وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات ہمیں خود طے کرنے ہوں گے۔پاکستان ایک خودمختار اور ایٹمی ریاست ہے۔مختلف ممالک سے ہمارے تعلقات کسی کی پسند و ناپسند کے کے تابع نہیں ہونے چاہیے۔اعلی سطح فیصلے ملک و قوم کے مفادات کو مقدم رکھ کر کیے جاتے ہیں۔دوسروں کی ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے مخلص دوست ممالک کو ناراض کرنا ملکی و قومی سلامتی کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا ہماری ذرا سی بے اعتنائی ہمیں ان دوست ممالک سے دور کر سکتی ہے جنہوں نے کشمیر کے معاملے میں عالمی فورمز پر ہماری کھل کر حمایت کی ہے۔ محمد بن سلمان اور محمد بن زید کے دباؤ پر خارجہ پالیسی کی تبدیلی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ نئے پاکستان میں بھی ریاست کا طرز عمل وہی ماضی کی حکومتوں کی طرح غلامانہ ہے۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے کہاکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی کبھی حمایت نہیں کی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی۔ملک دشمن عالمی طاقتوں اور عرب حکمرانوں نے مادر وطن میں دہشت گرد تنظیموں کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی تاکہ ملک عدم استحکام کا شکار رہے۔یہ طاقتیں خودمختار اور مستحکم پاکستان نہیں دیکھنا چاہتیں۔
انہوں نے کہا کہ کوالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شمولیت کے اعلان نے خود مختار خارجہ پالیسی کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس میں دنیا کے بڑے رہنما شریک ہو رہے ہیں لیکن سعودی عرب کے دباؤ پر پاکستان کے شرکت سے انکارنے پوری قوم کو چونکا کے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس عمل سے ہماری ساکھ پوری دنیا میں سخت متاثر ہو گی۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ برکت مطہری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سرسری جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں تمام خرابیوں کا بنیادی سبب مخلص اور دیانتدار قومی قیادت کا فقدان ہے۔سیاستدانوں نے کبھی بھی اپنے ذات سے باہر نکل کر ملک و قوم کے مفادات کو فوقیت نہیں دی ۔ان کی تمام سرگرمیاں اقتدار کے حصول اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گرد گھومتی ہے۔ انہوں نے سیاست کو سماجی خدمت کا ذریعہ بنانے کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے اور عوامی مسائل سے لا تعلق رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود عوامی مسائل جو ںکے تو ں ہیں۔
علامہ برکت مطہری نے کہاکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے رہنما ، ہمارے حکمران ملک میں سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ اخلاقی نظام قائم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر مسائل کا تعلق اخلاقی اور سماجی نظام ہے۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ہم اخلاقی گراوٹ سے دوچار ہیں۔ سو ہمیں ایسی قیادت میسر آتی ہے جیسے ہم خود ہیں۔ ہم اپنے قائدین میں تو تمام اخلاقی خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی ذات کو ان خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ پاکستان کے نام کا مطلب پاک لوگوں کی سرزمین ہے کہ ہم نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کے زرین اصولوں کے مطابق نظام قائم ہوگا۔
انہوںنے مزید کہاکہ ہماری زندگیاں اسلام کے مطابق ہونگی۔ لیکن ہمارا کردار اور عمل اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ ناپ تول میں کمی ، ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ ، دھوکہ بازی ، جھوٹ اور فریب جیسے انفرادی گناہوں کا اجتماعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان سے بچنے کے لیے نہ کسی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے نہ کسی قیادت کی، تو پھر کیوں ہم اپنے آپ کو ان برائیوں سے محفوظ رکھنے سے قاصر ہیں۔
علامہ برکت مطہری کا مزیدکہناتھاکہ اس میں شک نہیں گزشتہ برسوں میں بحیثیت قوم قیام پاکستان کے اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے ہیں۔ لیکن اس ناکامی کا ملبہ دوسرں پر گرانے کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری زندگیاں کس حد تک اخلاقی نظام کی پابند ہیں۔ اگر ہم اپنی ذاتی اور انفرادی زندگی میں کسی نظام کے پابند نہیں ہے تو اپنی اجتماعی زندگی میں کسی دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔اگر ہم خود کو بدل لیں تو یقین جانیے سب کچھ بدل جائے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ چار دھائیوں سے امریکہ اور غرب اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پٹرول گیس اور دیگر وسائل کو لوٹنے کے لئے انھوں نے مختلف ممالک کے نظاموں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا. انکے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک ابھر کر سامنے آیا. انھوں نے خباثت سے مذھبی رنگ دیکر جہان اسلام کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہمارے مخالف تو بس شیعہ مسلمان ہیں. اور سنی مسلمان ہمارے اتحادی ہیں. حالینکہ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کے عوام کا ہوا جہاں پر اکثریت اھل سنت مسلمانوں کی ہے. اور امریکہ وغرب کی ان مسلط کردہ جنگوں میں اگر کوئی اعداد وشمار پر نظر کرے تو سب سے زیادہ قتل ہونے والے بھی اھل سنت مسلمان ہی ہیں. اس وقت جب مقاومت کی حکمت عملی و استقامت اور جوابی کارروائیوں سے اس خطے میں امریکہ شکست سے دوچار ہے. اور دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
امریکہ اور غرب نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ وامارات کو لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مصر ، لبنان وسوریہ ، فلسطین وعراق اور یمن وبحرین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر استعمال کر لیا ہے کہ اب سعودیہ کا چہرہ پورے جہان اسلام میں امریکی اشاروں پر ناچنے اور خطے کے ان مذکورہ ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے اور انکے امن امان کو تباہ برباد کرنے ، آباد وشاد ممالک کو ویران کرنے کے لئے دہشگردی کی کھلی مدد کرنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہے. اقوام عالم میں آل سعود کے خلاف بہت نفرتیں جنم لے چکی ہے. وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ کوئی مسلمان انہیں اپنا پیشوا وراھنما قبول کر سکے. اب انکےطاقتدار کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے اور انکی قیادت کا خاتمہ ہونے والا ہے . اقبال نے تو بہت عرصہ پہلے جہان اسلام کی نجات کا فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
مقاومت کا بلاک ہر گز فقط شیعہ بلاک نہیں بلکہ اس میں عراق ولبنان وشام وفلسطین ویمن کے اھل سنت صوفی ، مسیحی ، درزی ، ایزدی ، عاشوری ، علوی ، زیدی واسماعیلی. نیشنلسٹ وکیمونسٹ ولیبرل وغیرہ سب شامل ہیں . اور امریکہ واسرائیل کی استعماری پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انکی غلامی کی بجائے انکے خلاف قیام اور ہر وسیلہ سے مقاومت کرنے کے موقف پر متحد ہیں۔
لیکن شاید امریکہ اور اسرائیل کی پیدا کردہ نفرتوں کا شکار مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو درک کرنے کے قابل نہیں. اس لئے اب امریکہ کو شکست دینے والے مقاومت کے بلاک کے محور مرکز سے ھٹ کر سنی سیاسی اسلام کے دعویدار اخوان المسلمین جہان اسلام کو قیادت کا جدید نظام فراھم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. جبکہ سعودی عرب اب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ھاتھ پاوں مار رھا ہے. انہیں ایرانی مسلمان بھائی کلمہ شھادت پڑھنے والا اسلام دشمن اور اسرائیلی وصہیونی ویہودی اسلام کا کا ھمدرد اور دوست نظر آتا ہے اس لئے ایران سے تعلقات منقطع کرتے ہیں اور امریکا وغاصب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر فخر کرتے ہیں۔
تاریخ عصر حاضر کے تناظر میں عالمی سنی قیادت
– پہلی عالمی جنگ سے پہلے جہان تسنن کی زعامت وقیادت ترکی کے پاس خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی۔
– اس کے کے بعد تدریجا سعودیہ کو یہ قیادت تفویض کی گئی. اور پورے سنی جہان اسلام کا سرپرست اور قائد وراھبر ال سعود کو بنایا گیا۔
– جب اردغان کو طاقتور کیا گیا تو اسے پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دکھایا گیا. اور اس نے سنی اسلام سیاسی ( اخوان المسلمین ) کو جذب کیا۔
– جب مصر میں محمد موسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے خلافت وقیادت سنی اسلام کی انگڑائی لی. سعودیہ نے جنرل سیسی کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔
– قطر کے اخوانی رجحانات نے اسے سعودیہ کا دشمن بنایا۔
– مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسرائيل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور حماس کی حمایت کی . تو ملائشیا میں سعودی نواز حکومت لائی گئی۔
– نون پریس کی رپورٹ کے مطابق کوالمپور میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس ہے۔
– 2014 کو مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسلامی مفکرین کی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ” اسلام کا سیاسی وفکری نظام ” بلائی۔
– دوسری بین الاقوامی کانفرنس بھی کوالمپور میں بعنوان ” ترقی واستحکام کے لئے حریت ودیموکریسی کا کردار ” منعقد کی کئی۔
– تیسری بین الاقوامی کانفرنس اخوان کے نفوذ کے ملک سوڈان میں بعنوان ” الحکم الرشید ” یعنی حکومت راشدہ منعقد ہوئی۔
– چوتھی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں ” الانتقال الدیمقراطی ” منقعقد ہوئی۔
– ابھی 18 سے 21 دسمبر 2019 کو پانچویں کانفرنس بعنوان “قومی استقلالیت کے حصول میں تعمیر وترقی کا کردار ” اور امت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے جس میں پانچ ممالک ملائشیا ، ترکی ، پاکستان ، قطر اور انڈونیشیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے البتہ شرکت کے لئے 50 کے قریب اسلامی ممالک کہ جن میں ایران بھی ہے ان کو دعوت دی گئی ہے. اس کے علاوہ جہان اسلام کے 450 مفکرین کو بھی ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے. کانفرنس کے انعقاد کے بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ یہ مفکر کیا فقط اھل سنت ہیں یا کسی شیعہ مفکر کو بھی دعوت ہے. یا پھر اھل سنت میں سے بھی فقط اخوان المسلمین عالمی کے مفکرین اور انکے طرفدار ہی مدعو ہیں یا دیگر اھل سنت مفکرین بھی شریک ہو رہے ہیں۔
– ملائشیاء کے وزیر اعظم مھاتیر محمد نے اپنے بیان میں جن زیر بحث آنے والے اہم مسائل کا تذکرہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
مسلمانوں کی مجبورا ھجرت ، اقتصادی مسائل ، قومی وفرھنگی شناخت ، اسلام فوبیا ، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرتیں ، انٹرنیٹ وٹیکنالوجی، ترقی واستقلال ، صلح امن اور دفاع ، استقامت اور حکومت راشدہ ، عدالت وآزادی وغیرہ شامل ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور ملیشیاء کے ساتھ ملکر امت کو درپیش مسائل کہ جن میں فلسطین اور روھینگیا کے مسلمانوں کے مسائل ہیں اس سلسلے میں تعاون کو بہتر بنائیں گے. اور ان مشکلات کا حل تلاش کریں گے۔
ترکی کے صدر کے مشیر یاسین اقطای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ سعودی عرب ،امارات ،اور مصر وغیرہ طاقتور ملک میانمار ، کشمیر ، فلسطین ، ترکستان ، سوریہ کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں جبکہ یہی وہ ممالک ہیں جو یمن ، لیبیا اور مصر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور جو کچھ ان پر گزر رہا ہے یہی ان مسائل کا موجب و منبع ہیں۔
ملائشیاء کانفرنس اور قضیہ فلسطین
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کو اولویت دی جائے گی. امریکی سفارتخانے کے قدس شريف میں منتقل ہونے اور اسے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی امریکی تائید کے بعد جب دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی گئی. تو اسی دوران اقوام متحدہ میں عربی واسلامی ممالک کی نمائندگی میں ترکی کے صدر نے قرار داد پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بلاواسطہ مذاکرات ہونے چاہئیں. جسے 128 اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا.
فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ھنیئۃ کی شرکت بھی متوقع ہے. امریکہ واسرائیل اب فلسطین کے مسئلے پر حماس سے معاملات پر راضی ہیں. بشرطیکہ اس کا عسکری ونگ کنٹرول ہو جائے. جیسے پہلے یاسر عرفات اور محمود عباس سے معاملات چلتے رہے اور حماس وجہاد اسلامی اور مقاومت کے باقی گروہ دشمن رہے. اب یوں نظر آ رھا ہے کہ حماس محمود عباس کی جگہ لینے والی ہے اور یہی معاملات کرے گی. اور پوری دنیا کے اخوان المسلمین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ترکی اور قطر کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ، بحرین، اردن ومصر کے تعلقات قائم ہیں. حماس اسرائیل مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملائشیا وپاکستان ودیگر اسلامی ممالک کے راستے ہموار ہو جائیں گے. فقط مقاومت کا بلاک کہ جس میں ایران ، عراق ، شام ، لبنان اور یمن و فلسطینی مقاومتی گروہ ہیں وہ غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل رہ جائیں گے۔
قطری اقتصادی تعاون اور مالی امداد کا منصوبہ
قطر گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے. اور اسرائیلی قطری تعلقات اور الجزیرہ کی شکل میں میڈیا کے شعبے میں تعاون بھی سب جانتے ہیں. قطر نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ملکر اقتصادی تعاون اور اسلامی ممالک کی ترقی کے لئے مالی امداد کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے. جس کے لئے تین مراکز بنائے جا رہے ہیں. مشرق وسطیٰ کے لئے مالی امداد وتعاون کا مرکز دوحہ میں اور یورپ کے لئے ترکی میں اور ایشیا کے باقی ممالک کے لئے کوالمپور میں مرکز بنایا جائے گا. اس پر دوحہ ، استنبول اور کوالمپور حکومتوں کے مابین معاملات طے پا چکے ہیں. اور تینوں مراکز کے لئے 3 ٹریلین ڈالرز کی امداد کا بجٹ بھی طے پا چکا ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع لاہور کی جانب سے ہنزہ بلاک اقبال ٹاؤن میں یونٹ سازی کی گئی۔اس موقع پر محترمہ حنا تقوی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور کے ہمراہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل محترمہ عظمیٰ نقوی اور محترمہ نسیم زہرہ بھی موجود تھیں۔
اراکین یونٹ سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ حنا تقوی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف نظام قرآن اور اھل بیت ع کی شریعت ہی اس لبرل یلغار سے نجات دلا سکتی ہے۔
بچوں کے اغواء سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے محترمہ حنا تقوی کا کہنا تھا کہ اس سال لاہور میں 392 بچے اغواء ہوئے جن میں سے 34 ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکے یہ حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں انصاف کی فراہمی میں ناکام رہی ہیں سانحہ APS کو پانچ سال بیت گئے لیکن قاتل احسان اللہ احسان کو پھانسی نہ دی جا سکی۔ حکومت اور قانونی ادارے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فی الفور مثبت اقدامات کریں۔
وحدت نیوز(گلگت) متنازعہ خطہ ہونے کے ناطے ٹیکس فری اور سبسڈائز اشیاء ہمارا حق ہے ۔ نہ تو ہم افیون زدہ ہیں اور نہ حقوق کے بدلے سستی گندم کا تقاضا کرتے ہیں ۔ آئینی حقوق کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کا بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما شیخ اصغر طاہری نے وزیر اعلیٰ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں گلگت بلتستان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کچھ کام نہیں کیا ۔ حکومتی مدت جوں جوں قریب آرہی ہے وزیر اعلیٰ اور اس کی ٹیم کو آئینی حقوق یاد آگئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز نے الیکشن 2015 میں گلگت بلتستان کے عوام سے بنیادی حقوق کے بوگس نعروں سے مینڈیٹ لیا اور چار سال صرف کرپشن میں گزار دئیے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ وفاق سے سینہ تان کر بات کرنے کی بجائے عوامی ملکیتی زمینوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ وز یر اعلیٰ عوامی ملکیتی زمینوں کو خالصہ سرکار قرار دیکر عوام کا بنیادی حق چھین رہے ہیں ۔ گزشتہ روز موضع مناور سے اپنی ملکیتی زمینوں پر کام کرنے والوں کو پابند سلاسل کرکے حفیظ الرحمٰن کس کی نوکری کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی زمینیں یہاں کے عوام کی ملکیت ہیں جن پر غاصبانہ قبضے کی ہر کوشش کو عوام ناکام بنائیں گے ۔ انہوں نے لینڈ ریفارمز کمیشن کے حوالے کہا کہ عدالتوں میں عوام کے ساتھ صوبائی حکومت خود فریق بنی ہوئی اور دوسری جانب لینڈ ریفارمز کا ڈرامہ بھی رچارہی ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے ۔ صوبائی حکومت یا تو عدالتوں میں فریق نہ بنے یا پھر لینڈ ریفارمز کا ڈھنڈور پیٹنا بند کرے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں وزیر اعلیٰ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سکریٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالت کا فیصلہ ان سیاسی شخصیات کے لیے بھی پیغام ہے جن پر کرپشن کے بڑے بڑ ے مقدمات ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود ساختہ بیماری کی آڑمیں سزا سے جان بچا لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس اعتبار سے اہم بھی ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مستقبل میں مزید سخت اور خلاف توقع فیصلوںسے ثابت کیا جاسکتاہے کہ نئے پاکستان میں کوئی بھی قصوروار رعایت کا قطعاََ مستحق نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کا وقار ملکی سلامتی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
علامہ اسدی نے کہاکہ دہشت گردی کے عالمی مراکز کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے اسے غیر مستحکم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔پاک فوج مادر وطن کا مضبوط دفاع اور سالمیت کی ضمانت ہے۔اگر کوئی بیرونی طاقت یہ سمجھتی ہے کہ وہ سازشوں کے بل بوتے پر فوج کے خلاف کسی مہم میں کامیابی حاصل کر لیں گے تو وہ قطعی مغالطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا کر مذموم مقاصد کی راہ ہموار کرنا اب ممکن نہیں رہا۔عوام باشعور ہو چکی ہے اور اسے قومی اداروں پر پوری طرح اعتماد ہے۔کچھ عالمی طاقتیں اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود شخصیات ابھی تک نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔نواز شریف کی ضمانت اور پرویز مشرف کی سزا سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نواز شریف موجودہ حکومت سمیت دیگر بااختیار اداروں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف مسلکی سوچ کے مالک ہیں اور پڑوسی ملک بھارت سمیت پاکستان دشمن عالمی لابی کے لیے وہ اہمیت کے حامل ہیں۔اب ان کی پاکستانی سیاست میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔