وحدت نیوز (کراچی) شہر قائد میں گرمی کی شدت میں اضافہ شہریوں کے لئے امتحان سے کم نہیں، گرمی سے بلبلائے شہریوں پر لوڈشیڈنگ اور واجبات کی عدم ادائیگی کا بہانہ بناکر اذیت دی جارہی ہے،ایک شہری کی بھی جان کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ دار کے الیکٹرک انتظامیہ ہو گی، جعفرطیارسوسائٹی میں نان پیمنٹ کی آڑ میں بجلی بندش کی مذمت کرتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے پولیٹیکل سیکریٹری سید علی حسین نقوی نے وحدت ہاؤس ملیر کے دورے کے موقع پر ضلعی سیکریٹری جنرل احسن عباس رضوی اور انکی کابینہ کے اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ہیٹ اسٹروک الرٹ جاری ہوجانے کے باوجود کے الیکٹرک انتظامیہ شہریوں کو کسی قسم کا ریلیف فراہم نہیں کررہی ، شہر کے مختلف علاقوں میں معمول کے مطابق لوڈشیڈنگ جاری ہے ،جبکہ گذشتہ سال ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں شہر قائد کے ہزاروں شہری اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے، گوکہ یہ قدرتی عمل تھا لیکن اس قدرتی آفت پر کے الیکٹرک انتظامیہ نے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں سونے پر سہاگے کا کام کیااور شدید گرمی اور اوپر سے لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی چیخیں نکال دی تھی، گذشتہ برس کے اس سنگین سانحے سے سبق حاصل کرنے کے بجائے کے الیکٹرک انتظامیہ اسی روش پر کاربند ہے ، جو کہ مزید سانحات کو جنم دینے کی ایک مذموم سازش معلوم ہوتی ہے، علی حسین نقوی نے کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے جعفرطیارسوسائٹی فیڈر کی واجبات کی عدم ادائیگی کا بہانہ بناکربندش کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ انتظامیہ ہو ش کے ناخن لے 50فیصد سے زائد بلنگ کے باوجود بجلی کاٹنا غیر اخلاقی فعل ہے، ہیٹ اسٹروک اور بجلی بندش کے باعث ہونے والے کسی بھی جانی ومالی نقصان کی ذمہ داری کے الیکٹرک انتظامیہ پر عائد ہوگی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید عباس علی موسوی نے کرپشن کو ملک کی پسماندگی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپشن رہے گی ملک میں عادلانہ نظام قائم نہیں ہو سکتا۔کرپٹ عناصر ملک کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے ، اگر ہم ملک میں اچھے نظام کے خواہاں ہیں تو اپنے درمیان سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ روز اول سے پاکستان کے استحکام کو مد نظر رکھا جاتا اور کرپشن کو ختم کرنے کیلئے عدلیہ اور کرپشن کے خاتمے پر فائز حکومتی ادارے اپنا مثبت کردار ادا کرتے تو آج وطن عزیز کی حالت موجودہ حال سے مختلف ہوتی اور کرپٹ عناصر کو جنم دینے میں ہر وہ شخص ملوث ہے جس نے اس کی راہ میں رکاؤٹ بننے کے بجائے رضامندی اور خاموشی اختیار کی۔ جس طرح دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں کی جاتی ہے لازم ہے کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور ان تمام حکومتی افسران کو انصاف کی عدالت میں کھڑا کیا جائے جو کرپشن میں ملوث ہیں، کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا قانون بدعنوانی کے خلاف ہے، جو افراد آئین شکنی کرکے دوسروں کا حق کھائے انہیں ان کاموں کی سزا بھی ملنی چاہئے،احتسابی عمل کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے تمام محکموں اور اداروں میں اسے بلاامتیاز شروع کیا جائے۔ ایماندار اور کرپشن سے پاک کوئی بھی فرد احتساب کے عمل کے خلاف نہیں ہوسکتا، تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ احتسابی عمل کی تائید کرے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاؤٹ ہے، جب تک ملک میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا جائے گا ملک ترقی نہیں کر سکے گی، بدعنوانی کی وجہ سے ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور ہوا۔ احتسابی عمل اعلیٰ اداروں سے شروع ہونا چاہئے اور اوپر سے نیچے کی طرف لایا جائے اس طرح کرپشن کے خلاف جنگ میں ہمیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں اور اسی صورت ہم ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں۔ کرپٹ عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے۔ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، کرپشن کے خلاف بھی فیصلہ کن کاروائی ملک کی سالمیت و استحکام کے ازحد ضروری ہے۔ پانامہ لیکس کی جانب سے وزیر اعظم پر بھی کرپشن کے الزامات لگے ہیں، وزیر اعظم احتسابی عمل سے نہ بھاگے اور قوم کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرے۔
وحدت نیوز (ہٹیاں بالا) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا ہے کہ ذاتِ مشکل کشا حضرت علی انسانیت کے لیے اسوہ کامل ہے، حضرت علی امام اول ایسی ہستی کہ ولادت ہوئی تو کعبہ میں شہادت ہوئی تو مسجد میں ، استعمار کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ علی ابن ابی طالب سے ہی ملتا ہے ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم ولادت حضرت علی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، انہوں نے کہا کہ حضرت علی کی ذات مبارکہ اسوہ کامل ہے ۔ علم میں ،شجاعت میں ، سخاوت میں، دیانت میں ، امیری میں ، غریبی میں ، دوستی میں ، صلہ رحمی میں ، دنیاوی معاملات میں ، دینی و اُخروی معاملات میں اگر کسی کو آئیڈل بنانا ہے تو عالم اسلام ذاتِ مبارکہ مشکل کی جانب رخ کرے ، آج کل کے تمام مسائل و مشکلات کا حل مشکل کشاء کی طرف رجوع میں ہے، حضرت علی نے نصرت پیغمبر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جنگ و جدل میں جان ہتھیلی پر رکھ خدا و رسول ؐ کی خاطر میدان میں اترتے اور دشمنوں کو چیر ڈالتے ۔ اسی لیئے تو آج بھی علی کے چاہنے والے استعمار کے سامنے سینہ سپر ہیں ، جو بھی علی والا ہے ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا حامی و مدد گار ہو گا، ظالم کے لیے سخت مظلوم کا دست و بازو ہو گا، علی کے فضائل و مناقب کا سمندر سیاہی بن اور سارے درخت قلم بن کر احاطہ نہیں کر سکتے ، علی وہ بلند شخصیت کہ ہر دور میں ہر حال میں باوجود ظلم و جبر کے ذکر علی آج بھی اسی طرح جاری ہے کہ جیسے آج سے چودہ سو سال قبل فرشتے بھی ندا دیتے آتے تھے کہ کوئی جوان نہیں علی جیسا ، کوئی تلوار نہیں علی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ذولفقار جیسی، علامہ تصور جوادی نے کہا کہ آج کے یوم کی مناسبت سے عالم اسلام کو پیغام ہے کہ علی کی طرح نبی ؐ سے محبت کرو ، جو نبی ؐ نے کہا اس پر ایک ہو جاؤ، ظلم و جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کرو ، اپنے اتحاد و اتفاق سے علی والے بن کر استعمار و طاغوت کو شکست فاش دے دو، اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) رواں سال اگر شرمین عبید چنائی نے آسکر جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا تو ہمارے حکمران اور کر کٹ ٹیم بھی کسی سے پیچھے نہ رہ سکی۔ ٹیم نے انڈیا سے ہارنے کا ریکارڑ بر قرار رکھا تو دوسری جانب حکمران طبقہ کرپشن میں بازی لے گیا۔ ہم اور ہمارا ملک خوش نسیب ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے انتہک محنت سے پاناما لیکس کی ٹاپ ٹن شخصیات میں اپنا نام درج کرایا۔
پاناما لیکس نے ساری دنیا میں ہنگامہ خیز انکشافات سے تہلکہ مچایا ہوا ہے دنیا بھر کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیات کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
اس کے علاوہ وزرا، جج صاحبان ناجانے کن کن لوگوں کا نام شامل ہیں جن کی اپنی ایک فہرست ہے ان سب کو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مر جانا چاہیے خصوصا حکمرانوں کو جن کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ملک کی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہیں، عوامی حقوق کا خیال رکھتیں ہیں اور بھاری مینڈیٹ سے یہ ایوانوں میں آتے ہیں فرض کریں اگر یہ بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہوئے ہیں اور جمہوریت اور آئین و پاکستان کا ان کو اتنا ہی خیال ہے بلکہ ان کو اگر اپنی عزت کا ہی خیال ہے تو چاہیے کہ وہ مستعفیٰ ہوں یا کم سے کم اس کیس کی تحقیقات ہونے تک کنارہ کشی اختیار کریں جب تک اس معاملہ کا کوئی راہ حل نہیں نکلتا یا اس کیس کا شفاف تحقیقات مکمل نہیں ہوتا، لیکن سب اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائےصفائیاں دینے میں مصروف ہے ۔
ہمارے حکمران اور عوام یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ پاناما پیپر ز نے تو کچھ ہی شخصیات اور خاندان کا زکر کیا ہے، پاناما لیکس نے ڈاکومنٹس کی تعداد میں اب تک کی تمام لیکس کے رکارڑ توڑے ہیں لیکن اگر تحقیقاتی ٹیم صرف پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کی تحقیقات کرے تو پاناما کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔
پاکستانی عوام کے لئے پاناما لیکس کوئی نئی بات نہیں ہے یہاں کا ہر بچہ بچہ جانتا ہے کہ چپڑاسی سے لیکر اوپر تک کرپٹ ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے روجوع کرنا ہو، یونی ورسٹی ،کالج اسکول میں داخلہ کرانا ہو،روزگار کی تلاش ہوچاہے وہ حکومتی ہو یا سول ادارے، بینک میں بل جمع کرانا ہو، امتحان میں نقل کرانا ہو، جعلی ڈگری نکلوانی ہو، ٹھپہ مارنا ہو غرض کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کروانا ہو تو کرپشن، رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر سب کچھ ممکن ہیں۔
ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ ہر تیسرا فرد غربت کا شکار ہے، بیروزگاری کی شرح پڑے لکھے لوگوں میں زیادہ ہے،اسکول نہ جانے والے صرف پانچ سے نو سال کے عمر کے بچوں کی تعداد ۶۸ لاکھ ہیں، صحت کا تو کوئی پرسانے حال نہیں ہے اور ۶۵ ارب دس کروڈ ڈالر کا مقروض ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کو اس ملک کے باشندوں پر رحم نہیں آتا۔
ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو عوام اور پاکستان پر رحم نہیں ہے تو ان کو اپنے آپ پر رحم کرنا چاہیے کہ روز قیامت وہ ان آف شور کمپنیوں کا حساب کتاب کہاں سے دیں گے، غریب عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں کا حساب کہاں سے دیں گے، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کا حساب کہاں سے دیں گے؟؟ کیا ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو ان غریب عوام کے بارے میں خیال نہیں آتا؟ کم سے کم لوٹے ہوئے پیسوں کو ملک سے باہر تو نہ لے جائیں اگر ان کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہی کریں تو لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے لاکھوں فاقوں سے بچ سکتے ہیں، پاکستان کا ہر بچہ تعلیم یافتہ اور ملک مستحکم ہو سکتا ہے پاکستان کی ترقی ہو سکتی ہے۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ یہ کرپٹ لوگ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محب وطن اور عوامی نمائندہ تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان ہی نام و نہاد حکمرانوں سے پہنچا ہے۔
ان سب کا یہ مقصد یا مفہوم نہیں کے پاکستان لاوارث ہے یا یہاں کوئی قانون آئین نہیں الحمد اللہ ہمارے یہاں آئین بھی ہیں قانون بھی ہے صرف ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جس دن ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کریں اور اپنے اپنے زمہ داریوں کا احساس کرنا شروع کریں اور اپنی غلطیوں کا احساس کریں، یا کم سے کم اپنی زاتی زندگیوں کو سکون سے گزارنے کے لئے اصول و قانون کا احترام اور ان پر عمل کرنا شروع کریں تو پھر لوٹ مار، غربت، تعلیم، صحت تمام تر مشکلات حل ہو سکتیں ہیں۔ چھوٹی سی مثال اگر ہم کسی سگنل پر کھڑے ہوں اور اشارہ بتی لال ہوں تو ہمیں روکنا چاہیے سگنل پر روکنے کے دو اہم فائدے ہیں ایک زاتی اور ایک اجتماعی۔ زاتی فائدہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ حادثہ سے بچ سکتے ہیں اور اجتماعی یہ کہ حکومتی اصول و قوانین کی پاسداری یعنی کہ قانون پر عمل اور ملک کی قانون کا احترام۔ قانون پر عمل کرنے سے زاتی بھی فائدہ ہوا اور اجتماعی بھی اسی طرح ہر محکمہ میں انسان اپنے فرض کو احسن طریقہ سے نبھاے تو ملک کو درپیش مسائل چند سالوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔ ویسے تو ملک کے اندر ہزاروں اسکینڈلز، ہزاروں کیس عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں جو کھبی سیاسی نظر ہوتی ہے تو کبھی مزہبی اور کبھی شخصی بھر حال اب پاناما پیپز نے دنیا کو ہلا کر دکھ دیا ہے، آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے بھی اسعفیٰ دے دیا ہے اور برطانوں وزیراعظم کی کرسی کو بھی خطرہ ہے، ادھر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی بوکھلاہٹ میں اپنی صفائی پیش کی ہےاور اس وقت وہ بیمار بھی ہوئے ہیں اور لندن جانے کی تیاریاں ہو رہی ہے لیکن یہ نہیں معلوم وہ علاج اپنا کرائیں گے یا پاناما پیپر کا۔ لیکن اس وقت یہ انتہائی خوش آئین بات ہے کہ پاناما پیپرز پر تمام اپوزیشن ارکان بھی متفق ہیں تو قانون نافظ کرنے والے اداروں اور ان کیسیس کے ذمہ دار اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کیس کی شفاف طریقہ سے تحقیقات کروائیں اور اس لسٹ میں موجود تمام لوگوں کو عدالت کے کٹھرے میں کھڑا کریں اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوٹیروں کے خلاف متحد ہوں اور ان پر نظر رکھیں کہی دوسرے کیسوں کی طرح کچھ دن بعد یہ کیس بھی فائلوں تلے دب نہ جائے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ناصررینگچن
وحدت نیوز (ہری پور) یونیورسٹی آف ہری پور میں ایک روزہ بین المسالک ہم آہنگی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں ضلع بھر سے مختلف مسالک کے علمائے کرام نے شرکت کی۔اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبرپختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ وحید عباس کاظمی نے بھی خصوصی شرکت کی اور شرکاءسے خطاب کیا۔ مقامی غیر سرکاری تنظیم سپارکو کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ سیمینار میں معروف کالم نگار خورشید ندیم مہمان خصوصی تھے، اس موقع پر علماء کا کہنا تھا کہ اتحاد و حدت ہی امت مسلمہ کے تمام مسائل کا پائیدار حل ہے۔ آپسی فروعی مسائل کو بھلا کر امت مسلمہ کی عظمت و بلندی کے لئے تمام مسالک کو بلاتفریق اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مسلمانوں کی دشمن طاقتیں اس وقت امت کے مابین موجود تفرقات کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ دشمن کی تمام چالوں کو ناکام بنانا ہوگا، عالمی سطح پر بھی مسلمان ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اسلام کی سربلندی اور عظمت کا باعث بنیں۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) آج کل گلگت بلتستان کے کونسل انتخابات میں بعض امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبرٰ گردش کررہی ہے تو چاہا کہ اس حوالے سے تاریخی صفحات پر ذرا نظردوڑائی جائے کی کس سیاسی رہنما نے کتنی پارٹیاں تبدیل کی سیاسی وپارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں
حاجی فدا محمد ناشاد: موجودہ سپیکر وسابق چیف ایگزیکٹو گلگت بلتستان اسمبلی
انتخابات میں
1994 میں پی پی .
۔ ق لیگ2005
2009 ن لیگ
یوں گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں پارٹی وفاداری تبدیل کرنے کاسب سے بڑا سہرا ناشاد صاحب کے سر سجتاہے
: حجۃ الاسلام والمسلمین سید عباس رضوی ( صوبائی صدر شیعہ علماٗ کونسل ورکن جی بی کونسل
1994 سے2005 تحریک جعفریہ
2005 ق لیگ
2015 دوبارہ تحریک جعفریہ
یوں شیعہ علماء کونسل کے موجودہ صوبائی صدر و موجودہ جی بی کونسل کے رکن کو بھی سیٹ کی خاطر 2004اور 2015 میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا اعزاز حاصل ہے
ملک مسکین: 2005 کو ق لیگ کی ٹکٹ پر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوا 2009 میں دوبارہ ق لیگ کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ناکام ہوا جبکہ 2015 میں کونسل کی سیٹ کی خاطر ن لیگ میں شمولت اختیار کی لیکن نصیب نے ساتھ نہیں دیا
حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد علی شاہ
1994 کو تحریک اسلامی کی ٹکٹ پر تمام تر مذہبی وسائل بروے کا لاکر کامیاب ہوا 2005 میں ق لیگ کی طرف سے رکن اسمبلی منتخب ہوا 2009 میں پی پی اور 2015 میں ن لیگ میں جاکر مذہبی رہنماوں میں سب سے زیادہ پارٹی تبدیل کرنے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا
5:وزیر شکیل احمد : 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی (تحریک جعفریہ) 2009 میں پی پی اور پھر اب قانون کے رکھوالے جج کے منصب پر( اس سے پہلے انکی خاندانی سیات کا آغاز پی پی سے ہوتا ہے جبکہ 2015 کے انتخابات میں ان کی جگہ وزیر سلیم نے مجلس وحدت کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لیا
6: غلام حسین سلیم 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی ، 2005 ٹیکنوکریٹس کی لالچ میں ق لیگ اور وہ بھی نصیب نہیں ہوئی اور پھر 2009 کونسل کی سیٹ کے لے پی پی میں شامل ہوے یوں لسان وترجمان ملت کے دعویدار اپنے ذاتی مفادات کے لے تمام تر حدود کو کراس کرگے
اسی طرح موجودہ گورنر غضنفر علی خان، عمران ندیم ،سکندر ، حاجی اقبال ، ابراہیم ثنائی ،اکثر سیاسی نماینوں کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے اور سیاسی خیانت کاریوں کا اعزاز حاصل ہے اسی طرح جی بی کونسل کے انتخابات میں بھی اپنے ووٹ فروخت کرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن کسی مذہبی وسیاسی پارٹی نے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے یا ووٹ فروخت کرنے والے کسی فرد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور صرف اخباری بیانات پر اکتفا کیا ۔
لیکن مجلس وحدت مسلمین پاکستان 1994 سے 2015 تک کی جی بی اسمبلی کی تاریخ میں واحد جماعت ہے جس نے اپنے نمایندے کو وفاداری تبدیل کرنے کی بناپر پارٹی رکنیت معطل کی اور فوری ایکشن لیا جوکہ سیاسی تاریخ میں ایک اہم قدم ہے ۔