وحدت نیوز(مظفرآباد) سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی حملہ کیس کے حوالے سے بنائی گئی ایکشن کمیٹی کے وفد کی چیئرمین کمیٹی علامہ سید فرید عباس نقوی کی سربراہی میں کمشنر مظفرآباد ڈویژن, ڈپٹی کمشنر مظفرآباد اور دیگر اعلیٰ عہدہ داران سے ملاقاتیں۔
ملاقات میں کمشنر مظفرآباد چوہدری امتیاز نےملت جغفریہ سے پر امن رہنے اور ریاست کے ساتھ ہمیشہ اچھے برتاؤ پر داد تحسین دیتے ہوۓ کہا کہ ملت جعفریہ کو اب زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ہم بہت جلد حملہ آوروں کی گرفتاری سمیت جملہ مسائل کے حل کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ JITکی رپورٹ بھی منگوا رہے ہیں اس پر بھی بریفنگ دیں گے۔
اس سے قبل علامہ فرید عباس نقوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ریاست کے ساتھ ہمیشہ بھرپور تعاون کیا ہے چاہے سانحہ 2009ہو یا علامہ تصور نقوی اور ان کی اہلیہ پر جان لیوا حملہ ہو اب ہم تھک چکے ہیں اب ہماری قوم و ملت کے لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں انہیں دینے کے لیے ہمارے پاس جواب نہیں ہے۔
علامہ فرید نقوی نے مزید کہا کہ نہ تو علامہ تصور نقوی کے حملہ آورتاحال گرفتار ہو سکے اور نہ ہی وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے علامہ تصور نقوی کے گھر جا کر جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہو سکے.ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین طالب ہمدانی نے کہا کہ ہمیں مرکز اور عوام کی طرف سے اس معاملہ پر بہت زیادہ پریشر ہے۔اگر یہ معاملہ یہاں حل نہیں ہو سکتا تو ہم پاکستان بھر میں اور پورے آزادکشمیر میں احتجاجی تحریک کا سلسلہ شروع کریں گے۔
ہماری خواہش ہےکہ آزاد ریاست کے لوگ مل کر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی آزادی اور مشکلات کم کرنے کے لیے جدوجہد کریں.لہذا ہم یقین رکھتے ہیں پہلے کی طرح صرف تسلیاں ہی نہیں دی جائیں گی.وفد میں مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیرکےسیکرٹری تنظیم سازی سید فدا حسین نقوی,سیکرٹری روابط سید عامر علی نقوی,سیکرٹری جنرل ضلع مظفرآباد سید غفران علی کاظمی و سید ممتاز حسین نقوی ایڈوکیٹ شامل تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)سنہ 2018ء میں صدی کی ڈیل کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر مقالہ جات اور رپورٹس نشر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی صدر نے اس ڈیل کے تحت مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے شہر یروشلم کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے ڈالا
حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں میڈیا کے سامنے ایک امن منصوبہ کا اعلان کیا ہے جس کو مغربی ذرائع ابلاغ پر مغربی ایشیاء کے لئے امن پلان کا نام دے کر تشہیرکی گئی۔در اصل یہ امن پلان کیا ہے؟ کیا واقعی یہ کوئی امن کا پلان ہے؟ یا فقط نام نہاد امن ہے؟۔اس طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو دنیا بھرکے سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم سوشل میڈیا پر اٹھا رہے ہیں۔
اس طرح کے متعدد سوالات اس لے بھی جنم لے رہے ہیں کہ امریکی صدر نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلہ کو امن منصوبہ کا نام دیا ہے۔
حقیقت میں یہ امن منصوبہ کسی طرح ہو ہی نہیں سکتا۔
جس خطہ کی بات امریکی صدر ٹرمپ نے کی ہے یہاں تو پہلے ہی امریکی حکومت دہشتگردی کا بازار گرم کر چکی ہے اور اب امن کی کیسی باتیں ہیں یہ؟ اس نام نہاد امن منصوبہ میں جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سامنے آئی ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی حکام کا صہیونیوں کو خوش کرنے کا پلان ہے کہ جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہاہے۔
صدی کی ڈیل کا نام سننے والے یا پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔دراصل سنہ2017ء کے آخری ایام میں ہی اس ڈیل کا تصور سامنے آنا شروع ہو گیا تھا جب امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر نے یورپ سمیت عرب ممالک کے دورہ جات کئے اور حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب امریکہ صدی کی ڈیل کا اعلان کرے تو اس وقت یور پ سمیت عرب ممالک سے بھی اس کی حمایت میں آواز بلند ہونی چاہئیے۔
سنہ 2018ء میں صدی کی ڈیل کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر مقالہ جات اور رپورٹس نشر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکی صدر نے اس ڈیل کے تحت مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے شہر یروشلم کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے ڈالا۔ امریکی صدر کے اس احمقانہ اعلان کے بعد دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک نے امریکی اقدامات کی شدید مذمت کی اور اس اعلان کو مسترد کیا۔
یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اس کو مسترد کیا تھا۔البتہ امریکہ کے کچھ عرب اتحادیوں نے اس اعلان کی حمایت میں ڈھکی چھپی بات کرتے ہوئے القدس شہر کی تقسیم کی بات کی تھی تاہم فلسطینی باشندوں نے فلسطین کے اندر اور باہر ہر جگہ اس اعلان کی مخالفت کی اور اسے صدی کی ڈیل کا حصہ قررار دیا تھا۔بعد ازاں امریکی صدر نے اپنی حماقت کو مزید جہالت میں بدلنے کے لئے امریکی سفارتخانہ کو القدس شہر میں منتقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ شہر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بن جائے گا۔
لیکن دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف احتجاج اور فلسطینیوں کی مزاحمت نے اس مقصد کو بھی کافی حد تک ناکام بنائے رکھا ہے۔
آئیے اب ذراامریکی صدر کی ایک اور حماقت یعنی نام نہاد امن منصوبہ کی بات کر تے ہیں۔امن کی بات امریکی صدور کی زبان سے عجیب سی محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ دنیا بھرمیں جہا ں کہیں بھی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ہر طرف امریکی سامراج کی شیطانی چالوں اور دہشت گردانہ عزائم ہی نظر آتے ہیں۔
عراق، افغانستان، ویت نام، ہیروشیما، ناگا ساکی، ماضی میں پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ، لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ امریکی حکومت کا تعصبانہ رویہ، کوریا کے ساتھ بدمعاشی، ایران کے خلاف امریکہ کی معاشی دہشت گردی سمیت فلسطینیوں پر ہونے والے صہیونی مظالم کے لئے اسرائیل کو امریکی ایندھن کی فراہمی اور حال ہی میں بغداد ائیر پورٹ پر ایران کے ایک مایہ ناز جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی فورسز کے اعلی کمانڈر ابو مہدی کو دہشت گردانہ کاروائی میں شہید کیا جانا،مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی حکومت کی ریاستی دہشت گردی پر امریکی امن کے پلان کی آنکھیں تاحال بند کی بند ہیں۔
عرب دنیا کے ممالک کو بلیک میل کر کے امریکی حکومت ان کے وسائل کو ہڑپ کر رہی ہے، داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بنا کر امریکہ نے دنیا میں کون سا امن قائم کیا ہے؟ یہ سب کی سب باتیں امریکہ کے دہشت گردانہ عزائم کی کھلی عکاسی کرتی ہیں اور یہی وجہ ہیکہ دنیا امریکی صدر کی زبان سے امن امن کی بات سن کر یقین کرنے سے قاصر ہیں۔آدھی سے زیادہ دنیا میں امریکی حکومت کی بدمعاشیوں سے دنیا کے انسان امریکہ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔
کیا ایسے حالات میں کہ جب ہر طرف دہشت گردی کی جڑیں امریکی حکومت کے ساتھ مل رہی ہوں کوئی ذی شعور اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ امریکی صدر کی زبان سے امن پلا ن کا اعلان کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اٹھائیس جنوری کو اعلان ہونے والے امریکہ کے نام نہاد امن پلان کو شدید مزاحمت اور تنقید کا سامنا ہے اور حقیقت میں یہ پلان اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے ترتیب دیا گیا ہے جو کہ کسی صورت قابل عمل نہیں ہو پائے گا۔
امریکہ کے امن منصوبہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکی نام نہاد امن پلان حماقت اور خباثت پر مبنی ہے جس کا مقصد ایک طرف مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کی جعلی ریاست کا تحفظ ہے تو دوسری طرف غرب ایشیائی ممالک سمیت جنوب ایشیائی ممالک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔امریکی صدر کا یہ نام نہاد امن منصوبہ نہ تو انکی زندگی میں کبھی عملی جامہ پہن سکتا ہے او ر نہ ہی ان کے موت کے بعد کبھی عملی ہو پائے گاکیونکہ حقیقت میں امریکہ نے امن کے نام پر دنیا کے کئی ممالک کی تباہی کا منصوبہ تشکیل دیا ہے جو فلسطین کی مقدس سرزمین کے بعد دیگر ممالک سے منسلک ہے۔
بہر حال غرب ایشیائی ممالک کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ امریکی صدر ایک کے بعد ایک حماقت کر کے صرف اور صرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں بھی ان کو دوبارہ صدر منتخب کیا جائے جو کہ حماقت در حماقت ہے۔
مبصرین کاکہنا ہے کہ امریکی صدر کا نام نہاد امن پلان جن ممالک کے بارے میں پیش کیا گیا ہے وہ اس لئے بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ امریکی صدر نے فقط صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیرا عظم نیتن یاہو کے ساتھ اس پلان کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر ممالک اس منصوبہ کا حصہ ہی نہیں ہیں۔
تاہم یہ نام نہاد امن منصوبہ اپنی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے غرب ایشیائی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک میں امریکی منصوبوں کو تیزی سے شکست کا سامنا ہو رہاہے۔عین الاسد پر ایران کا حملہ ہو یا پھر امریکی جہاز کا افغانستان میں پراسرار انداز میں گرادیا جانا ہو اس طرح کے متعدد واقعات اور خاص طور پر عراق اور شام میں امریکی حمایت یافتہ گروہ داعش کا خاتمہ سب کے سب امریکی شکست کے پنے ہیں اور اس شکست کو چھپانے کے لئے دنیا کے سامنے امریکی حکام نت نئی چالوں اور بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں اور حالیہ نام نہاد امن منصوبہ بھی امریکی حکام کی جانب سے دنیامیں اپی متعدد شکستوں کی پردہ پوشی کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
یہی اصل میں امریکی نام نہاد امن منصوبہ کی حقیقت بھی ہے۔
تحریر: صابرابومریم
وحدت نیوز(ڈیرہ اللہ یار) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی اور صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری نے ڈیرہ اللہ یار بلوچستان میں سید شبیر علی شاہ کاظمی کے فرزند کی سنت اور رضا آباد میں ظہیر حسین انڑ کی شادی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقعہ پر ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید گلزار علی شاہ ،غلام حسین شیخ ،جمعہ خان ،شمن علی حیدری ،سید کامران شاہ و دیگر موجود تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نکاح سنت موکدہ اور نسل انسانی کی بقاء کا سبب ہے۔ پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لئے نکاح کو آسان بنانا ہوگا۔ جہیز اور شادی کی تقریبات میں موجود فضول اور غیر شرعی رسومات کو ختم کرنا ہوگا۔
انہوں نےکہا کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تعجب ہے کہ کچھ لوگ بچیوں کے گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں آج ایک ہندو لڑکی کے اس عمل پر معترض ہیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں کہاکہ یہ خبر سن کر دلی صدمے سے دوچار ہوا ہوں کہ ٹریفک حادثہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ہمارے انتہائی ہردل عزیز ایم ڈبلیو ایم کے رہنما آقائے نشان حیدرکے چار بھتیجے زخمی ہوگئے جن میں سے ایک بھتیجا داعی اجل کو لبیک کہہ گیا، دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آقائے نشان علی اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے(الٰہی آمین) ، مومنین و منات سے زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی اپیل ہے۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) سیرت علی نجات بشریت کے عنوان سے اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کا ڈویژنل اجلاس اھل البیت ؑپبلک اسکول جیکب آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی درسی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے امام علی علیہ السلام کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں نجات بشریت کا پیغام ہے آپ نے اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کی۔ امام علی ع نے اقدار اور اصولوں کی خاطر کرسی اور اقتدار کو ٹھکرادیا۔
انہوں نےکہا کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو سیرت نبوی ص اور سیرت علوی سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ریاست مدینہ کا درس یہ ہے کہ بیت المال کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہئے حکمرانوں کی آسائش اور عیاشی پر نہیں۔انہوں نےکہا کہ وطن عزیز پاکستان قدرتی وسائل اور مختلف نعمتوں سے مالا مال ہے مگر صالح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا ریاست مدینہ کا بنیادی اصول یہی ہے کہ منصب اور عہدے ذاتی تعلق اور رشتوں پر نہیں بلکہ اھلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ملیں گے۔ انہوں نےکہا کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو ممتاز علماء اور مفکرین کی رہنمائی میں سیرت نبوی اور سیرت علوی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاکہ کھوکھلے نعروں سے نکل کر ریاست مدینہ کی حقیقی تصویر قائم کی جا سکے۔
وحدت نیوز(مقدس مقدس) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے امام رضا (ع) کے روضے پر تولیت آستان قدس رضوی کے سربراہ حجت الاسلام احمد مروی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔
ایرانی کےتاریخی شہر مشہد مقدس کے دورے پر آئے ہوئے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے پیر کے روز علامہ "احمد مروی" کے ساتھ ملاقات کی۔
علامہ مروی نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی آرزوتھی کہ امریکہ، ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اور رجعت پسندوں کے ذریعہ بنائی جانے والی داعش کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ غلط فہمی کا شکار تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ساتھ مزاحمت کی راہ کو بند کردے گا مگر اس واقعے کے بعد مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد بڑھ گیا۔
علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ شہید قاسم سلیمانی سردار لشکر اسلام تھے، ان کی شہادت نے مقاومتی محاذ کو پہلے سے زیادہ مضبوط ومستحکم کردیا ہے ۔
انہوںنے مزید کہاکہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے دنیا بھر کے غیور مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کردیا ہے، شہید کا پاکیزہ لہو امت مسلمہ کے درمیان اتحاد ویکجہتی کا باعث بنا ہے جس کے ثمرات ہم نے پاکستان میں بھی ملاحظہ کیئے ۔
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے تولیت آستان قدس رضوی کی جانب سے پاکستانی زائرین کے لئے فراہم کی جانے والی سہولیات کی تعریف کی۔