وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کی صوبائی شوری نے بھکر سے تعلق رکھنے والے مسئول مرکزی سیکرٹریٹ اور سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب و ترجمان علامہ اصغر عسکری کو تین سال کے لیے پنجاب کا نیا سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا۔ لاہور کے علاقے شادمان کے قومی مرکز میں منعقدہ صوبائی شوری کے اجلاس میں ضلعی سیکرٹری جنرلز اور نمائندوں نے اپنا اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس سے قبل صوبائی سیکرٹری جنرل کیلئے 3 ناموں کو پیش کیا گیا جن میں سید اسد عباس نقوی، علامہ مبارک علی موسوی اور علامہ اصغر عسکری شامل تھے۔ رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کے ذریعے علامہ اصغر عسکری کو نیا سیکرٹری جنرل منتخب کیا۔ نومنتخب سیکرٹری جنرل کا اعلان اور حلف مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لیا۔ الیکشن کمیشن کے فرائض مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی، علامہ ابوذر مہدی اور علی رضا بھٹی نے سرانجام دیئے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے تین سالہ پارٹی سیشن مکمل ہونے پر انٹرا پارٹی الیکشن کل(اتوار 24مارچ) بنام ،،پیام وحدت کنونشن ،،قومی مرکز شاہ جمال لاہور میں منعقد ہو گا،سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی اپنے صوبائی کابینہ سمیت عہدے سے سبکدوش ہونگے،نئے سیکرٹری جنرل پنجاب کے لئے صوبائی شوریٰ کا اجلاس 9 بجے اور پولنگ کا آغاز 11 بجے ہوگا،3:30 بجے نئے سیکرٹری جنرل پنجاب کا اعلان ہوگا ،سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سمیت دیگر اہم شخصیات اس موقع پر موجود ہونگے،سربراہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نو منتخب سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب سے انکے عہدے کا حلف لیں گے،بعد ازاں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نو منتخب سیکرٹری جنرل پنجاب اور دیگر رہنماوں کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کریں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں کھٹکتا رہتا تھا، جس سے میرا ذہن ہمیشہ اضطراب میں رہتا تھا، میری ہمیشہ سے کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کئے بغیر نہیں رہوں گا۔ اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پہنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شہروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ہوا، شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی موجزن ہو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ہم اپنا پیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ہم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ہی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ہمارے والدین کی تربیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟ میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ہر جگہ ان ہستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوا، شاید دینی پیشوا ہونے کی بنا پر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ہو، اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ میں غیر مسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرا مطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ وہ ان ہستیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ہوا کرتی ہے، جس کی شہادت دشمن بھی دے۔
میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زہرا ؑ کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔ مسیحیوں اور دوسرے غیر مسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراہم کیا، پھر میں نے تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علیؑ کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی۔ ان کے حوالے سے مختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیر مسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کہنا ہے: ہاں میں ایک مسیحی ہوں، وسعت نظر ہوں، تنگ نظر نہیں ہوں، میں خود تو مسیحی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔
یتیموں اور فقراء کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی۔ اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور گرد و نواح کا گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتا۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو، وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراہٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے۔" پھر میں نے فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv) کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا "حضرت علیؑ کا احترام شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ ہے اور یہ بجا بھی ہے، کیونکہ اس عظیم ہستی نے اسلام کی ترویج کے لئے بہت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاہرہ کیا، ساتھ ہی علم، فضائل، عدالت اور دوسری صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیر تھے۔ آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔
حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں، جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ ہی وہ ہستی ہیں، جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ آپ ہی وہ ہستی ہیں، جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ہوا کرتی تھیں۔ اس کے بعد مادام دیالافوائے مسیحی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے: اے میری آنکھوں! آنسو بہا لو اور میری آہ و بکاء میں اسے شامل کر لو اور اولاد پیغمبر کی جنہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ عزاداری کرو!
ان غیر مسلموں کی کتابوں کا میں جتنا مطالعہ کرتا گیا، ان کا غیر جانبدارانہ اظہار عقیدت حضرت علیؑ سے میری عقیدت میں مزید اضافہ کرتا گیا۔ میرے مطالعے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ پھر مجھے ایک مشہور برطانوی مستشرق جرنل سر پرسی سایکس (Journal Sir Percy Sykes) کے اظہار عقیدت اور حقیقت بیانی کو پڑھنے کا موقع ملا، "حضرت علیؑ دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ آپ کے حریف، غدار اور داغدار چہرہ معاویہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو اپنے ہدف کو پانے کے لئے بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا ۔ساتھ ہی اپنے مقصد کو پانے کے لئے پست ترین چیزوں کا بھی سہارا لیتا تھا۔ امانتوں کے معاملے میں حضرت علیؑ کی بہت زیادہ باریک بینی اور آپ کی ایمانداری کے باعث لالچی عرب آپ سے نالاں تھے۔ جنھوں نے اتنی بڑی سلطنت کو غارت کر رکھا تھا۔ سچائی، پاکیزہ عمل، کامل دوستی، حقیقی عبادت و ریاضت، اخلاص، وارستگی اور بہت ساری صفات حمیدہ سے آراستہ ہونے کے باعث آپ کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ ایرانی جو ان کی ولایت کے قائل ہوگئے ہیں اور ان کو خدا کی طرف سے حقیقی امام اور مربی مانتے ہیں، حقیقت میں بھی ان کا یہ اعتقاد بہت ہی قابل تحسین اور اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ حضرت علیؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں بلند و بالا ہے۔"
حقائق کے دریچے کھلتے گئے، میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ایک فرانسوی پروفیسر اسٹانسیلاس (Professor Astansylas) کا ایک منفصفانہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا، "معاویہ نے مختلف جہات سے اسلام کی مخالفت کی ہے۔ علی بن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد سب سے باعظمت، سب سے دلیر، سب سے افضل اور عرب کے بہترین خطیب ہیں، معاویہ ان سے جنگ پر تلے آئے، اب مسیحی میخائیل نعیمہ(Makahial Naima) نے جو علیؑ کی شجاعت کی تصویر کشی تھی، وہ مزید میری دلچسپی کا سبب بنی، "حضرت علیؑ کی پہلوانی صرف میدان کارزار تک محدود نہ تھی بلکہ آپ روشن فکری، پاکیزہ وجدان، فصیح بیان، انسانیت کی گہرائی اور کمال پر فائز ہونے کے علاوہ ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے، آپ کے حوصلے بلند اور فکر وسیع تھی، آپ ظالم و جابر کے مقابلے میں ستمدیدہ و مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتے تھے۔ حق کے لئے آپ صاحب حق کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے اور باطل کے خلاف آپ پہلوان ہوتے تھے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جتنا بھی ذہین اور برجستہ شخصیت کا حامل اور نکتہ سنج ہی کیوں نہ ہو، اس کے لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ 1000 صفحات میں حضرت علیؑ کی کامل تصویر کشی کرسکے، نہ ہی آپ کی زندگی میں جو حالات رونما ہوئے ہیں، ان سب کو مناسب انداز میں کوئی بیان کرسکتا ہے۔ بنابریں علیؑ نے جن چیزوں کے بارے میں غور فکر کیا ہے، وہ بھی بیان سے بالاتر ہے، اسی طرح عرب کی اس عظیم شخصیت نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان جو راز و نیاز کی باتیں کی ہیں اور جن چیزوں کو عملی جامہ پہنچایا ہے، یہ سب ایسے امور ہیں، جنہیں نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارا گیا یا جو زبان سے ظاہر ہوا، وہ سب ان امور کے شمار سے بہت ہی کم ہے۔" مجھے نہ تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی بھوک پیاس کا احساس تھا، فضیلتوں کے باغوں کی سیر نے دنیا و مافیھا سے میری توجہ کو ہٹا دیا تھا۔
بعدازاں جب میری نظر "گبرےیل ڈانگیرے" (Gabriel Dangyry) کی تحریر پر پڑی تو مجھے ایسا لطف اور ایسا کیف محسوس ہو رہا تھا کہ جس کے بیان کے لئے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نہیں، "حضرت علی ؑ میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکی۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدان جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو الٰہی علوم کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت علیؑ کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتب فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں، جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں۔ علیؑ ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلند پایہ قاضی تھے اور مکاتب فکر کے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے۔ علیؑ شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو۔"
میرے سامنے فضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا، جن کی شمارش سے میں قاصر تھا۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔ "حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اور بہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) "حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) "حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔" (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) "سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) "حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے۔" (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984) "حضرت علیؑ کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔"
معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013) "خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ہاروں کو تھی۔" معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826) "خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔" برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) "علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔" امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859)ٖ "میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔" بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974) اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیر مسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جا پہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائیں، تب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے تک بھی پہنچنا ممکن نہیں۔ اب بھی اگر لوگ علی ؑ کا دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں موازنہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔ اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمؐ کے بعد سب سے افضل ہستی امام علیؑ ہیں۔
حوالہ جات:
1.www.yjc.ir
2.farsi.balaghah.net
3. Dawn News pk
تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ آرمی چیف کے کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ نوازشریف بھی سبق حاصل کریں۔ نوازشریف کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ آرمی چیف کے اقدامات سے پاکستان کو بچانے کیلئے امید کی ایک کرن پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی اور کرپشن سے پاک کیے بغیر گزارا مشکل ہے۔ نوازشریف کے خاندان کا سیاسی زوال شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس کاروائی عجلت سے کروائی۔ حکومت چاہتی تھی کہ چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن فوج اور رینجرز کی بجائے پولیس کرے تا کہ آٹھ سال سے قائم پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کے دوران چھوٹو گینگ کے پاس پہنچنے والا اسلحہ، گولہ بارود اور خطرناک ہتھیاروں کا پتہ معلوم نہ ہوسکے کہ وہ وہاں کیسے اور کس ذریعہ سے پہنچے؟۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف پاک فوج کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں اور اس وقت ان کو معلوم نہیں کہ وہ اپنی غیر مقبولیت کے حساب سے نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور پاکستانی قوم اس وقت آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عملی اقدامات کی وجہ سے پسند کرتی ہے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے صوبائی سیکریٹری سیاسیات اور بلوچستان اسمبلی کے رکن ایم پی اے آغا رضا نے یوم وفات علامہ اقبال کے موقع پر کہا کہ شاعر مشرق کے افکار سے دوری نے ملک کی تصویر بدل دی ہے، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آزادی کے کئی سالوں بعد بھی ہم اس پاکستان کو حاصل نہیں کر سکے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کو اسلام کا مرکز بنانے کا فلسفہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا اور آزاد وطن کی ایک امید ہمارے بزرگوں کے دلوں میں پیدا کردی ، جس نے جدو جہد کو راستہ دیا اور ہم اسلامی وطن کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ آج وطن عزیز میں علامہ اقبال کے نام سے منسوب سینکڑوں ادارے ہونگے مگر انکی فکر کو دفن کر دیا گیا ہے اور پاکستانی قوم انکے افکار سے محروم ہیں۔ ان کے فلسفہ خودی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ کسی لحاظ سے قابل فخر نہیں ہے ، آزادی اور حریت کا جو سلیقہ اقبال نے بتلایا اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اشعار کی شکل میں ہم تک پہنچنے والے ادب کے یہ حصے، شاعر مشرق کے وہ افکار و خیالات ہیں جو اس دور کے دردمند مسلمانوں کی آواز تھی، علامہ اقبال نے برصغیر کے تمام مسلمانوں کو بیدار کیا اور انہیں اسلام پر عمل پیرا ہونے، قرآنی احکامات پر کاربند ہونے، سیرت نبی ؐ سے عملی استفادہ ہونے اور اسلامی اقدار کو برقرار رکھنے کی تلقین کی اور برصغیر کے تمام مسلمانوں کو پاکستان بنانے کا بنیادی فکر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو علامہ اقبال کے افکار و نظریات کے سانچے میں ڈھالا جائے تاکہ پاکستان انفرادی لحاظ سے ترقی کرے اور عالم اسلام کا مرکز و محور قرار پائے۔ ایم پی اے آغا رضا نے کہا کہ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کی حالت زار بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ پر کفار کی عسکری، علمی، فکری، اور ثقافتی یلغار پر بھی متعدد مقامات پر افسردگی اور بے چینی کا اظہار کیا، مسلم عوام کو استکبار و استبداد کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا درس دیا اور انہیں اسلام جیسے عظیم اور آفاقی مذہب کی تعلیمات اپنے اوپر نافذ کرنے اور اپنی بہترین اور اعلی ثقافت کو اختیار کرنے کا پیغام دیا۔ علامہ اقبال کے اس وسیع اور عالمی اہمیت کے حامل نظریات کی وجہ سے انہیں دنیا کے تمام معاشروں بالخصوص مسلم معاشروں میں بے انتہا عزت و منزلت حاصل ہوئی جس کے اثرات اب بھی نظر آتے ہیں۔ بیان کے آخر میں آغا رضا نے کہا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے جس طرح مثبت انداز میں استفادہ کیا وہ قابل تعریف ہے،اس استفادے کا واضح اظہار ان کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے جگہ جگہ پر اسلام، بانی اسلام اور اسلامی اقدار و روایات کو موضوع کلام بنایا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے جوانوں میں جذبہ پیدا کرنے والے کئی نظمیں لکھیں ہیں۔
وحدت نیوز (جھل مگسی) پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی چیف آرگنائزر اور سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند سے مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ کرپٹ سیاست دانوں کو اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، جبکہ ملکی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ملک و قوم کو دھشت گردی اور کرپشن سے نجات دلائیں۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ چھلگری دھشت گردی کا المناک سانحہ تھا، مگر حکومت اور ریاستی ادارے چھ ماہ گذر جانے کے باوجودمعصوم انسانوں کے قاتل مجرموں اور دھشت گردوں کو نہیں پکڑ سکے۔ زخمیوں کے علاج اور متاثرین کی امداد سے متعلق بھی حکومتی وعدے پورے نہیں ہوئے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سردار یار محمد رند نے کہا کہ میں نے بلا تفریق ضلع کچھی اور ضلع جھل مگسی کے عوام کی خدمت کی ہے، اور پہلے دن سے سانحہ چھلگری کے متاثرین کے غم میں شریک ہوا ہوں،چھلگری کے متاثرین کو انصاف ملنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملکی مسائل اور کرپشن کے خلاف جدوجہدمیں ہمفکری موجود ہے۔
در ایں اثناء ضلع جھل مگسی کے تنظیمی دورے پر گاجان پہنچ کرعلامہ مقصود علی ڈومکی نے سردار دھنی بخش خان لاشاری سے ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کی۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری فلاح سہیل اکبر شیرازی ، ضلعی سیکریٹری جنرل سید گلزار شاہ، سید شبیر علی شاہ، ممتاز علی ڈومکی، جیئند جکھرانی و دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔