The Latest
آئمہ کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر۔۔خطابات ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
آئمہ عليہم السلام کي زندگي کو ہميں درس حيات اور اسوہ عمل کے طور پر ديکھنا چاہئيے ، يہ مناسب نہيں کہ ہم صرف ايک شاندار قابل فخر يادگار کے عنوان سے اس کا مطالعہ کريں۔ يہ چيز اسي وقت ممکن ہے جب ان عظيم ہستيوں کي سياسي روش اور ان کے طريقہ کار پر بھي توجہ ديں۔
جہاں تک ميرا اپنا تعلق ہے مجھے آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے اس رُخ نے خاص طور پر متاثر کيا ہے اور ميں اس حقيقت کے اظہار ميں کوئي مضائقہ نہيں سمجھتا کہ ميرے ذہن ميں يہ خيال ١٩٧١ کے سخت ترين امتحان و آلام کے ايام ميں پيدا ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل بھي اعلائے کلمہ توحيد اور استقرار حکومت الہي کے سلسلہ ميں آئمہ کا مجاہدانہ کردار اور ان کي قربانياں و فداکارياں ميرے پيش نظر تھيں۔ پھر بھي وہ نکتہ جو اس دور ميں ناگہاني طور پر ميرے ذہن ميں روشن ہوا وہ يہ تھا کہيں ان بزرگواروں کي زندگي (اس ظاہري تفاوت کے باوجود جس کو ديکھ کر بعض لوگوں نے ان کے کردار ميں تضاد کا گمان کيا ہے(دراصل مجموعي طور پر ايک مسلسل طولاني تحريک ہے جو ١١ھ سے شروع ہو کر دو سو پچاس سال تک مسلسل جاري رہي اور ٢٦٠ ھ ميں جو غيبت صغريٰ کے شروع ہونے کا سال ہے ختم ہوئي۔ يہ تمام ہستياں ايک ہي زنجير کي کڑياں ہيں، ايک ہي شخصيت ہيں اور اس ميں کوئي شک نہيں کيا جاسکتا کہ ان سب کا راستہ اور مقصد ايک ہي ہے۔ پس امام حسن مجتبيٰ ٴامام حسين ٴ سيد الشہدا اور امام سجاد زين العابدين ٴ کي زندگيوں کا عليحدہ عليحدہ جائزہ لينے اور پھر لا محالہ اس خطرناک غلط فہمي کا شکار ہوجانے کے بجائے کہ ان تينوں آئمہ کي زندگيوں کا بظاہر باہمي فرق ان ميں ٹکراو اور تضاد کي نشاندہی کرتا ہے ہميں چاہئيے کہ ان سب کي زندگيوں کو ملا کر ايک ايسے انسان کي زندگي فرض کريں جس نے دو سو پچاس سال کي عمر پائی ہو اور جو ١١ ھ سے لے کر ٢٦٠ ھ تک ايک ہي منزل کي سمت مسلسل طور پر گامزن رہا ہو۔ اس طرح اس عظيم اور معصوم زندگي کا ايک ايک عمل قابل فہم اور لائق توجيہہ ہوجائے گا۔
ہر وہ انسان جو عقل و حکمت سے مالا مال ہوگا، چاہے وہ معصوم نہ بھی ہو، جب وہ اتنی طويل مدت طے کرے گا تو حتمی طور پر وقت اور حالات کے تحت مناسب حکمت عملي اختيار کرے گا۔ ممکن ہے وہ کبھي تيز رفتاري کو ضروري سمجھے اور شايد کبھي سست رفتاري ميں مصلحت جانے، حتيٰ ممکن ہے کبھي وہ کسي حکيمانہ تقاضے کے تحت پسپائي بھي اختيار کرے۔ ظاہر ہے وہ لوگ جو اس کے علم و حکمت اور ہدف و مقصد کے بارے ميں علم رکھتے ہيں اس کي عقب نشيني کو بھي پيش قدمي شمار کريں گے۔ اس نکتہ نظر سے اميرالمومنين علي ابن ابي طالب ٴ کي زندگي امام حسن مجتبی کي زندگي کے ساتھ اور ان کي زندگي سيد الشہدائ امام حسين ٴ کي زندگي کے ساتھ اور آپ ٴ کي زندگی ديگر آٹھ آئمہ کي زندگيوں کے ساتھ ٢٦٠ ھ تک ايک مسلسل تحريک کہی جاسکتي ہے۔
يہ وہ خيال تھا جس کي طرف ميں اس سال متوجہ ہوا اور پھر اسي نکتہ کے ہمراہ ميں نے ان عظيم ہستيوں کي زندگيوں کا مطالعہ شروع کيا اور جيسے جيسے ميں آگے بڑھتا رہا ميري اس فکر کو تائيد حاصل ہوتي گئي۔
البتہ اس موضوع پر تفصيلي گفتگو ايک نشست ميں ممکن نہيں ہے ليکن اس حقيقت کے پيش نظر کہ پيغمبر اسلام ۰ کي ذريت طاہرہ يعني آئمہ معصومين کي پوري زندگي ايک خاص سياسي موقف کے ہمراہ رہی ہے، بنابر ايں يہ اس قابل ہے کہ اس (سياسي موقف (کو جداگانہ طور پر مستقل عنوان کي حيثيت سے زير بحث لا يا جائے۔لہذا ميں يہاں اس سلسلہ ميں مختصر طور پر کچھ عرض کرنے کي کوشش کروں گا۔
ميں گزشتہ سال اپنے پيغام ميں آئمہ طاہرين ٴ کي زندگي ميں گرم جدوجہد کي طرف اشارہ کرچکا ہوں، آج ذرا تفصيل سے اس کا جائزہ لينا چاہتا ہوں۔پہلي چيز يہ عرض کرنا ہے کہ سياسي جدوجہد يا گرم سياسي جدوجہد جسے ہم آئمہ کي جانب منسوب کررہے ہيں اس سے ہماري مراد کيا ہے؟
مراد ي يہ ہے کہ آئمہ ٴ کي مجاہدانہ کوششيں محض ايسي علمي ، اعتقادي اور کلامي نہ تھيں جس طرح کي کلامي تحريکوں کي مثاليں اس دور کي تاريخ اسلام ميں ملتي ہيں جيسے معتزلہ و اشاعرہ وغيرہ کي تحريکيں۔ آئمہ کي علمی نشستيں، درسي حلقے ، بيان حديث و نقل معارف اسلامي اور احکام فقہي کي تشريح و توضيح وغيرہ فقط اس لئے نہ تھے کہ علم فقہ يا علم کلام سے متعلق اپنے مکتب فکر کي حقانيت ثابت کردي جائے بلکہ آئمہ کے مقاصد اس سے کہيں بلند تھے۔
اسي طرح يہ اس قسم کا مصلحانہ قيام بھي نہ تھا جيسا کہ جناب زيد شہيد اور ان کے بعد ان کے ورثا يا بني الحسن ٴ کے دوران نظر آتا ہے۔ حضرات آئمہ ٴ نے اس قسم کا کوئي مبارزہ نہيں کيا۔ البتہ اسي مقام پر يہ اشارہ کرديناضروري ہے (اگر ممکن ہوا تو بعد ميں تفصيل پيش کروں گ( کہ آئمہ معصومين ٴ نے قيام کرنے والے ان تمام لوگوں کي بطور مطلق مخالفت بھي نہيں کي، اگرچہ بعض کي مخالفت بھي کي ہے۔ البتہ اس مخالفت کا سبب ان کا مصلحانہ قيام کرنا نہيں تھا بلکہ کچھ اور دوسري وجوہات تھيں۔ بعض کي بھرپور تائيد بھي کي ہے بلکہ بعض ميں پشت پناہی اور مدد کے ذريعہ شرکت بھي کي ہے۔ اس سلسلہ ميں امام جعفر صادق ٴ کي يہ حديث قابل توجہ ہے، آپ ٴ فرماتے ہيں:
’’ لوددت ان الخارجي يخرج من آل محمد و علي نفقہ عيالہ۔‘‘
’’ مجھے يہ پسند ہے کہ آلِ محمد ۰و علي ٴ ميں سے کوئی خروج کرنے والا قيام کرے اور ميں اس کے اہل و عيال کے اخراجات کا کفيل بنوں۔‘‘
اس (کفالت و ذمہ داري( ميں مالي امداد، آبرو کي حفاظت ، مخفي جائے تحفظ مہيا کرنا يا اسي طرح کي دوسري مدد بھي شامل ہے۔ ليکن جہاں تک ميري نظر جاتي ہے، آئمہ نے بہ نفس نفيس خود امام وقت کي حيثيت سے مصلحانہ قيام ميں کبھي شرکت نہيں کي۔
چنانچہ آئمہ عليہم السلام کي گرم سياسي جدوجہد سے مراد نہ تو وہ مذکورہ پہلی علمی جدوجہدکي صورت ہے اور نہ ہی يہ دوسري نوعيت کا مصلحانہ قيام بلکہ اس سے مراد ايک سياسي ہدف اور مقصد کے تحت جدوجہد ہے۔۔۔۔ (جاری ہے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کراچی کے علاقے لسبیلہ میں ایم ڈبلیو ایم کے فعال سماجی کارکن سید ساجد کاظمی کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طورپر قاتلوں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے
علامہ امین شہیدی نے ملک بھر میں بے گناہ اہل تشیع کے قتل عام کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ ان بے گناہوں کے قتل کی صرف رپورٹ درج کر کے کاغذ بھرنے کے سواکوئی عملی قدم نہیں اٹھارہی
انہوں نے رمضان کے مبارک مہینہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس رحمت و عفو و درگذر کے مہینے میں صرف وہ لوگ اس قسم کے افعال انجام دیتے ہیں کہ جنکا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا
ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم نے یوم پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جبکہ پورا ملک یوم آزادی کا جشن منارہا ہے تو ملک دشمن عناصر نے ہم سے ایک مخلص ،دیندار وطن دوست ہم وطن کو چھینا ہے
علامہ امین شہیدی نے شہید کی شہادت پر ان کے بازماندگان اور دوستون کو تعزیت پیش کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ اس مبارک مہینے میں بحق محمد و آل محمد شہید کو بلندی درجات عنایت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت کرے
مجلس وحدت مسلمین کراچی کے زیر اہتمام ماہ دعاو مناجات ماہ رمضان کے آخری عشرے میں معرفت قرآن کے نام سے مسجد و امام بارگاہ سید الشہداء میں اعتکاف کا اہتمام کیا گیا ہے اس اعتکاف میں اس وقت تک سیکنڑوں روزہ دار مومنین شامل ہونے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں جبکہ اس وقت مزید روزہ دار تشریف لارہے ہیں
آج رات اعتکاف کی روح پرور فضاء میں اسلامی موضاعات پر علمائے کرام خطاب کرینگے جبکہ دعااور مناجات کی سعادت بھی حاصل ہوگی
آج کے پروگرام کے مطابق مولانا عارف کاظمی صاحب دعا کی قرائت کرینگے جبکہ مولانا عرفان حسینی خطاب کرینگے
وطن عزیز کے چھیاسٹویں جشن آزادی کی مناسبت سے یوں تو اسلام آباد رات کو چراغاں اور آتش بازی سے روشن نظر آرہا تھا تو دن کے وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے لگائے گئے بینرز نے دارالحکومت کو چارچاند لگادیا ہواہے
ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے جوڑواں شہروں کی اہم شاہراہوں اور چوکوں پر لگائے گئے جشن آزدی مبارک کے بینرز تمام ہم وطنوں کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں
ایم ڈبلیو ایم کہ جس نے انتہائی مشکل وقت میں اہل وطن کو اپنے وطن کی دفاع،استحکامت اور استقلال کی خاطر متعدد بڑے اجتماعات کے زریعے وطن دوستی کے فروغ کا شعور دیا اور ہم سب ایک ہیں کا نعرہ لگاکر وطنیت کے مقابلے میں کھڑے تمام بتوں کو مسمار کرتے ہوئے باہمی برداشت ،اخوت و برادری،بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے اور دیتی رہے گی
کیونکہ مجلس وحدت کی جماعتی سوچ کی بنیاد دینداری،اسلامی اور قومی قدروں کی پاسداری،اسلامی وحدت،وطن دوستی ،جمہوریت ،جیسے عناوین پر قائم ہے
لاہور( )مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی آفس لاہور میں ہونے والی جشن آزادی پاکستان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کے لئے ہمیں خود انحصاری اور جذبہ قربانی کی ضرورت ہے۔
اغیار کے آگے ہاتھ پھیلانے والوں کو آزاد قوم نہیں کہتے جب تک ہمارے حکمران امریکہ جیسے شیطانی قوتوں کے تابع ہوں اس وقت تک پاکستان کو آزاد ریاست کہنا درست نہیں۔آئے دن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوتا ہے ۔سلالہ چیک پوسٹ پر درجنوں محب وطن افواج پاکستان کو شہید کیا جاتا ہے۔ کیا یہ آزاد قوموں کی نشانیاں ہیں۔ استعماری قوتوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے حکمرانوں سے جب تک نجات حاصل نہیں کرینگے ہم آزاد قوم نہیں کہلا سکتے۔ پاکستان کو اللہ تعالی ٰ نے ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان بے حس اور بے ضمیر حکمرانوں نے عوام کی حالت زار کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے۔ کہ لوگ ایٹمی پاور پاکستان میں دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیںآزادی کا درس ہمیں ایران ، وینزویلا او ر شمالی کوریا سے لینا چاہیے۔ وہاں کے حکمران عوام اپنے ملک اور ملت کے ساتھ مخلص اور نڈر ہیں پاکستان کی 65واں یوم آزادی منار ہے ہیں آپ ذرا سوچیں روشنیوں کے شہر کراچی میں جشن آزادی کی رات 8لاشوں کاتحفہ بلوچستان کے محروم عوام پر ریاستی جبر و تشدد ، گلگت بلتستان کے محب وطن لوگوں پر محرومیوں کے سائے اور ریاستی جبر کا شکار کیا ہم آزاد پاکستان اسی کو کہتے ہیں؟
جس ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی شیطانوں نے بربریت اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا اور ہم نے خاموشی سے اپنی بے ضمیری کا مظاہرہ کیا ۔ کیا یہ آزادقوم اور آزاد پاکستان میں نہیں۔ ذرا سوچیں!
بابائے قوم نے اور علامہ اقبال نے ایسی آزاد ریاست کے لئے جد وجہد کی تھی؟
کبھی اے نوجوان مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں کا تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارا
اجلاس میں صوبائی کابینہ اور ضلع کابینہ کے تما م ارکان نے شرکت ک
پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کی ذمہ دار پوری دنیا ہے، جس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے ذمہ دار عرب ہیں، جنہوں نے اپنے ہی بھائیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور صہیونیوں نے فلسطینیوں کو ترنوالہ سمجھ رکھا ہے۔
لاہور پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے علامہ عبدالخالق اسدی، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران، فلسطین فاؤنڈیشن کے عمار رضا زیدی، سنی تحریک کے مجاہد عبدالرسول، انجمن طلبہ اسلام کے عثمان محی الدین، جماعت اہلسنت کے صاحبزادہ افضال نورانی اور تحریک ناموس رسالت محاذ کے محمد علی نقشبندی نے بھی خطاب کیا۔
جبکہ اس پروگرام کا اہتمام پی ایف پی نے کیا تھا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام جشن نزول قرآن کا نفرنس کا انعقاد ایمبسڈر ہوٹل شملہ پہاڑی میں کیا گیا۔ جس میں تما م مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت کی ۔ کانفرنس
کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ منہاج القرآن کے ڈرایکٹر ڈاکٹر علی اکبر الازھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کی پُرنور گھڑیوں میں اس مبارک محفل کا انعقاد دلوں میں مسرت اور پاکیزگی کا باعث ہے۔قرآن ایک ایسی جلیل القدر کتاب ہے کہ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں اوراس کے حقائق اور تعلیمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت انسان اپنے علم کی وسعتیں عبور کر رہا ہے اور تسخیر کرنے کا دعوی کر رہاہے۔لیکن جب ان کو ٹرائل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اس وقت ان کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جوتاقیامت ہمارے لئے مشعل آئین ہے۔ آج قرآن کی وارث امت مسلمہ بے وارث دیکھائی دیتی ہے ہر طرف مسلمان مارے جا رہے ہیں اور ان پر ظلم ہو رہا ہے تو اس میں قصور قرآن کا نہیں ہے بلکہ ان علماء کا ہے جہنوں نے امت مسلمہ کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا ہے۔کفار اس وقت امت واحد ہوگئے ہیں جن کی تازہ مثال امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا ہے جو متحد ہوکر مسلمانوں کو چن چن کر مارہے ہیں اور ادھرہم ہیں کہ اثر تک نہیں ہوتا۔
قومی ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب عزت مآب قاضی حسین احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل ہوا انہوں نے قرآن کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کتاب جہاد ہے۔جب مسلمان جہاد کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا میں زلت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں حکومت بنانا کو ئی مشکل کام نہیں ہے معاشرے کی اقدار کو پامال ہونے سے بچایا جائے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’ تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘‘
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکر ٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے خطاب کر تے ہوئے کہاکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہماری پستی کی وجہ قرآن سے دوری ہے قرآن مردوں کے لئے نہیں بلکہ زندہ لوگوں کے لئے ہے۔اگرمسلمان قوم قرآنی احکامات پر عمل کرے تو دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفاء منازل طے کر سکتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ قرآن وہ کتا ب ہے کہ جس پر کسی بھی مسلک کو اختلاف نہیں اس پر سب متحد ہیں ۔قرآن کے مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا حقیت میں سیرت رسولؐاور ائمہ اطہارؑ ہے۔ کیونکہ ہمارے نبی اکرم ص کی زندگی مجسم قرآن ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے چھوٹے مسائل پر تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان کے حوالے سے جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ استعمار کو شکست دے سکے۔مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ ابوذر مہدوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآن آئین زندگی ہے جو زندگی ہائے شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے ۔ قرآن وحدت ملت کا واحد حل اور راستہ ہے اور قران ہی کو نقطہ نظر بنا کر تمام اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
بحرین میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی و دینی جماعت الوفاق الوطنی کا کہنا ہے کہ وہ یوم القدس کے دن کے آغاز کے پہلے ہی سکینڈ میں القدس کی ریلی کا آغاز کرینگےعربی زبان کے العالم نیوز چینل کے مطابق
الوفاق کا کہنا ہے کہ یوم القدس کی ریلی در حقیقت اسلام کی پکار پر لبیک کہنا ہے اور اس ریلی کا دوسرا مقصد امت اسلامیہ اور ملت عرب میں اتحاد اور بھائیاا چارگی کی مضبوطی ہے اور اس کا تیسرا مقصد امریکہ ، اسرائیل اور خطے میں ان کے حامیوں کی استعماری پالیسیوں کی نفی کرنا ہے
واضح رہے کہ بحرینی بادشاہت امریکہ کے ساتھ گہرے روابط کے سبب بحرین میں ہر اس پروگرام پر پابندی لگاتی رہی ہے جسے امریکہ مخالف سمجھا جائے بحرینی عوام گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے ہوا ہے مسلسل جمہوریت اور بنیادی حقوق جیسے آزادی اظہار ،حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک درجنوں کی تعداد میں عوام بحرینی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہی
امریکی اخبار ترانپٹ نے مصر کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کی خبردیتے ہوئے لکھا ہے مصر اور ایران کے بڑھتے ہوئے روابط اسرائیل کے لئے خطرناک پیغام اپنے اندر رکھتے ہیں
ترومپٹ نامی اخبارمیں ریچرڈبالمر کی جانب سے نشر ہونی والی رپوٹس کے مطابق جزیرہ نما سینا میں فوج کے ایک مرکز پر حملہ کا جواب جس انداز سے مصری حکومت نے دیا ہے وہ اسرائیل کے حق میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مصری پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اخوان المسلمین نے مصرفوجی مرکز پر حملے کے ذمہ دار اسرائیلوں کو ٹھرایا ہے ،اخوان المسلمین کی ویب سائیڈ میں لکھا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہو
اس رپورٹ کے مطابق اس دوران میں مصری صدر محمد مرسی ایران کی جانب تعلقات میں بہتری کے لئے بڑے بڑے قدم اٹھا رہا ہے
ایرانی نائب صدر حمید بقائی کی مصری صدر محمد مرسی کے ساتھ گذشتہ ملاقات کورپورٹ سیاسی تختہ الٹنے سے تعبیر کرتا ہے ۔
اولین گورڈن کہتا ہے کہ نیا مصر اسرائیل کے ساتھ روابط میں خاص دلچسپی نہیں رکھتا یہاں تک کہ اسرائیل مصر امن و امان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کرتا ہے اسے مصری حکومت خاص اہمیت نہیں دی رہی
اگر مصر ی صدر ایران میں ۔۔۔میں شرکت کے لئے آتے ہیں تو پھر انقلاب اسلامی ایران کے بعد پہلے مصری صدر ہونگے جنہوں نے ایران کا سفر کیا ہے
لیکن چونکہ اس وقت تک آفیشلی طور پر مصری صدر کی جانب سے شرکت یا عدم شرکت کے بارے میں کچھ نہیں کہاگیا اس لئے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا
اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی یاد میں ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے عظیم الشان سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ سیمینار سے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اورحجت الاسلام و المسلمین سید شفقت شیرازی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے خطاب کیا۔ سیمنار میں علماء کرام اور حوزہ علمیہ قم میں موجود دینی طلاب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام کے آغاز میں یکم جولائی قرآن و سنت کانفرنس کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ کی نمائش کی گئی۔ مجلس وحدت مسلمین قم نے پروگرام کے اختتام پر دینی
طلاب کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام بھی کیا۔
سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جو ان دنوں برسی قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی میں شرکت اور زیارات کی غرض سے ایران گئے ہوئے جب تہران ائرپورٹ پہنچے تو ایم ڈبلیو ایم قم المقدس کے عہدہ دران اور علمائے کرام نے آپ کا استقبال کیا اور آپ
تہران سے سرزمین علوم آل محمد قم المقدس چلے آئے اس عظیم الشان سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ناصرملت نے کہا
شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) قوم کو کہا کرتے تھے کہ اپنے سیاسی کردار کو ادا کریں، دشمنوں نے آپ کو ہٹانے کیلئے اندرونی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں، 80 کیلومیٹر پیدل چل کر امام علی علیہ السلام کی زیارت کیلئے جانے والے شخص یعنی علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کو مقصر کہا گیا، لیکن جب آپ نے تمام رکاوٹیں کو عبور کر لیں تو آپ کو شہید کر دیا گیا۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ خدا شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور ان کی آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے۔ آج مجلس وحدت مسلمین پاکستان شہداء کی وارث ہے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خواہش تھی کہ ملت میں اتحاد و اتفاق ہو، ماتمی اور تنظیمی ایک جگہ جمع ہوں اور ہم نے شہید کی اس خواہش کو شہید کی یاد میں اور ان کی قرآن و سنت کانفرنس کی یاد میں جولائی کے مہینے میں مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کو منعقد کیا اور ملی وحدت کا ثبوت دیا اور شہید کی اس آرزو کو پورا کیا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بصیرت کے ساتھ آگے چلنا ہے، صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا، ہم نے آپس میں نہیں الجھنا۔ انہوں نے کہا ہم کسی بھی شیعہ سے نہیں لڑنا چاہتے اور کوشش کریں گے کہ حتی کسی بھی داخلی مسئلہ کا گلہ بھی نہ کریں۔
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری امور خارجہ حجت الاسلام سید شفقت شیرازی نے کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اپنی شہادت کے وقت بہت کم عمر تھے اور وہ عین جوانی کے عالم میں شہید ہوئے، لیکن آج تک پاکستان کی ملت تشیع آپ کو نہیں بھلا سکی اور اسکی سب سے بڑی وجہ آپ کا خلوص اور خدا کی خاطر کام کرنا تھا۔
ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری امور خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ شجاع، نڈر اور مبارز انسان تھے۔ ایک وقت جب قبلہ مفتی جعفر حسین کے دور میں اسلام آباد مظاہرے کے دوران حالات بہت کشیدہ ہوگئے اور علماء کرام پریشان ہونے لگے کہ اگر پولیس اور فوج کی طرف سے کسی سخت اقدام کی صورت میں جوانوں کی شہادت ہوگئی تو ان کے خون کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسی وجہ سے بعض بغیر مطالبات کے واپس پلٹ جانے کا فیصلہ رکھتے تھے تو آپ نے آگے بڑھ کر سب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اگرچہ یہاں افراد کی موت کا مسئلہ ہے، لیکن اگر ہم بغیر مطالبات منوائے واپس پلٹ جائیں گے تو یہ نظریہ کی موت کا باعث بنے گا۔
علامہ شفقت شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ آپ نے کہا کہ شہید کی ایک اور صفت معرفت ولایت، اطاعت ولایت، اور ربط با ولایت ہے۔ آپ ہمیشہ ولایت کے ساتھ مربوط رہے اور اس نظریہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آپ نے شہید کی زندگی کے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شہید عارف حسین الحسینی سارا دن فعالیت کرتے رہتے اور رات کو مصلٰی عبادت پر گذارتے تھے ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے اس سیمنار کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے پینا فیلکسوں اور بینرز کے زریعے سمینار حال کو سجایا گیا تھا جبکہ قائد شھید کی بڑی بڑی تصاویر بھی آوازں تھیں ،جشن آزادی کی مناسبت سے طن عزیز کے جھنڈے اور مجلس وحدت کے جھنڈے جگہ جگہ نظر آرہے تھے سمینار میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے سیکنڑوں علمائے کرام اور طلاب نے شرکت کی اور شہید قائد کے حضور خراج عقیدت پیش کیا