وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب ڈاکٹر سید افتخار نقوی کا کہنا تھا کہ آج ایک دھوکے باز اور کرپٹ حکومت کا ایک سیاہ باب بند ہو گیا۔ ان سیاسی پنڈتوں نے 2013 میں عوام سے بے پناہ وعدے کیے اور عوام کو سنہرے خواب دکھا کر بے وقوف بنایا۔ آج یہ لوگ عوام کو جواب دیں کہ انہوں نے 5 سالہ دور حکومت میں کیا تیر مارے۔
انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف 2018 میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ لگا کر اچھی ایکٹنگ کرتے تھے اور الیکشن مہم میں 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے جھوٹے وعدے کرتے رہے،اور پانچ سال بعد کہتے ہیں کہ اگر کل سے لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ہم ذمہ دار نہیں۔
ڈاکٹر افتخار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب پر دس سال حکومت کرنے کے بعد نہ ہی کوئی ترقی ہوئی اور نہ ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے سمیت کوئی وعدے وفا ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کرپٹ حکمرانوں سے نجات کا دن ہے اورقوم کو یوم نجات منانا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ 25 جولائی کوووٹ کی طاقت سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں تاکہ اس ظالم و جابر اور کرپٹ نظام کا خاتمہ کیا جاسکے۔
وحدت نیوز (گلگت ) اقتدار کے چھن جانے کے خوف سے لیگی حکومت کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔لیگی حکومت کے وزراء اور مشیر دھمکیوں، الزام تراشیوں کے ذریعے علاقائیت اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔دھونس دھمکیوں، الزام تراشیوں اورکردار کشی کے ذریعے عوامی آواز کو دباناشیطان صفت حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما شیخ نیئر عباس مصطفوی نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوازلیگ آمریت کی پیداوار جماعت ہے اور نواز لیگ کے بانی ضیاء الحق نے پاکستان میں فرقہ واریت اور علاقائی تعصب کو فروغ دیکر پورے پاکستان کو بدامنی سے دوچار کردیااور ان کے بوئے ہوئے بیج آج تناور درخت بن چکے ہیں۔وفاق میں نواز لیگ کی بساط لپٹتے ہی صوبائی حکومت کواپنا اقتدار خطرے میں نظر آرہا ہے اور ان کے وزیر ومشیر ہواس باختہ ہوکر بابصیرت قیادت کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نجاست اور غلاظت کے پروردہ لوگ سید علی رضوی کے کردار پر انگلی اٹھارہے ہیں لیکن اب جی بی کے عوام بیدار اور آگاہ ہیں وہ مفاد پرست ٹولے کی سیاست کو خوب سمجھ رہے ہیں اور کسی بھی سازش کو ناکام بنائینگے۔وزیر اعلیٰ اپنے وزیروں اور مشیروں کو لگام دیں جو بے بنیاد الزام تراشیوں اور دھمکیوں سے عوام میں اشتعال پیداکرکے علاقے کو بد امن کرنا چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا قبلہ درست کرے ورنہ عوامی سیلاب ہرخشک و تر کو بہالیجانے پر قادر ہوتا ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) جسٹس ناصر الملک کا بطور نگران وزیر اعظم تقررخوش آئندہے امید کرتے ہیں نگران سیٹ اپ شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے گاان خیالات کا اظہار مرکزی سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پاکستان سید اسدعباس نقوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ان کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی کے لئے جمہوری حکومتوں کے تسلسل کی روایت کو مظبوط بنانا ہو گا،نگران حکومت پر شفاف طریقے سے انتقال اقتدار کی بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ن لیگ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں کرپشن لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا۔ تعلیمی اور صحت کے بجٹوں کو سٹرکوں میڑوز پلوں پر لگا دیا گیا۔جھوٹے اعداد وشمار کے گورگھ دھندے کےساتھ عوام کو دھوکہ دیا جاتا رہا۔عوام کے لئے اب پھر فیصلہ سازی کا ایک اور نادر موقع آیا ہے ۔ مادر وطن کے ساتھ مخلص اور دیانت دار افراد کو ووٹ کر کے عوام اپنی قسمت بدل سکتی ہے ۔اقربا پروری برادری قوم ۔مذہب اور لسانیات کی سیاست نے ملک کو تباہ حال کر دیا ہے ۔ انشاللہ مجلس وحدت مسلمین ملک بھر سے تعلیم یافتہ اور دیانت دار امیدواروں کو میدان میں اتارے گی اور ملک دشمن کرپٹ اور لٹیروں کا رستہ روکے گی
وحدت نیوز (اسلام آباد) مرکزی سیکریٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں مرکزی سیکرٹری روابط برادر اقرار ملک کی جانب سے ایک پروقارمحفل کاحضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے اہتمام کیا گیا جس میں راولپنڈی اسلام آباد کے تنظیمی بردران نے بھرپور شرکت کی ۔جشن کی اس تقریب سے برادر ظہیرالحسن کربلائی نے تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ برادر میثم ملک (فرزند برادر اقرار ملک) نےنعت رسول مقبول ﷺ پڑھی ۔ برادر نثار فیضی نے امام حسن ؑ کے حضور نزرانہ عقیدت پیش کیا ۔تقریب کے آخر میں حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ اصغر عسکری نے حاضرین سے خطاب فرمایا اور کہا حضرت امام حسن ؑ وہ ہستی ہیں جن کے والدین معصوم نانا رسول پاک ﷺ تو بھائی امام حسین ؑ ہیں ۔ اور خود بھی امام وقت ہیں حضرت امام حسنؑ جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ حضرت امام حسنؑ وہ آل محمدؑ کے گھرانے کے پہلے فرزند ہیں جنہوں نے رسول پاکﷺ کی زبان مبارک کو چوسا ہے ۔ خطاب کے آخر میں علامہ اصغر عسکری صاحب نے حضرت امام حسنؑ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س)کی شان میں نذرانہ عقیدت کے طور اشعار پڑھے جنہیں حاضرین نےبہت سراہا اور نعروں سے جواب دیا ۔ جشن کے بعد نماز مغربین ادا کی گئی اور نماز کے بعدحاضرین کو افطار اور عشائیہ دیا گیا جس کا اہتمام برادر اقرار ملک نے کیا تھا ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) بزرگ ہونا اور بزرگ تراشنا دو مختلف چیزیں ہیں، سب لوگ اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں ، بزرگ لوگ کسی بھی خاندان ، قوم اور قبیلے کی آبرو ہوتے ہیں۔ بزرگ جو کہتے ہیں وہی جوانوں کے لئے آئین اور قانون بن جاتا ہے،چنانچہ جوانوں کی نسبت بزرگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کمان سے نکلے ہوے تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات کی واپسی محال ہے۔البتہ اگر کبھی کسی بزرگ شخصیت سے کوئی ایسی بات سرزد ہوجائے جو ان کے شایانِ شان نہ ہوتو اس کے ازالے کی کوشش کرنا عین دانشمندی ہے۔
دوطرح کے لوگ ایسے ہیں جو کسی کی غلطی کا ازالہ نہیں ہونے دیتے خصوصا اگر کسی بزرگ شخصیت سے غلطی ہوجائے تو اُس کے ازالے اور تلافی کے لئے سوچنے کو گناہ سمجھتے ہیں اور یوں غلطی پر غلطی کرنے کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ دوطرح کے لوگ ایک خوشامدی قصیدہ گو اور دوسرے ماہر رفوگر ہیں ۔خوشامدی قصیدہ گو حضرات اپنے بزرگوں کی باتوں پر صرف واہ واہ کرتے ہیں اور عوام کو تجزیہ و تحلیل نہیں کرنے دیتے ، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر ہی بزرگوں کی باتوں پر واہ واہ ہی کرتے جائیں اور کوئی سوال و جواب یا تجزیہ و تحلیل نہ ہو، وہ ایک ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جس میں لوگ سوچنا اور پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگ صرف بزرگوں کی باتیں سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔
یہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں صرف واہ واہ ہوتی ہے ، ان کی تحریروں میں کہیں نظریاتی تقابل یا حقائق و واقعات کا موازنہ نہیں ہوتا،یہ سوچنے اور پوچھنے والوں کو بے ادب، گستاخ، نااہل، جاہل، ان پڑھ اور کبھی کبھی گمراہ ، مشرک و کافر تک کہہ دیتے ہیں۔
ان کا شعبہ ہی خوشامد ، قصیدہ گوئی اور قصیدہ نگاری ہے، غلطی جتنی بڑی ہوگی یہ اتنا ہی لمبا قصیدہ لکھیں گے ، حتیٰ کہ اگر کوئی بزرگ شخصیت مڑ کر اپنی بات کی تصحیح کرنا بھی چاہے تو یہ قصیدہ گو حضرات اس کی گنجائش نہیں چھوڑتے ، اس طرح کی متعدد مثالیں میرے اور آپ کے سامنے موجود ہیں۔
مثلا میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا ، وہ سب کے سامنے ہے لیکن ان کے قصیدہ خوانوں کی زبانیں مسلسل قصیدہ خوانی میں مشغول ہیں۔
دوسرا گروہ رفوگر حضرات کا ہے، رفوگری یوں تو پھٹے ہوئے کپڑے کو ٹانکا لگانے کا فن ہے ، لیکن اب یہ بزرگ شخصیات کے کلام سے پیدا ہونے والے خلا کو پُرکرنے کا فن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کسی بزرگ شخصیت کی سبقتِ لسانی سے کوئی خلافِ توقع بات نکلتی ہے تو یہ رفوگروں کا لشکر کاغذ پنسل لے کر تاویلیں کرنے بیٹھ جاتا ہے اوراتنے خوبصورت ٹانکے لگاتا ہے کہ خود وہ بزرگ بھی حیران ہوجاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے کہا کہ کل صبح میں نے ایک ہرن کو گولی ماری جوایک ہی وقت میں اس کی ٹانگ اور سر کو لگی۔اس پر قصیدہ گو حضرات نے واہ واہ کرکے کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ البتہ کسی گستاخ درباری نے اٹھ کر اعتراض کر دیا۔ قصیدہ گو حضرات قصیدے تو پڑھتے رہے کہ ظلِ الٰہی ماہر نشانہ باز ہیں لیکن دلیل نہیں دے سکے ، چنانچہ بادشاہ نے ایک وزیر کی طرف اشارہ کیا جو رفوگری کا ماہر تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا کہ بات در اصل یہ ہے کہ اس وقت ہرن ٹانگ کے ساتھ سر کو کھجلا رہا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر دربار واہ واہ سے گونج اٹھا۔
آج آپ دیکھ لیں وہ عمران خان ہوں یا نواز شریف یا کوئی اور سب کو قصیدہ گووں اور رفوگروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہی دو طبقے اس ملت کی بدحالی کے مجرم ہیں۔یہ عوام کو تحقیق، باز پرس اور سوال و جواب نہیں کرنے دیتے اور اسی سے قوموں میں عقب ماندگی، اندھی عقیدت، ذہنی پسماندگی اور بے شعوری جنم لیتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) جنرل درانی کی کتاب پر مجھے کوئی تجزیہ کرنے کی ضرورت اسا لیے نہیں ہے کہ اس میں قصے، کہانیاں اور دیو مالائی داستانیں تو ہیں، مگر کوئی ثبوت اورشواہد نہیں۔ فوجی ضابطے کی کیا خلاف ورزی ہوئی ہے، اس کا فیصلہ تو جی ایچ کیو کرے گا، مگر ہم چند باتیں ضرور کریں گے۔کسی بھی بات پر اعتبار کرنے سے پہلے دو باتوں کو لازماً پرکھا جاتا ہے۔
-1 کون کہہ رہا ہے۔
-2 کیا کہہ رہا ہے۔
سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق بیان کردینے والا ہمارے دین میں جھوٹا کہلاتا ہے۔ جھوٹے اور منافق آدمی کا بیان چاہے سچ ہی کیوں نہ ہو، بدنیتی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔یہ وہی جنرل درانی ہیں کہ جن پر آج کل سپریم کورٹ میں 1990 کے انتخابات میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہو ئے نواز شریف کی بھاری فنڈنگ کا الزام ہے۔ ان کی نواز سے پرانی ہمدردیاں ہیں۔ آج جب نواز شریف دوبارہ مشکل میں ہے، تو ایک متنازعہ بیانیے والی کتاب کیا معنی رکھتی ہے؟یہ بھی غور کریں کہ کتاب کی رونمائی تو آج ہوتی ہے، اور 12 گھنٹے کے اندر اندر اسے پوری دنیا امیں بالکل مفت پھیلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ واٹس ایپ گروپوں تک ایک منظم طریقے سے پھیلائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جنرل درانی اس کتاب سے پیسہ نہیں کمانا چاہتے، کچھ اورچاہتے ہیں۔جنرل درانی کو فوج سے زبردستی نکالا گیا تھا، کیونکہ یہ حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی بعد میں آنے والی بینظیر حکومت کے بھی انتہائی قریب ہوگئے تھے۔ ان کو فوج سے نکلے تقریباً 27 برس ہوچکے ہیں اور یہ آج کے فوج اور آئی ایس آئی کے معاملات کی الف ب بھی نہیں جانتے،جنرل درانی کی اس کتاب کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
نواز شریف کی ذلت و رسوائی، اس کی جانب سے ڈان لیکس 2، پاکستان پر منڈلاتے سفارتی، اور معاشی پابندیوں کے سائے، منظور پشتین کی تخریبی تحریک کو عالمی حمایت،نظریاتی تخریب کاری، پراپیگنڈہ، نفسیاتی جنگ، اور قوم کے اعصاب پر حملے، تمام ہی اس موجودہ پانچویں نسل کی جنگ (5GW) کے اہم ترین محاذ ہیں۔ خوارج کی پاکستان کے خلاف جنگ ہو، یا نواز شریف کی ناپاک گولہ باری، یا سائرل المیڈا کا زہریلا قلم،ان شاءاللہ۔ جیسے منظور پشتین رسوا ہوا، نواز شریف ذلیل ہورہا ہے، سائرل کے منہ پر کالک ملی گئی، اب بڑھاپے میں جنرل درانی نے بھی اپنی مٹی پلید کروائی۔اس پاک سرزمین کا اللہ محافظ ہے،جنرل درانی کی یہ کتاب ہمیں ایک اور بہت گہرا سبق دے رہی ہے کہ اب پاکستان کے اس موجودہ سیاسی نظام کو اسی مقام پر روکنا پڑے گا، تاوقتیکہ ہم اس نظام کی پہلے اچھی طرح صفائی کرلیں۔ ہمیں اپنی گھاس میں چھپے ہوئے سانپوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کچلنا ہوگا، ورنہ یہ ہر قدم پرہم کو ڈستے رہیں گے۔
تحریر:محمد عتیق اسلم