The Latest

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پاکستا ن عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سے انکے دفترمیں ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کاجاری آپریشن حوصلہ افزا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔خیبر ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی حالیہ کاروائی کے نتیجہ میں بیشتر دہشت گردوں کی ہلاکت اور شدت پسندی کے مراکز کی تباہی ایک عظیم فتح ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ہمارے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اس ملک کا دفاع ، بقا اور سلامتی کے امور مضبوط اور بااعتماد ہاتھوں میں ہیں۔انہوں نے دہشت گردی کی اس جنگ میں جان کا نذرانے پیش کرنے والے پاک فوج کے نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ ہماری قوم کے ہیرو اور ہمارا وقار ہیں۔ہم ان کے جذبے و جرات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ہماری موجودہ حکومت بھی اگر اسی جذبے و خلوص کے ساتھ ملک کی خدمت کرے تو پھر وطن عزیز کو ناقابل تسخیر ریاست کی حیثیت حاصل ہو گی۔

 

انہوں نے کہا کہ  سپر پاور کے زعم میں مبتلا کوئی طاقت ہمارے ملک کا طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی اور نہ ہمارے داخلی معاملات میں کسی کو مداخلت کا اختیار حاصل ہو سکے گے مگر بدقسمتی سے ہماری حکومت بیرونی ڈکٹیشن پر چلنے کی عادی ہو چکی ہے اور اس ابہام میں مبتلا رہتی ہے کہ اپنے اقتدار قائم رکھنے کے لیے مغربی و سعودی آقاوں کی پیروی ضروری ہے جوغلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے ۔ہمیں ذاتی مفادات کی پالیسی کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کی پالیسی کو مقدم رکھنا ہو گااگر وطن عزیز کے استحکام و سالمیت کی بجائے حکومت کے پیش نظر ذاتی مفادات رہے تو پھر وہ اپنے آپ ان قوتوں کے حصار سے کبھی آزاد نہیں کرا سکے گی جو ملکی سلامتی کے دشمن ہیں ۔جو دہشت گردوں کو شہید کہتے ہیں اور ان کی مذموم کاروائیوں پر مذمت کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔جب تک ان لوگوں کو اپنے حلقہ احباب سے خارج نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ملک میں امن کا قیام محض خواب و خیال ہی رہے گا۔اس سلسلے میں حکومت کو مختلف تنظیموں سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی لیکن یہ تبھی ہی ممکن ہے جب حکمران ملکی مفادات کو مقدم سمجھتے ہوئے ذاتی پسند و ناپسند کی فکر سے آزادی حاصل کر لیں گے۔ ملک میں دہشت گردی کاخاتمہ ممکن ہے مگر اس کے لیے نیک نیتی شرط اول ہے ،دونوں رہنماوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وطن عزیز پاکستان کو نقصان پہنچانے والے تکفیری دہشت گردوں ، انکے سرپرستوں ، اتحادیوں اور سہولت کاروں کے مقابل ہم متحد ہیں اور انہیں مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

وحدت نیوز (لاہور) مزدوروں کے حقوق کا اصل نگہبان محمد عربی (ص) کا لایا ہوا اسلامی نظام ہے، جس میں انہیں حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسے ہوئے طبقات کو دوسروں کے برابر حقوق دیئے گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے یوم مزدور پر اپنے پیغام میں کیا، انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک و معاشرے کے مزدور اور محنت کش اس ملک کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں، اسلام تو آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چومنے اور انہیں قدر و عزت دینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہل چکی ہیں، اس نظام نے مزدوروں کا خون چوسنے کے سوا کچھ نہیں دیا، یہ شکست و ریخت کا شکار ہے، اور جلد ہی کمینوزم کی طرح اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوگا۔

 

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، یہاں مزدوروں کا مسلسل استحصال جاری ہے، سرمایہ دار اور صنعت کار ایسے محروم و پسے ہوئے طبقہ کو اپنے ظلم و تشدد اور جبر و استحصال کا شکار کرتا ہے، انہوں نے بھٹہ مزدوروں، صنعتی کارکنوں، گھریلو ملازموں اور روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کو بنیادی لیبر قوانین کے تحت سہولیات، آسائش، صحت اور انشورنس وغیرہ کا پابند بنانے اور انتظام کرنے کا مطالبہ کیا، علامہ اسدی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکمران یہاں پر مزدوروں کے حقوق دینے کی بجائے بیان بازی پر ہی اکتفا کرتے ہیں، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اس پاک وطن میں اپنی جدوجہد اور تحریک سے اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے ذریعے مزدوروں اور دیگر محروم و مظلوم طبقات کے حقوق کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز (گلگت) مسلم لیگی حکومت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی انتخابات دھاندلی کے ذریعے جینتے کی سازش کررہی ہے۔وحدت مسلمین ممکنہ دھاندلی کی سازش کو ناکام بنائے گی اور سیاسی جماعت تحریک اسلامی کو دہشت گرد پارٹیوں کے مقابلے میں کھڑا کرکے پابندی عائد کرنا حکومتی بیلنس پالیسی ہے جبکہ ایکشن پلان دہشت گردوں کے خلاف بنایا گیا اس کو مس یوز کیا جارہا ہے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت براہ راست انتخابات پر اثر انداز ہورہی ہے اور گورنر گلگت بلتستان لیگی امیدواروں کی کمپین چلارہے ہیں جس کا الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہئے۔

آل سعود كا منطقی انجام

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب بهی سعوديہ كو خطره ہوا ہم نے انہیں بچایا، كبهی انكے كہنے پر عراق كی سرحد پر اور كبھی بحرين مين اپنی جوانوں كو بھیجا، جن حرمين شريفين كے تقدس کے وه خود قائل نہیں اور انكے دفاع کی صلاحيت نہیں ركهتے، انہیں وہاں پر حكومت كا كوئی حق نہیں۔ حرمين شريفين سے كمائی خود كرتے ہیں اور پوری امت مسلمہ كے اس سرمایہ سے کعبہ کی حفاطت كيوں نہیں كرسكتے۔؟ آخری دنوں ميں ہمارے خلاف جو طوفان بدتميزی اور جس حقارت سے ہمیں مخاطب كيا گیا ہے، كوئی غيرتمند قوم اسے برداشت نہیں كرتی۔ اب ہمارے حكمرانوں كو بخشو كا كردار نہیں بلكہ جهان اسلام كی پہلی اسلامی جمہوریت اور ایٹمی طاقت كا كردار ادا كرنا ہوگا۔ اگر ذليل ہی ہونا تها تو جدا ملک بنانے اور قربانياں دينے کی كيا ضرورت تهی۔؟؟


 
سعودی عرب اور امت اسلامیہ كے مستقبل كے امور كی باگ ڈور 30 سالہ مغرور اور بد اخلاق شہزاده "محمد بن سلمان بن عبدالعزيز" كے سپرد ہوگئی ہے۔ والد كے فرمانروا بننے سے پہلے اسے كوئی بڑا منصب نہیں ملا اور ناتجربہ كار شخص سعودی عرب جيسے ملک كہ جس كا اثر و نفوذ پورے جہان اسلام میں ہے، اسے اسكا ہيرو اور سب سے زياده باختيار شخص بنا ديا گیا ہے۔ 23 اپريل 2015ء يعنی نائب ولی عهد بننے كے ٹھیک 6 دن پہلے اس مغرور اور بداخلاق نو عمر سعودی وزير دفاع نے وزيراعظم پاكستان جناب مياں نواز شريف صاحب كی سربراہی ميں اعلٰى سطحی پاكستانی وفد کی سعودیہ كے سركاری دورے كے موقع پر ہمیں ايک ہی دن ميں تين مختلف چہرے دكهائے۔
• پہلے ائر پورٹ پر ہمارے اعلٰى سطحی وفد كا ولی عہد كی ہمراہی ميں استقبال كيا۔
• پھر اسی دن تهوری دير بعد ايک بيان داغ ديا اور اسے بين الاقوامی ميڈيا ميں نشر كيا كہ جس ميں پاكستان اور مصر كی حكومت، آرمی اور عوام كی خوب تضحیک و اہانت كی اور انہیں بهكاری، ذليل، بے بس اور بزدل كہنے پر ہی اكتفاء نہیں كيا بلكہ کتوں سے تشبيہ دے ڈالی۔

•اور پھر رات كو دوباره جناب مياں صاحب سے ملنے يمن كے مفرور صدر منصور هادی كے ساتھ ان کی رہائشگاه پر چلا گیا۔

آل سعود كا تقريباً ايک صدی پر محيط نظام اب اپنے منطقی انجام كی طرف جا رہا ہے۔ كسی كو اسے گرانے كی ضرورت نہیں۔ يہ ظلم و بربريت كا باب خود بخود نااہل حكمرانوں اور اپنے داخلی اختلافات كی نذر ہو كر ہمیشہ كے لئے بند ہونے والا ہے۔ ليبيا، مصر، تيونس، بحرين، شام، عراق اور يمن كے داخلی امور ميں فقط مداخلت ہی نہیں بلكہ ان ممالک ميں تباہی، بربادی اور بمبارمنٹ كے نتيجے ميں لاكهوں بے گناہ انسانوں كے قتل كے بعد انكے مقدر كا ستاره ڈوبنے والا ہے۔ حضرت امير المؤمنين علی ابن ابی طالب عليهم السلام  كا فرمان ہے، "حكومت كفر سے تو باقی ره سكتی ہے ليكن ظلم سے باقی نہیں ره سكتی۔"  ہماری حكومت، ہمارے سياستدانوں، ہمارے اداروں اور ہماری عوام كو جذبات اور تعصب كی عينک سے نہیں بلكہ ہوشمندی اور عقل كی نگاه سے ديكهنا ہوگا اور اپنے مستقبل كا فيصلہ كرنا ہوگا۔ ہماری پارلیمنٹ نے انتہائی عاقلانہ فيصلہ كيا اور ملک كو ايک بہت بڑے بحران سے بچا ليا اور دنيا كی نگاه ميں پاكستان اور پاكستانی قوم كا سر فخر سے بلند ہوا اور ثابت كيا كہ ہم نہ تو كسی كے غلام ہیں اور نہ ہی ہمیں خريدا جاسكتا ہے۔

 

درست ہے كہ مشكل وقت ميں سعودی عرب نے ہماری مالی مدد كی اور ہمارے تقريباً 2 ملين افراد سعودی عرب ميں كام كرتے ہیں، ليكن جب يہ سوال اٹھایا جائے كہ ہمیں سعودی شراكت سے نقصان كتنا ہوا؟
• تو ہماری زبانوں پر تالے كيوں لگ جاتے ہیں؟
• مارا آزاد ميڈيا خاموش کیوں ہو جاتا ہے؟
• اس بات کو مذہبی تعصب كی نگاه سے كيوں ديكها جاتا ہے؟
كيا يہ سچ نہیں كہ پورے پاكستان ميں اس شراكت سے پہلے اور اكثر علاقوں ميں ابھی تک بھی ايک ہی فيملی کے لوگ شيعہ بھی ہیں اور سنی بهی، ديوبندی بهی ہیں اور اہل حديث بهی۔ آپس ميں رشتہ دارياں بھی ہیں اور خوشی و غمی ميں شريک بهی ہوتی ہیں؟
اس شراكت كے بعد فتنہ تكفيریت نے جنم ليا، پهر قتل كے فتوے صادر ہوئے، پھر ٹارگٹ کلنگ، دهماکے اور اس كے بعد لاشوں کے ٹکڑے اور گلے کٹنے  شروع ہوئے، حتی کہ نوبت ان کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال كهيلنے تک جا پہنچی۔

 

عام پاکستانی کے چند سوالات ہیں ان لوگوں سے جنکو سعودی فوبیا ہے۔
(1)۔ تكفيری سوچ اور دہشتگرد گروہ كہ جن كی وجہ سے ہمارا ملک بحرانوں كا شكار ہے، کیا یہ سوچ ہمیں اسی شراكت سے نہیں ملی؟؟
(2)۔ ہماری انڈسٹری جو ملک ميں ناامنی اور دہشت گردی كی وجہ سے پاكستان سے باہر منتقل ہوئی اور لاكهوں افراد بے روزگار ہوئے، کیا یہ تحفہ اسی شراکت کا دیا ہوا نہیں ہے؟؟
(3)۔ كيا اسكولوں كی تعمير پر كروڑوں کا بجٹ نہیں لگتا، كيا ہمارے تجارتی و دينی مراكز يا مساجد، امام بارگاہیں اور لوگوں کی شخصی پراپرٹی دہشت گرد ایک ہی دهماكے سے اڑا ديتے ہیں، کیا یہ اسی شراکت کا اثر نہیں ہے؟؟
(4)۔ مختلف مكاتب فكر سے تعلق ركهنے والے ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفيسرز، علماء، وكلاء، ججز وغيره ہر طبقے کے لوگ جو دہشت گردی كا شكار ہوئے، کیا وہ ہمارا قومی سرمایہ نہیں تھے؟
(5)۔ دہشت گردی كا شكار ہونے کے بعد ہمارے دفاعی اخراجات اور سكیورٹی كی ضروريات ميں اضافے كے باعث ہمارے بجٹ ميں كروڑوں اور اربوں روپے كا اضافہ ہوا، كيا یہ اسی شراكت كی وجہ سے نہیں؟؟
(6)۔ ہماری سرحدوں سے خطرات آگے بڑھ كر ہمارے گلی كوچوں اور گھروں تک آگئے، ہمارے دفاعی اور امن و امان كے محافظ ادارے خود ناامنی كا شكار ہوئے، كيا یہ تحائف اسی شراکت كی وجہ سے نہیں؟؟

 

دس لاکھ پاکستانی ہمارے بهائی محنت مزدوی كركے، خون پسینہ اور اہانت برداشت كركے لقمہ حلال كماتے ہیں تو يہ كون سا احسان ہے، ہم سے تو زياده 3 ملين بھارتی لوگ بهی تو وہاں مزدوری كرتے ہیں، حتی کہ انكے ساتھ تو معاملہ اور برتاو بهی اچھا كيا جاتا ہے اور كبهی اس احسان كو جتلايا بهی نہیں جاتا۔ جب بهی سعوديہ كو خطره ہوا ہم نے انہیں بچایا، كبهی انكے كہنے پر عراق كی سرحد پر اور كبھی بحرين مين اپنی جوانوں كو بھیجا، جن حرمين شريفين كے تقدس کے وه خود قائل نہیں اور انكے دفاع کی صلاحيت نہیں ركهتے، انہیں وہاں پر حكومت كا كوئی حق نہیں۔ حرمين شريفين سے كمائی خود كرتے ہیں اور پوری امت مسلمہ كے اس سرمایہ سے کعبہ کی حفاطت كيوں نہیں كرسكتے۔؟ آخری دنوں ميں ہمارے خلاف جو طوفان بدتميزی اور جس حقارت سے ہمیں مخاطب كيا گیا ہے، كوئی غيرتمند قوم اسے برداشت نہیں كرتی۔ اب ہمارے حكمرانوں كو بخشو كا كردار نہیں بلكہ جهان اسلام كی پہلی اسلامی جمہوریت اور ایٹمی طاقت كا كردار ادا كرنا ہوگا۔ اگر ذليل ہی ہونا تها تو جدا ملک بنانے اور قربانياں دينے کی كيا ضرورت تهی۔؟؟

 

يہ وقت پاكستان كی خاطر ہر قسم كے داخلى اختلافات كو ترک كرنے کا ہے۔ دنيا ميں بڑی تيزی سے تبديلياں آرہی ہیں اور یہ وقت درست فيصلے كرنيكا وقت ہے۔ ہم سب پاكستانی ايک متحد قوم بن كر اس نازک مرحلے كو عبور كرسكتے ہیں اور وطن كو مستحكم كرسكتے ہیں۔ ہماری قوم كو اس وقت مذہبی، سياسی اور بيوروكريسی كے اندر مافيا كی نہیں بلكہ محب وطن، خدمت گزار اور قربانی كا جذبہ ركهنے والے مذہبی، سياسی قيادت، مخلص اور فرض شناس بيوروكريسی كی ضرورت ہے، اور غير پرستی چھوڑ كر اپنے لئے اور آنے والی نسلوں كے لئے ملک كو بحرانوں سے نكالنے كی ضرورت ہے۔ ہماری مسلح افواج نے ہر مشكل وقت میں اور مختلف جنگوں ميں اپنی پیشہ وارانہ صلاحيتوں اور جرأت و بہادری كا مظاہره كيا اور دشمنوں كے دانت كٹھے کئے، اور آج بهی مادر وطن ميں قيام امن اور دہشتگردی کے خاتمے كے لئے برسر بيكار ہیں، پس ہمیں لالچ اور دهمكيوں سے ڈر كر اس ملک و فوج کے وقار كو مجروح كرنے كی اجازت نہیں دينی چاہیے۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری علامہ امین شہیدی نے مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر کہا ہے کہ حکومت کو ملک میں معاشی اصلاحات کا فوری اعلان کرنا چاہیے۔ مزدور کی کم سے کم آمدنی موجودہ مہنگائی کو مدنظر رکھ کر طے کی جانی ضروری ہے تا کہ ملک کے یہ معمار باوقار طرےقے سے اپنی زندگی گزار سکے۔ مزدوروں کے نام پر سرکاری طور پر تعطیل کے محض اعلان سے ان کی داد رسی نہیں کی جا سکتی بلکہ ان بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد ضروری ہے جو پوری دنیا میں مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے رائج ہیں تاکہ انہیں باوقار زندگی گزارنے کی ساری سہولیات میسر ہو سکیں۔ انہی عالمی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر ہم اپنی قوم کے ان معماروں کو تنگدستی و غربت کے شکنجے سے آزاد کرا سکتے ہیں جو ملک و قوم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان محنت کشوں کے خاندان اور بچوں کی بھی تعمیر کے لیے اشد ضروری ہے۔اس حوالے سے موجودہ حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔حکومت کی طرف سے مزدور کی کم سے کم طے شدہ اجرت موجودہ دور میں مضحکہ خیز ہے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد بھی نہیں ہو رہا۔مختلف دیہی علاقوں میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے کو ماہانہ تین ہزار سے بھی کم دیا جاتا ہے جو بیگار کے زمرے میں آتا ہے۔اس طرح کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔اس سلسلے میں قوانین میں سختی لانے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکرٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے سکردو میں منعقدہ عوامی اجتماع اور گمبہ میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت، بلتستان کے عوام محب وطن پاکستانی ہیں، انہیں سینٹ اور قومی اسمبلی میں مکمل نمائندگی دی جائے۔ نواز لیگ نے کسی مقامی شخصیت کو گورنر بنانے کی بجائے باہر سے گورنر درآمد کیا ہے، جو نواز لیگی ایم این اے اور وفاقی وزیر ہے۔ یہاں قبل از الیکشن دھاندلی کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے، عوام اپنی بیداری اور اتحاد سے دھاندلی کی سازش ناکام بنادیں۔

 

انہوں نے کہا کہ سابق کرپٹ حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر توجہ دینے کی بجائے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، عوام با کردار نمائندوں کو منتخب کریں۔ مجلس وحدت مسلمین نے بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لئے منشور مرتب کیا ہے، جس میں گلگت، بلتستان کے آئینی حقوق، اقتصادی ترقی، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا قیام، سیاحت کے فروغ، بجلی، تعلیم، صحت و دیگر عوامی مسائل کا حل تجویز کیا گیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قوم و ملت کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ہم اتحاد بین المومنین کو اہم سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں ہونے والی ہر مخلصانہ کوشش کا خیر مقدم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین شجرہ طیبہ ہے، جس نے قوم کو جدوجہد، بیداری، بصیرت اور قیام للہ کا راستہ دکھایا، اور طاغوتی قوتوں کے فرعونی عزائم کے مقابل سینہ سپر ہوکر کلمہ حق بلند کیا۔ قوم کو مایوسی سے نکال کر امید کی کرن روشن کی۔

وحدت نیوز (لاہور) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں بھر پور حصہ لیں گے،بلدیاتی انتخابات میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سامنے لائیں گے،پنجاب میں عرصے سے بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے،موجودہ حکمران اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے خوفزدہ ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری سیاسیات سید اخلاق الحسن بخاری نے صوبائی پولیٹکل سیل کے اجلاس سے خطاب میں کیا ،انہوں نے کہا پنجاب میں موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں عوام بد حالی کا شکار ہے ،پنجاب بھر میں سیاسی بنیادوں پر نوازا جارہا ہے،کسانوں میں باردانے کی تقسیم بھی سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے ،کاشتکار در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے،بجلی کی لوڈشیڈنگ  اور مہنگائی کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں،انہوں نے کہا پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچنا حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہے،چین سے امداد لینے کی بجائے چین کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے عوامی خدمت اور ملکی ترقی کا درس لیا جائے،ملک میں خوشحالی کا واحد راستہ خودانحصاری ہے ،بدقسمتی سے یہ حکمران ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنا کاروبار چمکانے اور تجوریاں بھر نے میں مصروف ہیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری نے سانحہ کوٹلہ جام بھکرکیس میں سنائے جانے والے عدالتی فیصلہ کو سیاسی دباو اور ناقص تفتیش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرگودھا کی عدالت نے ہمارے پانچ بے گناہ افراد کو موت کی سزا سنا دی ہے جو سراسر غیر منصفانہ اورناقابل برداشت  ہے۔پنجاب میں مخصوص مسئلک کے لوگوں نے اپنے عسکری ونگ بنا کر نہ صرف علاقے کی انتظامیہ کو دبا کر رکھا ہوا بلکہ عدالتوں پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔چاہیے تو یہ تھا کہ اس سانحہ کے اسباب بننے والے اس عناصر کے خلاف کاروائی کی جاتی جو ریلی کی شکل میں آکر اہل تشیع کے نہتے اور معصوم لوگوں پر حملہ آور ہوئے اور دانستہ طور پر علاقے میں اشتعال پیدا کیا لیکن یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اپنا اور مقدسات کا دفاع کرنے والوں پر جھوٹے مقدمے بنا دیے گے تا کہ دن دیہارے حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کا دفاع کیا جا سکے۔مکتب تشیع کو انتقام کا نشانہ بنانے والی یہ ریاستی دہشت گردی ہمیں ہر گز قبول نہیں۔ ہمارے لوگوں کو گھروں سے پکڑ کر لایا گیا۔ ملت تشیع پر دباو ڈالنے کے لیے ان پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنائیں گے ۔ یہ امتیازی رویہ پنجاب حکومت کی ایما پر ہمارے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ اگر عدالتیں اسی طرح یکطرفہ فیصلے سناتی رہیں تو پھر عدلیہ سے لوگوں کااعتبار اٹھ جائے گا۔ اس لیے عدالتوں کو چاہیے کہ مسلکی بنیادوں پر قائم مقدمات کے فیصلے سنانے میں عجلت کے بجائے دانشمندانہ روش اختیار کریں۔تفتیشی نظام کی بہتری اور شفافیت عدلیہ کے منصفانہ فیصلوں کی بنیاد ہیں اس لیے ان میں بہتری لائی جائے۔ہم عدلیہ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے اور جب تک انصاف کے تقاضوں کو احسن انداز میں پورا نہیں کیا جاتا ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔

وحدت نیوز: ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ’’وحدت نیوز‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80 کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں، بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔


 آغا سید رضا نقوی کا تعلق کراچی سے ہے، ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں مصروف کار ہیں۔ بچپن سے کراچی کے ایک مدرسے سے وابستہ رہے اور کالج سے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت سے کیا اور 1988ء میں آئی ایس او گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کے صدر رہے۔ بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملت کے اجتماعی امور میں مشغول رہے اور مجلس وحدت مسلمین کراچی کے اساسی رکن ہونے کے ساتھ اس وقت ڈپٹی سیکرٹری جنرل کراچی ڈویژن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔وحدت نیوزنے آغا سید رضا نقوی کیساتھ این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت اور غیر جانبدار نہ رہنے کی وجوہات، کراچی آپریشن، یمن پر سعودی جارحیت میں نواز حکومت کے اقدامات سمیت دیگر موضوعات پر انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

 

وحدت نیوز: کراچی کے حلقے این اے 246 میں ہونیوالے ضمنی الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، ایم کیو ایم اس حلقے سے کامیاب ہوچکی ہے، کیا آپ ضمنی الیکشن کے شفاف ہونے کے حوالے سے مطمئن ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 2013ء کے عام انتخابات میں جب اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی ایم ڈبلیو ایم کا مؤقف یہی تھا کہ پاکستانی عوام کو کسی بھی قسم کی دھونس، زور اور زبردستی کی سیاست سے بالا ہوکر اپنے آئینی حق کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے، حق رائے دہی کی آزادی اور انتخابی عمل کی شفافیت کے بعد جو بھی نتیجہ آئے، اس کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہئے۔ مجلس وحدت مسلمین NA246 کے ضمنی انتخابات میں بھی اپنے اس مؤقف پر قائم تھی کہ عوام کو انکی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس کے بعد نتیجہ جو بھی ہو، اس کو تمام فریقوں کو قبول کرنا چاہئے۔ جہاں تک ضمنی انتخابات میں حکومتی اور الیکشن کمیشن کے اقدامات کا سوال ہے، تو اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی عمل کو شفاف سے شفاف تر بنایا جاسکتا ہے۔

 

وحدت نیوز: ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے این اے 246 میں بجائے ایم کیو ایم کے، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، کیا وجوہات تھیں، جبکہ ایم کیو ایم کی اس حلقے سے فتح یقینی تھی اور خود ایم ڈبلیو ایم گذشتہ عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف اور اسکے چیئرمین عمران خان کو کالعدم تحریک طالبان اور اسکے ساتھ حکومتی مذاکرات کے حوالے سے انتہائی سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: تحریک انصاف کی حمایت کے فیصلے میں کوئی راکٹ سائنس کار فرما نہیں ہے، عرصہ دراز سے مجلس وحدت مسلمین اپنے بیانات اور ملاقاتوں میں ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت کو یہ باور کرا چکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں اور تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر سے پاک کرنا چاہئے اور ایم ڈبلیو ایم کے اس مؤقف سے ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت بھی متفق رہی ہے، جس کا برملا اظہار ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت اپنے خطابات میں بارہا کرچکی ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار کردہ دہشت گردوں کا اس بات کا برملا اعتراف کے وہ شیعہ عمائدین اور ملت تشیع کے افراد کی کلنگ میں ملوث رہے ہیں، کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ملت تشیع پاکستان جہاں شہادت کے جذبے سے سرشار ہے، وہیں اپنے شہیدوں کے لہو کی پاسداری پر بھی کمر بستہ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ ملت تشیع ایسے لوگوں کی حمایت کرے، جنکی صفوں میں ہمارے قاتل چھپے ہوں؟ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف اور عمران خان کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تو سب سے پہلی بات کہ طالبان سے مذاکرات کی حمایت تو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کی تھی، ماسوائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے، آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان سے مذاکرات کے موضوع پر نواز حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی، جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا۔

 

جیسا میں نے کہا کہ ماسوائے ایم ڈبلیو ایم کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور ایم ڈبلیو ایم نے ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات کا بارہا اعتراف کرچکی ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر انکی پارٹی کا مؤقف غلط تھا، جس کا خود انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں ہونے والی ملاقات میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور کراچی سے رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے ایک بار پھر اپنے اس مؤقف کو دہرایا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے یمن پر ہونے والی سعودی جارحیت کے حوالے سے دوٹوک اور فیصلہ کن مؤقف بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جس کا برملا اظہار پارلیمنٹ میں بھی ہوچکا ہے اور ہمارے لئے ایسے وقت میں کہ جب سعودی عرب اور اسکی نمک خوار نواز حکومت پاکستانی فوج کو کرائے پر یمنی مسلمانوں کے قتل کے لئے یمن بھیجنے پر تلی بیٹھی تھی، ایسے وقت میں تحریک انصاف کا ایم ڈبلیو ایم کی مشاورت سے سامنے آنے والا دو ٹوک مؤقف اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف تھا، لہذا مجلس وحدت مسلمین کی اولین کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سعودی نواز تکفیریوں کے خلاف ایک جگہ پر اکٹھا کریں اور اس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

 

وحدت نیوز: کچھ شیعہ حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی بجائے این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں شیعہ علماء کونسل کی طرح غیر جانبدار رہنا چاہیئے تھا، کیا کہیں گے اس رائے کے حوالے سے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: غیر جانبداری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، غیر جانبداری کا مطلب ہوتا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کون جیتے گا اور کون ہارے گا، کسی کی جیت اور ہار سے زیادہ اہم یہ بات تھی کہ ملت تشیع کہاں کھڑی ہوگی؟ ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کی واحد نمائندہ سیاسی و مذہبی ملک گیر تنظیم ہے، ہمارا مؤقف بھی اسی طرح واضح ہونا چاہئے تھا اور ہمارے لئے اہم تھا کہ ہم ان قوتوں کو پیغام دیں کہ جو کراچی میں ہونے والی شیعہ کلنگ میں ملوث رہے ہیں، صرف ضلع وسطی میں پچھلے دو سالوں میں 140 سے زائد شیعہ عمائدین اور مومنین کو شہید کیا جاچکا ہے، جس میں استاد پروفیسر سید سبط جعفر زیدی، سید سعید حیدر زیدی، پروفیسر تقی ہادی، علامہ علی اکبر کمیلی، پروفیسر انیس، عدیل عباس وغیرہ شامل ہیں، کیا ایم ڈبلیو ایم کی غیر جانبداری ان شہیدوں کے لہو پر خاموشی کے زمرے میں نہیں آتی؟ تشیع میں غیر جانبداری کی گنجائش نہیں ہے۔ ملت تشیع کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہونا چاہئے، شہیدوں کے لہو کا قرض ہے ہم پر، ہم کیسے اپنے شہیدوں کے لہو سے پہلو تہی کرسکتے ہیں۔؟

 

وحدت نیوز: کراچی میں رینجرز کیمطابق انکے ہاتھوں متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار کارکنان اور عہدیداران نے شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کا بھی اعتراف کیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور سیاسی عناصر کا گٹھ جوڑ ہے، سیاسی عناصر بھی ملوث ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو حقائق عوام کے سامنے نہ لانے کی آپ کیا وجوہات سمجھتے ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: ملت تشیع کے کسی بچے سے بھی پوچھیں گے تو وہ بھی آپ کو بتا دے گا کہ ملت تشیع کا کراچی میں کون قاتل ہے، تو یہ تاثر تو غلط ہے کہ حقائق عوام سے پوشیدہ ہیں۔ جہاں تک بات ہے کالعدم و دہشت گرد تنظیموں کی سیاسی عناصر سے گٹھ جوڑ کی تو یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم ڈبلیو ایم بارہا اس بات کی نشاندہی کرچکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر کو باہر نکالنا ہوگا، کیونکہ یہ تکفیری عناصر خود سیاسی جماعت کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80ء کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں، ایم کیو ایم میں گاہے بگاہے اعلٰی سطح پر تبدیلیاں اس بات کی علامت ہے کہ کلیدی عہدوں تک رسائی میں اگر کسی قسم کا کوئی فلٹر تھا تو اب وہ کمزور ہوچکا ہے۔ ہم آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وجود باقی رہے، لیکن سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنے اندر سے جرائم پیشہ افراد کو باہر نکالنا ہوگا اور بالخصوص وہ عناصر کہ جو شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں۔

 

وحدت نیوز: کراچی میں دہشتگرد اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے مطمئن ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک مطمئن ہیں، کراچی کے لئے امن ناگزیر ہے، یہ بات صحیح ہے کہ کراچی کا امن پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، لیکن پاکستانی عوام پر ہونے والی نظریاتی دہشت گردی کا سدباب بھی انتہائی ضروری ہے۔ نظریاتی دہشت گردی میں معاشرے میں ایسے افراد پروان چڑھتے ہیں جو معاشرے کی تعمیر کے بجائے، معاشرے کو فرقہ پرستی و لسانیت کی دلدل میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ طالبان اور طالبان جیسی فکر رکھنے والے چھوٹے یا بڑے تکفیری گروہوں کا خاتمہ پاکستان کی بقاء اور ترقی کا بھی اتنا ہی ضامن ہے جتنا کراچی کا امن۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کو دہشت گردی و جرائم سے پاک ہونا چاہئے، جس کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کوشاں ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ضروری ہے کہ نظریاتی دہشت گردی کا سدباب کیا جائے۔ کراچی میں درجنوں ایسے قلعہ نما مدارس ہیں جن کے بارے میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہ مدارس دین کی آڑ میں دہشت گردی کے اڈے ہیں، جہاں نہ صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ وہاں اس بات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے کہ دوسروں کو دہشت گرد کیسے بنایا جائے، یعنی نظریاتی دہشت گردی کی تربیت۔ ہمارے خیال میں دہشت گردی کے ایسے مراکز کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری کارروائی کرنی چاہئے اور دہشت گردی کے ان مراکز کو فی الفور بند کر دینا چاہئے، تاکہ بچوں اور نوجوان نسل کو اس نظریاتی دہشت گردی سے بچایا جاسکے۔

 

وحدت نیوز: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان اعلان کرچکا ہے کہ وہ یمن کے مسئلے میں غیر جابندار رہتے ہوئے یمن اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریگا، لیکن پھر بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں، اور تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت عوامی رائے عامہ اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردار کے برعکس افواج پاکستان پر سعودی حمایت میں یمن جنگ میں کودنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے، کیا کہیں ان سب کے حوالے سے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی گئی وہ قابل ستائش ہے اور یہ قرارداد نواز حکومت کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی، شاید نواز شریف صاحب سمجھ رہے تھے کہ جس طرح گذشتہ سال تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے انکی حکومت بچانے کیلئے آنکھیں بند کرکے انکا ساتھ دیا تھا، شاید یمن کے مسئلہ پر بھی انکا ساتھ دیں گی۔ جہاں تک بات ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دباؤ کی تو یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی صرف فضاء سے ہی نہتے اور بے گناہوں پر بم برسا سکتے ہیں، زمینی جنگ لڑنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انکے پاس وہ حوصلہ و بہادری و جذبہ بھی نہیں، جس کی زمینی جنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب سمجھ رہا تھا کہ مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر حملے کا ڈرامہ کرکے وہ باآسانی پاکستانی فوج کرائے پر حاصل کرلے گا، لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو پایا تو سعودی وزیر کے دورے، اچانک امام کعبہ کا پاکستان آجانا اور پاکستان میں سعودی ریالوں پر پلنے اور چلنے والے مدارس کے ساتھ ساتھ تکفیری تنظیوں سے ملاقاتیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب جنہیں دہایوں سے پال رہا تھا، اب ان سے نمک حلال کرنے کا تقاضا کر رہا ہے، جس کا اندازہ آپ نے گذشتہ دنوں مدارس کے طلبہ کی جانب سے نکالی جانیوالی ریلی سے لگا لیا ہوگا۔

 

دوسری طرف پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ہوشمندی و عقل مندی بھی نواز شریف کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن سعودی عرب جا کر نواز شریف کا سعودی بادشاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا اور تکفیری دہشتگرد تنظیموں سے سعودی عرب کے حق میں بیانات دلوانا میرے خیال میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ ادھر یمن پر سعودی جارحیت کو 30 دن سے زائد ہوچکے ہیں، سعودی عرب نے سوائے معصوم اور بے گناہوں کو خون میں غلطاں کرنے کے علاوہ کیا کیا؟ کیا یمن سے کسی نے سعودی عرب پر کوئی ایک پتھر بھی مارا؟ میرے خیال میں سعودی عرب کے جارحانہ عزائم اب سب کے سامنے کھل کر آچکے ہیں، یعنی اب تو کسی قسم کا ابہام بھی باقی نہیں رہ گیا کہ سعودی عرب نے یمن پر یک طرفہ جارحیت کی ہے اور ایسی صورت میں سعودی عرب فوج بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف شریف خاندان نے جو اتنے سال سعودی بادشاہ کے مہمان بن کر شاہی محل میں گزاریں ہیں، تو اس کی نمک حلالی کا سعودی تقاضا تو ہوگا اور شخصی احسانات و مفادات کی خاطر پاکستانی فوج کو جنگ کی آگ میں دھکیلنا، کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ شہر قائد میں پروفیسر وحید الرحمان (یاسررضوی) کی ٹارگٹ کلنگ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے گزشتہ 3روز میں ٹارگٹ کلنگ کا جن بوتل سے باہر آگیا جوکہ حکومت و ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، دہشتگرد بلااستثناء سنی شیعہ مسلمانوں کو مار رہے ہیں،اس قبل جامعہ کراچی کے عظیم استاد ڈاکٹر شکیل اوج کو اور شہر میں پروفیسر سبط جعفر ،تقی ہادی سمیت دیگر اہم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے مقابلے میں ریاستی رٹ ہمیں نظر نہیں آتی،مزمت کرتے ہیں ریاستی اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی اور اکیسویں ترمیم اور قومی ایکشن پلان کی روح کے مطابق تمام ملک دشمن دہشتگردا ور شرپسند عناصر کیخلاف بھرپور کارروائی کرنی ہوگی، عوام کو شعور و آگہی دینا اہل علم و دانش کی ذمہ داری ہے، میڈیا و مساجد کی ذمہ داری ہے، سارے طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے کو بحرانوں سے نکالنے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل کراچی میں الصالحین پاکستان (کراچی) کے زیر اہتمام شعور و آگہی سیمینار بعنوان اسلام دین معاشرت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 

سیمینار سے جمعیت علمائے پاکستان کراچی کے صدر علامہ قاضی نورانی صدیقی، ایم ڈبلیو ایم کراچی کے رہنما علامہ احسان دانش و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ پروفیسر وحید الرحمان عرف یاسر رضوی کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جائے تو کس سے کیا جائے، آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ساتھ اکیسویں آئینی ترمیم کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمام دہشتگرد گرفتار یا مارے جا چکے ہوتے، معاشرے کو دہشتگردوں سے نجات مل چکی ہوتی، لیکن اس کے برعکس ابھی بھی دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ شکلیں انہوں نے بدلی ہوئی ہیں، ٹھکانے انہوں نے بدلے ہوئے ہیں، اور یہ دہشتگرد بلااستثناء سنی شیعہ مسلمانوں کو مار رہے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں ریاستی رٹ ہمیں نظر نہیں آتی، یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور عوام کے انتہائی پریشان کن بھی ہے، یہ صورتحال کراچی سمیت ملک بھر میں نظر آتی ہے، لہٰذا ریاستی اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی اور اکیسویں آئینی ترمیم اور قومی ایکشن پلان کی روح کے مطابق تمام ملک دشمن دہشتگردا ور شرپسند عناصر کیخلاف بھرپور کاروائی کرنی ہوگی۔

 

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پانی بجلی کا مسئلہ ہو تو لوگ سڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر نکل آتے ہیں، لیکن وہ مسائل جو ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، اس پر پورا معاشرہ خاموش ہے، لہٰذا لوگوں کو کفر و شعور و آگہی دینے کی ضرورت ہے، ایسے ادارے اور نظام بنانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے لوگوں کو بیدار کیا جا سکے، خواب غفلت سے لوگوں کو جگایا جا سکے، تاکہ لوگ اجتماعی میدان میں نکل کر ہر طرح کی قربانیاں دینے کیلئے آمادہ نظر ہو سکیں، ہر خاص و عام کیلئے ضروری ہے کہ وہ ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دے تاکہ دہشتگردی سمیت تمام بحرانوں سے نمٹا جا سکے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree