وحدت نیوز(فیصل آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع فیصل آباد کی جانب سے کہکشاں کالونی میں یونٹ تشکیل دیا گیا ۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود محترمہ فرحانہ گلزیب نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کا تعارف پیش کیا نیز اغراض و مقاصد اور منشور سے بھی آگاہ کیا۔ جسکے بعد باہمی مشاورت سے محترمہ تنویر فاطمہ کو کہکشاں یونٹ ضلع فیصل آباد کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

وحدت نیوز (فرینکفرٹ) کسی بھی دینی مرکز، مدرسہ یا پھر مسجد و امام بارگاہ کی مسؤلیت اور ذمہ داری کا تعین عوامی مومنین و مومنات کی راۓ کے مطابق جمہوری طرز فکر پر ہونا چاہیے تاکہ عوام کو محور قرار دے کر ذمہ دار افراد کا تعین کیا جاسکے. اس سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوۓ کمیونٹی ارکان فرینکفرٹ ملت تشیع نے پاک حیدری ایسوسی ایشن فرینکفرٹ رجسٹرڈ کے پہلے آزادانہ انتخابات خفیہ راۓ شماری کے طرز پر اتوار 10.02.2019 کو دن 3 سے 6 بجے کے درمیان فرینکفرٹ کے میٹرو پولیٹن ہال میں منعقد کرائے گئے. جس میں مومنین و مومنات نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے حق راۓدہی استعمال کیا اور آئندہ 5 سال کے لئے قیادت و ذمہ دار افراد کا تعین کیا۔

پاک حیدر ی ایسوسی ایشن کی نئی کابینہ میں صدر ،سید صبور نقوی ، نائب صدر ، سید صفدر عباس ، جنرل سیکرٹری ، شاہد علی خان ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ، زین اختر، فنانس سیکرٹری ، سید ابرار  الحسن ، ڈپٹی فنانس سیکرٹری غضنفر حسین اور پریس سیکرٹری ، علی ذیشان شامل ہیں جنکو 156 ووٹ ملے جبکہ مخالفت میں 3 ووٹ آئے. نئی کابینہ اس بات کا پر عزم ارادہ رکھتی کہ دیار غیر میں جوانوں اور بچوں بالخصوص تربیت اولاد کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی. انشاءاللہ مستقبل قریب میں انجمن کے عہدیداران پاکستان کا دورہ کریں گے جہاں وہ مجلس وحدت مسلمین کےسیکرٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور مجلس کے اعلیٰ عہدیداروں اور مجلس شوری کے ارکان سے ملاقات کریں گے اور انجمن پاک حیدری ایسوسی ایشن فرینکفرٹ کی کارکردگی کے حوالے سے ان کو مطلع کریں گےیاد رہے کہ انجمن پاک حیدری ایسوسی ایشن فرینکفرٹ پاکستانی شیعہ مسلمانوں کی قدیم جماعت ہے جس نے رسمی طور پر 1975 سے عزاداری سید الشهدا علیہ السلام کی بنیاد رکھی جو آج تک جاری ہے۔

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی طرف سے ہفتہ وار نشستوں کے سلسلے کی تیسری سیاسی نشست مسجد اہل بیت علیہم السلام میں منعقد کی گئی ۔ جس میں مشہور سیاسی تجزیہ نگار فواد ایزدی نے امریکہ اور ایران کے روابط اور دنیا پر اس کے اثرات کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے مقدمے میں کہا:"سب سے پہلے میں سامعین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کراتا ہوں کہ یہ بات روشن ہے کہ شیعہ طاقت تیس چالیس سال پہلے کی نسبت آج رو بہ افزائش ہے ۔لبنان،عراق، شام وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ایک اہم نکتہ کی طرف استاد فواد نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ایک دوسرے کی جیسے پہچان ہونا چاہئے تھی نہیں ہے جس کا فایدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔"معروف تجزیہ نگار استاد فؤاد ایزدی نے امام خمینی رہ کے منشور روحانیت سے ایک جملہِ نقل کیا کہ "آس دور کے مسلمان جوانان اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے کہ ان کے مراجع عظام ،علم سیاسی سے آشنا نہ ہوں۔عالم دین کو نہ صرف اسلامی معاشرے بلکہ ایک غیر اسلامی معاشرے کی مدیریت کرنے کی صلاحیت بھی ہونا چاہئے۔"استاد کے مطابق:"بس جب شیعہ ترقی کریں گے اور ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا تو دنیائے کفر اور کچھ نام کے مسلمان یقینی طور پر دشمن بنیں گے۔ان سے مقابلے اور دفاع کے لئے ہمیں علم روز، دانش روز سے مسلح ہونا ضروری ہے۔"

استاد نے سیاست خارجی سے متعلق ایک انگلش کتابU.S. Foreign Policy in Perspective: Clients, enemies and empire۔David Sylvan& Stephen Majeski.کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں سے کچھ جملات کو منتخب کیا ہے  اس سے پہلے ایک سوال ہے کہ :"امریکہ کے مخالف ممالک جو اس کیلئے مشکل ساز ہو سکتے ہیں ،کس وقت اس کی لسٹ سے خارج ہو سکتے ہیں؟" استاد یزدی نے کہا اس کتاب میں لکھا ہے کہ:"... ... the most part, policies of routine hostility are maintained toward enemies regardless of what the enemies do.اگر آپ دشمن کی لسٹ میں ہیں زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ آپ نرم رویہ بھی رکھیں،آپ دشمن کی لسٹ میں رہیں گے۔ امریکہ کی دشمن پالیسی کے متعلق آقا فواد کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے آپ اس کی مانتے جائیں گے وہ سر پر سوار ہوتا جائے گا۔۔جن حکومتوں اور حکمرانوں نے اس کی مانی ان کا حشر دیکھ لیں۔۔۔ قذافی،صدام،یاسر عرفات سب کے ساتھ کیا ہوا۔رھبر معظم کی گفتگو میں بہت تکرار کے ساتھ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایران اور امریکہ کی مخالفت اس وقت تک ہے جب تک ایران جمہوری اسلامی ہے۔یعنی امریکہ اسلام کے درپے ہے۔اور اسلامی ممالک سے بھی اس کی دشمنی اس وقت تک رہے گی جب تک کہ وہ اسلامی ہیں۔۔۔۔گفتگو کے آخر میں استاد فواد یزدی سے شرکاء نے کچھ سوالات پوچھے جن کے جوابات تفصیل سے بیان کیے گئے۔

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کے دفتر میں پاکستان سے آئے ہوئے مجلس وحدت کے راہنماؤں کے ساتھ ایک صمیمانہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس نشست میں شرکاء کے تعارف کے بعد مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام و المسلمین آقا عیسی امینی صاحب نے مجلس کی فعالیت بتائی ۔ان کے بعد بلوچستان کے صوبائی تربیتی امور کے مسئول حجۃالاسلام و المسلمین ولایت حسین جعفری صاحب نے بلوچستان اور کویٹہ کے حالات ، انتخابات میں مجلس کے کردار اور تنظیمی فعالیت  پر روشنی ڈالی ۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔اور مجلس کو خلوص کے ساتھ کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کے بعد گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام و المسلمین شیخ احمد نوری صاحب نے گلگت بلتستان کے بارے میں خصوصا انتخابات ،سی پیک اور  آئندہ مجلس اور تشیع کی ذمہ داریوں کی نشاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا" کہ ہمیں آئندہ آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بہت فعالیت کی ضرورت ہے۔ اور پاکستان میں ہماری  امیدوں کا مرکز قم کے طلاب اور علماء کرام ہیں"۔ان کے علاؤہ  مجلس وحدت جی بی کے سیکرٹری اطلاعات  برادر میثم اور ضلع کھرمنگ کے سیکرٹری جنرل حجۃالاسلام و المسلمین شیخ اکبر رجائی نے بھی شرکاء کے سوالات کے جوابات دینے۔

تبدیلی مگر شعور کے ساتھ

وحدت نیوز(آرٹیکل) Change.org  ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ۲۰۰۷ میں بنا تھا ان کا ہیڈآفس سان فرانسسکو، کیلیفورنیا، امریکا میں ہے، اس کو تیز ترین سوشل ایکشن پلیٹ فارم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سائٹ ہے جہاں پر مختلف این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیمیں مختلف حوالوں سے درخواستیں دائر کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ ان درخواستوں کو عوامی حلقوں تک پہنچاتی ہے اور ان درخواستوں پر عوامی رائے لی جاتی ہے۔ اس طریقے سے یہ درخواستیں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس کے جواب میں ایک زبردست ردعمل وجود میں آتا ہے، اس سائٹ سے اب تک مختلف تحریکوں نے جنم لیا ہے۔

اسی طرح کی ایک تحریک آج کل فرانس میں چل رہی ہے جس کو پیلی جیکٹ (Yellow Jacket) کا نام دیا گیا ہے۔ اگر ہم تاریخ دیکھیں تویہ کوئی پہلی تحریک نہیں ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے جنم لی ہو، اس سے پہلے بھی دنیا میں اسی طرح کی مختلف تحریکیں جنم لے چکی ہیں جن میں سے بعض کامیاب ہوئے ہے تو کچھ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے مگر اس فضاء کو قائم کرنے والے اور اس ماحول کو بنانے والے دونوں صورتوں میں فائدے میں ہوتے ہیں۔

یہ رنگوں کی تحریکیں کافی پُرانی نہیں ہیں، لیکن ان کے پیچھے چھپے محرکات خطرناک ہیں یہ تحریکیں سانپ کی طرح ہے جس کا ظاہر تو بہت خوبصورت اور ملائم ہوتا ہے مگر اس کا درون یا اس کے پیچھے موجود عزائم بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اکثر ایسے واقعات کے پیچھے جنگ نرم کا کھیل ہوتا ہے اور عالمی طاقتیں اس کے ذریعے اپنے مفادات تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے لشکر معاشرے کے متوسط اور حکومتی مظالم اور معاشرتی ناانصافیوں میں پسے ہوئے طبقے ہوتے ہیں اور ان کا ہتھیار نہتے عوام کی خواہشیں اور ارمان ہوتے ہیں جن کے وسیلے سے یہ لوگ اپنے اہداف تک پہنچتے ہیں۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اسی طرح کی کچھ اہم تحریکوں یا انقلابوں کے نام مندرجہ زیل ہیں۔ پیلا انقلاب، کوکونٹ انقلاب، ولویٹ انقلاب، بلڈوزر انقلاب، روز انقلاب، اورینج انقلاب، پرپل انقلاب، ٹولپ انقلاب، بلیو انقلاب، سبز انقلاب، جاسمن انقلاب، کافی انقلاب و۔۔۔

اس طرح کی تحریکوں اور انقلابوں میں شرکت کرنے والے عام اور پُر امن عوام خصوصا کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنس ہوتے ہیں، ان کا کوئی ایک لیڈر نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات یہ ایک مسلسل تحریک یا پھر ایک تنظیم کی شکل بھی اختیار کرلے تی ہے، یہ لوگ مظاہرے ہڑتال وغیرہ کے ذریعے اپنے مطالبات کو حکمران حلقوں اور دنیا تک پہنچاتے ہیں بعض اوقات یہ پرتشدد واقعات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

یہاں پر ایک اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے اکثر مسائل میں مختلف عوامل و محرکات شامل ہوتے ہیں، اکثر اوقات اس طرح کے مسائل کو پیدا کرنے میں بیرونی ہاتھ شامل ہوتے ہیں جو مختلف ذرایع سے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ مثلا مختلف نظریات کے ذریعے، امداد کے ذریعے، انسانیت، حقوق بشریت،آزادی وغیرہ کے خوبصورت نعروں کے ذریعے یہ لوگ عام عوام میں یا جس جگہ کو ہدف بنایا ہے وہاں اپنے نفوذ پیدا کرتے ہیں۔ آپ شام میں وائٹ ہیلمڈ کی تازہ مثال دیکھ لیں جب شام میں جنگ شروع ہوئی تو یہ ادارہ ترکی میں بنا ہوا کچھ یوں کی ایک برطانوی ریٹائرڈ آفیسر ایک پبلک پلیس پر شام کے مسئلے کو توڑ موڑ کر بیان کرتا ہے، جب سادہ لوح عوام سوال کرتے ہیں کہ ہم کیسے اپنے شامی بھائیوں کی مدد کریں تو وہ اپنا آئیڈیا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو تم لوگ چندہ جمع کرو اور ایک فلاحی تنظیم کی شکل میں ان امداد کو شام تک پہنچا دو اس کے لئے نام بھی تجویز کر دیتا ہے، لوگوں کو یہ بات پسند آجاتی ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیتے ہیں، یوں اس میں غیرملکی امداد مختلف شکلوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہ غرملکی عناصر اپنے اصل ہدف پر کام شروع کردیتے ہیں جو سب عوامی نظروں سے دور مخفیانہ طریقوں سے انجام پاتا ہے، وائٹ ہیلمڈ کے ذریعے کس طرح امریکہ و برطانیہ نے پروپگینڈا کیا اور کیسے دہشت گردوں کی مدد کی یہ سب کے سامنے واضح ہے۔ یاد رہے اکثر ممالک میں غیر ملکی این جی اوز بھی اس طرح کے کاموں میں ملوث ہوتی ہیں۔

 یلو جیکٹ کا معاملہ بھی کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک فرانسوی خاتون نے مئی ۲۰۱۸ کو Change.org  کی سائٹ پر ایک درخواست دائر کی جس پر اکتوبر تک  تین لاکھ دستختیں مکمل ہو گئی تھیں، اسی درخواست کو سامنے رکھ کر دو آدمی )جو اسی خاتون کی ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں( فیس بک پر ۱۷ نومبر کو ایک مظاہرے کا انتظام کرتا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ۱۷ نومبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور حکومتی معاشی پالیسیوں کے خلاف تمام سڑکوں کو بند کیا جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوشل میڈیا پر اس قدر شورو غل مچاتا ہے کہ ایک ایسے ملک جو اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ صفوں میں شمار کرتا ہے اُس ملک کی سڑکوں پر عوام کا سیلاب آمڈ آتا ہے۔ فرانس کی سڑکوں پر بچے، جوان، بوڑھے، مرد خواتین سب انصاف کی حصول  کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس عوامی مظاہرے پر پولیس کی طرف سے شدید لاٹھی چارج، شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کا بے تحاشہ استعمال کیاجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز بھی وائرل ہو رہے ہیں جس میں پولیس کے ساتھ چھڑپیں، حکومتی مظالم اور مظاہرین کی جانب سے جلاو گھراو دیکھایا گیا۔ یہ مظاہرین پہلے سوشل میڈیا پر مظاہرہ کا دن اور وقت مقرر کرتے ہیں پھر مختلف نعروں اور ہیچ ٹیک کے ساتھ ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ چلاتے ہیں پھر ہر ہفتے اور اتوار سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگرابھی تک ان کا کوئی لیڈر یا منظم کرنے والا سامنے نہیں آیا ہے، لیکن مختلف تنظیموں نے ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ یلو جیکٹ کہاں جا کر رکتا ہے؟ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا اصل ہدف کیا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مجھے تو شام میں وائٹ ہیلمٹ کو بنانے والوں اور یلو جیکٹ کو شروع کروانے والوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
 میرا یہاں پر ہمارے میڈیاپرسنز و سوشل ایکٹوسٹ حضرات سے یہ سوال ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی ملک میں مثلا شام، لیبیا، عراق، ایران  یا وطن عزیز میں کوئی ایسا عوامی یا پرتشدد واقعہ رونما ہوتا ہے توتمام عالمی طاقتیں اور شخصیات آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں کہ بھائی وہ دیکھو مسلمانوں کو، وہ دیکھو ان کے حکمرانوں کو، مسلمان شدت پسند ہیں، یہ لوگ جاہل ہہیں،یہ لوگ مہذب نہیں ہیں، یا کہتے ہیں دیکھو مسلمان حکمرانوں کو یہ بڑے ظالم ہیں، عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتے ان کو ایسا ہونا چاہئے، ویسا ہونا چاہئے ان کے خلاف یہ ہونا چاہئے وہ ہونا چاہئے ساری دنیا کی چیخیں نکل رہی ہوتی ہیں، عالمی حقوق کی تنظیمں اور انسانیت کے نام نہاد علمبردار حکومتیں فورا میدان میں کود پڑتے ہیں۔ مگر بات فرانس کی یا کسی یورپین ممالک کی آتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتے ہیں آخر کیوں؟ جب امریکہ کا دل کرتا ہے کسی بھی ملک کو اٹھا کر کسی بھی لسٹ میں ڈال دیتا ہے، ابھی کچھ دن پہلے پاکستان کوامریکہ نے مذہبی  آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کے لسٹ  میں ڈال دیا تھا۔ اس کا جب دل چاہتا ہے کسی بھی اسلامی ملک پر دہشت گردی کا الزام لگا دیتا ہے، کسی بھی ملک پر پابندیاں لگا دیتا ہے اور جب چاہئے حملہ کر دیتا ہے لیکن جب ان کے اپنے شہریوں کی حقوق کی بات آتی ہے تو ان کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی ان کی تو بات چھوڑیں ہمارے وہ حضرات جو ہر وقت اپنی ہی برائیاں کرنے میں لگے ہوتے ہیں آج وہ سارے لوگ بھی چپ کا روزہ رکھے نظر آتے ہیں۔

ہمارے اکثر لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس زمانے میں میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہےجس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی یہ گھروں سے لیکر ہماری جیبوں تک میں موجود ہے۔ ہم اپنا پیشتر قیمتی وقت اسی میڈیا پر ہی صرف کرتے ہے یہ ایک ایسا میدان جنگ ہے جہاں اگر دشمن کی چالاکیوں کو نہیں بھانپ سکے تو شکست کھا جاتے ہیں۔ میری اس تحریر کا مقصد فرانس کے مظاہرین کی حمایت کرنا یا فران­سوی حکومت کی برائی کرنا یا ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے ہر واقعات کی حق میں بولنا نہیں ہے۔ بلکہ میڈیا اور دوسری چیزوں کے ذریعے لوگوں کی ذہنوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اس کی طرف توجہ دلانا ہے، عالمی طا­قتیں مختلف حیلوں بہا­نوں سے ایسے حالات پی­دا کرتے ہیں کہ ہم اپ­نوں کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں، ایسے دلائل اور وجوہات پیش کئے جاتے ہیں کہ ہم پس پردہ حقائق سے کوسوں دورچلے جاتے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے آپ کو ہر طریقے سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دش­منوں کی سازشوں کو سم­جھ سکیں۔ ہمیں ہر وسا­ئل سے استفادہ کرنا چاہئے لیکن آگاہی اور شعور کے ساتھ کیونکہ دشمن مختلف ذرایع سے ہماری صفوں میں داخل ہوتے ہیں اور ہمیں اپ­نے مقصد سے دور کر دی­تے ہیں۔آج کے اس تیز ترین دن­یا میں انٹرنٹ کے بغیر زندگی ناممکن ہے اور سوشل میڈیا عوامی روابط و مسائل کی حل کے لئے ایک بہترین پیلٹ فارم ہے مگر ان کے استعمال، ان کے فوائد، نقصانات اور اہداف سے سب کو باخبر ہونا چاہئے، ہمیں فری میں وائی فائی ملنے پر پا­گل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر قدم کو سوچ سم­جھ کر اور پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے یہ ساری فری سائٹز اور فری ایپلیکیشنز ایسے ہی مفت میں نہیں دیتے ہیں ان سب کے پیچھے ایک خاص مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہمیں کسی کے خلاف بولنے اور کسی کی حمایت کرنے کے لئے صرف انٹرنٹ اور میڈیا پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ حق­ائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے، ہمارا معیار دلائل اور سچائی ہونا چائے نہ کہ کسی کی دی ہوئی ڈیکٹیشن یا بنائے ہوئے نعروں پر۔

 تحریر: ناصر رینگچن                                                              

وحدت نیوز(سکردو) سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین اورچیئرمین عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان آغا علی رضوی نےعوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرمین مولانا حافظ سلطان رئیس الحسینی کی گرفتاری پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انکو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔ اپنے بیان میں مقبول عوامی رہنما نے کہا کہ مولانا سلطان رئیس ملک عزیز سے محبت کرنیوالے مدبر رہنما ہیں جوگلگت بلتستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق حقوق کیلئے میدان میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ انکی گرفتاری عوامی آواز کو دبانے کی کوشش ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور عوام بھی ہرگز قبول نہیں کرتی۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئےکہا کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو پر امن عوام میں بے چینی کا سبب بنے۔ مقبول عوامی رہنماوں کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ خبروں کے مطابق انکو محض اس بات پر پابند سلاسل کیا گیا کہ کسی مقدمے میں حاضر نا ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہاکہ مولانا سلطان رئیس عدلیہ اور ملکی قوانین کا احترام کرنیوالے ہیں۔ انکی گرفتاری سے انکے پائے استقامت سے کوئی کمی نہیں آئیگی۔ مگر انتظامیہ کے عزائم اس سے عیاں ہورہے ہیں۔ ہم گلگت بلتستان عوام مولانا سلطان رئیس کیساتھ ہیں اور انکی گرفتاری پر خاموش نہیں رہیں گے۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین کے دفتر سے جاری بیان میں عوام سے اپیل کی گئی کہ اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے ناچاکی اور انارکی پھیلے،اختلاف رائے کے نام پر علماء کی توہین کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ حقوق کیلئے ہر طبقہ متحرک ہےاور سب ہی علاقے کی محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

Page 67 of 210

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree