The Latest
اسلام آباد ( وحدت نیوز) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ آزادی القدس کے حوالے سے ملت تشیع کی مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں آج یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شیعہ ہی اسلام اور عالم اسلام کے حقیقی ترجمان ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ آج اگر امام حسین ع موجود ہوتے تو ان کا اولین ہدف قبلہ اول کی آزادی ہوتی ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی دفتر میں ایم ڈبلیو ایم کے کارکنون ، عہدیداروں اور شیعہ تنظیموں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے شرکا سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ شہید مطہری کے بقول بیت المقدس کی موجودہ صورتحا ل پر اللہ کے رسول بھی تڑپ رہے ہوں گے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہم پر لازم ہے کہ اسی تڑپ کو محسوس کرتے ہوئے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور قبلہ اول کی آزاد ی کے لیے آواز بلند کریں انہوں نے کہا کہ آج مسلمان بیدارار اورآمادہ ہیں انہیں صرف ایک دعوت کے عمل سے آزادی قدس کی ریلی میں شریک کیا جا سکتا ہے ،انہون نے کارکنون پر زور دیا کہ وہ القدس ریلی کے شایان شان انعقاد کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کو شرکت کی دعوت دیں ۔ افطار ڈنر میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد اصغر عسکری ، راولپنڈی اسلام آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ فخر علوی کے علاوہ مرکزی اثنا عشری ٹرسٹ اسلام آباد، انجمن جانثاران اہلبیت ، مرکزی ماتمی دستہ اسلام آباد، کاروان عباس ، الصادق ٹرسٹ، فلسطین فاؤبڈیشن، آئی ایس او، آئی او، ماتمی دستہ خوشبوئے سکینہ۔ باب الحوائج ٹرسٹ ،ماتمی دستہ غلامان بتول، پاک حیدری سکاؤٹس ، گلگت بلتستاں یوتھ، یوتھ آف پارا چنار اور ایم ڈبلیو ایم راولپنڈی اسلام آباد کے تما م یونٹس کے نمائندگان شریک تھے
شب قدر میں انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، جہالت کی بدولت انسان صدام حسین اور امام خمینی (رہ) میں تمیز نہیں کر پاتا، پاک و سلیم دل خدا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن، ناصران امام فاؤنڈیشن اور مدارس امامیہ کی جانب سے شب قدر کے موقع پر سولجر بازار کراچی کے کیتھولک گراؤنڈ میں منعقدہ معرفت ثقلین سیمینار اور اعمال شب ہائے قدر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی کے مترجم کے فرائض برادر مبشر زیدی نے انجام دیئے۔ اس موقع پر حجتہ السلام و المسلمین مولانا اصغر حسین شہیدی اور حجتہ السلام و المسلمین مولانا عقیل موسیٰ نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار کے آخر میں حجتہ السلام والمسلمین مولانا حیدر عباس عابدی کی اقتداء میں اعمال شب قدر ادا کئے گئے۔ اس موقع پر دوران اعمال نوحہ خوانی کے فرائض شجاع رضوی نے انجام دیئے۔
آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے شرکائے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو پہچاننا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کے آگے بند باندھنا ہے، اگر ہم نے ان خواہشوں کے آگے بند نہ باندھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ خواہشات کی طغیانی ہمیں بہا کر لے جائے۔ خواہشات کے آگے باندھے جانے والا بند ہماری عقل ہے اور ہمیں اپنی عقل کو قوی کرکے اس کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پاک و سلیم دل اچھے کاموں کا سرچشمہ ہوتا ہے، ہمیشہ خدا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور انصاف پسند ہوتا ہے، لیکن جو دل پاک نہ ہو وہ فتنہ و فساد کا مرکز ہوتا ہے پس ہمیں اپنے دل کو پاک و طاہر رکھنا چاہیئے۔ اس ہی طرح پاک نیت بھی نیکیوں کا سرچشمہ ہے، کیونکہ جس کی نیت پاک ہوگی اس کا دل بھی اچھے کاموں کی طرف مائل رہے گا، اس لئے اپنی نیتوں کو شفاف رکھنا چاہیئے۔
نمائندہ ولی فقیہ نے کہا کہ اسلام کے اخلاقی احکام میں سب سے مشکل دوستی اور دشمنی کرنا ہے، ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ ہماری دوستی اور دشمنی صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔ جو لوگ بھی اجتماعی سطح پر کام کرتے ہیں، ان کے لئے لازم ہے کہ وہ دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے کریں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو اجتماعی گناہ وجود میں آتے ہیں اور خدا کے نزدیک اجتماعی گناہ کی کوئی معافی نہیں ہے۔ انہوں نے جوانوں کو امام علی مرتضی (ع) کے بیٹوں کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا ارادہ اور فکر جدا نہیں ہے، آپ کے اندر دوسرے مومن بھائی سے بڑائی کا انگیزہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ فتنہ و فساد کا مؤجب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتمال دینا چاہیئے کہ شب قدر میں انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اسی لئے شب قدر اس کے لئے ہزار راتوں سے بہتر ہے کہ جو اپنے ارادے سے اپنے آپ کو خدا کی طرف مائل کرتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرے۔
آقائے بہاؤ الدینی نے مزید کہا کہ اجتماعی گناہوں کا جو زمینہ فراہم کرنے والے عوامل ہیں ان میں ایک جہالت ہے، جہالت ہی کی بدولت انسان صدام اور امام خمینی (رہ) میں تمیز نہیں کر پاتا، بس ہمیں چاہیئے کہ ایسے جاہلوں سے بچیں، کیونکہ یہ فتنوں میں ایک فتنہ ہیں، گو کہ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان موجود ہیں، لیکن ان کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس کی سب سے بڑی مثال خوارج کی ہے، کہ جو اپنی جہالت کی بناء پر امام علی (ع) کے مقابلے پر آئے تھے۔ انہوں نے جاہل کی پہچان بتاتے ہوئے کہا کہ جاہل معتدل نہیں ہوتا، وہ یا تو افراط کرتا ہے یا تفریط، ہمیں ایسے جاہلوں سے بچنا چاہیئے
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت نے ایران کے شہر تبریز میں زلزے سے ہونے والے نقصانات پر اظہار افسوس کیا ایم ڈبلیو ایم سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستانی عوام اپنے ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک کی عوام کے اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں
انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات تمام ملکوں کے لئے ایک چلینج کی شکل اختیار کر چکیں ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور اللہ کے حضور دعاکرتے ہیں کہ اس قدرتی آفت میں جاں بحق ہونے والوں کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عنایت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت کرے
شام کے بارے میں عرب لیگ کے وزیرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس جس کی بڑے زور شور سے تشہیر کی جارہی تھی اب اچانک خبر دی گئی کی کینسل کیا گیا لیکن اجلاس کے کو منسوخ کرنے کی وجوہات نہیں بتائیں گئیں
اجلاس کو منسوخ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس اب کسی اور دن منعقد ہوگا عرب لیگ کے سیکرٹری نے صرف اتنا کہا کہ اب یہ اجتماع کسی اور دن منعقد کیا جائے گا
واضح رہے کہ اس اجلاس نے سعودی عرب میں منعقد ہونا تھا جہاں عرب ممالک کے وزراء خارجہ نے شام کے بارے میں کسی مشترکہ فیصلہ پر پہنچنا تھا
اس اجلاس سے قبل ہیلری کلنٹن نے ترکی کا دورہ کرتے ہوئے ترکی کے ساتھ ایک مشترکہ پلان پر دستخط کردیے جس میں شام میں شدت پسندوں کی مزید مدد سمیت متعدد موضوعات شامل تھے
بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلسل ناکامیوں کے بعد اس وقت امریکہ اسرائیل سعودی عرب قطر اور ترکی مسلسل کسی ایسے آپشن پر غور خوص کررہے ہیں کہ جس کے سبب بشار الاسد کی عوامی مقبولیت کو کم کیا جائے اور شدت پسندوں کی ناکامیوں کوروکا جائ
طوری امام بارگاہ کوئٹہ میں منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ کوئٹہ میں 7200 کلوگرام بارود اور خودکش جیکٹس کی برآمدگی اور دہشت گردوں کی مسلسل دھمکیوں کا مقصد ملت جعفریہ کوئٹہ کو ڈرا کر جلوس عزا اور عزاداریکو روکنا تھا مگر کوئٹہ کی غیور شیعہ قوم نے دشمن کے عزائم خاک میں ملاتےہوئے جرات و بہادری کی اعلی مثال قائم کی. شوق شہادت لئے ہزاروں عاشقان اہلبیت ع نے کربلائے کوئٹہ میں یزیدیت کو عبرت ناک شکست دی. اس عرصہ میں منافقین نے لوگوں کو ڈرانے کے لئے جو سازش کی اور کہا کہ ہزارہ قوم مذہب کے معاملے میں سیکولر اور دینی اقدار سے بے گانہ ہے ان منافقین کو ذلت ورسوائی ملی غیور ہزارہ قوم کی تاریخ عشق اہلبیت ع میں قربانیوں سے عبارت ہے وہ اس امتحان میں بھی سرخرو ہوئی . انہوں نے 23 رمضان المبارک شہداءیوم القدس کوئٹہ کی دوسری برسی کے موقعہ پر ان کی عظمت کو سلام کرتے ہوئےکہا کہ انہوں نے سیرت مولا علی ع پر عمل کرتے ہوئے حالت روزہ میں جام شہادت نوش کیا. انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کوئٹہ اور مستونگ میں دہشت گردوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرے.شہداء یوم القدس کی برسی کے موقعہ پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزارشہداء پر حاضری دی
تہران … ایران میں تبریز کے نزدیک زلزلے سے 80 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ درجنوں دیہات کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق زلزلہ تبریز شہر کے شمال مشرق میں 60 میل دور 10 کلومیٹر زیر زمین آیا۔ زلزلے سے ذرائع آمد و رفت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق زلزلے سے 60 گاوٴں متاثر بھی ہوئے ہیں، تباہ ہونے والے علاقوں میں امدادی ٹیموں کو بھیج دیا گیا ہے جبکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے کا کام جاری ہے
ایم ڈبلیو ایم ملتان کے سیکرٹری جنرل نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اما م خمینی کے فرمان کے مطابق علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر پورے پاکستان میں امریکہ و اسرائیل مخالف مظاہرے ہوں گے۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ملتان کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے ملتان میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اگر پوری دنیا کے مسلمان حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے تو آج پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔
علامہ اقتدار حسین نقوی نے مزید کہا کہ اما م خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر پورے پاکستان میں امریکہ و اسرائیل مخالف مظاہرے ہوں گے، اُنہوں نے کہا کہ ملتان میں یوم القدس کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین دیگر جماعتوں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، امامیہ آرگنائزیشن، شیعہ علماء کونسل اور فلسطین فائونڈیشن کے ساتھ ملکرعظیم الشان ریلی نکالے گی، انہوں نے کہا کہ اس بار ملتان میں شیعہ جماعتوں کے ساتھ ساتھ اہل سنت برادران بھی کثیر تعداد میں شرکت کریں گے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا سالانہ تنظیمی اجلاس آٹھ اور نو ستمبر کو اسلام آباد میں ہوگا
اس اجلا س میں دستوری کیمیٹی،صوبائی اور مرکزی شوری کے اجلاس کے علاوہ شعبہ جاتی نشستیں اور ایک مذاکرہ بھی ہوگا
اجلاس میں مرکزی کارکردہ گی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی جبکہ اجلاس کے آخر میں مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری خطاب کرینگے
گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ جوانسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے وہ تہمت ہے اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہوتاہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں ۔ تہمت گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کاذکر کیا ہے۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: بے گناہ پر تہمت لگانا عظیم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین ہے (سفینۃ البحارج1 )
درحقیقت تہمت و بہتان، جھوٹ کی بدترین قسموں میں سے ہے اور اگر یہی بہتان، انسان کی عدم موجودگی میں اس پر لگایا جائے تو وہ غیبت شمار ہوگی در حقیقت اس نے دو گناہیں انجام دیں ہیں۔
ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک چاہنے والے آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھےاور اس کے غلام اس سے آگے بڑھ گئے تھے اس نے اپنے غلاموں کو آواز دی لیکن غلاموں نے کوئی جواب نہ دیااس نے تین مرتبہ انہیں آواز دی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو یہ شخص غصے سے چراغ پا ہوگیا اور اپنے غلام کو گالیاں دیں جودر حقیقت اس کی ماں پر تہمت تھی۔
راوی کا بیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے جب ان غیر شائستہ الفاظ کو سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اسے ان غیر مہذب الفاظ کی جانب متوجہ کرایا لیکن اس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے توجیہیں کرنا شروع کردیں جب امام علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنی غلطی وگناہ پرنادم نہیں ہے توآپ نے اس سے کہاکہ تھجے اب اس بات کا حق نہیں کہ میرے ساتھ رہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ تہمت کے برے اثرات کیا ہیں۔
تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے اور اجتماعی عدالت کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرلیں اس پر یقین کرلے تو حق باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔
وہ معاشرہ ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اورلوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد و بھروسہ اٹھ جائے گااور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف ، جو بھی چاہے گازبان پر لائے گااوراس پر جھوٹ ، بہتان اور الزام لگا دے گا۔
جس معاشرے میں تہمت و بہتان کا بہت زیادہ رواج ہوگا اس میں دوستی و محبت کے بجائے کینہ و عداوت زیادہ پائی جائے گی اور عوام میں اتحاد اور میل و محبت کم اور لوگ ایک دوسرے سے الگ زندگی بسر کریں گے۔کیونکہ ان کے پاس ہر صرح ای دولت ہونے کےباوجود محبت جیسی نعمت سے محروم ہوں گے اور ہر انسان اس خوف و ہراس میں مبتلا ہوگا کہ اچانک اس پر بھی کوئی الزام عائد نہ ہوجائے۔
تہمت کے بےشمار فردی اور اجتماعی برے اثرات موجود ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بھی کوئی مومن کسی دوسرے پر الزام یا تہمت لگاتا ہے تو اس کے دل سے ایمان کی دولت بالکل اسی طرح ختم ہوجاتی ہے جس طرح نمک پانی میں گھل کراپنی اصلیت کھو دیتا ہے ۔(اصول کافی ج 4 ص 66 )
تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان کے رخصت ہونے کی وجہ یہ ہےکہ ایمان ہمیشہ سچائی کے ساتھ رہتا ہے اورحقیقت یہ کہ تہمت دوسروں پر جھوٹا الزام عائد کرتی ہے لہذااگر کوئی شخص دوسروں پر بہتان اور تہمت لگانے کا عادی بن جائے گا تو صداقت وحقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہوگا اور اس طرح دھیرے دھیرے دوسروں پرتہمت و بہتان لگانے والے کا ایمان ختم ہوجائے گا اور اس کے قلب میں ذرہ برابربھی ایمان باقی نہیں رہےگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
پیغمبر اسلام (ص) اس بارے میں فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص کسی مومن مرد یا وعورت پر بہتان لگائے یا کسی کے بارے میں کوئی بات کہے جو اس کے اندر نہ ہو تو پرودگار عالم اسے آگ کے بھڑکتے شعلوں میں ڈال دے گا تاکہ جو کچھ بھی کہا ہے اس کا اقرار کرلے۔(بحارالانوار ج 75 ص 194 )
تہمت کی دوقسمیں ہیں ۔کبھی کبھی تہمت لگانے والا جان بوجھ کر کسی پرگناہ یا عیب کی غلط نسبت دیتا ہے یعنی اسے معلوم ہے کہ اس کے اندر یہ عیب نہیں ہے یا اس سے یہ گناہ سرزد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی طرف اس عیب کی نسبت دیتا ہے اور کبھی کبھی تو اس سے بدتر صورتحال پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ خود ان گناہوں کامرتکب ہوتا ہے اور مشکلات اور اس کی سزا سے اپنے کو بچانے کے لئے اس عمل کی نسبت دوسروں کی طرف دے دیتا ہے جسے اصطلاح میں "افتراء " کہتے ہیں۔
لیکن کبھی کبھی تہمت لگانے والا جہالت اور وہم و گمان کی بناء پر کسی کی طرف غلط نسبت دیدیتا ہے جسے اصطلاح میں "بہتان " کہتے ہیں اور بہتان دوسروں سے سوء ظن رکھنے اور بدبین ہونے کی بناء پرہرتا ہے۔اور یہی چیز سبب بنتی ہے کہ بعض لوگ ان کاموں کو جو دوسروں سے سرزد ہوتا ہے اسے برائی پر حمل کرتے ہیں جب کہ معاشرے میں اکثر تہمتیں سوء ظن اور جہالت کی بنیاد پر لگائیں جاتی ہیں اسی لئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایاہے :
ایمان والو،اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان ،گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔(سورہ حجرات آیت 12 )
البتہ یہ بات بھی واضح وروشن ہے کہ ظن وگمان یا وہم و خیال کا ذہن میں پیدا ہونا ایک غیر اختیاری امر ہے اور ثواب و عذاب اختیاری عمل پر دیا جائے گا نہ کہ غیر اختیاری عمل پر ، اس بناء پر وہ آیتیں یا روایتیں جو انسان کو سوءظن رکھنے سے نہی کرتی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے وہم و گمان پر اعتبار نہ کرے اور جہالت کی بنیاد پر کوئی عمل انجام نہ دے کیونکہ بہت سے ایسے افراد جو علم و آگاہی کے بغیر صرف وہم وگمان کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں وہ گناہ ومعصیت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
چنانچہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ جانا"(سورہ اسراء آیت 36 )
اور ایک گروہ ، جس نے سوء ظن کی بناء پر عمل کیا تھا ان پر ملامت و سرزنش کرتے ہوئے فرمایا ہے " تم نے بد گمانی سے کام لیااوراس کی بنیاد پر عمل کیااور تم ہلاک ہوجانے والی قوم ہو "
کبھی کبھی سوءظن کے آثار ناقابل تلافی ہوتے ہیں جیسا کہ ماہرین نے تہمت کے بارے میں اپنی متعدد رپورٹوں میں اشارہ کیا ہے کہ بہت سے افراد نے سوء ظن کی بناء پر اپنی بیوی تک کو قتل کردیا ہے یہ ایسی حالت میں ہے کہ اکثر اوقات ان لوگوں نےاپنی بیوی سے سوء ظن رکھا اور تہمت لگائی اور صحیح قضاوت و فیصلہ نہیں کیاجب کہ ان کےوہم و گمان کی کوئی حقیقت نہ تھی ۔ایک سچے اور مومن شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی اوربہن سے سوء ظن نہ رکھے بلکہ اس کے عمل کو حسن ظن سےتعبیر کرے مگر یہ کہ اس کے عمل یا سوء ظن پر کوئی مستحکم دلیل ہو ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دینی بھائی کی گفتگو و کردار کو بہترین طریقے سے توجیہ کرے مگر یہ کہ اس بات پر یقین ہو کہ واقعہ کی نوعیت کچھ اورہے اور توجیہ کے لئے کوئی راستہ نہ بچے۔(اصول کافی ج 2 ص 362 )
محمد بن فیضل کہتے ہیں : کہ میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہاکہ : بعض موثق افراد نے مجھے خبر دی ہےکہ میرے ایک دینی بھائی نے میرے سلسلےمیں کچھ باتیں کہی ہیں جو مجھے نا پسند ہیں جب میں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے انکار کردیاہے اور کہا کہ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے اب میرا وظیفہ کیا ہے ؟
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نےفرمایا : اگر پچاس عادل تمھارے پاس آکر گواہی دیں کہ فلاں شخص نے تمھارے بارے میں یہ ناروا باتیں کی ہیں تو تمھیں چاہیۓ ان کی گواہی کو رد کردو اور اپنے دینی بھائی کی تصدیق و تائید کرو اور جو چیز اس کی عزت و آبرو کے لئے خطرناک ہو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرو۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی پر تہمت لگائے تو اس کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ کیا ہے؟
قرآن مجید نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے " ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے آئے تو اس کی تحقیق کرو، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے"
پس قرآن کے نظریئے کے مطابق جب بھی ہم کسی کے بارے میں کوئی خبر یا تہمت کے متعلق سنیں توسب سے پہلے ہمارا یہ وظیفہ ہونا چاہئیے کہ اس کے بارے میں تحقیق کریں اور اس کے صحیح یا غلط ہونے سے باخبر ہوں بہر حال اس سلسلےمیں عجلت اور فوری طور پر بغیر کسی دلیل و گواہ کے فیصلہ کرنے سے پرہیز کریں ۔
اسلام نے ایک جانب توتہمت کو حرام قرار دیا ہے اور مومنین کو حکم دیا ہےکہ ایک دوسرے کے ساتھ سوء ظن سے پیش نہ آئیں اور معتبر دلیل کے بغیر کسی پر بھی الزام عائد نہ کریں۔اور دوسری جانب انھیں حکم دیا ہے کہ اپنے کو بھی معرض تہمت میں نہ ڈالیں اور ایسی گفتگو اور عمل سے پرہیز کریں جو سوء ظن کا سبب بنے۔
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں : وہ شخص جو اپنے کو معرض تہمت میں قرار دیتا ہے تو پھر وہ ایسے شخص پر لعنت و ملامت نہ کرے جو اس سے بدگمانی رکھتاہو۔(امالی شیخ صدوق ص 304 )
اسی وجہ سے روایتوں میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ مومنین کو چاہئیے کہ گناہگاروں اورفاسقوں کی ہمنشینی سے پرہیز کریں کیونکہ ان کےساتھ نشست و برخاست کی بناء پر عوام مومنین سے بدبین ہوجائیں گے اور پھر ان پر تہمت لگائیں گے۔
اگر ہم اس نکتہ پربھرپور توجہ رکھے کہ دوسروں پر تہمت لگانے سے جہاں اس کو نقصان پہنچتاہے وہیں ہماری روح بھی آلودہ ہو جاتی ہےاور بے شمار معنوی نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں تو ہم کبھی بھی اس گناہ کے انجام دینے پر راضی نہیں ہوں گے۔
خدایا ایمان و عمل صالح کے صدقے میں ہم سب کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنارفرما
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے دفتر سے جاری سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کراچی جلوس پر ہوائی فائرنگ رینجرز کی شرانگیزی تھی، اس واقعے میں تمام حکومتی ادارے ملوث ہیں، یہ واقعہ عزاداری کو محدود کرنے کی سازش ہے، جسے ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، نہتے عزاداروں پر گولیاں چلا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا مکروہ چہرہ عوام کے سامنے بےنقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی اور گورنر سندھ کا کردار بھی اس واقعہ میں مشکوک رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی، سید اسد عباس نقوی، استاد ذوالفقار علی اسدی نے اس واقعہ کی پر زور مذمت اور تحقیقات کا مطالبہ کیا اور ذمہ داروں جس میں ڈی جی رینجرز کراچی، کمشنر کراچی کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لاہور میں پرامن جلوس عزا پر انتظامیہ، امامیہ اسکاؤٹس، حیدریہ اسکاؤٹس و دیگر ملی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔