وحدت نیوز (کوئٹہ)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پالیمانی بورڈ کااہم اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مرکزی پولیٹیکل سیکریٹری سید اسدعباس نقوی نے کی ،اجلاس میں قومی انتخابات میں کوئٹہ کے تین قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں پر نامزد حتمی امیداروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیئے گئے، تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیوایم کے پالیمانی بورڈ نے کوئٹہ کے حلقہ قومی اسمبلی NA-265کیلئے سابق وزیر قانون آغاسید محمد رضا ، حلقہ صوبائی اسمبلی PB-26کیلئے برکت علی بھیاء اور حلقہ صوبائی اسمبلی PB-27کیلئےسا بق وزیر قانون آغاسید محمد رضا اورحلقہ صوبائی اسمبلی PB-12نصیر آبادکیلئے سید حسن ظفرشمسی کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیئے ہیں۔

ڈویژنل سیکریٹریٹ کوئٹہ میں پالیمانی بورڈ کے اجلاس کے اختتام پر ٹکٹ کی تقسیم کی تقریب منعقد ہوئی جس میں مرکزی رہنما اسدعباس نقوی، علامہ ہاشم موسوی، آصف رضا ایڈوکیٹ ، علامہ ولایت جعفری، کونسلر کربلائی رجب علی سمیت دیگر رہنمابھی موجود تھے۔

اس موقع پر شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے ڈویژنل سیکریٹری جنرل کونسلر کربلائی رجب علی نے کہاکہ ایم ڈبلیوایم کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری ہونے کے بعد الیکشن سیل کا قیام عمل میں لایاجاچکاہےجس کے بعد انتخابی حلقوں میں عوامی رابطہ اور تشہیری مہم میں تیزی لائی جائے گی۔

انہوںنے کہاکہ ایم ڈبلیوایم کا ماضی عوامی خدمت سے عبارت ہے، آغا رضا نے گذشتہ دور حکومت میں چار سال آٹھ ماہ بحیثیت ممبر اسمبلی اور چار ماہ صوبائی وزیر قانون کی حیثیت سے اپنے حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبوں کا اجراءکیا، جس میں سے متعدد منصوبے مکمل اور چند ایک زیر تکمیل ہیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی کابینہ اور راولپنڈی ڈویژن کا مشترکہ اجلاس مرکزی سیکریٹریٹ میں مرکزی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ زہرا نقوی صاحبہ کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں مرکزی معاون سیکریٹری امورسیاسیات سید محسن شہریار زیدی نے خصوصی شرکت کی اور الیکشن 2018 میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی انتخابی حکمت عملی ،منتخب حلقوں ، نامزد امیداروں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی، اجلاس میں مرکزی سیکریٹری جنرل شعبہ خواتین محترمہ زہرانقوی نے خواتین عہدیداران سے گفتگو کرتے ہوئے قومی انتخابات میں ایم ڈبلیوایم کے نامزد امیدواروں کی بھرپور سپورٹ اور کامیابی میں اپنا کردار اداکرنے کی ہدایت کی۔

 سیدہ زہراء نقوی نے خطاب کرتے ہوئےخواتین عہدیداران سے کہا کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں انتہائی اہم اور تاریخی دور ہے ۔ آج کا دور صدر اسلام کے دور سے مماثلت رکھتا ہے ۔ آج دنیا میںدوہی نظریے آپس میں بر سر پیکار ہیں ایک نظریہ محب وطن سوچ کا ہے جبکہ دوسرا پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈاہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم آج نائب حضرت امام (عج) کے راستے پر گامزن ہیں اور دوسرا ایجنڈاامامؑ کے ظہورکے دشمنوں کا ہے جس کا سربراہ امریکہ ا،اسرائیل اور آل سعود ہے ، آل سعود نے علانیہ طور پر ظہور امام ؑ کا راستہ روکنے کا اعلان کر رکھا ۔ ہمیں آج جتنا ممکن ہو امام ؑ کے ظہور کے لئے زمینہ سازی کرنے میں اپنا کرادر ادا کرنا چاہئے ۔ ہم اس انتظار میں نہ رہیں کہ ہم تو ابھی لشکر امام ؑ کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ہمیں تو دینی تعلیم سے آراستہ ہونا پڑے گا ،ہمیں تو عالم اور عالمہ بننا پڑے گا ۔ نہیں ایسا نہیں ہے ہم جہاں کہیں اور جیسی بھی زندگی گزار رہے ہیں ہمیں اس نظریے اور سوچ کا ساتھ دینا جو محب وطن ہوں ۔

انہوں نے مزید کہاکہ آج انتخابات ہو رہے ہیں تو ہمیں آگے بڑھ کر کم از کم پاکستان کےدشمن بلاک کی اثر انداز ہونے والی سوچ کے خلاف اپنا نقش ایفا کرنا ہوگا ۔ اور وہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنا ووٹ بلکہ اپنےکنبے اور خاندان کے ووٹ کو وطن عزیز کی سپورٹ میں کاسٹ کرائیں ۔ خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو ہم گھروں میں بیٹھیں رہیں اورملک دشمن قوتیں آپ کی خاموشی (غیرجانبداری) کا فائدہ اٹھا کر اس وطن عزیز پر مسلط ہو جائیں اگر ایسا ہوا تو ہم سب اس میں شریک جرم قرار پائیں گے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ اس دور کی خاموشی اور تحرک کا ہمیں ایک دن جواب دینا ہو گا ۔اس آئینی ، قانونی اور شرعی ذمہ داری کو ہمیں بطور امام زمان (عج) کے لشکر کا سپاہی ہونے کے ناتے نبھانا ہو گا ۔ گھروں سے نکلنا ہو ۔ خاندان کے افراد اور اپنے عزیزواقربا کو ظہور امام ؑکےراستے کو ہموارکرنے میں خاموشی اور سکوت کو توڑنا ہو گا اور اپنے حق کو صحیح نمائندوں کے انتخاب میںاستعمال کرنا پڑے گا ۔

انہوں نے آخرمیں کہاکہ الحمدللہ آپ مجلس وحدت مسلمین کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ خواہران کے پرخلوص جذبے اور فعالیت کو قائد وحدت بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کئی مرتبہ ہمارے اس شعبے کی کارکردگی سے اطمینان کا اظہار بھی کرچکے ہیں ۔ میری خواہران سے گزارش ہے!خصوصاً راولپنڈی ڈویژن کی خواہران سے کہ آپ کے سامنے دو بڑے ایونٹ آرہے ہیں ایک تو جولائی میں انتخابات ہیں دوسرا 5 اگست کو قائد شہیدعلامہ عارف حسین الحسینی  ؒ کی برسی کا اجتماع ہے آپ کویہ بھاری ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانی ہوگی ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پروردگارہماری ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم آیۃاللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی علیہ) کی رہبری اور قائد وحدت کی سرپرستی میںاپنا ایسا کردارزینبی(س) پیش کریں کہ کل بروز محشر حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء(س) اور حضرت ثانی زہراء(س) کے سامنے سرخرو ہو کر پیش ہو سکیں ۔تقریب کے آخر میں شعبہ خواتین پاکستان کی جانب سے خواہران کے لئے ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔

وحدت نیوز (انٹرویو)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے مجلس وحدت کی سیاسی پالیسی اور آئندے کے لائحہ عمل پر ایک مفصل گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

سوال: اس بار الیکشن مین ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی پالیسی کیا ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین شروع دن سے چار نکاتی سیاسی پالیسی پر عمل پیرا ہے، نمبر ایک جب تک اپنا وزن نہ ہو، آپ کے اپنے الیکٹیبلز نہ ہوں اور آپ کا ووٹ بینک نہ ہو تو کوئی آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا، لہذا ایک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کے منتخب حلقوں میں اپنا وزن بنانا ہے، ایم ڈبلیو ایم کا ووٹ بینک بنانا ہے۔ میں سیٹ جتینے کے بات نہیں کر رہا ہے، لیکن یہ سیٹ جیتنے کی طرف ایک کام ہے۔ ایک سیاسی ویژن یہ ہے کہ ہم نے تکفیریوں کو اسمبلیوں میں نہیں پہنچنے دینا۔ خواہ وہ لوکل سطح کے ہوں یا عالمی سطح کے تکفیریوں کے سپورٹرز اور اتحادی ہوں۔ تیسرا ہدف یہ ہے کہ مثبت لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجا جائے، یعنی جو مکتب اہل بیت سے تعلق رکھتے ہوں یا حتیٰ اہل سنت حضرات میں سے اچھے اور مثبت لوگ ہوں، انہیں اسمبلیوں میں بھیجا جائے۔ ہمارا یہ بیانیہ مسلک سے بالاتر ہوکر ہے۔ خواہ شیعہ ہوں یا اہل سنت لیکن جو پاکستان کے بیانیہ کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں، انہیں سپورٹ کریں گے۔ ایک اور اہم بات یہ بھی کہ ہماری پالیسی کا حصہ ہے کہ اگر ہم کسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں اور کسی حلقے میں ایک تکفیری امیدوار کو شکست دینے کا مسئلہ آئے گا تو ہم اس امیدوار کو سپورٹ کریں گے، جو مضبوط ہوگا، تاکہ تکفیریوں کی راہ میں رکاوٹ بنا جا سکے۔

سوال : مجلس کس سیاسی جماعت سے اتحاد کرنے جا رہی ہے یا اس بار بھی اپنی شناخت کیساتھ الیکشن لڑینگے۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں کوئی بھی جماعت ہو، اسے الائنس کی سیاست کرنا پڑتی ہے۔ الائنس کی صورت میں آپ کے تحرک میں اضافہ ہوتا ہے، آپ کی مشکلات میں کمی واقع ہوتی ہے اور وہ جو کم مارجن سے سیٹ ہارنی ہوتی ہے، وہ مارجن ختم ہو جاتا ہے۔ ہماری بھی خواہش ہے کہ کوئی الائنس بنے، وہ الائنس کسی ہم فکر جماعت کے ساتھ ہو، اس الائنس کی بنیاد سیٹس نہیں ہیں، بنیاد پاکستان کا بیانیہ ہے، جہاں ہم مثبت تبدیلی لا سکیں، ایسا الائنس جس سے طالبانائزیشن اور تکفیریت کا خاتمہ ہو، آزاد خارجہ پالیسی تشکیل پائے، سوسائٹی میں رواداری پیدا ہو، پاکستان کو عربی یا غربی کالونی نہ بننے دے، ان مذکورہ بنیادوں پر کسی جماعت کے ساتھ اتحاد ہوسکتا ہے۔ ان بنیادوں پر الائنس کی سیاست ہو۔ ہماری تمام تر سیاست کا محور دین ہوگا۔ دینی مفاد کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اگر ایسا کہین نظر آیا تو ہم الگ نظر آئیں گے۔ پاکستان کو آزاد اور قدرت مند ملک بنانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

سوال : سنا ہے کہ پی ٹی آئی کیساتھ سیاسی معاملات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس بات میں کس حد تک حقیقت ہے۔ اگر ہے تو اسکی تفصیلات بیان کرنا چاہیں گے۔؟

ناصر عباس شیرازی: کیونکہ مذاکرات ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جب تک چیزیں دو جمع دو چار کی طرح واضح نہ ہوں یا فائنل نہ ہوجائیں، ان چیزوں کو بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے قریب ہیں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے اچھی میٹنگز ہوئی ہیں۔ بیانیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ چیزوں کو فائنل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ چیزیں ذہن میں رکھتے ہوئے کہ 100 فیصد چیزوں کا حصول نہیں ہوا کرتا، لیکن چیزوں کا مثبت سمت میں جانا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اپنی شناخت بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ جگہوں پر پاکستان تحریک انصاف ہمارے امیدواروں کے حق میں سرنڈر کرے۔ وہاں مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار الیکشن میں حصہ لیں۔ ان شاء اللہ ہمیں توقع ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بھی داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن یہ چیزیں ابھی کیونکہ حتمی نہیں ہیں، اس لئے فی الحال ہم وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

سوال : مجلس وحدت کا پی ٹی آئی جیسی جماعت سے اتحاد اور دوسری جانب ایک شیعہ جماعت کا ایم ایم اے کا حصہ بننا، اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے، اس سے شیعہ ووٹ تقسیم نہیں ہوگا۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں یہ میرا بھی سوال ہے کہ ایم ایم اے کے مضبوط ہونے سے کون مضبوط ہوگا؟، یقیناً یہی جواب ہے کہ مولانا فضل الرحمان جو ایم ایم اے کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم پی ٹی آئی کے ساتھ جاتے ہیں اور سیٹ ایڈجسمنٹ کرتے ہیں تو تحریک انصاف مضبوط ہوگی، لیکن کیونکہ تحریک انصاف کا لوکل حوالے سے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے موقف ہمارے قریب تر اور بہتر ہے، میرا خیال ہے کہ اگر اوپر کی سطح پر ڈاکٹرائن اور پالیسی درست ہو تو نیچے بھی وہی پالیسی نظر آتی ہے۔ اس اختلاف کے ساتھ کہ پی ٹی آئی کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں کوئی زیادہ بہتر رول ادا نہیں کرسکی۔ وہاں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا ہے، پی ٹی آئی کو جس طرح رسپانس دینا چاہیے تھا نہیں دیا۔ لیکن جب ہم اس کا ایم ایم اے کے دور سے موازنہ کرتے ہیں تو جو مکتب اہل بیت نے ایم ایم اے کے دور میں ایام گزارے ہیں، اس سے خوف آتا ہے، اس کی نسبت یہ دور غنیمت لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان چیزوں کا جب موازنہ کرتے ہیں تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھنا چاہیئے، جس سے تکفیری مضبوط ہوں۔

بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمان صاحب بعض اوقات ان تکفیریوں کے شیلٹر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میرے کچھ سوالات بھی ہیں، وہ یہ کہ مولانا فضل الرحمان نے ڈاکٹر عاصمہ جو ذاتی وجوہات کی بنیاد پر قتل ہوئیں، ان کی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی۔ شام کے معاملے پر پاکستان نے قردارداد کی مخالفت کی تو مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ میں باقاعدہ تقریر کی اور کہا کہ مجھے شرم آرہی ہے کہ پاکستان نے شام میں لڑنے والے مجاہدین کے لئے آواز بلند نہیں کی، لیکن مولانا نے پاکستان میں طالبانائزیشن کے خلاف آواز بلند نہیں کی، انہوں نے اپنے حلقے میں قتل ہونے اہل تشیع کے حوالے سے ایک بیان پارلیمنٹ میں نہیں دیا، حتیٰ اخبارات میں بھی نہیں آیا، مذمت تو دور کی بات ہے۔ وہ اپنے حلقے میں قتل ہونے والے شیعوں کے گھر نہیں گئے، حتیٰ تعزیت تک نہیں کی۔ جب یہ سب کچھ نہیں ہوا تو ظاہر ہے کہ ہر کسی کو اپنے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ میں کسی کے فیصلے پر تنقید نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہمیں ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے، جس سے تکفیری مضبوط ہوں، ان کے مدارس مضبوط ہوں، یہ ہمیں سوٹ نہیں کرتا۔

سوال: بیورو کریسی میں ہونیوالی تبدیلی سے مطئمین ہیں، آزاد، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کیلئے مزید کیا اقدامات ہوسکتے ہیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں بیورو کریسی میں تبدیلی مثبت قدم تو ہے لیکن چونکہ خود الیکشن کمیشن میں بیوروکریسی تبدیل نہیں ہوتی، الیکشن کمیشن تبدیل نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ نون کے نامزد کردہ افراد موجود ہیں۔ لہذا ان کے ہوتے ہوئے آزاد الیکشن ہوتے ہوئے مشکوک نظر آتے ہیں۔ یہ بیوروکریسی کے تبادلے تو کرسکتے ہیں لیکن ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کرسکتے۔ ایک مدت ہوئی ہے کہ 35 سال سے بیوروکریسی کو چلایا جا رہا ہے، لہذا بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا کہ یہ اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کرے گی، ناممکن نظر آتا ہے۔ البتہ یہ تبادلے مثبت چیز ہے۔

سوال : ایم ایم اے بھی الیکشن میں وارد ہے، اس سے مجلس کے امیدواروں پر کوئی فرق پڑسکتا ہے، جیسے کوئٹہ میں لیاقت ہزارہ کو آغا رضا کے حلقے سے کھڑا کیا گیا ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں 2013ء کے الیکشن میں یہ واحد سیٹ تھی جہاں مکتب اہل بیت کے ماننے والوں نے کامیابی حاصل کی، بہت ساری طاقتوں اور گروہوں کی کوشش ہوگی کہ یہاں سے مکتب اہل بیت کا ماننے والا کامیاب نہ ہو۔ اگر اس کے لئے ایم ایم اے کا پلیٹ فارم یا جھنڈا استعمال ہو رہا ہے، یہ بہت ہی بدترین بات ہوگی اور یہ وہ کم از کم دلیل ہے، جس کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ ایم ایم اے مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں سے ایم ایم اے کا نمائندہ اسمبلی میں نہیں جا سکتا، لیکن یہ ہمارے ووٹ خراب کرسکتے ہیں۔ یہ وہی ہدف ہے جو ہمیں کبھی نون لیگ کی سپورٹ میں گلگت بلتستان میں دیکھنا پڑا اور اب یہاں دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ہم ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے جوان ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ مجلس کے دوست بصیرت سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ ذہن میں رہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعت کے عنوان سے جن کو مکتب اہل بیت کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے، اس عنوان سے ایم ڈبلیو ایم ایک سیاسی جماعت کے طور پر میدان کے اندر ہے۔

سوال: یمن کے حالات کو کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: یمن میں انسانی المیہ تاریخی اور بدترین ہے، سب سے زیادہ قحط اور غربت یمن میں ہے، اس وقت 16 ممالک کا اعلانیہ اتحاد اور 40 ملکوں کا غیر اعلانیہ اتحاد ملکر یمنیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ بدترین طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے، سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ سویلین نے حوثیوں کی حمایت کی ہے، اس لئے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عربی اور غربی دونوں الائنس اس وقت یمنیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا ہدف یہی ہے کہ یمنی عوام کی مزاحمت کو ہر صورت کچلا جائے۔ ان شاء اللہ یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ عارضی طور پر ان کی فتوحات بھی ہوں، لیکن اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ ان عالمی طاقتوں کا بھرم کھل جائے گا، آل سعود کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی طاقتوں کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے گا، چالیس رکنی فوجی اتحاد جو راحیل شریف کی قیادت میں ہے، اس کا چہرے بھی دنیا کے سامنے آجائے گا۔ یہ فلسطین اور کشمیر پر نہیں بولتے۔ ان شاء اللہ یمن دنیا کی آنکھیں کھولے ہوگا، یمن مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے خواب کو چکنا چور کرے گا۔ اس وقت یمنیوں کو دو بحرانوں کا سامنا ہے، نمبر ایک اقتصاد ہے اور دوسرا ملٹری تھرٹ ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو شعب ابی طالب میں محصور سمجھتے ہیں، ہم سرنڈر نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم کربلا والوں کے بیٹے ہیں۔ شاعر نے اسی لئے کہا تھا:

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

یہ بندوقوں کی فتح نہیں ہوگی، کردار کی فتح ہے، چند دنوں میں جتنی اموات ہوئی ہیں، جس طرح اسٹریٹیجک فتح ملی ہے، یہ آل سعود کے لئے واضح پیغام ہے۔ اللہ یمنیوں کی مدد کر رہا ہے، یہ پوری دنیا کے لئے پیغام ہے کہ کسی قوم کو طاقت اور اسلحہ سے دبایا نہیں جاسکتا، اگر ملت کھڑی ہو جائے تو اس کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ اگر ہم پاکستانی بھی یہ فیصلہ کرلیں تو ان شاء اللہ مغرب، امریکہ اور سعودیوں کی کالونی نہیں بن سکتے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  محل وقوع کے اعتبار سے یمن سعودی عرب کے جنوب میں،عمان کے مغرب میں، بحیرہ احمر کے مشرق میں اور خلیج عدن کے شمال میں واقع ہے۔یہ مغربی ایشیا میں مشرقِ وسطیٰ کا  دو کروڑ آبادی پر مشتمل انتہائی اہم ملک ہے۔

موجودہ صدی میں  مصر کے جمال عبدالناصر نے  بھی ۱۹۶۲ میں یمن پرحملہ کرکے وسیع پیمانے پر انسانی قتلِ عام کیا تھا لیکن وہ تو ہمارا ہیرو ٹھہرا لہذا ہم کیوں اس کے خلاف بولتے، اسی طرح ۱۹۹۴ میں شمالی اور جنوبی یمن  کے درمیان زبردست کشت و کشتار ہوئی لیکن عالمی برادری کو اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔

یمن کے رہنے والوں کا قصور یہ ہے کہ یمن کی پٹرول اور گیس سے لبریز ۱۸۰۰ کلو میٹر سرحد سعودی عرب کے ساتھ ملتی ہے۔اس کے علاوہ باب المندب  کا دریائی  علاقہ  جنوب کی طرف سے دریائے احمر کو  خلیج عدن اور اوقیانوس ہند سے جوڑتا ہے یوں سعودی عرب، افریقا اور مصر کی شہ رگ اس کے کنٹرول میں ہے۔

یہ کوئی وہابی و شیعہ یا دیوبندی و زیدی یا نجدی و حوثی کا مسئلہ نہیں بلکہ معدنی ذخائر کی خاطر  مضبوط ممالک کی ایک کمزور ملک پر جارحیت ہے۔یمن میں آبادی کے لحاظ سے ۵۰فی صد شافعی اہل سنت ہیں جبکہ ۴۰ فی صد شیعہ ہیں اور اس کے علاوہ  اسماعیلی اور صوفی مسلک کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

حوثیوں کی تحریک کا آغاز ۱۹۹۰ میں سید حسین الحوثی کے ہاتھوں سے ہوا۔۲۰۰۵ میں حکومت یمن نے اس تحریک  پر کاری ضرب لگائی اور اس کے بانی کو شہید کردیا، اس کے بعد سید حسین الحوثی کے والد بدرالدین حوثی نے اپنے بیٹے کے راستے پر سفر جاری رکھا اور اپنی وفات تک اس پر کاربند رہے، ان کی وفات کے بعد سید حسین کے بھائی سید عبدالمالک حوثی نے اس زمہ داری کو سنبھالا ۔

یاد رہے کہ ماضی میں سعودی عرب یمن کو  قطر کی طرح اپنی بغل بچہ بادشاہت  کےطور پر دیکھتا  تھا ۔سعودی عرب کا منصوبہ تھا  کہ داعش اور القاعدہ کے اسٹریکچر کو یمن میں مضبوط کیا جائے، جیسے ماضی میں افغانستان و روس کی جنگ  میں پاکستان کی سرزمین اور لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں یمن کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ تھا،  سعودی عرب کے اس منصوبے کو  یمنی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اپنے ملک کو غیروں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اصرار کیا۔

یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  سعودی عرب کا دورہ کیا اور ملک عبداللہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا چنانچہ حوثیوں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے القاعدہ کے لشکر یمن بھیجے اور یوں یمن میں ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

 بعد ازاں اس خانہ جنگی سے سعودی عرب کو اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو سعودی عرب مستقیماً اس جنگ میں کود پڑا ۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح  ۱۹۹۷۸میں یمن کے صدر بنے ، انہوں نے ایسے وقت میں یمن کی صدارت سنبھالی کہ جب ان سے پہلے یمن کے دو صدور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دہشت گردی کے شکار ہو گئے تھے۔

 علی عبداللہ صالح نے تمام تر مشکلات کے باوجود ۲۳ سال تک  یمن پر حکومت کی۔۱۹۹۰سے پہلے وہ صرف شمالی یمن کے صدرتھے ،تاہم انہوں نےشمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ۱۹۹۴میں یمن کی داخلی جنگ کو آسانی سے نمٹانے میں بھی  کامیاب ہو گئے،  اس کے بعد ۱۹۹۹ کے انتخابات میں  متحدہ یمن کے پہلے  صدر منتخب ہوئے۔۲۰۱۱ میں عوامی جلسوں اور احتجاجات  کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی صدارت سے استعفیٰ دے دیا،   انہوں نے کچھ عرصہ اپنے تعلقات حوثیوں کے ساتھ بھی اچھے رکھےلیکن  ۱۹۹۰ کے بعد انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے شروع کر دئیے۔

۔ موصوف نے  ایک سیاسی چال کے طور پر عبدربه منصور هادی کے مقابلے میں کچھ عرصہ  انقلابیوں کی زبانی حمایت بھی  کی لیکن پھر کھلم کھلا  سعودی عرب کو ہی  اپنا سیاسی قبلہ بنا لیا  اور انقلابیوں کی مخالفت شروع کر دی۔بعد ازاں ۴ دسمبر ۲۰۱۷ کو انہیں قتل کردیا گیا۔

اس وقت یمن پر سعودی حملے کے مندرجہ زیل اہداف ہیں:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

یہ جنگ کسی طور پر بھی دینی و مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف استعماری  مفادات کی تکمیل کے لئے  ننگی جارحیت ہے۔ جب تک دنیا ، استعمار کے خلاف رد عمل نہیں دکھاتی یہ جنگ جاری رہے گی۔ جو اقوام آج خاموشی کے ساتھ یمن کا تماشا دیکھ رہی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  استعمار کا پیٹ کسی ایک ملک کو ہڑپ کرنے سے نہیں بھرتا ، آج اگر یمن پر بارود کی بارش ہو رہی ہے تو کل کو کسی اور کی باری آئے گی۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (گلگت) آرڈر 2018 کو معطل کرکے سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان نے جی بی کے عوام کی ترجمانی کی ہے۔اپیلیٹ کورٹ کا فیصلہ تاریخی اور انصاف پر مبنی فیصلہ ہے ۔عدالت کے متعلق ابہام پیدا کروانے والے حکومتی وزراء کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان سے متعلق وفاقی حکومت کے کسی بھی فیصلے کو گلگت بلتستان اپیلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے خلاف حکومتی وزراء کی جانب سے عدلیہ کے اختیا ر کو چیلنج کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔صوبائی حکومت عدلیہ کے حوالے سے نااہل وزیراعظم اور اس کی ٹیم کے نقش قدم پر چل نکلی ہے ،سپریم اپیلیٹ کورٹ مرکز کی طرح صوبائی حکومت کا قبلہ درست کرے۔

انہوں نے کہا کہ آرڈر 2018 کے خلاف عوامی احتجاج اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کا فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آرڈر ایک ظالمانہ آرڈر ہے جس نے گلگت بلتستان کے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑادی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی وزراء کی جانب سے سپریم اپیلیٹ کورٹ کے دائرہ کار کو چیلنج کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ آرڈر 2018 کے ذریعے جی بی کے عوام کو وفاق کا غلام بنانا چاہتے ہیں جو کہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔انصاف کا تقاضا یہ ہے ستر سالوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے اور گلگت بلتستان کے عوام کے امنگوں کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔عوامی امنگوں کے خلاف کوئی بھی فیصلہ گلگت بلتستان میں نافذ ہونے نہیں دینگے۔

وحدت نیوز (کراچی) الیکشن 2018پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، محب وطن اور مخلص قیادت کا برسراقتدار آنا وقت کی اہم ضرورت ہے، مجلس وحدت مسلمین کرپشن اور دہشت گردی سے پاک پاکستان کیلئے انتخابی میدان خالی نہیں چھوڑے گی، کراچی کے مختلف حلقوں سے امیدوار انتخابی دنگل میں اتارے ہیں، قومی سطح پر ممکنہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات حتمی مراحل میں ہے، جلد اعلان کیا جائے گا، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ محمد صادق جعفری نے وحدت ہائوس کراچی میں ایم ڈبلیوایم کے نامزد اراکین قومی وصوبائی اسمبلی سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ کرپشن ، اقرباء پروری ، لوٹ ماراور دہشت گردی نے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، سابقہ حکومت نے قومی اداروں کی سلامتی واستحکام کے خلاف سنگین اقدامات کیئے ، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا بوگس دعوے کرنے والے حکمرانوں نے عوام کو دھوکے سے سوا کچھ نہیں دیا، پانچ سال لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے نعرے پر حکومت کرنے والی ن لیگ اگلا الیکشن بھی اسی کھوکھلے نعرے کی بنیاد پر لڑنے کے خواب دیکھ رہی ہے، سندھ کے عوام پر گذشتہ دس برس سے حاکم جماعت نے عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت کی سہولیات اور اعلیٰ معیار تعلیم بھی فراہم نا کیا ، آج پھر عوام کو پرانے وعدوں کے ذریعے بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے مذید کہاکہ اس الیکشن میں پاکستان کے غیور وبیدار عوام کرپٹ اشرافیہ کو مسترد کرکے محب وطن امیداروں کو ووٹ دیں گے، پاکستان میں انقلابی تبدیلوں کے لئے باریاں بدلنے والی جماعتوں کا راستہ روکنا ہوگا، ایم ڈبلیوایم دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کی خواہاں ہے، انشاءاللہ جلد قومی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے اور اسکا اعلان جلد میڈیا کے توسط سے کردیا جائے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree