وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے عراقی سرزمین پر امریکی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملہ دھشت گردی اور عراقی معاملات میں مداخلت اور ایک آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ ہے۔ عراق ھزاروں سالوں کی تاریخ رکھنے والا ملک ہے جو اپنی عظیم تاریخ اور مقدس مقامات کے باعث امت مسلمہ میں مرکزی حیثیت کا حامل ہیں امریکہ کی جانب سے عراق کے عزت و وقار اور آزادی و خودمختاری پر حملہ قابل مذمت ہے۔
انہوں نےکہا کہ عراق کی مقدس سرزمین پر امریکہ کا غاصبانہ قبضہ اور عراق کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت نا قابل قبول ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ عراقی عوام متحد ہو کر غاصب امریکی افواج اور امریکی مداخلت سے چھٹکارا حاصل کریں۔انہوں نے عراقی سر زمین پر امریکی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوتے کہا کہ امریکی اپنے انسان دشمن کردار کے باعث اقوام عالم میں منفور ہو چکے ہیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عراق کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کے حصول،بے روزگاری کے خاتمے اور باوقار طرز زندگی کے لیے پرامن احتجاج ہر باشعورفرد کا آئینی حق ہے۔ قومی مسائل کی آڑ میں تنصیبات اور املاک کو نشانہ بنانے کی اجازت کسی بھی ملک کے قانون میں موجود نہیں ہے۔ملکی سالمیت و استحکام پر حملہ کرنے والے ملک وقوم کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے عراق کی پرامن فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔وہاں کے عوام سازشی عناصر کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار نہ بنیں۔قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے بابصیرت اور دانشمنداہ طرز عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عراق سے داعش کے خاتمے میں حشد شعبی(عوامی رضاکار فوج) کے جرات مندانہ کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔عراق کے غیور عوام نے اخوت و اتحاد سے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ ان عالمی استکباری قوتوں کے عزائم کو بھی خاک میں ملایا جو داعش کی سہولت کار تھیں۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے کہاکہ آج امریکہ اور اس کے حواری عراق کے مضبوط دفاع حشد شعبی کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت پروپیگنڈے میں مصروف ہیں تاکہ عوام کے اندر اس عوامی فوج کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکے۔امریکی مذموم مقاصد کے سامنے عراق کے یہی باوفا بیٹے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہوئے اور امریکہ کی حمایت یافتہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو بدترین شکست دی۔عالم استعمار اس عوامی فوج کے وجود سے سخت خائف ہے اور ہر قیمت پر اس کا خاتمہ چاہتا ہے۔گزشتہ روز عراق کی سرحد پر موجود حشد شعبی کے کیمپ پر امریکی حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حملے میں متعدد افراد کو شہید کرکے امریکہ نے ایک بار پھر عراق کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے جو سفارتی و اخلاقی آداب کی سنگین خلاف ورزی ہے۔یہ حملہ اس حقیقت کا عکاس بھی ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کا حامی اور دہشت گردوں کے دشمنوں سے اس کی دشمنی ہے۔اپنے اہداف کے حصول کے لیے امریکہ عالمی قانون کو اسی طرح پامال کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی قوتوں کو اس حقیقت کا درک کرنا چاہیے کہ ظلم و جبر کا دور مختصر ہوتا ہے۔وہ دن دور نہیں جب اس خطے کے عوام امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کو عبرتناک شکست سے دوچار کریں گے۔عراق سے امریکہ کی شکست شیطان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت لیبیا پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں لیبیا میں کھل کر آمنے سامنے آ چکی ہیں. 2011 سے لیبیا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے. ایک طرف قتل وغارت کا بازار گرم ہے، خون بہ رہا ہے، تباہی وبربادی ہو رہی ہے تو دوسری طرف عالمی اور علاقائی طاقتیں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے لیبیا کے قدرتی وسائل اور ذخائر لوٹ رہی ہیں.
لیبیا شمالی افریقہ کا تقریبا سات ملین کی آبادی کا عرب اسلامی ملک ہے۔ انتظامی تقسیم کے لحاظ سے اسکے 22 اضلاع ہیں. اس کے شمال میں سمندر ، مشرق میں مصر ، جنوب مشرق میں سوڈان ، جنوب میں چاڈ اور نیجر ، اور مغرب میں الجزائر اور تیونس واقع ہیں. لیبیا کا دارالحکومت طرابلس تقریبا ایک ملین کی آبادی کا شہر ہے. لیبیا 1951 میں اٹلی استعمار سے آزاد ہوا اور 1969 میں فوجی ڈکٹیٹر کرنل معمر قذافی نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سنبھالا جس کے خلاف فروری 2011 میں ایک تحریک چلی اور اگست 2011 میں اس کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ 20 اکتوبر 2011 کو معمر قذافی کو وحشیانہ انداز سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا. گیس اور پٹرول سے مالا مال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا. 2012 سے ابتک کوئی مستقل حکومت قائم نہیں ہو سکی اور اس وقت کی عارضی حکومت جس کا کنٹرول صرف طرابلس تک محدودہے اس کے سربراہ اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے فائز السراج ہیں. جبکہ ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول لیبیا کی فوج کے سابق جنرل خلیفہ حفتر کے پاس ہے.
اگر ہم ان تمام حالات و واقعات کو بیان کریں اور تحلیل وتجزیہ لکھیں تو اس کے لئے دسیوں کالمز کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا. ہم اس کالم میں لیبیا کی صورتحال میں عالمی طاقتوں اور خطے میں معروف سنی سیاسی اسلام کی علمبردار اخوان المسلمین کے کردار کے چند ایک پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے.
موجودہ صورتحال میں لیبیا کے اندر عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کردار
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مسلم وعرب ممالک نے آزادی حاصل کی تو مجموعی طور پر خطے میں ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں آیا کہ جس کے بنیادی فیصلے مشرقی یا مغربی بلاک کی مرضی سے ہوں. استعماری طاقتوں نے اپنا اثر نفوذ قائم رکھنے اور مفادات کے حصول کے لئے کسی ملک میں بادشاہت اور کسی ملک میں فوجی ڈکٹیٹر شپ اور کسی ملک پر نام نہاد جمہوری نظام مسلط کیا. اس سیاسی نظام کی حالت یہ تھی اور ہے کہ جب جہان اسلام کے سنگم میں ناجائز صہیونی ریاست قائم کی گئی تو چند لاکھ یہودیوں کے سامنے کروڑوں مسلمان بے بس نظر آئے. ایک ناجائز چھوٹی سی ریاست نے پورے جہان اسلام کی بڑی بڑی فوجوں کو کئی بار ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا اور انکی زمینوں پر بھی غصب کیا.
فروری 1979 میں جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو استعماری منصوبوں کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا. اس اسلامی بیداری سے آنے والے اس عوامی واسلامی انقلاب کی کامیابی سے دنیا بھر کے مظلوم و مستضعف اقوام بالخصوص جہان اسلام میں آزادی وخود مختاری کی امید پیدا ہوئی. لیکن 2000 اور 2006 کی اسرائیلی شکست وذلت اور حزب اللہ لبنان کی فتح وکامیابی کے بعد جہان عرب واسلام کے جوانوں میں اسلامی بیداری نے جنم لیا. اور بڑی تیزی سے عرب ومسلم اقوام میں مقاومت کے بلاک کو مقبولیت حاصل ہوئی. وہ مقاومت کا بلاک جس کا محور ومرکز ولایت فقیه کا ایران اور جس کا ایک مضبوط قلعہ ملک شام اور اسکے طاقتور بازو فلسطین ولبنان ، عراق وشام اور یمن کی انقلابی تحریکیں ہیں.
عالمی استعماری طاقتوں نے خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر کر قلعہ مقاومت کو منھدم کرنے ، مرکز مقاومت کو توڑنے اور اسلامی انقلابی تحریکوں کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور جہان عرب واسلام میں جنم لینے والی اسلامی وعوامی بیداری کی موج پر سوار ہوکر اسے مقاومت کے بلاک کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی. حقیقی انقلابی فکر کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن نے تکفیریت ووھابیت اور اخوانی طرز تفکر سے منسلک گروہوں کو میدان میں اتارا. اس ایجنڈے کی تکمیل میں ایک طرف سعودی عرب و متحدہ عرب امارات اور دوسری طرف ترکی وقطر کا اہم کردار رہا ہے. تکفیریت ووھابیت کی سربراہی و پشت پناہی سعودی عرب وامارات اور اخوانی طرز تفکر کی سربراہی وپشت پناہی ترکی اور قطر کر رہے ہیں.
دشمن نے 2006 کی جنگ میں مقاومت کی فتح و کامیابی کے بعد استعماری نفوذ والے سیاسی نظام سے عوام بہت متنفر ہوئے. اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور عزت کے ساتھ جینے اور اپنے حقوق کے حصول اور آزادی وخود مختاری کا جذبہ پیدا ہوا. دوسری طرف کسی بھی اسلامی بیداری کی تحریک کوم کچلنے اور خطے میں سیاسی بحران اور افراتفری پھیلانے کا استعماری منصوبہ بنا. جسے امریکیوں " فوضی خلاقہ " سے تعبیر کیا. اور اس افراتفری پھیلانے میں سعودیہ وامارات اور ترکی وقطر نے بنیادی کردار ادا کیا. اور انھوں نے تکفیری ووھابی واخوانی گروہوں کو جدید اور پیش رفتہ ترین اسلحہ فراھم کیا اور انکی بھرتیاں اور ٹریننگ کے مراکز بنائے. اور مطلوبہ ممالک میں قبل از وقت مقدماتی کاروائیوں اور سلیپنگ سیلز کی تشکیل دینے کے لئے پہنچا دیا. قطر کے سابق وزیراعظم شیخ حمد بن جاسم نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ 2011 سے 2014 تک ڈرائیونگ سیٹ پر ہمیں (قطر وترکی (اخوان) ) کو بیٹھایا گیا اور باقی سب (سعودیہ ، امارات وغیرہ ) ہمارے ساتھ اور پیچھے والی سیٹ پر سوار تھے. یعنی امریکا وغرب اور اسرائیل کی پشت پناہی سے ہم نے لیبیا ، تیونس ، مصر اور شام میں جو کچھ کیا ہم چاروں ممالک اسے ملکر انجام دے رہے تھے. اسکی مینجمنٹ.، میڈیا وار ، اسلحہ واموال وافرادی قوت کی فراھمی میں بھی سب شریک تھے.
لیبیا نشانہ پر کیوں؟ اور کیسے؟
جاری ہے ۔۔۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے سال 2020کے آغا زپر پاکستانی قوم کے نام اپنا پیغام میڈیا سیل سے جاری کردیا ہے جس کا متن پیش خدمت ہے ۔
السلام و علیکم ورحمة الله
نئے سال کی آمد آمد ہے، اور متاسفانہ کہنا پڑ رہا ہے، کہ ہر دفعہ نئے سال کا آغاز دنیا کے مختلف مقامات پر خدا کی نافرمانی سے ہوتا ہے اور یورپ کی اندھی تقلید کرتے ہوئے مسلمان ملکوں میں یہ غلط رواج عام ہوتا جا رہا ہے، اگرچہ ہمارے ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اور شکر خدا ہے کہ اس وقت یہ سب کچھ نہیں ہوتا، لیکن شمسی سال کا آغاز جس انداز سے ہوتا ہے، وہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے انتہائی شرمناک ہے۔لہذا تمام ہم وطنوں سے گذارش ہےکہ ہم اس نئے سال کا آغاز خدا کی نافرنانی کے بجائے، اس دعا کے ساتھ کریں کہ یہ سال اسلام، مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لئے امن و امان، سکون و راحت، اور ہر میدان میں ترقی اور پیش رفت کا سال قرار دے۔
انہوں نے کہاکہ مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ کرام سے گذارش ہےکہ وہ اس سال کو انتھک محنت، بے پناہ جدوجہد اور پڑھائی کا سال قرار دیں، کیونکہ طلبہ ہی ایک پڑھے لکھے، اور متمدن معاشرے کا بہترین مسقبل ہیں۔تاجر حضرات سرکاری ملازمین، مزدور، محنت کش اور مختلف صنعتوں سے وابستہ لوگ اس سال کو قوم و ملک کی ترقی اور پیش رفت کا سال قرار دیں، اور اسی مقصد کی خاطر مسلسل جدوجہد کریں۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ خدا کرے کہ ہمارے ملک کا یہ سال، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اور اخلاقی اعتبار سے ترقی اور پیش رفت کا سال ہو، امن و امان کی صورتحال بہتر سے بہتر ہو، ملکی سلامتی کو مزید استحکام حاصل ہواور ہم سب نئے عزم و حوصلے اور پختہ ارادے کے ساتھ مل کر دین اسلام اور ملک خدا داد کے لئے بھر پور اخلاص کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریوں پر عمل پیرا ہوں۔
خدا سب کا حامی و ناصر ہو۔
راجہ ناصرعباس جعفری
وحدت نیوز(چنیوٹ) مجلس وحدت مسلمین ضلع چنیوٹ کے زیراہتمام ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ہمیں نظریاتی بنیادوں پرایم ڈبلیوایم کا حصہ بن کر کام کرنا ہوگا اور اور اس حوالے سے ان تمام کوششوں کو کامیاب کرنا ہوگا کہ جس سے ہم اپنے آپ کو بحیثیت ایک ملت متعارف کرواسکیں۔
مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو طاقتور بنانا ہے تاکہ ہم اپنے امام کے ظہور کی راہ ہموار کر سکیں اور اس سلسلے میں آنے والی تمام تکلیفوں کو برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت پیدا کر سکیں ہمیں کبھی بھی ان حکمرانوں سے گھبرانا نہیں ہے اور بحیثیت قوم ہمیں اپنے ملک کے اندر ایک کردار ادا کرنا ہے نشست میں ضلع چنیوٹ کے تمام یونٹس کے نمائندگان نے شرکت کی تقریب کے اختتام پر ایک پرتکلف عشائیے کا بندوبست کیا گیا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو بلتستان کے چپے چپے میں جانے کا اتفاق ہوا اور وقتا فوقتاً دور دراز علاقوں میں دورے کا اتفاق بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ میں ایک ایسی شخصیت کے ساتھ رہتا ہوں جس کی پوری ذندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ 'جس کے اوقات غریبوں کے مسائل کے حل میں گزرتے ہیں جس کی ذندگی کے اکثر ایام سفر میں ہی گزرتے ہیں۔ ایک ایسا مرد حر جو غریبوں کی آواز ہے، مافیا اور چوروں کے خلاف سب سے ذیادہ صدائے احتجاج بلندکرنے والا، اور ظالم کے خلاف سب سے طاقتور آواز کے مالک عالم مبارز مجاہد ملت آغا سید علی رضوی۔ حالیہ دنوں میں ان کی ہمراہی میں بلتستان کے کچھ علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس مرد حر کی قیادت میں ہم بشو گئے انتہائی پر خطر اور کٹھن راستوں(ایک تو راستہ بہت ہی تنگ اور برف کی وجہ سے خطرناک ) سے ہوتے ہوئے ہم کھر پہنچے، جہاں پر علاقے کے زعماء، علماء اور جوانوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور مختصر پروگرام منعقد کیا واپسی پہ جب ہم ایک خطرناک موڑسے مڑ رہے تھے تو سمت مخالف سے گاڑی آرہی تھی، بڑی مشکل سے ہم نے کراس کیا۔ خطرناک راستہ اور راستے کی خستگی کو دیکھ کر ایک عالم سے راستہ اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھا تو اس نے عجیب داستان غم سنایا، جس نے مجھے بھی ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کروانے پے مجبورکیا، اور اس تحریر کے ذریعے سے بلتستان کے بارے میں کچھ حقائق ضبط تحریر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام آگاہ ہوں اور ان مافیاوں کے خلاف جدوجہد کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر نمائندہ کو اے ڈی پی کے مد میں کڑوروں روپے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کاجال بچھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ مگربلتستان کے کسی بھی علاقے میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ جس طرح بجلی کی پیداوار کے نام پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کے ساتھ پاور ہاؤس بنایا جاتا ہے، جبکہ آئے روز بجلی نہ کہیں نظر آتی ہے اور نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بلکہ دن بدن لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب کے لئے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
اسکی ایک وجہ جو سمجھ آئی وہ شاید اس دورے کے دوران سنی گئی روداد سے واضح ہو۔ جب میں بشو پہنچا اور وہاں کے مسائل جاننے کی کوشش کی تو ایک صاحب نے کچھ حقائق کا اظہار کیا وہ کہتا ہے کہ اس روڑ کے لئے ایک نمائندہ نے ایک کڑور کا اعلان کیا مگر ٹھیکہ درٹھیکہ ہوتا ہوا ابھی منصوبے پہ ذیادہ سے ذیادہ 22 لاکھ خرچ کیا گیا ہے اور اس پیسے کی وجہ سے کچھ بھی کام نہیں ہوا۔ بس دو جگہوں پہ دیوار بنائی گئی ہے اور ایک دو جگہوں پے تھوڑا سا راستہ کشادہ کرنے کے لئے کاٹا گیا ہے اور بس۔ اسی طرح دیگر منصوبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے حتی کی چند لاکھ روپے والے منصوبوں میں بھی یہی ہوتاہے۔ جہاں انجیئنر اور ٹھیکہ دار کی ملی بھگت سے کھانے اور کمانے کا جن سوار ہوتا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ان چوروں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔
جبکہ ہم سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد دوسال تک ٹھیکہ دار اور انجیئنر دونوں ذمہ دار ہیں۔ اگر معمولی بھی کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ٹھیکہ دار کو سخت ترین سزادی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان خصوصا ہمارے خطے میں اس کے بلکل برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل مفاد پل اور پاور ہاوس کی تعمیر پر بضد ہیں کیونکہ اس میں کمانے اور کھانے کے لئے پیسہ بہت ہے۔ جب ایک منصوبہ دوچار بار فروخت ہوجائے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ مثلا کچورا میں تین پاور ہاوس موجود ہیں مگر دو پاور ہاوسز کی صرف عمارتیں کھڑی ہیں۔ اسی طرح ہرپو پاور ہاوس کی بھی عمارت ہے مگر بجلی نہیں ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستانی اداروں میں خصوصا گلگت بلتستان میں نوکری بکتی ہے، ضمیر کا سودا ہوتا ہے مگر افسوس! یہاں تو کمیشن پر ٹھیکہ بھی بکتا ہے اور جب ایک ٹھیکہ ایک دو تین بار بک جائے توجتنا پیسہ اس منصوبے پہ لگنا چاہئے اتنا پیسہ نہیں لگتا جتنا اس کام کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ نتیجتا کسی بھی علاقے میں کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔
ایک مثال سکردو شہر کی سڑکوں کی بھی ہے۔ شہر کی مختلف سڑکوں کو ری کار پیٹ کرایا گیا مگر تین ماہ کے قلیل عرصے میں ری کارپیٹنگ کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ سڑکیں پھرسے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کچورا پل کسی ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ ملا تھا۔ اس نے کسی دوسرے ٹھیکہ دارکو فروخت کیا۔ کتنے ہی پاور ہاوسز کی بڑی بڑی عمارت تو نظر آتی ہے مگر کہیں بجلی نظر نہیں آتی۔ پھراس سے ذیادہ افسوس اور دکھ ان بے حس بیورکریٹس اور مفاد پرست کمیشن خوروں پر ہوتا ہے۔ جو جو پاور ہاوس کی عمارت بنانے پہ بضد نظر آتے ہیں خصوصا مقپون پاور ہاوس۔ جس کی تعمیر پر اہل مفاد بضد ہیں جبکہ اہل علاقہ مخالف ہیں۔ کیاعمارت تعمیر کرنا کافی ہے ؟جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری عمارتیں بلکل تیار ہیں بلکہ کچھ توبوسیدہ ہوگئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ کسی جگہ منظور ہوتا ہے توجتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک منصوبہ ایک بار ٹینڈر اور کئی بار مختلف ہاتھوں سے بکتا ہوا پیسہ کم ہوجاتا ہے۔ اور اس جرم میں ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ شریک ہیں ۔ خصوصا انتظامیہ کے لوگ جو دولت مندوں کے سامنے بلی اور غریبوں کے سامنے شیر نظر آتے ہیں۔ نتیجہ گلگت بلتستان جیسے چھوٹے شہروں میں بہت سارے ترقیاتی منصوبوں پرکام ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ورنہ چھوٹے سے شہر میں اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو بے مثال شہر بن سکتا ہے۔
تحریر : شیخ فدا علی ذیشان