وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ’’مزدوروں کے عالمی دن‘‘ کے موقعہ پر مرکزی میڈیا سیل سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں سب سے زیادہ کردار ان محنت کشوں کا ہے جو مشقت کر کے رزق حلال سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہی طبقہ زوال کا شکار ہے۔زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے محنت کش موجود ہیں جن کی محنت سب سے زیادہ اور اجرت سب سے کم ہے۔ یہی سرمایہ دارنہ جبر معاشی استحصال کی بدترین مثال ہے۔دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں منائے جانے والے’’یوم مزدور‘‘ میں دانشوروں اور ممتاز شخصیات کی طرف سے محض لفاظی اور ہمدردی کے چار بول انہیں وقتی تسکین تو دے سکتے ہیں لیکن ان کی مشکلات کا حل نہیں ہو سکتے۔درد دل رکھنے والی با اختیار شخصیات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کو ریاستی جبر سے آزادی دلوانے کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل پیش کریں۔پاکستان میں مہنگائی کے تناسب سے مزدور کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔حکومت کی طرف سے مزدور کے لیے جو تنخواہ طے کی گئی ہے اس سے بجلی گیس کے بل بھی پورے نہیں ہوتے۔مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابرجب تک طے نہیں کی جاتی تب تک اس نظام کو منصفانہ نظام قرار نہیں دیا جا سکتا۔وطن عزیز کے پسماندہ علاقوں میں محنت کش نہ صرف غربت کی چکی میں پس رہے ہیں بلکہ سرمایہ داروں کے ہاتھوں آئے دن ان کے ناموس کے جنازے نکالے جاتے ہیں ۔جب تک اس ملک میں مزدور خوشحال نہیں ہوگا تب تک اس استحصال میں حکومت کردار کی موجودگی کے تاثر کو زائل نہیں کیا جا سکتا۔
وحدت نیوز(گلگت) سکردو روڈ کا ٹینڈر ایک مرتبہ پھر ملتوی کرکے بلتستان کے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا ،صوبائی حکومت تاریخوں پر تاریخیں دے کر عوامکوٹرخارہی ہے وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق اور مسائل کے بارے میں صوبائی حکومت ٹھوس مطالبات کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات غلام عباس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سکردو روڈ کے ٹینڈر کی باربار منسوخی سے حکومت کا گلگت بلتستان کے عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا ثبوت ہے جبکہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے۔گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے بننے والی آئینی کمیٹی کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے اورصوبائی وزراء تاحال اخباری بیانات سے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے گلگت اور گردونواح میں پہنچنے والے نقصانات سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی جامع حکمت عملی نہ تھی جبکہ تاحال دور دراز علاقوں کا رابطہ منقطع ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہنزہ نگر،غذر اور گلگت کے کئی علاقوں کی رابطہ سڑکیں تا حال بحال نہ ہوسکی ہیں جس کی وجہ سے عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں اور ان علاقوں میں اشیائے خورد ونوش کی قلت کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے سے زیادہ اخباری بیانات پر توجہ دے رہی ہے اور صوبائی وزراء فوٹو سیشن پر زور دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دی گئی ریلیف بھی محض مسلم لیگی حلقوں کے علاوہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلتستان ریجن کے عوام گلگت تک کی مسافت 9 گھنٹوں میں موت کے سائے میں طے کرنے میں مجبور ہیں اور حکومت سڑک کی تعمیر میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے جبکہ آئے روز حادثات کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یکم مئی کو عوامی ایکشن کمیٹی کے جلسے میں عوام بھرپور شرکت کرکے حکومتی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرینگے ۔انہوں نے وحدت مسلمین کے تمام کارکنان سے یکم مئی کے جلسے میں بھرپور شرکت کرنے اپیل کی ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ سال پہلے کی بات ہے۔گاڑی چھانگامانگا سے گزررہی تھی۔ میری ساتھ والی سیٹ پر کوئی اونگھ رہاتھا۔ اچانک اونگھتے ہوئے شخص نے مجھے چٹکی کاٹی۔
ہوں ! میں چونک گیا۔
ابے صاحب ڈر گئے،اجنبی مسکراتے ہوئے بولا۔
نہیں تو!میں نے قدرے تکلف سے کام لیا۔
مجھے ۱۹۷۱کی ایک بات یاد آئی ہے۔سوچا آپ کو بھی سنا دوں۔اجنبی نے یہ کہتے ہوئے کسی قسم کا تکلف نہیں کیا۔اس نے بغیر کسی وقفے کے بات شروع کردی:
اس نے بتایاکہ میری جوانی کے دن تھے۔ایک مرتبہ کچھ دوستوں کے ساتھ مجھےچھانگامانگا آنا پڑا۔گھنے جنگل کے نزدیک کچھ لوگ ایک چھپر ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔ہم دوست بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔
موسم بھی گرم تھا اور موضوع بھی لسانی اور مذہبی فسادات کا چل رہاتھا،اخباروں کی طرح چائے کے کپ میں بھی گھٹن تھی اور گھٹن سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔اتنے میں ایک ملنگ پر ہماری نظر پڑی،لمبے لمبے بال،پھٹاہوا اور پرانا کرتا،گندھا اور بدبودار جسم،سوکھے ہوئے ہونٹ اور گردن میں خالی کشکول۔
ہم نے اسے بھی اپنے پاس بٹھالیا۔ملنگ خاموشی سے بیٹھ گیا،وہ ہماری باتیں ایسے سن رہاتھاجیسے بالکل نہیں سن رہا۔وہ چائے دانی سے کپ میں مسلسل چائے پہ چائے ڈال کر پیتا جا رہے تھااور بس۔۔۔
ہم بھی فسادات اور خون خرابے پر آنسو بہائے جارہے تھے۔انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کے لئے کئی مرتبہ ٹھندی آہیں ہمارے سینے سے ابھریں اور عرش اعظم سے ٹکرائیں۔
]اس دوران کئی مرتبہ چائے میں چینی گھولتے ہوئے ملنگ کے چمچ کی ٹھن ٹھن سے ہم تھوڑے سے بیزار بھی ہوئے۔کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ ملنگ صاحب ہمیں تنگ کرنے کے لئے چمچ سے ٹھن ٹھن کر رہے ہیں۔[
ایک دوست نے قدرے ناراحتی کے ساتھ ملنگ کو مخاطب کیا،باباجی آپ کچھ فرمانا چاہتے ہیں!؟
ملنگ نے چائے کی چسکی لی اور پھر بولا دیکھو بچو! انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کی خواہشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں اور اس کے غم بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔وہ جلدی راضی ہوتا ہے اور جلدی ناراض لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی خواہشیں طولانی ،ناراضگیاں لمبی ، دوستیاں کم اور انانیت زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہ کہہ کر ملنگ نے ایک مرتبہ پھرچینی کی چمچ کپ میں ڈالی اور ہلانی شروع کر دی اور پھر کہنے لگا کہ اگر میں ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جاوں تو کیا میں میٹھا ہو سکتا ہوں۔جب تک میرا دل داغدار ہے تب تک میری زبان کڑوی ہے۔
اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص کے کے کاندھے تھپتھپا کر کہا تم ابھی جوان ہو !کوشش کرکےاندر کے کڑوے پن کو ختم کرو ، یہ ہمارے اندر اور باطن کا ذہر اور کڑوا پن ہے جو باہر کے ماحول کو مسموم کرتاہے۔
یہ کہہ کر ملنگ نے قریب کھڑے ٹرک کی طرف اشارہ کیا جس کے پیچھے بہت بڑا لکھا تھا:
آپ اچھے جگ اچھا۔
ملنگ اشارہ کر کے ہم سے دور چلاگیا،ہم نے بہت منتیں کیں،مزید چائے پلانے کے جھانسے دیے لیکن اس نے پھر زبان نہیں کھولی۔اور ہم اپنی زبانوں پر یہ جملہ لئے واپس آگئے:
"آپ اچھے جگ اچھا"
یہ کہہ کر میرے ساتھ والے اجنبی نے اخبار میرے سامنے لہرایا،جس پر یہ خبر لگی تھی کہ مشہور قوال قاری سعید چشتی کو قتل کردیا گیا۔
میں ٹھٹھک کر بولا جو قوم ،سائنسدانوں،دانشوروں،قوالوں،ذاکروں،شاعروں اور ادیبوں کو بھی قتل کردے ،کیا اُس کی اصلاح پولیس کرسکتی ہے!؟
کیا اس کا ذہر مقدموں اور جیلوں سے ختم ہوسکتاہے!؟
کیا اس کے کڑوے پن کو عدالتیں ختم کرسکتی ہیں؟
اجنبی بولا نہیں ہر گز نہیں،یہ کہہ کر اس نے گاڑی سے باہر اشارہ کیا:
باہر تیل کا ایک ٹینکر کھڑا تھا،جس کے پیچھے جلی حروف میں لکھا تھا:
آپ اچھے ۔۔۔جگ اچھا
ہم دونوں نے یہ دیکھا اور مسکرا دئیے۔
جی ہاں! آپ اچھے تو جگ اچھا ورنہ اگر ہم ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جائیں تو میٹھے نہیں ہوسکتے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو چور کہہ رہی ہیں، چور ہونے پہ سب کا اتفاق ہے۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر عوام کے پیسے سے اشتہارات چھپوا کر صفائیاں دی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میاں صاحب حق حکمرانی کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں، پانامہ لیکس کے معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جا ریا۔ نواز شریف کو مانسہرہ کے بجانے لیہ جانا چاہیئے تھا۔ لیہ میں زیریلی مٹھائی سے متاثرہ افراد اسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں اور حکمرانوں کے ہسپتال لندن میں ہیں۔ علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ مانسہرہ میں ترقیاتی منصوبے کا افتتاح پانامہ ایشو سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ مخصوص سرمایہ دار ٹولے کی بادشاہت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب قومی اسمبلی کی ایک نشست کا الیکشن لڑنے کے لیے جو امیدوار ایک ارب روپے خرچ کرتا ہے، اس کا مقصد عوام کی خدمت کرنا نہیں بلکہ حکومتی نظام کا حصہ بن کر اپنے سرمایہ میں اضافہ کرنا ہے۔ یہی عناصر بعد میں آف شور کمپنیوں، ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے مال سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنی اہلیت کی بجائے سرمایہ خرچ کرکے پارلیمنٹ تک پہنچنا آئین پاکستان سے انحراف ہے۔ اسی عمل نے نیک و صالح قیادت کو پارلیمنٹ سے دور کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خوف اور لالچ کا شکار ہے، جس کے باعث اس سے حماقتیں سرزد ہو رہی ہیں اور یہی موجودہ حکومت کے زوال کی علامت ہے۔
علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ لیہ میں طبی سہولتوں کے ناپید ہونے کے باعث کتنی معصوم جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔ اس وقت ضروری تھا کہ وزیراعظم لیہ میں جا کر دکھی خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے، لیکن وہ ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے مانسہرہ پہنچ گئے۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ پانامہ لیکس پر حکومت کی طرف سے آئیں بائیں شائیں جرم کا واضح اقرار ہے۔ یہ امر مضحکہ خیز ہے کہ جس پر الزامات لگائے گئے ہیں، وہی ٹی او آرز طے کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کا ایک مضبوط اور بااختیار ادارہ ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے پش کریں۔ ترقیاتی کاموں کی آڑ میں حکومت جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہے، جو بے سود ثابت ہے۔ قوم کرپٹ حکومت سے جان چھڑانے کا تہیہ کرچکی ہے۔ بدعنوان عناصر کا احتساب ہر حال میں ہو کر رہے گا۔
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین قم کے زیر اہتمام ایم ڈبلیو ایم قم کے آفس میں مبلغین اسلام کی ذمہ داریوں کے عنوان سے ایک نشست منعقد ہوئی۔نشست سے حجۃ الاسلام سید نعیم الحسن نقوی اور ایم دبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری نے خصوصی گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض آفس سیکرٹری مختار مطہری نے انجام دئیے۔نشست میں کثیر تعداد میں علمائے کرام نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس و حدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا ہے کہ اگر حکومت کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے میرٹ کو یقینی بنائے۔ سرکاری اداروں میں با ایمان ملازمین کی آمد سے نظام میں تبدیلی آسکتی ہے۔ حکومت اور نیب مل کر ان افسران سے جواب طلب کرے جونوکریوں کا سودا کرتے ہیں یا کرسیوں کو اپنے رشتہ داروں میں بھانٹ کر دوسروں کی حق تلفی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ حکومت سخت اقدامات سے اس نا انصافی و ظلم کیلئے ایک دیوار کھڑی کر دے تاکہ میرٹ کی بحالی سے ملکی نظام میں تبدیلیاں رونماء ہو۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ وطن عزیز کی بقاء، سلامتی، ترقی اور خوشحالی کیلئے ہمیں کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ کرپٹ نظام کی وجہ سے ملک باہنر اور قابل لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے محروم ہے، جو اپنی قابلیت اور محنت سے ملک میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں اورجو کسی طور سرکاری اداروں میں کوئی خاص سفارش یا رشوت نہ ہونے کی وجہ سے، نوکری نہیں پا تے ۔ کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملک میں ترقی کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ جوں جوں ہمیں ترقی کے مواقع ملیں گے یوں یوں اس نظام سے وابسطہ کرپٹ افراد کو بدعنوانی کے مواقع فراہم ہونگے اورنتیجتاً ملک اپنے مفاد کیلئے کئے گئے منصوبوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
انہوں نے مزید کہاکہ صوبے کے زیادہ تر سرکاری ادارے کرپٹ افراد کا ٹھکانہ بن گئے ہیں اور وہاں عوام کیلئے کام نہیں کیا جاتابلکہ کئی اداروں میں تو صرف عوام کو تنگ ہی کیا جاتا ہے۔کرپشن کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں اس چیز کا گلا گھوٹ دینا چاہئے وہی اس کے بر عکس یہ تیزی سے پھیل کر دوسروں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے اور دوسری طرف اس کے روک تھام پر حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ بیان کے آخر میں کرپشن کو ملک کی بربادی کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگر ہمارا نظام ٹھیک ہوگا تو ہمارے ملک سے وابسطہ افراد کو نوکریوں کی تلاش میں دیگر ممالک کے ٹھوکر کھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور اس کی روک تھام سے عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہوگا۔