وحدت نیوز(گلگت) برسراقتدار حکومت الیکشن 2020 کے انتخابی مہم کا آغاز خلاف قانون و ضابطہ ہے ۔ الیکشن کمیشن فوری نوٹس لیکر صوبائی حکومت کو الیکشن مہم سے باز رکھے ۔ لیگی حکومت سرکاری وسائل کو استعمال کرکے الیکشن مہم کا آغاز کرکے نا اہل ہوچکی ہے ۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت نے سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن 2020 کا انتخابی مہم کا آغاز کرکے اور سرکاری وسائل سے بینرز آویزاں کرکے نا اہلی کے مرتکب ہوئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا الیکشن 2020 کیلئے پوسٹرز چسپاں کرکے باقاعدہ الیکشن مہم شروع کرنے کے بعد اخلاقی طور پر حکومت میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے منصب پر بیٹھ کر انتخابی مہم چلاناخلاف قانون ہے اگر اتنا ہی شوق ہے تو پھر مستعفی ہوکر انتخابی مہم چلائیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام نے نواز لیگ کو اقربا ءپروری، میرٹ کی پامالی اور کرپشن کی بنیاد پر مسترد کردیا ہے اور ان خدشات کے پیش نظر صوبائی حکومت اور خاص کر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ان چھ مہینوں میں سرکاری فنڈز اپنے حلقے کے ووٹروں اور مسجدوں پر خرچ کرکے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری وزیر اعلیٰ کے ان غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن مہم کے آغاز کے بعد چیف سیکرٹری کو چاہئے کہ تمام محکموں کو پابند کرے کہ وہ حکومتی احکامات خاص کر تقرریوں کے معاملے میں کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہ کریں ۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا کہ سرکاری وسائل کے ساتھ الیکشن مہم کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور خاص کر مشیر اطلاعات کے خلاف ایکشن لیکرانہیں نا اہل قرار دے ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے نائیجیریا کے مجاہد عالم دین علامہ محمد ابراہیم زکزاکی کی طویل قید کے دوران ان کی گرتی ہوئی صحت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت علامہ ابراہیم زکزاکی عالم اسلام کے قابل فخر لیڈر ہیں ان کی بیٹی محترمہ سہیلا زکزاکی نے اپنے بہادر والد کی صحت اور زندگی سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس سے تشویش کی لہر پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نےکہا کہ زکزاکی آزادی و حریت عزت و وقار اور دین خدا پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کا استعارہ بن چکے ہیں۔ دنیا ایسے عظیم انسان کو بھلا کیسے نظر انداز کرسکتی ہے جس نے دین اسلام کی راہ میں اپنے چھ جوان بیٹے قربان کر دیئے ہوں اور جیل کی سلاخیں جس کے آھنی عزم کے آگے شرم سار ہو چکی ہوں۔ زکزاکی ہمیں تم پر ناز ہے۔
انہوں نےکہا کہ نائیجیریا کی یزیدی حکومت نے اغیار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جس طرح سے اپنی ہی عوام کا قتل عام کیا ہے اور عوام کے مقبول لیڈر ابراہیم زکزاکی کو بلا جواز قید میں ڈالا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ علامہ ابراہیم زکزاکی کو فی الفور رہا کیا جائے اور ان کے مورد اعتماد ڈاکٹرز سے ان کا علاج کرایا جائے۔
شیعت نیوز: لیبیا نشانہ پر کیوں؟ اور کیسے؟
1- لیبیا گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک ہے. اس لئے اس ملک پر عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنا اپنا تسلط اور نفوذ چاہتی ہیں.
2- جیو پولیٹیکل طور پر یہ ملک مصر ، تیونس اور الجزائر جیسے ممالک کے سنگم میں واقع ہے. خطے کی لبرل اور اسلامی طاقتیں اپنی اپنی مرضی کی حکومت لانا چاھتی ہیں.
3- اس خطے میں اخوان المسلمین کا بھی کافی اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے امارت اسلامیہ یا خلافت عثمانیہ کے احیاء کے منصوبے کو بھی تقویت مل سکتی ہے.
4- اسلحہ سازی اور اسلحہ کی فروخت کی انٹرنیشنل کمپنیوں کا کاروبار بھی اس ملک میں جنگ کو گرم رکھنے اور طول دینے سے چمک سکتا ہے.
5- لیبیا کے سابق آمر معمر قذافی خود کو افریقہ کا شہنشاہ تصور کرتا تھا جب تک اس کا اقتدار رہا اسرائیل کو بھی افریقہ میں قدم رکھنے کا موقع نہیں ملا اب اسرائیل بھی نہیں چاہے گا کہ کوئی دوسرا قذافی لیبیا حکمران بن جائے.
امریکی بلاک کے اھداف اور آلہ کار عناصر
جب عرب و اسلامی دنیا میں نوجوان نسل نے کرپٹ اور امریکہ و اسرائیل کے سامنے بے بس سیاسی نظاموں کے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی تو اس بیداری کی عوامی موج پر سوار ہونے کے لئے دشمن تیار تھا. اور طالبان حکومت کے افغانستان میں خاتمے کے بعد تکفیری کیمپوں کے تربیت یافتہ عرب افغان جنگجو مختلف ممالک میں منتقل ہو گئے. جب 2011 میں جائز عوامی مطالبات کی تحریکوں کا آغاز ہوا. تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے، ان ممالک میں قائم حکومتوں کو گرانے ، خانہ جنگی ، تقسیم ، قتل و غارت کا بازار گرم کرنے اور ان ممالک کی فوجوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے دشمن تیار تھا. افغانستان کے تربیت یافتہ تکفیری و اخوانی کمانڈرز جیسے لیبیا کے عبدالحکیم بلحاج ودیگر ، عراق میں ابو مصعب الزرقاوی و دیگر ، سوریہ میں شیخ عدنان عرعور و دیگر وغیرہ سب خود کو عالمی سامراج کی جانب سے تفویض ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے تیار تھے. امریکہ و مغرب و اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے قطر ، سعودی عرب ، ترکی و امارات وغیرہ سب نے اسلحہ ، ٹریننگ ، لاجسٹک اور مالی مدد کی اور ڈپلومیٹک اور میڈیا وار بھی اپنے چینلز کے ذریعے لڑی.
جیسا کہ گذشتہ کالم میں بھی بیان کیا . اور بقول قطری شہزادے حمد بن جاسم کہ اتفاق اس بات پر تھا کہ ہم یعنی قطر ڈرائیونگ سیٹ پر ہونگے اور لیڈنگ کردار ادا کریں گے. اور ہمارے اس خطے کے شرکاء و اتحادی ترکی ، سعودیہ ، امارات ، بحرین وغیرہ سب ہمارا ساتھ دیں گے. جب لیبیا میں فروری 2011 میں تحریک چلی تو قذافی حکومت گرانے میں سب سے بڑا رول بھی قطر نے ہی ادا کیا.
لیبیا بحران میں قطر کا کردار
قطر ان ممالک میں سے ایک ہے کہ جس کا قذافی حکومت گرانے میں بنیادی کردار ہے. قطر نے الجزیرہ ودیگر چینلز کے ذریعے میڈیا وار میں بنیادی کردار ادا کیا. عرب لیگ اور اقوام متحدہ میں لیبیا پر حملوں کی راہ ہموار کی. اور شدت پسند اسلامی گروہوں کے ذریعے بغاوت کروانے اور خانہ جنگی کے لئے ہر طرح کی مالی مدد کی اور دسیوں ٹن اسلحہ وہاں پہنچایا.
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق قطر نے اخوان المسلمین کے مقامی لیڈروں سے متعدد تنظیمیں بنوائیں اور انکی ہر لحاظ سے مدد بھی کی.
قطر نے لیبیا میں:
1- ڈاکٹر علی الصلابی کی قیادت میں جماعت اخوان کی بنیاد رکھی.
2- ڈاکٹر محمد صوان کی قیادت میں اخوانی فکر کی حامل حزب العدالہ والبناء کی بنیاد رکھی.
3- عبدالحکیم بلحاج کی قیادت میں حزب و الوطن کی بنیاد رکھی جس نے قذافی کے قتل اور اقتدار کے خاتمے میں عسکری میدان میں بنیادی کردار ادا کیا.
4- جمعہ القماطی کی قیادت میں حزب التغیر کی مدد کی.
5- السویحلی کی قیادت میں حزب الاتحاد من اجل وطن اور دیر کئی ایک گروھوں کو قذافی حکومت کے خلاف کھل کر مدد کی .
اس کے علاوہ ان مذکورہ جماعتوں کے لئے میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی چینلز بھی لانچ کر کے دیئے.
بین الاقوامی فورسز کی عسکری کارروائیوں اور فضائی حملوں کا خرچ بھی قطر نے اس شرط پر ادا کیا کہ اپوزیشن اور بین الاقوامی طاقتیں طے کریں کہ دس سال تک لیبیا کے گیس اور تیل کی فروخت کے معاہدوں سے وہ اپنا خسارہ پورا کرے گا.
جس قسم کے لوگوں پر قطر نے اعتماد کیا اور انکی مدد کی ان میں سے فقط ایک شخص کا تھوڑا تعارف کرواتے ہیں. اور باقی ساری پارٹیاں ، گروہ اور لیڈرز بھی اسی قسم کی (شدت پسند اخوانی) فکر اور تاریخ کے حامل ہیں. جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا رپورٹس سے کی جا سکتی ہے.
عبدالحکیم الخویلدی بلحاج
یکم مئی 1966 کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں پیدا ہوا. طرابلس یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی. فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1988 میں جہاد کرنے افغانستان چلا گیا. اور چند سال وہیں پر مقیم رہا. اور اس عرصے میں پاکستان ، ترکی اور سوڈان سفر کئے. اور انہیں ممالک میں مختصر مدت کے لئے قیام بھی کیا. 1994 میں اپنے ملک لیبیا گیا اور اپنی بنائی ہوئی تنظیم " الجماعۃ الاسلامیہ اللیبیۃ المقاتلۃ " کو منظم کیا. اور حکومت لیبیا کے خلاف مسلح جہاد کرنے کے لئے الجبل الاخضر کے علاقے میں عسکری ٹریننگ کیمپ قائم کیا. 1995 کو لیبیا حکومت نے یہ کیمپ تباہ کردیا اور کافی کمانڈر اور جنگجو مارے گئے اس دوران بلحاج فرار ہوکر واپس افغانستان چلا گیا. افغانستان میں عبدالحکیم بلحاج عبد اللہ الصدیق کے نام سے معروف ہوا. اور اس نے اپنی پارٹی کے اراکین کی تربیت کے لئے افغانستان میں ہی کیمپ بنایا اور ابوحازم کو اپنا نائب ، ابو منذر الساعدی کو شرعی امور کا انچارج اور خالد الشریف کو سیکورٹی امور کا انچارج بنایا.
فروری 2004 کو ایمیگریشن حکام کے توسط سے اسے امریکی سی آئی اے نے کوالمپور سے گرفتار کر لیا اور تحقیق کے بعد اسے لیبیا حکومت کے حوالے کر دیا. چند سال لیبیا کی ابو سلیم جیل میں گزارے. اخوان المسلمین لیبیا کی لیڈرشپ نے قذافی حکومت سے اسکی رہائی کے لئے رابطے کئے. اخوان المسلمین لیبیا کے امیر الشیخ ڈاکٹر علی الصلابی اور الشیخ یوسف القرضاوی کی کوششوں سے کرنل قذافی نے اپنی سابقہ روش کےخلاف بلحاج کو دیگر 214 اخوانی قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا. شاید یہ اس وقت کے بیرونی پروپیگنڈے اور پریشر کا نتیجہ تھا.
بلحاج نے 17 فروری کی تحریک میں عسکری میدان میں قذافی حکومت گرانے میں اھم کردار ادا کیا. یہ شخص قذافی حکومت کے سقوط کے وقت باب العزیزیہ پر میڈیا میں سامنے آیا. اور الجزیرہ چینل پر بلحاج نے طرابلس کی آزادی کے لیے کیے جانے والے عسکری آپریشن کی کامیابی کا اعلان کیا. اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اب طرابلس شہر کی عسکری کونسل کا سربراہ ہے. 2011 سے لیکر آج تک یعنی 2020 کی ابتداء تک عبدالحکیم بلحاج ہی دارالحکومت طرابلس کی عسکری کونسل کا سربراہ ہے. اور اسکا مرکز جو معیتیقۃ کے فضائی اڈے پر قائم ہے یہ لیبیا کی وزارت دفاع کے اختیارات اور کنٹرول سے باہر ہے.
قطر نے بلحاج کو طیارے خریدنے کی صرف ایک مد میں 750 ملین ڈالرز دئے. اس نے فضائیہ کمپنی."اجنحۃ للطیران" بنا رکھی ہے. اور انکے طیارے مسافر بردار بھی ہیں اور انسانی سمگلنگ اور جنگجوؤں کی نقل وحرکت کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں. 12 جون 2017 کو فرانسیسی حکومت کے ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ بلحاج کی ثروت 2 ارب ڈالرز ہے. یہ ان 100 افراد میں سے ایک ہے جو قذافی حکومت کے گرنے کے بعد مالدار ہوئے ہیں۔
لیبیا کے بحران میں ترکی کا کردار
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان کے جس علاقے میں بھی جاتا ہوں ہر کوئی مذہب پہ یا کسی مذہبی شخصیت پہ انگلی اٹھاتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ یوں کہے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ مذہب پر انگلی اٹھانا تو اب فیشن بن گیا ہے۔یہاں تک کہ پڑھا لکھا طبقہ تو ہمیشہ مذہبی بہت سارے معاملات میں خود اجتھاد کرتا ہے اور اپنی ذاتی سوچ کو ہی حرف آخر سمجھنا ضروری سمجھتا ہے۔ دینی معاملات میں بھی بعض افراد یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میرا دل نہیں مانتا۔ اس میں خود مذاہب، فرقوں اور علماء کا اختلاف ہے لھذا اس مسئلے میں میں وہ کرتا ہوں جو میرا دل مانے۔ جس طرح مذہب مورد تنقید ہوتا ہے ویسے ہی مذہبی فرد بھی تنقید کا نشانہ ہوتا ہے۔ خصوصا اگر کوئی دینی طالب علم ہو جو دینی علوم کے حوالے سے کوئی بات کرے، یہاں تک کہ بعض تو وہ ہیں جو دینی طلبا کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے کو قدامت پسند اور تیسری دنیا کے مخلوق سمجھتے ہیں، کیونکہ ان نفسانی خواہشات کے اسیر بظاہر اہل علم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی علمائے دین ہیں۔ جو بے حیائی و عریانی اور مخلوط پروگرامز وغیرہ کے انعقاد کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ ان پہ سرعام تنقید کرتے ہیں۔ وہی افراد جو قوم کے بچوں کے ساتھ ایسے اجتماعات کرتے ہیں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ جبکہ دینی تعلیم و تربیت سے عاری ایسے ڈگری یافتہ افراد نے معاشرے کی بنیادوں کو جس طرح دیمک کی طرح چاٹ کر اور اور دانتوں سے چبا کر رکھا ہے اس کی ایک لمبی داستان ہے، جس کو ہم کسی اور موقع پہ بیان کریں گے۔
جس طرح مذہب کے خلاف بولنا فیشن ہے اسی طرح دینی طلبا کے خلاف زہر اگلنا بھی فیشن ہے۔ حیرت کی انتہا تب ہوتی ہے جب یہ سننے کو ملتی ہے کہ اگر مذہب کے ساتھ رہے تو ترقی نہیں ہو سکتی۔ مذہبی پارٹیوں نے بلتستان کو تاریک میں رکھا۔ اب مذہبی پارٹیوں کونہیں بلکہ وفاقی پارٹیوں کو ووٹ دے کر جتوانا چاہئے تاکہ ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جائے۔ ہمارا مستقبل روشن تب ہوگا جب ہم وفاقی پارٹی کے ساتھ رہیں گے۔" بلتستان حلقہ 2 میں اب باقاعدہ یہ کہا جارہا ہے کہ مذہبی پارٹیوں کی وجہ سے یہ حلقہ پسماندہ رہا ہے لھذا اب وفاقی پارٹی کا جیتنا ضروری ہے۔ در اصل یہ ماضی سے انجان ہونے کی نشانی ہے۔ یادش بخیر گلگت بلتستان میں ایک وفاقی پارٹی جیت گئی تھی یہاں تک اسی مذکورہ حلقے میں بھی وفاقی پارٹی کا نمائندہ بھاری اکثریت سے جیتا تھا اس کا تعلق کسی مذہبی پارٹی سے نہیں تھا۔ اس کے دس سالہ دور اقتدار میں کونسا بڑا کارنامہ انجام دیا گیا؟ کون سا ایسا تیر مارا وفاقی سیکولر پارٹی ہونے کے ناطے۔ سوائے کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروی اور لاقانونیت کی انتہاءکے۔ جب پہلے ایک وفاقی پارٹی کے دس سالہ دور اقتدار میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا تو آپ کی پارٹی سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جبکہ اس میں وہی پرانے لوٹے جمع ہیں۔
آپ پھر کہتے ہیں کہ ہمارا خطہ مذہبی پارٹی کی وجہ سے پسماندہ رہا۔ لگتا ہے آپ کی نظر بہت ہی محدود ہے۔ آپ کو ابھی تک آپ کے بنیادی مسائل سے واقفیت ہی نہیں ہے تو آپ کیا ترقی کی بات اور ترقی کے راز بتاتے ہیں؟ آپ کی نظر میں ترقی سے مراد سڑک کشادہ ہو، گلی کوچے پکے ہوں، بجلی کے فراوانی ہو، آپ کی تفریح کے لئے پارک اور سیرگاہ ہوں۔ توجناب یہ تو ترقی نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ کی بنیادی ضروریات ہیں جن کو پورا کرنا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے یہ تو آپ کے بنیادی مسائل ہیں جس کو حل کرنے کے لئے ذمہ دار افراد بیٹھے ہیں مگر ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ حقیقت میں آپ کی ترقی یہ ہے کہ اپ کی تقدیر کے فیصلے آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ آپ کی تعلیم کا نظام آپ کا اپنا بنایا ہوا نظام تعلیم ہو۔ آپ کا اقتصاد آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ ہمارے آباؤاجداد نے جس نظریے کی خاطر پاکستان میں شامل کیا تھا اس نظریئے کا تحفظ اپ کریں اور اس کی ترویج کا اختیار آپ کے پاس ہو تو ہم کہیں گے کہ آپ ترقی یافتہ ہیں۔ جبکہ حقیقت بلکل اس کے برعکس ہے۔ یہ خود کسی این جی او کے ملازم ہیں اور کسی دوسرے کے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ چند ختم ہونے والے پیسوں کے عوض اپنی قوم وملت کا سودا کرتے ہیں آپ کو کیا پتہ کہ قوم کی ترقی کا راز کیا ہے؟
یہ وہ لوگ ہیں جن کو قوم کی عزت سے ذیادہ اپنا پیٹ عزیز ہے اپ کہتے ہیں کہ اس حلقے کو مذہب نے پسماندہ رکھا۔ میں تو کہتا ہوں اس حلقے کو آپ جیسے مفاد پرستوں ، شکم پرستوں اور مغربی این جی اوز کے فضلہ خوروں نے پسماندہ رکھا۔ اس حلقے کو سیاسی ضمیر فروش لوگوں نے پسماندہ رکھا۔ اس علاقے کو پسماندہ ان وفاق پرست پارٹیوں نے رکھا جن کا ہم و غم الیکشن میں جیت کر پانچ سال لوٹنا ہوتا ہے۔ نتیجہ تمام لوٹے پانچ سال مفادکے لئے جمع ہوتے ہیں نظریئے کے لئے نہیں جمع ہوتے۔ یہی وجہ ہے جب اگلے پانچ سال کے لئے کوئی دوسری پارٹی برسر اقتدار آ جائے تو یہ مٹھی بھر کمیشن خور وفاقی پارٹی ڈھونڈتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ بس پیسہ اور اقتدار ہے۔ یوں پوری زندگی لوٹا کریسی اور ضمیر فروشی میں گزر جاتی ہے اور اسی کو اپنی بہترین حکمت عملی سمجھتے ہیں ۔ جس کی نظیر بھی اب میرے شمار سے باہر ہے۔ میرے بھائی آپ اگر اہل علم میں سے ہیں تو چشم بصیرت کے ساتھ دیکھ لوتاکی کچھ حقیقت آپ کو نظر آجائے۔
میں اس بات کا ببانگ دہل اعتراف کرتا ہوں کہ بلتستان میں حلقہ 2 نے ہمیشہ مذہبی حلقہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور باقی حلقوں کی نسبت ایک باشعور حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس اس حلقے میں ذمہ داری، حکمت عملی اورپلاننگ کے ساتھ باقاعدہ کوئی تربیتی، تعلیمی، معاشرتی ، سیاسی وسماجی اور ترقیاتی خصوصا کوئی فکری اور نظریاتی کام نہیں ہوا ، پھر بھی کسی حد تک کام ہوا ہے۔ جو کہ نہ ہونے کے برابرہے۔
اسوقت قوم کی زیادہ سے ذیادہ فکری اور نظریاتی تربیت ضروری اور واجب ہے۔ قومیں سڑکوں، عمارتوں اور مادی ترقیوں سے باقی اور قائم نہیں رہتی، بلکہ قومیں افکار اور نظریات کی بنیاد پر قائم رہتی ہیں۔ ہرقوم کو اس کے پائیدار نظریات سے پہچانا جاتا ہے اور انقلاب کا دارومدار بھی نظریات ہی ہوا کرتا ہے۔ اسی لئے سامراجی طاقتوں نے تمام حربوں کو آزمایا، جب ناکام ثابت ہوئے تو ایک خطرناک حربہ آزمایا جس سے پوری قوم ملیامیٹ ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس قوم کو اس کے نظریئے سے ہٹادو۔ مثلا عراقی قوم میں سیکولر نظریات کو پھیلانے کے لئے عبد الکریم اور حسن بکر نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کا آغاز سکول کے بچوں سے کیا۔ جس کی سزا آج عراقی بھگت رہاہے۔ اسی طرح آپ ترکی کو دیکھ لیں۔ اب ایک عرصے سے ایران نشانہ پر ہے۔ جس طرح ان ملکوں کو تباہ کرنے کے لئے ان ملکوں کے باشندوں سے ان کے نظریات چھیننے کی کوششیں کی جارہیں ہیں آج گلگت بلتستان سے بھی ان کے اس نظریہ کو چھینا جارہا ہے جس نظریہ کی وجہ سے اس خطے کا پاکستان کے ساتھ سب سے مضبوط رشتہ قائم ہے۔اور وہ نظریہ توحید، اسلام ، قرآن کا نظریہ ہے۔ نظریہ توحید ہی وہ بنیادی نظریہ ہے جس سے انسان اقدارپرست 'قانون 'اخلاق اور ظالم سے نفرت اورمظلوم کا ہمدردبنتاہے۔ جس طرح حکیم امت نے فرمایا
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کھبی
آج کیا ہے ، فقط اک مسئلہ علم کلام
عقیدہ توحید کا نظریہ وہ بنیادی نظریہ ہے جس سے انسانی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ انسان نہ ظلم کرتا ہے نہ ظالم کو برداشت کرتا ہے بلکہ ظلم اور ظالم کے راستے کو روکنے کاجذبہ پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں بحیثیت مسلمان ہر برائی کے خلاف قیام کرنا ضروری ہے۔ گلگت بلتستان کا ہر فرد اسی جذبے سے سرشار ہے اور ظلم و ظالم کا راستہ روکنے کے لئے تیارہے جس کی وجہ سے اب گلگت بلتستان میں اسی جذبے کوختم کرنے کے لئے باقاعدہ سکیم اور پلاننگ کے ساتھ سیکولر نظریات کی ترویج کی جارہی ہے اور نوجوانوں کوٹارگت کیا جارہا ہے جوکی سب سے خطرناک اور ہولناک سازش ہے جس کی روک تھام ضروری ہے وگرنہ انے والے سالوں میں یہ خطہ بے مثال جرائم و کرائم ، بدامنی اورتمام منکرات کا مرکز ہوگا۔ جس کا خمیازہ یہاں کے ہر ایک باسی کو بھگتنا پڑے گااور وہ نقصان کہیں ذیادہ ہوگا موجودہ پسماندگی سے (بقول بعض)۔ جس طرح سابقہ کمشنر حمزہ سالک نے بلتستان کے لوگوں کو سیکولر ہی قرار دیا تھا۔ جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کو ایک مذہبی خطے سے نکال کر ایک بے دین، لاابالے، لا تعلق اور بے حس خطہ بنانے کی پوری کوشش ہورہی ہے تاکہ عالمی طاقتوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ مذہب نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ ہے جس کی ترویج ہر جگہ خصوصا تعلیم کے نام پر تعلیمی اداروں میں کی جا رہی ہے۔اور اب انے والے الیکشن میں سیکولر، بے دین، روشن خیال، خائن، ضمیر فروش اور دین و مذہب مخالف افراد کو لایا جائے گا اور مذہبی پارٹیوں کا صفایا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسے میں ہمیں بھی باریک بینی کے ساتھ ان سازشوں کے خلاف ہمت و ہوشیاری سے مقابلہ کرکے ان باطل نظریات کی روک تھام کرنا ہوگی۔ ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
تحریر: شیخ فداعلی ذیشان
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مشکلات میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے جومایوس کن ہے۔عوام کو تحریک انصاف سے بہت ساری توقعات وابستہ تھیں۔ملک کے موجودہ حالات ماضی میں عوام سے کیے گئے وعدوں کی نفی ثابت ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم بیشی تمام اشیائے ضروریہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں عوام کسی نئے بوجھ کے قطعی متحمل نہیں ہیں۔حکومت کے پالیسی ساز ادارے ان وجوہات کا تدارک کریں جو موجودہ حکومت کی ساکھ کو تباہ کر نے کے ساتھ ساتھ قوم میں مایوسی پیدا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی،بے روزگاری، لاقانونیت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مشکلات میں کمی ہو۔ پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد ونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔بڑھتے ہوئے اخراجات عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ریاست کو ماں جیسا کردار ادا کرنا ہو گا۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور ایل جی پی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری سیاسیات سید حسن کاظمی نے حالیہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیا سال ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ موجودہ حکومت نے پاکستانی غریب عوام پر نئے سال کے پہلے ہی دن پیٹرول بم گرا دیا. نئے سال کے پہلے ہی دن فی لیٹر 3 روپے 10 پیسے کا اضافہ غریب عوام کی کمر توڑ دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
ان کاکہنا تھاکہ موجودہ نے حکومت میں آنے سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ تبدیلی کے بعد ملک سے غربت کا ختم ہو جائے گا. مہنگائی کی حالیہ صورتحال کے بعد یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ غربت کا چاہے خاتمہ ہو نہ ہو غریب عوام کا حتماً خاتمہ ہو جائے گا۔
انہوںکہاکہ وزیراعظم عمران خان اگر غربت سے دوچار پاکستانی عوام کے خیر خواہ ہیں تو بجائے پیٹرول، ایل پی جی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کرنے کے انہیں کم کرنے کی کوشش کریں اور نئے پاکستان کو فائدہ مند پاکستان ثابت کریں وگرنہ اس ہی رفتار سے مہنگائی ہوتی رہی تو عوام پرانے پاکستان میں ہی اپنی بقاء تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔