وحدت نیوز(ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل قائد وحدت ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر پورے ملک کی طرح ڈسٹرکٹ ٹھٹھ میں بھی یوم انہدام جنت البقیع منایا گیا-مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماءکونسل کے تحت آل سعود کے مظالم کے خلاف 8 شوال یوم انھدام جنت البقيع ریلی شاھ نجف امام بارگاھ سے پریس کلب ٹھٹھ تک جہاں آل سعود کے مظالم پر احتجاج کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شبیہ الرضا زیدی اورسید عبدالحسین شاہ نے کہا ۸ شوال یوم انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے عالمی یوم احتجاج کے کا دن ہے۔ 8 شوال 1925 کو مدینہ طیبہ کے جنت البقیع اور مکہ معظمہ کے جنت المعلیٰ میں واقع اہل بیت رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے مقدس مزارات کو منہدم کرکے کروڑوں مسلمانوں کو غمزدہ کردیا گیا۔ آئمہ اہل البیت ؑ کے مقدس مزارات آج بھی کروڑوں انسانوں کی محبت اور عقیدت کا مرکز ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ آل رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے مزارات مقدسہ جلد دوبارہ تعمیر کئے جائیں۔
وحدت نیوز (گجرانوالہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع گجرانوالہ کا جانثاران امام عصر کنونشن مسجد حیدریہ نوشہرہ ورکاں میں منعقد ہوا جس میں تمام تحصیلوں کے یونٹس نمائندگان ، ضلعی کابینہ کے اراکین اور مقامی اہم شخصیات نے شرکت کی ۔
کنونشن میں صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا عبد الخالق اسدی صوبائی کابینہ کے اراکین رائے ناصر علی ، رانا ماجد علی نے خصوصی شرکت کی ۔
کنونشن میں کثرت رائے سے چوہدری عاشق حسین ورک کو آئندہ تین سال کے لیئے ضلع گجرانوالہ کا سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا ۔کنونشن سے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالخالق اسدی نے خطاب کیا اور نومنتخب سیکرٹری جنرل سے حلف لیا۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم انہدام جنت البقیع منایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سعودی عرب کی حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ جنت البقیع میں منہدم کئے گئے مزارت کی تعمیر کرے۔
انہوں نے کہا کہ آل سعود کا زوال شروع ہو چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب سعودی عرب میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آل سعود جنت البقیع کی تعمیر نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں اس کی اجازت دیں، پاکستان کے غیور اور محبان اہلبیت عوام اپنے پیسوں سے جنت البقیع کی تعمیر کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آل سعود کے محلات تو روشن ہیں جبکہ بنت رسول سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک ویران ہے۔ انہوں نے کہا کہ بقیع حرم نبوی (ص) کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے، بقیع کا قبرستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے، جو رسول اسلام کے حکم سے مسلمانوں کے ذریعے تاسیس کیا گیا، قبرستان بقیع، اسلام کے قدیمی ترین اور ابتدائی آثار میں سے ہے، یہ امت مسلمہ کا مطالبہ رہا ہے کہ جنت البقیع کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، ہم حکومت پاکستان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ جنت البقیع کی تعمیر نو کیلئے سفارتی سطح پر کوشیش کرے۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) ۸ شوال یوم انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے عالمی یوم احتجاج کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ مدینہ طیبہ کے جنت البقیع اور مکہ معظمہ کے جنت المعلیٰ میں واقع اہل بیت رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے مقدس مزارات کو منہدم کرکے کروڑوں مسلمانوں کو غمزدہ کردیا گیا، آئمہ اہل البیت ؑ کے مقدس مزارات آج بھی کروڑوں انسانوں کی محبت اور عقیدت کا مرکز ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ آل رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے مزارات مقدسہ جلد دوبارہ تعمیر کئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ آل سعود کے ہاتھوں ۴۴۳۱ ھ میں آٹھ شوال کے دن جنت البقیع اور جنت المعلیٰ کے مقدس مزارات منہدم کرکے عالم اسلام کو سوگوار کیا گیا۔جنت البقیع میں چار آئمہ اہلبیت ؑ اور دس ہزار صحابہ کرام ؓ مدفون ہیں۔ یوم انہدام جنت البقیع کو ہم اس ظلم و بربریت کے خلاف یوم سوگ اور یوم احتجاج کے طور پر منائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اولیائے کرام ؒکے مزارات کو تکفیری سوچ کے حامل گروہ سے خطرہ ہے، جنہوں نے ہر جگہ اولیائے کرام کے مزارات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اہل بیت اطہار ؑ اور اولیائے کرام کے مزارات تبلیغ دین اسلام اور ھدایت بشریت کا مرکز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی اپیل پر ۸ شوال کو ملک بھر میں یوم احتجاج منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ جلد ہی جنت البقیع اور جنت المعلیٰ دوبارہ تعمیر ہوگا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) علامہ راجہ ناصر عباس کی کال پر آج 12 جون چاروں صوبوں آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں یوم انہدام جنت البقیع پر احتجاجی مظاہرے ہونگے، 8شوال اسلامی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے آج کے دن مزارات اہلیبیت علیھم السلام انبیائے کرام علیھم السلام و صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مزارات کو منہدم کر کے عالم اسلام اور قلب رسول اللہ ص کو سوگوار کیاگیا۔
اسی دن کے مناسبت سے ملک بھر کی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایم ڈبلیو ایم ضلع اسلام آباد اور امامیہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن راولپنڈی ڈویژن کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر احتجاجی مظاہرہ کیا جارہاہے جس سے ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے۔
جنت البقیع حرم نبوی ص کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ جنت البقیع اہلبیتؑرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اصحاب کا مدفن ہے۔آل سعود کی انتہا پسندانہ سوچ نے عالم اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا آج اسی سوچ کیخلاف عالم اسلام اسلامی تشخص بچانے کے لئے برسر پیکار ہیں۔
احتجاجی مظاہروں کا مقصد یوم انہدام جنت البقیع کے المنا ک واقعے کے خلاف احتجاج کرنا اور یہ مطالبہ کرنا ہے کہ جنت البقیع کو دوبارہ تعمیر کیا جائے،اور انبیائے کرام، اہلیبیت اطہار علیھم السلام ازدواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مزارات کے تقدس کو بحال کیا جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) معاشرتی نظام اسلام میں انسانی تاریخ کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ جس سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہمارے درمیان سے تاریخ کو ہٹا دیا جائے تو ہمارے درمیان ایک ایسا زمانی اور مکانی خلا واقع ہو جائے گا ایک نسل سے دوسری نسل سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ ایسی صورت حال سے مستقبل کے درمیان کی مسافت طے کرنا ایک ناگزیر عمل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ انسان اپنے ماضی کے آثاروباقیات کے خط مستقیم سے ہی حال اور مستقبل کی مسافت کا تعین کرتا ہے۔خاص کر جب کوئی شخص کسی مذہب یا قوم کی تہذیب و ثقافت کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس قوم اور مذہب کے اتحاد کا ہی جائزہ لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی شخص کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کی سچائی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے لہذا اس زمین پر آباد ہونے والی قوموں کی سب سے بڑی وراثت ان کے ماضی کی تہذیب و ثقافت ہی ہوتی ہے۔
اگر کسی قوم یا مذہب کے وجود کو ختم کرنا مقصود ہو تو اس کے ماضی کے تمام آثار کو ختم کر دیا جائے تو وہ قوم خود بخود اپنی شناخت سے محروم ہو جائے گی۔اسلام کی سب سے بڑی شناخت اس کے ماضی کی تاریخ کے دامن میں موجود اس کے آثاروباقیات ہیں۔ جس کی وجہ سے آج عالمی سطح پر اسلام کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ عالمی استعمار کی سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ اسلام کی اس عظیم الشان تاریخ کو اس طریقه سے مسخ کر دیا جائے کہ آنے والی نسلیں اپنی اصل پہچان سے محروم ہوجائیں۔ موجوده عهد میں مشرقی وسطیٰ میں برپا ہونے والی جنگ استعماری طاقتوں کے مختلف سیاسی و سماجی مقاصد کے حصول کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ اسلام کے مقدس آثار و شعائر کو ختم کردیا جائے۔ اسلام دشمنوں کا یہ وہ درینہ خواب ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں مستقل شکست آمیز ذلت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ ابتدائے اسلام سے ہی مسلمان سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بنے ر ہے اور ان استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو اسلام کے خلاف کھڑا کردیااور اسلام اور مسلمان دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ مزاحم رہے۔
تاریخی پس منظر
تاریخ میں بقیع کے انہدام کا ذکر دو بار ملتا ہے۔ پہلی بار اس مذموم سازش کا ارتکاب سن 1803 میں ہوا جب وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کی غرض سے حملہ کیا۔ ان کا لشکر طائف کو فتح کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بڑھا اور وہاں کے مقدسات و گنبد کو گرادیا۔ ان میں وہ گنبد بھی شامل تھا جو زم زم کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا۔ سن 1805 میں اس فعل کو دہراتے ہوئے مدینہ منورہ کی مساجد بشمول جنت البقیع کو منہدم کیا گیا۔قریب تھا کہ روزہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گرا دیا جاتا۔لیکن خوش قسمتی سے یہ سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بقیع کی تمام قبور کی اونچائی اور نشانات کو ختم کر دیا گیا۔ اور زیارت قبور پر آنے والے زائرین کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی۔
مسلمان مکہ ومدینہ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے خلافت عثمانیہ کے قیام کی حمایت کی اور محمد علی پاشا نے حملہ کر کے مکہ اور مدینہ پر قبضہ حاصل کر لیا۔ سن1818 میں عثمان خلیفہ عبد المجید اور عبدالحمید نے تمام مقامات مقدسہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا اور یہ سلسلہ سن 1860 تک جاری رہا۔
مغربی طاقتوں کی ایماء پر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔اس مرتبہ بھی انہوں نے روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان جنت المعلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آبائی گھر کو بھی گرا دیا۔ اس قبیع فعل کے ردعمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ متحدہ ہندوستان میں آل سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران ,عراق , مصر , انڈونیشیا , افغانستان اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں جن محترم بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ,حضرت خدیجہ بنت خویلد حضرت ,ابو طالب علیہ السلام اور, حضرت عبد المطلب علیہ السّلام شامل ہیں۔جبل اوحد پر حضرت حمزہ علیہ السلام اور دوسرے شہداء اور جدہ میں حضرت بی بی حوا کی قبریں بھی آل سعود کے عقیدے کا نشانہ بنیں۔ اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی گرا دیئے گئے جن میں حضرت علی علیہ السلام سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت حمزہ علیہ السلام کے گھر شامل ہیں۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔ فرزند رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام ازواج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا حضرت ام البنین سلام اللہ علیها حضرت حلیمہ سعدیہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے صحابہ کرام کی قبور کی انچائی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ موجودہ جنت البقیع میں قبریں دور سے مٹی کے ٹیلے دکھائی دیتی ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیوں کہ آج بھی حجاز{ سعودی عرب} پر آل سعود قابض ہیں۔
آل سعود کی سرپرستی میں مقدسات کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ حج و عمرہ کی کمائی سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیاد حجاج کرام اور زائرین کو رہائش فراہم کرنے کی غرض سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے آس پاس تعمیرات جاری ہیں۔ دور نبوی کے کنویں اور پل ختم کر دیے گئے ہیں۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے گھر کی جگہ مکہ ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے۔ دیگر صحابہ کرام اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو گرا کر ہوٹلز کو تعمیر کیا گیا ہے۔ جن کی آمدنی سے سعودی حکمران امریکہ سےمزید ہتھیار خرید سکیں آل سعود نے مکہ مکرمہ کو اقوام متحدہ کے ادارے کو تاریخی ورثہ عمارات میں بھی اسی وجہ سے شامل نہیں کیا تاکہ دنیا کو پتہ نہ چل سکے یہاں کے تاریخی مقامات کو کتنی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔
موجودہ دور میں ایک بار پھر دنیا نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیا کہ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ٹکڑوں پر پلنے والی دہشت گرد تنظیموں نے وہی عمل انجام دیا جو آل سعود نے اپنے حکومت کے قیام کے بعد دیا تھا۔ شام اور عراق میں موجود عالم اسلام کی بزرگ شخصیتوں کے مزارات کو کس طرح سے داعش اور جبہۃ النصرہ جیسی تنظیموں نے شرک وبدعات کے نام پر شہید کیا۔ کسی سے پوشیدہ نہیں یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی جناب حجر بن عدی کی قبر کو توڑ کر ان کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی۔ ایسا جرم کوئی قوم اپنے اکابرین اور بزرگ ہستیوں کے ساتھ نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ کچھ سلفی دہشت گردوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر جو کربلا میں موجود ہے اسے توڑنے کی کوشش کی لیکن انہیں بری طرح ذلت اور شخص کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس طرح کے غیر اسلامی کام صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں انجام دیئے جا رہے ہیں۔یہ کون سے مسلمان ہیں اور ان کا کیسا اسلام ہے۔ جو اس طرح کے اخلاقی اور غیر اسلامی فعل کو انجام دینے میں ایک لمحہ بھی انتظار نہیں کرتے۔ انہیں دنیا کے دیگر قوموں سے سبق لینا چاہیے کہ وہ اپنے عظیم لوگوں کی یادگار کا کس طرح تحفظ کرتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ آنے والی نسلیں یہ دیکھ کر اپنی قوم پر فخر کر سکیں جن کی قوم میں ان عظیم ہستیوں نے جنم لیا تھا۔ جو آج ہمارے لیے فخر کا مقام ہے۔ اس لیے کہ اگر ساری قومیں اپنے بزرگوں کے آثار اور ان کے کارناموں کو فراموش کردیں گی تو ان کا نام تاریخ سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ عالم اسلام میں گزرنے والی عظیم ہستیوں کے آثاروباقیات کا تحفظ کریں۔ اور ان کے نشانات کو محفوظ کریں جنھیں ساری طاقتیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو آنے والی نسلیں اپنے ماضی کی ان عظیم باقیات و آثار سے محروم ہوجائیں گی۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیر عباس جٹ
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.