وحدت نیوز(جیکب آباد) اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان ضلع جیکب آباد کا اہم اجلاس AOP کے مرکزی صدر برادر نسیم عباس منتظری کی زیر صدارت جیکب آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے خصوصی طور پر شرکت کی اور خطاب کیا۔ اس موقعہ پر برادر نسیم عباس منتظری نے علامہ ڈومکی اے او پی کے 33 ویں سالانہ ناصران امام مہدی ع مرکزی کنونشن کا دعوت نامہ پیش کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ آج کے پرآشوب دور میں خط ولایت اور نظام امامت سے منسلک افراد خوش قسمت ہیں جو حق و صداقت کی راہ اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں امام خمینی رح نے انبیاء کرام اور آئمہ اھل البیت کی راہ کو اپنایا اور اس صراط مستقیم پر جہد مسلسل کے ذریعے باطل طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ا
نہوں نےکہا کہ سر زمین سندھ پر اصغریہ آرگنائزیشن نے نظام امامت اور ولایت کے مبلغ کا کردار ادا کیا، اصغریہ آرگنائزیشن کی جانب سے ناصران امام مہدی کنونشن کا انعقاد اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے ھادی دوراں حضرت امام زمانہ ع کے ظہور کی زمینہ سازی کرنی ہے۔انہوں نےکہا کہ نظام ولایت سے وابستہ تنظیمیں معاشرے میں اصلاح اور دینی اقدار کی ترویج کے لئے مصروف عمل ہیں۔
وحدت نیوز(ہٹیاں بالا) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ تصور حسین نقوی نےوفد کے ہمراہ نیلی مہاجرکیمپ کادورہ کیا اور آتشزدگی سے ھونے والے نقصانات کاجائزہ لیا اور متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا اس موقع پر اظھار خیال کرتے ھوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ واقع اللہ پاک کی طرف سے آزمائش ھے جس پر صبر شکر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ھم اپنے متاثرہ گھر کے لوگوں متولی مسجد سید مراد علی شاہ نقوی سید عابد نقوی مجاھد نقوی کے نقصان اور پریشانی میں برابر کے شریک ہیں رب کائنات کا شکر کہ قیمتی انسانی جانیں بچ گئی مالی نقصان بہت زیادہ ھے جسکا افسوس ہے۔
انہوں نے کہاکہ ھٹیاں بالا ضلعی انتظامیہ ریسکیو 1122 جہلم ویلی کے اہلکاروں نے گاڑی کی فنی خرابی کے باوجود سول سوسائٹی اور مقامی افراد کے ھمراہ ریسکیو آپریشن کیا انہیں تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے جو اللہ جانتاہے وہ کوئی نہیں جانتا اللہ کی ہر تدبیر اور فیصلے کے آگے انسان بے بس ھوتا ہے ریسکیو اھلکاران اور انتظامیہ کے لوگوں نے بروقت ایکشن کرکے بڑا انسانی المیہ رونما ھونے اور دیگر ملحقہ آبادی کو آتشزدگی سے بچانے کیلئے بہتر کاروائی کی۔
وفد میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم آزاد کشمیر طالب حسین ہمدانی سیکرٹری روابط سید عامر علی نقوی شامل تھے جبکہ اس موقع پر سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع جہلم ویلی سید عاطف حسین ہمدانی, سیکرٹری اطلاعات سید حسن علی, سید مراد علی نقوی, سید عابد نقوی,سید مجاہد نقوی,مولانا منیر حسین ہمدانی,نظر حسین شاہ,سینئیر صحافی خالد حسین ہمدانی, سید مبارک حسین نقوی ودیگر مقامی افراد بھی موجود تھے۔
اس کے بعد علامہ تصور نقوی نے دربار عالیہ سکندریہ ہٹیاں بالا پیر سکندر شاہ کاظمی رحمت اللہ علیہ کے پوتے سید حسین احمد مدنی کی وفات پر ان کے گھر جا کر ان کے بھائی سید شبیر حسین کاظمی سے تعزیت اور مرحوم کے لئیے فاتحہ خوانی کی۔جبکہ دربار سکندریہ پرحاضری کے دوران عالم اسلام کی سربلندی کشمیری مسلمانوں کی آزادی اور ملت اسلامیہ کی سرفرازی کی دعا بھی کی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا گیا جو افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔معاہدے کی تفصیلات نکات کی صورت میں اس طرح سے ہے، امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے نو ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔
انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 تک پابندی ختم کرنے کا پابند ہوگا۔ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریز رہیں گے۔ طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ، اور جنگجوں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔کیا امریکہ واقعا اس خطےسے نکلنا چاہتا ہے ؟ یا اس کا ایک پولیٹیکل سٹنڈ (سیاسی چال )ہے ۔جسٹ ٹائم گیم کرناچاہتاہےانتخابات تک اس نے کیا جب تک افغان کے تمام اسٹیک ہولڈرزجب تک آن بورڈ نہ ہوںافغانستان کی مکوئی ڈیل کامیاب ہوسکتی ہے ؟اور( شمالی اتحاد ،افغان گورنمنٹ ) افغان گورنمنٹ کے تازہ ابھی یہ اشرف غنی(صدرافغانستان) اس کا باقاعدہ بیان ہے کہ ہم طالبان کر رہا نہیں کریں گے ۔
اس کا مطلب ہے کہ ابھی سے اس پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ایک تو اس معاہدے کی کامیابی ہےجسے وہ ایک فتح سمجھ رہے ہیں ابھی تک وہ زیر سوال ہے ۔دوسرا اس میں جو اسٹیک ہولڈر ہیں انہیں بھی شامل نہیں کیا گیا ۔تیسرا ایران کے مسئلے پر بھی ناقابل اعتماد ثابت ہوا ہےاگریمنٹ کے اعتبار سے لہذا اس میں کو ئی گارنٹی نہیں کہ یہ معاہدہ کامیاب ثابت ہو گا کہ نہیں؟ ۔اس میں 35 ممالک کے گرنٹر کے طور پہ دستخط کیے ہیں جبکہ ایران کے معاملے پر تو اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک نے دستخط کیے تھے۔ہم اسے اب بھی ایک امریکی چال ہی سمجھتے ہیں ۔اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اگر امریکہ اس خطے سے نکلتا ہے کسی بھی سیاسی اور سفارتی عمل کے ذریعے سے تو یہ دراصل اسکے نجس وجود کا کنوئیں سے نکلنے کے مترادف ہو گا جس کے بعد کنوئیں کے پاک ہونے کی گنجائش بن سکتی ہے ۔
لہذا یہ جدوجہد کہ امریکہ کو اس خطے سے نکلنا چاہیے ہم اس کی تائید کرتے ہیں ۔ بنیادی طور یہ ڈیل پاکستان نے کرائی ہے ۔ اور پاکستان اس معاہدے کی تمام تر کامیابی کو اپنے کھاتے میں سمجھتا ہے ۔پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے ایک باڈر کو محفوظ بنالیا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن آجائے گا تو ایک ایسی گورنمنٹ آجائے گی جس سے ہم بات کرسکیں گے کہ دہشت گرد ادھر کیوں آتے ہیں اور پھر وہاں کیوں بھاگ جاتے ہیں ۔پاکستان خواہش ہے کہ یہ 2000 سے زائد کیلومٹر والاباڈر پر امن ہوجائے اس پر ٹریڈ شروع جائے ۔ لیکن مشکل یہ ہے وہاں (افغانستان) میں 34 انڈین قونصلیٹ موجود ہیں انڈین کی بڑی اسٹرانگ ایکسس موجود ہے وہاں پر لہذا پاکستان اس پہ اپنی پرانی چیزیں گرنٹی تو دیں ہیں مگر یہ سب کچھ ویٹنسی پر ہے اب انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم بھی انتظار کرہے ہیں اور پازٹیو لے رہے ہیں کہ چلیں امن کی خاطر کچھ دیر دیکھ لیں ۔ چائنا بھی خطے کے حالات کو بغور دیک رہا اور چائنا کے بینیفٹ کے اندر بھی ہے لہذا وہ حربےاور سازشیں جو امریکہ کے اپنی موجودگی کے حوالے سے کرسکتاوہ (چائنا) اپنی پکٹس کے ذریعے سے نہیں کرسکتا ۔ وہ اس لئے کہ امریکہ جہاں جاتا ہے سرمایہ لگا کر وہاں گروہوں کو خریدتا ہے انتشارپیدا کرتا ہے ۔ امریکہ کے انخلا سے جہاں افغانستان ، پاکستان کو فائدہ ہوگا وہاں چائنا کے مفاد میں بھی ہے ۔
چائنا تو چاہتا کہ امریکہ خطے سے نکلے ۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات پوشیدہ ہے کہ کیا واقعی امریکہ اس خطے سے نکلے گا ۔ بغیر گرنٹی لیئے اور کیا امریکہ کا جانا اس خطے سے اسے ہضم ہو پائے گا ۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ کیا وہ یہ (ہجمونک،یعنی تسلط اور اپنے غلبے کے کھونے)کو برداشت کر پائے گا۔پاکستان کی افغان پالیسی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے مگر ناکام ہوئی ہے اسی پالیسی کی تناظر میں نتیجے پاکستان کو اس ڈیل کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے ۔ اب پاکستان نے اپنی پالیسی میں اصلاح کا عمل شروع کیا ہے۔ اسی اصلاحی عمل کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ڈیل کے ذریعے دہشت گردوں کو چھوڑنا پڑا ہے ۔ اور وہ لوگ دوبارہ افغانستان پہنچ کر دہشت گردوں حصہ بن چکے ہیں ۔ لہذا اب پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اپنے ملک کو دیکھے اور پر امن بنائے اور افغانستان کو بھی پر امن دیکھنا چاہتا ہے ۔ پر امن افغانستان ہی پاکستان کے فائدے میں ہے ۔ لیکن اس ڈیل میں جو قیمت پاکستان نے چکائی ہے ۔ اس سے ایک تلوار پاکستان پرلٹکتی رہے گی کہ کہیں پاکستان دوبارہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوجائے اور دہشت گرد اکٹھے ہو کر پاکستان کے خلاف کسی اقدام پر نہ اتر آئیں ۔ اب پاکستان کو یہ سارے معاملات خود دیکھنے ہوں گے ۔ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہان رہا ہے اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے ۔ اسی لئے پاکستان اس میں باقاعدہ طور پر ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر شریک ہے اور اسے ایک کامیابی سمجھ رہا ہے ۔پاکستان انٹرسٹ بھی ہے کہ افغانستان اپنے ملکی حالات کو دیکھے اور پاکستان اپنے ملک کی سلامتی کو محفوظ بنائے ۔ لہذا اب پاکستان اپنے اسی انٹرسٹ کے تناظر میں اس کو کامیابی جان رہا ہے ۔
اگر تو کسی بھی صورت نتیجہ امریکہ کا خطے سے انخلا ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ورنہ نہیں ۔ایران نے انتقام سخت سلوگن کی تفسیر بھی یہ کی ہے کہ امریکہ کا اس خطے سے انخلا ہو ۔ اور اس کے لئے انہیں پہلا محاذ چاہیے۔ اس کے لئے انہیں پہلے سٹپ کی ضرور تھی اور یہ سارے معاملات چاہیے وہ شام ہو عراق ہو لبنان ہو افغانستان کے حالات ہوں یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہاں اصطلاح استعمال ہوتی ہے ڈمننگ انفیکٹ یعنی جب ایک گرے گا دوسرا اس پر گا تیسرا اس پر اور پھر یہ عمل نہیں رکے گا جب تک سب نہ گر جائے ۔ امریکہ کا انخلا ایک ملک سے ہو گا تو باقی جگہوں سے بھی حتمی ہے یہ ہونہیں سکتا کہ ایک تو گرے اور باقی سالم رہیں ۔ امریکہ کو اب اس خطے سے جانا ہو گا ۔ اسی میں اس کی عافیت ہے ورنہ وہ انتقام سخت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ امریکہ اگر شام سے نکلتا ہے تو عراق سے نکلنا اس کے مقدر میں ہے ۔
اب صرف ایک ایک اینٹ کےگرنے کی دیر ہے دیوار خود بخود گر جائے گی ۔ماہرین اس معاہدےاور خطے کے حالات کواس تناظر میں دیکھ رہے ہیںکہ جب امریکہ کےعین الاسد اور افغانستان میں امریکہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹس ہٹ ہوئے تو یہ انتقام سخت کا آغاز ہو گیا ہے اور امریکہ اب اس کی تاب نہیں لا سکے گا ۔ اور اس نے اپنے آپ کو اس خط سے سمیٹنا شروع کردیا ہے ۔یہی معاہدہ اس کا آغاز اور شروعات ہے ۔اب افغانستان کی عوام کو چاہیے کہ اس ملک کے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں جیسے طالبان ، گورنمنٹ ، حزب اختلاف کی جماعتیں ، پشتون ، فارسی (شمالی اتحاد) اور تاجیک یہ سب ملکر اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے ملک و ملت کی خاطر آگے بڑھیں اور اس ملک میں جوایک عرصے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔ مضبوط مخلوط حکومت تشکیل دیں اور کسی باہر ممالک سے فرمان نہ لیں بلکہ اپنے وطن کی تقدیر خود لکھیں اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی ملک یا ہمسائے کے خلاف استعمال ہونے دیں ۔
طالبان کا وہ گروہ جو چاہتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے اور شدت پسند بھی نہیں وہ اس معاہدے کی پاسداری کرے گا مگر طالبان کے اندر بھی گروہ بندیاں ہیں ۔ کچھ اس کی مخالفت پر بھی اتریں گے جیسے حکومتی اشارے مل رہے ہیں کہ ہم سب طالبان کو نہیں چھوڑیں گے تو اس ے ایک انارکی پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ داعش وجود بھی اس ملک میں انتشار کا باعث بن سکتا کیونکہ داعش ایک تکفیری سوچ کی حامل تنظیم ہے اور اس کا تو منشور یہی ہے کہ اپنے مخالف کو کچلنا وہ کسی مکاتب فکر کا لحاظ کیے بغیر اس پر حملہ ور ہوتے ہیں ۔ جس گروہ کی تربیت امریکن اور اسرائیل نے کی ہو اور فنڈنگ آل سعود ہو اس سے خیر توقع نہیں کرنی چاہیے ۔طالبان کو ضمانت دینی ہو گی کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
تحریر: سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ
(مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان)
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات اسد عباس نقوی نے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری سے ملاقات کی۔دونوں رہنماؤں کے درمیان ایران اورتفتان بارڈرپر پھنسے ہوئے زائرین کی مشکلات اور طبی سہولیات کے فقدان کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ایم ڈبلیو ایم کے رہنمااسدعباس نقوی نےکہا کہ کرونا وائرس کی رپورٹ کے بعد ایران میں ہزاروں پاکستانی زائرین پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو ایران کے اندر قیام و طعام سمیت متعدد مشکلات درپیش ہیں۔ ایرانی سفارت خانے کو اس سلسلے میں موثر اقدامات کی ہدایات کی جانی چاہیے۔حکومت پاکستان زائرین کی بحفاظت اور فوری واپسی کے لیے ضروری اقدامات کرے تاکہ زائرین اور ان کے اہل خانہ کے اضطراب کا خاتمہ ہو۔
وفاقی وزیر پیرنورالحق قادری نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت زائرین کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور وفکر کر رہی ہے۔ایران سے زائرین اور طلبا کی واپسی کے لیے بہترین لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے،ایران سے زائرین اور طلبا کے ائر لیفٹ کر کے لانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ زائرین کی حفاظت اور ان کے مسائل کا حل ہماری ترجیحات کا حصہ ہیں۔بہترین میکینزم پر مبنی زیارات پالیسی کا جلد اعلان کیا جائے گا۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ سٹی کے سیکریٹری جنرل ارباب لیاقت علی ہزارہ نے اپنے بیان میں کہا کے کرونا وائرس کو صرف زائرین سے جوڑنا ان کی منافقانہ طرز عمل کی نشانی ہے۔ اس فاشسٹ پارٹی کو زائرین سے مسئلہ نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام سے مسئلہ ہے ان کو۔ یہ فاشسٹ ٹولا مظلوم ہزارہ مومنین کو نقصان دینے کے درپے ہے اور ہزارہ قوم کو دو گلیوں میں محدود کرنا چاہتے ہے ان زائرین میں پنجاب، سندھ، خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان سے لوگ شامل ہے۔ لیکن زائرین کی آمد سے علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاون میں الہی برکات نازل ہوتے ہیں، کیونکہ وہ زوار امام حسین علیہ السلام، حضرت ابولفضل عباس علیہ السلام، مولا کائنات امام علی علیہ السلام، امام علی رضا علیہ السلام، بی بی معصومہ قم و دیگر مزارات سے ہوکر آتے ہیں۔
علاوہ ازیں آگر معاشی لحاظ سے دیکھا جائے تو زائرین کی برکت سے علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاون کے روزگار کا پہیہ تیز ہوتا ہے۔کبھی رکشے والے، تندور والے، سبزی والے، اور پرچون والے سے پوچھ لیں۔ اور یاد رہے ایران میں صرف زائرین نہیں جاتے بلکہ غریب مزدور اور تجارت کے غرض سے بھی لوگ جاتے ہے اور بیان صرف زائرین کے خلاف دینا ان کی منافقانہ سوچ ہے۔ کرونا وائرس افغانستان میں بھی پھیلا تھا نہ تو باڈر بند ہوا اور نہ تو لوگوں کی آمد و رفت بند ہوئی جوکہ سنے میں آیا ہے کے پیر کو افغان باڈر بند کردیا ہے۔ بقول صوبائی حکومت جو زائرین ایران سے آتے ہی ان کو 14 دن تک آئسولیشن وارڈ میں رکھتے ہے جب تک ان کو کلیئرنس نہیں ملتا یہ لوگ تقتان سے نہیں جاسکتے اس فاشسٹ پارٹی کو کون سمجھائے جو کہ صوبائی حکومت میں شامل ہے۔ آئین پاکستان سب کو یہ اجازت دیتا ہے کہ آزادی سے پاکستان کے کیسی بھی حصہ میں آزادی سے گھومے پیرے کیسی کو یہ حق حاصل نہیں کے بکواس کرے۔ زائرین تو بہت خوش ہونگے آگر کانوائے کو ختم کردیا جائے۔ آگر اس فاشسٹ پارٹی کے دونوں ایم پی ایز کے پاس آگر اختیارات ہے تو کانوائے کو ختم کرائے۔ زائرین کوئٹہ آنے کے بجائے ڈائریکٹ تقتان جانا پسند فرمائیں گے
وحدت نیوز(جیکب آباد) جیکب آباد شہر کی سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کے زیراہتمام شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں ریلی نکالی گئی۔ عوامی حقوق ریلی سے انجینئر عید محمد ڈومکی، عابد سندھی ،سید غلام شبیر شاہ نقوی، عبدالسمیع سومرو، نذیر حسین دایو ،علامہ حاجی سیف علی ڈومکی، ایڈووکیٹ وحید علی بروہی ،مقدم فدا حسین لاشاری ،منصب علی شیخ ،سید لعل شاہ بخاری ،بابو نجیب زھری ، عمران سولنگی ،حبیب اللہ لاشاری، حبدار علی شیخ اور احسان سہاگ کا خطاب۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ جیکب آباد کے عوام آج بھی پینے کے صاف پانی اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ قبائلی جگھڑوں کے باعث بے گناہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع جیکب آباد کے رہنما نذیر حسین دایو نے کہا کہ منتخب نمائندے عوامی مسائل حل کریں۔ لوگ غربت اور بے روزگاری سے پریشان ہیں۔وحید علی بروہی نے کہا کہ جیکب آباد شہر کی سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کا الائنس جیکب آباد کے مسائل حل کرنے کے لئے میدان عمل میں موجود ہے۔انجینئر عید محمد ڈومکی نے کہا کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث عوام پریشان ہیں۔