وحدت نیوز(جلال آباد) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نیئر عباس مصطفوی نے جلال آباد میں کارکنوں سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے گرد وپیش میں رونما ہونے و الے حالات وواقعات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور معاشرہ سازی اور ملکی سیاسی نظام میں ہمارا کردار جزولاینفک ہے ۔ ہمارا سیاست میں وارد ہونا محض اقتدار کا حصول نہیں بلکہ اقتدار کو خدا وند تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں معاشرے میں وانصاف کا نفاذ کرنا ہے جو سیرت انبیاء ہے ۔
شیخ نیئر عباس مصطفوی جلال آباد میں مجلس وحدت مسلمین کے جلال آباد یونٹ کی تنظیم نو کے لئے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پر انہوں نے جلال آباد انتہائی متحرک وفعال سماجی کارکن اخوند محمد ابراہیم کو مجلس وحدت مسلمین جلال آباد یونٹ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے حلف بھی لیا ۔
اس موقع پر کارکنان اور عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم وملت کے متدین افراد نے سیاست سے کنارہ کشی کی تو بد قماش افراد اس خلا کو پر کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں لہٰذا بیدارہوجائیں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنے گردوپیش کو خطرات سے بچانے کیلئے میدان عمل میں کود پڑیں ۔ آخر میں انہوں نے کارکنان اور عمائدین کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے نیب ترمیمی آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ایسے حکمنامہ کا اجرا ملک و قوم کے مفاد ات کے منافی سمجھا جائے گا جس سے کرپٹ افرادکی حوصلہ افزائی ہوتی ہو اور انہیں قانون کی گرفت سے بچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک سے کرپشن کے خاتمے کا عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کرے۔قومی خزانے کو بے دریغ لوٹنے والے کسی بھی رعایت کے قطعاََ مستحق نہیں ہو سکتے۔روپے پیسے میں ہیر پھیر چاہے ایک روپے کی ہو یا ایک کروڑ کی وہ کرپشن میں شمار ہوتی ہے اس کے لیے مخصوص رقم کی حد مقرر کرنا درست نہیں۔
انہوں نے کہاکہ کسی بھی ایسے سرکاری حکمنامے کے اجرا کی مخالفت کی جائے گی جس سے کرپٹ عناصرکے لیے رعایت کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔پوری قوم ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتی ہے جس کے لیے کرپٹ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کاروائی ہونی چاہیے۔ اس وقت عوام مہنگائی،بے روزگاری اور عدم تحفظ سمیت لاتعداد مسائل کا شکار ہے۔ سیاستدانوں اور دیگر شخصیات سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر عوام کو مشکلات سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔بدعنوان عناصر کے خلاف انصاف کے عمل میں تیزی لانے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ذمہ داران کے خلاف اس انداز سے شفاف کاروائی کی جائے جس سے انتقامی کاروائی یا اقربا پروری کا کوئی الزام نہ لگایا جا سکے۔
وحدت نیوز (کرم) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تبلیغات علامہ مزمل حسین نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے انضمام پر عوام پُرامید تھے کہ اب فاٹا کی تقدیر بدل جائے گی، لیکن بدقسمتی سے حالات جوں کے توں ہیں، تعلیم، عدلیہ اور صحت کے شعبوں سمیت دیگر انتظامی امور میں اصلاحاتی عمل سخت سست روی کا شکار ہے، اگر اصلاحات کی رفتار اسی طرح رہی تو پھر عوام خوشحالی کی بجائے بدحالی کا شکار ہوں گے۔
ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی رہنما نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ اسوقت ضم شدہ علاقوں میں نہ تو ایف سی آر کا قانون لاگو ہے اور نہ ہی کمیشنری نظام موجود ہے، ذیلی اداروں کی مانیٹرنگ نہ ہونے کے باعث ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاراچنار میں تربیت یافتہ عملے کی کمی اور جان بچانے والی ادویات کی عدم دستیابی کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے احتجاج اور مذاکرات دونوں راستے اختیار کر دیکھے جا چکے ہیں، وزیراعلٰی محمود خان نے کرم ایجنسی دورے کے دوران میڈیکل کالج کے قیام اور ہسپتال کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال اعلان سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ مذہبی رہنما نے مزید کہا کہ میڈیکل کالج کے قیام کا وعدہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے لے کر اب تک کیا جا رہا ہے، لیکن کوئی بھی حکومتی عملی اقدامات اٹھانے پر تیار نہیں، فاٹا کے عوام اس عہد شکنی پر سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی محمود خان سے مطالبہ کیا ہے کہ میڈیکل کالج پاراچنار کے قیام کو عملی شکل دے کر عوام کی دیرینہ خواہش کو پورا کیا جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) وضو بذات خودایک مستحب عبادت ہے لیکن بعض عبادتوں کےلئے مقدمہ بننے کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہوتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتےہیں :(لا صلوۃ الا بطہور)1نماز طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں :(افتتاح الصلوۃ الوضوء و تحریمہا التکبیروتحلیلہا التسلیم)2نماز کی ابتداءوضوسے ہوتی ہے اور تکبیرۃ الاحرام کے ذریعے چیزیں حرام اور سلام کے ذریعے چیزیں حلال ہو جاتی ہیں ۔یہ حدیث امام علی علیہ السلام سےبھی نقل ہوئی ہے3 ۔شیعہ مذہب کے مطابق اعضائے وضو کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں ہے ۔اسی طرح شیعوں کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں کے دھونےکے بعد سر اور پاوٴں کا مسح کرنا چاہیے اور ان دونوں کو دھوناصحیح نہیں ہے لیکن اہل سنت سر اور پاوٴں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور ان پر مسح کرنے کو کافی نہیں سمجھتے ۔
وسائل الشیعہ اوردیگر کتب میں 565 کے قریب احادیث وضو کے متعلق بیان ہوئی ہیں ۔اتنی بڑی تعداد میں احادیث کا ذکر ہونا اسلام میں وضو کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ان روایات میں وضو کے کچھ فوائد بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے:
1۔طول عمر:(قال رسول اللہ:اَکثِر مِن الطَّہورِ یزِدِ اللّہ فی عُمُرِکَ)کثرت سے وضو کیا کرو اللہ تمہاری عمر طولانی کرے گا ۔
2۔خشم و ناراضگی کو ختم کرنا:( إنّ الغضب من الشّیطان و إنّ الشّیطان خلق من النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فاذا غضب أحدکم فلیتوضا)4 غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے خلق ہوا ۔آگ کو صرف پانی بجھا سکتا ہے پس جب بھی تم میں سے کوئی غصہ میں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کرے ۔
3۔غم و اندوہ سے نجات :(ما یمنع أحدکم إذا دخل علیہ غم من غموم الدنیا- أن یتوضأ ثم یدخل مسجدہ و یرکع رکعتین- فیدعو الله فیہما أ ما سمعت الله یقول:وَ اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاۃِ) 5۔کونسی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ جب تمہیں دنیاوی غم و اندوہ پہنچے تو وہ وضو کرے اور مسجد میں جائے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے ؟کیا تم نے قول خدا نہیں سنا کہ صبر او نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔
4۔نورایت میں اضافہ :(الْوُضُوءُ عَلَی الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَی نُور)6وضو کے ساتھ ہوتے ہوئے دوبارہ وضو کرنا گویا نور علی نور ہے ۔
5۔کفارۂ گناہ:(و کان الوضوء إلی الوضوء کفّارۃ لما بینہما من الذّنوب)7جدید وضو کرنا دو وضوؤں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے۔
6۔فقر اور وسواس کا خاتمہ:(مَنْ تَطَہَّرَ ثُمَّ أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ بَاتَ وَ فِرَاشُہُ کَمَسْجِدِہ وَ إِنْ ذَکَرَ أَنَّہُ لَیسَ عَلَی وُضُوءٍ فَتَیمَّمَ مِنْ دِثَارِہِ کَائِناً مَا کَانَ لَمْ یزَلْ فِی صَلَاۃٍ مَا ذَکَرالله َ عَزَّ وَ جَلَّ )8و شخص رات با وضو ہو کر بستر پر لیٹتا ہے تو اس کا بستر مسجد کی مانند ہے ۔اگر اسے یاد آجائے تو اپنے لحاف پر ہی تیمم کرے تو ایسا شخص گویا ساری رات ذکر خدا کے ساتھ نماز میں مشغول رہا ہے۔
آیہ وضو:(يَأَيہُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلَوۃِ فَاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَ أَيْدِيَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِکمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلی الْکَعْبَين)9اے ایمان والو !جب تم نماز کےلئے اٹھو تو اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوںسمیت دھولیا کرو نیز اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔
آیہ کریمہ سےمعلوم ہوتا ہےکہ وضو دو چیزوں سےتشکیل پاتاہے:ایک دھونےاور دوسرا مسح کرنے کے ذریعے۔شیعہ واہل سنت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ اعضائےوضو کو کس طرح دھونا چاہیے ؟ وضو کے اعضاء کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے یا جس طرح سےبھی دھوئے کافی ہے اسی طرح پاوٴں کو دھونا ضروری ہےیا صرف مسح کرنا چاہیے ؟
شیعہ فقہاءکےنزدیک مشہورنظریہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے۔10یہ مطلب اگرچہ آیہ وضو میں بیان نہیں ہواہے لیکن ائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیے ۔معمولا ہاتھوں اور دوسرے اعضاء کو دھوتےوقت اوپر سے نیچے کی طرف دھوتےہیں ۔لہذااگر کسی جگہ لفظ بطورمطلق ذکر ہو تو وہ رائج فرد کی طرف انصراف پیدا کرتاہے ۔علاوہ ازیں متقدمین میں سے سوائے سید مرتضی کے کسی اور نے اس مطلب کی مخالفت نہیں کی ہے جیساکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےاصحاب سے بھی اس کی مخالفت میں کوئی چیزنقل نہیں ہوئی ہے ۔لہذا ان دلائل و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کا مسلمہ نظریہ یہ ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے ۔11
یہاں یہ بات قابل توجہ ہےکہ آیہ کریمہ (وایدیکم الی المرافق)میں لفظ (الی)ہاتھوں کےدھونے کی حد کو بیان کرتی ہے نہ ہاتھوں کے دھونےکی کیفیت کو،جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے کیونکہ عربی زبان میں کلمہ(ید)مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔کبھی صرف انگلیوں کو، کبھی انگلیوں سے کلائی تک کو اورکبھی انگلیوں سےکندھے تک کو (ید)کہا گیا ہے۔لہذا اس کی حد معین کرنے کے لئےقرینے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر قرآن نے(الی المرافق) کہہ کر دھونے کی حد کو بیان کیا ہے ۔جب کسی انسان سےکہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لے توممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھو لے کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے اس لئے اس غلطی کو دور کرنےکے لئے{ الی المرافق} کہاگیا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ہاتھوں کے دھونے کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے یا نیچے سےاوپر کی طرف ،یہاں لفظ بطورمطلق ذکر ہوا ہے اس لئے اس کا انصراف عام اور متعارف طریقے کی طرف ہے ۔ عرف عام میں بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جاتا ہے مثلا اگر کوئی ڈاکٹر حکم دے کہ بیمارکے پاوٴں کوگھٹنوں تک دھویا جائےتو معمولا پاوٴں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں نہ برعکس۔ ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں اسی طریقے سے وضوکرنےکو لازم قرار دیا ہے ۔بنابریں وضو کرتے وقت چہرےاورہاتھوں کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے ۔
طبرسی کے نقل کےمطابق وضومیں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچےکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف نہیں ہے بلکہ ان اعضاءکو نیچےسےاوپرکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ۔12
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وضو میں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے اور اس بات پر خود آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے اور یہ مطلب اس وقت واضح ہوجاتاہے جب لفظ (الی)(ایدی) کےلئے قید ہو نہ کلمہ (غسل) کے لئے کیونکہ کلمہ (غسل)کےلئے قید ہونےکی صورت میں آیہ کریمہ دھونے کی کیفیت کو بیان کرے گی یعنی ہاتھوں کو انگلیوں سے کہنیوں تک دھویا جائے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے میں کسی کا اتفاق نہ ہو۔13
{جب کہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سےنیچےکی طرف دھونا چاہیے}
شیعہ اس بات پرمتفق ہےکہ وضومیں پاوٴں کا مسح کرناچاہیےلہذا گر کوئی مسح کرنےکے بجائے اسے دھولے تو وضو باطل ہوجاتا ہے ۔یہ مطلب ائمہ اہل بیتعلیہم السلام کی احادیث کےعلاوہ خود آیہ کریمہ سےبھی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ قرآن کریم پہلےدوعضوکے دھونے کا حکم دیتاہے اور اس کے بعد دوسرے دو عضو پر مسح کرنے کا حکم دیتا ہےچنانچہ ارشاد ہوتاہے:
1۔(فَاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَ أَيْدِيکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ)اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوںسمیت دھولیا کرو ۔
2۔(وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِکُمْ وَ أَرْجُلکُمْ إِلیَ الْکَعْبَين(اور اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔
آیہ کریمہ کے اس حصے(وأرجلکم)کو مجرور یا منصوب پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں قرائتوں کی صورت میں(أرجلکم)کلمہ (رؤوسکم)پرعطف ہے ۔اگر(أرجلِکم)کو مجرور پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوتا ہے لیکن اگر (أرجلَکم)کو منصوب پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے محل پر عطف ہوگا۔ اصحاب اور تابعین کی ایک جماعت بھی اسی نظریے پر قائم تھی جیسے ابن عباس ،انس بن مالک ،ابو العالیہ ،شعبی اور عکرمہ اسی طرح زیدیہ کےبزرگوں میں سے حن بصری اور ناصر الحق بھی پاوٴں کےدھونے اور مسح کرنے میں تخییر کےقائل تھے ۔14
اہل سنت کےبزرگان وضو میں پاوٴں کے دھونے کو واجب قرار دیتے ہوئے ان پر مسح کرنےکو کافی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی روایت کی کتابوں میں موجودبعض احادیث پر استناد کرتے ہیں جبکہ یہ احادیث آیہ وضو کی تفسیر بیان نہیں کرتیں ۔ ان احادیث کی دو قسمیں ہے بعض احادیث مسح کےوجوب کو بیان کرتی ہیں جبکہ بعض احادیث دھونے کے وجوب کو بیان کرتی ہیں ۔اہل سنت کا نظریہ آیہ وضو کے ظاہری معنی کےساتھ سازگار نہیں ہے اس لئےانہوں نے اس کی مختلف طریقوں سے توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے:
1۔کلمہ (أرجلِکم)مجرور ہے اور یہ (رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے لیکن یہاں مسح سےمراد دھونا ہے ۔
جواب:یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ کلمہ (غسل و مسح) شرع اور لغت دونوں میں مختلف معنوں میں استعمال ہوئےہیں ۔ اگر کبھی مجازی طور پر ایک دوسرے کےمعنی میں استعمال ہو تو جہاں قرینہ موجود نہ ہو وہاں اس فرض کو قبول نہیں کر سکتے ۔ البتہ اہل سنت کی جن حدیثوں میں دھونے کو واجب قرار دیا گیا ہے وہ مسح کے وجوب کو بیان کرنے والی حدیثوں کے ساتھ ٹکراتی ہیں ۔علاوہ ازیں یہ حدیثیں علم و یقین کا بھی فائدہ نہیں دیتیں اس لئے ان کے ذریعے قرآن کریم کے ظاہر سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ بعبارت دیگریہ احادیث آیہ کریمہ کے ظاہری معنی کےساتھ تعارض رکھتی ہیں۔ ادبی قواعد کےمطابق معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہونا چاہیے لہذا جب(أرجلِکم)کو(رؤوسکم) پر عطف کریں تو معطوف علیہ کا حکم معطوف کے لئے بھی ہونا چا ہیے جس کا لازمہ پاوٴں کا مسح کرنا ہے ۔
2۔ کلمہ (أرجلِکم)(رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے اور یہ مجرورہے لیکن اس کاحکم مسح کرنا نہیں ہے بلکہ دھونا ہے اور (أرجلِکم)کامجرور
ہونا از باب قرب و جوارہے جیسے (جُحر ضبٍّ خرب) لفظ (خرب)(جحر)کی صفت ہے اگرچہ ظاہرا کلمہ (ضب) کی صفت واقع ہوئی ہے اور یہ مجرور ہے ۔
جواب:یہ توجیہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ زجاج لکھتا ہے :قرآن کریم میں عطف بالجوار جائز نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ کہ جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں وہ ان مورادمیں ہے جہاں معطوف اور معطوف علیہ کےدرمیان حرف عطف موجود نہ ہو حالانکہ آیہ کریمہ میں حرف عطف موجود ہے لہذا عطف بالجوار جائز نہیں ہے۔علاوہ ازیں عطف بالجوار وہاں جائز ہے جہاں غلطی کا احتمال موجود نہ ہو جیسے مذکورہ مثال میں صفت (خرب)( حجر) کےساتھ مربوط ہے نہ (ضب) کےساتھ، جبکہ آیہ کریمہ میں ایسا نہیں ہےکیونکہ پاوٴں کا مسح کرنا سر کےمسح کی طرح ممکن ہے ۔نحو کےعلماء و محققین نے عطف بالجوار سے بالکل انکار کیا ہے اور اس طرح کے مثالوں(جُحر ضب خرب )کے بارےمیں کہتےہیں :حقیقت میں یہ عبارت اس طرح تھی (خرب جحرہ)مضاف الیہ حذف ہوا ہےاور ضمیر مجرور اس کے جگہ پرآیا ہےاورایک ضمیر {خرب} میں بھی مستتر ہے ۔
3۔کلمہ (أرجلکم)(رؤوسکم)کے ظاہر پر عطف ہوا ہے اور یہ شاعر کےاس قول کی طرح ہے جیسے(علفتہا تبنا و ماءً باردا)جبکہ حقیقت میں یہ عبارت اس طرح سے تھی (علفتہا تبنا وسقیتہا ماءً باردا) یہ قول اخفش سے نقل ہوا ہے ۔اس قول کا لازمہ یہ ہےکہ آیہ کریمہ میں کلمہ (اغسلوا)تقدیر میں ہویعنی اصل میں آیہ کریمہ اس طرح ہو:(وامسحوا برؤوسکم واغسلواأرجلکم إلی الکعبین)یعنی اپنےسر کا مسح کرو اورٹخنےتک اپنے پاوٴں کو دھووٴ۔
جواب:یہ توجیہ سابقہ توجیہات سے بھی زیادہ ضعیف ہے کیونکہ کسی چیز کو تقدیر میں اس وقت رکھی جاتی ہے جب کلام کو اس کےظاہر پر حمل کرنا ممکن نہ ہو جیسے مذکورہ شعر میں، کیونکہ گھاس دینا پانی دینے کے علاوہ ایک الگ فعل ہے جبکہ آیہ کریمہ میں اس قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے ۔
4۔کلمہ (أرجلَکم)منصوب اور (ایدیکم) پر عطف ہے جس کےنتیجے میں معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہوگا یعنی ہاتھوں اور پیروں کو دھونا چاہیے ۔
جواب:اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ معطوف(أرجلَکم)اور معطوف علیہ(ایدیکم)کے درمیان جملہ معترضہ(وامسحوا برؤوسکم)قرار پائے گا جو عربی زبان کے قواعد کےمطابق صحیح نہیں ہےجبکہ اس طریقے سے گفتگو کرنا انسانوں کے درمیان میں بھی رائج نہیں ہے چہ جائیکہ کلام الہی میں ایسا ہو جو کہ فصاحت و بلاغت کاشاہکار ہے ۔15
اہل سنت کے بعض علماء نےشیعوں کے نظریے پر جو کلام الہی کے ساتھ سازگار ہے اعتراض کیا ہے ۔یہاں ہم ان اعتراضات کا مختصراجواب دینے کی کوشش کرتے ہیں :
1۔آیہ کریمہ میں لفظ (کعبین)(أرجلکم) کی غایت کے عنوان سے ذکر ہوا ہے جیسے(وأرجلکم إلی الکعبین)کعبین سے مراد پاوٴں کے ٹخنے کے اطراف میں موجود دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جبکہ غایت مغیا کے حکم میں شامل ہے اور یہ کام مسح کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا ہے
بلکہ پیروں کو دھونے سے حاصل ہو جاتاہے ۔16
جواب:اگر ہم کعبین سے مذکورہ ہڈیاں مراد بھی لیں تب بھی ان دونوں پر مسح ممکن ہے یعنی دونوں پیروں کا اس طرح مسح کریں کہ مذکورہ حصہ بھی اس میں شامل ہوجائے ۔
2۔شیعوں نے(کعب) کی تفسیر پاوٴں کے ابھرےہوئے حصے سے کی ہے جبکہ ہر پاوٴں میں صرف ایک کعب ہوتاہے حالانکہ آیہ کریمہ میں (کعبین)تثنیہ آیا ہے ۔شیعوں کے نظریے کےمطابق یہاں جمع کا صیغہ آنا چاہیے مثلا (کعاب)جیسےہاتھوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :(الی المرافق)17
جواب: جس طرح جمع کا صیغہ مناسب ہے اسی طرح تثنیہ کا صیغہ بھی مناسب ہے ۔ ہاتھوں اورپیروں کے بارے میں (المرافق)(کعبین) استعمال کرنےکی وجہ ہمارےلئے واضح نہیں ہے ۔یقینا لفظ(مرافق)مرفقین سے اور لفظ (کعبین)کعاب سے زیادہ واضح ہے ۔ علاوہ ازیں اگر کعب سے مراد پیروں کے اطراف میں موجود برآمدگی لے لیں{ جیسا کہ بعض شیعہ علماءکا نظریہ ہے}تب بھی آیہ کریمہ پاوٴں کے دھونے کے وجوب کو بیان نہیں کرتی بلکہ فقط مسح کا واجب مقدار بیان کرتی ہے ۔
4۔وضو کی حکمت اور عقلی نقطہ نظر سے بھی ہمیں اس بات کا قائل ہونا چاہیے کہ آیہ کریمہ سےمراد پاوٴں کا دھونا ہے نہ مسح کرنا ،کیونکہ اگرپاوٴں کےاوپر کوئی گردد وغبار ہو تواس کے اوپر مسح کرنے سے نہ صرف طہارت وپاکیزگی حاصل نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل اس کے مزید آلودہ ہونےکا سبب بنتا ہے ۔18
جواب:اگرچہ احکام شرعی مصالح و مفاسد پر مبتنی ہیں لیکن ان حکمتوں کی مکمل شناخت انسان کےاختیار میں نہیں ہے مخصوصا عبادتوں کی حکمتوں کا علم انسان کےپاس نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں فقہ شیعہ میں اعضائے وضو کی طہارت کے بارے میں کافی تاکید ہوئی ہے ۔اسی لئے وضو سےپہلے وضو کےاعضاء کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔بزرگان شیعہ کی سنت بھی یہی رہی ہے کہ وہ وضو کرنے سےپہلے اعضائے وضو کو ہر قسم کی آلودگیوں سےپاک کرتے تھے ۔ شاید یہ بات جو اہل سنت کی روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتےوقت پاوٴں کو دھوتے تھے اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ؐ نظافت کی خاطر پاوٴں کو دھوتے تھے نہ وضو کے قصد سے ۔19
حوالہ جات:
1۔وسائل الشیعۃ ،ج1 باب وضو ،حدیث 1،ص256۔
2۔ایضاً ،حدیث 4۔
3۔ایضاً ،حدیث 7۔
4۔امالی ،شیخ مفید ص6 ح5
۵۔نہج الفصاحہ ص۲۸۶، ح ۶۶۰
6۔تفسیر عیاشی ج ۱، ص۴۳، ح ۳۹
7۔وسائل الشیعہ ج۱ ص۳۷۷
8۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص۵۰
9۔تہذیب الاحکام ج2 ص116
10۔مائدۃ،6۔
11۔ التنقیح ،ج 5 ، ص61۔
12۔ جمع البیان ج2، ص164۔
13۔المیزان، ج5،ص221۔
14۔مجمع البیان ،ج2،ص164۔تفسیر طبری ،ج6،ص83۔
15۔مجمع البیان،ج2،ص 167۔
16۔تفسیر المنار ،ج6،ص 234۔
17۔ایضا ،ص233۔
18۔تفسیر المنار،ص234۔
19۔سید شرف الدین عاملی ،سبع مسائل فقہیۃ ،ص82۔آیۃ اللہ جعفر سبحانی ،الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص19۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(کوٹ ڈیجی) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام مرکزی اسکاوٹس کیمپ میں (ظہور امام زمانہ ع کے آداب اور ہماری ذمہ داریاں) کے موضوع پر درس دیتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امام مہدی ع انبیاء کرام کے وارث ہیں لہذا ان کی جدوجہد تحریک انبیاء کا تسلسل ہے۔ منتظرین امام زمانہ ع کو علم و تقوی کے ذریعہ کردار سازی اور معاشرہ سازی کرنی چاہیے۔ زمانہ غیبت میں نائب امام ولی فقیہ ہی کے ذریعے ہم امام وقت کی اطاعت کر سکتے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ امریکہ اور اسرائیل عصر حاضر کے فرعون اور یزید ہیں ان کی غلامی کرنے والے حکمران امت مسلمہ اور انسانیت سے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آل سعود نے امریکی غلامی کے بعد اب اسرائیل غاصب کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈالا ہے لہذا وہ امت مسلمہ کی قیادت کے کسی طور اھل نہیں۔انہوں نےکہا کہ انسانیت کا مستقبل تابناک ہے ظالموں کے تخت و تاج خطرے میں ہیں کیوں اب مظلوم بیدار ہو کر طاغوت کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے وفد نےسیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سیدتصور حسین نقوی الجوادی کی سربراہی میں کمشنر مظفرآباد جناب چوہدری امتیاز سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔علامہ تصور جوادی نے کمشنر صاحب کو عمرہ کی ادائیگی پر مبارکباد دی اور اہم مذہبی وانتظامی امور زیر بحث آئے۔
کمشنر صاحب نےعلامہ صاحب کی طرف سےنشاندہی کردہ امور کےجلد حل و تکمیل کی یقین دہانی کروای۔وفد میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل آغا طالب حسین ہمدانی،سیکرٹری سیاسیات تنویر احمد مغل،سیکرٹری ویلفیئرخالد محمود عباسی،سیکرٹری روابط سید عامر علی نقوی،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع مظفرآباد سید غفران علی کاظمی و دیگر شامل تھے۔جبکہ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر مظفرآباد جناب بدر منیر کے علاوہ دیگر حکام بھی موجود تھے۔