وحدت نیوز (ملتان) رمضان المبارک کے آخری جمعتہ الوداع کو ملک بھر میں یوم القدس کے طور پر منایا گیا، ملک بھر میں تحریک آزادی القدس پاکستان کے زیراہتمام بیت المقدس کی آزادی اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی تحریک آزادی القدس پاکستان ملتان کے زیراہتمام امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز سے چوک گھنٹہ گھر تک ریلی نکالی گئی۔ ریلی نماز جمعہ کے بعد شروع ہوئی اور مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے چوک گھنٹہ گھر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کی قیادت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی چیف اسکائوٹ زاہد مہدی، سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین صوبہ جنوبی پنجاب علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کی۔ علاوہ ازیں ریلی میں آئی ایس او پاکستان کے سابقہ مرکزی صدر یافث نوید ہاشمی، ڈویژنل صدر ڈاکٹر موسی کاظم، مسیحی بشپ اشعر کامران، انجمن طلبا اسلام کے صوبائی جوائنٹ سیکرٹری نور مصطفی اور اسلامی جمعیت طلبا ملتان کے ناظم ہنزلہ سلیم نے خصوصی شرکت کی۔
مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکریٹری جنرل علامہ اقتدار نقوی کا کہنا تھاکہ یوم القدس صرف یوم فلسطین نہیں بلکہ امت اسلامی کا دن ہے اور مسلمانوں کا قابض صہیونیوں کے خلاف احتجاج کا دن ہے، یوم القدس کے موقع پر امت مسلمہ کی اسرائیلی مظالم پر خاموشی لمحہ فکریہ ہے، وہ وقت دور نہیں جب فلسطین ان صہیونی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوگا، ریلی میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے شرکت کرکے شہیدہ رزان النجر سے اظہار یکجہتی کیا۔ ڈویژنل صدر ڈاکٹر موسی کاظم کا کہنا تھا رزان النجر کا کیا قصور تھا کہ اسکا بہیمانہ قتل کر دیا گیا، ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطین میں مسلمانوں کے ناحق قتل کے خلاف عالمی آواز اٹھائیں۔ ریلی میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور امریکہ اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، ریلی کے اختتام میں امریکہ اور اسرائیل کے پرچم نذر آتش کیے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کے پتلے بھی نذر آتش کیے گئے۔
آئی ایس او پاکستان کے مرکزی چیف اسکاوٹ زاہد مہدی نے کہا دنیا میں جہاں بھی مستضعفین ہیں ہم ان کے حامی اور ظالمین کے خلاف بر سرپیکار رہیں گے اور ہم یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھلنے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ قبلہ اول کی آزادی ناگزیر ہے، آئی ایس او پاکستان ساری پاکستانی قوم کی طرف سے فلسطینی بھائیوں کی جرات اور استقامت کو سلام پیش کرتی ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی نے لاہور کی مال روڈ پر فیصل چوک میں یوم القدس کی مناسبت سے نکالی جانیوالی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے غیور عوام نے آج امام خمینی کے حکم پر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کیساتھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غیور عوام آج شدید گرمی میں روزے کی حالت میں بھی اپنے بھائیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے نکلے ہیں، پاکستان نے پہلے روز سے ہی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اور آج بھی ہمارے گرین پاسپورٹ پر یہ عبارت درج ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کیلئے قابل استعمال نہیں، پاکستانی آج بھی اسرائیل کے نجس وجود سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسین (ع) کے فرزند امام خمینی نے 38 سال قبل ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ یوم القدس منا کر پوری دنیا اسرائیل سے اظہار نفرت کرے، آج امام خمینی (رہ) کی دور اندیشی واضح ہو گئی ہے، آج ہر غیرت مند مسلمان فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں سینہ سپر ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اسرائیل کی نابودی کیلئے ٹائم فریم دے دیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ 25 سال میں اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، جس کے بعد اسرائیل میں کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک ناپاک اور غیر قانونی ریاست ہے جس کا خاتمہ لازم ہے، امام خمینی نے امت کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تمام مسلمان حکمران ایک ایک بالٹی پانی ہی اسرائیل کی جانب بہا دیں تو یہ اس میں ہی غرق ہو کر ختم ہو جائے گا۔ انہوں نےکہا کہ فلسطینیوں کی آزادی بہت قریب ہے، وہ جلد ہی آزادی کا سورج دیکھیں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او پاکستان کے زیر اہتمام عالمی یوم القدس انتہائی جوش وجذبے کے ساتھ منایا گیا، اس سلسلے میں اسلام آباد، لاہور ، کراچی، پشاور، کوئٹہ، ملتان، مظفر آباد اورگلگت بلتستان سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ریلیوں کی قیادت ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کے مرکزی ،صوبائی اور ضلعی قائدین نے کی۔اسلام آباد کی مرکزی القد س ریلی سے خطاب کر تے ہوئے سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین کی اسلامی شناخت کو ختم نہیں ہونے دیں گے یہ اسلامی رہے گا ۔عالمی استعمار اور صہیونی قوتیں بیت المقدس کو یہودی بنا نا چاہتی ہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گئے ہم مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے ساتھ ہیں القدس ریلیاں درحقیقت مقاومت کی علامت ہیں اس سے دنیا بھر میں شعور پیدا ہو رہا ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہور ہارہے۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ اسلامی جمہوری ایرا ن واحد ملک ہے جس نے مسئلہ فلسطین کو زند ہ رکھا ہے اور ہر ممکن مدد کر رہا ہے ۔نیل فرات تک کا خواب دیکھنے والا اسرئیل آج اپنے گرد دیواریں بنانے پر مجبور ہے امام خمینی نے بتایا تھا کہ بیت المقدس کی آزادی مقاومت اور مزحمت کے بغیر نا ممکن ہے اسرائیل کسی صورت مزاکرات سے فلسطین اور بیت المقدس سے دست برادار نہیں ہو گا ،اسرائیل کی مایوسی اور امریکہ کو عزائم میں ناکامی درحقیقت ان استعماری قوتوں کی شکست ہے جو امت مسلمہ کو سرنگوں دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔ظلم کے خلاف ٹکراؤ کا جواعلان عظیم قائد امام خمینی نے کیا تھا آج ان کے انقلابی بیٹے ان کے پرچم کو اٹھائے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور کفر و باطل کے خلاف ہمیشہ میدان میں حاضر رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت فلسطین، کشمیر، برما سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کوبدترین ظلم و بربریت کا سامنا ہے دیگر مقررین نے اپنے خطابات میں مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت کا اعادہ کیا۔شرکاء نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل،امریکہ اور بھارت مخالف نعرے درج تھے۔مظاہرین نے طاغوتی طاقتوں کی جارحیت اور اسلامی ممالک میں مداخلت کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے شدید نعرہ بازی کی احتجاجی مظاہرے کے اختتام پر امریکہ و اسرائیل کے پرچم اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پتلے بھی نذر آتش کیے گئے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) لغت میں اعتکاف سے کسی جگہ توقف کرنے کو کہا جاتا ہے۔فقہی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد انسان کا عبادت خداوندی کی قصد سے مسجد میں کم از کم تین دن تک بیٹھنا ہے۔ اعتکاف کے لئے شریعت میں کوئی خاص وقت معین نہیں لیکن احادیث کے مطابق اس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان اور خاص طور پر اس مہینے کے آخری دس دن ہیں۔ اعتکاف اگرچہ ایک مستحب عمل ہے لیکن دو دن معتکف رہنے کے بعد تیسرے دن کا اعتکاف واجب ہوگا۔ رمضان المبارک کا مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کاہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : {عَنِ النَّبِيِّ (ص) قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّۃ بَابًا يُقَالُ لہ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْہ الصائمونَ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ لا يَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَيْرُہُمْ۔۔ }1۔جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے اورقیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انسان کی خلقت کا ہدف عبودیت اور بندگی ہے اور اعتکاف اس ہدف کے حصول کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے جس کا خداوند نے قرآن کریم میں اور خاصانِ خدا نے احادیث اور اپنے اعمال و کردار میں تعارف کروایا ہے۔ اعتکاف ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنی فطرت کے نزدیک تر ہوتا ہے اور پھر منزل اخلاص پر فائز ہوکر خداوند منان کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔اعتکاف کی روح اورحقیقت یہ ہے کہ انسان ہرکام ،مشغلہ ،کاروباراور اہل وعیال کوچھوڑکراللہ کے گھرمیں گوشہ نشین ہو جائیں اورساراوقت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور اس کے ذکر میں گزاریں۔ اعتکاف کی حقیقت توجہ اور حضورِ قلب ہے۔عبادت خواہ نماز یا روزہ ہو، خواہ اعتکاف، روح عبادت توجہ اور حضور قلب کی برکت سے نصیب ہوتی ہے۔ متدین اور دیندار افراد کے لئے خدا سے ارتباط قائم کرنے کے اہم طریقوں میں سے ایک طریقہ یہی اعتکاف ہے ۔ اعتکاف انسان ساز ہے ، اور جو انسان بن جاتا ہے وہ اجتماع کو بناتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:{لا یزال المؤمن فی صلوٰۃ ما کان فی ذکر اللہ عزوجل قائماً کان او جالساً او مضطجعاً }2۔ مؤمن ہمیشہ نماز میں (شمار ہوتا)ہے جب تک وہ اللہ عزوجل کی یاد و ذکر میں رہے چاہے کھڑا ہو یا بیٹھا ہو یا لیٹا ہوا ہو۔ اعتکاف کاثمرہ بھی یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اوراس کی بندگی کودنیاکی ہرچیز پرفوقیت اورترجیح دے۔
اعتکاف اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی بجالانے کاایک ایسامنفرد طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیا سے بالکل لاتعلق اورالگ تھلگ ہوکراللہ تعالیٰ کے گھرمیں فقط اس کی ذات میں متوجہ اورمستغرق ہوجاتاہے۔ اعتکاف کی تاریخ بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی بیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے:{وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَیٰ إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَہِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاکِفِينَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ}3۔اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ اور ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں او ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو۔
اعتکاف کے عبادی مراسم فقط دین اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام آسمانی والہٰی ادیان میں یہ عبادت موجود رہی ہے۔ بحار الانوار میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد بیت المقدس میں ایک سال،دوسال،ایک ماہ،دوماہ،کم و بیش اعتکاف میں رہتے تھے۔4۔ علامہ طباطبائی نقل کرتے ہیں کہ :حضرت مریم سلام اللہ علیہا اعتکاف کی خاطر لوگوں سے دور رہتی تھیں۔5
اسی طرح سے دیگر انبیاء واولیاء کے بارے میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔ حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اعتکاف جیسی شیرین عبادت کے تذکرے موجود ہیں۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کے پہلے عشرے میں معتکف ہوتے تھے،کبھی دوسرے عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور پھر تیسرے عشرے میں؛اور بعدازاں حضور کی سنت و سیرت یہی رہی کہ ماہ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں معتکف رہتے تھے۔
اعتکاف کی فضیلت کے لئےیہی کافی ہے کہ قرآن کی آیات اورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات میں اعتکا ف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:{اعتکاف عشر فی شھر رمضان تعدل حجتین و عمرتین } 6۔ماہ رمضان کے ایک عشرہ میں اعتکاف کرنا (چاہے وہ پہلے عشرہ میں ہو یا دوسرے میں یاتیسرے عشرہ میں ہو) دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں{عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّیّ اللہ علیہ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔ مَنِ اعْتَکف يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللہ تَعَالٰی جَعَلَ اللہ ُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ}7۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:{عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہ ِ صَلَّی اللّہ ُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَکِفِ ہُوَ یَعْکِفُ الذُّنُوبَ، وَيَجْرِيْ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّہَا}8۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔
اسی طرح ایک اور مقام پرارشاد فرماتے ہیں:{مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ}9۔جس نے اللہ کی رضا کیلیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعتکاف کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اگر کسی سال کسی وجہ سے اس مستحبی عبادت کو انجام نہیں دیتے تھے تو اگلے سال ماہ مبارک رمضان میں دو عشروں میں اعتکاف کرتے تھے ،ایک عشرہ اسی سال کے لئے اور ایک عشرہ قضاء کے عنوان سے اعتکاف کرتے تھے ۔عن ابی عبداللہ (علیہ السلام) قال : کانت بدر فی شھر رمضان فلم یعتکف رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ)فلما ان کان من قابل اعتکف عشرین عشرا لعامہ و عشرا قضاء لما فاتہ }10۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:{اعتکف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فی شھر رمضان فی العشر الاولی ،ثم اعتکف فی الثانیۃ
فی العشر الوسطی ، ثم اعتکف فی الثالثۃ فی العشر الاواخر ،ثم لم یزل یعتکف فی العشر الاواخر} ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کئی برس ماہ رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ، اگلے سال ماہ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اورتیسرے سال ماہ رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ۔ اور آخری برسوں میں ہمیشہ ماہ مبارک رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ۔11۔
ہر عبادت کی طرح اعتکاف کی صحت و قبولیت کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں۔جیسے:ایمان،عقل،قدرت اور اس کے علاوہ دیگر شرائط میں قصد قربت(نیت)،روزہ،تین دن روزہ دار ہونا،مسجد جامع یا مساجد چہارگانہ میں سے کسی ایک میں ہونا،بغیر کسی عذر شرعی یا ضرورت شرعی کے باہر نہ نکلنا،مسلسل مقامِ اعتکاف میں رہنا،زوجہ شوہر کی اجازت کے ساتھ اورفرزندان والدین کی اجازت کے ساتھ ہی معتکف ہو نا ۔ اعتکاف کے دوران دنیاداری اورغیر معنوی اشعار سے پرہیز کرنا چاہیے اور اسی طرح ہر وکام جو اعتکاف کے مقدس اہداف کے حصول میں مانع اور رکاوٹ بن سکے اس کو ترک کردینا چاہیے ۔انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت ذکر، صلوات ، دعاؤں،اور تلاوت قرآن کریم میں بسر کرنا چاہیے تاکہ جب معتکف اعتکاف ختم ہو جانے کے بعد مسجد سے باہر آئے تو اس کا ان تمام معنوی امور کے ساتھ اُنس اور دلی لگاؤ بہت زیادہ ہوچکا ہو۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(مشہد مقدس) حضرت امیر المؤمنین، مولا الموحدین، غرالمحجلین ،قاتل المشرکین، امام المتقین علی ابن ابی الطالب علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت اور رہبر کبیرانقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رض کی ۲۹ویں برسی کی مناسبت سے دفتر مجلس وحدت مسلمین (موسسہ شھید عارف الحسینی )مشہد مقدس می ایک مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا جس میں علمائے کرام ،طلاب عظام اور زائرین ثامن الآئمہ علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام مجید سے کیا گیا جسکی سعادت برادر علی عمران نے حاصل کی اسکے بعد پروگرام کے پہلےخطیب حجۃ الاسلام عارف حسین نے اسلام کےلئےحضرت امام خمینی کی خدمات اور انکی شخصیت پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔اسکے بعد مشہور معروف عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین سید ضیغم الرضوی (قم) نے خطاب کیا ۔دفتر مجلس وحدت مسلمین مشہد کی طرف سے افطاری اور کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔پروگرام کے اخر میں مجلس وحدت مسلمین مشہد مقدس کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام عقیل حسین خان نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کےسکریٹری جنرل ژ آغا علی رضوی نے اپنے ایک تعزیتی بیان میں کہا کہ حاجی اکبر خان مرحوم پورے خطے کا عظیم سرمایہ تھے انکی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی اور فکر امام خمینی و نظریہ ولایت فقیہہ کی پرچار میں گزری ہے۔ آج گلگت بلتستان ایک عظیم پیروئے خمینی ، فکری، انقلابی، علمی و روحانی شخصیت سے محروم ہو گئے۔ انکی وفات پر انکے خاندان اور پورا گلگت بلتستان کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ حاجی اکبر خان کی فکر و فلسفے کا مرکز ولایت علی اور ولایت فقیہہ تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی نامساعد ترین حالات اور گٹھن مراحل میں بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ولایت کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیے۔ انکی ولایت کے حوالے سے نظریات غیر مبہم اور قاطعیت پر مبنی تھے ۔ وہ دور اندیش اور دیندار انسان تھے۔ دینی تحریکوں کے لیے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انکی وفات سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے اسے پر کرنا کبھی ممکن نہیں۔مرحوم باعمل تعمیر سوچ اورخطے میں دینی افکار کی سربلندی چاہتے تھے۔