وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، کسی کو دشمنوں کے جنگی طیارے گرا کر عزت ملتی ہے اور کسی کو اپنوں پر ٹینک چڑھا کر تمغے ملتے ہیں۔ ہر تمغہ عزت کا باعث نہیں بنتا، کبھی کبھی ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ آیئے! آج دو بھولی بسری کہانیاں سنیں۔ ایک عزت کی کہانی ہے، دوسری ذلت کی کہانی ہے۔ پہلی کہانی فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم کی ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے اس بہادر شاہین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور بہادری سے نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ 1965ء میں وہ پی اے ایف بیس سرگودھا میں تعینات تھے۔ بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھارتی ایئر فورس کا جنگی طیارہ مار گرانے پر انہیں ستارۂ جرأت ملا۔ اگلے ہی سال انہیں اردن بھیج دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن پر حملہ کیا تو سیف الاعظم نے دو اسرائیلی جہاز تباہ کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں عراق بھیج دیا گیا اور وہاں بھی انہوں نے دو اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اردن کے حکمران شاہ حسین نے سیف الاعظم کو فوجی اعزازات تو دیئے، لیکن وہ سیف الاعظم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر عمان کی سڑکوں پر گھومنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
سیف الاعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وہ بنگلہ دیش ایئر فورس کا حصہ بن گئے اور 1979ء میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسری کہانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی ہے۔ وہ 1970ء میں پاکستان کی طرف سے اردن بھیجے گئے۔ ستمبر 1970ء میں شاہ حسین نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اردن سے نکالنے کیلئے ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں ٹینک بھی استعمال ہوئے۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی۔ اس آپریشن کے دوران پی ایل او اور اردن کی فوج میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مہاجرین بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کی کامیابی پر شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو بھی ایک تمغہ دیا، لیکن یہ تمغہ ضیاء الحق کیلئے کبھی عزت کا باعث نہ بن سکا۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کے آپریشن پر احمد ندیم قاسمی نے ’’اردن‘‘ کے نام سے اپنی نظم کو ان الفاظ پر ختم کیا؎
جو ہاتھ ہم پہ اٹھے
ہمارے ہی ہاتھ تھے
مگر ان میں کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس سے پوچھیں؟
چلو، چلیں آئینوں سے پوچھیں
آئینوں سے کیا پوچھتے؟
یہی بریگیڈیئر ضیاء الحق 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے کہا کہ افسوس اردن میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھانے والا پاکستان کا حکمران بن گیا۔ ضیاء الحق نے فلسطینیوں کیساتھ جو کیا، اسے پاکستانی قوم بھول چکی ہے، لیکن فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پی اے ایف کے ایک اور بہادر شاہین عبدالستار علوی نے شامی ایئر فورس کے مگ 21 کے ذریعے اسرائیلی طیارہ مار گرایا اور پاکستان کیلئے عزت کمائی۔ مجھے لبنان اسرائیل جنگ کے دوران لبنان اور شام میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں مجھے مصر کے راستے غزہ جانے کا اتفاق بھی ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں سے ننھے فلسطینی سنگ بازوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے فائر سے خون میں نہاتے دیکھا۔ بیروت سے غزہ تک اور دمشق سے قاہرہ تک، میں جہاں بھی گیا عربوں کو پاکستان کے پائلٹ یاد تھے۔ وہ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی تحسین کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ جنرل ضیاء الحق کی مذمت کرنا نہیں بھولتے تھے۔
یہ مت دیکھئے کہ عرب ممالک کے حکمران پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ عرب ممالک کے عوام پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کیخلاف اتحاد ختم ہو جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کیساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ کیا اس مشورے کے پیچھے پاکستان کا مفاد ہے یا کسی اور کا مفاد ہے؟ 2018ء میں امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کی نئی کتاب Fear یعنی ’’خوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق، شام، لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی داہام الانازی نے عربی اخبار ’’الخلیج‘‘ میں ’’ریاض میں اسرائیلی سفارتخانہ کیلئے ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہیئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے، کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عرب میڈیا میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں یا نہیں؟ سعودی حکومت اس معاملے پر فی الحال خاموش ہے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ مسلم ممالک کی بڑی اکثریت نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کئے۔
ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، الجزائر، صومالیہ، سوڈان، شام، ایران، یمن، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، تیونس اور دیگر ممالک شامل ہیں، لہٰذا پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کر لو، تاکہ باقی مسلم ممالک کو بھی یہ مشکل کام کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے اسرائیل اور بھارت کا پاکستان دشمن اتحاد ختم ہو جائیگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے ایک نئے اتحاد میں شامل کرنے کی تیاری ہے۔ کیا پاکستان کا یہ اقدام ہمارے آئین کی دفعہ 40 کی خلاف ورزی نہیں ہوگا، جو پاکستانی ریاست کو اسلامی اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کا پابند بناتی ہے؟ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے یا کرائے کا گوریلا بننا ہے۔؟
کوئی مانے یا نہ مانے، آج پاکستان کو اسرائیل کی نہیں، اسرائیل کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے یورپ میں حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 28 یورپی ممالک میں سے 9 یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسپین، فرانس اور آئرلینڈ بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کو نہیں مانتی۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے، کیونکہ دنیا پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر حریمی کاربن کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل جیوش اینٹی زیاونسٹ نیٹ ورک (آئی جے اے این) کے نام سے یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے اور اسرائیلی ریاست کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔
اس تنظیم کی بانی برطانوی مصنفہ سیلما جیمز خود یہودی ہیں۔ آج اسرائیل کیلئے سیلما جیمز اور نوم چومسکی جیسے دانشور دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز کی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھائیں، اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فائدہ کسے ہوگا؟ پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ مسئلۂ فلسطین کا حل مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہیں کھولے گا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے دبائو یا چند ارب ڈالر کے عوض مشرقِ وسطیٰ میں وہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے، جو 1970ء میں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے اردن میں کی تھی۔
تحریر: حامد میر
"بشکریہ روزنامہ جنگ"
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کا سال برائے 19-2018 کا آخری شوریٰ اجلاس ضلعی سیکریٹریٹ جعفر طیار سوسائٹی ملیر میں ضلعی سیکریٹری جنرل سید عارف رضا زیدی کی زیر صدارت منعقد ہوا اجلاس میں خصوصی شرکت ایم ڈبلیوایم کی مرکزی تنظیم سازی کونسل کے اراکین آصف رضا ایڈوکیٹ, علامہ علی انور جعفری, کراچی ڈویژن کے اراکین علامہ نشان حیدر ساجدی, زیشان حیدر, احسن عباس رضوی نے کی, اجلاس میں سال گذشتہ کی تنظیمی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور ایم ڈبلیوایم کھوکھراپار آرگنائزنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا, جبکہ مرکزی رہنما علامہ علی انور جعفری اور آصف رضا ایڈوکیٹ نے تنظیمی فعالیت اور ہماری زمہ داری کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے ضلع ملیر کو اسلام آباد میں منعقدہ سالانہ مرکزی جانثاران امام عصر عج کنونشن میں شرکت کی دعوت دی. اجلاس میں ضلعی کابینہ سمیت تمام یونٹس کے سیکریٹری جنرل اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے شرکت کی۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک کو اس وقت اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے، دشمن اس وقت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوشش کر رہا ہے، ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے، جنہوں نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ امت مسلمہ کے خلاف ہے، جس کی زندہ مثال کشمیر، فلسطین سمیت دیگر مسلم ممالک اور وطن عزیز پاکستان میں بھارتی جارحیت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے اور اسوہ شبیری کا کردار ادا کرے، پوری پاکستانی قوم ملک کے دفاع کے لئے حکومت اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، بھارت نے اگر کوئی مذموم حرکت کی تو وطن کے دفاع کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن بی زیڈ یو کے صدر محمد حر غوری کے والد استاد نذر حسین غوری مرحوم کی قل خوانی کے ایک بڑے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کیا، جس میں مولانا مختیار حسین نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرائی، قل خوانی میں مخدوم سید محمد علی شاہ، کیپٹن (ر) ناصر مہے، علی شیر بوسن، ملک نور حسین ڈیہڑ، مخدوم سید حامد رضا شاہ، مخدوم سید شیر شاہ، ملک ریاض حسین گھاگھرہ، مخدوم مبارک شاہ، نذیر احمد ہمڑ، ملک شبیر چوہان، ملک لیاقت میتلا، خالد بچہ، غلام حسین بچہ، اے ڈی بلوچ، سید محی الدین شاہ و دیگر نے شرکت کی، علامہ اقتدار حسین نقوی نے مزید کہا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔
وحدت نیوز(فیصل آباد) سفیر انقلاب ، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی24 ویں برسی کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی جانب سے فیصل آباد میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکاء سے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود محترمہ فرحانہ گلزیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شھید نے مجاہدانہ زندگی بسر کی ، آپ ایک مخلص اور درد دین رکھنے والے انسان تھے جن کی زندگی کا مقصد قوم کے نوجوانوں میں بیداری اور تحرک پیدا کرنا ، انھیں اپنے حقوق اور اجتماعی فرائض سے آگاہ کرنا ، طاغوتی قوتوں کے مد مقابل آنا اور انھیں شکست دینا ، اور اپنے مکتب کی بے لوث خدمت کرنا تھا آپ حقیقی پیرو امام خمینیؒ تھے اور خط ولایت فقیہ پر گامزن تھے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان کی بقا اور ترقی ڈیموں کی فوری تعمیرمیں مضمر ہے ۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کی دھمکی ناقابل برداشت ہے ۔ سندھ طاس معاہدے کے ضامن اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک بھارتی دھمکی کا نوٹس لیں، الیکشن میں اپنی عوام کومتاثر کرنے کے لئے انتہا پسند بی جے پی علاقائی امن و سلامتی کو داو پر لگانے پرتل چکی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنے کی بات کررہاہے۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعدہندوستان سندھ طاس معاہدے کے برخلاف اقدامات کر سکتا ہے جوکہ ایک نئی کشیدگی کو جنم دے گا۔ہندوستان اسرائیل اور امریکہ سمیت افغانستان کی بھارت نواز حکومت خطے کے امن کو تبا ہ کرنے کے درپے ہیں ۔ ہندوستان ایک طرف افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے پانیوں پر ڈیم بنا رہا ہے اور دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کو ثبوتاژ کر رہا ہے ۔ہمارے ناعاقبت اندیشی حکمرانوں نے گزشتہ سیاسی ادوار میں نہایت غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ اب ہم بھگت رہے ہیں ۔ڈیم بناو مہم کی رفتار کو بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے ۔عوام بڑھ چڑھ کر اس مہم میں حصہ لے تا کہ اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحال پاکستان کا تحفہ دیں سکیں ۔
وحدت نیوز(تہران) شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی روحانیت کو اجتماعی میدان میں منعکس کیا اور ان کے تقوی و روحانیت کے ساتھ ان کی ولایت محوری انہیں دنیا کی ممتاز شخصیات کی صف میں کھڑا کردیتی ہے. ان خیالات کا اظہار نہاد مقام معظم رہبری کے ثقافتی و سیاسی ڈائریکٹر حجت الاسلام صالحی نے مجلس وحدت مسلمین شعبہ امور خارجہ کی مشارکت سے ایران کے دارالحکومت تہران میں اردو زبان طلباء یونین کے زیر اہتمام منعقدہ برسی کے پروگرام میں کیا.حجت الاسلام والمسلمین صالحی نے کہا کہ ہر نوع میدان میں حضور اور ڈاکٹر شہید کی خود سازی باعث بنی کہ ملت تشیع پاکستان منظم ہوکر ایک کامیاب سفر کا آغاز کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نقوی شہید رح کی جدوجہد انقلاب اسلامی کی آئیڈیالوجی کا خلاصہ ہے.انقلاب اسلامی کے چالیس سال مکمل ہونے کی مناسبت سے انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے زیرو سے کام شروع کیا تھا اور چالیس سال کے مختصر عرصے میں عالم استکبار کے تمام شوم منصوبوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے بلکہ فلسطین سے یمن تک عالم اسلام کی تمام مزاحمتی تحریکیں انقلاب اسلامی کی آئیڈیالوجی سے ماخوذ ہیں جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کا مظہر ہے. انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی کی قطار سے کئی اترے تو کئی نئے مسافر سوار بھی ہوئے ہیں۔
ان کے بقول ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسے شہداء اور اللہ کے صالح و صابر مجاہدوں نے اپنے خون سے اسلامی انقلاب کو سرحدوں سے باہر اور اندر محفوظ بنا دیا ہے.تہران میں منعقدہ برسی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی رح کی سالانہ تقریب کے آغاز پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری امور خارجہ سید ابن حسن نے اپنی افتتاحی گفتگو میں ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی رح کی جدوجہد کی چند بنیادی خصوصیات پر روشنی ڈالی. تہران میں منعقدہ برسی ڈاکٹر شہید کی تقریب سے ڈاکٹر شہید کے رفیق سید راشد عباس نقوی نے بھی گفتگو کی اور شہید کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی. اس تقریب میں تہران کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم اردو زبان طلباء اور تہران میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے افراد نے شرکت کی۔