وحدت نیوز(کراچی) شیخ حسن جوہری کی گرفتاری گلگت بلتستان کے حقوق کی آواز دبانے کی مذمو م کوشش ہے، حفیظ الرحمٰن حکومت شیخ حسن جوہری کوپابند سلاسل کرکے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا، گلگت بلتستان حکومت شیخ حسن جوہری کو فوری رہا کرے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ صادق جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔

انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے محروم عوام کسی بھی جبرواستبدادکے آگے سرتسلیم خم کرنے والے نہیں ،شیخ حسن جوہری نے ہمیشہ خطے کے محروم عوام کی درست اور جرائت مندانہ اندازمیں ترجمانی کی ہے،شیخ حسن جوہری کی گرفتاری درحقیقت آغا علی رضوی کو خوفزدہ کرنے کی ناکام حکومتی سازش ہے ، لیکن حفیظ سرکار کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ گلگت بلتستا ن کے عوام اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے قائدین کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں، اگر جی بی حکومت نے شیخ حسن جوہری کو رہا نا کیا تو ملک بھرمیں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کے خلاف انجمن تاجران بلتستان کے سربراہ غلام حسین اطہر کی جانب سے اسکردو میں ہڑتال اور احتجاج کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلام حسین اطہر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بلتستان کے عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں۔ انتظامیہ فوری طور پر شیخ حسن جوہری کی رہائی کو یقینی بنائے اور خطے میں بے چینی پھیلانے سے باز رہے۔ اگر انتظامیہ مجبور کرے تو غلام حسین اطہر کی احتجاجی تحریک کو پورے خطے میں پھیلانے پر مجبور ہوں گے۔ آغا علی رضوی نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں مثالی امن و رواداری اور بھائی چارگی کی اصل وجہ یہاں کے شریف النفس عوام اور علماء ہے۔ ان دونوں طبقات کے خلاف انتطامی رویہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ عوامی حقوق کے ترجمان شیخ حسن انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ واضح رہے کہ آج اسکردو یادگار شہدا پر شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس احتجاجی مظاہرہ میں انجمن تاجران کے رہنما سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے خطاب کیا۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری جنرل اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما آغا سید علی رضوی کی جانب سے ویڈیو پیغام جاری کیا گیا۔ جس میں ہر دلعزیز رہنما نے نوجوانوں کو نصیحت کی کہ نوجوان مایوس نہ ہو۔ اسکی بجاٸے اب غور کریں کہ کس طرح سے آپس میں اختلافات کو ختم کیا جاٸے۔ آغا نے کہاکہ ستر سالوں سے ہمارے جوان اور افسران اس ملک پر قربان ہوتے رہے۔ اب بھی ہر محکمے میں ہمارے جوان کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ کیونکہ آج تک ہم نے اپنی منزل کے طور پر پاکستان کا آٸینی شہری بننا رکھا۔ ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مگر ہماری خواہش ادھوری رہی۔ یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس نے ستر سالوں تک وطن میں ضم ہونے کیلٸے تحریکیں چلاٸیں۔ ہم عوام میں جاٸیں گے۔ رہنماوں سے ملکر ایجنڈا طے کریں گے۔ ہم ہر حوالے سے معاملے کو دیکھیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر غور کریں گے۔ عوامی ایکشن کمیٹی طے کریگی کہ اب ہم کیسے اپنے دیرینہ حقوق کے مسٸلے کو حل کی طرف لیکر جاٸے۔ مایوسی کسی مسٸلے کا حل نہیں۔ ہم مایوس ہونے نہیں دیں گے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ پاکستان کو ہی ہماری عوام چاہتی ہے مگر افسوس اسکی قدر آج تک نہیں کی گٸی۔ گلگت بلتستان پاکستان کا سر ہے۔ ہم ہی اس ملک سے دنیا کیلٸے راستہ ہے۔ متنازعہ علاقہ بنا کر آرڈر کے ذریعے چلایا گیا۔ مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ ایک متنازعہ خطے میں بھاشا ڈیم کیسے بناٸیں گے۔ کس طرح سے سی پیک بنا ٸیں گے۔ ہم محروم و محکوم قوم بن کر رہے۔ ہم مظلوم رہے۔ مگر ہم اپنی منزل سے واقف ہیں۔ طے کریں گے مل کر کس طرح سے منزل کی طرف قوم کو لیکر جانا ہے۔ ہم مایوس نہیں ہوں گے۔ انہوں نے اتفاق و اتحاد کی ضرورت پر بار بار تاکید کرتے ہوٸے زور دیتے ہوٸے کہا کہ ہمیں کسی انتہاٸی قدم تک جانے کی انشاللہ نوبت نہیں آٸیگی۔ کیونکہ ہم اپنی ایمانی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنے جوانوں اور بزرگوں کے حوصلے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سب ملکر قوم کیلٸے آگے آٸیں۔ علما اور آٸمہ مساجد نکلیں اپنی ذمہداری ادا کریں۔ قوم کی رہنماٸی کریں۔ طلبہ ، وکلإ اور تاجر برادری نکلیں۔ اتحاد و اتفاق کی فضا قاٸم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سیاست دان ، عوامی رہنما، اسمبلی اور کونسل کے ممبران آٸیں قوم کو ایک نکتے پر اکٹھا کریں۔ آپ لوگوں کو آگے آکر قوم کی رہنماٸی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جوانوں سے اپیل کی کہ سوشل میڈیا کو اتحاد و اتفاق کیلٸے استعمال کریں۔ اسے انتشار اور نا اتفاقی کا ذریعہ نہ بننے دے۔ ہر طبقہ ملکر اب اتحاد و اتفاق کیلٸے کوشش کریں۔ انشاللہ منزل پا کر رہیں گے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکہ و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکے ہیں۔سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہے اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کے لئے کامیابی کی کنجی ہے۔اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیہ کے مطابق عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔

فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اْن پر دباؤ بڑھانے کے لیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیاہے۔انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔‘دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہو گیا ہے۔اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک" خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔

بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح موقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر سراہا تھا۔اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اس تمام تر صورتحال پر اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو چکا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کر کے آنے والا طیارہ کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اورا سرائیل کے لئے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کیلئے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظیاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکہ کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں تاہم اس مریدی میں یقیناًپاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہو گا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔بہر حال خلاصہ یہی ہے کہ حالیہ دور میں فلسطینی اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ مثالی ہے جبکہ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ قربتیں پیدا کر کے جس طرح سے نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جا رہاہے اور اس صورتحال سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم دنیا اور عالم انسانیت کا خطر ناک دشمن صہیونی جعلی ریاست اسرائیل ہے جو عنقریب ان عرب قرابت داروں کو بھی اپنے شکنجہ میں دبوچ ڈالے گی اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔مقالہ کے اختتام پر سابق پاکستانی جنرل غلام مصطفی کی بات کو دہراتا ہوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان تل ابیب میں بیٹھ کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی چوکیداری بھی کر لے تب بھی یہ اسرائیلی پاکستان کو نہیں چھوڑے گا اور موقع ملتے ہی پاکستان کے خلاف اپنا ہر قسم کا وار کرے گا۔ اب پاکستان سمیت تمام عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہئیے کہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئیے۔ختم شد

تحریر: صابر ابو مریم   
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر
، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز (کراچی) سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ سید علی حسین نقوی نے ایک بیان میں کہاہے کہ شیخ حسن جوہری صاحب کی گرفتاری گلگت بلتستان انتظامیہ کا ظالمانہ اقدام ہے،اس عمل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور سرکار سے شیخ حسن جوہری صاحب کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں،مولا نا حسن جوہری گلگت بلتستان کے حقوق کی موثر آواز اور جوانوں کے مقبول رہنما ہیںجو ہر قسم کی وابستگیوں سے بالاترہوکر ظلم،ناانصافی کے خلاف اور آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،وزیر اعظم پاکستان گلگت بلتستان میں پیدا ہونے والی بے چینی اور احساس محرومی دور کرنے کے لیئے فوری ہنگامی نوعیت کے اقدامات کریں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد کی صورتحال پر غور کیلئے اسلام آباد میں اہم اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اجلاس میں عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان کے سربراہ و سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم جی بی آغا علی رضوی، جی بی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر غلام عباس، جی بی اوئیرنیس فورم کے سپیکر حاجی زرمست خان اور اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی محمد شفیع نے شرکت کی۔ اجلاس میں باہمی مشاوت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ جی بی کے حقوق کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے جدوجہد کیا جائیگا، اس سلسلے میں کل اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ادهورے  فیصلے کو مایوس کن قرار دیا گیا۔ گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماوں کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دینے کے بعد متازعہ علاقوں کے حقوق کا تعین نہ کرنا فیصلہ کے ادهورے پن کی نشانی ہے۔  اجلاس میں پاکستان کے زیرانتظام مختلف متنازعہ علاقوں کے حوالے سے مختلف سلوک پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree