وحدت نیوز (آرٹیکل) مٹھاس ،انسان کو پسند ہے،انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں شیرینی اور مٹھاس ہی ہو۔دینِ اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسانی معاشرے سے منکرات کو ختم کر کےحیاتِ انسانی کو  حسنات کی  شیرینی سے معمور کیا جائے۔انسانی دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی ایک دم ممکن نہیں۔پھل  کبھی بھی ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوتا۔

ایک بیج کو زمین کے اندر مدتوں کیمیائی اور حیاتیاتی عمل سے گزرنا پڑتاہے جس کے بعد وہ ایک پودے کی صورت میں زمین کے اوپر تند و تیز ہواوں اور سورج کی گرم شعاوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنتاہے۔اس کے باوجود ایک پودے کو کھینچ کر زبردستی درخت نہیں بنایاجاسکتا۔

درخت بننے کے لئے بھی ایک پودے کو  مسلسل مٹی ،پانی،گیس اور ہوا کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ان مراحل سے گزرے بغیر پودا درخت نہیں بن سکتا۔درخت بننے کے بعد بھی پودے کو مسلسل موسمی تربیّت کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں تب جاکر اس پر شگوفے کھلتے ہیں اور پھل اگتے ہیں۔
کسی غنچے کو طاقت کے ساتھ مروڑ کر پھول نہیں بنایاجاسکتا اور کسی پھول کومسل کر یادبا کر قوت و طاقت سے  پھل بھی نہیں بنایا جاسکتا۔جب پھل لگ جاتاہے تو پھر ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا۔پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔
انسانی و اسلامی تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔انسانی تہذیب کو بھی آگے بڑھنے اور ارتقاء کرنے کے لئے مختلف ادوار سے گزرنا پڑتاہے۔بہترین تہذیب سے بہترین ثقافت جنم لیتی ہے اور بہترین ثقافت سے بہترین تمدن وجود میں آتا ہے اور بہترین تمدن اپنی گود میں بہترین اقوام کو پروان چڑھاتاہے۔

ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے دوران انسانی تہذیب کے ارتقائی مراحل کی رعایت کرے۔اسے تہذیب ،ثقافت اور تمدن کے فرق کو مدّنظر رکھتے ہوئے،اسے تہذیب و ثقافت اور تمدن کی ارتقائی سطح کو بھی ماپنا چاہیے۔مخاطبین کی ذہنی سطح کی پیمائش کے بعد ہی ان کی اصلاح ِ احوال کے لئے نسخہ تجویز کرنا چاہیے۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر تحقیق ہر میدان میں کام نہیں آسکتی،ہر بات ہر شخص پر یکساں اثرات مرتّب نہیں کرتی اور ہر مریض کے لئے ایک ہی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

انسانی تہذیبوں کے درمیان اسلامی تہذیب کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دیگر اقوام جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتی گئیں انہوں نے ترقی کی اور مسلمان جس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتے گئے انہوں نے تنزّل کیا۔تہذیب کوئی ایسی شئے نہیں ہے جو خود بخود ایک نسل سے دوسری نسل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔بلکہ تہذیب کے ایک نسل سے دوسری نسل میں  منتقل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ نسل اپنی آئندہ نسل کے حالات کے مطابق اپنی تہذیبی روایات کی تعبیرِ نو اور تعمیرِ نو کرے  تاکہ آئندہ نسل اپنی موروثی تہذیب کے سائے میں افکارِ نو کو پروان چڑھا سکے۔

صدرِ اسلام میں صفہ کی درسگاہ اور مسجد النبی[ص]  کے زیرِ سایہ جو تہذیب پروان چڑھی وہ خالصتا ایک علمی  و فکری تہذیب تھی۔اسی علمی و فکری تہذیب نے ایک علمی و متمدن قوم کو جنم دیا جس کی آغوش میں سعدی،  فارابی،رومی،سینا،جابر بن حیان اور طوسی جیسی گرانقدر شخصیات نے جنم لیا۔
مختلف حالات و واقعات کے پیشِ نظر جیسے جیسے مسلمان اپنی نسلِ نو کو اپنی علمی تہذیب سے دور کرتے گئے وہ غیروں کے محتاج ہوتے چلے گئے۔حتّی کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اسلامی ممالک میں تہذیب بھی غیر مسلم مالک سے درآمد کی جارہی ہے۔

موجودہ صدی کے سماجی ،صنعتی اور سیاسی انقلابات بتا رہے ہیں کہ یہ صدی مسلمانوں میں بیداری اور ان کی اپنی تہذیب کی طرف بازگشت یعنی پلٹنے کی صدی ہے۔آج کے مسلمان کو اپنی عظمتِ رفتہ کے کھوجانے کا احساس ہوچکاہے اور اپنی اصلی تہذیب کی طرف پلٹنے کے لئے ہاتھ پاوں ماررہاہے۔ایسے میں اسلامی دنیا کی بنیادوں میں ایک ایسا مافیا بھی دیمک کی طرح  اپنا کام دکھارہاہے جو عالمِ اسلام کو اس کی علمی و فکری میراث کی طرف پلٹانے کے بجائے فقط نماز روزے اور طہارت کے احکام تک محدود رکھنا چاہتاہے۔

پاکستان کے ایک مایہ ناز محقق مختار مسعود کے مطابق انہیں زندگی میں دو  طرح کے استاد ملے۔ایک نے انہیں بچپن میں کہا کہ خبردار قلم کو ہاتھ نہیں لگانا ،یہ صرف تمہاری پڑھنے کی عمر ہے جب تعلیم مکمل کر لو پھر لکھنا شروع کرنا جبکہ دوسرے استاد نے کہا کہ ابھی سے لکھنا شروع کرو تب جاکر برسوں بعد کچھ لکھ پاو گے۔

ان کے بقول اگر میں پہلے والے استاد کی بات پر چلتاتو آج تک کچھ بھی نہ کرپاتا ۔یہ دوسرے استاد کی بات پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے کہ میں نے اب تک بہت کچھ کرلیاہے۔
اسی طرح ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو طالبعلموں کو تعلیم کے راستے سے ہٹانے کے لئے اس طرح کے نظریات کی ترویج کرتے ہیں کہ  پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ ہے،تعلیم چھوڑو اورچلو قوم کی خدمت کرو۔یہ تعلیم کے بغیرقوم کی خدمت کا نعرہ اس ہمدردی اور خضوع و خشوع کے ساتھ لگاتے ہیں کہ اچھے خاصے طالب علم کا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتاہے۔

تعلیم و خدمت کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔نہ ہی تو خدمت کے بغیر تعلیم کسی کام کی ہے اور نہ ہی ایسی خدمت امت مسلمہ کے حق میں ہے جو تعلیم کے بغیر ہو۔ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر خدمت ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ ۔
“علم دشمن مافیا” دن بدن دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلمانوں کی نسلِ نو کے دماغوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ ہمیں اسلامی  بیداری کی موجودہ صدی میں اپنی ملت کو حقیقی اسلامی تہذیب سے مرتبط کرنے کے لئے علمی و فکری شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں ایسی علمی و فکری شخصیات کی ضرورت ہے جو  ہمیں مشرق و مغر ب کی علمی و اقتصادی،فکری و نظریاتی،سائنسی و  معاشرتی غلامی سے نجات دلاکر حقیقی اسلامی تہذیب  کے ساتھ متصل کریں۔

یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوسکتا اس کے لئے ہمیں مسلسل تگ و دو اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم  اپنے  اسکولز،مدارس،کالجزاور یونیورسٹیز کے طالبعلموں کو ” علم دشمن مافیا” سے محفوظ کر یں،انہیں تعلیم ترک کرنے کے بجائے تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خدمت کرنے کا ہنر بھی سکھائیں،اسی طرح ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف یا چندے کے باکس تھمانے کے بجائے،ان کی اخلاقی و علمی  تربیت  کریں اور ان کی تحقیقی   و مدیریتی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پھل ایک دن میں پک کر میٹھا نہیں ہوجاتا، پھل بھی سورج کی کرنوں اور چاندنی کی آغوش میں مقررہ عمل طے کرنے کے بعدہی میٹھا اور شیرین ہوتاہے۔ انسانی و اسلامی  تہذیب  کا شجر بھی اسی طرح ہے۔اس شجر کے ثمر آور ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ملت کے  نونہالوں کو علم دشمن  مافیا سے بچائیں چونکہ تعلیم  وتربیت اور تحقیق ِ نوو تولید علمی کے بغیر اسلام  اور مسلمانوں کی خدمت کا نعرہ لگانا ایسے ہی ہے جیسے نور کے بغیر چراغ  لے کر کسی کی  رہنمائی کے لئے نکل پڑنا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے رات کے اندھیرے میں مقپون داس پر قبضہ کرکے ثابت کردیا کہ انہیں قانون اور عدالت کی کوئی پروا نہیں ہے اور ماورائے عدالت کارروائی کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی دوغلی پالیسی اور شرمناک عمل یہ ہے کہ ایک طرف مقپون داس پر قبضے سے لاعلمی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف حکومتی رٹ کی باتیں کررہی ہیں، وہ کیسے صوبے کا سربراہ ہوسکتا ہے جنہیں اتنے بڑے آپریشن کا علم ہی نہ ہو، اگر حکومتی موقف درست ہے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ صوبائی حکومت کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی زمینوں پر انتظامیہ کا قبضہ غیرقانونی اور غیر انسانی عمل ہے۔ جو خطہ پاکستان کا حصہ ہی نہ ہو اس پر کیسے پاکستان کے ادارے قبضہ کرسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں عجیب قانون ہے عوام کو متنازعہ کہا جاتا ہے اور زمینوں کو غیر متنازعہ ہے۔ اگر عوام اور اس خطے کے باسی متنازعہ ہیں تو زمینیں بھی متنازعہ ہے۔ خالصہ سرکار کے نام پر قبضہ مافیا کا کردار ادا کرنا چھوڑ دے یہ خطہ ارضی کسی کی خیرات نہیں بلکہ اس عوام نے جنگ لڑکے قربانی دے کے حاصل کیا ہے اور اس خطے کی ملکیت کسی سکھ یا میاں کی نہیں، صرف اور صرف عوام کی ہے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ جب حقوق دینے کی بات آتی ہے تو ریاستی ادارے خاموش ہوجاتے ہیں اور جب یہاں کے وسائل پر قبضہ کی بات ہوتی ہے تو اس خطے کے عوام کیساتھ فلسطین کے مسلمانوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں جس اندھیر نگری کا مظاہرہ کیا گیا اس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریاستی ادارے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے اپنے اعمال سے ثابت کریں، یہ اسلامی ریاست ہے اور گلگت بلتستان کے باسی اور انکی ملکیتی زمینیں دشمن ملک انڈیا والوں کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی افسوسناک ہے جس خطے کے جوانوں نے انڈیا کی سرحد کے اندر جاکر جنگ لڑی اور انکی زمینون پر قبضہ کیا تو بغیر کسی وجہ بتائے واپس بلائے گئے ادھر یہ لوگ اپنی زمینوں سے بے دخل ہوئے جارہے ہیں۔ ریاستی ادارے اپنا قبلہ درست کرے اور ان اداروں کے اندر موجود خیانت کاروں کو باہر کریں۔ اب بھی ریاستی اداروں کے اداروں ملک دشمن عناصر کی بڑی تعداد موجود ہے جو کبھی نہیں چاہتے کہ جی بی کے عوام اطمینان سے زندگی گزار سکیں اور پاکستان کا آئینی حصہ بنے۔ اگر گلگت بلتستان آئینی حصہ بنتا ہے تو قبضہ مافیا اور اندھیرے میں راج کرنے والوں کی بدمعاشی ختم ہوجائے گی اور اس خطے کے وسائل کو لوٹا نہیں جاسکے گا۔ خالصہ سرکار کی وکالت کرنے والے جنگ آزادی کے منکر اور گلگت بلتستان کے غدار ہیں، عوام انکو ہر جگہ رسوا کریں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) اہلیان کوچہ آغائے شمس محلہ بیت الحزان کے بزرگان نے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریڑی سیاسیات و مبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا کو اپنے محلے میں دعوت دی. آغا رضا اپنے وفد کے ہمراہ جن میں کونسلر کربلائی عباس علی, سید یوسف آغا اور حاجی عمران شامل تھے اہل محلہ سے ملاقات کی.

بزرگان محلہ نے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا مسئلہ اہم ہے لیکن پائپ پرانے اور بوسیدہ اور ٹوٹ چکے ہیں جن سے گھروں تک پانی پمپ کے ذریعے بھی مشکل سے پہنچتا ہے. علاوہ ازیں گیس کے پائپ بھی لیک ہے. اور گلی کی حالت خستہ ہے.

آغا رضا نے اہل محلہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسی سال آپ کے گلیوں میں پانی کے نئے پائپ بچھائے جائینگے اور گلی کو ٹف ٹائل بھی کروایا جائیگا. گیس پائپ لائن جہاں سے لیک ہے. آپ اہل محلہ درخواست لکھ مجھے دیجئیے تاکہ میں اس سلسلے میں جی ایم سے بات کرو. باقی مسائل انشاءاللہ اسی سال حل ہونگے

وحدت نیوز(کوئٹہ) محترمہ بے نظیر بھٹو ہسپتال کے ڈاکٹر مریم صاحبہ کی دعوت پر ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اپنے وفد کے ہمراہ جن میں کونسلر کربلائی عباس علی شامل تھے, ہسپتال کا دورہ کیا. ڈاکٹر مریم صاحبہ نے ہسپتال کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور ہسپتال میں لازمات اور اسٹاف کی کمی کے مسائل سے ایم پی اے کو آگاہ کیا.

آغا رضا نے ہسپتال کے انتظامیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں جن جن چیزوں کی کمی ہے آپ مجھے لکھ کر دے تاکہ ان تمام چیزوں کی کمی کو دور کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سے بات کرونگا. علاوہ ازیں ہسپتال کو مزید وسعت دینے کے لیے بھی ارباب اختیار سے بات کرونگا. مذکورہ ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے آغا رضا نے کہا کہ سابق وزیر اعلی بلوچستان سے بات تقریبا فائنل ہو چکی تھی لیکن مری معاہدہ کے تحت وزیر اعلی تبدیل ہوگئے. اب ان تمام مسائل کا ذکر ایک بار پھر بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری سے ملاقات میں کرونگا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) امید لائبریری کے انتظامیہ نے ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا کو لائبریری میں دعوت دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا. یاد رہے کہ آغا رضا نے پچھلے سال مذکورہ لائبریری کا دورہ کیا تھا اور ان کے مسائل کو دیکھتے ہوئے لائبریری کے لیے اپنے صوابدیدی فنڈ سے مبلغ 5 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جنہیں گزشتہ ہفتے ممبر امید لائبریری نے وصول کیے. علاوہ ازیں ایم پی اے صاحب نے امید لائبریری سے اظہار وابستگی کرتے ہوئے باقاعدہ ممبر شپ حاصل کی.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree