وحدت نیوز(جیکب آباد) بانی انقلاب اسلامی رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ کی ۲۹ ویں برسی کے موقعہ پرمدرسہ خدیجۃالکبریٰ جیکب آباد میں انقلاب اسلامی و افکارامام خمینی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی ، ضلعی سیکریٹری جنرل آگا سیف علی ڈومکی، استاد عبدالفتاح بلوچ، مولانا حسن رضا غدیری، مولانا منور حسین سولنگی ، سید شبیر علی شاہ کاظمی نے خطاب کیا۔
اس موقعہ پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ امام خمینی ؒ کے افکار و تعلیمات آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کرتے ہیں۔ آج دنیائے اسلام میں بیداری اور شعور کی حامل انقلابی تحریکیں امام خمینی ؒ کے افکار کی پیرو ہیں۔امام خمینیؒنےتیس برس قبل خالص محمدی ﷺ اسلام کے مقابل جس امریکی اسلام کی فتنہ پروری کا ذکر کیا تھا وہ آل سعود کی شکل میں آشکارہوچکاہے،۔ آپ ؒ عصر حاضر کے عظیم انقلابی رہنما تھے آپ نے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور عالمی استکباری قوتوں کے انسان دشمن عزائم کو بے نقاب کیا، مستضعفین عالم کو مستکبرین کے مقابل لاکھڑا کیا۔ آپ ؒ نے اکیسویں صدی میں قرآن و سنت اور سیرت آل محمد ﷺ پر مبنی اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ترجمان علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ قبلہ اول کی صیہونی قبضہ سے آزادی کی حمایت میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف جمعہ کے روزعالمی یوم القدس منایا جائے گا۔ اس موقعہ پر ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام اسلام آباد، کراچی، حیدر آباد،لاہور، کوئٹہ،پشاور،ملتان،گلگت بلتستان اور مظفرآباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی جن میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔اسلام آباد سے نکلنے والے احتجاجی جلوس کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کریں گے۔اس احتجاج کا مقصد اسرائیلی بربریت اور دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا ہے۔انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی کے حکم کے مطابق عالمی یوم القدس ہر سال مظلوموں کی حمایت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کا ہر ذی شعور ظلم کو انسانی تقاضوں کی توہین سمجھتا ہے۔فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم عالم اسلام کے وقار پر حملہ ہے۔مسلمانوں کے ازلی دشمن اور قبلہ اول پر قابض اسرائیل کی نابودی کے لیے امت مسلمہ کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ اسلامی ممالک کے ہر اتحاد سے صرف مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا۔ اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف سرکاری سطح پر کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔قبلہ اول کی آزادی مسلمانوں پر قرض ہے۔عالم اسلام کو تفرقوں میں الجھا کر اسرائیل اور اسلام دشمن طاقتوں کی معاونت کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلکی نظریات کو ابھارہ اور حقیقی اسلام کو دبایا جا رہا ہے جو عالم اسلام کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے۔قبلہ اول پر اسرائیلی یلغار کے پیچھے امریکہ ،برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک کی سازشیں کارفرما ہیں۔استعماری قوتیں ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں۔غزہ کے محاصرہ اور مظلوم مسلمانوں کے آئے روز قتل عام پر خاموشی امت مسلمہ کی غیرت و حمیت پر بدنما داغ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کی آزادی امت مسلمہ کی مشترکہ جدوجہد سے مشروط ہے۔یہود و نصاری کے مفادات اور اہداف مشترک ہیں امت مسلمہ کو بھی اپنے مشترکات پر باہم ہونا چاہیے۔تاریخ کے اس نازک دور میں مسلمان حکمرانوں کو اعلی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن مسلمان ممالک اسرائیل کے اس جارحانہ طرز عمل کے خلاف کسی غیرمعمولی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے اس کے ساتھ کاروباری رابطے استوار کرنے میں مصروف ہیں جو نا صرف اخلاقی تنزلی ہے بلکہ حکم ربانی سے بھی صریحاََ انحراف ہے۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے فلسطنیوں کی حمایت کر کے پاکستان کا موقف واضح کر دیا تھا۔مظلوم فلسطینوں کی حمایت میں عالمی یوم القدس کے روز گھروں سے نکل کر احتجاج میں شامل ہوناہر شخص کا شرعی فریضہ ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) الیکشن پر بحث جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، نگران وزیر اعظم جسٹس ناصرالملک سمیت الیکشن کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن 25جولائی ہی کو ہوں گے۔ میں نے 25جولائی کو الیکشن نہ ہوسکنے کی وجوہات پچھلے کالم میں بیان کردی تھیں، اب دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ تازہ باتیں ہیں، پہلے ان تازہ باتوں کا تذکرہ ہو جائے۔ سوائے سندھ کے ابھی تک باقی صوبوں میں نگرانوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس سے ہمارے سیاستدانوں کی فیصلہ سازی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ قانون ہی عجیب بنایا گیا تھا کہ صرف دو شخصیات یعنی لیڈرآف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن بیٹھ کر کسی نگران کا فیصلہ کردیں اسی لئے تو پچھلے سالوں میں مک مکا کی حکومتیں رہیں، اسی لئے تو بھرپور اپوزیشن نہ ہو سکی، اسی لئے تو ملک قرضوں تلے چلا گیا، اسی لئے تو عمدہ حکمرانی نہ ہوسکی۔ دو روز پہلے آپ نے منظر نہیں دیکھا کہ جو شہباز شریف اپنے کارنامے گنواتے نہیں تھکتا تھا، اسے سپریم کورٹ میں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے چیف جسٹس کے سامنے کرپشن کی داستانوں کی کہانیوں میں چھپے کرداروں کی وارداتیں تک یاد نہ رہیں۔ اسے افسران کے نام بھی بھول گئے۔ چیف جسٹس صاحب کو کہنا پڑا..... ’’کہاں گئے آپ کے کارنامے، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔‘‘ بہت افسوس ہوا کہ جو وزیر اعلیٰ نیب کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتا رہا، خود اس کی اپنی پوری حکومت کرپشن کی داستانوں سے لبریز رہی۔ اسے یہ تک پتا نہیں کہ اس کی حکومت میں افسران کو بھاری تنخواہوں پر کیوں رکھا گیا؟ نہ وہ مجاہد شیردل کی خوبی بتا سکے اور نہ ہی کیپٹن عثمان کا کوئی وصف گنوا سکے۔ برہمی ہوئی، قطار اندر قطار برہمی، ایسا طرز حکومت سوائے ندامت کے کچھ نہیں۔
مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں میں فیصلہ سازی کی قوت نہیں۔ نگرانوں ہی کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آج کل دو ہی لوگوںکا رش نظر آرہا ہے یا ٹکٹوں کے حصول کے لئے سیاسی پارٹیوں کے لوگ کوششیں کر رہے ہیں یا پھر ریٹائرڈ جج اوربیوروکریٹس نگرانوں میں جگہ بنانے کے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔ ہر پانچ سال کے بعد ریٹائرڈ ججوں اوربیوروکریٹس کے لئے بہار کے یہ چنددن آتے ہیں کہ وہ وزیر، وزیراعلیٰ یا پھر وزیر اعظم بننے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایک طویل عرصے سے پاکستانی سیاست میں انتخابات، الیکشن سے پہلے اور بعد میں نگرانوں کی حالت، الیکشن کمیشن کے دعوے اور پھر دھاندلی کے مناظر الیکشن ٹربیونلز، ان کے فیصلے اور ان فیصلوں کے لٹکتے ہوئے مناظر، نتائج پر دھاندلی کا شور، پولنگ ڈے پر مارکٹائی اور پھر پولنگ ڈے کی شام، شام میں ابتدائی نتائج اور پھر رات ساڑھے دس گیارہ بجے کسی کا اکثریت مانگنا، یہ سب کچھ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔اس دکھ کے مداوے کے لئے ظاہر ہے ہمیں اپنی حکومتوں ہی کی طرف دیکھنا پڑتاہے۔ ہمارے ہاں حکومت سازی پرکبھی عمدہ انداز میں توجہ ہی نہیں دی گئی، حالت تو یہ ہے کہ ہم اپنا انتخابی نظام بھی ابھی تک درست نہیں کرسکے۔ ابھی تک اس میں دھونس، دھاندلی کا راج ہے۔ ابھی تک انتخابی شفافیت قائم کرنے میں ناکامی ہماری ہے کسی اور کی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا انتخابی نظام چوروں اورلٹیروں سے جان نہیں چھڑوا سکا اور اب تو انہوںنے نامزدگی کے فارم ہی کو ’’برقع‘‘ پہنوا دیا ہے تاکہ کسی کوکچھ پتا ہی نہ چل سکے کہ برقعے کے اندر دہشت گرد ہے یا کوئی عورت ہے؟
آج کل سخت گرمی کے دنوں میں رمضان المبارک کے باوجود اگلےاقتدار کے حصول کے لئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی اکثریت دن رات مصروف ہے۔ سب کو الیکشن جیتنے کی فکر ہے مگر ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جسے سب سے زیادہ پاکستان کی فکر ہے۔ یہ حالیہ دنوں کی ایک رات کا قصہ ہے۔ دس بارہ لوگوں کی محفل تھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس پاکستان کی اہمیت بتارہے تھے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ میرے لئے حیرت تھی بلکہ سب کے لئے حیرت تھی کہ جس شخص کوہم صرف ایک مذہبی جماعت کا سربراہ سمجھتے تھے، وہ تو ایک دانشور سیاستدان ہے۔ اسے صرف مذہب کا علم نہیں اسے تو عالمی حالات کی بہت خبرہے۔ وہ تو دنیا بھر کی جنگی اور معاشی حکمت ِ عملیوں سے آگاہ ہے۔ اسے سازشوں کی خبر بھی ہے اورحالات سدھارنے کا ادراک بھی۔رات سحری کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ شخص بول رہا تھا جس کے والدسانحہ ٔ مشرقی پاکستان کی خبر سن کر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس پیارے وطن کے نقصان کا سننا ہی موت کا سبب بنا۔ جس کا والد پاکستان کی محبت میں چلا گیا تھا اور وہ خود ایک چھوٹا سا یتیم بچہ رہ گیا تھا۔ رات کے آخری پہر میں وہی یتیم بچہ اور آج کامعتبرسیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس حب الوطنی سے بھرپور گفتگو کر رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے ہی نہیں بنے جو حکومت سازی میں رہنمائی کرسکیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی یہ سوچ نہیں بلکہ وہ تو ایسے افراد کو وزیر خارجہ لگا دیتی ہیں جنہیں خارجہ امور کا پتا نہیں ہوتا۔ زراعت کے وزیرکو یہ خبر نہیں ہوتی کہ دنیامیں زرعی ترقی کی اصلاحات کون سی ہیں۔ صحت والا وزیر اپنے محکمے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ معیشت والوں کا حال سامنے ہے کہ انہوں نے ملک کو قرضوں تلے دے ڈالا۔ ہم نے نیشن بلڈنگ کے ادارے ہی نہیں بنائے، نہ ہمارے ہاں حکومت سازی کے ادارے ہیں اور نہ ہی ہمارے ہاں ملت سازی کے ادارے۔ ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی کےلئے کچھ بھی نہیں۔ ہم بطور قوم آگے نہیںبڑھ رہے بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ کہیں صوبائی تعصب کے نام پر تو کہیں لسانی بنیادوں پر، ہماری یہ تقسیم دشمن کی چال ہے۔ ہم کہیں ذاتوں اور قبیلوں میں تو کہیں فرقوں میں تقسیم ہیں حالانکہ یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے سے اختلافات ہیں، انہیں مدھم کیاجاسکتاہے۔ قوم اور ملک کی محبت اس سے اوپر کی چیزیں ہیں لیکن ہم ملک و قوم کا سوچتے ہی نہیں۔ مجھے اس دن بہت افسوس ہوا جب تین دفعہ کے وزیراعظم نے اپنی ہی فوج پر تنقید شروع کی۔یہی دشمن کی چال ہے۔ہمیں اس وقت ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم کو اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہمیں پاکستانی بن کر ہی بڑا کردار اداکرنا چاہئے۔علامہ راجہ ناصر عباس کی باتیں درست ہیں مگر ہم سوچتے کہا ں ہیں؟ منیرنیازی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
وہ جو اپنا یار تھا دیر کا، کسی اور شہر میں جا بسا
تحریر۔۔۔۔مظہربرلاس،بشکریہ روزنامہ جنگ
وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں امیدواروں کے لئے بھاری فیسوں کی وصولی افسوسناک فیصلہ ہے، الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر تجدید نظر کرے۔بھاری انتخابی اخراجات کا مقصد غریب کسان اور مزدور کا راستہ روکنا ہے، سرمایہ دار اور جاگیردار، چوہدری، نواب اور سردار وںپر مشتمل اسمبلی عوام کے کسی درد کی دوا نہیں۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے امیدوار کے لئے تیس ہزار اور صوبائی اسمبلی امیدوار کے لئے بیس ہزار روپے فیس مقرر کرکے بھاری انتخابی اخراجات کے لئے گرین سگنل دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آج بھی مزدور پانچ سو روپے دھاڑی پر کام کرتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے امیدوار سے پندرہ سو روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ہزار روپے فیس لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ قوم کو صادق و امین، دیندار اور دیانتدار اراکین اسمبلی کی ضرورت ہے جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں۔ جن کا دامن کرپشن سے پاک ہو۔ الیکشن کمیشن انتخابات میں ہونے والے بے تحاشا اخراجات کا راستہ روکے کروڑوں روپے انتخابات پہ لٹانے والے امیدوار کئی گنا سود کے ہمراہ قوم سے پیسے واپس لیتے ہیں، بلند و بالا دعووں کے باوجود الیکشن کمیشن کبھی بھی ان کا راستہ نہیں روک سکا۔انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ الیکشن کی بھاری فیسوں اور غریب کسان مزدور کے الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ روکنے کا فی الفور نوٹس لیتے ہوئے فیس کم یا معاف کر دے۔
وحدت نیوز (گلگت) سوست بارڈر پر کسٹم کلکٹریٹ کا عملہ غیر قانونی طور پر تاجروں سے ٹیکس وصولی کررہا ہے۔گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں حکومت اس خطے کے تاجروں سے غیر قانونی طور پر ٹیکس وصول کررہی ہے۔کسٹم کلکٹریٹ گلگت بلتستان کے حدود سے باہر منتقل کیا جائے۔حکومت تاجر برادری کے مسائل فوری حل کرے بصورت دیگر گلگت بلتستان کے عوام کسٹم عملے کو گلگت بلتستان کے حدود سے باہر پھینک دینگے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے وفد نے شیخ نیئر عباس مصطفوی کی قیادت میں تاجر برادری سے اظہار یکجہتی کیلئے کے سوست میں جاری احتجاجی دھرنے میں شرکت کی۔اس موقع پر شیخ نیئر عباس مصطفوی، محمد الیاس صدیقی اور سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے تاجر برادری کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔شیخ نیئر عباس مصطفوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وی بوک سسٹم سے ہزاروں تاجر متاثر ہیں حکومت تاجروں کے معاشی قتل سے باز رہے ۔
انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کی گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ دشمنی ظاہر ہوچکی ہے اور آرڈر 2018 کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے لیکن حکومت یاد رکھے آرڈر 2018 کسی طور پر قابل قبول نہیں،اب گلگت بلتستان کو آرڈر کے ذریعے مزید نہیں چلایا جاسکتا۔گلگت بلتستان کے عوام کو آرڈر نہیں آئین چاہئے اور جو حکومت گلگت بلتستان کو آئین نہیں دے سکتی بہتر ہے کہ وہ اپنا بوری بستر لپیٹ لے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکمرانوں نے ستر سالوں سے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے اب مزید مذاق برداشت نہیں کرینگے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجاز اتھارٹیز فوری طور پر تاجر برادری کے مسائل حل کرے وگرنہ پورے گلگت بلتستان کے عوام تاجر برادری کے ساتھ کھڑے ہونگے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یوم شہادت امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام کے موقعہ پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دور حاضر کی خارجیت کا مقابلہ کرنے کے لیے سیرت علی علیہ السلام کو شعار بنانا ہو گا۔چودہ سو سال قبل جن دہشت گرد قوتوں نے دین اسلام کی شکل بگاڑنے کے لیے سراٹھایا آج وہی خارجی نسل داعش، طالبان اوردیگر دہشت گرد جماعتوں کی شکل میں سر اٹھا کر اسلام کی بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باب العلم حضرت علی علیہ السلام نے واضح طور پر کہا تھا کہ کفر پر مبنی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم پر مبنی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی کہ تباہی و ذلت کی دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ نظام عدل کے حقیقی نفاذ میں ہے۔ انصاف کے دوہرے معیارات قوم میں طبقاتی تقسیم اور غیر منصفانہ طرز عمل کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف امت مسلمہ انتشار، تفرقہ اور دہشت گردی کاشکار ہے جس کی واحد وجہ دین اسلام کی تعلیمات سے روگردانی ہے۔ ملعون خارجی ابن ملجم نے حضرت علی علیہ السلام پر نماز کی حالت میں وار کر کے مسجد میں دہشت گردی کی بنیاد رکھی۔آج اسی فکر کے پیروکار عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور نہتے نمازیوں کو شہید کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔اسلام دشمن طاقتیں فرقہ واریت کے فروغ کے لیے تکفیری فکر کا فروغ چاہتی ہیں تاکہ مسلمان دست و گریبان رہیں۔ان اسلام دشمن طاقتوں کا راستہ روکنے کے لیے بصیرت و جرات حیدرؑ کرار کی ضرورت ہے۔ علامہ ناصر عباس نے یوم شہادت کے اس موقعہ پر امام زمانہ علیہ السلام اور مومنین کے حضور ہدیہ تعزیت پیش کیا ہے۔