وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ضلع جنوبی کے ڈیفنس ویو یونٹ کی تشکیل نوکردی گئی،یونٹ اراکین نے کثرت رائے سے برادر حسن کاظمی کو ایم ڈبلیوایم ڈیفنس ویویونٹ کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا جن سے ڈویژنل سیکریٹری امور تنظیم سازی سید ذیشان حیدر نے حلف لیا، اس موقع پر ڈویژنل پولیٹیکل سیکریٹری میر تقی ظفر ، ضلع جنوبی کے عبوری سیکریٹری جنرل حسن رضا اور دیگر کارکنان بھی موجود تھے ، اجلاس سے قبل مجلس شہادت حضرت فاطمہ زہراؑ منعقد ہوئی اور ماتم داری بھی کی گئی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) بیداری ایک مسلسل عمل کا نام ہے، افراد کی بیداری سے اقوام بیدار ہوتی ہیں، اور اقوام کی بیداری ممالک و معاشروں کی بیداری کا باعث بنتی ہے، جس طرح نیند اور غفلت میں ایک نشہ اور مستی ہے اسی طرح بیداری میں بھی ایک لذّت، طراوت اور شگفتگی ہے۔
اگر ہم انتخابات کے ذریعے اپنے ملک میں بیداری اور تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں گام بہ گام تمام شعبہ ہای زندگی میں بیداری کے ساتھ درست انتخاب کی عادت ڈالنی ہوگی۔ہمیں عملی طور پر اپنا آئیڈیل، رول ماڈل اور نمونہ عمل رسولِ اعظمﷺ کی ذاتِ گرامی کو بنانا ہوگا۔
پیغمبرِ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کی طرح سیاسی زندگی میں بھی بطورِ رہبر ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان ایک مکمل اور بھرپور سیاسی زندگی گزار کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے سیاستدانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔
مدینے سے ہجرت کے دوران جب آپ ﷺ قبا کے مقام پر کچھ دن کے لئے ٹھہرے تو یثرب سے لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے، آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اور مسلمان ہوکر پلٹتے تھے، بلاشبہ تلواریں توفقط شر سے دفاع اور احتمالی ضرر سے بچاو کے لئے تھیں چونکہ لوگ تو آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر دیوانہ وار کلمہ پڑھتے جارہے تھے۔
مورخ کو یہ لکھنے میں قطعا کسی قسم کی تردید نہیں کہ مدینہ پیغمبرِ اسلام کے اخلاق کی وجہ سے مفتوح ہوا، آج جب ہم کسی کو اپنا سیاسی لیڈر یا رہنما منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے اخلاق اور عادات و اطورا کے بارے میں بھی جانیں۔
مدینے میں جب رسولِ گرامی ﷺ کی سواری داخل ہوئی تو ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا، کبھی کسی قبیلے کا رئیس آپ کی اونٹنی کی لگام تھام لیتا تھا کہ ہمارے ہاں تشریف رکھئے ، کبھی کسی گروہ کا کوئی معزز فرد آپؐ کی اونٹنی کی باگ تھام کر اپنے گھر میں ٹھہرنے کی التجا کرتا تھا، کبھی کوئی بڑا تاجر آگے بڑھ کر دستِ ادب دراز کر کے شرفِ میزبانی حاصل کرنے کی اپیل کرتا تھا اور کبھی کسی محلے کا کوئی بزرگ آپ کے نعلین مقدس کو چوم کر اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دیتا تھا، لیکن آپ نے سب سے یہی کہا کہ میری اونٹنی کو چلنے دیجئے یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، یہ جہاں خود ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ اونٹنی نہ کسی سردار کے گھر ٹھہری، نہ کسی وڈیرےکےہاں اس نے ڈیرہ ڈالا ، نہ کسی بزرگ کے ہاں اس نے زانو ٹیکے بلکہ مدینے کے ایک عام شخص حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام میں اہلِ اسلام کے لئے یہ پیغام تھا کہ رسولِ اسلام کے تعلقات کسی کے ساتھ کسی کی خاندانی شرافت و منزلت، قبائلی جاہ و حشمت اور خاندانی مال و ثروت کی بناپر نہیں ہونگے بلکہ ایک عام مسلمان بھی رسولِ اکرم کے نزدیک اتناہی محترم تھا جتنے کہ قبائل کے امرا و سردار تھے۔
یہ اسوہ حسنہ ہے آج پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی رہبر ی و قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ جن کے نزدیک امرا اوفقرا کی کوئی تمیز نہ ہو۔
اور ہاں! سیرت النبیﷺ اس بات پر شاہد ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ، غربا، فقرا اور مساکین پر زیادہ توجہ دیتے تھے تاکہ زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر کے سامنے کچھ زمین خالی پڑی ہوئی تھی، اس کے مالک دو یتیم بچے تھے، نبی اکرمﷺ نے مسجد کے لئے وہ زمین اپنی جیب سے خریدی اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کے کام میں صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا پسینہ بہایا۔
آج کل ہمارے ہاں ہمارے لیڈر شجر کاری مہم کے افتتاح کے لئے زمین پر ایک ضرب لگاکر لاکھوں تصویریں بنواتے ہیں اور اگر کسی غریب فقیر کی مدد کر دیں تو اخبارات و جرائد ان کے بیانات سے بھر جاتے ہیں۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی زمین اپنی جیب سے خرید کر اور مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح کام کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کا لیڈر وہ ہو جو دینی امور کے نام پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور دین کے کاموں میں عملاً مشقت میں کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو۔
جب تک ہمارے لیڈر بیت المال کو چوسنے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے اور عوام کے ساتھ برابر مشقت اٹھانے کی عادت نہیں اپنائیں گے اس وقت تک معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
جب مسجد کے لئے موذن کے انتخاب کا وقت آیا تو سروروعالمﷺ نے بڑے بڑے رئیس زادوں، آقا زادوں، تاجروں، مالداروں، مہاجروں، انصار اور نامی و گرامی شخصیات کے ہوتے ہوئےحبش کے ایک سیاہ رنگ کے شخص کا انتخاب کیا جس کی زبان میں بھی لکنت تھی۔
حضرت بلال حبشیؓ کو بطور موذن منتخب کر کے آپ نے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی کی ظاہری خوبصورتی، رنگ و نسل، قوم و قبیلے، برادری اور علاقے نیز ملک و خطے کی کوئی اہمیت نہیں دینِ اسلام میں ایمان، تقویٰ اور اسلام پر عمل ہی اصل میزان ہے۔
پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ سے انتخاب کا طریقہ سیکھیں اور انتخابات میں عشقِ رسولﷺ کا مظاہر کریں۔
اگر ہم نعرے تو عشقِ رسولﷺ کے لگاتے رہیں اور ووٹ بدمعاشوں اور شرابیوں کو دیتے رہیں تو اس سےہمارا اعمال نامہ بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔
کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ جو سیرت النبیﷺ کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (اسلام آباد) ن لیگ کا دور حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہا کوئی بھی قومی ادارہ منافع میں نہیں ملکی آمدن کا سب سے اہم حصہ شعبہ زراعت حکومتی نااہلی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کسانوں کے وفد سے ملاقات میں کیا،ان کا کہنا تھا پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر شعبہ زراعت نااہل حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت دن بدن تنزلی کی طرف جار ہا ہے ۔ملک کے کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔حکومتی پالیساں صرف سرمایہ دار طبقے کو فائدہ دے رہی ہیں ۔مرکزی و صوبائی سطح پر کوئی مربوط اور جامع زرعی پالیسی موجود نہیں ۔
انہوں نے مزید کہاکہ جنوبی پنجاب کے کسانوں کو مجبور کیا جار رہے کہ وہ اپنا گنا سستے داموں فروخت کریں ۔ایسے اقدام چھوٹے کسانوں کوشدید مالی مشکلات کا شکار کررہی ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت خود ایسے اقدامات کر رہی کہ چھوٹے کسان خود کشی پر مجبور ہو جائیں ۔ملک میں جنگی بنیادوں پر مربوط زرعی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔زراعت کے جدید اور زیادہ منافع بخش طریقوں کو فورغ دینا وقت کی اہم ضروت ہے ۔زرعی شعبے کی ترقی ملکی خوشحالی کی ضامن ہے جس کے لئے ملک کے کسانوں کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل ہونا ضروری ہیں۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض تالیاں بھی بجاتے ہیں اور بعض واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، شیخ رشید جب بلاول بھٹو کو ایک فلمی اداکارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لوگ ہنستے ہیں، عمران خان جب آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو زلیل اور گھٹیا انسان کہتے ہیں تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور پیر طریقت خادم رضوی جب ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دوسروں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں تو مجمع واہ واہ اور سبحان اللہ کہتا ہے،مسلمانوں کے دینی مدرسوں میں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے تو لوگ آنکھیں موندھ لیتے ہیں، مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا جاتا ہے تو عوام قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایک فرقے کے اجتماع میں دوسرے فرقے کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو لوگ اچھل اچھل کر نعروں کے جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے اجتماعی اورسماجی و سیاسی کلچر کو اب اسی سمت لے جایا جارہا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ دشمن طاقتیں ایکدم تو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بیزار اور متنفر نہیں کر سکتیں لہذا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں سے غیر ت ایمانی کے خاتمے اور حرام کاموں سے نفرت کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔
لوگ جب اپنے سیاستدانوں کی زبان سے نازیبا الفاظ سنتے ہیں تو انہیں اپنی روزمرّہ زندگی میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور اسی طرح جب ٹیلی ویژن پر فحاشی دیکھتے ہیں تو عام زندگی حتیٰ کہ اپنے گھرانوں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بے حجابی اور عریانیت سے کراہت محسوس نہیں کرتے۔
آج ایک دم سے لوگوں کا فر نہیں کیا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہاجاسکتا لہذا بتدریج لوگوں کے دلوں سے کفر اور حرام کی نفرت کو کم کیا جارہا ہے۔
آج لوگوں کو جہاد سے بیزار کرنے کے لئے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دئیے گئے ہیں اور کفر جیسے لفظ کے وزن کو ختم کرنے کے لئے مشال جیسے بے گناہ طالب علم کو قتل کروا دیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کےمطابق بے حیائی صرف ٹیلی ویژن پر گانے بجنے اور بے حجاب عورتوں کو دیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ گالیاں دینے والے، بداخلاق، شرابی اور بدمعاشوں کا مسلمانوں سے اقتدار کے لئے ووٹ مانگنا بھی سراسر بے حیائی اور فحاشی ہی ہے۔
ہمارے معاشرے کو بداخلاق، بدزبان اور بے حیا لیڈروں کے بجائے شریف ، نیک اور متقی سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد ، بے عدالتی، ذخیرہ اندوزی ، گراں فروشی اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے ایسے میں اگر ہم لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفا کی زندگی گزار رہے ہیں تو در اصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔
شرفا کی زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو ، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو ، لوگوں کو مفت تعلیم ، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں، بیت المال سے غربا کی کفالت کی جائے، ملک سے بے روزگاری اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو ، نوکریوں میں سفارش اور رشوت کے بجائے میرٹ کا بول بالا ہو۔۔۔
یہ سب آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگ تہِ دل سے پیغمبراسلامﷺ کو اپنے لئے سیاست میں بھی نمونہ عمل تسلیم کریں اور ہمارے دانشور اور مفکرین ، دیندار اور متقی لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی اور سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے پتھر کھا کر، توہین اور اہانت برداشت کر کے، ہجرت کر کے، اپنے جلیل القدر اصحاب کی قربانیاں دے کر ، اپنے مقدس دانت شہید کروا کر، اپنے زمانے کے مظلومین، دبے ہوئے اور کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کو پستی سے نکال کر شریکِ اقتدار کیا۔
آپ نے مظلومین اور محکومین اور غلاموں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر کے انہیں اتنا مضبوط کیا کہ آپ نے ان مظلوموں کے ذریعے معاشرے پر حاکم وڈیروں، قبائلی سرداروں اور گناہ و زنا کے رسیا لوگوں کی طاقت کا طلسم توڑ ڈالا۔
جب سرورِ دوعالمﷺ نے سیاسی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو آپ کے مقابلے میں جہاں عرب کے متکبر، عیاش اور اوباش بادشاہ اور سردار تھے وہیں ایران اور روم کے بدمعاش بادشاہ بھی تھے۔
آپ نے گالیوں کا جواب گالیوں اور پتھروں کا جواب پتھروں سے نہیں دیا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے ، بد زبانی، بدکرداری اور بد اخلاقی پر خطِ بطلان کھینچ دیا۔
خودپیغمبر اسلام کا ارشاد ہے : إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق
مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا ہے، اسی طرح قرآن مجید نے آپ ﷺ کے بارےمیں فرمایا ہے :
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ. ''اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مرتبے پر قائم ہیں،
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبرﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے اعلی ترین مقصد مکارم اخلاق کی تعمیل ہو اور جس پیغمبرﷺ کو خود قرآن خلق عظیم پر فائز قرار دے ، اس پیغمبر کی امت سے اقتدار کے لئے بدزبان، بدترین، اور بدمعاش لوگ منتخب کئے جائیں۔
آج ہمیں اپنی تمام تر عبادی و سیاسی و اقتصادی زندگی میں اپنے نبی ﷺ کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب پیغمر اسلام نے جہالت قدیم کے عہد میں مستضعفین ، مظلومین اور محکومین کی نجات کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا تو ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا، مادہ پرستی، شراب و کباب، راگ و موسیقی، شہوت رانی، دست درازی اور زنا جیسی سماجی و اخلاقی برائیاں لوگوں میں رچ بس چکی تھیں، بلا روک و ٹوک قبائلی سرداروں اور مالداروں کے ہاتھ غریبوں کی عزت و آبرو پر پڑتے تھے، شعرو شاعری میں عورتوں کو بطور جنس استعمال کیا جاتا تھا اور یہ صورتحال صرف عرب دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ روم و ایران جیسی متمدن اور مہذب کہلاوانے والی اقوام میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، ایسے میں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے نبیؐ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
آپ نے اس معاشرے میں جہاں جاہلانہ رسوم و رواج کو بہادری اور عقلمندی کہا جاتاتھا ، آپ نے وہاں پر اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا، آپ نے کفر اور ضلالت اور ظلم و جہالت کے درمیان اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی اقتصاد ، اسلامی نظام عدل اور اسلامی فوج کو قائم کیا ، آپ نے مشرق و مغرب کی مخالفت مول لے کر بڑے بڑے بادشاہوں کو اسلام کے قبول کرنے کی دعوت دی ۔آج جہالت جدید کے عہد میں بھی ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرا یا جا رہا ہے ۔
اس سماجی ابتری، معاشی ناانصافی، قبائلی مظالم، دینی اجارہ داری اور موروثی سیاست کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ہی راہ ِ حل ہے کہ ہم ان بدترین حالات میں صرف اور صرف اپنی نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور صرف انہیں لوگوں کو ووٹ دیں جن کا کردار اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے نقشِ قدم اور اسوہ حسنہ پر چلنے اور عمل کرنے والے ہیں۔
متوقع الیکشن میں سیاسی بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ ختم النبیین ﷺ ہی ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے رہنماء سلیم احمد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسکردو شہر کا قریب ترین حلقہ ہونے کے باجود حلقہ نمبر دو اسکردو بدترین مسائل کا شکار ہے۔ عوام کی اکثریت پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور تعلیمی اداروں کی تعداد بھی شرمناک حد تک کم ہے۔ یہاں پر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اربارب اختیار کی کبھی توجہ اس حلقے کی طرف مبذول نہیں ہوئی۔ یہاں کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں اور علاقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ نمبر دو اسکردو رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بعض ضلعے کے برابر ہے لیکن ابھی تک حلقے سے آگے نہیں بڑھا، جو کہ یہاں کے نمائندوں کی نااہلی اور اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ سالوں میں حلقہ نمبر دو میں قدرتی آفات کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے اور انکی بحالی کے لیے حکومتی اعلان پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ حلقے کے فنڈز اور ٹھیکوں میں بھی گھپلے اور من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ علاقے کے فنڈز کی تقسیم میں بھی انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔
سلیم احمد نے کہا کہ حلقہ نمبر دو اسکردو کے ساتھ جاری مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے اور ادارے اس حلقے کے ساتھ کھیلنے کا سلسلہ بند کرے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حلقے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے جی بی کا بڑاحلقہ ہونے کے سبب یہاں کے سالانہ فنڈز پہلے تو کم ہے اور وہ بھی عوامی فلاح کی بجائے ذاتی مفادات کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی بی میں مردم شماری کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد حلقہ نمبر دو کے حوالے سے بھر پور تحریک چلائی جائے گی اور مزید حلقہ بندی یا ضلع کے حوالے سے مطالبہ تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) ڈیرہ اسماعیل خان شیعان علی ابن ابی طالب ؑکی مقتل گاہ بن گئی ہے، خیبرپختونخوامیں مثالی پولیس سسٹم لانے کے دعویداروں سمیت پولیس کہیں نظرنہیں آرہی، ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کل ملک بھر میں بعد نماز جمعہ یوم احتجاج منائے گی، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی زمین اہل تشیع پر تنگ کرنے کی سازش کی جارہی ہے، افسوس کے گذشتہ چند روز میں متعدد شیعہ جوان بے دردی سے دن دھاڑے قتل کردیئے گئے لیکن نئے پاکستان کی مثالی پولیس ایک بھی قاتل کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی، میں ملت تشیع پاکستان سے کل بروز جمعہ مظلومین ڈیرہ اسماعیل خان کی نسل کشی کے خلاف پر امن یوم احتجاج منانے کی اپیل کرتاہوں، کل بعد نماز جمعہ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے منعقد کیئے جائیں اور احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں، میں ایم ڈبلیوایم کے تمام صوبائی اور ضلعی عہدیداران سے گذارش کرتاہوں کے اپنے اپنے ضلع ، تحصیل ، یونٹ میں بھرپور انداز میں احتجاجی اجتماعات کا انعقاد کریں ۔