وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کی ضلعی شوری کا اجلاس بستی مومن آباد میں ہوا. اجلاس کی صدارت ضلعی سیکرٹری جنرل مولانا رضوان جعفری نے کی. اجلاس میں ضلع لیہ کی ضلعی کابینہ ،15 یونٹس کے نمائندگان، سینئر دوستان کے ساتھ ساتھ مجلس وحدت مسلمین صوبہ جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل حجتہ السلام مولانا اقتدار حسین نقوی، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور تنظیم سازی برادر آصف رضا ایڈووکیٹ نے شرکت کی. مجلس وحدت مسلمین کی موجودہ صورتحال، سیاسی پالیسی، تنظیم نو، حالات حاضرہ پہ بحث و مباحثہ اور لیکچر ہوئے اور کارگردگی رپورٹ پیش کی گئی.ضلعی سیکرٹری جنرل مولانا رضوان جعفری نے تعلیمی مصروفیات کے باعث ایران واپس جانے کی وجہ سے کابینہ سمیت استعفیٰ پیش کیا، بعد ازاں برادر ساجد حسین گشکوری صاحب ، مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے نئے میر کارواں (ضلعی سیکرٹری جنرل) کے طور پہ منتخب ہوئے،صوبائی سیکرٹری جنرل حجتہ السلام مولانا اقتدار حسین نقوی صاحب نے نئے سیکرٹری جنرل سے حلف لیا، پروگرام کا اختتام دعا امام زمان عجلہ سے کیا گیا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) سربرا ہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی زیر صدار ت مرکز ی کابینہ کا اجلاس،اجلاس میں بھارت کے جارحانہ عزائم کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملکی سلامتی و دفاع کے ہر قسم کی قربانی دینے کا اعادہ بھی کیا گیا ،سربراہ مجلس وحدت مسلمین نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وطن عزیز کی حفاظت اور دفاع ہمارے ایمان کا حصہ ہے،بھارت سمیت کسی بھی استعماری طاقت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دینگے،ہم بانیاں پاکستان کی اولاد ہیں پاک دھرتی کے تحفظ کے لئے ہم کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،اجلاس میں ایم ڈ بلیو ایم کا ضمنی الیکشن کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ،اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس تقوی نے کہا کہ ملک بھر کے مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان بطور سیاسی مذہبی جماعت ملک کے چاروں صوبوں آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان میں عوامی قوت رکھتی ہے ہم وطن میں عزیز ترقی و خوشحالی کے خواہا ں ہیں ،ہم خدمت اور عوامی جدوجہد کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے آ رہے ہیں اور آئیند ہ بھی مثبت اور تعمیر ی سیاسی جد وجہد کو جاری رکھیں گے،سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ ملکی مفادات قومی وقار اور کو مقدم رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے سیاسی سیل نے ماہ اکتوبر میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں کلیدی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو تمام حلقوں کاجائز لینے کیساتھ ساتھ مقامی سیاسی کونسل کے اراکین سے مل کر ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم فیصلے کریں گے۔
وحدت نیوز (گلگت) راجہ جلال حسین مقپون کے گورنر گلگت بلتستان مقرر ہونے پر نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے محروم عوام کی محرومیوں اور مسائل کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دینگے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے اپنے ایک بیان میں راجہ جلال حسین مقپون کو گورنر گلگت بلتستان مقرر ہونے پرنیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام ایک عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور گورنر موصوف عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کرینگے۔امید ہے گلگت بلتستان میں میرٹ کی بحالی اور غریب عوام کے بنیادی مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی شاہ خرچیوں اور پروٹوکول پر اٹھنے والے اخراجات کو کنٹرول کرکے عوامی مسائل کے حل کو یقینی بنانا وقت کی ضروریات میں سے ہے لیکن بد قسمتی سے گلگت بلتستان حکومت نے تمام اخلاقی حدود کو پائمال کیا ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں جس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے خزانے کو چند گھرانوں تک محدود کردیا ہے جس طرح سے پنجاب میں نواز لیگی حکومت نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے تھے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ گورنر موصوف غریب عوام کو انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
وحدت نیوز (گلگت) محرم الحرام میں قیام امن کیلئے محنت کرنے پرچیف سیکرٹری اور آئی جی پی گلگت بلتستان اور ضلعی ایڈمنسٹریشن سمیت سیکورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔تمام چھوٹے بڑے پروگراموں میں ڈی سی اور ایس ایس پی گلگت کی شرکت اور فوری احکامات قابل تعریف ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہاہے کہ فول پروف سیکورٹی اور صفائی کو بہتر کرنے پر ایڈمنسٹریشن کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔اگر حکومتی ذمہ داران کاعوام کے ساتھ روابط مضبوط ہوں تو مسائل جنم لینے کی بجائے ختم ہوجاتے ہیں،امسال ماہ محرم الحرام میں ایڈمنسٹریشن اور فورسز کا تعاون مثالی رہا ہے جبکہ دوسری جانب حکومتی عہدیدار ،وزراء،مشیروں کی فوج ظفرموج کہیں نظر نہیں آئی جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم محرم الحرام کو گلگت بلتستان حکومت نے فرقہ وارانہ بنیاد پر جی بی کو تقسیم کرکے تین اضلاع میں چھٹی کا اعلان کرتے ہوئے سوائے منافرت پھیلانے کے کوئی اور کام نہیں کیا جو کہ قابل مذمت ہے اور اس اقدام کی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ہر ذی شعور شخص نے مذمت کی ہے اور آنے والے وقتوں میں ایسے اقدامات علاقے کیلئے نیک شگون نہیں ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ 8 محرم الحرام کو نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرکے جہاں علاقے کے امن وامان کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی وہاں محرم الحرام کے تقدس کو پائمال کرکے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے اور خاص کر پارلیمانی سیکرٹری برکت جمیل کا غیر ذمہ دارانہ فعل قابل مذمت ہے۔انہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے تقدس کے پائمالی کے پیش نظر فائرنگ کرنے والے عناصر کیخلاف قانونی کاروائی کی جائے خاص کر ممبر اسمبلی برکت جمیل کو نااہل قرار دیا جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) سیاسی و مذہبی رہنما اپنے نظریات کی بنا پر مخصوص طبقات کو اپنا گرویدہ کرتے آئے ہیں۔دنیا کے قدیم مذاہب اور ان کے پیشوا ؤں کی تعلیمات کے اثرات میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ عرب کی سرزمین پر جب کفر و شرک اور جہالت عروج پر تھی۔اللہ تعالی نے ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھیجا۔نبی کریم ﷺ نے بعثت کے بعد تیئس سالہ زندگی میں کفار کی جانب سے دی جانے والے تکالیف اور مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی عزت و تکریم اور مرتبہ سے بھی امت کو آگاہ کیا۔تمام مسلک کی مستند کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے کہ ’’حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں‘‘ اسی طرح نماز کے دوران نبی کریم ﷺ کے کاندھوں پر امام عالی مقام کا سوار ہونا اور حسنین کریمن علیہم السلام سے ہر موقع پر بے پناہ محبت کا اظہار کرناسبط پیغمبر ﷺکے مقام کو واضح کرتا ہے۔رسول ﷺ کی رحلت کے بعد اہل بیت علیہم السلام کو کہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔
سانحہ کربلا ان کٹھن امتحانات میں سے ایک تھا۔جب نواسہ رسولﷺ اور ان کے جانثاروں پر باطل کی بیعت نہ کرنے پر پانی بند کردیا گیا۔میدان کربلا میں امام ؑ نے جب حل من ناصر ینصرنا کی صدا بلند کی تب امام ؑ کوتلواروں کی نہیں بلکہ مقصد کی مدد مانگ رہے تھے امامؑ کی نصرت ان کے مقصد کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے۔ حسینیت ظالم کے خلاف ڈٹنے کا نام ہے۔امام حسینؑ کے گرویدہ محض اہل اسلام ہی نہیں بلکہ ہراہل ضمیر ہے۔امام عالی مقامؑ کے محبان دنیا کے ہر کونے اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ غیر مسلم رہنماؤں نے بھی امام حسینؑ کے حوالے سے اپنے نظریات بیان کیے ہیں۔
نیلسن مندیلا کہتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی زندگی کے بیس سال قید میں گزارے ،پھر ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ حکومت کی تمام شرائط کو تسلیم کرلوں لیکن اچانک میرے خیال میں امام حسینؑ اور تحریک کربلا آئی جس نے مجھے آزادی اور آزاد ی کے لیے ڈٹ جانے کی طاقت مہیا دی‘‘مہاتماگاندھی اپنی قوم کو کامیابی کا راستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر انڈیا کامیاب ملک بننا چاہتا ہے تو ،اسے امام حسینؑ کی پیروی کرتے ہوئے آپؑ کے نقش قدم پہ چلنا ہوگااور اگر میرے پاس امام حسینؑ کے بہادر سپا ئیوں کی طرح کے بہترسپاہی ہوتے تو میں چوبیس گھنٹوں میں انڈیا کے لیے آزادی کی جنگ جیت جاتا‘‘ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ’’میں نے امامؑ سے سیکھا کہ ایک مظلوم کس طرح فتح یاب ہوتا ہے‘‘۔
امام حسینؑ کی قربانی کا ذکرکرتے ہوئے مہاتما گاندھی کہتے ہیں’’یہ میرا یقین ہے کہ اسلام کی ترقی کا انحصار اس پر ایمان رکھنے والوں کی شمشیر کے استعمال پر نہیں بلکہ یہ حسینؑ کی بہترین قربان کا نتیجہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر راجندرا پراساد (انڈیا کے پہلے صدر) کہتے ہیں کہ’’امام حسینؑ کی قربانی محض ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کے لیے اخوان المسلمین کی وراثت ہیں‘‘ ہندو مذہب کے روحانی پیشوا سوامی شنکراچاریا کا کہنا ہے کہ’’ یہ امام حسینؑ کی قربانی تھی جس نے اب تک ،سلام کو زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ دنیا میں کوئی شخص بھی اسلام کا نام لینے کے لیے باقی نہ رہتا‘‘
شام کے معروف مصنف اینٹائن بارہ نے اپنی تصنیف145145Imam Hussain (a.s) in the Indelogy of Christan146146 میں امام عالی مقام حضرت حسینؑ کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسی جرات و استقامت اور حق گوئی کی تاریخ مین مثال نہیں ملتی۔
برطانیہ کے ممتاز مصنف و نقاد ’’چارلیس ڈکنز‘‘کے الفاظ حسینؑ کی جنگ اگر دنیاوی خواہشات کے حصول کے لیے ہوتی تو آپؑ کے اہل خانہ قطعاََ آپؑ کے ہمراہ نہ جاتے ۔یہ ہم رکابی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام حسینؑ کی قربانی خالصتاَ اسلام کے لیے تھی۔اپنے والد کے متعلق کہتے ہیں کہ’’کسی شخص نے بھی میرے والد کو ماہ محرم میں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا اور دسویں محرم(روز عاشور) تک ان کی اداسی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا اور روز عاشورہ ان کے لیے دکھ اور گریہ کا دن ہوتا۔‘‘
یونانی مورخ اور مضمون نگار تھومس کارلائل نے کہا کہ’’ سانحہ کربلا سے جو بہترین سبق میں نے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ امام حسینؑ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے ، ان کے نزدیک حق اور باطل کے معرکے میں عددی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ کم تعداد کے باوجود حسینؑ کو فتح حاصل ہوئی۔‘‘
گورو نانک (سکھوں کے عظیم رہنما)نے امام حسینؑ کے متعلق کہا ہے کہ’’امام حسینؑ کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ،بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو ضمیر رکھتا ہوا‘‘۔دیگرمذاہب کے لوگوں نے امام حسینؑ کی قربانی کے ساتھ ساتھ ان کے مقصدکو سمجھتے ہوئے اپنی زندگیا ں باوقار انداز میں گزاریں ۔دنیا میں آج بھی حق و باطل نظریے کے لوگ موجود ہیں۔امام حسینؑ کی اور یزید کی جنگ محض دو شخصیات کی نہیں بلکہ دو افکار کی جنگ تھی ۔
آج مقصد حسینؑ کو بھلا کر کچھ لوگ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ محرم میں شادی کرنا ،خوشیاں منانایا وغیرہ جائز ہیں یا نہیں ۔امامؑ کا در س حیات کسی ایک مخصوص طبقے یا مکتبہ فکرکے لیے نہیں ہے بلکہ تمام اہل انسانیت کے لیے ہے۔امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’میں ہوس اور اقتدار طلبی کے لیے خروج نہیں کر رہا اور نہ ہی میں فساد اور ظلم کرنے کے لیے نکل رہا ہوں بلکہ میرا مقصد اپنے جد امجدکی اصلاح ہے۔میں امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ آپؑ ہمارے لیے تاحیات مشعل راہ ہیں۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)فرماتے ہیں’’جب میری امت ظالم کے سامنے بولنے سے عاجز ہوجائے،تواس کی موت پہنچ چکی ہوگی‘‘۔دراصل مقصد حسینؑ سیرت حسینؑ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ے اپنی امت کی اصلاح کے لیے جن دو ہم وزن چیزوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک قران اور دوسرے اہلبیت اطہار علیہم السلام ہیں۔
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ
چرغ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
ؑ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ، ہمارے ہیں حسینؑ
تحریر:کساء زہراکاظمی
وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل پر تول رہا ہے لیکن اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔ معاشی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا احترام نہ کرنے والے ممالک کو امداد نہیں ملے گی ،قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کو اپنا تابعدار ملک نہیں سمجھتا۔ انہوں نے تقریر میں یہ بھی کہا کہ چین سے تجارت میں عدم توازن برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے کھلے لفظوں میں اسرائیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کی عالمی عدالت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
یاد رکھیئے کہ امریکا کسی بھی عالمی عدالت کی حیثیت کا قائل نہیں ۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں صرف دو مرتبہ ایٹم بم داغا گیا ہے اور وہ بھی امریکہ نے ہی داغا ہے ، ایک مرتبہ ہیرو شیما پر اور دوسری دفعہ ناگا ساکی پر۔
ہولوکاسٹ پر واویلا مچانے والے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں لاکھوں انسانوں کے بھسم ہوجانے پر خاموش ہیں چونکہ ان کی رگِ اقتصاد امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۵۵ سے ۱۹۷۵ تک امریکہ نے ویتنام میں قتلِ عام کیا، اس قتلِ عام میں تیس لاکھ سے زیادہ سول لوگ مارےگئے اور ان سول لوگوں کومارنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جس کی کسی عدالت میں باز پرس نہیں ہوئی۔ امریکہ نے سالانہ پچاس ہزار بمب ویتنام میں گرائے لیکن کسی عالمی ادارے نے امریکہ کا راستہ نہیں روکا۔
امریکہ نے ستمبر ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۴ تک افغانستان پر جنگ مسلط کئے رکھی، اس جنگ میں لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔نہتے افغانیوں کے خلاف امریکہ نے جدید ترین ہتھیار استعمال کئے لیکن عالمی برادری نے امریکی جارحیت کو رکوانے کے لئےکوئی کردار ادا نہیں کیا۔وجہ پھر یہ تھی کہ دنیا کا اقتصاد ڈالر کے گرد گھوم رہا تھا۔
۲۰ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۰ تک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، ان سات سالوں میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں متاثر ہوئی اور عراق کی سڑکیں اور پل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے لیکن ایک مرتبہ پھر عالمی برادری امریکی ڈالر کی بھیک ملنے کی وجہ سے چپ سادھے رہی۔
امریکی مزاج کو سمجھنے کے لئے یہ چند تاریخی نمونے ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔امریکی مزاج کو سمجھئے، امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی قانون یا عدالت کا پابند نہیں۔
امریکہ نے پاکستان پر جو معاشی جنگ مسلط کر رکھی ہے ،اس کی وجہ سے سی پیک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بہاتا اور پاکستان کو عسکری دباو میں رکھنے کے لئے جہاں ایک طرف سے بھارت اور افغانستان سے دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں وہیں دوسری طرف سےافغانستان میں داعش کو بھی لاکر آباد کیا جا رہا ہے۔نیز اب معاشی طور پر پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کا اعلیٰ سطح کا وفد اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گا، عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی ، مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوگا نیز ملکی معیشت پر شدیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اب جبکہ پاکستان شدید معاشی جنگ سے گزر رہا ہے تو پاکستان کی تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اس معاشی جنگ کا جواب دے۔ ہر محاز پر اس محاز کے مجاہد ہی لڑا کرتے ہیں۔ معاشی محاز پر ہمارے ماہرین معاشیات، تاجروں، ٹریڈ یونینز ، تجارت سے مربوط انجمنوں اور تنظیموں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں امریکی جنگ اور جارحیت کا دندان شکن جواب دیں۔
ہمارے وزیرِ خزانہ، تاجروں اور عوام کو مشترکہ اور انفرادی طور پر امریکی مصنوعات اور ڈالر کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔ تاجر برادری کو یقین کرنا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور ہر غیرت مند پاکستانی اس میدان میں اپنی تاجر برادری کے ہم قدم ہے۔
اگر ہم تجارت کے میدان میں امریکہ کا بائیکاٹ کردیں تو بھارت ، افغانستان اور داعش سمیت تمام خطرات خود بخود ٹل جائیں گے چونکہ یہ سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔
تجارت کا محاز ایک اہم محاز ہے، ہمیں اسے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، ہماری میڈیا، خطبا، علمائے کرام ، کالم نگار وں اور دیگر دانشمند طبقات سے گزارش ہے کہ وہ تاجر برادری سے رابطے کریں اور اپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجر برادری کو امریکہ کے خلاف صف آرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم سب امریکہ کے مقابلے میں ایک ہو جائیں تو جہاں امریکی ڈالر کی کمر ٹوٹے گی وہیں اقتصاد اور خوشحالی کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔
ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل بھی پر تول رہا ہے لیکن اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.