وحدت نیوز(اسلام آباد) سکردو سے راولپنڈی آنے والی مسافر کوبابوسر کے مقام پر پیش آنے والے حادثے اور قیمتی جانوں کے نقصان پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ آغاعلی رضوی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔
قائدین نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تمام مرحومین کی مغفرت اور پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعا کی ہے ۔دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل آغا علی رضوی نے بابوسر روڈ حادثے کے حوالے سے فورس کمانڈر جی بی اور کمشنر بلتستان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے ہنگامی طور زخمیوں کے علاج معالجے اور حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی میتوں کو سکردو منتقل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی اپیل کردی۔
اس موقع پر فورس کمانڈر گلگت بلتستان اور کمشنر بلتستان نے یقین دہانی کرائی کہ تمام زخمیوں کو فوری ابتدائی طبی امداد چلاس میں دی جا رہی ہے اور زخمیوں کے علاج کے سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لایا جائے گا اور ان کی حالت بہتر ہونے کے بعد گلگت ہسپتال میں منتقل کیا جائے گا، جبکہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافرین کے جسد خاکی کو بذریعہ ہیلی اسکردو منتقل کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ وحید عباس کاظمی نے وحدت ہائوس پشاور سے جاری بیان میں کہا ہے کہ کوہاٹ اور ہنگو میں ڈی پی اوز کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک رہا ہے۔ انہوں نے اہل تشیع کی مذہبی رسومات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، جو ایک عرصے کے بعد امن و امان کی قائم پرامن فضا کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوہاٹ اور ہنگو کے ڈی پی اوز نے روایتی جلوس پر ایف آئی آر درج کرکے اپنے کردار کو مشکوک بنایا، 2006ء کے یوم عاشورہ کے سانحہ کے بعد اس سال ایک بار پھر ہنگو میں پرامن جلوس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ عزاداری سید الشہداء (ع) کے جلوس کے شرکاء اور عمائدین پر ایف آئی آر درج کرنا کسی صورت قبول نہیں، لہذا ہم آئی جی خیبر پختونخوا نعیم خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈی پی او کوہاٹ اور ڈی پی او ہنگو کے خلاف انکوائری بیٹھا کر انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کریں، کیونکہ انہوں نے امن و امان کی پرامن فضا کو قائم کرنے کے بجائے کسی کی ایماء پر جانبدار اور متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جو وہاں اس علاقہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے کسی طور بھی مناسب نہیں۔
وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی ،ضلعی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ سیف علی ڈومکی ،عزاداری سیل کے رہنما سید احسان علی شاہ بخاری ،سید فضل عباس شاہ اور جنرل سیکرٹری سید غلام شبیر نقوی نے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد غضنفر علی قادری سے ملاقات کی اور انہیں محرم کے دوران بہترین اتنظامات پر اپریسئیشن لیٹر دیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ جیکب آباد جیسے حساس ضلع میں عوام کے تحفظ اور عزاداروں کی سہولت کے لئے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کی کوششیں قابل تعریف ہیں ہم ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے ضلع کے مختلف شہروں میں جاکر عزاداری روٹس کا دورہ کیا صفائی صحت لائٹننگ سمیت مختلف مسائل کے حل کے لئے کوششیں کیں۔اس موقع پر جناب غضنفر علی قادری نے علامہ مقصود علی ڈومکی عزاداری سیل اور مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔ اور کہا کہ ایام محرم میں آپ کا مکمل تعاون رہا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جائز صہیونی ریاست اسرائیل میں ایک ہی سال کے اندر یہ دوسرے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ اسی سال اپریل کے مہینے میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ موجودہ وزیراعظم چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر عددی اعتبار سے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہنے پر ناجائز صہیونی ریاست کی پارلیمان نے انتخابات دوبارہ کروانے کے حق میں رائے دی تھی۔
17 ستمبر کو ہونے والے حالیہ انتخابات میں نشستوں کی برتری کے لحاظ سے صورتحال اپریل کے انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سابق صہیونی آرمی چیف (ر) لفٹیننٹ جنرل benny gantz کی نیلی اور سفید پارٹی 120 نشستوں کی پارلیمان میں سے 33 نشستوں کے ساتھ سرفہرست، موجودہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی likud پارٹی 32 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ یونائیٹڈ عرب لسٹ پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح شاس پارٹی 9، دی جیوش ہوم 9، یونائٹیڈ توراہ یہودیت 8، یونین آف رائٹ ونگز پارٹی 7، gesher پارٹی 6 اور جمہوری اتحاد 5 نشتوں کے ساتھ بالترتیب بعد والے نمبروں پر ہیں۔
دائیں اور بائیں بازو کی ہم خیال جماعتوں کے ممکنہ اتحاد کی نشستیں ملائیں تو سابق صہیونی آرمی چیف banny gantz کے ہم خیال گروپ کے پاس کل ملا کر 56 جبکہ موجودہ صہیونی وزیراعظم نتن یاہو کے ہم خیال گروپ کی کل ملاکر 55 نشستیں بنتی ہیں۔ جو کہ حکومت بنانے کے لیے ضروری 61 نشستوں سے کم ہیں۔ ایسے میں سابق اسرائیلی وزیر دفاع Avigdor Lieberman کی پارٹی the Jewish home کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
ناجائز صہیونی ریاست کی نئی حکومت کا تعین اب Lieberman کے ہاتھ میں ہے۔ Lieberman جس ہم خیال گروپ کے ساتھ الحاق کر لے گا ظاہراً وہی گروپ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ lieberman ایک مشترکہ قومی حکومت کا خواہاں ہے۔ اس نے اپنی انتخابی کمپین کے دوران جہاں گذشتہ چار دفعہ وزیراعظم رہنے والے نتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں ناجائز صہیونی ریاست کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ قومی حکومت کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
بلکہ گذشتہ روز Lieberman نے ایک اخباری بیان کے ذریعے عددی برتری کی حامل دونوں جماعتوں کو متنبہ کیا ہے کہ مشترکہ قومی حکومت کی تشکیل کی خواہش کے علاوہ کسی دوسری خواہش کے لیے کوئی سیاسی گروپ اس سے رابطہ نہ کرے۔حالیہ انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے والی اکثر جماعتیں انتخابی کمپین کے دوران ایک دوسرے کے خلاف اسرائیلی تاریخ کے بدترین الزامات لگا چکی ہیں اور انتخابات میں فتح کی صورت میں مخالفین کے خلاف عدالتی کاروائی کا وعدہ کر چکی ہیں۔ نظریاتی طور پر بھی مختلف جماعتوں کے ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہیں جن میں اپریل کے انتخابات کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں بعید نظر آتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ جماعتیں آسانی کے ساتھ کسی اتفاق رائے پر پہنچ سکیں اور ناجائز صہیونی ریاست میں موجود سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوسکے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے صدر Reuven Rivlin نے کہا ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اتفاق رائے کے حصول کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔حالیہ نتائج پر اگر دقت کریں تو معلوم ہوتا ہے اسرائیل میں سیکولر جماعتوں کے ووٹ بنک میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔ ووٹ چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوا ہے جو حکومت میں رہنے والی بڑی جماعتوں پر عدم اعتماد اور سیاسی افکار میں انتشار کی علامت ہے۔
اسرائیل کو درپیش بنیادی مسائل میں طبقاتی شکاف، سیکورٹی خطرات اور مذہبی شدت پسندی سرفہرست ہیں۔ انتخابی کمپین کے دوران متعدد اسرائیلی اخبارات کی جانب سے کئے جانے والے سروے میں زیادہ تر سوالات کا تعلق انہی تین موضوعات سے تھا۔حالیہ انتخابات کے نتائج اسرائیل کی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوں گے کیونکہ اس بات پر تقریباً تمام صہیونی رہنما متفق ہیں کہ ناجائز صہیونی ریاست کی سیکورٹی کو مضبوط کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی اور اس حوالے سے فلسطینیوں کی سرکوبی سمیت مغربی و عربی طاقتوں کی حمایت کے حصول کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ حکومت جس کی بھی بنے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینوں کی سرزمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ناجائز صہیونی ریاست کے زیر تسلط اردن اور شام کے علاقوں پر اسرائیل اپنا حق مالکیت جتاتا اور موقع ملنے پر ان علاقوں کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کی کوشش کرتا رہے گا۔حالیہ انتخابات کے نتائج میں 11 نشستیں حاصل کرنے والی یونائٹڈ عرب لسٹ پارٹی شاید وہ واحد پارٹی ہے جو سابقہ صہیونی حکومتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی نسبتاً مخالف اور فلسطینیوں کے ساتھ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتی ہے۔ یہ اپنی تشکیل سے حالیہ انتخابات تک کبھی حکومت کا حصہ نہیں رہی اور یہ پہلی بار ہے کہ یہ پارٹی نئی حکومت کی تشکیل میں اثر انداز ہوگی۔ناجائز صہیونی ریاست کے حالیہ پارلیمانی انتخابات صہیونی رہنماؤں کے لیے ایک جنگ کی حیثیت رکھتے تھے۔
ایک طرف مذہبی شدت پسند اور قدامت پرست سیاسی گروپ تو دوسری طرف سیکولر اور آزاد خیال سیاسی گروپ تھے۔ ناجائز صہیونی ریاست کا دفاع اور توسیع پسندی ان تمام جماعتوں کے درمیان نکتہ اشتراک ہے چاہے اس کے لیے انہیں فلسطینیوں کی نسل کشی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ میرا دعوی نہیں بلکہ ناجائز صہیونی ریاست کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ تھا اور benny gantz سمیت اکثر سیاسی رہنما الیکشن کمپین کے دوران اپنے دور اقتدار میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو فخریہ طور پر پیش کرتے نظر آئے ہیں۔ ناجائز صہیونی ریاست کے حالیہ انتخابات اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے میں کوئی بڑی مدد نہیں کرسکیں گے بلکہ صورتحال تقریباً ویسی ہے رہے گی جیسے اپریل کے انتخابات کے بعد تھی۔
اگر کوئی مشترکہ قومی یا اتحادی حکومت بنتی ہے تو وہ ایک غیر مستحکم اور منتشر حکومت ہوگی جو ناجائز صہیونی ریاست کے داخلی مسائل کے حل کے لیے طویل المدت حکمت عملی اپنانے سے قاصر رہے گی۔ ناکامی چھپانے اور کم سے کم عوامی اعتماد بحال رکھنے کے لیے اسے فلسطینیوں اور دیگر ہمسایوں کے ساتھ جنگ کی صورتحال بنائے رکھنا ہوگی بالکل ویسے ہی جیسے انتخابات سے قبل بلکہ اپنے تمام دور اقتدار میں موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے اپنی کم ہوتی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے کبھی شام پر فضائی حملے کئے تو کبھی لبنان میں مداخلت کی تو کبھی عراقی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید ابن حسن
وحدت نیوز(بیروت) التجمع العربي والاسلامي لدعم خيار المقاومة نامی بین الاقوامی تنظیم نےبیروت میں ایک بین الاقوامی علمی اور فکری نشست گاہ کا اہتمام کیا،(واضح رہے کہ چالیس سے زیادہ ممالک کی علمی اور فکری شخصیات اس تجمع کے اعضاء ہیں ) جس میں تجمع نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ اور اس تجمع کے پاکستان کے کوآرڈینیٹر علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کو مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی دعوت دی، جس میں مصر سے اس تجمع کے کوارڈینیٹر اور سیکریٹری جنرل کے معاون ڈاکٹر جمال زہران، اور اردن سے الجمعیہ العربیہ للعلوم السیاسہ کے سربراہ محمد شریف الجیوسی، اور اس کے علاوہ پاکستان، لبنان، شام، بحرین، فلسطین، تیونس اور سوڈان سے تعلق رکھنے والی اہم فکری شخصیات نے شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز 8 منٹ پر مشتمل ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے سے ہوا، جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر، وہاں ہونے والے مظالم اور اس خطے کی اہمیت کے حوالے سے، مختصر لیکن مفید اور موثر معلومات پر مشتمل تھی۔اس ڈاکومنٹری کے بعد تجمع کے سیکریڑی جنرل ڈاکٹر یحیی غدار نے اس بات پر زور دیا، کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے، جس کے ماوراء قدیم استکباری قوتوں کے مذموم مقاصد کار فرما ہیں، جن میں سے اہم ترین مقاصد اس خطے کو اپنے زیر تسلط رکھنا، وہاں کے وسائل اور امکانیات پر قبضہ، اور وہاں کے امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنا ہیں۔
ڈاکٹر یحیی غدار نے مزید کہا کہ اس وقت کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جس میں ہر قسم کے فوجی قوت سے اجتناب خطے کے ساری عوام کے لئے ناگریز ہے، اس حوالے سے کشمیری عوام کے مستقبل اور حق خود ارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے قرار دادوں کا احترام ضروری ہے، اور مزید کہا: کہ اس ضمن میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اقدامات قابل تحسین ہیں، کیونکہ بظاہر ایسے اقدامات سے استعماری طاقتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوتی، اور آخر میں ڈاکٹر غدار نے محور مقاومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری طرف علامہ سید شفقت نے مسئلہ کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس حوالے سے امت مسلمہ اور عرب ممالک کی ذمہ داری پر مفصل گفتگو کی اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلے میں فوجی اقدامات سے اجتناب نا گزیر ہے۔بر صغیر پاک و ہند پر برطانوی قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ استعمار نے بر صغیر پاک و ہند پر تدریجیا قبضہ کیا، اور ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے میں ایک اہم کردار کا ، جس میں پہلا حربہ ہندوؤں کی طرف سے اردو زبان کے خلاف اور عربی رسم الخط کو ختم کرنے کا مطالبہ تھا، اور فتنے کو مزید طاقت دینے کے لئے، اور متشدد فکر کو رواج دینے کی خاطر دیوبند نامی علاقے میں ایک دینی مدرسے کا قیام عمل میں لایا گیا، حالانکہ اس خطے کی عوام اس متشدد فکر کے شدید مخالف ہیں، اور اس دینی مدرسے کی وجہ سے اس خطے میں متعدد بار بڑے بڑے فسادات ہوئے۔
شیرازی صاحب نے لوگوں کی توجہ ایک اہم بات کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ جو قربت ضیاء الحق کے دور کے بعد سے لیکر عمران خان کے دور سے پہلے تک پاکستان کا خلیجی ممالک اور امریکہ کے ساتھ قربت زیادہ نہ تھی، جس کی وجہ سے خطے کا توازن بگڑ گیا اور تکفیری فکر کو رواج ملا، اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔خطے کے حوالےسے بھارتی موقف کی طرف اشارہ کرتے کہاکہ مقاومتی تحریکوں کے حوالے سے بھارت کا موقف 1990 کے بعد یکسر تبدیل ہوا ہےاور اس وقت اسرائیل کے ساتھ بھارت کے گہرے تعلقات قائم ہیں اور یہ بات واضح رہےکہ کشمیر کے حالات 1989 کے بعد زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے،کیونکہ اسی دور میں انڈین اسرائیلی مراسم گہرے ہونا شروع ہوئے اور پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا۔
علامہ شیرازی صاحب نے مزید کہا کہ گیارہ ستمبر کے حادثے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی، اور باہمی اعتماد کمزور ہوا، جس کی اہم وجہ بھارت اور امریکی مفاہمت میں اضافہ تھا، اور اسی طرح خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے بڑھتے تعلقات نے اس ملک کا محور مقاومت سے دور ہو جانے کا اہم سبب شمار کیا جا سکتا ہے، آج آپ کو خلیجی ممالک میں جا بجا مندر نظر آئیں گےاور سب سے اہم مسئلہ پاکستان چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سی پیک کا منصوبے کو سبوتاژکرنے کی کوشش ہے، کیونکہ اس سے امریکہ کے اقتصادی مفادات کو نقصان کا اندیشہ ہے۔
علامہ شیرازی صاحب نے کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلوں پر خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کہ اس وقت کشمیر میں بھارتی حکومت نے کثرت کے ساتھ متشدد ہندووں کو آباد کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ کشمیر کی انفرادی صورت حال کو ختم کر دیا گیا، 1989 سے لیکر آج تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا گیا، اور پانچ لاکھ سے زیاد افراد جیل کے سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ جب اقوام متحدہ کے مسوول نے کشمیر کی صورت حال پر رپورٹ پیش کی تو رونے لگا اور کہا اب تک 10000 سے زیادہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
خطاب کے آخر میں شیرازی صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کئی مقامات پر لوگ آزادی حاصل کر چکے، لیکن چونکہ کشمیری عوام مسلمان ہیں اس لئے ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، سب کی ذمداری ہے کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیل کے ایجنڈے کا رستہ روکے جو کہ کشمیری عوام کے مستقبل کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں اور پاکستان کو محور مقاومت سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہےاور جمہوری اسلامی ایران کے حالیہ اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں جن میں کشمیر میں حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے اور دنیا کے تمام حریت پسندوں اور محور مقاومت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام کے حق میں آواز بلند کریں اور ان مظلوموں کا ساتھ دیں۔
تجمع کے سیکریڑی جنرل کے معاون اور مصر میں تجمع کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر جمال زہران نے کشمیر کے غیور عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیااور اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ساری عربی اور اسلامی انجموں، تنظیموں، تحریکوں اور آزاد انسانوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ وہ مزید ظلم و ستم کو روکا جا سکے، اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان کا شمار پہلے امریکی استکبار کے سامنے نہ جھکنے والے ممالک میں ہوتا تھا، لیکن 90 کی دھائی کے بعد سے اس توازن اور سوچ میں خلل پیدا ہوا ہے، اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایشیا میں نئی جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ یہ جنگ عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں ٹنیشن کم کرنے کے لئے بھارت اپنی ذمداری پر عمل کرے، اور کشمیر کو اپنے حقوق دینے میں تاخیر نہ کرے۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک جبہہ شعبیہ کے نمائندے ابو کفاح دبورنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ہر فساد کے پیچھے کھڑا نظر آتا ہے، اور دنیا کے متعدد مقامات پر ایسے ایسے نزاعات اور کشیدگیوں کو فروغ دیا ہے، جن کی وجہ سے کبھی بھی جنگ کی فضا قائم ہو سکتی ہےاور مزید کہا کہ کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کا حق ہے، اور محور مقاومت اس حوالے سے تمام مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔
جہاد اسلامی کے میڈیا شعبے کے سر براہ الحاج محمد رشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کی مظلومی دور کرنے کے کئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ ہندوستان مزید طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔بحرینی اپوزیشن رہنما الحاج ابراہیم المدھون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا حالیہ کشمیری بحران میں خلیجی ممالک کے دور سے غفلت نہیں کرنی چاہیے اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے پاکستان کے بعض حکومتی اہلکاروں کی مدد سے بعض خلیجی ممالک کی عوام پر ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ عمران خان اس حوالے سے پاکستانی موقف تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کو خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے بجائے عوام سے روابط بڑھانے چاہیے۔مدھون نے مزید کہا کہ ہمیں کشمیری عوام کی مظلومیت کو نہیں بھولنا چاہیے اور اس ضمن میں میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں مقاومت کے محور کا کردار مہم ہے۔
اردن سے تعلق رکھنے والے تجمع عربی و اسلامی لدعم خیار المقاومہ کے مجلس امناء کے رکن استاد محمد شریف الجیوسی نے کشمیر کے مسئلےکو عادلانہ قرار دیا اور اس حوالے سے برطانیہ کے خبیث اور سازشی دور کا ذکر کیا اور کہا خطے کے موجودہ دور کے حالات اس بات کے متقاضی نہیں کہ قریب وقت میں یہ مسئلہ حل ہو جائے، کیونکہ سعودی عرب تکفیری سوچ، وہابیت اور متشدد فکر کو رواج دینے میں دن رات لگا ہوا ہے اور یمن پر ایک ظالمانہ جنگ مسلط کی ہوئی ہے اور ترکی عثمانی خلافت کے احیاء میں مصروف ہے، عرب ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیںاور محور مقاومت کے سامنے کچھ چیزیں اولویت رکھتی ہیں، جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو وہ متشدد فکر کو رواج دے رہا ہے، ظلم و ستم کو فروغ دے رہا ہے، البتہ روس اور چین کے تعاون سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، کیونکہ ان ملکوں کے پاکستان اور ہندوستان سے اچھے تعلقات ہیںاور انہوں نے خود کشمیریوں کی داخلی مزاحمت کو اہم تر قرار دیا۔
وحدت نیوز(کراچی) کراچی میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے4نوجوانوں کی جبری گمشدگی قابل مذمت اقدام ہے ۔ بے گناہ جوانوں کا یوں لاپتہ کردینا بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ماورائے آئین چھاپوں اور گرفتاریوں سے خوف وہراس پیدا کررہے ہیں ۔ رات کی تاریکی میں دروازے توڑ کر گھروں میں داخل ہونے سے ملت جعفریہ میں احساس عدم تحفظ پروان چڑھ رہاہے ۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ محمد صادق جعفری نے ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کی شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان کو آئین تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ، کسی بھی جرم میں ملوث شہری کو حوالات میں بند کیا جاتا ہے ،اسے عدالت میں پیش کرکے اس پر الزام ثابت کیا جاتا اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جاتاہے ۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے جمہوری دور حکومت میں آمریت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ گذشتہ رات مختلف علاقوں سے جبری گمشدہ کیئے جانے والے چاروں نوجوان بے گناہ ہیں ۔ ملت جعفریہ پہلے ہی درجنوں جوانوں کی جبری گمشدگیوں پر طویل عرصہ سے سراپا احتجاج ہے اس پر ستم یہ کہ مزید چار جوانوں کو لاپتہ کردیا گیا۔
علامہ صادق جعفری نے گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ، کورکمانڈرکراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا فوری نوٹس لیں ۔ چادر اور چار دیواری کی پامالی اور خواتین کی توہین قابل مذمت اقدام ہے ۔ تمام جبری گمشدہ جوانوں کو عدالت میں پیش کیا جائےاور بے گناہوں کو را کیا جائے۔