وحدت نیوز(سکردو )  عوامی ایکشن کمیٹی گلگت  بلتستان کےچیئرمین مولانا سلطان رئیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے بائیس لاکھ عوام کی آواز اور عوامی ایکشن کمیٹی کے سینئر رہنما ء آغا علی رضوی کو شیڈول فور کے سلسلے میں ہراساں کرنے یا انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو کسی قسم کو سمجھوتہ نہیں ہوگا اور کھلی طور پر مزاحمت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اداروں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہم نے شیڈول فور کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے اور پٹیشن دائر کیا ہوا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت  بلتستان میں شیڈول فور کا نفاذ غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے۔اس غیر قانونی عمل کے خلاف جب ہم کورٹ گئے ہیں تو انہیں انہیں کورٹ کا احترام کرنا چاہیے ۔ مولانا سلطان رئیس نے کہا کہ اداروں کو عدالت اور عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنے ہاتھ محدود کرنا چاہیے اگر کسی قسم کی غلطی کی گئی تو انہیں اس چیز کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں شیڈول فور کو عوامی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف استعمال کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ فوری طور یہ سلسلہ رک جانا چاہیے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کی کابینہ کا اجلاس مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا۔ جس میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خصوصی شرکت کی۔ جبکہ صوبائی کابینہ کے اراکین کے علاوہ صوبائی سیکرٹری جنرل و رکن شوریٰ عالی علامہ اقبال بہشتی اور مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور مرکزی کورآڈینیٹرتنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر صوبہ کی مجموعی تنظیمی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور تنظیمی فعالیت کو بڑھانے کیلئے اہم فیصلہ جات کئے گئے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے  یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں  کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام  کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں  سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:

میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا  ہونا   غلام  حضرت  شبیر ہونا  ہے

ِ61ہجری کی ابتدا ہی میں نواسہ رسول ؐ کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و با وفادار اصحاب  راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :{حُسَيْنٌ مِنّی وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللہ ُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً}1۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔

آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا :{إِنّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فی أُمَّۃِ جَدّی، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسيرَ بِسيرَۃِجَدّۃوَأَبی عَلِیِّ بْنِ أَبي طالِب}2۔میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔

دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو  یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ "الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔۳۔

امام خمینی  رہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔ آپ نے جلا وطنی کے عرصہ میں بھی تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔
امام خمینی مکتب حسینی کے شیدائی تھے۔ آپ  اتحاد امت کے داعی اور مجاہد مبارز عالم دین تھے آپ نے جو راستہ اختیار کیا وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی عزت، سربلندی اور افتخار کا راستہ ہے۔ آپ کی باتیں ،آپ کی تحریریں ، آپ  کی تقریریں اور آپ کی روشن فکر آہنی عزم،ثابت قدمی،شجاعت، غیرت، قوت فیصلہ غرض  ہر ہر پہلو میں امام حسین علیہ السلام کے کردار اور عزم صمیم کا عکس نظر آتا ہے۔ امام خمینیؒ خود فرماتے ہیں ہم جو کچھ بھی ہیں اور ہماری کامیابیاں یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے واقعہ کا عکس و درس ہے۔

اس مقالہ کا موضوع "قیام امام حسین علیہ السلام  کے اہداف امام خمینی رہ کی نگاہ  میں " ہے  ۔امام خمینی رہ کے گفتگو  میں  قیام عاشورا  کےجو  اہداف بیان ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہے:

1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا
2۔ اسلامی  معاشرےکی اصلاح
3۔ ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
5۔اسلامی حکومت کا قیام
6۔اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
7۔ الہی ذمہ داری پر عمل کرنا۔

واضح رہے کہ یہ اہداف  ایک دوسرے کے مقابل میں نہیں بلکہ ان اہداف میں سے بعض ہدف کو دوسرے اہداف کے ساتھ جمع کر سکتا ہے۔ امام خمینی رح کے کلمات میں ان میں سے ہر ایک ہدف کی تاکید ہوئی ہے۔ علاوہ بر ایں ان میں سے ہر ایک ایک الہی قیام کے لئے مستقل ہدف بن سکتا ہے۔ اس لئے ان تمام موضوعات کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔4

1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا:
کسی مکتب فکر کی تحریف اس مکتب فکر کے لئے سب سے بڑا  خطرہ ہے  ۔کسی بھی مکتب اور مذہب میں بدترین تحریف یہ ہے کہ اس مکتب کے رہبران اور سیاستدان   اس مکتب  اور مذہب کے قوانین اوردستورات کے برخلاف عمل کریں  لیکن دوسرے افراد کے سامنےاپنے گفتار و کردار کو اس مکتب کے قوانین ، دستورات اور تعلیمات کے عین مطابق  سمجھنے لگے۔ ‏امام حسین علیہ السلام کے  زمانے میں بھی اموی مشینری کی طرف سے  اسلام کے لئے اس قسم کا   خطرہ موجود تھا  اگر اس دور میں امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو  اسلام کا صرف نام باقی رہ جاتا۔

امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ظالم و جابر یزیدی حکومت کا ارادہ  تھا کہ سرخ قلم سے اسلام کے نورانی چہرے پر لکیر کھینچے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اورصدر اسلام کے مسلمانوں کی زحمتوں اور شہداء کے پاکیزہ  خون کو ضائع کرے۔

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :بنی امیہ نے اسلام کو ایک طاغوتی نظام کے طور پر پیش کیا یہاں تک کہ بانی اسلام کے چہرے کو بھی حقیقت کے بر عکس  پیش کیا۔معاویہ اوراس کے ظالم بیٹے یزیدنے  خلیفہ رسول خدا کے عنوان سے اسلام کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جس طرح چنگیز خان نے ایران کے ساتھ سلوک کیا اور اس دین کو جس کی بنیاد وحی پر تھی ایک شیطانی رژیم میں تبدیل کیا۔

ایک اور جگہ امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہداء امام حسین علیہ السلام  جانتے تھے کہ معاویہ اور اس کا بیٹا اس عظیم مکتب کو تباہ کر ر ہے ہیں   اوراسلام کے اصلی اورحقیقی چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں ۔۔۔ وہاں جماعتیں تھیں تو بھی لہو و لعب کی مجالسیں برپا ہوتی تھیں۔ خدا خواہی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن خدا و الوہیت کے  خلاف  قیام  کرتےتھے۔ ان کے اعمال اوران کا رویہ شیطانی تھا لیکن  ان کی فریاد خلیفہ رسول خدا کاتھا۔

معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ خلافت کو غضب کیا گیابلکہ یہ بہت کم خطرہ تھا  لیکن ان کی طرف سے اسلام کو  جوشدید خطرہ تھا وہ  یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتےتھے۔ اسلام کی معنویت کو ایک طاغوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اوریہ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس خطرے کو امام حسین علیہ اسلام نے دفع کیا اوراگر وہ اس چیز میں کامیاب ہوتے تو  اسلام کا ایک اورنقشہ ہوتا  اوراسلام بھی دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی رژیم و سلطنت کی طرح ہوجاتا۔5۔اسی طرح  ایک اورمقام پر فرماتے ہیں :سید الشہداء علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اموی خاندان  اسلامی خلافت کے نام پرمکتب اسلام کو آلودہ کر رہے ہیں  اورہر قسم کے ظلم و ستم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے افراد کا  تاثر یہ ہے کہ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں  اس لئےیہ کام انجام دے رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ یزید کے خلاف قیام کریں اوراس راہ میں شہید ہوجائے تا کہ معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے آثار کو ہمیشہ کے لئے  دفن کر دے۔

‏امام خمینی رح فرماتے ہیں:معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے دور حکومت میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رہے تھے اور خلیفہ المسلمین  اور خلیفہ رسول اللہ کے عنوان سے ہر قسم کی جنایات انجام دیتے تھے اس لئے بزرگان اسلام  کی ذمہ داری  بنتی تھیں کہ  وہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے قیام کرے، دنیا کو ان کی خباثت برملا کرے اور اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے کیونکہ بہت سے لا علم اورغافل افراد اسی کو ہی اسلامی خلافت سمجھتے تھے ۔6

امام خمینی رح کے ان کلمات میں آپ تحریف کے مسئلہ  پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے اسے بہت ہی  زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں  اور اس سے مقابلہ کرنے کو قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔اس تحریف کا خطرہ یہ تھا کہ اسلام کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو  جان بوجھ کر لگد مال کئے جاتے تھے اور یہ کام  بھی ان افراد کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین کہلاتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں اسلام سرے سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا جبکہ نادان افراد ان کے  اعمال و کردار کو  اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو جب مروان نے کہا کہ مدینہ کے گورنر کے پیشنہاد پر عمل کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرے تو آپ نے کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اورفرمایا: «و علی الاسلام، السلام، اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید7۔‎

۲۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح
امام حسین علیہ السلام  کےقیام کے اہداف میں سے ایک اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ۔اور یہی تمام انبیاء و اولیا ءکرام کا ہدف تھا۔امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں :تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ان سب کا مسئلہ یہی تھا کہ فرد معاشرے پر قربان ہو جائے اور یہ فرد جس قدر عظیم  اور بڑا ہی کیوں نہ ہو جب معاشرے کی مصلحت کے ساتھ اس کا ٹکراو ہو تو اسے معاشرے پر اپنے آپ کو فدا کرنا چاہیے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں:سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسی معیار کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے اصحاب  و انصار کو  اسلامی معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان کیا ۔ "و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب و المیزان، لیقوم الناس بالقسط"8

 اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے اوپر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ  قیام کرے اوراپنے پاکیزہ خون کو اسلام پر قربان کرے تاکہ ملت کی اصلاح ہو اورآپ نے ایسا ہی کر دیا۔9۔

امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: انی لم اخرج اشراولا بطرا ولامفسدا ولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدیوابی علی بن ابی طالبؑ۔10۔اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے علماءدین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا   اس میں بھی بنی امیہ کے خلاف اپنی قیا م کو معارف دینی کی ترویج ، اسلامی معاشرے کی اصلاح ، مظلوم افراد کی  فریاد رسی  ،قرآنی تعلیمات اوردستورات اسلامی کا اجرا قرار دیا۔11

3۔ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
 امام حسین علیہ السلام  کے قیام کے اہداف  میں سے ایک ہدف بنی امیہ کی طرف سے ہونی والی ظلم  و ستم اور ناانصافی تھی  ۔ امام خمینی رح اس بارے میں فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام اور امام زمان  عج اسی طرح تمام انبیاء کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ ظالم و جابر حکومت کے مقابلہ میں ایک الہی حکومت تشکیل دے۔

اسی طرح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد شروع سے ہی  عدل کا نفاذتھا  اوراپنی پوری زندگی  ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ میں صرف کی۔ایک اورمقام پرآپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب خدا کی راہ میں قربان کر دیا اوراسلام کی تقویت کی خاطر ظلم کے خلاف قیام فرمایا۔

‏ امام خمینی رح  ایک اورجگہ فرماتے ہیں:سید الشہداء  امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک ظالم و جابر جب ایک رعایا پر حکومت کر رہا ہے  تو آپ نے  فرمایا: اگر کوئی ظالم و جابر لوگوں پر حکومت کرے اوران پر ظلم و ستم روا رکھے تو لوگوں کو چاہئے کہ اس کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف قیام کرے۔۔۔۔۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جو کوئی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کا مقام بھی یزید جیسے جابر و ظالم کا مقام ہے۔ 12

‎‏ امام خمینی رح فرماتے ہیں :ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: میں موت کو سعادت جبکہ ظالمین کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار  سمجھتا ہوں۔ «انی لا اری الموت الا السعادۃ و الحیاۃ مع الظالمین الا برما»13

امام علی علیہ السلام علماء ربانی کے وظائف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظالموں کے ظلم اور مظلومین کی آواز پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔14

اسی طرح امام علی علیہ السلام کے اس عہد نامہ میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا اس میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ انسانی معاشرے میں عدل کا قیام حکمرانوں کے لئے بہترین تخفہ ہے۔15

‏4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
 اسلامی معاشرے میں منکرات  اوربرائیوں کا اصلی سبب اموی حکومت تھا اس کے خلاف اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام  نے قیام فرمایا ۔اما م خمینی  رح اس بارے میں فرماتے ہیں :حضرت ابا عبد اللہ  الحسین علیہ السلام نےقلیل افراد کے ساتھ یزیدی حکومت کے خلاف جو قیام کیا  اس بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میرا فریضہ ہے کہ میں اس حکومت کے خلاف قیام کروں اور نہی از منکر کروں۔

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد معروف کو معاشرے میں رائج کرنا اور منکرات کا خاتمہ کرنا تھا ۔توحید کے علاوہ باقی سب چیزیں منکرات ہیں  اور یہ سب انحرافات اسی منکرات کی وجہ سے ہے۔ آپ کے قیام کا مقصد نہی از منکر تھا تاکہ کسی بھی معاشرے میں کوئی برائی اورمنکر موجود نہ رہے۔

سید الشھداء امام حسین علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی منکرات کو ختم کرنے اور  ظالم حکومت  کی وجہ سے پیدا ہونے والےمفاسد کے خاتمے کےلیے صرف کیا۔۔آپ نے محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: {ارید ان آمر بالمعروف و انہی عن‌المنکر} میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں16۔آپ علماء دینی کو مخاطب قراردیتے ہوئے اپنے مشہور خطبہ میں  امر بالمعروف و نہی از منکر اوراس الہی فریضہ کو درج ذیل چیزوں کے ساتھ ضروری قرار دیتےہیں۔

1۔لوگوں کواسلام کی دعوت
2۔رد مظالم
3۔ظالم کی مخالفت اوراس کے خلاف قیام
4۔لوگوں کے درمیان  بیت المال  کی عادلانہ تقسیم
5۔زکوۃ کی جمع آوری اور اسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا۔
آپ فرماتے ہیں:"ان الامر بالمعروف و النہی عن‌المنکر دعاء الی الاسلام مع ردالمظالم و مخالفۃ‌الظالم و قسمۃ الفی و الغنائم و اخذ الصدقات من مواضعہا و وضعہا فی حقہا"17۔
ایک اورجگہ پر امام حسین علیہ السلام نے فلسفہ قیام کوحق پرعمل نہ کرنے اور باطل سے اجتناب نہ کرنے کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :" الا ترون ان الحق لایعمل بہ و ان الباطل لایتناہی عنہ"18۔کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اورباطل سے اجتناب نہیں کیا جا رہا ۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے بارے میں قرآن مجید میں زیاد ہ تاکید ہوئی ہے جیسا کہ :
(۱) ارشاد رب العزت ہے : {ولتکن منکم امۃیدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر اولئک ھم المفلحون}19۔ اور تم میں سے
ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کا حکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔
(2) ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ}20۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگون کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ۔
(3)اسی طرح  فرماتا ہے :{ یؤمنون باللہ ویوم الآخرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکرویسارعون فی الخیرات واولئک من الصالحین}21۔یہ اللہ اورآخرت پر ایمان رکھتے ہیں،نیکیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہیں اور یہی لوگ صالحین اور نیک کرداروں میں ہیں۔
(4) سورہ توبہ میں  ارشادفرماتا ہے :{ التائبون الحامدون السئحون الراکعونالامروبالمعروف والناھون عن المنکر والحٰفظون لحدوداللہ وبشرالمؤمنین}22.یہ لوگ توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد پروردگار کرنے والے،راہ خدا مین سفر کرنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیکیوں کا حکم دینے والے،برائیوں سے روکنے والے اور حدود الہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔
(5)ایک اور مقام پر  ارشاد  ہوتاہے :{فلو لاکان من القرون من قبلکم اولوبقیۃ ینھون عن الفسادفی الارض الاقلیلاممن انجینامنھم}23۔تو تمہارے پہلے والے زمانون اور نسلوں مین ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے علاوہ ان چند افراد کے جنہیں ہم نے نجات دیدی۔
(6)اسی طرح  ارشاد  رب العزت ہوتاہے :{ کانوا لا یتناہون عن منکرفعلوہ لبئس ماکانویفعلون}24۔انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے۔
سیدا لشہدؑ ا خو د کو تمام احکام اسلامی خصوصامنکرات اور فحشاء کے مقابلہ میں ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ اسلامی معاشرہ فسق و فجور اور فساد سے بھر چکا تھاخاص کر یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک ہادی، مصلح اور منادی کی قیام کی ضرورت دو چند ان ہو گئی تھی لہذا آپ نے اس فریضہ کے انجام دہی کے لئے قیام فرمایا ۔

5۔حکومت اسلامی کا قیام
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے  اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کا قیام تھا یا نہیں۔ اس حوالے سے دو نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کوتشکیل دینا تھا ۔بعض افراد  کے عقیدہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں یہ ہدف نہیں ہو سکتی کیونکہ تاریخی شواہد اوربہت ساری روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام اپنی اوراپنے اعوان و انصار کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی مطلع  و آگاہ تھے۔ لہذا تشکیل حکومت آپ کے اہداف میں سے نہیں ہو سکتا۔
‏ ‏امام خمینی  رح کے کلمات میں یہ دونوں باتیں جمع نظر آتی ہیں۔ یعنی آپ اپنی اوراپنے اصحاب کی شہادت سے آگاہ تھے اور ساتھ ساتھ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کی تشکیل اورظالم و جابر حکومت کا خاتمہ تھا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں : امام حسین علیہ السلام  نے اپنا شرعی وظیفہ سمجھا کہ اس ظالم  حکومت کے خلاف قیام کرے یہاں تک کہ اسی راہ میں شہید ہو جائے۔ آپ  نے  بھی  سب کچھ اسی راہ میں  قربان کیا تاکہ یہ حکومت ہمیشہ کے لئے ذلیل اوررسوا ہو۔  

امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک جابر حکومت اسلامی معاشرے پر قابض ہے تو آپ نے اس شرائط میں اپنی شرعی ذمہ داری کو تشخیص دیتے ہوئے قیام فرمایا درحالیکہ آپ جانتے تھے کہ  ایک قلیل گروہ اس ظالم حکومت  کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔25
بنابریں مندرجہ بالا  عبارات میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
۱۔ متعدد روایات کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام  اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔
۲۔ ظاہری محاسبات سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ امام اورآپ کے انصار و اعوان اموی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
۳۔ اسلامی معاشرے میں انحرفات اور برائیاں اس قدر پھیل چکی تھی کہ اس کی اصلاح کے لئے ایثار و فدا کاری اورشہادت کی ضرورت تھی۔
امام خمینی رح اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے فرماتے ہیں:اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کے ان خطبات کا مطالعہ کریں جسے آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت اور مکہ سے نکلتے وقت بیان فرمائے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت ا سلامی کی تشکیل چاہتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام  نےحکومت  کی  خاطر قیام نہیں فرمایا یہ صحیح نہیں ہے  بلکہ آپ نے حکومت  اسلامی کی خاطر قیام  فرمایا تھا  ۔ حکومت اسلامی اما م حسین علیہ السلام جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونا چائیے۔۔۔۔۔۔۔26


لیکن یہ سوال کہ امام حسین علیہ السلام کو اگر اپنی شہادت کا علم تھا  یا آپ جانتے تھے کہ ظاہری طور پر آپ کو شکست ہوگی اور آپ اسلامی حکومت تشکیل نہیں دےپائیں گے  یعنی  اس مقصد کے عدم حصول  کوبھی جانتے تھے  ۔۔۔  بنابریں اسلامی حکومت کی تشکیل  ایک انسان عاقل کا مطلوب و ہدف نہیں ہو سکتا؟

‏امام خمینی رح  کے کلمات میں غور و فکر کرنے سے  اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ یہ اشکال اس وقت صحیح ہے جب امام کا مقصد اپنے زمانے میں اسلامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد یہ ہو کہ مسلمان اس بات کو جان لین کہ اسلامی حکومت کی بھاگ دوڑ ایک صالح انسان اور ایک معصوم ہستی یا اس کے نمائندہ  کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جیسے مسلم بن عقیل وغیرہ   اس  وقت یہ مسئلہ پیش نہیں آتا  اور جو کچھ امام  خمینی رح کے کلمات سے سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا: یہ لوگ حکومت کی خاطر قیام کر چکے تھے اس کے بعد فرماتے ہیں : حکومت اسلامی کو حسین ابن علی علیہ السلام جیسی ہستی اوران کے پیروکاروں کے ہاتھو ں ہونا چاہئے۔

‏6۔ اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
عظیم انسانوں کے ارمان اوراہداف بھی عالی ہوا کرتی ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی شخصیت صرف اس زمانے کے  انسانوں کےساتھ
مختص نہیں تھی بلکہ آپ کی شخصیت پوری انسانیت اورقیامت تک آنے والی نسلوں کے ساتھ مختص ہے۔آپ  پوری انسانیت کی فلاح ، بھلائی  اورخیر خواہی چا ہتے تھے  ۔ اور یہ سب دین مقدس اسلام کے مرہون منت ہی محقق ہو سکتی ہے۔

‏ امام خمینی رح فرماتے ہیں: اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک سبب اسلامی معارف کی نشر  اوراسلام کی حفاظت تھی۔ امام حسین علیہ السلام ،اسلام اورمسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔آپ چاہتے تھے کہ اسلام آپ کی فدا کاری اورایثار و شہادت کی بدولت دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان  پھیل جائے اور اسلامی سیاسی و اجتماعی نظام ہمارے معاشرے میں  رائج ہو اس لئے آپ نے بنی امیہ کی مخالفت کی اورقیام فرمایا27

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :سید الشہدا  علیہ السلام  صرف  ثواب  کی حصول کے لئے اپنی جان کوقربان نہیں کیا بلکہ اس مقدس مکتب اور دین کو نجات دلانے  کی خاطراوراسے ایک دفعہ پھر زندہ کرنے کی خاطر اپنی جان کو اسلام پر قربان کیا۔28۔

امام خمینی رح ایک اورمقام پر فرماتے ہیں: امام حسین علیہ اسلام نے اسلام کو  اپنے اعمال کے ذریعےہمیشہ کے لئے حفظ  کیا۔جو اسلام  آج ہم تک پہنچا ہے وہ سید الشہدا علیہ السلام کی قربانی اوربچانے کی وجہ سے ہے۔آپ نے ان پاک جوانوں اورباوفا اصحاب کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اپنی جانیں اسلام پر نچھا ور کر دی اوراسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کیا۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسلام کو زندہ کیا ۔آپ خود شہید ہوگئے لیکن مکتب اسلام اسی شہادت کی وجہ سے زندہ ہوگیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ اوراپنے سارے عزیز و اقارب کو اسلام پر قربان کیا اور یوں ان کی شہادت کے بعد اسلام بہت زیادہ طاقتور ہوا۔29۔

امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری حفظ دین اور حفظ قوانین اسلامی ہے اور سیدا لشہداء ؑ کورسول اللہ ؐاورحضرت علی ؑ نے تربیت دی تھی کہ اسلام کے علاوہ باقی سب کچھ بے فائدہ ہے اگر اسلام ہے تو سب کچھ ہے اگر دین نہیں تو کچھ بھی نہیں لہذا امام ؑ نے دین کو بچانے کے لئے قیام کیا اور عظیم قربانی دی آپؑ کی قربانی نے نہ صرف دین کو بچایا بلکہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بنا: "جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا"30۔
امام حسینؑ شہید ہوئے لیکن آپ ؑ نے اپنے بنی ہاشم ا ور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کر کے دین کو بچا لیا اور باطل بھی مٹ گیا اس کے بعد کسی کو بھی اسلام کومٹانے کے لئے میدا ن میں آنے کی جرات نہ ہوئی اورامام ؑ عالی کاہدف اس عظیم انقلاب ،قیام اورقربانی کا حفظ دین اوربقاء دین کی بہترین دلیل آپؑ کے اپنے کلام اورفرمائشات ہے ۔جیسا کہ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا :{انی لم اخرج اشراولا بطراولامفسداولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی وابی علی بن ابی طالب}ؑ

مدینے سے نکلنے لگے تو روضہ رسول پر تشریف لے گئے اوریوں دعا فرمائی : مالک اس وقت مجھے اپنی ذمہ داری کی طرف راہنمائی فرما ،تا کہ میں اس پر عمل کر سکو ں اور فرمایا :{اللہم ان ہذا قبر نبیک وانا ابن بنت نبیک} مکہ میں آپؑ نے جو خطبہ دیاجس میں اپنی شہادت کا ذکر کے ساتھ اس کے مقصد عظمیٰ اورہدف حقیقی کی طرف بھی اشارہ فرمایا اوراس کے علاوہ ابن عباس کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا : یہ لوگ کہیں مجھے رہنے نہیں دیں گے ۔بہر حال اسلام کلی طورپر خطرے میں تھا اور دشمن کا یہ آخری فیصلہ تھا کہ اسلام کو ختم کرے تو اما م ؑ نے یہ محسوس کیا جب تک قربانی نہیں دینگے دین نہیں بچ سکتا لہذا اپنے سارے کنبہ اور اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں آئے اورشہید ہوئے لیکن اسلام اورتوحید کو بچا لیا۔

7۔الہی ذمہ داری پر عمل کرنا
وظیفہ شناسی اوراپنی شرعی ذمہ داری  پر عمل کرنااعلی ترین اخلاقی و دینی  احساس  ہونے کی علامت ہے۔ اس احساس کو  پروان چڑھانے  کے لئے نفس کی بہت زیادہ  ریاضت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی احساس کے سایہ میں انسان کی روح پائیدار اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ اپنے الہی وظائف کی انجام دہی  اوراس راستہ میں آنے والے جتنے ناگوار حوادث اور وقائع  کے ساتھ سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس  کی راہ میں ناکامی ،نا امیدی   اورشکست  نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سخت سے سخت شرائط میں بھی  اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے کیونکہ وہ سوائے الہی وظیفہ کے کسی اورچیز کے بارے میں نہیں سوچتا۔
امام خمینی رح خود ایک عظیم انسان تھے جس نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس  دیا ۔اپنی گفتگو میں ہمیشہ اس بات کی تاکید کی اورہمیشہ لوگوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ انسان مومن سوائے الہی وظیفے کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی مقصد کی خاطر قیام فرمایا یہاں تک کہ شہادت  جیسے عظیم رتبہ پر فائز ہوگئے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہدانےاپنا وظیفہ سمجھ کر اموی طاقت کے سامنے قیام فرمایا اورڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا چاہے جو کچھ بھی ہو جائے درحالیکہ  ظاہری اعتبار سے آپ جانتے تھےکہ قلیل تعداد ان  کے کثیر تعداد کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی آپ نے  اپنے الہی ذمہ داری پر عمل کیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شرعی ذمہ داری تھی کہ اموی حکومت کے خلاف قیام کرے اور اپنا خون اسلام پر قربان کرے تا کہ ملت کی اصلاح ہو۔

اسی طرح فرماتے ہیں :سید الشہداء نے اپنے  اہل بیت اور اصحاب و اعوان  کے ساتھ قیام فرمایا چونکہ یہ قیام اللہ کے لئے تھا اس لئے اس طاغوتی خبیث حکومت کا تختہ پلٹادیا۔جو اللہ کی راہ میں کام کرتا ہے اس کے لئے اس راہ میں شکست نہیں ہے اگرچہ وہ اس راہ میں مر جائے۔امام حسین علیہ السلام بھی شہید ہوگئے لیکن آج بھی زندہ  ہے۔31

بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا ،لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کویہ بتا دیا کہ جس حسین علیہ السلام کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

حوالہ جات:
1۔ بحارالانوار،‌ج 43،‌ ص 261، حدیث اوّل.
2۔ سيد هاشم رسولي محلاتي، زندگاني امام حسين (ع)، دفتر نشر فرہنگي اسلامي، ص152.
3۔بحارالانوار، ج 45، ص 50۔
4۔ امام خمینی رح کی گفتگو میں تکرار سے بچنے کے لئے بعض الفاظ حذف کیا گیا ہے لیکن محتوی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
5۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 29- 35.
6۔سیدبن طاووس، اللهوف، انتشاارت الرضی، قم، ص 10
7۔ملہوف (لہوف)، ص 99 و بحارالانوار، ج 1، ص 184.
8۔سورہ حدید، آیۃ 25 ۔
9۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) ص 37 و 41.
10۔ بحارالانوار: 44 / 331، مقتل المقرم  /  156۔
۱۰۔تحف العقول، انتشارات بصیرتی، قم، ص 170۔
11۔فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) . ص 33 -42 ۔
12۔ تحف العقول، ص 174، بلاغة الحسین(ع)، ص 158.
۱13۔نہج البلاغۃ، خطبۃ 3، «اخذالله علی العلماء ان لا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم».
14۔ نہج البلاغۃ، نامہ 53، فراز 57، «ان افضل قرۃ عین الولاہ، استقامہ العدل فی البلاد».
15۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 33، 38، 39.
16۔لہوف، ص 10.
17۔تحف العقول، ص 168
18۔ مدرک قبل، ص 174، بلاغہ الحسین(ع)، ص 157
19۔ سورہ آل عمران ، آیت۱۰۴ ۔
20۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۱۰ ۔
22۔ سورہ  آل عمران ، آیت ۱۱۴ ۔
23۔ سورہ توبہ  آیت ۱۱۲۔
24۔ سورہ ہود ، آیت ۱۱۶۔
24۔ سورہ مائدہ ،آیت ۷۹ ۔
25۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 40-41.
26۔ایضا، ص 39، 41
27۔ایضا، ص 40-41
28۔ ایضا، ص 42
29ایضا، ص 52 -50
30۔ اسراء؍ ۸۱۔
31۔ ایضا، ص 48 -49۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا  پھر اس نے  جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے :

وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ

اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات)کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی  خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔

 چنانچہ  دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ  اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خدا وندِ عالم  اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضورﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخرالزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا  اوروہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔

مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک  ایسے انسان کا  سراغ بتا رہا ہے ، جس کی حکومت  قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل  ہی عدل ہوگا۔

یقیناً  ایک  خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور  وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو  اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو ۔

سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ  یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ  ایک مرد میرے اہلِ بیت سے  عرب پر حکومت کرے گا،  وہ میرا ہم نام ہو گا۔

سنن ابی داود میں ہے کہ المهديّ من عترتي من ولد فاطمه ، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ  ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔

مفہومِ مہدویت

اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی  ایک شخص کی  عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام

مہدوی حکومت کے خدو خال

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ  جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث  وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔

۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ

اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی  کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔  یعنی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاز کریں گے۔

۲۔ہر دلعزیز حکومت

یہ حکومت مال و دولت  والوں  اور  ثروت و طاقت والوں  کے بجائے اسلامی اخلاق و اطوار  والوں کی حکومت ہو گی ، اس حکومت میں  جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار  کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی  ہونگے۔  ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ  حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان ، پرندے ، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔  اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔

۳۔علم و آگاہی کا دور دورہ

اس دور میں  طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ  نہیں ہوگا  بلکہ  تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی ، عام انسانوں حتیٰ کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی  بہت بلند ہوگی   اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی  اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہو نگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد  لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔

۴۔زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت

آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔  یعنی اس  زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے  ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت ، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔

رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے ، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کربھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔

۵۔اختراعات و ایجادات کا دور

علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔

 رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی  قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی  اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔

۶۔ظلم و جور کا خاتمہ

ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت  قانونی برتاو کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں نیز کوئی مقروض ایسا نہیں  بچے گا  جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔

 رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو  چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آو، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔

۷۔انسان کی قدر دانی

وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔

 اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔

۸۔ میرٹ کی حاکمیت

انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا،  ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق  اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افارد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔

میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔

حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔

۹۔غربت و افلاس کا خاتمہ

عدالت ، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتیٰ کہ لوگ ذکواۃ دینے کے لئے فقرا اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گاجس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔

ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔

پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے ، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔

۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا

اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح  محبت ، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیزو اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔

حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔

۱۱۔ صحت و علاج

مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں  بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔

۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ عہد وپیمان

۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے

۲۔ چوری نہیں کرو گے

۳۔ناجائز کام نہیں کرو گے

۴۔حرام کام نہیں کرو گے

۵۔برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے

۶۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے

۷۔کسی کو ناحق نہیں مارو گے

۸۔جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے

۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے

۱۰۔ناحق گواہی نہیں دو گے

۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے

۱۲۔سود نہیں کھاو گے

۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے

۱۴۔خداپرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے

۱۵۔ شراب نہیں پیو گے

۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے

۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے

۱۸۔بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے

۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے

۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے

۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے

۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے

۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے

۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے

اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ  آج  کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟

بات یہ ہے کہ در اصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو  دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا  لیکن  مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے  جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو  بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔

اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سےغلط تصورات

مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:

۱۔ صرف انتظار

مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیاجائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ  کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔

۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی

مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ  اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟!

۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور

بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے ،  بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔

۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے

ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں ، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی  پہچانیں۔

۵۔  مہدویت بدونِ نظامِ حکومت

ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔

مہدوی حکومت  کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل

۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت

سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو  قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے  کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔

۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام

ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق  مہدویت کو تبیین کریں۔

۳۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین

اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟  مثلا ً مہدوی حکومت کی ایک خصوصیت  علم و ااگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و ااگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیے ، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت  ظلم و جور کا خا تمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔

۴۔ انتظار کا درست مفہوم

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح  مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہذا  جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے  کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیے اور لوگوں کو  مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیے۔

۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب

ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آجائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے،  رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ  بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے ، اس کے لئے  ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سرکاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس نقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔  اگر لوگوں کا باطن تبدیل  ہوجائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی ، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے  نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔

ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک  اچھائی اور برائی کو تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام  نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دورسوں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے  دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔

تربیت پر توجہ کی ضرورت

کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیے کہ جو سب سے پہلےخود  مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔یہ تربیت بھی دوطرح کی ہونی چاہیے:

تربیت عمومی  اور تربیت خصوصی: تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیرو بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔

جس نظریے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔

نتیجہ:۔

دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے  اخلاق و طہارت  اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔

فہرست منابع

1.         قرآن مجید

2.        احقاق الحق  مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم‌

3.        ارشاد مفید  كنگره شيخ مفيد قم

4.        سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت

5.        سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت

6.        عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم

7.        غیبہ النعمانی  دارالرائد العربی، بیروت

8.        کمال الدین  دارالکتب الاسلامیه قم

9.         مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت

10.        مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت

11.        معجم رجال الحدیث  وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران

12.       ینابیع  المودّۃ  دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کی صوبائی کابینہ کا اجلاس جامع مسجد الحسین نیو ملتان میں منعقد ہوا. اجلاس کی صدارت صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کی. اجلاس میں خصوصی طور پر کوآرڈینیٹر شعبہ تنظیم سازی برادر آصف رضا ایڈووکیٹ نے شرکت کی. اجلاس میں صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی،غلام اصغر تقی،مہر سخاوت علی،مولانا ہادی حسین ہادی،سید وسیم عباس زیدی،سید علی رضا زیدی،ناصر عباس،سید ندیم عباس کاظمی،اسد عباس عسکری،ثقلین نقوی نے شرکت کی، اجلاس میں محرم الحرم کے معاملات،تنظیم سازی کے حوالے امور طے کیے گئے۔

وحدت نیوز (چنیوٹ)  مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع چنیوٹ رجوعہ سادات یونٹ اور مدرسہ خواہران رجوعہ کے اشتراک سے عشرہ زینبیہ کی مناسبت سے مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا، مجلس عزا سے ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری امور تنظیم سازی محترمہ سیدہ معصومہ نقوی اور ضلعی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ صائمہ زیدی نے خطاب کیا، جس میں فضائل بی بی زینب (س) پر روشنی ڈالی گئی اور خواتین کو کردار زینبی اپنانے کی تشویق دلائی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ پروگرام کے آغاز میں ننھی بچیوں اور جوان بیٹیوں نے جناب زینب س کی خدمت میں بھر پور عقیدت کا اظھار کیا ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree