The Latest
ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی شہادت جانشین مصطفی علی مرتضیٰ ع کی مناسبت سے عزاداری کے جلوس برآمد ہوئے
اسلام آباد میں عزاداری کا مرکزی جلوس سیکٹر جی سکس میں واقعہ امام بارگاہ باب الحوائج سے برآمد ہوا جو اپنی روائتی راستوں سے ہوتا ہوا مرکزی جامع مسجد و امام بارگاہ اثناعشری میں اختتام پذیر ہوا جہاں عزاداروں کی افطاری کا اہتمام کیا گیا تھا
امام بارگاہ باب الحوائج میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان معروف عالم دین وخطیب علامہ سید حسن ظفر نقوی نے خطاب کیا
علامہ حسن ظفر نقوی نے اپنے خطاب میں سیرت مولائے کائنات پر گفتگو کی اور فضائل و مناقب پڑھے
جبکہ آج رات راوالپنڈی میں جلوس علم اور تعزیے برآمد ہونگے جو صبح فجر تک جاری رہینگے جلوس میں عزاداروں کی سحری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے
شہادت مولائے کائنات علی ع کی مناسبت سے اٹک میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولائے کائینات کی پوری زندگی عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے وقف تھی آپ کی شہادت کا سب سے اہم سبب آپ کی انصاف پسندی اور عدالت تھی
دشمنان دین نے جب عدالت علوی کو اپنے مفادات کے راستے میں روکاوٹ کے طور پر دیکھا تو آپ کو شہید کردیا گیا
انہوں نے عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج حکمرانوں کو مولائے کائنات کی سیرت پر چلنا چاہیے اور علی ع کے دیے ہوئے کامل نظام حکومت کو اپنانا چاہیے ہمیں فخر ہے کہ ہم آل محمد ص جیسی عظیم نعمت الہیہ سے فیض یاب ہیں
علی ع کے ماننے والوں کو قومیات سے لیکر بڑے بڑے مسائل کے حل کے لئے در علی ع کے حضور دوزانوہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
اسلامی معاشرے کے خدوخال اور قیام کے عملی تقاضے کے عنوان سے جامعہ الکوثر اسلام آباد میں ایک سمینار منعقد ہورہی ہے جس سے بزرگ عالم دین و محقق سربراہ شوری عالی مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ شیخ حسن صلاح الدین خطاب کرینگے
اپنے خطاب میں علامہ صلاح الدین اپنے خطاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں معاشرے کی تعریف اور اسلامی معاشرے کے خدوخال پر سیر حاصل گفتگو کرینگے
اس سمینار کا اہتمام امامیہ آرگنائزیشن پاکستان راوالپنڈی ریجن کی جانب سے کیا گیا ہے
عراق کے شہر نجف اشرف اور کوفہ میں جانشین مصطفی علی مرتضیٰ کی شہادت کی مناسبت سے عراق سمیت مختلف ممالک کے عزادار سوگ منارہے ہیں جبکہ سینکڑوں ٹی وی چینلز اس عظیم عزاداری اور پرسہ داری کو براہ راست نشر کر رہے ہیں
عزاداری کا سلسلہ پندرہ رمضان سے ہی شروع ہوا تھا اور روزانہ کی شکل میں عزاداری کے جلوس عراق کے مختلف شہروں سے برآمد ہوکر روضہ مبارک مولائی کائینات علی ع کی جانب بڑھتے رہے
کوفہ شہر کی ہر گلی اور ہر سڑک شب وروز عزاداری کے جلوس اور علی علی کے نعروں سے گونج رہی ہے
عراقی حکومت نے عزاداری کے جلوسوں کے لئے خصوصی انتظامات کیے ہیں سیکوریٹی انتہائی سخت کی گئی ہے جبکہ جگہ جگہ میڈیکل اور ریسکیو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ افطار اور سحری کے بھی خاص انتظامات کئے گئے ہیں
خانوادہء رسالت (ع) اور اسکے پیروان کے خلاف دہشت گردی کا جو سلسلہ کم و بیش چودہ صدیوں قبل شروع ہوا تھا، وہ آج تک جاری ہے۔ آج بھی اپنی مذموم کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ ہم ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان ایام غم میں وارث ِ خون ِ معصوم (عج) اور محبان ِ مولا علی کے حضور تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں اور خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ پہلے سے لیکر آخری دہشت گرد تک سب کو اپنے دردناک عذاب سے دوچار فرمائے۔
آج سے ٹھیک 1393 سال قبل خدا کے گھر میں دہشت گردی کی وہ بنیاد رکھی گئی جسکا سب سے پہلا شکار سینہء زمین پر خدا کی سب سے برگزیدہ اور افصل ترین مخلوق تھی۔ عبدالرحمٰن ابن ملجم لعنۃ اللہ علیہ نے جانشین ِ رسول (ص)، امیرالمومنین، امام المتقین، یعسوب الدین، قائد غرالمحجلین، کرار، غیر فرار، صاحب الذوالفقار، مشکل کشا، شیرِ خدا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ افضل السلام کو زہر آلود تلوار سے اس وقت شہید کیا جب آپ نماز فجر کے سجدے میں اپنے معبود کے حضور پیش تھے۔ وقتِ ضربت آپ نے وہ آفاقی جملہ ارشاد فرمایا جسکی نظیر تاقیامت کوئی پیش کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کوئی سورما موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ “رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔”
اجل پہ کون گرا دہر میں علی (ع) کی طرح ۔ ۔ ۔ ۔
یہ علی (ع) کا ہی جگر تھا کہ زہر آلود تلوار کے وار کو اپنے سر ِ اقدس پر برداشت کیا اور واویلہ مچانے یا جوابی کارروائی کرنے کی بجائے ایک طرف تو “فزت ورب الکعبہ” کی صدا بلند کرکے اپنی فتح و کامرانی کا اعلان کیا اور دوسری جانب اپنے قاتل کی گرفتاری عمل میں آنے کے بعد اسکی جانب متوجہ ہو کر اسکی دلجوئی فرمائی۔ اسکے چہرے پر خوف اور دہشت کے آثار دیکھ کر اپنے لئے لایا جانیوالا شربت اسکو پلانے کی تلقین فرمائی۔
ضرب کھا کے بھی جو قاتل کو پلائے شربت
زیب دیتا ہے اسے ساقئ کوثر ہونا
مسجد میں موجود اصحاب، محبان اور دیگر نمازی حضرات نے جب اپنے غم کا اظہار کرنا چاہا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا،
“ھذا وعدنا اللہ و رسولہ” کہ یہ وہی کچھ ہے جس کا اللہ اور اسکے رسول (ص) نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا۔ شاید آپ کا اشارہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے دی گئی شہادت کی بشارت کی جانب تھا یا اُس حدیث کی طرف جس میں آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ امت علی سے غداری کرے گی۔
بعد ازاں آپ اپنے فرزند ذی وقار سید الاشراف امام حسن مجتبٰی علیہ الصلوۃ و افضل السلام کی جانب متوجہ ہوئے اور آپ سے نماز ِ فجر کی امامت کروانے کے لئے فرمایا اور ساتھ بیٹھ کر خود بھی اپنا واجب ادا فرمایا۔ نماز کے بعد آپکو شدید زخمی حالت میں گھر پہنچایا گیا۔ گھر کے باہر پہنچ کر آپ نے اپنے اصحاب کو اندر تشریف لیجانے سے منع فرمایا اور کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ آپکا نالہ و فغاں گھر کی مستورات کی سماعت کا حصہ بنے اور انکی آہ و فغاں آپکے کانوں سے ٹکرائے۔ اس دوران کافی خون بہہ چکا تھا اور زہر پورے جسم ِ مبارک میں حلول کر چکا تھا، جسکی وجہ سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی۔ کمال ِ پریشانی اور شدید تکلیف کے عالم میں بھی آپ اپنی شرعی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ رہے۔ آپ نے اپنے فرزند ِ اکبر امام حسن ِ مجتبٰی علیہ السلام کو بطور جانشین ِ امامت اور باقی اولاد کو انکے متعلقہ امور پر وصییتیں فرمائیں۔ ان وصیتوں سے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔
آپ نے فرمایا،
“اے میرے فرزندان حسن و حسین (ع)! میں آپ کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور دنیا کی طلب سے منع کرتا ہوں۔”
پھر فرمایا،
“اے بیٹا حسن! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ (ص) نے کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت پر آمادہ ہو جائے تو گوشہ نشینی اختیار کر لینا۔ آخرت کے واسطے گریہ و فغاں کرنا اور دنیا کو اپنا مقصود قرار نہ دینا اور نہ ہی اسکی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا۔ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوٰۃ کو بروقت اسکے مستحقین تک پہنچا دینا۔ مشتبہ امور پر چپ سادھ لینا اور غضب کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا۔ اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور اور مہمان کی عزت کرنا۔
مصیبت کے ستائے ہوئے لوگوں پر رحم کرنا۔ صلہءرحمی کرنا اور غرباء و مساکین کی دلجوئی کرنا۔ ان کے ساتھ نشست کرنا اور تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ یہ افضل عبادت ہے۔ اپنی آرزوؤں اور امیدوں کو کم کرنا اور موت کو یاد رکھنا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر اور ڈھکے چھپے دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا۔ بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا۔ البتہ کار ِ آخرت کی ابتداء میں عجلت اختیار کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور صرف ِ نظر کرنا۔ مقامات ِ تہمت اور ایسی محافل سے بھی دور رہنا جن کے متعلق برا گمان کیا جاتا ہو کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو نقصان ضرور پہنچاتا ہے۔”
پھر فرمایا،
“اے میرے فرزند! خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا۔ برادران ِ دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو نقصان نہ پہنچائیں، تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا، تاکہ تم ان جیسے نہ ہو جاؤ۔ گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلا سے مت الجھنا۔ گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت چننا جس کو ہمیشہ قائم رکھ سکو۔”
مزید ارشاد فرمایا،
“کوئی غذا اس وقت تک نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نہ دے دو۔ تم پر روزہ رکھنا لازم ہے کہ یہ بدن کی زکوٰۃ ہے اور آتش ِ جہنم کے لئے سپر۔ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اس سے ڈرتے رہنا (کہ یاد خدا سے غافل نہ کر دے)۔ دشمن سے پہلو تہی کرنا جبکہ ان محفلوں میں جانا تمہارے لیئے ضروری ہے جہاں ذکر ِخدا ہوتا ہو اور دعا زیادہ کیا کرنا۔”
مذکورہ بالا وصیت نامہ، بلکہ فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر بظاہر اپنی اولاد کو مخاطب فرما کر ہمارے آقا نے شاید ہم محبت کا دم بھرنے والوں کے لئے ارشاد فرمایا ہوگا کہ ہم اس ضابطہءحیات کے تحت اپنی اپنی زندگیاں گزاریں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بلاغت کے سمندر مین غوطہ زنی کریں اور حکمت و دانش کے وہ موتی چنیں جو ہمارے مولا نے ہمارے لئے تحفتا” چھوڑے ہیں۔
مولا علی علیہ السلام انیس رمضان کی شب اپنی چھوٹی بیٹی بی بی ام کلثوم سلام اللہ علیھا کے یہاں مہمان تھے۔ افطار پر آپ کے سامنے دودھ، نمک اور پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نمک یا پانی میں سے ایک چیز اٹھا کر باقی دو واپس کر دیں کہ آپ کے نزدیک دسترخوان پر ایک سے زیادہ غذا دیگر لوگوں کا حق پامال کرنے کے مترادف تھا۔ (اللہ اکبر)۔ یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ آپ نے اپنے آخری ایام کو اپنی اس بیٹی کے گھر گزارنا پسند فرمایا جو سب میں چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بیوہ اور اولاد کی نعمت سے محروم بھی تھی۔ کیا انداز ِ دلجوئی اور اظہار ِ شفقت ِ پدری تھا میرے مولا کا! کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اب وقت رخصت آن پہنچا ہے اور آج کی صبح گھر سے روانہ ہونا پھر کبھی نہ لوٹ آنے کے مترادف ہوگا۔ تمام رات آپ بیدار اور حالتِ عبادت میں رہے اور بارہا حجرے سے باہر تشریف لا کر آسمان کی جانب دیکھ کر فرماتے تھے،
“خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ بتلایا گيا ہے۔ یہی وہ شب ہے کہ جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے۔”
رات تمام ہوئی اور آپ گھر سے مسجد کی جانب روانہ ہوئے تو صحن میں موجود بطخوں نے بھی آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کی، مگر آپ وقار امامت کے ساتھ سورۃ انبیاء کی آیات 26 و 27
“عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَہ بِالْقَوْلِ وَھم بامْرِہ يَعْمَلُونَ (اللہ کے مکرم بندے بات میں اس سے آگے نہیں بڑھتے اور اسی کے امر سے افعال بجا لاتے ہیں۔) کا مصداق بنے اپنے سامنے مصائب کا پہاڑ پا کر بھی مسجد کی جانب پیش قدم ہوتے رہے۔ جب وارد ِ مسجد ہوئے تو کچھ افراد کو سویا ہوا پایا۔ انہیں میں ابن ملجم ملعون بھی پیٹ کے بل تلوار سونتے ہوئے سو رہا تھا۔ آپ نے اپنے قاتل کو بھی بیدار فرمایا اور حکم نماز دیا۔
علی سے زندگی، قاتل علی کا کیا چھینے
کہ جام شیریں جسے دست حیدری سے ملے
علی نے نیند سے بیدار کر دیا ہو جسے
علی سے زندگی وہ چھینتا بھلا کیسے؟؟؟؟؟؟
انیس رمضان سن چالیس ہجری کا دن تاریخ بشریت کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب خانہء خدا میں خدا کی برگزیدہ ترین ہستی کو شہید کرنے کی قبیح واردات کا ارتکاب کچھ اس طرح کیا گیا کہ بوقت سحر جامع مسجد کوفہ میں یہ بدبخت و شقی ترین انسان امیرالمومنین علی (ع) کی تشریف آوری کا منتظر تھا۔ دوسری طرف کوفہ کی ایک بدکردار عورت قطامہ نے وردان بن مجالد نامی شخص کو شادی کا لالچ دے کر اپنے دام میں گرفتار کیا اور دہشت گردی کے اس مکروہ منصوبے میں اپنے قبیلے کے دو مزید آدمی اسکے ساتھ روانہ کیے۔
اس شیطانی واردات کا سرغنہ اپنے دور کا چاپلوس اور منافق ترین شخص تھا، جس نے ان تمام افراد کی نہ صرف تربیت کی، بلکہ اس جرم کو کر گزرنے میں ہر لمحہ ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی کی۔ جب آپ اپنے معبود کے حضور سجدہ ریز تھے تو ابن ملجم مرادی نامراد نے اپنی شمشیر سے آپ کے سر ِ مبارک پر حملہ کیا، جسکے نتیجے میں آپکا سر ِ اقدس مقام ِ سجدہ تک زخمی ہوگیا۔
اس وقت اہل ِ مسجد نے ایک ندائے ہاتف ِ غیبی سنی کہ
“تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدٰي، و انطمست اعلام التّقٰي، و انفصمت العروۃ الوثقٰي، قُتل ابن عمّ المصطفٰي، قُتل الوصيّ المجتبٰي، قُتل عليّ المرتضٰي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء” کہ “خدا کی قسم ارکان ِ ھدایت منہدم ہوگئے، علمِ نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کر دیا گيا، نشانِ تقوٰی کو مٹا دیا گيا، عروۃ الوثقٰی کو کاٹ ڈالا گيا، کیونکہ رسول خدا (ص) کے چچازاد کو شھید کر دیا گيا۔ سید الاوصیاء علی المرتضی (ع) کو شھید کر دیا گيا۔ انہیں شقی ترین شخص نے شھید کیا۔” کتب میں درج ہے کہ وقت ِ ضربت زمین پر لرزہ طاری ہوگیا، دریا خاموش ہوگئے اور آسمان متزلزل ہوگیا۔ مسجد ِ کوفہ کے در آپس میں ٹکرانے لگے۔ ملک ہائے آسمانی کی صدائيں بلند ہوئيں۔ کالی گھٹا چھا گئی۔
تا وقت ِ شہادت آپ گھر میں اپنے بچوں اور اہل ِخاندان کے ساتھ انتہائی تکلیف کی حالت میں رہے اور اس عالم میں زبان پر مسلسل ذکر و تسبیح جاری رہی۔ داعیء اجل کو لبیک کہنے سے کچھ وقت قبل آپ کی زبان ِ مبارک پر سورۃء الزاریات کی یہ آٰیات تھیں کہ “فمن يعمل مثقال ذرۃ خيراً يرہ ومن يعمل مثقال ذرۃ شراً يرہ۔” (جو ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اس کو بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ بھر برائی کرے گا اس کو بھی سامنے پائے گا۔)
مولا علی علیہ السلام کا جو سفر 30 عام الفیل کو خدا کے گھر سے شروع ہوا تھا وہ 40 ہجری کو خدا ہی کے گھر میں انجام پذیر ہوا۔ جب امام علیہ السلام مجروح تھے تو آپ نے اپنے بچوں کو بتایا کہ پچھلی رات آپکو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے آپ (ص) سے امت کی بد عہدی کی شکایت کی۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ “اے علی! اس امت کے لئے بد دعا کرو۔” تو میں نے کہا کہ “اے اللہ! ان لوگوں پر میرے بدلے برے لوگوں کو مسلط فرما۔” اس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ “اے علی! اللہ نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے اور تم تین دن بعد مجھ سے آن ملو گے۔”
پھر فرمایا کہ “اے بیٹا حسن! آج رات میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔” جب آپ وصیت فرما رہے تھے تو امام حسین (ع) کی جانب نگاہ کر کے فرمایا کہ “اے میرے بیٹے! یہ امت تمہیں شہید کر دے گی۔ اس مصیبت پر صبر کرنا تم پر لازم ہے۔ “بعد ازاں کچھ دیر کے لئے آپ پر غشی طاری ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو فرمایا کہ “ابھی رسول اللہ (ص)، چچا حمزہ (ع) اور بھائی جعفر طیار (ع) تشریف لائے تھے اور فرما رہے تھے کہ علی جلدی کرو۔ ہم تمہارے مشتاق ہیں۔” پھر آپ نے قبلہ رو ہو کر اپنے دست و پا دراز فرما لئے اور آنکھیں بند کرکے زبان مبارک پر کلمہء شہادت “اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ” جاری فرمایا۔ کائنات ِ خداوندی کا افضل ترین فرد آج کے دن پردہ فرما گیا۔ ان للہ و ان الیہ راجعون۔
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت، بہ مسجد شہادت
ویسے تو تاریخ اسلام کی پہلی مسلح دہشت گردی بھی خانوادہء اہلبیت رسول (ع) کے خلاف ہوئی تاہم خانہء خدا میں دہشت گردی کا جو پہلا منصوبہ ترتیب دیا گیا، اسکا شکار بھی اشرف الاشراف اور خدا کی افضل ترین مخلوق، بی بی سیدہ (س) کا سرتاج ہی تھا۔
خانوادہء رسالت (ع) اور اسکے پیروان کے خلاف دہشت گردی کا جو سلسلہ کم و بیش چودہ صدیوں قبل شروع ہوا تھا، وہ آج تک جاری ہے۔ آج بھی دھشت گرد اپنی مذموم کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ ہم ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان ایام غم میں وارث ِ خون ِ معصوم (عج) اور محبان ِ مولا علی کے حضور تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں اور خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ پہلے سے لیکر آخری دہشت گرد تک سب کو اپنے دردناک عذاب سے دوچار فرمائے۔
مولا علی (ع) کی بددعا کے نتیجے میں آج تک امت پر بدترین لوگ مسلط ہیں۔ خدا کے حضور دعا ہے کہ کہ ہم سب کو توفیق دے کہ دھشت گردی سے امت مسلمہ کو نجات دلائیں اوراللہ کے حضور دعاہے کہ اپنی آخری حجت (عج) کو جلد اذن ِظہور عطا فرمائے اور آپکے پاکیزہ انقلاب کے ذریعے اس زمین کو دہشت گردوں اور ظالموں سے پاک فرمائے۔ اس زمین کو عدل و انصاف سے ایسے پر کر دے، جیسے اسکے چپے چپے پر ظلم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ آمین یا رب العٰلمین بحق محمد وآلہ الطاہرین۔
(اللھم عجل لولیک الفرج۔تحریر (سید قمر زیدی شکریہ ہزارہ ٹرائب
شام کےمعاملے پر ایران کی طرف سے ہنگامی اجلاس
شام میں جاری بحران کے خاتمے پر غور کے لیے ایران نے کل جمعرات کے روز ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی کے مطابق تہران میں جمعرات نو اگست کو ہونے والے اجلاس میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا سے درجن بھر ممالک شریک ہو رہے ہیں۔ ایرانی خبر رساں ادارے ISNA کے مطابق صدر احمدی نژاد نے امید ظاہر کی ہے کہ تہران کانفرنس اور سعودی عرب میں اگلے ہفتے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس، شام میں فوجی جھڑپوں کے بجائے ایک سیاسی حل کی طرف بڑھنے کے نادر مواقع ہوں گے
ادھر ایران کی نیشنل سکیوریٹی کے سیکرٹری سعید جلیلی اپنے مشرق وسطی کے دورے پر آج بغداد پہنچے اس سے قبل انہوں نے دمشق اور بیروت کا دورہ کیا اور شام میں جاری حالات پر تفصیلی ملاقاتیں کیں
دمشق میں صدر بشارالاسد سے ملاقات میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ شام کے مسائل کا حل صرف گفتگو اور جمہوری انداز سے ہی ممکن ہے اس ملاقات میں شام کے صدر بشار الاسد نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن امن و امان کی بحالی تک جاری رہے گا اور دہشت گردوں کا سر کچل دیا جائے گا
تحریر: احمد علی نوری
(جامعۃ النجف، اسکردو)
یہ واقعہ تقریباً 1926ء کا ہے کہ ایک سیدہ نے اپنے چھ مہینے کے بچے کو گود میں لے کر ایمان اور توکل سے بھرپور عزم و ارادے کے ساتھ اپنے آپ کو ایک لمبے سفر اور بامقصد ہجرت پر آمادہ کرکے رخت سفر باندھ لیا۔ یہ مختصر قافلہ سفر کی تمام سختیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے کبھی پیدل اور کبھی کرایہ کے گھوڑوں پر راستہ طے کرتے ہوئے بلتستان سے کرگل اور کرگل سے کشمیر اور وہاں سے ہوتے ہوئے دل میں ایک آرزو، ایک خواہش اور ایک عظیم ہدف کو سامنے رکھ کر نجف اشرف یعنی باب مدینۃ العلم کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ وہ سیدہ چاہتی تھیں کہ اپنے نومولود بچے کو علم و آگہی اور علوم آل محمدؑ سے آشنا کریں اور اسے اسلام کے لئے ایک سر بکف مبلغ تیار کریں، یوں اس عظیم ماں نے ایک عظیم بیٹے کی تربیت کی جو بعد میں آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے۔
آپ کے والد محترم حجۃالاسلام و المسلمین آغا سید حسن موسوی بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔ زمانہ طالب علمی میں آپ ایک ذہین لائق اور مثالی شاگرد کے طور پر اپنے ہم جھولیوں اور استاد سے داد تحسین حاصل کرتے رہے۔ زمانہ طالب علمی میں ایسے ذہین لائق اور ممتاز دوستوں سے آپ کا واسطہ رہا جنہوں نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ انہی دوستوں میں سے ایک شہید نواب صفوی ہیں، جنہوں نے شہنشاہ ایران کے خلاف نہ فقط علمی اور عملی جدوجہد شروع کی بلکہ مسلح جدوجہد کے ذریعے عالمی استعمار کے ایجنڈوں کو یکے بعد دیگرے واصل جہنم کیا اور ایران اسلامی میں عالمی استعمار کے پنجوں کو کمزور کرنے اور بعد میں ایک عظیم انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ ان کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی تھی کہ ایسے انقلابی دوستوں کی رفاقت نے آپ کی فکری اور نظریاتی افکار کو مزید مضبوط اور استوار کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب امام خمینی ( رہ ) کی قیادت میں انقلاب اسلامی کا آغاز ہوا تو ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان میں اس مرد جری نے امام خمینی ( رہ ) کی شخصیت اور آپ کے انقلابی ییغام یعنی خاتم المرسلین کے خالص اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور آخری وقت تک آپ امام خمینی ( رہ ) کے سچے عاشق کے طور پر پاکستانی عوام بالخصوص جوانوں کے درمیان امام کے افکار کو عام کرنے کے لیے شب و روز کوشاں رہے۔ مرحوم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ آئی ایس او پاکستان جو کہ ایک الٰہی کاروان ہے کے بانیوں میں سے تھے اور آخری دم تک آئی ایس او پاکستان کی سرپرستی فرماتے رہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں گو ناگوں اسلامی موضوعات پر درس و دروس کا آغاز آپ ہی نے کیا تھا اور آج ہر مسجد و مدرسہ اور امام بارگاہ میں دروس کا اہتمام ہوتا ہے جہاں نوجوان، بچے، بوڑھے اور خواتیں و حضرات کی فکری اور نظریاتی تربیت ہوتی ہے۔ آغا مرحوم پاکستان میں جہاں بھی سفر کرتے وہاں مجالس و محافل کے علاوہ خصوصی طور پر جوانوں کے لیے درس دیا کرتے تھے یوں معاشرے میں محافل اور دروس کے انتظام کی ترویج کیا کرتے تھے۔ آپ جہاں بھی سفر کرتے وہاں کے جوان شمع کے پروانے کی طرح آپ کے گرد جمع ہوتے اور آپ انہیں اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے نہایت شیرین زبان میں اسلام اور اس کے آداب اور خصوصا انقلابی افکار سے روشناس کراتے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ گھنٹوں آپ تقریر کرتے رہیں اور وہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہیں۔
آپ نے روایتی مجالس و محافل کو بامقصد اور زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیک وقت کئی خوبیوں سے نوازا تھا۔ شیرین، سلیس، معلومات سے مملو اور زمینی حقائق کے مطابق گفتگو کرنے کی آپ کو مہارت حاصل تھی۔ دینی و ملّی حالات حاضرہ پر آپ کی گرفت اتنی مضبوط رہتی تھی کہ جب آپ مسائل کا تجزیہ و تحلیل کرکے اور ان پر صحیح اسلامی اصولوں کی تطبیق فرماتے تو وہ لوگوں کی دلوں میں اتر جاتے، کیونکہ دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ مرحوم فن خطابت کے عظیم شہسوار تھے آپ جہاں بھی زیب منبر ہوئے وہاں لوگوں کا جم غفیر آپ کو سننے کے لیے جمع ہوتا، نہ فقط شیعہ بلکہ ہر مکتب فکر کے لوگ آپ کو شوق سے سنتے بلکہ آپ کو سننے کے لیے دور دور سے لوگ جمع ہوتے اور آپ اپنی مخصوص فصاحت و بلاغت کے ساتھ تعلیم اہلبیت علیہم السلام کو بیان کرتے تو لوگ نہ فقط آپ کے گرویدہ ہوجاتے بلکہ اسلام حقیقی کی شناخت کے ذریعے اپنے دلوں کو منور کرتے اور مکتب آل محمدؑ کے گرویدہ ہوتے تھے جس کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔
علامہ مفتی جعفر مرحوم ( رہ ) کے دور سے ہی آپ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل کےرکن رہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ( رہ ) کے شانہ بشانہ ملت جعفریہ کی ترقی کے لیے سرگرم رہے۔ 6 جولائی 1987ء میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ( رہ ) نے مینار پاکستان پر قرآن وسنت کانفرنس کا انعقاد کیا وہاں آپ کی تقریر نے تو پورے مجمع کو اٹھایا اور نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ آج بھی لوگ آپ کی اس دن کی تقریر کو یاد کرتے ہیں۔ جہاں آپ نے ملت تشیع کو صالح قیادت کے پرچم تلے اکھٹے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ میں یوں کہوں گا کہ پاکستان میں شہید قائد عارف حسین الحسینی ( رہ ) کو متعارف کرانے اور ان کی قیادت کو پاکستانی عوام میں مقبول کرانے میں آغا علی موسوی مرحوم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ شہید قائد کے دست ِ راست تھے۔ شہید قائد جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ ان کے ساتھ ہوتے اور اپنی انقلابی تقریروں کے ذریعے شیعہ قوم کو بیدار اور منظم کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے میں مرحوم نے بنیادی کردار ادا کیا۔
مرحوم نے علماء کو ہمیشہ متحد رکھنے اور انہیں اپنے زمانے سے ہم آہنگ اور صالح قیادت کے ساتھ مربوط رکھنے میں کردار ادا کیا جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ کے دور میں پورے پاکستان میں جہاں بھی کوئی بڑا اجتماع ہوتا وہاں آپ کے بغیر اس اجتماع کا اختتام ممکن نہیں ہوتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ آپ ہر محفل کی جان ہوتے جہاں آپ موجود ہوں وہاں محفل کی ایک خاص رنگت ہوتی، حسن مزاح ہو یا تقریر کی شعلہ بیانی ہو آپ کا ہر انداز منفرد ہوتا۔ آپ آل محمدؑ کے مصائب بیان کرتے تو پوری مجلس پر رقت قلب طاری ہوجاتی تھی اور نالہ و شیوہ کی آواز بلند ہوتی تھی۔ ایک ہی آن میں مجمع کو ہنسانا اور رلانا یہ وہ ہنر تھا جس میں آپ بے مثال تھے۔
اگرچہ آپ کی شہرت ایک بلند پایہ خطیب کی حیثیت سے ہوئی مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے آپ کی حاضر جوابی کی داستان اگر لکھی جائے تو ایک کتاب بن جائے۔ معاملہ فہمی میں مرحوم بے نظیر تھے آپ کے معاملہ فہمی سے مربوط واقعات کو جمع کیا جائے تو وہ ایک بہترین سبق آموز کتاب بنے گی۔ مرحوم کی دینی، معاشرتی اور فلاحی خدمات آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ دین اسلام خصوصاً مکتب اہل بیتؑ سے آپ کا عشق ہمارے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے اپنی تمام اولاد کو دینی تعلیم سے نوازا اور آج ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ اسلام کی سربلندی اور ترویج مکتب اہل بیتؑ کے لیے شب و روز محنت میں کوشاں ہے۔ غرض مرحوم نے اپنی زندگی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کی توفیق بہت کم افراد کو ہوتی ہے۔ بطور مثال حسینیہ مشن حسین آباد، ادارہ درس و عمل لاہور، آئی ایس او پاکستان کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1974 میں ہیئت علماء امامیہ کے نام سے بلتستان بھر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس کے آپ پہلے صدر بنے۔ بلتستان میں پہلی مرتبہ ایک ادبی مجلہ ‘‘ حبل المتین ’’ کا اجراء کیا۔ اس مجلے کی وساطت سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ علماء، شعراء اور مذہبی و سماجی شخصیات کے تعارف اور معارف دین کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے۔
اپنی مدد آپ کے تحت حسین آباد کے گھر گھر سڑکیں بنائی۔ پاکستان بھر میں مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس کی تعمیر میں آپ عمر بھر کوشاں رہے۔ جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن کی تعمیر میں آپ نے علامہ صفدر حسین نجفی کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا۔ مدرسہ حیدریہ کھرگرونگ، مدرسہ قرآن و عترت سیالکوٹ، درسگاہ علوم اسلامی فیصل آباد نیز درسگاہ علوم اسلامی موچی دروازہ لاہور بھی آپ ہی کی کا وشوں کا نتیجہ ہے۔ مختلف فلاحی ادارے بھی آپ کے زیر سرپرستی چل رہے ہیں جن میں تنظیم آل عمران لاہور کے ماتحت چلنے والے ادارے نمایاں ہیں۔ بلتستان میں عاشورا اور اسد عاشورا کےجلوس کو ترویج دینے میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ بلتستان میں جشن مولود کعبہؑ، یوم الحسینؑ اور عید غدیر جیسی تقریبات کو جدید طرز پر جلسے کی صورت میں انعقاد کرنے کی بنیاد بھی آپ نے ہی ڈالی ہے۔ ان تمام امور میں سب سے اہم بات معاشرے کے بے شمار لائق اور ذہین افراد کی فکری اور نظریاتی تربیت ہے جن میں سے ہر ایک آج پورے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اور یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ مرحوم چار زبانوں عربی، فارسی، اردو اور بلتی زبان پر عبور رکھتے تھے اور ہر زبان میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریر و تحریر کے جوہر دکھاتےتھے۔
ایران عراق جنگ کے دوران ایران کے مشہور شہر اصفہان کے نماز جمعہ کے اجتماع سے آپ کے تاریخی خطاب کو وہاں کے شہری اب بھی یاد کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آج ہم ایک مثالی عالم دین، بلند پایہ خطیب، مشہور و معروف مبلغ اور ایک عظیم روحانی باپ سے محروم ہوگئے اور یہ عظیم دانشور آج اپنی عظیم المرتبت ماں کے قدموں میں آپ کی وصیت کے مطابق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آرام فرما رہے ہیں۔ وہی ماں جس کی مثالی تربیت نے سید علی کو آغا علی الموسوی بنایا تھا۔ الجنۃ تحت اقدام الامہات۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق جبکہ آپ کے خاندان کو صبر عظیم عنایت فرمائے
جامعتہ المنتظر لاہور کے پرنسپل کا اسلام ٹائمز سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین میں اتحاد ممکن ہے۔ اس وقت حقیقتاً دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں میں کوئی بہت بڑی لڑائی نہیں، یعنی یہ نہیں کہ جلسہ کوئی ہو رہا ہو۔ دھواں دھار تقریریں کرکے ایک دوسرے کو رگڑا پلایا جائے، ایسا نہیں ہے۔ تھوڑا بہت تو ہوتا رہتا ہے، جیسے لطیف اشارے تو کر دیتے ہیں۔ یہ علامت ہے سیز فائر کی۔ جس قوم میں سیز فائر ہو، وہاں اتحاد بڑے آرام سے ہوسکتا ہے۔
آیت اللہ حافظ ریاض نے مزید کہا کہ مولانا شہید سید عارف حسین الحسینی کی شخصیت جاذب تھی، جوان آدمی تھے، نجف اشرف میں آئے تو ان کی مونچھیں بھی نہیں آئی تھیں۔ تو وہاں بھی متحرک رہے۔ جب میٹنگز ہوئی تھیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں جب کنونشن ہوا تھا۔ اس میں ان کا کردار بہت اچھا اور نمایاں تھا۔ یعنی جوان آدمی پہلی دفعہ ظاہر ہوا۔ سامنے نکلا کہ کنونشن ہونا چاہیے ہمیں جلوس نکالنا چاہیے۔
کچھ علاقے کے لوگ ایسے تھے کہ کہتے تھے کہ اگر گولی چل گئی تو کیا ہوگا۔ کون ذمے داری لے گا۔ لیکن شہید عارف الحسینی شد و مد سے کہتے رہے اور علماء کی نظر میں نمایاں ہوگئے۔ کسی کا پتہ تو نہیں ہوتا کہ کس ذہن کا ہے۔ تو بھکر کنونشن میں آواز آئی کیوں نہ علامہ عارف الحسینی کو قائد بنا دیا جائے۔ پھر قصر زینب میں ہم پانچ چھ آدمی بیٹھے تھے۔ مولانا جواد ہادی بھی ساتھ تھے۔ مولانا شیخ علی مدد مرحوم تھے۔ مولانا صفدر حسین مرحوم تھے، میں تھا، مولانا کرامت علی شاہ صاحب، وزارت حسین نقوی صاحب بھی تھے۔ بات چیت ہوئی۔
پہلے علامہ عارف الحسینی سے بات چیت ہوئی کہ آپ قیادت قبول کریں، وہ قبول نہیں کر رہے تھے۔ ہم نے کہا کہ اگر تو قبول نہیں کرتے تو آپ نائب بن جائیں۔ لیکن شیخ علی مدد نے کہا کہ نیابت وغیرہ نہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ قیادت مکمل قبول کریں۔ تو وہاں پانچ چھ آدمیوں نے مشورہ کیا، انہین قائل کیا اور یقین دہانی کروائی کہ ہم آپ کی حمایت کریں گے، تو پھر یہ اس وقت قائد بن گئے۔ اور یہ خیال ہمارا تھا کہ یہ آدمی کام کرسکتا ہے۔ اعتماد پیدا ہونا شروع ہوا۔ اس کنونشن سے۔ انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ انہوں نے پورے ملک کو اکٹھا کیا۔ ذاکرین، خطباء اور واعظین جیسے مفتی جعفر حسین کے زمانے میں اکٹھے ہوئے، ان کے زمانے میں بھی اکٹھے ہوگئے تھے۔ تو انہوں نے بہترین کام کیا۔
شام میں حلب شہر میں شدت پسندوں کی شکست کے بعد اب عالمی سطح پر اس خطرے کی جانب متوجہ کیا جارہا ہے کہ شدت پسند اپنی شکست کے بعد
کیمیکل اسلحہ استعمال کرسکتے ہیں
روئٹرز نیوز نے چنددن قبل ہی اپنی ایک روپورٹ میں تصاویر کے توسط سے ثا بت کیا تھا کہ شام میں شدت پسندوں کے پاس کیمیکل اسلحہ موجود ہے جو انہوں نے لیبیا سے حاصل کیا ہے
جبکہ دیگر زرائع کے مطابق یہ کیمیکل اسلحہ امریکی ساخت کا ہے جس سے لگتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے شدت پسندوں کودیے جانے والی خاص امداد کا حصہ ہے
اس وقت کیونکہ شدت پسند دارالحکومت دمشق سے لیکر صنعتی شہر حلب تک شکست کھا چکے ہیں تو اس بات کاخطرہ بڑھ چکا ہے کہ شدت پسند اپنے اہداف کے حصول کے لئے کیمیکل اسلحے کا استعمال کریں
خاص کر کہ شدت پسند اب تک عام آبادی کو اپنے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں اور فوج کے گھیرے میں پھنسنے کے بعد شدت پسندوں نے آبادی پر حملے کئے ہیں
مرکزی آفس مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں شب قدر اور شب ضربت امیر المومنین مولا و آقا امام علی ع کی مناسبت سے مصائب پڑھے گئے اور شب
قدر کے اعمال بجالائے گئے
مشترکہ طور پر انجام پانے والے عمل قرآنی میں دفتر کے عملہ سمیت مدارس کے بعض طلبہ نے بھی شرکت کی جبکہ عمل قرآنی کی سعادت میڈیا منیجر کو حاصل ہوئی
روح پرور ماحول کے ساتھ مرکزی آفس کے عملے نے شب قدر کی رات کو دعا و مناجات میں گذاری اور عالم وطن عزیز کی سلامتی سمیت عالم اسلام میں بھائی چارگی اور خاص کر رہبر مسلمین کی درازی عمر کیلئے میں دعائیں مانگیں گئیں