وحدت نیوز (جیکب آباد) سندہ دھرتی نے بہت ساری قابل فخر شخصیات پیدا کی ہیں جنہوں نے اس دھرتی اور پاک وطن کے لئے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، انہی قابل قدر اور قابل فخر شخصیات میں بزرگ عالم دین حضرت حجہ الاسلام علامہ حیدر علی جوادی صاحب نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ، آپ نے نصف صدی اس ملک میں عوام کی خدمت اور علم کے فروغ میں صرف کی ہے۔ جامشورو، حیدر آباد کی مرکزی درسگاہ مرکز تحقیقات سمیت سندہ کے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے آپ کی علمی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ کی دینی خدمات سے پورا ملک واقف ہے۔ آپ کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ آپ کے خاندان اور فرزندان بھی مختلف مقامات پر علمی و دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل اس بزرگ عالم دین کے بیٹے کو اغوا کیا گیا اور پھر چار مہینے کی قید میں افسوس ناک سلوک کیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں سندہ دھرتی ایک ممتاز عالم دین سے محروم ہوگئی، سندہ دھرتی کے ایک جید عالم دین کے ساتھ توہین آمیز رویہ اور ایک عالم دین کے بلا جواز اغوا، قید اور پھر شہادت نے لاکھوں انسانوں کو سوگوار کردیا ہے۔ اور ریاستی اداروں کا کردار ایک سوالیہ نشان بن چکاہے۔ہم چیف جسٹس پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف نیر حقوق انسانی کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قتل ناحق کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں قانون کے کٹہڑے میں لایا جائے
انہوں نے مزید کہاکہ ملت جعفریہ گذشتہ کئی سالوں سے اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں آج بھی شیعہ نسل کشی جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر نہتے شیعہ جوانوں کو دھشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ صوبہ کے پی، کے آئی جی پولیس نے بتایا ہے کہ ایم ایم اے کے دورحکومت میں پولیس اور ایف سی جو بھرتیاں کی گئی ہیں اس میں بہت سارے تکفیری ذھنیت کے حامل شدت پسند لوگ ان ریاستی اداروں میں بھرتی ہوچکے ہیں، جو شیعہ کشی میں ملوث ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں باقائدہ تحقیقات کرتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اور ریاستی اداروں کو تکفیری ذہنیت اور دھشت گردوں کے حامی متعصب عناصر سے پاک کیا جائے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک بھر میں تکفیری دھشت گردوں کے خلاف فوجی اپریشن کیا جائے اورمحرم الحرام سے قبل سیکورٹی کے سلسلے میں بھرپور انتظامات کئے جائیں۔معزز صحافی حضراتوطن عزیز پاکستان میں اب نئی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے ، جس نے قوم سے تبدیلی کا وعدہ کیا ہے امید ہے کہ نیا پاکستان دھشت گردی سے پاک ہوگا، تکفیری سوچ اور ان کے سہولتکاروں کا خاتمہ ہوگا۔ کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام خصوصا اہل تشیع کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں ماورائے آئین و قانون شریف انسانوں کا اغوا اور لاشوں کے تحفے اب بند ہوں گے۔آخر میں ہم جیکب آباد سانحہ شب عاشور کے شہداء کے لئے انصاف کا مطالبہ دھراتے ہیں سانحہ23 اکتوبر میں ملوث مجرموں کی باعزت رہائی انصاف کا قتل ہے۔ اس کیس کو ری اوپن کیا جائے تاکہ 28 مظلوم شہداء کے خون سے انصاف ہو سکے۔ اور محرم الحرام سے قبل جیکب آباد میں امن و امان کے حوالے سے بھرپور انتظامات کئے جائیں۔
وحدت نیوز (راولپنڈی) امام باقرعلیہ سلام کی شہادت کے سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی کی جانب سے خواہر شازیہ کے گھر دعا اور درس کا انعقاد کیا گیا تھا، حدیثِ کساء اور دعائے توسل کی تلاوت کی سعادت خواہراِرم نے حاصل کی،ننھی ذاکرہ ہوریہ فاطمہ نے منقبت پیش کی اس کے علاوہ ہدیہ منقبت اور سلام خواہر تسمیہ اور ان کی بہن نے بھی پیش کیا۔اس کے بعد پروفیسر انجم نقوی نے سیرتِ امام باقر علیہ سلام بیان کرتے ہوئے فضائل و مصائب کا ہدیہ پیش کیا۔دعائے امامِ زمانہ پر اختتام ہوا۔ بعد ازاں ایم ڈبلیو ایم کی ضلعی سیکٹری جنرل خواہر قندیل زہرا کاظمی نے تاج پوشی امام علیہ سلام کے سلسلے میں خواہران کو جشن کا اہتمام کرنے کی ہدایات جاری کیںاور محرم الحرام کی آمد اور تیاریوں کے سلسلے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کی کیبنٹ میٹنگ رکھنے کو بھی کہا۔ آخر میں خواہر شازیہ نے بہت خلوص سے تمام خواہران کو کھانا کھلایا اور حاضرینِ مجلس کا شکریہ بھی ادا کیا ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) خوشیاں منانے کا روز تھا، عید کا دن تھا، بازار بند تھے، مارکیٹیں سنسان تھیں، ہر طرف ہو کا عالم تھا، سکوت تھا، سناٹا تھا، خاموشی تھی اور اس خاموشی اور سکوت کے درمیان میں کچھ لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، میری طرح یقینا آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ عید کے دن غم کیسا! یہ جشن کے روز ماتم کیوں اور یہ خوشی کے دن سیاہ پٹیاں کیوں! یہ لوگ بازار میں نکلے تھے احتجاج کرنے، ظلم کے خلاف، بربریت کے خلاف ، دھاندلی کے خلاف، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اور ارباب اقتدار کی موج مستی کے خلاف ۔
عین اس وقت جب مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے مقام پر قابض فوج نے نماز عید کے دوران نمازیوں پرآنسو گیس شیلنگ اور پیلٹ گنز سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور اس کے بعد وادی بھر میں بھارتی فوج اور نہتے کشمیریوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا اور بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے تو تو دوسری طرف کوٹلی آزاد کشمیر کے شہید چوک میں بھی کچھ لوگ محکمہ لائیو اسٹاک کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے، یہ ان کے احتجاج کا تیسرا دن تھا۔ یوں تو ہر طرف ہی ظلم و زیادتی کا راج ہے لیکن ظلم کے خلاف بولنے والے اور آواز اٹھانے والے کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں ۔ ان چند لوگوں میں انجمن تحفظ حقوق عامہ کوٹلی آزاد کشمیر کے ممبران بھی شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور پانی کے قطع ہونے کے علاوہ متعدد مسائل اپنے عروج پر ہیں جس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں بھی لوٹ کھسوٹ اور دھونس دھاندلی عام ہے۔
اس احتجاج کے پیشِ نظر فوری مسئلہ یہ تھا کہ محکمہ لائیو اسٹاک کوٹلی کے دفتر میں خالی ہونیوالی چوکیدار کی آسامی پر ڈسٹرکٹ لائیو اسٹاک آفیسر سردار فرید نے آسامی کومشتہر کئے بغیر اپنے کسی عزیز کو تعینات کیا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آسامی سے ریٹائرڈ ہونے والی شخصیت سید شہپال حسین شاہ کے دو جوان بیٹے میرٹ پر پورے اترتے ہیں اور قانونی طور پر یہ ان کا حق بنتا تھا جسے نظر انداز کیا گیا اور اس پر عوام ِ علاقہ نے اخوت باہمی کے تحت احتجاج شروع کردیا جو آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر ایک طرف تو گڈ گورننس کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف سرکاری اداروں میں ڈنکے کی چوٹ پر میرٹ کو پامال کیا جاتا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوامی احتجاج کے باوجود اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور متعلقہ محکمے شکایات کا نوٹس تک نہیں لیتے ۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک کے ریٹائر ہونے والی جس شخصیت کے بیٹوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ، ان کا ایک بیٹا کشمیرکی آزادی کی خاطر ہندوستان میں پچیس سال جیل کاٹ کر واپس آزاد کشمیر آیا ہے۔ اس طرح اس ستم دیدہ فیملی کے ساتھ ہمدردی کے بجائے مزید ظلم یہ کیا گیا کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں اس خاندان کے میرٹ کو پامال کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین کے مطابق آزاد کشمیر میں اس طرح کی بے ضابطگیاں عام ہیں، جن پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی اور عام عوام خاموشی سے ان مظالم کو برداشت کرتی چلی آرہی ہے لیکن اب کی بار عوام نے احتجاج کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے جسے جاری رکھا جائے گا اورتمام مطالبات پورے ہونے تک عوامی و قانونی جدوجہد کے ساتھ عوامِ علاقہ کے حقوق کا دفاع کیا جائے گا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر نہ بنایا جائے اور عوامی حقوق کا احترام کیا جائے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (گلگت) لیگی حکومت او ر کرپشن کا چولی د امن کا ساتھ ہے۔گریڈ 5تک تقرریوں کیلئے ریکروٹمنٹ کمیٹی کو ختم کرکے وزیر اعلیٰ نے من پسند تقرریوں کیلئے راہ ہموار کردی ہے۔ریکروٹمنٹ کمیٹی میں تین محکموں کے سربراہوں کی نمائندگی ہوتی تھی جن کی موجودگی من پسند تقرریوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ریکروٹمنٹ کمیٹی کو ختم کردیاگیا ہے ۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے سرکاری ملازمتوں میں سیاسی دبائو کے ذریعے من پسند افراد کو نوازنے کی لیگی حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ حکمران اپنے بڑوں سے عبرت حاصل کریں اور انصاف سے حکومت کریں ورنہ ان کا حشر بھی ان کے بڑوں جیسا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ایسے غیر منصفانہ اور کرپشن کی راہ ہموار کرنے والے نوٹیفکیشن کو تسلیم نہیں کرتے جو کسی حق دار کو اس کے حق سے محروم کرے۔میرٹ کی بالادستی قائم نہ رکھنے والی حکومت اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچ لے۔انہوںنے کہا کہ محلمہ پولیس میں شفاف تقرریاں ہوئیں اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے من پسند افراد کو تقرر کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا جسے خاطر میں نہ لانے پر ٹیسٹ اور انٹرویوز کو کالعدم قرار دیکر تقرریوں کو روک دیا گیا ہے حالانکہ ٹیسٹ/ انٹرویوز ڈیپارٹمنٹل ریپ کی موجودگی میں ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ریکروٹمنٹ کمیٹی کی موجودگی میں سیاسی بھرتیاں ممکن نہیں ہوئیں تو ایک دم ایسا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں آئندہ ہونے والی تقرریوں میں اختیار صرف متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو دیا گیا ہے تاکہ ایک ہی ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز کو زیر عتاب لاکر من پسند تقرریوں کی راہ ہموار کی جاسکے۔انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے میرٹ پائمال ہوگا اور ذمہ دار حلقے میرٹ کو برقرار رکھنے کیلئے کردار ادا کریں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ایم ڈبلیوایم قم کے سابق سیکریٹری جنرل اور شہید منیٰ علامہ ڈاکٹر شیخ غلام محمد فخرالدین ؒ کی تیسری برسی کے موقع پر مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تعزیتی پیغام میں کہاہے کہ شہید منیٰ کی قربانی اعلیٰ وارفع مقاصد کے حصول کیلئے تھی، سرزمین مقدس حجاز پر عصر کی شیطانی قوتوں کے خلاف اعلان برائت کرنے کے جرم میں آل سعود نے سنگین جنایت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں عازمین حج سمیت سرمایہ ملت جعفریہ پاکستان ، عاشق مقام معظم رہبری شہید غلام محمد فخر الدین ؒ کو بے دردی سے شہید کیا ۔
انہوں نے مزید کہاکہ شہدائے منیٰ کے قتل عام کے پیچھے ایک عالمی سازش کارفرما تھی ، امریکہ ، اسرائیل اور آل سعود نے عالمی استکبار کے خلاف دوران حج بیت اللہ برائت از مشرکین کرنے کے جرم میں سینکڑوں حجاج کرام کو روندڈالا، آل سعود کا یہ جرم خدا کے نذدیک ان کی نابودی کاسامان قرار پائے گا، انہوں نے کہاکہ شہید منیٰ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ؒ کی یاد ان کے اہداف اور ارمان ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے،شہید کی تیسری برسی کے موقع پر شہید کے پسماندگان اور ان کے تمام ہمکاران کو ہدیہ تسلیت و تعزیت پیش کرتا ہوں ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) سردی بہت تھی، کسان نے سانپ کے بچے کو کھیت سے اٹھایا، گھرلایا، چولہے کے نزدیک رکھ کر گرمایش پہنچائی اور نیم گرم دودھ پلایا، جیسے ہی سانپ کا بچہ ہوش میں آیا تو اس نے کسان کے بچے کو ڈس لیا۔ ایسا ہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، پاکستانی ایک جوانمرد ، شجاع ، بہادر، دلیر اور مخلص قوم ہیں۔ پاکستانیوں نے سب کے ساتھ ہمدردی کی حتی کہ پاکستان کے قیام کے دشمنوں کو بھی اپنی آغوش میں جگہ دی اور ان کے لئے سیاست کے دروازے کھولے۔
قیام پاکستان کے چند بڑے مخالفین میں دو نام سرِ فہرست ہیں۔ایک خان عبدالغفار خان ہیں جنہیں باچا خان اور سرحدی گاندھی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، 1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے۔اسی طرح جب 1988ء میں آپ کا انتقال ہوا تو آپ نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا اور آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ دوسری اہم اور نامور شخصیت جو قیام پاکستان سے خائف تھی وہ مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود ہیں جنہوں نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ وہ کانگریس پارٹی کے رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے بانی اراکین میں سے تھے۔
اگرچہ مفتی محمود کے نزدیک پاکستان بنانا گناہ تھا اور وہ اپنی جماعت و مسلک سمیت ، قیامِ پاکستان کے گناہ میں شریک نہیں تھے تاہم انہوں نے اپنے بیٹے فضل الرحمان کی طرح اس گناہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وزیرِ اعلیٰ سرحد بھی رہے۔آج جب مولانا فضل الرحمان یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ۱۴ اگست کو یومِ آزادی نہیں منائیں گے اور پاکستان کی فوج کو دھمکاتے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں چونکہ مولانا کی تنظیم، عقیدہ اور مسلک ہی قیام پاکستان اور آزادی ِ پاکستان سے خوش نہیں ہے۔
مولانا کے ہم فکر اور ہم مکتب لوگ جہاں بھی ہیں وہ پاکستان اور افواج پاکستان سے اتنی عداوت رکھتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان کو کافرستان تک کہہ جاتے ہیں بلکہ پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ بھی ہے۔ یاد رہے کہ مولانا اور ان کے ہمنوا، صرف اور صرف پاکستان میں زبان چلانا اور ہتھیار اٹھانا جانتے ہیں۔
مولانا اور ان کے ارادتمندوں کے نزدیک صرف پاکستان کا بنانا ہی گناہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علمی و عقیدتی مرکز دیوبند سے کبھی بھی کشمیر کی آزادی کے لئے کوئی ریلی نہیں نکالتے اور اسی طرح وہ اپنے دوسرے بڑے مسلکی مرکز سعوی عرب سے بھی کبھی اسرائیل کے خلاف کوئی جلسہ جلوس نہیں نکالتے، چونکہ ان کے نزدیک جیسے پاکستان کا بنانا گناہ ہے اسی طرح کشمیر اور فلسطین کے حق میں کوئی جلسہ جلوس نکالنا بھی گناہ ہے۔اسی لئے مولانا فضل الرحمان ایک لمبے عرصے تک کشمیر کمیٹی کے چئیرمین رہنے کے باوجود اخباری بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔
یہ اس وقت تک نا خوش رہتے ہیں جب تک انہیں شریکِ اقتدار نہیں کیا جاتا ،انہیں اگر شریکِ اقتدار کرلیا جائے تو یہ ہر سال بڑے شوق سے یومِ آزادی مناتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان خیر سے بابائے طالبان بھی ہیں لال مسجد کی طرح ایک نہیں ہزاروں مساجد ان کی سرپرستی میں چل رہی ہیں اور مولانا عبدالعزیز کی طرح سینکڑوں برقعہ پوش مولوی حضرات ان کی آواز پر لبیک کہنے کو تلے ہوئے ہیں لہذا ہمارے سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ مولانا کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور خصوصا ً یومِ آزادی کے موقع پر مولانا کی آل و اولاد یعنی طالبان ، اپنے باپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کسی بھی قسم کی گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں، اس لئے ہمارے سیکورٹی اداروں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ مجموعی طور پر اہلیانِ پاکستان نے مولانا اور ان کے مکتب کے ساتھ کوئی متعصبانہ رویہ نہیں اپنایا لیکن ان لوگوں کو جب بھی فرصت ملی انہوں نے ملت پاکستان کو ڈسا ہے، پاکستان کے یومِ آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے مولانا نے در اصل اپنی تاریخی شناخت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس میں ہمارے لئے بھی یہ درس ہے کہ جب تک ہماری صفوں میں اس قماش کے لوگ موجود رہیں گے تب تک ہمیں اپنی فوج کے ساتھ مل کر اپنی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.