وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کی تجویز پر 25رجب المرجب یوم شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ملک گیر یوم اسیران ملت جعفریہ منانے کا اعلان کردیاہے ۔
مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہاکہ ملک بھر سے لاپتہ شیعہ جبری گمشدگان کی بازیابی کیلئےاس سال 25رجب المرجب 1441ہجری کو آفتاب امامت کے ساتویں تاجدار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقع پر ملک بھرمیں یوم اسیران ملت جعفریہ منایاجائے گا۔
انہوںنے تمام مرکزی، صوبائی اور ضلعی عہدیداران کو ہدایت کی کہ اس روزاسیران ملت جعفریہ کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا،آئینی وقانونی جدوجہد وجاری رکھنے کا عزم کیاجائے گا، ملک بھرمیں خانوادہ اسیران ملت جعفریہ کے ساتھ ملاقاتیں کرکے ان کے ساتھ مکمل تعاون کااظہار کیا جائے گاجبکہ اس اہم ایشو پر قانونی، آئینی وعوامی سطح پر ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔
دوسری جانب انہوں نے آج طور عرصے سے لاپتہ شیعہ مسنگ پرسنز انجینئر ممتاز حسین رضوی، ذوالفقار شہانی، مرید عباس یزدانی اوڈاکٹر احسن اشفاق کی باحفاظت بازیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئےخدا وند متعال اور آئمہ اہل بیت ؑ سے اظہار تشکر کیاہے اور پوری ملت جعفریہ کو مبارک باد پیش کی ہے ، انہوںنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انشاءاللہ آخری بے گناہ اسیر کی بازیابی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطین کے باہمت عوام نے صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کا ہمیشہ مقابلہ کیا ہے اور اپنی استقامت اور مزاحمت سے مسئلہ فلسطین کو نابود ہونے سے بچایا ہے۔فلسطینیوں کی مزاحمت ہی ہے کہ جس کا آغاز پتھروں سے شروع ہوا اور آج کے زمانے میں فلسطینی مزاحمت غاصب صہیونیوں کے مقابلے میں میزائل اور ڈرون حملوں کو کامیابی سے انجام دے رہے ہیں۔اسرائیل جس کے لئے برطانوی استعمار نے سنہ1917ء میں بالفور اعلامیہ کے تحت فلسطین کی زمین پر قبضہ جمانے کی سازش تیار کی تھی اور سنہ1948ء میں فلسطین کی ارض مقدس پر صہیونیوں کے لئے جعلی ریاست بعنوان اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
فلسطینی عوام نے اسرائیل کے قیام سے قبل کی جانے والی تمام تر صہیونیوں کی کوششوں کے مقابلہ میں مزاحمت کی اور سینہ سپر رہے اور عالمی فورم پر ہونے والی ہر قسم کی نا انصافی پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔مسئلہ فلسطین سنہ67ء اور پھر سنہ73ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے بعد نابودی کا شکار ہو نا شروع ہو چکا تھا۔ مصر جو اس زمانے میں عرب اسرائیل جنگ میں عرب دنیا کی قیادت کر رہا تھا اور فلسطینیوں کے لئے ایک ڈھارس بنا ہو ا تھا کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شامل ہونے کے بعد فلسطین کی حمایت سے رفتہ رفتہ دور ہوتا چلا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایک طرف اردن میں فلسطینیوں کے لئے مشکلات تھیں تو دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کی آباد کاری بھی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور غاصب اسرائیل اپنے دیرنہ مقصد یعنی گریٹر اسرائیل (عظیم تر اسرائیل) کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھا اور اسرائیل کے صہیونی یہ چاہتے تھے کہ صہیونیوں کی اس جعلی ریاست اسرائیل کی سرحدوں کی وسعت نیل کے ساحل سے فرات تک کھینچ دی جائے۔یہ ایک ایسے زمانے کی شروعات تھی کہ عرب دنیا میں اور خاص طور پر فلسطینی عربوں میں مصر کی جانب سے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شمولیت کی وجہ سے مایوسی کے بادل چھا گئے تھے۔
ایسے حالات میں فلسطین کی آزادی کی ایک اور کرن ایرا ن میں اسلامی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوئی اور اس انقلاب کے بانی حضرت آیت اللہ امام خمینی ؒ نے فلسطین کے لئے بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور ایران میں اسرائیل کے سفارت خانہ کو فلسطینی سفارت خانہ میں بدلنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کی ہر سطح پر مدد کرنے کا اعلان کیا اور عملی طور پر اس مدد کو انجام دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فلسطینی عوام کی مزاحمت کمزور ہو چکی تھی اور اسرائیل طاقت کے نشے میں مست ایک بد مست ہاتھی کی طرح علاقے کے ممالک میں در اندازی کر رہا تھا اور اپنے عظیم تر اسرائیل کے منصوبہ کو تکمیل کے خواب کی کوششوں میں مصروف عمل تھا۔ان حالات میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت نے از سر نو جد وجہد کا آغاز کر دیا، لبنان میں اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کے خلاف اپنی کاروائیوں کا آغاز کر دیا، شام نے فلسطین کی حمایت میں کھڑے ہو کر صہیونیوں کو بہت بڑا جھٹکا پہنچایا۔ان حالات کے نتیجہ میں اسرائیل لبنان سے فرار ہونے پر مجبور ہوا، فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کے وجود نے امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔حالات اس ڈگر پر آن پہنچے ہیں کہ آج غرب ایشیائی ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کی پہلی جیسی قوت باقی نہیں رہی ہے۔
آج فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اسرائیل چند گھنٹوں سے زیادہ فلسطینی مزاحمت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہاہے، حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کو اس قدر گھٹنوں پر ٹیکا دیا ہے کہ حزب اللہ جب اور جہاں چاہتی ہے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی قابض افواج پر نشانہ وار حملہ کرتی ہے اور اسرائیل اس قابل نہیں کہ اپنا دفاع بھی کر سکے۔آج فلسطینی عوام کی جد وجہد پہلے سے کئی گنا تیز ہو چکی ہے، یہ فلسطینیوں کی ایک سو سالہ جد وجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں عالمی شیطانی قوتوں کو فلسطینیوں کے سامنے شکست کا سامنا ہے۔امریکی صدر نے فلسطین سے متعلق صدی کی ڈیل کا اعلان کیا ہے تاہم فلسطینیوں نے صدی کی ڈیل کو اپنی مزاحمت سے ناکام بنا دیا ہے۔آج امریکی حکومت اسرائیل کی غاصب حکومت کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر اپنے فیصلے تھونپنا چاہتی ہے لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت کے باعث امریکہ اور اسرائیل کو ناکامی کا سامنا ہے۔ امریکی حکام اس قدر بوکھلا ہٹ کا شکار ہیں کہ دوسرے ممالک میں دوسرے ملکوں کو فوجی افسران پر حملے کرکے انہیں قتل کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال حال ہی میں امریکی صدر کے احکامات پر بغداد میں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کو شہید کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی و صہیونی سازشوں کے مقابلہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کا مرکز و محور فلسطین ہے۔فلسطین کی آزادی کے لئے جاری جد وجہد ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے اور اس عنوان سے خود صہیونی تجزیہ نگاروں نے بھی اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل عنقریب دنیا کے نقشہ سے محو ہو جائے گا اور فلسطین کی آزادی حتمی ہے۔ اسرائیل میں ایک نامور مورخ اور پروفیسر بنی موریس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں اور مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے فلسطینیوں کے حوصلوں میں روزانہ اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔دوسری طرف فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی کی صدا بلند کر رکھی ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ فلسطینیوں کو دنیا کا کوئی بھی قانون اپنے وطن فلسطین واپس آنے سے نہیں روک سکتا۔اسی طرح امریکی صدر کے منصوبہ صدی کی ڈیل پر بھی فلسطینی مجبور نہیں ہو رہے کہ وہ امریکی صدر کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سرزمین فلسطین دھیرے دھیرے خود بخود ان کے قبضہ میں واپس چلی جائے گی۔صرف انہیں ایک دو نسلوں تک صبر کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نابود ہو جائے گی۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی حتمی ہے اور اسرائیل کا زوال شروع ہو چکا ہے جو عنوریب اسرائیل کی نابودی اور دنیا کے نقشہ سے محو ہونے کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا اور یقینا خداوند کریم کا فیصلہ مظلوموں کی حمایت میں ہی ہے کہ مظلوموں کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(لاہور) یکم رجب اِمام محمد باقر(ع) کی ولادت با سعادت کے موقع پر امامبارگاہ احمد ہاؤس کیولری گراؤنڈ لاہور میں جشنِ ولادت اِمام (ع) منعقد کیا گیا۔ جشن کی تقریب سے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور محترمہ حنا تقوی نے خطاب کیا۔ امام محمد باقر (ع) کا قول نقل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صلہ رحمی (رشتہ داروں سے حسنِ سلوک) اعمال کو پاکیزہ کرتی ہے، مال کو بڑھاتی ہے، بلاؤں کو دُور کرتی ہے، عمر کو دراز کرتی ہے۔
محترمہ حنا تقوی کا کہنا تھا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایسے رہبروں کیساتھ وابستہ ہیں جو خدا کے پسندیدہ ترین بندے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیرت آئمہ پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیاں بھی کامیاب کر سکتے ہیں اور اپنی آخروی نجات کا سامان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
حنا تقوی کا کہنا تھا کہ یوم مادر کی تقریب میں گورنر پنجاب کی اہلیہ سمیت اہم خواتین نے شرکت کی اور تقریب میں سیرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پہلو اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین خواتین کی تربیت کیلئے کوشاں رہے گی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے امام محمد باقر علیہ سلام کی سیرت اور ماہ رجب کی فضیلت پر روشنی ڈالی۔ اس دوران سامعین و شرکائے جشن نے اُنہیں "یومِ مادر" کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور مجلس وحدتِ مسلمین شعبہ خواتین کی کاوشوں کو سراہا۔
وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ شاہراہ قراقرم کو ٹول بنا کر جی بی کے باسیوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ایک اغوا کار کی گرفتاری پر شاہراہ کو بلاک کر کے ایک کمیونٹی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والے شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
ایک بیان میں الیاس صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک مجرم کا دوسرے مجرم کی رہائی کیلئے کھلے عام لوگوں کو بغاوت پر اکسانا اور شاہراہ قراقرم کو بلاک کرنے نیز سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مجرم کی دھمکی آمیز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جبکہ پیمرا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہراہ قراقرم جی بی کے عوام کیلئے غیر محفوظ ہے، کبھی لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی گاڑیاں روک کر لوٹا جا رہا ہے اور اب تک درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں اور کسی واقعہ کے مجرموں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ جب کبھی ایسے مجرم قانون کے شکنجے میں آتے ہیں تو ان کے ساتھی گھیراؤ جلاؤ اور سنگین نتائج کی کھلے عام دھمکیاں دے کر بلیک میل کیا جاتا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک اغواکار جس نے غذر سے دو جوانوں کو اغوا کروایا جس کی گرفتاری پر شاہراہ قراقرم کو بند کر کے رہائی کا مطالبہ اور ایک کمیونٹی کا نام لیکر دھمکی دینا حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت فی الفور دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے۔
وحدت نیوز(جعفرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی اور صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری کی قیادت میں ایک وفد نے ایس ایس پی جعفر آباد سید علی آصف شاہ سے ملاقات کی۔ وفد میں سید احسان علی شاہ دوپاسی سید شبیر علی شاہ گلبہار ٹالانی و دیگر موجود تھے۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے سید علی آصف کو ممتاز عالم دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی اور علامہ شیخ محسن علی نجفی کے اردو ترجمہ پر مشتمل قرآن کریم کا تحفہ پیش کیا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ قرآن کریم کتاب ھدایت اور نجات ہے جس نے قرآن مجید کو اپنا رہبر و رہنما قرار دیا قرآن کریم اسے جنت تک پہنچائے گا۔ امت مسلمہ قرآن کریم پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں سربلند اور سرفراز ہو سکتی ہے۔اس موقع پر ضلع میں امن و امان سے متعلق چند امور زائرین کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان ہمیں جان سے بھی عزیز ہے اور یہ بہت سی منفرد خصوصیات کا حامل بھی ہے. بالخصوص اپنے محل وقوع ، باصلاحیت ومحنت کش 23 کروڑ عوام ، تجربہ کار ومضبوط آرمی و دفاعی پوزیشن اور ایٹمی طاقت ہونے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے. اس لئے ہمیشہ جارح استکباری طاقتیں اور خطے کے بعض مفاد پرست ممالک اس کے خلاف سازشوں کے خطرناک جال بُنتے رہتے ہیں. اور گذشتہ کئی دھائیوں سے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان متعدد بحرانوں کی لپیٹ میں آچکا ہے. جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہوکر اور اپنے قومی مفاد کو پہلی ترجیح قرار دیکر ان بحرانوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی اشد ضرورت ہے. ہمیں دنیا کی سپر پاورز ہوں یا خطے کے ممالک ان سب کی مداخلت اور نفوذ سے نجات حاصل کر کے دوطرفہ احترام، اپنے قومی مفاد وملکی وعوامی مصلحت و سلامتی واستقلال کی ضمانت کے ساتھ آبرومندانہ و متوازن تعلقات بنانے کی ضرورت ہے.
دانشور طبقے اور اہلِ اقتدار کو چاھیے کہ وہ دنیا بھر اور بالخصوص خطے کے بدلتے حالات سے ہر وقت آگاہ رہیں اور پاکستانی عوام کو بھی حقائق جیسے ہیں ویسے ہی بتائیں. تاکہ عام لوگوں کی سیاسی وفکری شعور کی سطح بلند ہو اور ہم ایک با شعور وآگاہ قوم بن کر کسی کے دھوکے میں نہ آئیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے. اور حکمرانوں کو بھی اجازت نہ دیں کہ وہ دوسروں کے وکیل بن کر انکے وسیع تر مفادات اور اپنے عارضی و گروہی و ذاتی مفادات کی خاطر وطنِ عزیز کو کسی نئے بحران کی دلدل میں دھکیل سکیں.
ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک ہے اور ہمیشہ سے ہمارے درمیان تعلقات برادرانہ اور دوستانہ رہے ہیں. بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ترکی، ملائشیا، ایران اور چین کا دو ٹوک موقف قابل قدر ہے. پاکستان کو چاھیے کہ اپنی سفارت کاری کو مزید بہتر بنا کر انڈیا واسرائیل کے علاوہ دنیا بھر کے تمام ممالک سے مسئلہ کشمیر پر حمایت و تائید حاصل کرنے کی مزید کوشش کرے. اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ پہلے سے بہتر اور متوازن دو طرفہ تعلقات قائم کرے.
پاکستانی میڈیا وسوشل میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے. اور کچھ بے بنیاد مواد بھی نشر ہوتا ہے. ہم نے گذشتہ کالم میں بغیر تحلیل وتجزیہ کے ” ترک اسرائیل تعلقات تاریخ کے آئینے میں” اس میں صرف ان حقائق کو بیان کیا جو ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں اور کوئی بھی محقق ان حقائق کو تلاش کرکے ان کی تصدیق کر سکتا ہے. انہیں بیان کرنے کا مقصد ہرگز ترکی کی مخالف نہیں بلکہ وہ حقائق جو ساری دنیا جانتی ہے ان سے اپنے ملک کے عوام کو بھی آگاہ کرنا ہے. اور قوم کو جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے بچانا ہے. تاکہ تعلقات شعوری طور پر آگے بڑھیںاور ترکی کیونکہ اس وقت یونان ، شام اور لیبیا کے ساتھ جنگ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہیں مسئلہ کشمیر کی حمایت کے بیان کے بدلے ہمیں کسی پرائی جنگ میں الجھا نہ دے. پھر چالیس سال بعد کہنا پڑے کہ ہم نے غلطی کی تھی.
سعودی وخلیجی شاہی خاندان ہمیں اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لئے امریکہ افغانستان میں اور اپنے شریک خلیجی ممالک ہمیں یمن وبحرین و اردن وغیرہ میں ٹریننگ ومعلومات کا تبادلہ ودیگر عسکری تعاون لیتے رہے ہیں. اور ہمیں کرائے کے قاتل کا لقب ملتا رہا ہے. جب ہماری جنگ ہوتی ہے تو ہم تنہا لڑتے ہیں اور امید بھی نہیں کہ اگر خدانخواستہ نئی جنگ چھڑ گئی تو کوئی ملک انڈیا کے مقابلے میں اپنے فوجی ماہرین یا ہمارے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے فوج بھیجے گا. ممکن ہے کوئی بیان ہمارے حق میں دیدے یا کوئی ہمیں قرض دیدے لیکن خون ہمیں خود ہی دینا ہوگا.
اس لئے ہمیں بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیں .جب گذشتہ صدی کے نوے کے عشرے کی ابتداء میں سوویت اتحاد ٹوٹا اور سویت یونین کے ممالک ٹکڑوں میں بٹ گئے اور امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا تو انقرہ کی سیاست میں بھی ایک نوعی تبدیلی آئی. ترکی امریکہ کا اتحادی تھا، ترکی نے بھی سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے اور اپنے نفوذ کو خطے میں بڑھانے کا فیصلہ کیا. ترک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ ، بلقان اور قوقاز کے ممالک پر انکا حق ہے. تو اس لئے اپنے ان توسیع پسندانہ عزائم کے لئے انہیں ایک طاقتور فوج کی ضرورت تھی.
امریکہ اور یورپ نے ترکی کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا. تو ان حالات میں ترکی کی نگاہیں اسرائیل پر پڑیں کہ جو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے.دوسری طرف اسرائیل کو بھی خطے میں ایک مضبوط شراکت دار کی ضرورت تھی. ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال نے ترکی کی تاریخ میں پہلی بار 1992 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دو ملکوں کے مابین سفراء کی سطح تک بڑھایا. 1994 میں اسرائیل کے صدر عزرا وایزمین نے انقرہ کا دورہ کیا جس کے بعد ترکی کی خاتون وزیراعظم تانسوچیلر نے تل ابیب کا دورہ کیا. اور دونوں ممالک کے مابین ” امن وسیکورٹی ” معاھدے پر دستخط ہوئے. تاکہ دونوں آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں اور ترک فضائیہ کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جائے.
1996 میں ترکی نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافے اور جدید ترین اسلحہ کی خریداری کے لئے بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا. اور پہلے دس سال کے لئے 25 سے 30 بلین ڈالرز بجٹ طے کیا، جس کی مقدار اگلے تیس سال تک کے لئے 150 بلین ڈالرز تک بڑھانا طے پایا۔ 26 اگست 1996 کو ترکی اور اسرائیل نے اسلحہ بنانے کے معاھدے پر دستخط کئےجس کے بعد اسرائیل نے ترکی کے 54 جنگی طیاروں کے برقی نظام کو اپ گریڈ کیا. اور اس پانچ سالہ ڈیل کی لاگت 800 ملین ڈالرز تھی. اسی طرح میزائل اور رے ڈار بنائے گئے جو ترکی نے عراق اور شام کی سرحد پر نصب کئے.
اسی طرح دور مار کرنے والے میزائل بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا جس کا بجٹ 150 ملین ڈالرز طے ہوا. اسرائیل کی جغرافیائی وسعت کم ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے ان معاہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی جنگی جہازوں کو پرواز کے لیے ترکی کی وسیع فضا استعمال کرنے کا موقع مل گیا. جس کے سبب وہ ایران کی قریب آزادانہ پرواز کرنے لگے. 1997 میں ترکی کے آرمی چیف اسماعیل حسین قرضای نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور عسکری تعلقات کو مزید فروغ ملا.
اپریل 1997 کو اسرائیلی وزیر خارجہ نے ترکی کا دورہ کیا جس کے جواب میں ترکی کے وزیر دفاع طوران طایان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اسی سال مئی میں پھر ترکی کے ڈپٹی آرمی چیف نے اسرائیل کا دورہ کیا.30 نومبر سے 4 دسمبر 1997 تک امریکہ، ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ ٹریننگ شروع ہوئی. اور طے پایا کہ یہ ہر سال ہوگی.
جون 2001 کو پھر امریکہ ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں جس میں ترکی کے 45 جنگی جہاز، اسرائیل کے 10 عدد F16 اور امریکہ کے 6 عدد F16 شامل ہوئے. 2002 جب رجب طیب اردگان کی پارٹی عدالت وترقی کی حکومت آئی تو ایک اسلامی چہرہ رکھنے والی اس پارٹی کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقتدار پر آتے ہی اسرائیل کے ساتھ سارے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کریں گے. اور حماس اور فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑے ہونگے.
لیکن اردوان نے اپنے اسلاف کے راستے کا ہی انتخاب کیا. اور اسرائیل کے ساتھ امن وسیکورٹی معاہدے کو جاری رکھا. اردگان ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کے دل جیتنے کے لئے کبھی کبھار انقلابی بیانات اور خطاب کرتا رہتا ہے. 2005 میں اردگان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور اسرائیل کے ساتھ 687.5 ملین ڈالرز کا سودا کیا. اور اسرائیل سے 170 M60A1 جنگی ٹینک خریدے. جنہیں اسرائیلی چلتا پھرتا قلعہ کہتے تھے . اور 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی تو حزب اللہ نے ایک دن میں اسی قسم کے 40 اسرائیلی ٹینک تباہ کئے تھے.
جاری ہے ۔۔۔۔۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
اگلی قسط میں ترکی کے نظامِ حکومت، ترکی کی داخلی سیاسی صورتحال اور اسکے بین الاقوامی کردار پر روشنی ڈالیں گے.