وحدت نیوز(جڑنوالہ) مجلس وحدت مسلمین جڑانوالہ کے سیکریٹری جنرل جابر علی ایڈووکیٹ اور انکی کیبنٹ کی جانب سے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے سلسلے میں افطاری اور تنظیمی نشست کا اہتمام کیا گیا، پروگرام میں صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ مبارک علی موسوی صاحب نے خصوصی شرکت کی. تنظیمی نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے برادر مدثر نے کیا. نشست سے مجلس وحدت مسلمین کے مختلف عہدیداران نے خطاب کیا جبکہ مرکزی خطاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے کیا. علامہ مبارک موسوی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہ مبارک رمضان نفس سازی کا مہینہ ہے اس بابرکت مہینے میں ہمیں چاہیے کہ اپنے نفس کو خدا کی راہ میں گامزن کرنے کا تحیہ کر لیں اور اس بات کا اعادہ کر لیں کہ جس طرح اس ماہ مبارک میں خدا کے حضور خود کو پیش کر دیتے ہیں سال کے باقی مہینوں میں بھی ایسے ہی خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں. انہوں نے کہا کہ تین چیزیں آپکی شکایت بروز قیامت خدا سے کریں گی۔
(الف) عالم
(ب) قرآن کریم
(ج) مسجد
عالم تب شکایت کریں گے جب عالم کے ہوتے ہوئے آپ ان سے علم نہ حاصل کریں،قرآن پاک آپکی شکایت کرے گا اگر قرآن کریم کے ہوتے ہوئے اپ نے اس پاک کلام کی تلاوت نہ کی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور وہ مسجد آپکی شکایت کرے گی جو آپکے محلے میں موجود ہے پر آپ باجماعت نماز کیلئے اس مسجد میں نہیں جاتے.
لہذا آپ کے حق میں یہ دعا ہے کہ خدا آپ احباب کو یہ توفیق دے کہ بروز محشر یہ تینوں چیزیں آپ مومنین کرام کی تعریف کریں نہ کہ شکایت. انہوں نے کہا کہ اس مہینے میں خدا دعوت دیتا ہے کہ میرے دسترخوان کی نعمتیں چاہیئے ہوں تو قرآن مجید میں موجود ہیں انہیں حاصل کریں مؤمنين سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ صاحب نے کہا کہ خدا تم سے جو بھی عمل چاہتا ہے اس عمل کو خوبصورت ہونا چاہیے، خدا نے یہ نہیں کہا کہ زیادہ یا کثرت سے عمل کرو، خدا نے کہا احسن عمل انجام دو، یعنی جو بھی عمل انجام دو وہ خوبصورت ہو، یعنی وہ عبادت یا عمل جس میں توازن و تناسب ہو وہ خوبصورت عمل یعنی احسن عمل کہلائے گا. یعنی خدا کو آپکے أعمال میں معیار چاہیے مقدار نہیں. اپنی گفتگو کو بڑھاتے ہوئے علامہ صاحب نے کہا کہ خوبصورت عمل کیا ہے یعنی ہمیں معلوم ہو کہ ہم جو بھی عبادت انجام دے رہے ہیں اسکی معرفت ہمیں ہو مثلاً ہم اٹھتے بیٹھتے کسی بھی چیز کی تعریف میں سبحان اللہ کہتے ہیں دوسری طرف دوران نماز رکوع و سجود میں بھی سبحان اللہ کا کثیر ورد کرتے ہیں لیکن مفہوم نہیں جانتے. سبحان اللہ یعنی اللہ ربالعزت ہر عیب سے پاک و مبرا ہے انہوں نے سبحان اللہ کا مفہوم سمجھانے کیلئے یوسف نبی (ع) کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب یوسف علیہ السلام مضبوط ترین بادشاہ بن چکے تھے لوگوں نے قحط سالی کی وجہ سے گندم حاصل کرنے کیلئے اپنا مال و اسباب یہاں تک کہ اپنی اولاد اور نفوس کو بھی یوسف نبی (ع) کو فروخت کر دیا تھا تب ایک روز جبریل علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام سے مخاطب ہوئے کہ اے یوسف کیا تم جانتے ہو کہ وہ شخص جو دربار میں فلاں کونے سے گزر رہا ہے کون ہے؟ یوسف علیہ السلام نے نفی میں سر ہلایا اور جاننا چاہا کون ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ وہ شخص ہے جس نے آپکی پاک دامنی کی گواہی اس وقت دی تھی جب مقفل دروازے خدا کے حکم سے کھلنے کے بعد عزیز مصر کے سامنے آپ پر بدکاری کا بہتان لگا اور آپ نے ایک نومولود بچے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں بے گناہ ہوں یہ بچہ میرا گواہ ہے اور بچے نے آپکے حق میں گواہی دی تھی یہ وہی بچہ ہے. یہ سنتے ہی یوسف نبی علیہ السلام نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا جبکہ ہر شخص کو بادشاہ کے تخت پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن آپ نے پھٹے پرانے لباس میں ملبوس اس شخص کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور عوام میں اعلان کیا کہ آج سے یہ بھی بادشاہ ہے اور ایک بادشاہ کی حیثیت کے مطابق اسے اشرفیاں، کنیزیں اور محلات دے دیے. اس کے ساتھ ہی جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا تو جبریل علیہ السلام مسکرا رہے تھے. آپ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اے جبریل اس شخص کو نوازنے میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی تب جبریل علیہ السلام نے فرمایا نہیں اے پیغمبرِ خدا کمی تو نہیں رہی میں اس وجہ سے مسکرا رہا ہوں کہ ایک بندہ دوسرے بندے کی پاک دامنی کی گواہی دے اور دوسرا بندہ اس گواہی کے عوض پہلے بندے کو اس قدر نواز دیتا ہے تو جب بندہ خدا کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے تو خدا اپنے بندے کو کس قدر نوازتا ہوگا. علامہ مبارک نے اپنی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماہ مبارک رمضان میں اگر اس گزارش کو سمجھ جائیں کہ خدا کو اپنے بندے سے احسن عمل درکار ہے تو خالق پنجتن کی قسم آپ کامیاب ہیں۔
پروگرام میں تحصیل جڑانوالہ کی 50 سے زائد شیعہ آبادیوں کے نمائندگان نے شرکت کی جبکہ مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر افتخار نقوی، سیکرٹری جنرل فیصل آباد حسنین شیرازی، سابقہ سیکرٹری جنرل قم ڈاکٹر گلزار جعفری اور علاقے کے معززین جناب فیضل الحسن، سید خاقان حیدر، حاجی غلام رسول و دیگر بزرگان نے شرکت کی.
وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ کے لئے آئندہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں،وطن عزیز پاکستان کا استحکام،ملک سے دھشت گردی کا خاتمہ، شیعہ نسل کشی کا سد باب، اسلام دشمن تکفیری سوچ اور کرپشن کا خاتمہ، ملک سے امریکی مداخلت کا خاتمہ اور اپنے آئینی حقوق کا تحفظ ہمارے مشترکہ قومی اہداف ہیں۔ ملت جعفریہ اپنے ووٹ کی طاقت کو ان مقدس اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرے۔ پاکستان میں بسنے والے چھ کروڑ شیعہ حکمت وتدبر سے منتشر ووٹ کوتشیع کی اجتماعی طاقت میں تبدیل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ووٹ ایک قومی امانت ہے اسے درست استعمال کریں تویہ ہماری تقدیر بدل سکتا ہے، ہمیں پاکستان میں جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ان سے نکلنے کے لئے ووٹ کی طاقت کا درست استعمال ضروری ہے۔ہمیں ووٹ کی طاقت کو ضائع کرنے کی بجائے اس کا درست استعمال کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کا کردار ناقابل ستائش ہے، تکفیری سوچ کی حمایت کرکے مولانا نے ملت جعفریہ کے اعتماد کو کھو دیا ہے،کوئٹہ میں تشیع کے قتل عام کے بعد رئیسانی کی بدنام زمانہ حکومت کی بے جا حمایت کرکے فضل الرحمن نے اپنی تکفیری سوچ کا ثبوت دیا۔ جیکب آباد سانحے میں ملوث دھشت گردی کے اڈوں کو کھلوانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالا، پاکستان کی ملت تشیع اور اہل تسنن تکفیری سوچ سے عظیم نقصان اٹھا چکے ہیں وہ ایم ایم اے کے نام پر تکفیری سوچ کی بالادستی قبول نہیں کریں گے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) فاٹا کا قومی دھارے میں انضمام خوش آئند ہے فاٹا کی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ ہندوستان وافغانستان کی ایما پر فاٹا ریفارمز بل کی مخالفت کرنے والے وطن عزیز کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ۔ گلگت بلتستان کی عوام بھی مقتدر قوتوں کی طرف نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ کب انہیں بھی آئینی حقوق اور شاخت دی جائے گی ان خیالات کااظہارسربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے فاٹا ریفرمز بل کی ایوان بالا سے منظوری کے بعد میڈیا سیل سے جاری بیان میں کی ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کی محب وطن عوام نے ایک طویل عرصہ مشکلات برداشت کی ہیں ایف سی آر جیسے کالے قانون نے عوام کی محرومیوں اور تکالیف میں اضافہ کیا۔فاٹا ریفرمز بل اب کے پی کے اسمبلی میں پیش ہونے جا رہا ہے ۔لیکن کچھ دشمن کے آلہ کار قوتیں فاٹا کے انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں اور کے پی کے اسمبلی میں فاٹاریفرمز بل پیش کرنے کے وقت ہنگامہ آرائی کر کے ماحول کو کشیدہ کرناچاہتے ہیں ۔فاٹا کے انٖضمام کے مخالفین ملک کے امن اور ترقی کے مخالف ہیں اور ہندوستان وافغانستان کے اشاروں پر کا م کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام بھی مقتدر قوتوں کی طرف نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ کب انہیں بھی آئینی حقوق اور شاخت دی جائے گی ۔ گلگت بلتستان کی محب وطن عوام اس وقت ہر شہر میں مطالباتی احتجاجات اور سمینارز کے ذریعے اپنی آواز مقتدر حلقوں تک پہنچانا چاہ رہی ہے ۔پاکستان کی ترقی اور مستقبل گلگت بلتستان سے جڑا ہوا ہے ۔گلگت بلتستان کی عوام کو جلد از جلد آئینی و قانونی حقوق دینا وقت کی سب سے اہم ضرورت اور ملکی امن اورترقی کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے ۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات برادر مظاہر شگری نے فاٹا انضام بل کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا کی عوام کو آئینی حقوق مبارک ہوں۔ آج پارلیمنٹ میں قومی ایشو پر اپوزیشن اور حکومت کا متفق ہونا ایک اچھی روایت ہے۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر اس پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کی عوام کے حقوق کی بات ہو تو وفاق اور پارلیمنٹ مزید مضبوط ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی محب وطن عوام پچھلے 70 برس سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن ظالم حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔وہاں عوام کو آئینی حقوق سے محروم رکھ کر غیر آئینی قوانین کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک نا اہل شخص کو وزیراعلیٰ بنا کر عوامی مینڈیٹ اور حقوق کا استحصال کیا گیا۔ مظاہر شگری نے امید ظاہر ظاہر کی کہ آنے والی حکومت اسی ایوان میں گلگت بلتسان کو آئینی حیثیت دے کر محب وطن پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کرے گی۔
وحدت نیوز (انٹرویو) معروف سکالر اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے فلسطینیوں پہ اسرائیلی حملے کے اسباب پہ ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شام کے اندر وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ سید ناصر شیرازی مشرق وسطٰی کے موضوع پہ انتہائی گرفت رکھتے ہیں تو ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے نے اسی تناظر بالخصوص فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کی حالیہ بربریت اور شام میں مختلف ممالک کے اہداف اور حالیہ شام اسرائیل جھڑپ کے بارے میں سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا ہے، اس نشست کا تفصیلی احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔
سوال: اسرائیل نے حال ہی میں فلسطینیوں کیخلاف طاقت کا بے محابہ استعمال کرکے ظلم و بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے، اس اسرائیلی جارحیت کے بنیادی مقاصد یا محرکا ت کیا ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: اس کی مختلف وجوہات اور مقاصد ہیں۔ میں مختصر الفاظ میں بتاتا ہوں۔
اول یہ کہ اسرائیل کمزور ہے اور اپنی کمزوری چھپانے کیلئے کمزور پہ طاقت کا استعمال کرکے مرعوب کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل کی تزویراتی گہرائی بہت کم ہے۔ اس کا جغرافیہ بہت چھوٹا ہے۔ اس کے پڑوس میں اسکی حمایت نہیں پائی جاتی اور دنیا میں ایسا ملک بدترین بحران کا شکار رہتا ہے کہ جس میں یہ کمزوریاں ہوں اور وہ خطے میں اپنے اتحادی نہ رکھتا ہو۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی اس کمزوری کو مختلف طریقوں سے کم کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی حمایت اور اس کی ویٹو پاور کے ذریعے اور اپنے جارحانہ کردار کے ساتھ یعنی پڑوسی ممالک کو طاقت کے زور پہ دبا کر اسرائیل نے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تازہ صورت حال کی وجہ یہ بنی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی اپنی کمزوری کو آشکارا نہیں کرنا چاہتا کہ وہ کمزور ہو رہا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی یہ کمزوری آشکار ہونے لگتی ہے تو وہ ایسے جارحانہ اقدامات کے ذریعے یہ باور کراتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اسرائیل کمزور ہوچکا ہے، وہ اسرائیل کہ جو گریٹراسرائیل کی بات کرتا تھا، جو دجلہ و فرات کے پانیوں پہ جانے کی بات کرتا تھا، اسے اپنی ہی سرحد پہ دیواریں بنانا پڑ رہی ہیں، یعنی وہ خود محدود ہو رہا ہے۔ اس کی اپنی معاشی استعداد میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اور معاشی حالت اتنی اچھی نہیں جا رہی۔
مشرق وسطیٰ میں اس کا اپنا سارا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ حزب اللہ اس کے اپنے بارڈر پہ پہلے سے بہت طاقتور اور قدرت مند ہوچکی ہے۔ شام میں بشارد اور اس کی اتحادی مزاحمتی قوتیں بہت طاقتور ہوچکی ہیں اور عالمی سطح پہ بھی اس کو درکار حمایت نہیں مل رہی۔ اس کی اپنی کمزوریاں کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئیں تھیں۔ شام کی سرزمین سے اس کے ایف سولہ طیارے کو گرایا گیا، جو کہ غیر متوقع ہے۔ اسی طرح ایف سولہ کے علاوہ ان کے فوجی مقامات پہ حملوں کا ہونا اسرائیلی کمزور ی کا اظہار ہیں۔ جس سے توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل نے فلسطینیوں پہ بدترین حملے کئے ہیں۔ ان پہ ظلم کیا ہے اور بدترین بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا دفاع خود امریکہ ہے، جو شام میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور شام کے وہ علاقے جو اسرائیل کے بارڈر کے ساتھ لگتے ہیں، وہاں مزاحمتی بلاک زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی پریشانی اس حوالے سے بڑھ گئی ہے، کیونکہ پہلے لبنان والا اس کا بارڈر غیر محفوظ تھا اور اب شام والا بھی اس کیلئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اگر دونوں سرحدوں پہ اسرائیل مخالف قوتیں مضبوط ہوں تو دونوں بارڈر خود اسرائیل کیلئے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتے ہیں، جس میں یہ پس جائیگا۔ اس کے علاوہ غوطہ جو کہ بشارد حکومت کے خاتمے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی آخری امید تھی، اس میں
انہیں توقع تھی کہ مشرقی غوطہ کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ اسی کے ذریعے انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور یہاں موجود دہشتگرد جو اسرائیلی ہتھیاروں سے لیس ہیں، ان کے ذریعے دمشق پہ قبضہ کیا جاسکے گا۔ اب یہ امید بھی ٹوٹ گئی اور دمشق کے تمام اطراف مزاحمتی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں پہ رٹ آف دی گورنمنٹ قائم ہوگئی ہے۔ اب ان مزاحمتی قوتوں کا اگلا ہدف گولان ہائٹس کے نزدیکی وہ اسٹریٹجک علاقے ہیں، جو اسرائیل کے نزدیک ہیں، جہاں پہ اگر مزاحمتی قوتیں کاملاً اپنا تسلط قائم کر لیں اور وہاں سے دہشتگردوں کو نکال باہر کریں تو اسرائیل کی اپنی بقاء پہ سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ اسرائیل نے شام کو اس حد تک آفر کی ہے کہ یہاں موجود شدت پسند عناصر کو وہ اپنے علاقے میں جگہ دینے کو تیار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس علاقے میں لبنانی حزب اللہ اور اسرائیل مخالف مزاحمتی قوتیں نہ آئیں۔ بہرحال مشرقی غوطہ میں ناکامی بڑی وجہ بنی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پہ اپنا غصہ نکالا ہے۔
غلامانہ ذہنیت کا مالک محمد بن سلمان بھی ایک وجہ ہے
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکہ و اسرئیل کو عالم اسلام سے اتنی غلامانہ ذہنیت رکھنے والا بندہ نہیں مل سکتا تھا، جیسا انہیں محمد بن سلمان کی صورت میں ملا۔ وہ کام جو امریکہ اپنے نان اسلامک چہرے کی وجہ سے نہیں کرسکتا اور وہ کام کسی اسلامی چہرے سے لیتا ہے یعنی سعودی عرب، جو سب سے زیادہ امریکی اہداف کیلئے کام کرتا ہے، جس میں نام نہاد اسلامی اتحاد کی تشکیل، پھر اسلامی ممالک کی کانفرنس کہ جس کی صدارت ٹرمپ نے کی۔ اس کے علاوہ اسلامی تشخص رکھنے والے معاشرے کو یورپ کی طرز پہ منتقل کرنا، مقدس سرزمین کو فحاشی کے مراکز میں بدلنا، یہ ساری وہ چیزیں ہیں، جو محمد بن سلمان نے کیں۔ انہیں یہ بھی توقع تھی کہ یہ اسلامی دنیا کو محمد بن سلمان کی مدد سے اسی طرح ہینڈل کر لیں گے کہ مخالفت اور مزاحمت دونوں ہی پست ترین سطح تک چلی جائیں اور اب اس سے اگلے مرحلے میں ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ جو کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر ایک ملک کے طور پہ تسلیم کر لیا جائیگا اور اس ملک میں فلسطینیوں کی واپسی کا خواب، خواب ہی رہ جائیگا تو اس تناظر میں اسرائیلی حملوں کی ٹائمنگ انتہائی اہم تھی۔ تاہم یہ ساری منصوبہ بندی اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کو الٹ پڑ گئی ہے۔ محمد بن سلمان کو اپنے ملک و خطے میں وہ حمایت حاصل نہیں رہی، یہ محمد بن سلمان کا ہی فقرہ ہے کہ
’’فلسطینی یا تو اسرائیل کی بات مان لیں یا پھر اپنا منہ بند رکھیں۔‘‘
ؓBACK TO PALESTINE MOVEMENT
فلسطینیوں نے ایک تحریک بھی شروع کی ہوئی ہے کہ جس کا عنوان ہے ’’فلسطینیوں کی فلسطین میں واپسی‘‘ اور اس تحریک میں شدت بھی ہونی تھی، کیونکہ ماہ مئی میں ہی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بیدخل کیا گیا تھا۔ 15 مئی یوم نکبہ ہے۔ فلسطینی اس حوالے سے اپنی تحریک شروع کئے ہوئے تھے، اس میں شدت اور تصادم بھی اس وجہ سے زیادہ تھا کہ ایک طرف یہ نظریہ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے اور دوسری طرف فلسطینی اپنی زمین پہ واپس جانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہوں اور اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کر رہے ہوں تو یہ ایک بڑی نظریاتی جنگ تھی اور جب کوئی نظریہ سے ہار جاتا ہے تو بندوق کا سہارا لیتا ہے، یہی کام اسرائیل نے کیا ہے۔ نظریئے سے شکست کھانے کے بعد فلسطینیوں پہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک پہ بدترین ظلم کیا ہے اور ایک مہینے میں تقریباً پہلے 62 افراد شہید ہوئے اور 15 مئی کے دن 60 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ ایسے موقع پہ طاقت کے جابرانہ استعمال سے فلسطینیوں کو جھکا لے گا۔
اسرائیل پہ ٹرمپ کا دست شفقت اور ٹرمپ کا یہودی داماد
حملوں کی وجوہات میں اسرائیل کو حاصل ٹرمپ کی اعلانیہ مدد بھی ہے۔ ٹرمپ کا اپنا داماد جو کہ یہودی ہے۔ یہودی لابی کبھی بھی اتنی طاقتور امریکہ میں نہیں رہی۔ چنانچہ ٹرمپ کا اپنا مزاج، اس کا حکومت میں ہونا بھی اس ظلم کی وجہ بنا ہے۔ اس ظلم کے بعد جو عالمی ردعمل تھا، اس کو کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک امریکہ نے تعاون کیا ہے۔ اس معاملے پہ عرب لیگ کا جو اجلاس ہوا ہے، اس میں جی سی سی ممالک کا کوئی سربراہ شریک نہیں ہوا ہے۔ اس ظلم کے خلاف جو قرارداد پیش ہوئی تو اسے بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف جو ردعمل اسلامی دنیا سے متوقع تھا، اسے بھی دبانے میں امریکہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یعنی ٹرمپ کی موجودگی بھی اسرائیل کے اس جرم عظیم کی ایک وجہ بنی ہے۔
مزاحمتی بلاک کی سیاسی کامیابیوں سے اسرائیل ناخوش
اس کے علاوہ لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی، عراق میں حشدالشعبی کی کامیابی بھی انہیں آئندہ کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر نظر آرہی ہے، کیونکہ ان کامیابیوں سے عوام میں جو احساس فتح، احساس برتری پیدا ہوا ہے، جس کو کاونٹر کرنے کیلئے نہتے افراد پہ اسرائیل نے طاقت کا استعمال کیا ہے۔ بہرحال طاقت کا استعمال اگر نہتے لوگوں پہ ہوگا تو وہ بربریت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ رہبر معظم نے فلسطینیوں کی جو حمایت کی بات کی اور جو مزاحمتی قوتوں سے جو فرمایا کہ آپ اسرائیل کو ختم ہوتے دیکھیں گے اور فلسطین کی آزادی دیکھیں گے اور بیت المقدس کی آزادی سنت الہیہ میں سے ہے اور 25 سال کی ڈیڈ لائن،جس میں سے چند سال گزر چکے ہیں، وہ بھی چل رہی ہے تو اسرائیلی اس کو نوٹ کرتے ہیں۔ اس فرمان کے نتیجے میں فلسطینیوں میں جو امنگ، احساس فتح تھا، اس کو کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ظلم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصلی روپ دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس ظلم کے خلاف دنیا کی طرف سے جو ردعمل آیا ہے، وہ حوصلہ افزا ہے، گرچہ وہ اتنا نہیں ہے کہ جتنا آنا چاہیئے تھا، مگر اس کے باوجود اس ردعمل سے فلسطینیوں کی کاز کو تقویت ملی ہے۔
سوال: امریکی سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل ہونے سے مقدمہ فلسطین کو کیا نقصان پہنچا۔؟
سید ناصر شیرازی: پہلی بات تو یہ کہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے تحت مذاہب کا مشترکہ ورثہ ہے، جس میں عیسائی، یہودی اور مسلمان شامل ہیں۔ چنانچہ اگر یہ کبھی بنا تو یہ آزاد سٹی بن سکتا ہے کہ جس میں تمام مذاہب اور مسالک کے افراد کو جانے کی اجازت ہوگی۔ چنانچہ یہ آزاد شہر تو ہوسکتا ہے مگر اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا، یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہے۔ اسرائیل کا جو نظریاتی ہدف ہے کہ جو اس کی ریاست کا دارالحکومت یا پایہ تخت ہے، وہ بیت المقدس یا یروشلم کو ہی بنایا جائے۔ اس کے بعد یہیں سے ہی وہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا آئیڈیل موقع ان کے ہاتھ لگا ہے کہ ٹرمپ مزاج کے لحاظ سے بھی ان کے ہم آہنگ ہے اور اس کا داماد خود بھی یہودی ہے۔ لہذا اس موقع کو انہوں نے بہترین سمجھا۔ امریکہ نے ستر سال میں اپنے غیر جانبدار ہونے کی دلیل یہی رکھتا تھا، حالانکہ وہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہا، مگر غیر جانبدار رہنے کی اس کے پاس اکلوتی دلیل یہی تھی کہ اس نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں نہیں بنایا۔ بہرحال ٹرمپ سے یہودیوں نے یہ فائدہ اٹھایا ہے۔ گرچہ یہ ابھی ایک فیصلہ ہے کہ جس میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہاں امریکی سفارتخانہ بنے گا اور رفتہ رفتہ یہاں منتقل ہوگا۔ اس امریکی فیصلے میں کئی ناکامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ امریکی صدر جس نے اس افتتاح میں جانا تھا، وہ نہیں گیا، اس کے خلاف اتنا عالمی پریشر آیا ہے۔ اس منتقلی پہ امریکہ کو درکار حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے اور جو قرارداد بھی آئی ہے تو اس میں دنیا کے چند چھوٹے چھوٹے ملک کہ جن کا نام عالمی سیاست میں ہی شامل نہیں ہے، ان کے علاوہ پوری دنیا نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ جس میں یورپ، افریقہ اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ یہ امریکہ و اسرائیل کی ناکامی ہے۔ کوئی بھی اقدام جس پہ آپ کو عالمی تائید ملتی ہے تو اسے کامیابی گردانا جاتا ہے، کوئی بھی ایسا اقدام کہ پوری دنیا جس کی نفی کر رہی ہو، اسے ناکامی ہی سمجھا جائے گا۔ ایک مقبوضہ علاقہ ہے، جہاں پہ قوت طاقت کے بل بوتے پہ قابض افواج کا پہرہ ہے۔ وہاں آپ ایک عمارت کو اپنا سفارتخانہ قرار دیتے ہیں تو کئی سوالات آپ پہ ثبت ہوں گے۔ یہ تو ایسا فیصلہ ہے کہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ میں جانے والے محمد بن سلمان وغیرہ کو بھی اس کی مخالفت کرنا پڑی ہے۔ جب تک دنیا کے باقی ممالک وہاں اپنے سفارتخانے منتقل نہیں کرتے، وہاں نہ تو سفارتکاری کا ماحول بن سکتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پہ اسے وہ حیثیت حاصل ہوسکتی ہے کہ جو آپ دینا چاہتے ہیں۔ یہ امریکی سفارتکاری کی بہت بڑی ناکامی اور اسرائیل کی دنیا میں تنہائی ہے۔
سوال: اسرائیلی حملوں کیخلاف اوآئی سی سمیت دیگر اسلامک فورمز سے جو ردعمل سامنے آیا، کیا وہ قابل اطمینان ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: اقوام متحدہ تو امریکی کٹھ پتلی تھی۔ ویسے بھی پانچ ممالک کے پاس ویٹو پاور موجود ہے، لہذا ان سے کوئی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیئے، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود بھی جنرل کونسل کے اندر جو قراردادیں آئی ہیں تو ان میں اسرائیل کو اور امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور عالمی برادری ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی ہے۔ لہذا یہ جو فورم ہے، اپنی غیر جانبداری اور اہمیت کھو چکا ہے، مگر مغرب اور امریکہ زدہ سمجھے جانے والے اس فورم پہ بھی امریکہ اور اسرائیل کو حمایت نہیں ملی ہے اور انہیں بدترین تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب جب ہم عرب لیگ کی بات کرتے ہیں تو چونکہ اس پہ سعودی اثر غالب ہے اور اس کے علاوہ اس فورم نے ان عرب ممالک کی رکنیت ہی منسوخ کی ہوئی ہے کہ جو اپنے حق کی بات کرتے ہیں، جیسا کہ شام، جو کہ عرب ملک ہے مگر عرب لیگ میں نہیں، اسی طرح یمن ہے، جو عرب ملک ہونے کے باوجود عربوں کے ہی نشانہ پہ ہے۔ عرب لیگ اس وقت جی سی سی کے ہاتھ میں ہے اور جی سی سی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ عرب لیگ سے ماسوائے ایک قرارداد مذمت کے اور زیادہ توقع عبث ہے۔ اسرائیل کے خلاف فرنٹ مورچہ تو شام ہے۔ شام اس وقت عرب لیگ کا معطل رکن ہے۔ اب اگر او آئی سی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ ایک مناسب اقدام ہے کہ او آئی سی نے اس پہ ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے ہیں، البتہ وہ سربراہان شریک نہیں ہوئے کہ جو سعودی اثر میں ہیں۔ ترک قیادت سے ان تمام تحفظات کے باوجود کہ جن میں ترکی کے اندر اسرائیلی سفارتخانے کا قائم رہنا، ان کی تقریبات، ٹریڈ کا جاری رہنا کہ جس کے ذریعے انہوں نے اسرائیل کو قبول کیا ہوا ہے، ان سب کے باوجود ترکی کا اقدام انتہائی مناسب تھا اور او آئی سی نے علامتی طور پر ہی سہی مگر اس معاملے پہ ایک صفحہ پہ ہونے کا اظہار کیا ہے۔
سوال: کثیر الملکی سعودی فوجی اتحاد کا ردعمل کیا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: تمام تر صورتحال میں وہ اسلامی اتحاد بھی اپنے کردار کے لحاظ سے عیاں ہوا ہے کہ اس کا اسلامک مفاد اور اسلامی دنیا کے ایشوز سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پہ مزاحمتی ممالک ایران اور اس کے حامیوں کے خلاف مسلکی بنیادوں پہ تشکیل دیا گیا ہے، جو کہ بہت خطرناک ہے اور امت مسلمہ کیلئے بدترین بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس میں ایک بدترین چیز پاکستان کے سابق آرمی چیف کا اس کی قیادت کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب امت مسلمہ شام میں امریکی حملوں کی مذمت کر رہی تھی تو اس وقت سعودی عرب اور ترکی ان حملوں کی توجیہات پیش کر رہے تھے تو پھر کیسے اور کس منہ سے آپ فلسطینیوں کے حقوق یا ان کی آزادی یا ان پہ اسرائیلی حملوں کے خلاف بات کرسکتے ہیں۔ عرب ملکوں کا معاملے میں کوئی اچھا کردار نہیں رہا۔ وہ مزاحمتی قوتیں کہ جنہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، وہاں آنے والی سیاسی تبدیلیاں مزاحمتی عمل کی تائید و حمایت میں جا رہی ہیں۔ جو کہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں انتہائی اہم اور کارآمد ہیں۔
سوال: شام اور اسرائیل کے مابین جھڑپ سے اسرائیلی دفاع کو نقصان پہنچا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: شام ایک ایسا میدان ہے کہ جہاں روس، امریکہ،حزب اللہ، ایران، ترکی اور کردوں کا مفاد موجود ہے۔ چنانچہ شام میں مختلف قوتوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ تاہم زمینی حقائق میں بشارد الاسد اور مزاحمتی قوتوں نے ملکر ملک کے بڑے حصے سے دہشتگردوں کو نکال باہر کیا ہے۔ اس کے بعد باقی دنیا کے مفادات یہاں بتدریج کم ہونا شروع ہوئے ہیں یا ان کے حصول کے امکانات بتدریج کم ہوئے ہیں۔ مزاحمتی بلاک کا شام میں طاقتور ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اندرونی علاقوں کی جنگ سے وہ تقریباً فارغ ہوچکے ہیں اور بیرونی اسٹریٹجک ایریاز میں جنگ منتقل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ جیسے گولان ہائیٹس کے نزدیکی علاقے، قونیطرہ، قلمون وغیرہ میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یہاں اگر حزب اللہی قوتیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر اسرائیل کی آئندہ شکست میں شام اور ان علاقوں کا بڑا کردار ہوگا۔ اسرائیل نے بھی ان چیزوں کو نوٹ کیا اور ردعمل میں شام کو کئی مقامات پہ ہٹ کیا ہے۔ جس میں ایران کے کئی افراد شہید ہوئے ہیں۔ گرچہ ایران اور شام کے درمیان بہترین ہم آہنگی موجود ہے، مگر چونکہ اسرائیل نے شام پہ حملہ کیا تھا اور اس کا جواب بھی شام سے ہی گیا ہے، تو یہ جواب شام نے ہی دیا ہے۔ ابھی تک ایران نے اس کا جواب نہیں دیا ہے۔ ایران نے واضح کہا ہے کہ جب ہم جواب دیں گے تو اعلان کرکے جواب دیں گے۔ ایران کے پاس جو میزائل سسٹم ہے، اس کیلئے آئرن ڈوم کو ناکام بنانا، جو اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم ہے، بے بس ہے۔ ایران، حزب اللہ اور شام کے مفاد میں یہی تھا کہ جب اسرائیل پریشر کو کم کرنے کیلئے شام میں مختلف مقامات پہ حملے کرے تو یہ اس کو کاونٹر کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی ایف سولہ کو مار گرانا، اسرائیل کے فرنٹ مورچوں کو نشانہ بنانا، اسرائیل کے اندر ایک ہنگامی صورتحال کا ہونا، وہاں لوگوں کا زیر زمین بنکرز میں منتقل ہونا اور لوگوں کا وہاں بھی بنیادی ضروریات کا پورا نہ ہونا، اسرائیل کی فوجی طاقت کے غبارے سے ہوا نکلنے کے مترادف ہے۔
سوال: کیا ایران اپنے شہید فوجیوں کا انتقام لے گا۔؟
سید ناصر شیرازی: دونوں جانب سے ہونے والے ان حملوں میں دونوں فریقوں نے اپنے مسلز ٹسٹ کئے ہیں، اسرائیل کو شدت سے اس بات کا بھی احساس ہوا ہے کہ مزید کچھ ہونے کی صورت میں ردعمل کہیں شدید ہوسکتا ہے۔ مزاحمتی بلاک جو شام میں موجود ہے، وہ نہ تو ایف سولہ بنا رہا ہے اور نہ ایف تھرٹی، وہ آئرن ڈوم بھی نہیں بنا رہا ہے۔ تاہم وہ ایسی ٹیکنالوجی پہ ضرور کام کر رہا ہے کہ جو ان تمام ٹیکنالوجیز کو کاونٹر کرکے اسے نیوٹرل کرسکے۔ اس کیلئے گرچہ سرمایہ کم درکار ہے، مگر ردعمل میں چوٹ شدید پہنچا سکتے ہیں اور اسرائیلی حملے کے جواب میں اپنی قوت کا معمولی اظہار انہوں نے کیا ہے۔ یہ کھلا پیغام ہے اسرائیل کیلئے کہ اگر تم ہماری کسی کمزوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کرو گے کہ ہم داخلی جنگ میں ہیں تو آپ بدترین بحران سے دوچار ہوں گے۔ سیر کا جواب سوا سیر سے شام اور اس کی اتحادیوں نے دیا ہے۔ اسرائیلی حملے میں ایران کے فوجی شہید ہوئے ہیں اور ایران نے اعلان کیا ہے کہ ان کا انتقام وہ ضرور لے گا مگر اس کیلئے وہ وقت اور جگہ کا انتخاب خود کریگا۔ ایران کا یہ اعلان بھی اسرائیل کیلئے ایک لٹکتی تلوار ہے۔ اب اسرائیل کی کوشش یہی ہے کہ اس ممکنہ ایرانی ردعمل کو کسی طور روکا جاسکے اور اس کی کوئی ممکنہ گارنٹی حاصل کی جا سکے۔
انٹرویوبشکریہ۔۔۔اسلام ٹائمز
وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے 15سال قبل اور ہجرت سے 68 سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں۔ وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔ وہ با اخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح سےکرتے ہیں :{ انّ خديجۃَ اِمْرَأَۃکاٌ كمِلَۃٌ مَيمُونۃٌ فاضِلَۃٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار}1۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اورفاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کی ننگ و عار اوربد نامی سے دور ہے۔
وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجوداپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :{۔۔وَ کُنْتُ أَنَا أَشْبَہَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَۃَ اَلْکُبْرَی} 2۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والاہوں۔ وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سےایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادا کی۔ وہ پارسا خاتون جس کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا} 3۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اورتیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جوتجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔ وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھاجو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالک تھیں۔
وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ ـ
وہ نجیب خاتون جونوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔
وہ پاک دامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتادی۔
وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو جب ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی
کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔
وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا اوراس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا: اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف ،دیانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں {اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے}
وہ ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کی ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے {ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الہدی سید مرتضی کتاب شافی اورشیخ طوسی کتاب تلخیص شافی } کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا
کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا۔4
وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔
وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر گئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔
وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر
فوقیت رکھتی ہے۔
وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: {ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجۃ}5۔کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔
وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔1۔ خدیجہ بنت خویلد 2۔فاطمہ بنت محمد3۔ مریم بنت عمران 4۔ آسیہ بنت مزاحم
وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر{کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کردی ہے }رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ و سلم غضبناک ہو کر فرمایا : {لاوالله ماابد لنی اللہ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی
بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء}6۔خدا کی قسم خدانے مجھے اس سے بہتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر
چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔
وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:{ قال لي جبرائيل:بشّر خديجۃ ببيت في الجنۃ من قصب لا صخب فيہ و لا نصب فيہ۔يعني قصب الزمرد } جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ
قصر زمرد کا بنا ہوا ہے ۔7
وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیااور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے ۔
وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم
کے مرجھائے ہوئے چر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔
وہ پرہیز گار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ: {الایمَانُ مَعْرِفَۃٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالاَرْکَانِ} 8۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔
وہ باکمال خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کے طعنہ زنی اور ان کےمذاق {کہ انھوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی} کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا:کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کرسکتی ہیں؟
وہ اطاعت گذارخاتون جورسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور ان کی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے
رہتےتھے۔
وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کی شرف حاصل ہوئی۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم } نے مسجد میں حسن اور حسین { علیہما السلام} کی شان میں فرمایا{:ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟} اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین
انسان ہیں؟ لوگون نےعرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا:{الحسن و الحسین جدہما رسول اللہ و جد تہما خدیجہ بنت خویلد}9۔وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔
وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے ائمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں " ہند" اور دادی" نثیلہ"
ہے { اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینہ عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے} اس لئے تم اس قسم کے برے اور نا پسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو۔ میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی
وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:{ أَنْشُدُکُمُ اللّہ َ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَۃُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ ہَذِہِ الاُمَّۃِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّہُمَّ نَعَمْ10{۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ {س} بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ
جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟
امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرتا ہے: {انا بن خدیجۃ الکبری}11۔میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری {س} کا بیٹا ہوں۔
وہ خوش قسمت خاتون جن کی کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عباتھی۔آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا:" اے میری نور چشم ؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ: میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ {ص} سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے
کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نےاس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔12
وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرئیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو
ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھا لیں۔
وہ مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اورجبریل امین سلام بھیجتا ہے۔ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو ؟جبرئیل امین نے کہا :{حاجتي أن تقرأ علی خديجۃ من الله و مني السلام}میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف
سے خدیجہ کو سلام کہئے۔جب پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو ام المؤمنین نے فرمایا:{ إن اللهہو ه السلام، و منی السلام، و إليہ السلام، و علی جبرئيل السلام}بیشک اللہ خود سلام ہے و تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔13
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی