وحدت نیوز(اسلام آباد) شرح خواندگی بڑھانے کےلئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے ۔لاکھو ں بچے اب بھی سکول جانے سے قاصر ہیں نئے تعلیمی سال کے آغاز اور نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیسوں نے والدین کو پریشان کر رکھا ہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تعلیم نثار علی فیضی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا، انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیم کے سوا کچھ نہیں ہے پاکستان کو بھی دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے تعلیمی میدان میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گئے ۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ اور تعلیمی نصاب کو جدید خطوط پر استورا کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔

انہوںنے مزیدکہاکہ ملک میں ایک طرف سرکاری سکولوں کا فقدان ہے اور دوسرے طرف نجی سکولوں کی من مانیان عروج پر ہیں آئے روز نجی سکولوں کے نصاب کے حوالے سے خبریں گردش کرتی ہیں نجی سکول کے نصاب میں کیا پڑھانا چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو نصاب کی جانچ پڑتال کرئے ۔ہم پاکستانی اور مسلم مملکت ہیں ہمار ا نصا ب بھی ہماری تاریخ و ثقافت کا آئنہ دار ہونا چاہئے آج تک کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان اور ثقافت کے سہارے ترقی حاصل نہیں کی ۔حکومت زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکول تک پہنچانے کے لئے اقدامات کرئے ۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے حقیقی پاسبان اور مظلومین جہاں کے ترجمان تھے۔ انکی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی فکر آفاقی تھی۔ ان کا دل دنیا بھر کے مظلومین کے لیے دھڑکتا تھا۔ مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین جس شخصیت نے سب سے زیادہ آواز بلند کی وہ شہید نقوی ہے۔ شہید نقوی کی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت دنیا امریکہ کے شر سے واقف نہیں تھے اس وقت ڈاکٹر محمد علی نقوی نے امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگاکر یہ ان کے چہرے سے نقاب الٹ کے رکھ دیا۔ آج عالم انسانیت کو اچھی طرح اندازہ ہو رہا ہے کہ انسانیت کے تمام مسائل کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔

 آغا علی رضوی نے کہا کہ ڈاکٹر شہید نے پاکستان کی سرزمین میں اسلام ناب کے تعارف کے ساتھ جس انداز میں والایت فقیہ کی پرچار کی وہ تاریخ کا زندہ و تابندہ باب ہے۔ راہ ولایت میں جتنی خدمات شہید محمد نقوی نے انجام دی ہیں کوئی دوسرا اسکی ہمسری کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کو قتل کرکے دشمن نے اسلام ناب اور پاکستان کی نظریاتی محافظوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی کوشش کی، جو کہ انکی بھول تھی۔ ڈاکٹر شہید نے جس نظریے کو اپنے خون سے آبیاری کی ہے اس کی ترویج و اشاعت کے لیے ملک کے گوش و کنار میں لاکھوں سربازان موجود ہیں۔

وحدت نیوز(شکارپور) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری جنرل اور شہداء کمیٹی کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی نے وارثان شہداء شکارپور کے ہمراہ شکارپور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شکارپور پولیس کی جانب سے دھشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک سے متعلق ہمارا موقف درست ثابت ہوا۔ ایس ایس پی اور اے ایس پی سمیت متعلقہ اہلکار قابل تعریف ہیں سیکورٹی مزید سخت کی جائے۔ سیکورٹی سے ہم مطمئن نہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ شریف شہریوں کے نام کس قانون کے تحت شیڈول 4 میں ڈالے گئے۔کیا ایک جمہوری ملک میں  پرامن احتجاج جرم ہے۔کیا دھشت گردی کے خاتمے کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد جرم ہے اور کیا مظلوموں کے لئے انصاف طلب کرنا جرم ہے؟

انہوں نےکہا کہ وارثان شہداء اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے ہمارا سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ 21 نکاتی معاہدےپر عمل کرے۔انہوں نےکہا کہ ہم وطن کے با وفا بیٹے ہیں ارض پاک کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ہماری کمشنر سے ملاقات ہوئی ہے جس نے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔پریس کانفرنس میں اصغر علی سیٹھار قمرالدین شیخ سکندر علی دل ریاض حسین منصور صدیقی و دیگر شریک ہوئے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حالیہ دنوں ابو ظہبی میں او آئی سی کی وزرائے کارجہ کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے لئے ان کو خصوصی دعوت ابو ظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر ممبر ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچی جس کے جواب میں پاکستان فضائیہ نے بھی ایک کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا جسے دو روز بعد امن مقاصد کے خاطر واپس بھارت کو دے دیا گیا۔ان تمام باتوں سے ایک طرف کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ایسے ایام میں کہ ایک طرف پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اور اس حد تک کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناًپہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں،۔

دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے ؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جد وجہد کو صرف نظر کرے؟ بہر حال اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کر لی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کیجا رہی ہے ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں ۔سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے کافی اہمیت دی گئی،سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہئیے کسی کو حق نہیں کوئی کسی پر زور زبردستی کرے، لیکن سشما جی یہاں پر یہ بتانا بھول گئی تھیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیر اعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بھی ہیں تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آ کر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کو خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ شیخ عبد اللہ بن زید کو سشما سوراج کو اس کانفرنس میں خطاب کی دعوت دینے کے لئے زبردست شکریہ کے کلمات ادا کئے اور ان کو اپنا بہتری دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں ۔

انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت وشرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نقاط پر بھی زور دار گفتگو کی۔بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے تاہم یہاں پر ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کشمیر میں کوئی مظلوم بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیں ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لا پتہ کر رکھا ہے؟ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے ؟کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں ان کو معافی دے دی جائے گی ؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تونہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کر لی جائے ؟بہر حال سشما جی کو سوچنا چاہئیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تا کہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔انہوں نے خلیج ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو، سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں موجود ایسے عرب حکمران موجود تھے کہ جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن شاید یہ حکمران اس لئے بھی برداشت کر گئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔

سشما سورا ج نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اظہار خیا ل کیا اور کہا کہ اس وقت خطر ناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے ۔یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ساتھ دیں ۔انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں،سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے،سنسکریت مذہبی کتاب ،سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں ، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے کیان ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں ہے۔جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت انہی رکن ممالک کی ہے ، اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کے لئے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے ۔جہاں قطر ، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کرے۔

 

 

 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی جانب سے6 مارچ2019  بدھ رات  شب شھادت ڈاکٹر شھید محمد علی نقوی ،مجلس وحدت کے دفتر میں ایک پروگرام بعنوان،"ایک شام شھید کے نام " رکھا گیا۔ جسمیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کی کابینہ، مجلس مشاورت  ,نمائندگان طلاب, نمائندگان جوامع روحانیت,نمائندگان جامعہ بعثت , جامعہ ولایۃ  و امام رضا,ڈاکٹر صاحب کے رفقاء کار اور سینئر علماء و فضلاء نے خصوصی شرکت کی۔اس صمیمانہ نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا اور طالب علم ، ملک اعجاز اعوان نے منقبت اور آقا سید اقتدار نقوی نے ترانہ شہادت پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔اس کے بعد مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کے سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام آقای عادل مھدوی صاحب نے ابتدائی گفتگو کی اور حاضرین کو اس نشست کے رکھنے کے ھدف اور اھمیت کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد، شھید عدیل کے بڑے بھائی حجۃالاسلام سید میثم ہمدانی صاحب کو گفتگو کیلئے دعوت دی گئی،جنہوں نے کہا کہ بہت چھوٹی عمر میں ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔اور جب ڈاکٹر صاحب کو شھید کیا تو ہم لاہور ہی تھے اور آپ کے جنازے میں بھی شرکت کی ۔ڈاکٹر شھید کے کردار کے  بارے میں ان کا کہنا تھا کہ درست ہے کہ ڈاکٹر  شھید آئی ایس او اور اکثر تنظیموں کے بانی شمار ہوتے ہیں مگر وہ کبھی بھی تنظیم کو بت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے موقف سے کسی بھی صورت میں پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔

ان کے بعد ،قائد شھید اور ڈاکٹر شھید کے دور میں،کوئٹہ کی تنظیمی اور فعال شخصیت جناب فدا آقا نے شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شھید ایک انتھک اور بے لوث شخصیت تھے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔شھید کا گھر تنظیمی فعالیت کا مرکز تھا،کسی وقت بھی رات اور دن ہو ،شھید ہمیشہ دوستوں کی مھمان نوازی بڑھ چڑھ کر کرتے اور اس میں ان کی زوجہ کا ساتھ بھی رہتا۔اس کے علاؤہ آقا فدا حسین نے ڈاکٹر شھید کی تنخواہ کن کاموں پر خرچ ہوتی تھی اس بارے تفصیل بتائی اور ڈاکٹر شھید کے فلمسٹار دلیپ کمار کا استقبال نہ کرنے پر نوکری سے استعفیٰ دینے کی وجہ بھی بیان کی۔

پروگرام کے آخری مھمان، شھید کے رفیق اور دوست ملک ابرار حسین نے بھی ڈاکٹر شھید کے ساتھ گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ،شھید کی زندگی کو سب کیلئے نمونہ عمل کہا۔ان کا کہنا تھا کہ شھید کے ساتھ تقریبا دو سال گزارے اور کبھی بھی ان کی نماز شب قضا ہوتے نہیں دیکھی ۔ان کی مناجات،تعقیبات اور گریہ عجیب تھا ،شاید کوئی یہاں کا طالب علم بھی ایسے گریہ و زاری نہ کرتا ہو ۔۔ان کے مطابق شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی اس حدیث کہ" ان للقتل الحسین حرارۃ لا تبرد ابدا" کو بیان کرتے اور کہتے کہ امام حسین علیہ السلام  کا قتل اور خون مومنین کے دلوں میں ایک چنگاری پیدا کرتا ہے۔ایک شعلہ پیدا کرتا ہے جو کبھی بھجنے والا نہیں۔شھید کی محفل میں ایک بار جو جوان چلا جاتا پھر انہی کا ہو جاتا،شھید جوانوں میں ایک ولولہ پیدا کرتے تھے۔اور شھید اس قدر خالص تھے کہ ہر محفل کو مو لیتے تھے۔شھید میں جمود نہیں تھا اور ہر وقت حرکت میں رہتے ۔اور یہی فعالیت سبب بنی کہ آپ خود موت کی طرف چل کر گئے۔اور شھادت کو گلے لگایا۔اس صمیمانہ نشست کا اختتام دعائے امام زمانہ سے کیا گیا اور آخر میں مھمانان گرامی نےطعام تناول فرمایا۔

وحدت نیوز(لاہور) سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒ کی دختر ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی محترمہ زہرانقوی نے اپنے والد گرامی کے 24ویں یوم شہادت پر تعزیتی پیغام میں کہاہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں اس شھید کی بیٹی ہوں جو راہ کربلا کا مسافر تھا ، میرے بابا ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت نے فقط مجھے یتیم نہیں کیا بلکہ پوری ملت تشیع خود کو بے سہارا اور یتیم محسوس کرنے لگی ،شھید عارف حسین الحسینی کی المناک شہادت کے غم ابھی تازہ تھے کہ ایسے میں دشمن کی ایک اور کاری ضرب نے ملت تشیع کو زخمی کردیا ،شھید نے جوانوں کی نظریاتی و فکری تربیت کی ، انھیں انسانیت کا نصاب پڑھایا ، انھیں مقصد حیات بتایا،انھوں نے سکھایا کہ طاغوتی طاقتوں کے مقابل سر اٹھا کر کیسے جیا جاتا ہے،باطل طاقتوں کے آگے کیسے کلمہ حق بلند کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ شہید ڈاکٹرؒ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے،شھید نقوی وہ عظیم ہستی تھی کہ جن کے لگائے ہوئے پودے آج ثمر آور درخت بن چکے ہیں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسا شجرہ طیبہ اور تنظیمی نوجوانوں کی تربیت ، ملک پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہ کی ترویج ، خط امام خمینی کا تعارف اور عالمی استکباری قوتوں کی سازشوں سے ملت کو روشناس کروایا، شھید نے عظیم جدوجہد ، انتھک محنت اور اپنے پر خلوص عمل کی بدولت منزل شہادت کو پا لیا۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم خط شھید پر کس قدر عمل پیرا ہیں اور اپنے وظیفے کو کس حد تک انجام دے دہے ہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree