لیبیا میں جاری اقتدار کی جنگ (1)

31 دسمبر 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت لیبیا پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں لیبیا میں کھل کر آمنے سامنے آ چکی ہیں. 2011 سے لیبیا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے.  ایک طرف قتل وغارت کا بازار گرم ہے، خون بہ رہا ہے، تباہی وبربادی ہو رہی ہے تو دوسری طرف عالمی اور علاقائی طاقتیں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے لیبیا کے قدرتی وسائل اور ذخائر لوٹ رہی ہیں.

لیبیا شمالی افریقہ کا تقریبا سات ملین کی آبادی کا عرب اسلامی ملک ہے۔ انتظامی تقسیم کے لحاظ سے اسکے 22 اضلاع ہیں. اس کے شمال میں سمندر ، مشرق میں مصر ، جنوب مشرق میں سوڈان ، جنوب میں چاڈ اور نیجر ، اور مغرب میں الجزائر اور تیونس واقع ہیں. لیبیا کا دارالحکومت طرابلس تقریبا ایک ملین کی آبادی کا شہر ہے. لیبیا 1951 میں اٹلی استعمار سے آزاد ہوا اور 1969 میں فوجی ڈکٹیٹر کرنل معمر قذافی نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سنبھالا جس کے خلاف فروری 2011 میں ایک تحریک چلی اور اگست 2011 میں اس کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ 20 اکتوبر 2011 کو معمر قذافی کو وحشیانہ انداز سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا. گیس اور پٹرول سے مالا مال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا. 2012 سے ابتک کوئی مستقل حکومت قائم نہیں ہو سکی اور اس وقت کی عارضی حکومت جس کا کنٹرول صرف طرابلس تک محدودہے اس کے سربراہ اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے فائز السراج  ہیں. جبکہ ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول لیبیا کی فوج کے سابق جنرل خلیفہ حفتر کے پاس ہے.

اگر ہم ان تمام حالات و واقعات کو بیان کریں اور تحلیل وتجزیہ لکھیں تو اس کے لئے دسیوں کالمز کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا. ہم اس کالم میں لیبیا کی صورتحال میں عالمی طاقتوں اور خطے میں معروف  سنی سیاسی اسلام کی علمبردار اخوان المسلمین کے کردار کے چند ایک پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے.

موجودہ صورتحال میں لیبیا کے اندر عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کردار

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مسلم وعرب ممالک نے آزادی حاصل کی تو مجموعی طور پر خطے میں ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں آیا کہ جس کے بنیادی فیصلے مشرقی یا مغربی بلاک کی مرضی سے ہوں. استعماری طاقتوں نے اپنا اثر نفوذ قائم رکھنے اور مفادات کے حصول کے لئے کسی ملک میں بادشاہت اور کسی ملک میں فوجی ڈکٹیٹر شپ اور کسی ملک پر نام نہاد جمہوری نظام مسلط کیا. اس سیاسی نظام  کی حالت یہ تھی اور ہے کہ جب جہان اسلام کے سنگم میں ناجائز صہیونی ریاست قائم کی گئی تو چند لاکھ یہودیوں کے سامنے کروڑوں مسلمان بے بس نظر آئے.  ایک ناجائز چھوٹی سی ریاست نے پورے جہان اسلام کی بڑی بڑی فوجوں کو کئی بار ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا اور انکی زمینوں پر بھی غصب کیا.

فروری 1979 میں جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو استعماری منصوبوں کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا. اس اسلامی بیداری سے آنے والے اس عوامی واسلامی انقلاب کی کامیابی سے دنیا بھر کے مظلوم و مستضعف اقوام بالخصوص جہان اسلام میں آزادی وخود مختاری کی امید پیدا ہوئی.  لیکن 2000 اور 2006 کی اسرائیلی شکست وذلت اور حزب اللہ لبنان کی فتح وکامیابی کے بعد جہان عرب واسلام کے جوانوں میں اسلامی بیداری نے جنم لیا.  اور بڑی  تیزی سے عرب ومسلم اقوام میں مقاومت کے بلاک کو مقبولیت حاصل ہوئی. وہ مقاومت کا بلاک جس کا محور ومرکز ولایت فقیه کا ایران اور جس کا ایک مضبوط قلعہ ملک شام اور اسکے طاقتور بازو فلسطین ولبنان ، عراق وشام اور یمن کی انقلابی تحریکیں ہیں.  

عالمی استعماری طاقتوں نے خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر کر قلعہ مقاومت کو منھدم کرنے ، مرکز مقاومت کو توڑنے اور اسلامی انقلابی تحریکوں کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور جہان عرب واسلام میں جنم لینے والی اسلامی وعوامی  بیداری کی موج پر سوار ہوکر اسے مقاومت کے بلاک کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی. حقیقی انقلابی فکر کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن نے تکفیریت ووھابیت اور اخوانی طرز تفکر سے منسلک گروہوں کو میدان میں اتارا. اس ایجنڈے کی تکمیل میں ایک طرف سعودی عرب و متحدہ عرب امارات اور دوسری طرف ترکی وقطر کا اہم کردار رہا ہے. تکفیریت ووھابیت کی سربراہی و پشت پناہی سعودی عرب وامارات اور اخوانی طرز تفکر کی سربراہی وپشت پناہی ترکی اور قطر کر رہے ہیں.

دشمن نے 2006 کی جنگ میں مقاومت کی فتح و کامیابی کے بعد استعماری نفوذ والے سیاسی نظام سے  عوام بہت متنفر ہوئے.  اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور عزت کے ساتھ جینے اور اپنے حقوق کے حصول اور آزادی وخود مختاری کا جذبہ پیدا ہوا.  دوسری طرف کسی بھی اسلامی بیداری کی تحریک کوم کچلنے اور خطے میں سیاسی بحران اور افراتفری پھیلانے کا استعماری منصوبہ بنا. جسے امریکیوں        " فوضی خلاقہ " سے تعبیر کیا. اور اس افراتفری پھیلانے میں سعودیہ وامارات اور ترکی وقطر نے بنیادی کردار ادا کیا. اور انھوں نے تکفیری ووھابی واخوانی گروہوں کو جدید اور پیش رفتہ ترین اسلحہ فراھم کیا اور انکی بھرتیاں اور ٹریننگ کے مراکز بنائے.  اور مطلوبہ ممالک میں قبل از وقت مقدماتی کاروائیوں اور سلیپنگ سیلز کی تشکیل دینے کے لئے پہنچا دیا. قطر کے سابق وزیراعظم شیخ حمد بن جاسم نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ 2011 سے 2014 تک ڈرائیونگ سیٹ پر ہمیں (قطر وترکی (اخوان) ) کو  بیٹھایا گیا اور باقی سب (سعودیہ ، امارات وغیرہ ) ہمارے ساتھ اور پیچھے والی سیٹ پر سوار تھے.  یعنی امریکا وغرب اور اسرائیل کی پشت پناہی سے ہم نے  لیبیا ، تیونس ، مصر اور شام میں جو کچھ کیا ہم چاروں ممالک اسے ملکر انجام دے رہے تھے. اسکی مینجمنٹ.، میڈیا وار  ، اسلحہ واموال وافرادی قوت کی فراھمی میں بھی سب شریک تھے.

لیبیا نشانہ پر کیوں؟ اور کیسے؟

جاری ہے ۔۔۔


تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree