت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔
ایسے حالات میں ہم ایک طرف کشمیرکی حمایت کا نعرہ لگا رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اور وزیر اعظم صاحب کی آستین میں چھپے سانپ کشمیرسمیت فلسطین پر سودے بازی کر رہے ہیں۔اگر آج شاہ محمود قریشی کے بقول پاکستان اسرائیل سے تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ اپنے تمام تر تعلقات کو کس بنیاد پر ختم کیا ہے؟ پھر کس منہ سے پاکستان کشمیر کاز کی حمایت کرے گا؟ اگر فلسطین کا سودا کر دیا جائے تو پھر کشمیر پر حکومت کس طرف کھڑی ہو گی؟وزیر اعظم پاکستان کو شاہ محمود کے ان بیانات کا نوٹس لیناچاہئیے اور قوم کو وضاحت پیش کرناچاہئے کیونکہ شاہ محمود کے اسرائیل حمایت بیان نے نہ صرف پاکستان کے عوام میں بے چینی کو جنم دیا ہے بلکہ کشمیر کی جد وجہدآزادی کو بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ حکومت کی صفوں میں موجود عناصر اور دیگر گماشتے کھلم کھلا ملک دشمن قوتوں کے حق میں بیان بازی کر رہے ہیں۔ایسے حالا ت میں لازم ہے کہ قانون حرکت میں آئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان ایسے تمام عناصر کو آرٹیکل چھ کے دائرہ میں لا کر کاروائی کرے۔وزیر خارجہ کا اسرائیل سے تعلقات پر دلچسپی کا بیان پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اورآئین پاکستان سے سنگین غداری کے مترادف ہے تاہم آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق کیا جائے اور کسی بھی عوامی عہدے پر فائز نہ کیا جائے۔خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل انتہائی کمزور اور شکست خوردہ ہو چکا ہے،فلسطینی مزاحمت نے غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل پر کاری ضربیں لگا رکھی ہیں،شاہ محمود قریشی نے اسرائیل کی حمایت میں بیان ایسے وقت میں دیا ہے کہ جب فلسطینی مزاحمت نے غزہ میں اسرائیلی ڈرون طیارے کو اتار لیا اور صہیونیوں کے خلاف جوابی کاروائی میں ایسے میزائل فائر کئے ہیں جو اسرائیل کے جدید ترین راڈار سسٹم آئرن ڈوم پربھی نظر نہیں آئے۔
اسی طرح فلسطینی مزاحمت نے جنوبی لبنان میں نہ صرف اسرائیل کا ایک ڈرون مار گرایا ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین کے اندر سات کلو میٹر تک داخل ہو صہیونی فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا اور متعدد صہیونیوں کو ہلاک کیا۔یہ ہے وہ اسرائیل کے جس کی ٹیکنالوجی اور ترقی کی مثالیں پاکستان میں جنرل (ر) امجد شعیب، طاہر اشرفی اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگ پیش کرتے ہیں اور پاکستان کے با شعور افراد کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔خود اسرائیل جو فلسطینی مزاحمت کاروں کے چھوٹے چھوٹے اسلحوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس سے تعلقات قائم کر کے پاکستان کی ترقی کے خواب دکھا رہے ہیں۔در اصل یہی عناصر پاکستان کے دشمن ہیں۔
ان عناصر کے آباؤ اجداد کا اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ کس کس طر ح ان کے خاندانوں نے برطانوی استعمار سے مراعات حاصل کی ہیں اور آج تک امریکی و برطانوی سامراج کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکالنے کو تیار نہیں ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ آج نئے پاکستان میں کشمیر و فلسطین جیسے مسائل خارجہ امور کی ذمہ داری بھی ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی ہے جن کا مطمع نظر ذاتی مفادات ہیں نہ کہ کشمیر و فلسطین کی جد وجہد آزادی۔وزیر اعظم پاکستان کا نیا پاکستان اگر کشمیر و فلسطین کا سودا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے تو پھر ایسے نئے پاکستان کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر،شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل) دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر اسرائیلی کی کھلی جارحیت کے بعد جس دن سے سید مقاومت علامہ مجاھد سید حسن نصراللہ (حفظہ اللہ) کا خطاب سنا، تو اس دن سے ارادہ کیا، کہ کچھ جوہری نکات جن کی طرف سید مقاومت نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا، ان کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کروں، اور ساتھ ہی جو مقاومت نے دشمن کو پوری طاقت کے ساتھ نہ بھولنے والا جواب دیا اس بارے کچھ لکھوں، لیکن اس کے سامنے دو رکاوٹیں حائل تھیں.
1- میری دیگر مصروفیات اتنی تھیں، کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر لکھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا.
2- جن عسکری وسیاسی عربی اصطلاحات کو سید مقاومت نے اپنے خطاب میں بیان کیا تھا، اسے میں خود اپنی ناقص فھم کے مطابق سمجھ چکا تھا، لیکن ان اصطلاحوں کو صاحب اختصاص نہ ہونے، اور ایک ادنی سے دینی طالب علم ہونے کے ناطے، اور اردو زبان پر زیادہ دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے اس کو بیان کرنا قدرے مشکل نظر آ رہا تھا.
لیکن ایک عزیز کہ جن کو میں یہ ساری باتیں بیان کر چکا تھا انکے اصرار اور تشویق دلانے پر آج قلم اٹھانے کی حامی بھر لی، تاکہ آپ تک یہ اہم باتیں پہنچا سکوں۔
لیکن اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے، چند اصطلاحات کی تشریح ضروری ہے، کیونکہ ان الفاظ کو سید حسن نصر اللہ اپنے خطابات میں بہت استعمال کرتے ہیں، اور اردو قارئین کے لئے شاید یہ الفاظ اس طرح سے واضح نہ ہوں۔
ان میں سے اہم اصطلاحات قدرة الردع ( deterrence)، اس کے شرائط اور قواعد اشتباکات ( Rules of Engagement) ہیں۔
قدرة الردع اور قواعد اشتباكات کی وضاحت
1- قدرۃ الردع (Deterrence) کا مطلب کیا ہے؟ انگریزی زبان میں اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
(The deterrence is the act of stopping something from happening.)
دوسرے معنی میں مفھوم الردع کی وضاحت یوں ہے، کہ اپنے دشمن یا مدمقابل کو اس فعل سے منع کرنے کی صلاحیت رکھنا، اور اسے مجبور کرنا، کہ اگر اس نے کوئی غلط اقدام اٹھایا، یا کوئی بھی کاروئی کی، تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا. اور وہ جو مقاصدحاصل کرنا چاہتا ہے، ان سے زیادہ نقصان اٹھائے گا.
قدرۃ الردع (Deterrence) کی شرائط
اس صلاحیت اور طاقت کے حصول کی مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں.
1- الاتصال (communication )
یہ اتصال اور پیغام رسانی خطابات اور بیانات کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، اور اس کے علاوہ سفراء، اعلی سطح کےحکومتی اہلکار، یا کسی ثالث کے ذریعے بھی اس کام کو سر انجام دیا جا سکتا ہے. یہ علی الاعلان بھی ہوتی ہے اور مخفیانہ طور طریقوں سے بھی ہوتی ہے.
2- القدرۃ (capability)
یہ صلاحیت اور طاقت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی.
3- المصداقية (credibility)
آمادگی اور تیاری میں بھی سنجیدگی اور مصمم ارادے ہوں اور اقدامات اور کاروائی میں بھی غیر متزلزل اور پختہ ارادہ رکھتا ہو. صداقت اور سچائی شعار ہونا چاھیے.
2 قواعد اشتباکات Rules of Engagement کا مطلب کیا ہے ؟
عسکری علوم کے مطابق دشمن کے خلاف کارروائی اور طاقت کا استعمال کرتے وقت، جن قواعد وضوابط کی ملٹری فورسز پابند ہوتی ہیں. ایسے تمام قانونی، عسکری، اسٹریٹجک، سیاسی اور عملیاتی اصول، قواعد اشتباکات کہلاتے ہیں.
( اصل موضوع)
ان اہم اصطلاحات کی وضاحت بعد، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
چند دن پہلے المنار ٹی وی چینل پر اسرائیلی تجزیہ نگار کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اسرائیل کی قومی سلامتی کے انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے. کہ ” اسرائیل کو اب اپنی شمالی سرحد پر نئے Deterrence Equation (معادلۃ الردع) کا سامنا ہے.” اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقاومت نے صھیونیوں کے لئے نئی ریڈ لائنز کھینچ دی ہیں.
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مقاومت نے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ” اب ہمارے سامنے کوئی ریڈ لائنز نہیں. اب ہم لبنان کے مقبوضہ علاقوں (مزارع شبعا اور کفر شوبا کی ھائٹس) کی بجائے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین سے دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کریں گے، اور اس کے ساتھ Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کو بہتر بنائیں گے. ”
اور سید مقاومت نے واضح پیغام دیا کہ ” اگر ہمارے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی تو تمھاری ساری فوج اور ساری سرحدیں ہماری جوابی کاروائی کی زد میں ہونگی.” اور مزید فرمایا کہ “ہمارے ملک، ہمارے مورچوں اور ہمارے مجاھدین کے خلاف ہر کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا. ”
اقوام متحدہ کی قرارداد (1701) کہ جسے لبنان نے سیاسی اور عسکری طور پر قبول کیا تھا، اور محور مقاومت بھی اس کی پابندی کرتی تھی، اب وہ عملی طور پر کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے. کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے لبنانی سرحدوں کو عبور کر کے اس قراداد کی خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اور اقوام متحدہ کی یونیفل فورسسز بھی اسے روکنے اور منع کرنے سے بے بس اور عاجز نظر آتی ہیں۔
اس لئے حزب اللہ نے Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کی نئی پیش رفتہ صورتحال کے پیش نظر تین اصولوں کا اعلان کر دیا.
1- مقبوضہ لبنانی علاقوں سے کاروائی کی بجائے اب مقاومت اسرائیل کی سرحد پر صہیونی فوج کو نشانہ بنائے گی.
2- جو بھی اسرائیل کے ڈرون طیارے لبنان کی فضا میں آئیں گے انہیں نشانہ بنایا جائے گا.
3- اگر اسرائیل نے لبنان کی سرزمین کے اندر کوئی بھی کاروائی کی تو اسرائیل کے اندر تک حملوں کے ذریعے اس کا جواب دیا جائے گا .
“حزب الله کے ایگزیکٹو کونسل کے نائب صدر شیخ علی دعموس نے 6 ستمبر 2019 کے جمعہ کے خطبے میں اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ مقاومت کی افیفیم عسکری کارروائی نے اسرائیل کو اسی زبان میں اچھی طرح سمجھایا کہ جو زبان وہ سمجھتا ہے. اور deterrence Equations (معادلۃ الردع) کو تقویت دی ہے، اور اسکی شرائط کو بہتر کیا ہے. جبکہ دشمن کی کوشش تھی کہ دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر کھلی جارحیت کے ذریعے اسے تبدیل کرے، اور شرائط کو نظر انداز کرے.
مزید کہا کہ: اگر لبنانی مقاومت کے پاس یہ طاقت، عزم وارادہ اور حکومت اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی، تو لبنان آج دشمن کے سامنے ایک آسان ھدف ہوتا اور لبنان کمزوری وپستی وذلت میں ڈوب چکا ہوتا. ”
جب اسرائیل نے بیروت کے نواحی علاقے پر ڈرون حملہ کیا اور دمشق کے اطراف میں میزائیل حملے کے ذریعے حزب اللہ کے دو مجاھد شہید کئے، اور اس کے جواب میں سید مقاومت نے بدلہ لینے اور جوابی کاروائی کا اعلان کیا، تو پورا اسرائیل سہم گیا، ان پر حزب اللہ کی دفاعی طاقت اور عزم و ارادے کا خوف طاری رہا، اور تقریبا ایک ھفتہ سید مقاومت کے امر پر وہ ڈیڑھ قدم پر کھڑے نظر آئے، اور جب حزب اللہ نے اپنی نوعیت کی جوابی کاروائی کی، اور شمالی جبھہ کے قائد، ایک فوجی جنرل کو اپنے ھدف کا نشانہ بنایا، (اور جو میزائل استعمال ہوئے سوریہ ساخت کورنیٹ میزائل تھے) تب جا کر اسرائیل نے ٹھنڈا سانس لیا، وگرنہ انکی نیندیں اڑ چکی تھیں. لبنان کے ساتھ بارڈر کے قریب اپنی بارکیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے، اس منظر کو روسی چینل کی صحافی خاتون اور کیمرہ مینوں نے پوری دنیا کو لائیو دکھایا.
اس کاروائی سے پہلے مختلف ممالک نے لبنان کے اعلی سطح حکومتی اہلکاروں سے رابطے کیے، کہ وہ حزب اللہ سے کہیں، کہ جوابی کاروائی نہ کرے، اور اس کے بدلے ہم لبنان کی مالی مدد کریں گے، اور اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ آئندہ اسرائیل کبھی بھی حماقت نہیں کرے گا، لیکن مقاومت نے اپنا انتقام لیکر دشمن کو اسی کی زبان میں ناقابل فراموش درس دیا.
قارئین محترم!
اس دنیا میں (جہاں کمزوروں کی کوئی سنتا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی عزت کرتا) اگر عزت و آبرو کے ساتھ جینا ہے، اور ملک میں امن و امان لانا ہے تو اس کے لئے معادلة الردع کا فارمولہ اپنانا ہوگا اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں، اس اہم ترین فارمولے کو سمجھنے کے لئے درجہ ذیل پانچ نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔
1- معروف ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب اسرائیل کے سابق وزیراعظم موشی دایان سے جب پوچھا گیا کہ لبنان پر کاروائی کے لئے کس فوجی دستے کو بھیجیں گے، تو اس نے جواب دیا تھا کہ لبنان کی طرف فوج بھیجنے کی ہرگز ضرورت نہیں وہاں تو بینڈ باجے کا دستہ بھیجیں گے، اور وہی کافی ہو گا.
لیکن آج جب لبنانی مقاومت نے اپنی دفاعی پوزیشن کا لوہا دنیا سے منوایا ہے تو اس سے انکے ملک کے امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، اور اگر کوئی بیرونی دشمن جارحیت کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھرپور جوابی کاروائی ہوتی ہے.
2- ایران اگر آج محفوظ ہے اور امن و امان کے لحاظ سے پر سکون ہے، اور پوری دنیا میں اسکا احترام ہے، اور خطے کی مضبوط طاقت شمار ہوتا ہے، تو وہ اس کی طاقت ردع یا مضبوط دفاعی صلاحیت ہے. گذشتہ 10 جون میں دنیا کی سپر پاور امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، اور اپنا جاسوسی طیارہ ایران کی حدود میں بھیج کر خوب اندازہ لگا لیا کہ ایران کتنا طاقتور ہے، برطانیہ نے ایک بحری جہاز پر قبضہ کیا تو ایران نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے انکے چار بحری جہاز اپنے قبضے میں لے لئے. امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے نئے مشرق وسطی کا پلان لانچ کیا، لیکن ایران کی سربراہی میں مقاومت کے بلاک نے انہیں عراق وشام ویمن میں شرمناک شکست سے دوچار کیا.
3- یمن پر ساڑھے چار سال سے سعودی اتحادیوں نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، اب جب یمن کے غیرت مند فرزندوں نے انصار اللہ کی شکل میں اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط کر لی ہے اور انکے ڈرون اور بیلسٹک میزائل دشمن کے حساس علاقوں پر حملے کرنے کی قابل ہوئے ہیں، تو اب یہ اتحادی خود آپس میں جنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور فوجوں کا انخلاء شروع ہو چکا ہے.
4- عراقی وفلسطنی مقاومت نے بھی اپنی مضبوط دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے امریکہ واسرائیل کو بے بس کر دیا ہے. آج عراق میں حشد شعبی امریکیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے، اور تمام تر امریکی سازشوں کو انہوں نے خاک میں ملایا ہے. اسی طرح آج اگر فلسطین پر میزائل حملہ ہوتا ہے، تو تل ابیب پر میزائل داغے جاتے ہیں، اسی دفاعی صلاحیت کے بہتر ہونے سے امن و امان کی صورتحال آج پہلے سے بہتر ہے.
5- اگر پاکستان نے بھی 27 فروری کو انڈیا کے جنگی جہازوں کو نہ گرایا ہوتا اور ہماری دفاعی صلاحیت مضبوط نہ ہوتی، تو آج پورا ملک دشمن کے رحم وکرم پر ہوتا. جو آئے دن مختلف بہانوں سے ہماری سر زمین کے تقدس کو پامال کیا جاتا. اور اسرائیل کو اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ ہمارے شاھین میزائل کی زد میں ہے، تو جیسے اس نے شام، عراق اور سوڈان کے علمی ابحاث اور ایٹمی ہتھیاروں کے مراکز کو نشانہ بنایا تھا، وہ ہمارے ایٹمی مراکز بھی تباہ کر چکا ہوتا. پاکستان کی طاقتور فوج اور مضبوط دفاعی صلاحیت نے اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ کر رکھا ہے.
یہ ایک واضح حقیقت ہے، کہ قیام امن کے لئے پاور اور طاقت کا حصول اور مضبوط دفاعی صلاحیت اور وسائل بہت ضروری ہیں. آپکی قوت ردع ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین مظفرآباد کے سیکرٹری جنرل سید غفران علی کاظمی نے وحدت سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں محرم الحرام کو پرامن گزارنے پر سیکورٹی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مظفرآباد میں محرم الحرام کو بہتر انداز میں گزارنے میں انتظامیہ کا اہم کردار ہے ہم خصوصی طور پر چوہدری امتیاز کمشنر مظفرآباد ڈویژن، سردار الیاس ڈی آئی جی، بدر منیر سلہریا ڈپٹی کمشنر،عاصم اعوان اے ڈی سی، یاسین بیگ ایس ایس پی، اعظم رسول ایڈمنسٹریٹر بلدیہ، ریاض مغل ڈی ایس پی،عفت اعظم اے سی، شہزاد عباسی آفیسر مال،قیصر اسلم تحصیلدار، ضمیر شاہ نائب تحصیلدار، ایس ایچ او صاحبان و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف یزید کا پیروکار مودی آزاد کشمیر کی فضاء کو خراب کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیں فخر ہے اپنے حساس اداروں و انتظامیہ پر جنہوں اس ماحول کو خراب ہونے سے بچائے رکھا۔ مظفرآباد میں تمام جلوس اپنے مقررہ اوقات میں نکلے اور بروقت اختتام پذیر ہوئے سیکورٹی کہ بہتر انتظامات ہونے پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی و ان کی پوری ٹیم کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے بھرپور تعاون کیا اور بلخصوص کمشنر صاحب مظفرآباد ڈویژن کہ ممنون ہیں جن کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اس چمن کی فضاء خوشگوار ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کے رہنمااورمعروف ذاکر اہلبیتؑ علامہ مبشر حسن نے مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سر تاج انبیاء،خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی رسالت کا کوئی اجر اپنی امت سے طلب نہ کیا مگر یہ کہ امت انکی آل پاکؑ سے مودت اور محبت کریں۔ بلا شبہ نواسہ رسول ﷺ،سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام،حضرت رسول پاک ﷺکے قرابت دار بھی ہیں اور آل عباء کے ایک اہم رکن بھی اور آیۃ مباہلہ کی رو سے فرزند رسول اللہ ﷺ بھی ہیں۔لہذا ہر کلمہ گو مسلمان پرامام حسین ؑ کی محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت فرض ہے۔ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین ؑ نے یزید جیسے فاسق و فاجر اور بد عقیدہ انسان کی بیعت سے اس لئے انکار کیا چونکہ وہ جس مسند پر جماں ہوا تھا،وہ انبیاء اور انکے معصوم اوصیاءکا منصب تھا۔
انہوںنے مزید کہاکہ امام حسین ؑ جو وارث خاتم الانبیاء ہیں وہ کیسے اتنے بڑے انحراف اور غصب کو برداشت کرتے کہ جسکی بنا پر پورے اسلامی معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں اور جسکا اثر صرف اس زمانے تک محدود نہ تھا بلکہ تا قیامت بشر، دین مبین اسلام جیسی ابدی نعمت سے محروم ہو جاتا۔اسی لئے امام حسین ؑ نے یزید کی بیعت کو ٹھکرا تے ہوئے فرمایا کہ و علی الاسلام السّلام اذ قد بلیت الا براع مثل یزید۔ کہ اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے اگر یزید جیسا پلید انسان اس امت کا خلیفہ بن بیٹھے۔ پس ماہ محرم الحرام،محمدی اسلام کے خلاف بر سر پیکار قوتوں کی بیعت کے انکار کا نام ہے۔ہر دور کی یزیدیت کے خلاف حسینیت کے قیام کا مہینہ ہے۔محرم الحرام عزاداری سید الشہداء امام حسین ؑ سے تجدید عہد،مودت، محبت اور اظہار وفاداری کا مہینہ ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) قائد اعظم محمد علی جناح کے حقیقی پاکستان کی تکمیل ہی ساری مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے جس پاکستان کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہم بھی اسی پاکستان کا قیام چاہتے ہیں۔ ایسا پاکستان جہاں قانون کی بالادستی ہوجو تعصب، انتہا پسندی، تکفیر یت،کرپشن، اقربا پروری اور ظلم سے پاک ہو ۔ ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ ناصر عباس جعفری بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے71ویں یوم وفات پر میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کیا۔
انہوں نے کہاکہ قائد کے پر بصیرت افکار اور دانشمندانہ فرمودات پر اگر آج عمل کیا جاتا تو ملک اس طرح کے ان گنت بحرانوں میں نہ جھکڑا ہوتا۔ہر طرح کے بیرونی مداخلت سے آزاد خود مختار ریاست قائد اعظم کا خواب تھا جہاں مسلمانوں کو اسلام کے اصولوں کے مطابق آزادنہ زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں۔جہاں اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ ملے۔ گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے قائد کے نظریاتی و فکری پاکستان کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئی،لیکن دشمن کامیاب نہیں ہوئے،ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے قائد اعظم کے فرمودات اور اقبال کی خودی کو پس پشت ڈال کر مغرب قوتوں پر انحصار شروع کر دیا، اسی کے سبب استعماری طاقتوں نے ہمیں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے دلدل میں دھکیل کر رکھ دیا،ملک کو آئی ایم ایف کے شکنجوں میں جھکڑ کر ہم سے آزاد خارجہ پالیسی کے حق تک کو سلب کر لیا گیا،وطن عزیز کی سربلندی کا واحد حل قائد کے رہنما اصولوں کی پاسداری ہے۔
انہوں نےکہا کہ قائد اعظم ایک مخلص اور قوم کا حقیقی درد رکھنے والے رہنما تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے لیے انہوں نے ایک طویل جنگ لڑی اور اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کیااور ہمیں اس کی حفاظت کرنے کے لیے اسی درد اور اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) تاریخ بشریت میں عدل و انصاف، امن و آشتی اور انسانی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے، بہت سی تحریکوں نے جنم لیا، اور بہت سی مقدس نہضتیں معرض وجود میں آئیں، جن میں کچھ تو زمانے کی ستم ظریفی کی وجہ سے طاق نسیاں کا حصہ بن گئیں، لیکن کچھ تحریکیں ایسی ہیں، جو اگرچہ کسی خاص زمان و مکان میں وقوع پذیر ہوئیں، لیکن وہ اس قدر پاکیزہ، مقدس، اور با برکت تھیں، کہ جو زمان و مکان کے قید و بند کو توڑ کر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئیں، اور جنہوں نے ہر زمانے میں مستضعفین جہاں کو نیا عزم و حوصلہ عطا کرکے انہیں ہر دور کے فرعونوں نمرودوں اور یزیدوں سے مقابلہ کرنے کے لئے جرات عطا کیں ان خیالات کا اظہار مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے پیغام عاشورا میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان جاویداں تحریکیوں میں سے ایک منفرد، بالکل الگ اور عظیم الشان تحریک واقعہ کربلا ہے۔ آپ واقعہ کربلا کی تاریخ پڑھیں آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ اس بے نظیر حادثے کے بارے جتنا لکھا گیا، اور اسکے بارے مختلف زاویوں اور متعدد جہتوں سے جتنا تجزیہ و تحلیل سامنے آیا، شاید ہی کسی اور تحریک کے بارے اتنا لکھا گیا ہو، اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس عظیم واقعے کے مثبت اور دور رس اثرات نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ پر مرتب ہوئے، بلکہ اس الہی تحریک نے ہر دین و مذہب ، ہر رنگ و نسل، اور ہر قوم و قبیلے کے افراد کو متاثر کر دیااور عجیب تر یہ کہ اس تحریک نے ہر عمر کے افراد (مرد و زن) کے دلوں میں گھر کر گئی۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اس عالمی اور زمان و مکان کے ہر قید و بند سے ماوراء نہضت کو کسی فرقے کی دوسرے فرقے، یا کسی قبیلے کی دوسرے قبیلے کے خلاف جنگ سمجھنا کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ 61ھ کے عاشورا کی جنگ تمام انسانیت کی خاطر ظلم و ستم کے خلاف جنگ تھی، انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کے قیام کے لئے جنگ تھی، عالم بشریت کی سر بلندی، حریت و آزادی، عزت و شرف اور انسانی اقدار کے احیاء کی جنگ تھی، بنی نوع انسان کو غیر اللہ کی غلامی کی ذلت و رسوائی سے آزادی کی جنگ تھی اور تمام عالم انسانیت کو فضائل و کمالات کی معراج پر لے جانے کی جنگ تھی۔ اس لئے تمام تر انسانوں کا فریضہ بنتا ہے، کہ وہ اس بے مثل نہضت کو پڑھیں اور اس عظیم درسگاہ کے پیغام کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں، تاکہ دنیا میں امن و امان کی حکمرانی اور عدل و انصاف کا راج ہو۔
انہوں نے کہا کہ جس قدر پر فتن اور حساس زمانے میں ہم جی رہے ہیں، اتنا ہی ہم سب کا فریضہ بنتا ہے کہ ہم پیغام عاشورہ کو سمجھیں۔اس عظیم درسگاہ کا پہلا سبق خداوند قدوس کی ذات پر ایمان محکم، یقین کامل، توکل مطلق اور ذات حق سے بے پناہ محبت اور عشق ہے، کیونکہ انسانی ذات کا کمال، اور اسکی حقیقی منزل اللہ جل شانہ سے مضبوط تعلق ہے، اور ذات حق سے یہ تعلق، عشق اور اس کی ذات پر توکل کرنا کربلا میں اپنی معراج پہ نظر آتا ہے۔دوسرا سبق اسلام کی سربلندی، اس جاویدان دن کی حفاظت اور اس کے حقائق و معارف کی پرچار جو کہ شرک و کفر اور خواہشات دنیا کی وجہ سے زنگ آلود سینوں کے لئے اکسیر کا نسخہ ہیں، اور اس رستے میں ہر قسم کی مصیبتوں، سختیوں اور مشکلات کو برداشت کرنا اور ہر قسم کی قربانی کے لئے آمادہ رہنا ہے۔تیسرا درس اپنے ہر کام اور ہر عمل کو اخلاص اور اللہ کی خاطر انجام دینا ہے، کیونکہ جو عمل خالصتا اللہ کے لئے انجام دیا جاتا ہے، وہ باقی رہتا ہے، اور اس کی دل آویزی، سحر آفرینی اور تاثیر روز بروز بڑھتی جاتی ہے، کربلا کا واقعہ اس بات پر ایک روشن دلیل ہے، بے آب و گیاہ بیابان میں شہید کئے جانے والوں کی یاد آج بھی پوری دنیا میں انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے، اور ان کی مظومانہ شہادت آج بھی دلوں کو عجیب حرارت، اولو العزمی، صدق و صفا اور نورانیت عطا کرتی ہے، اور اس تاثیر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اس عظیم واقعے کا چوتھا درس سسکتی انسانیت کے لئے دل میں تڑپ پیدا کرنا، اسے ذلت و رسوائی کے زندان سے رہائی عطا کرنے لئے عملی جدوجہد کرنا اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر انسانیت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنا، کربلا اس مقدس کام کا عملی نمونہ ہے، شہدائے کربلا میں ایک شہید کا نام جون ہے، یہ حبشی غلام تھے، جب یہ میدان کربلا میں لڑتے لڑتے زخمی ہوگئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین کربلا پہ گرے، تو امام حسین علیہ السلام فورا ان کے سرہانے پہنچے، ان کے سر کو اپنے زانوئے مبارک پر رکھا، ان کے چہرے سے خون صاف کیا، اور ان سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا، جون نے جب اپنے مولا و آقا کی اس قدر عزت و توقیر کو دیکھا تو روتے ہوئے کہا: مولا ایک غلام اور اتنی توقیر۔ یہ انسانیت سے بے پناہ محبت، اور اس کی عزت و توقیر کا عملی نمونہ ہے۔
انہوںنے کہاکہ تحریک کربلا کا پانچواں درس ایک دن کے ماننے والے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا احترام، باہمی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا، اور اسلام کی سربلندی کے لئے ایک ہی پرچم تلے جمع ہو کر انسان دشمن طاقتوں کے خلاف مشترکہ جنگ لڑنا ہے، میدان کربلا مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت، اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا عملی مظہر ہے، آپ کے انصار و اعوان میں جہاں حبیب بن مظاہر، مسلم بن عوسجہ اور ہلال بن نافع جیسے خاندان رسالت سے بے پناہ عشق رکھنے والے افراد تھے، وہاں زہیر بن قین جیسے افراد بھی تھے جو واقعہ کربلا سے پہلے خاندان علی علیہ السلام وآل علی سے شدید نفرت کرتے تھے، اور حر جیسے لوگ بھی تھے جو شب عاشور تک یزید کی فوج کے کمانڈر رہے، لیکن امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت نے ان سب کے دلوں کو نورانی کرکے، انہیں حق سے روشناس کردیا اور یہ سب کے سب روز عاشور دین حق کے شجر کی آبیاری اور اسے ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے آپ ع کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، اور ان کے نام تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گئے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے پیغام عاشورا میں کہا کہ اس عظیم الشان درسگاہ سے بے شمار درس سیکھے جا سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے، کہ ان شہدا کی یاد منانے کو کسی ایک فرقے، مذہب یا دین کے ساتھ خاص نہ کیا جائے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام حریت پسندوں کی ذمداری بنتی ہے کہ وہ اس واقعہ کو زندہ رکھیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام کسی ایک دین یا مذہب کا نہیں بلکہ ہر دور میں پوری انسانیت کے امام، رہنما اور پیشوا ہیں۔