The Latest

وحدت نیوز (اسلام آباد) نااہل وزیر اعظم کا نمائند ہ حفیظ الرحمان گلگت بلتستان کی آئینی حقوق پر ڈاکا ڈال رہاہے ۔گلگت بلتستان آڈر 2018میں اُس وزیر اعظم کو ویٹو پاور اور آئینی ترمیم کا حق دیا گیا ہے جس کے انتخاب میں گلگت بلتستان کے عوام کی رائے شامل ہی نہیں ہے ۔ ایک ہی ملک میں دو طرح کے نظام حکومت نہیں چل سکتے یہ پاکستان کے آئین کی صریحاََخلاف ورزی ہے جو کہ ہرشہری کو حق رائے دہی کی ضمانت دیتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اصلاحاتی پیکج آڈر 2018برائے گلگت بلتستان پر میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ یہ دہرا معیار ہے کہ ایک طرف گلگت بلتستان کی عوام کو آئینی حقوق نہیں دےئے جارہے وہیں پر ان پر غیر آئینی طریقے سے قوانین لاگوکئے جا رہیں ۔انگریزکے بنائے ہوئے کالے قانون سے جس طرح فاٹا کے عوام کی جان چھڑائی جا رہی ہے اور انہیں مکمل پاکستانی شہری کے حقوق دےئے جار رہیں ہیں ایسے موقع پر گلگت بلتستان کی عوام پرفرد واحد کی رائے کو آئین کے طور پر مسلط کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟گلگت بلتستان پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے جہاں کی عوام گذشتہ ستر سالوں سے پاکستانی پرچم اٹھائے مکمل پاکستانی شہری بننے کی جدوجہدمیں ہیں مگر یہ ناہنجاز حکمران اپنی کج فہمیوں کے ذریعے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں عوامی خواہشات کے برعکس فیصلے کو گلگت بلتستان کی عوام نے مسترد کر دیا ہے ۔

علامہ راجہ ناصر عباس نے مزید کہا ہے کہ اصلاحاتی پیکج آڈر2018نے گلگت بلتستان کی عوام میں احساس محرومی مذید بڑھا دیا ہے ۔حکمران ہوش کے ناخن لیں ایسے یکطرفہ آڈرز حالات کو سنگین صورت حال کی جانب لے جائیں گے ۔ سلامتی کونسل اجلاس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کے بغیر علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرناکہاں کا انصاف ہے؟کسی بھی قسم کے آڈر کو آئینی تحفظ کے بغیر نافذ کرنا علاقے کی عوام سے سنگین مذاق ہے ۔

انہوںنے مزید کہاکہ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کی عوام کے آئینی حقوق کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑی ہے گلگت بلتستان خطے کا اہم ترین اسٹریٹیجک حصہ ہے ۔گلگت بلتستان سی پیک منصوبے کی شہ رگ ہے ۔ قدرتی وسائل اور آبی ذخیروں سے مالامال علاقہ جو کہ سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے جس کے رہائشی پاکستان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں ۔پاکستان بننے سے لے کر اب تک کی تما م جنگوں اور ملٹری آپریشنز میں سینکڑوں جوانوں کے خون کا نظرانہ دینے والے اب تک اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں ۔ دنیا کا واحد خطہ جو کہ اپنی الحاق کی تحریک چلارہاہے ۔ مقتدر حلقوں کی علاقے کی بے چینی اور محرومیوں کو سمجھنا ہو گا اور جلد از جلد گلگت بلتستان کی عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا ۔

وحدت نیوز(لاہور)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے صوبائی سیکرٹریٹ شادمان لاہور میں کل مسالک علما بورڈ کیلئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ افطار میں مختلف مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے بھرپور شرکت کی۔ افطار کی اس پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمانوں کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے کسی انعام اور تحفے سے کم نہیں، روزہ صرف بھوک اور پیاس کا نام نہیں، ہمیں فلسفہ رمضان کو سمجھنےکی ضرورت ہے، روزہ ہمیں ایثار، قربانی اور صبر کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مقدس کی رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، یہ مقدس مہینہ ہمیں دوسروں کا دکھ درد بانٹنے کا درس دیتا ہے، ہر سال کی طرح امسال بھی ماہ مبارک رمضان کا آخری جمعہ فلسطین کے اہلسنت بھائیوں کے دفاع میں یوم القدس منائیں گے اور یہاں موجود تمام مکاتب فکر سے مسالک کے نمائندوں کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال اتحاد و اتفاق کا اظہار کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان میں کوئی فرقہ واریت نہیں، ہم سب مسلمان نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ (ص) کی حدیث کے مطابق آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن امریکہ اسرائیل و ہندوستان اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے، ہم ان دشمنانِ اسلام کو کبھی بھی ان کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں بسنے والے شیعہ نہیں مگر ان کی حمایت شیعہ حزب اللہ کرتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان جسد واحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی شیعہ اور سنی متحد ہیں اور آج کا یہ اجتماع اسلام دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوں نے امت کو تقسیم کرنے کی سازش کی۔ ناصر شیرازی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر اس شخصیت کو دہشتگردوں نے نشانہ بنایا جس نے دہشتگردی کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں قاری حسن جان کو اس لئے نشانہ بنایا گیا چونکہ وہ دہشتگردی کیخلاف فتویٰ دے چکے تھے، داعش نے عراق و شام میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی مگر مقامی شیعہ سنی نے اپنے اتحاد سے داعش کو ناکام بنا دیا، آج پاکستان میں بھی ہم نے دشمن کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ جن مکاتب فکر کو تم نے لڑانا چاہا آج وہ یکجان ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کُل مسالک علما بورڈ کے رہنما مولانا عاصم مخدوم کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک جیسا مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبرو تحمل رواداری، اخوت، عجز و انکساری کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد امت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، بین المسالک ہم آہنگی کی جدوجہد کو مزید تیز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک کسی بھی قسم کی دہشتگردی اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم سب کو مل کر فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، ماہ صیام تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے بہترین موقع ہے۔ افطار کی تقریب میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی، صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی، مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی، سیکرٹری جنرل لاہور سید حسن رضا ہمدانی، علامہ ظہیر الحسن نقوی، سید حسین زیدی جبکہ کل مسالک علماء بورڈ کے مولانا محمد عاصم مخدوم، پیر سید نو بہار شاہ، مفتی سید عاشق حسین شاہ، ڈاکٹر بدر منیر سیفی، مولانا ایوب خان ثاقب، سید غلام عباس شیرازی، سید وقار الحسنین نقوی، مولانا شکیل الرحمن ناصر، مولانا محمد افضل حیدری اور مولانا عبدالرب امجد نے خصوصی شرکت کی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)  گلگت بلتستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے زیراہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مجوزہ آرڈر 2018ء کےخلاف احتجاجی دھرنا دیا گیا، دھرنے میں اسمبلی اپوزیشن لیڈر محمد شفیع، جاوید حسین، نواز خان ناجی، راجہ جہانزیب جبکہ ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی،سید محسن شہریار، تحریک انصاف گلگت بلتستان کے ترجمان شبیر نے شرکت کی۔ یوتھ آف گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے بھی دھرنے میں حصہ لیا، احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے پی کے کے سیکرٹری جنرل اقبال بہشتی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہے اور ہم گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی جنگ میں شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے،گلگت بلتستان کی صوبائی خودمختاری ایم ڈبلیوایم کے بنیادی منشورکا حصہ ہےہم اس عوامی حق سے کسی صورت دستبردارنہیں ہوں گے۔

اپوزیشن لیڈر کیپٹن (ر) محمد شفیع نے کہا کہ جس آرڈر کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا، گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ اس پر بریفنگ دی جائے گی، ہم نے کہا کہ آرڈر کوئی نیا ہے، ایک تو ہمارے سامنے ہے، ہمیں بتایا گیا کہ آرڈر وہی ہے تو پھر اس پر بریفنگ دینے کی کیا ضرورت تھی، کیونکہ مجوزہ آرڈر کے تحت سب کچھ ختم ہے، لیکن حکومت کی جانب سے بتایا جا رہا تھا کہ یہ آرڈر فائنل نہیں ہے، آرڈر کوئی اور ہے، حقیقت میں آرڈر وہی تھا، جو اخباروں میں سب کچھ آچکا ہے اور ہر ایک کے پاس موجود ہے تو پھر اس میں نیا کیا ہے، آرڈروں کے نام پر ہم تنگ آچکے ہیں، ہمارا مطالبہ بالکل واضح اور ون پوائنٹ ایجنڈے پر مشتمل ہے، ایک یہ کہ گلگت بلتستان کو جو بھی سیٹ اپ دو، اس کو ایکٹ آپ پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی تحفظ فراہم کیا جائے، اگر یہ ممکن نہیں تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ آج پارلیمنٹ کے باہر دھرنا ہوگا، جس کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

نواز خان ناجی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور اس متنازعہ حیثیت کے مطابق حساس معاملات کے علاوہ باقی تمام اختیارات دیئے جائیں، اپوزیشن بھی اس بات پر متفق ہے کہ کسی بھی آرڈر کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے، اگر حکومت کرسکتی ہے تو مکمل صوبہ بھی بنائے، ہمارا کوئی اعتراض نہیں، لیکن قراردادوں کے مطابق جب علاقہ متنازعہ ہے تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے جاوید حسین نے کہا کہ یہ آرڈر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، پیکیج تو پیپلزپارٹی نے بھی دیا تھا، اب ہمیں مزید پیکیج نہیں چاہیے، حکومت کم از کم اسی مجوزہ آرڈر کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے گلگت بلتستان کا آئین قرار دے، ہمیں یہ بھی قبول ہوگا، لیکن آرڈروں کے نام پر مذاق قبول نہیں کرینگے۔ راجہ جہانزیب نے کہا کہ گلگت بلتستان کے وسائل آئینی اور عوام غیر آئینی کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ احتجاجی دھرنے سے گلگت بلتستان ایویئرنس فورم کے رہنماء اکبر صابری اور پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان شبیر نے بھی خطاب کیا۔ بعدازاں متحدہ اپوزیشن نے مختصر ریلی بھی نکالی اور مجوزہ آرڈر نامنظور کے نعرے لگائے۔

وحدت نیوز(لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے نفاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی بھی آرڈیننس کی جب تک اسمبلی سے منظوری نہ لی جاے اسے کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ آرڈیننس کو جب تک قانونی شکل اور آئینی تحفظ نہیں دیا جائے گا اس کو کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس علاقےکے لوگوں کیساتھ مذاق ہے۔ پچھلے سترسالوں سے گلگت بلتستان کی عوام کو آرڈر آرڈیننس اور پیکیج کے نام پر اصل آئینی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ آئنی حقوق کے لیے گلگت بلتستان کے محب وطن عوام نے ستر سال انتظار کیا ہے، اب مزید ان کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔جی بی کے عوام پیکیج اور آرڈیننس نہیں آئینی حقوق مانگ رہے ہیں۔

علامہ سید مبارک علی موسوی نے مزید بتایا کہ تقسیم پاکستان کے وقت تین چھوٹی ریاستیں بھی وجود میں آئی مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر اور گلگت ایجنسی،  تینوں ریا ستوں کو اقوام متحدہ نے کشمیر کے حتمی فیصلے تک الگ ریاست کی صورت میں چلانے کا حکم دیا ۔ جبکہ صرف دو ریاستیں اپنی خاص شناخت اور حقوق کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اب گلگت بلتستان کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر صوبہ بنانے میں قانونی پیچیدگیاں ہیں تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ ہمارا آئینی قانونی حق ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقتدر ادارے جی بی کو بنیادی آئینی حقوق دلانے میں اپنا فرائض منصبی ادا کریں۔ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گذر رہاہے، اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے امریکی اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں شہید پاکستانی طالبہ سبیکا کی شہادت پر تعزیتی پیغام میں کہا کہ امریکہ میں اسکولوں میں فائرنگ کے بے تحاشہ واقعات قابل مذمت ہیں ۔ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کسی پاکستانی خاندان کو اس سانحے سے گزرنا پڑے گا۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ امریکی سوسائٹی زوال پذیر سوسائٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو سوسائٹی کا تناؤ ذہنی مریض بنا رہا ہے۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں یہ واقعات ذہنی تناؤ نہیں بلکہ دہشتگردی کے واقعات ہیں ۔ خدانخواستہ ایسا سانحہ اگر کسی مسلم ملک میں ہو تو مغربی دنیا اسے دہشتگردی کا نام دیتی ہے، اور اپنے دہشتگردوں کو چھپانے کے لیے ایسے دہشتگردوں کو ذہنی مریض بنا کر پیش کیا جاتا ہے،

انہوں نے مزید کہاکہ امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ انتہا پسندانہ رجحانات کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔جو اسلام دشمن قوتیں امت مسلمہ کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ان کے مقاصد کچھ اور ہیں،انہوں نے سبیکا کے والدین سے تعزیتی پیغام میں کہا کہ سبیکا بیٹی قوم کا سرمایہ تھی جس کی شہادت افسوسناک سانحہ ہے۔ علامہ مبارک علی موسوی نے شہید بیٹی کی مغفرت اور والدین کے صبر کے لیے خصوصی دعا بھی کی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا ماہ صیام تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔اس مقدس مہینہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں موقعہ عطا کرتا ہے کہ ہم صوم و صلوۃ اور عبادات کے ذریعے اپنی اندرونی کثافتیں دور کریں۔ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ اور اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔ محض جسمانی عبادات سے اس ماہ کی برکتوں کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا جا سکتا بلکہ یہ مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبرو تحمل رواداری، اخوت ،عجز و انکساری کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا اس ماہ مبارک میں ہمیں ایثار و قربانی کے جذبات کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے۔سحری و افطاری کے اوقات میں عزیز و اقربا کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ جو لوگ رمضان کے دنوں میں چوربازاری اور خود ساختہ مہنگائی کرتے ہیں۔وہ روزداروں کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح کے اعمال روزہ کی قبولیت میں مانع ہیں۔ایسے لوگوں روزہ کے روحانی فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔روزہ محض بھوکا رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنے تمام اعضا کو غیر شرعی امور سے دور رکھنے کا نام ہے۔

انہوں نے کہا کہ صبر، برداشت اور رواداری اس مقدس مہینے کے خصوصی انعام ہیں۔ روزے کا حقیقی لطف ان انعامات کے حصول میں ہے اور یہ تب ہی حاصل ہوتے ہیں جب نفس کے ساتھ جہاد میں ثابت قدمی اور استقامت اختیار کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران وطن عزیز کی ترقی و استحکام کے لیے بھی خصوصی طور پر دعا کی جائے۔

وحدت نیوز (لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 3 نوجوانوں کی شہادت پر انتہائی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر معاہدے کے بعد رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی اور ظلم و بربریت قابل مذمت ہے۔ آئے روز کشمیری مظلوموں کو شہید اور زخمی کیا جاتاہے۔بھارتی ریاستی دہشت گردی سےخواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں، بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیرمیں سفاکیت اوردرندگی کی تمام حدیں پارکرلی ہیں اوربھارت کو ظلم اورستم ڈھانے کا یہ کھیل بند کرنا ہوگا۔

سید مبارک علی موسوی نے کہا کہ کشمیری عوام کو جبر اوراستبداد کے ذریعے حق خود ارادیت کے بنیادی حق سے زیادہ دیر محروم نہیں رکھا جاسکتا، کشمیری عوام اپنے قیمتی لہوسے آزادی کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں، عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جاگنا پڑے گا انہوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ بھارت میں بیلٹ گن اور کیمیکل ویپنز کے استعمال پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں اور بھارتی مظالم بند کرائیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) ماہ مقدس رمضان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈینگ نے عوام کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے ،ماہ رمضان المبارک کے دوران پورے ملک میں بجلی بلاتعطل فراہم کی جانی چاہئے تھی ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی میڈیا سیل سے جاری بیان میں کہی ان کا کہناتھا کہ حکومت واپڈہ حکام کو لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا پابند کرئے۔ شدید گرمی میں بجلی کی بندش عوام کے لیے سخت اذیت کا باعث ہے ۔ رمضان کے مقدس ماہ میں عوام کو اس اذیت سے دور رکھا جائے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ماہ صیام تذکیہ نفس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔ محض جسمانی عبادات سے اس ماہ کی برکتوں کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا جا سکتا بلکہ یہ مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبرو تحمل رواداری، اخوت ،عجز و انکساری کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔روزہ جسمانی مشقت کانام نہیں ہے بلکہ نفس کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔یہ ہمیں تمام اخلاقی و جسمانی برائیوں سے دور کرتا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ رمضان کی مناسبت سے دعائیہ محافل اور دیگر تقریبات میں وطن عزیز کے استحکام و ترقی کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ ماہ رمضان کے دوران انتظامیہ گراں فروشوں پر  نظر رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے ،عام آدمی کے لئے اشیائے خوردو نوش کا حصول دشوار ہوچکا ہے۔ناجائز منافع خوروں  کے اگے حکومت بے بس نظر آرہی ہے ۔ ناجائز منافع خوروں کے لیے فوری طور پر کڑی سزاؤں کا جگہ پر تعین کیا جائے تو عام گزر بسر کرنے والے افراد کو اس ماہ میں جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے اس میں یقینی طور پر کمی واقعہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار اداروں کو ملک دشمن عناصر پر بھی گہری نظر رکھنا ہو گی تاکہ وہ شر پسندانہ عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔مساجد ،امام بارگاہوں سمیت تمام مقدسات اور عبادت گاہوں کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔اس سلسلہ میں ذرا بھر غفلت کا مظاہرہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ماہ رمضان کے دوران ملک بھر میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

انقلاب مگر کیسے!؟

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انقلابیوں کو انقلاب ھرگز برا نہیں لگتا لیکن ناسمجھ ، جذباتی اور دو نمبر انقلابی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ آج جن دہشتگردوں نے عراق وشام کو تباہ کیا سب کے سب انقلاب کے دعویدار تھے۔ امام کعبہ کی برکتوں سے بھی انقلابی لوگ میدان میں از سر نو فعال ہوئے ہیں ۔ اور شیخ صبحی طفیلی مزاج سپر انقلابی بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔جو اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انقلاب اور رھبران انقلاب وبانیان حکومت جمھوری اسلامی کے فرامین واقوال اور مواقف واقدامات کی تاویلیں اور توجیہات اپنی مرضی سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری طرف دشمنان مقاومت وبیداری اور استعماری واستکباری طاقتیں بیرونی واندرونی محاذوں پر حملہ آور ہیں۔ انقلاب ومقاومت کے دشمن کم علم اور  نا آگاہ عوام ، بالخصوص جذباتی نوجوانوں کے ذریعے  ہمارے راھبران مقاومت وانقلاب اور انقلابی شخصیات کی کردار کشی پر پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح ایم آئی 6 کے ایجنٹ ہوں یا سی آئی اے کے آلہ کار یا موساد و را کے تنخواہ دار ان سب کا بھی  ہدف اور نشانہ فقط اور فقط پیروان ولایت وخط مقاومت وبیداری ہیں۔اس لئے خط ولایت ومقاومت وانقلاب کے پیروکاروں کو یہ حساس مسائل بڑی حکمت ودانشمندی کے ساتھ بیان کرنے ، ایک دوسرے کی تحقیر وتذلیل اور کردار کشی کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے ، مشترکہ زبان تلاش کرنے اور  افہام وتفہیم سے مسائل کو سلجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی انقلابی اور رہبر کا پیرو نظام ولایت سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ تو ہر قسم  کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے۔ لیکن اختلاف اسلوب اور موقف کو سمجھنے میں ہے۔ اور رھبریت کی  براہِ راست  راھنمائی سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔  لیکن ایک دوسرے کے متعلق شائستہ زبان اور مہذبانہ تعبیرات ہی ہمیں قریب رکھ سکتی ہیں۔ اور احترام متبادل افہام وتفہیم ایجاد کرنے کا پہلا زینہ ہے۔ جتنا بھی اختلاف نظر ہو اور فکری فاصلے پیدا ہو جائیں تب بھی مشترکہ راھیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔  اور شبھات کا ازالۃ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تہمت  اور الزام تراشی ہمیشہ بند گلی کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔آئیے کچھ دیر کے لئے سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان میں کس طرح کی تبدیلی اور انقلاب چاہتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ بحث اپنی جگہ پر قائم ہے کہ پاکستان کا نظام کہ جس کے دستور  میں واضح بیان ہے کہ اسکے تمام تر قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہو نگے  یا مخالف نہیں ہو نگے تو کیا ایسے نظام کو مطلقاً طاغوتی کہنا درست ہے یا نہیں ؟یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان اور شیعان  پاکستان کے وجود کے دشمن جو تاسیس پاکستان کی تحریک سے لیکر آج تک تکفیریت کا پرچار کرنے  والے ہیں  اور سیاسی لبادے میں انکے سہولت کار جو  پاکستان دشمن قوتوں کے ھاتھوں میں کھیل بھی رھے ہیں اور دوسری جانب اس نظام کے اسٹیک ہولڈرز بھی بنے ہوئے ہیں نیز ہمیں ہمیشہ غیر کا ایجنٹ ، غیر پرست ، پراکسی وار کا حصہ اور دشمن نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ  جب ہم پاکستان کے نظام کو طاغوتی نظام کہتے ہیں تو دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کو تبدیلی اور حقیقی انقلاب سے مایوس کرکے پاکستان کی دشمنی پر ابھار رہے ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ فاسد اور طاغوتی نظام کا حصہ بننا ملت پاکستان بالخصوص مظلوم ملت تشیع کے لئے راہ نجات ہے یا نہیں ؟اصل سوال یہ نہیں بنتا کہ  ہمیں موجودہ  نظام کا  حصہ بننا چاھیے یا نہیں  بلکہ یہ  ایک روشن سچائی ہے کہ جس نظام کو طاغوتی اور فاسد کہا جارہا ہے  وہ تو  اپنی جگہ پر قائم ہے  اور پورے ملک کے باشندے چاھتے ہوئے یا نہ چاھتے ہوئے اس کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کوئی نظام مصطفی کی بات کر رہا ہے اور کوئی شریعت کا نظام لانا چاہتا ہے اور کوئی خلافت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ چنانچہ سوچنا یہ چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے لئے نجات کا راستہ کیا ہے؟1-آیا ہم شیعیانِ حیدر کرار  اس موجودہ  فاسد نظام کو  ہی مضبوط کریں؟ج - کوئی ہوشمند اور عاقل شیعہ ، ظلم وفساد کے نظام کی تقویت نہیں چاھتا۔ البتہ چند ایک نکات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا جس ملک میں شیعہ مسلمان (نظام امامت وولایت پر ایمان رکھنے والے) نسبتا اقلیت میں ہوں اور شیعہ مخالف مسلمان (جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہوں) اور  انکی اکثریت ہو تو کیا عوام نظام خلافت چاہیں گے یا نظام امامت وولایت ؟نظام امامت و ولایت پر اعتقاد اور یقین رکھنا تو ضروریات دین میں سےہے لیکن عملی طور پر یہ نظام ولایت و امامت موجودہ  صورتحال میں کیسے نافذ ہو گا۔ ؟اس  نظام کے نفاذ کا کا روڈ میپ کیا ہو گا ؟ اقلیت کیسے اپنی مرضی کا نظام قائم کرے گی؟ یا پھر زبردستی اور طاقت کے ذریعے  یا کوئی اور معجزہ نما  راستہ  موجود ہے؟ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ ہمارے مذہب میں اور ہمارے مراجع کرام کے نزدیک  اپنے عقیدے کا نظام قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال جائز بھی ہے یا نہیں۔ ؟

یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ اس ملک میں  لوگوں کو  نظام امامت کے لئے زبردستی  کرنے کے لئے اکسانا در اصل نظام خلافت کے حامیوں کو شہ دینے اور ابھارنے  کے مترادف تو نہیں!؟۔اسی طرح یہ   بھی شوچنا چاہیے کہ کیا اکثریت کو  اخلاقاً اور شرعاً یہ حق نہیں کہ وہ نظام خلافت قائم کرے۔؟پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا متروک شدہ  نظام خلافت سے بہتر نہیں کہ ایک جمھوری اسلامی نظام قائم کیا جائے۔ ؟مندرجہ بالا سوالوں اور اس ضمن میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے دیگر سوالوں کے مدلل اور عام فہم جوابات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے اور اصلح نظام کے لئے عوام کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔2-دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم شیعیان پاکستان اس نظام کا مکمل بائیکاٹ کریں ، سول نافرمانی کریں ، مثلا ٹیکس ادا نہ کریں،قوانین کو ماننے سے انکار کر دیں، نوکریوں کو چھوڑ دیں، عدالتی فیصلے قبول نہ کریں،  اس نظام کے تحت اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں اپنے بچے نہ بھیجیں،وغیرہ وغیرہاس میدان میں اترنے کے بھی دو طریقے ہو سکتے ہیںا- مسلح جدوجہد کریں۔ اور اس نظام کے سقوط  تک جہاد کریں۔ اور زمام اپنے ھاتھ میں لے لیں۔  2- پر امن عوامی جدوجہد کریں اور اس نظام کو کمزور کریں تاکہ ظلم وفساد سے نجات حاصل ہواور اکثریتی عوامی حمایت سے اس کومرحلہ وار بدلنے پر کام کریں اور نعم البدل لائیں۔یعنی عوامی انقلاب لا کر یکسر نظام بدل دیں۔3-اب پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب تک عوامی انقلاب لانے کا مرحلہ طے نہیں ہوتا تو کیا اس وقت تک معاشرے وعوام اور نظام سے کٹ جائیں ؟ ۔  یا اس سوسائٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو اجتماعی ومعاشی وفرھنگی وسیاسی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ ؟

تحریر۔۔۔۔حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید شفقت شیراز ی

اصحاب امام علی علیہ السلام کا احتجاج

وحدت نیوز(آرٹیکل)  شیعیت کی سیاسی اوراجتماعی تاریخ کی ابتداء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے شروع ہوئی جو امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت تک جاری رہی اور اس عرصے کی ابتدا میں ہی امامت وخلافت کا مسئلہ ایک اہم سیاسی اور دینی مسئلے کے طور پر جہان اسلام میں پیش ہوا اور اس سلسلے میں بہت سارے اختلافات رونما ہو ئے جن میں سے شیعہ امامت کے مسئلے میں نص اور نصب نبی کا عقیدہ رکھتاتھا۔ جبکہ دوسری طرف انصار ومہاجرین میں سے بعض افراد جانشین پیغمبراور امت اسلامی کے رہبر کےانتخاب کے لئے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔طویل گفت و شنید کے بعد ان کی اکثریت نے ابو بکر کے ہاتھوں  پربیعت کی اور یوں ابوبکر نے زمام امورسنبھال لیا اور تقریبا دو سال سات مہینے بر سر اقتدار رہے۔اس عرصے کی ابتدامیں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور مختلف اور مناسب مقامات پراپنے عقیدے کی وضاحت کی ۔

ابن قتیبہ کی روایت  کے مطابق جب ابوبکر کے حکم سےحضرت علی علیہ السلام کو لایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کا حکم دیا گیا تو آپنے فرمایا :{ انا احق بھذا الامر منکم ، لا ابایعکم و انتم اولی بالبیعۃ لی } میں تم سےزیادہ خلافت و امامت کے لئے شایسۃ اور حقدار ہوں ،میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا تم لوگ میری بیعت کرنےکے لئےزیادہ سزاوارہو ۔ عمر اور ابو عبیدۃ بن جراح نےحضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے کے بعد اور آپ ؑکو ابو بکر کی بیعت کرنےکو کہا لیکن آپ ؑنے دوبارہ اسی بات کی تکرا رکی اور فرمایا :{فو الله یا معشر المہاجرین ، لنحن احق الناس بہ ، لانا اہل البیت و نحن احق بہذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله ،الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن رسول الله ،المضطلع بامر الرعیۃ، المدافع عنہم الامور السئیۃ، القاسم بینہم بالسویۃ ، والله انہ یفینا فلا تتبعوا الہوی فتضلوا من سبیل الله ، فتزدادوا من الحق بعدا}

اے مہاجرین خدا کی قسم ہم اہل بیت امت اسلامی کی رہبری اور خلافت کے لئے لوگوں میں اس وقت تک سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار ہیں جب تک ہمارے درمیان قاری قرآن ،فقیہ ،سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگاہ ،لوگوں کی رہبری کےلئے قدرتمند ،برے کاموں سے دفاع کرنے والا اور بیت المال کو مساوات سے تقسیم کرنے والا موجود ہے اور خداکی قسم ایسا صرف خاندان رسالت میں موجود ہے ۔لہذا تم خواہشات نفسانی کی پیروی چھوڑ دو کیونکہ اس سے تم گمراہ اور حق سے دور ہوجاو گے۔

حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں نےبھی ابوبکر کےسامنے صاف و شفاف الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلافصل پر اپنے عقائد بیان کئے تھے۔شیخ صدوق نے انصار و مہاجرین میں سے ان بارہ افراد  { مہاجرین سے خالد بن سعید بن عاص،مقداد بن اسود ،عمار بن یاسر ،ابوذر غفاری ،سلمان فارسی ،عبداللہ بن مسعود ،بریدہ اسلمی جبکہ  انصار سے خزیمۃ بن ثابت ،سہل بن حنیف ،ابو ایوب انصاری ، ابو الہیثم بن تیہان اور زید بن وہب  تھے }کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے دلائل و برہان کے ذریعے ابوبکر کے سامنے احتجاج کیا۔البتہ ان کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنےوالے افراد اس سے بھی زیادہ تھے چونکہ مذکورہ افراد کے ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :{وغیرہم}اور آخر میں زید بن وہب کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہیں{فقام جماعۃ بعدہ فتکلموا بنحوہا هذا} اس کے بعد ایک گروہ نے بھی انہیں مطالب کی طرح گفتگوکیا ۔ البتہ اس گروہ نے پہلے آپس میں مشورہ کیا اور ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ابوبکر کو منبر سے نیچےاتاراجائے لیکن بعض نےاس روش کوپسند نہیں کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ کیاجائےچنانچہ آ پؑ نے لڑائی جھگڑے سے انہیں روکا اور فرمایا:اس کام میں مصلحت نہیں ہے اس بنا پر آپ ؑنے انہیں صبر وتحمل سے پیش آنے اور مسجد میں جا کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنانےکاحکم دیا تا کہ لوگوں پر خداکی طرف سےحجت تمام ہو ۔یہ لوگ آپ ؑ کےحکم پرعمل کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور یکے بعد دیگرے کھڑے ہو کر ابوبکر کےسامنے احتجاج کرنا شروع کیا ۔چونکہ یہاں تفصیل سے ان دلائل کو بیان نہیں کر سکتے لہذا اختصار کے ساتھ کچھ نکات بیان کرتے ہیں:

1۔خالد بن سعید نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ان علیا امیرکم من بعدی و خلیفتی فیکم ان اہل بیتی هہم الوارثون امری و القائلون{القائمون}بامر امتی} بے شک علی علیہ السلام میرےبعدتمہارے درمیان امیر اور خلیفہ ہے اور میرے اہل بیت میرے امور کے وارث اور میری امت کے امور کو بتانے والے ہیں۔

2۔ابوذر غفاری نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{الامرلعلی بعدی ثم الحسن و الحسین ثم فی اہل البیتی من ولد الحسین } خلافت وامامت میرے بعد علی، انکے بعد حسن و حسین اور ان کےبعد حسین کی نسل سے میرے اہل بیت کا حق ہے ۔

3۔ سلمان فارسی نےکہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{ترکتم امر النبی {ص}و تناسیتم وصیتہ ، فعما قلیل یصفوا الیکم الامر حین تزورواالقبور...}تم لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر عمل نہیں کیا اور ان کے فرامین کو فرموش کر دیا لیکن جلد ہی تمھارے کاموں کا حساب لیاجائےگا جب قبروں میں جاو ٴگے ۔

4۔مقداد بن اسود نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{قد علمت ان هذا الامر لعلی علیہ السلام و هو صاحبہ بعد رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم}{ اے ابوبکر} تم خود جانتے ہو کہ خلافت علی علیہ السلام کے لئے ہے اور وہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ و امام ہیں ۔

5۔بریدۃ اسلمی نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ یا ابا بکر اما تذکر اذا امرنا رسول الله ص و سلمنا علی علی علیہ السلام بامرہ المومنین } اے ابو بکر کیا تمہیں یاد نہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے علی علیہ السلام کو امیر المومنین کی حیثیت سےسلام کیا تھا ۔

6۔عبد اللہ  بن مسعود نے کہا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{علی ابن ابی طالب ع صاحب هذا الامر بعد نبیکم فاعطوہ ما جعلہ الله لہ و لا ترتدوا علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین}تمہارے نبی کےبعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام خلافت کا حقدار ہے لہذا جس چیز کو خدا نےاس کے لئے قرار دیا ہے اسے اس کے سپردکردینااور اپنے سابقہ آئین کی طرف پلٹ نہ جانا  ٔ کہ بہت نقصان اٹھاوٴ گے ۔

7۔عمار بن یاسر نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا :{یا ابابکر لا تجعل لنفسک حقا ، جعل الله عزوجل لغیرک} اے ابو بکر جس
حق کو خداوندمتعال نے کسی دوسرے سےمخصوص کیا ہے اسے اپنےسےمخصوص نہ کرو۔

8۔خزیمہ بن ثابت نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{انی سمعت رسول الله یقول اہل بیتی یفرقون بین الحق و الباطل و ہم الائمۃ الذین یقتدی بہم}میرے اہل بیت حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں اور یہی پیشوا و رہبر ہیں جن کی اقتداء واجب ہے ۔

9۔ ابو الہیثم نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{قال النبیﷺ اعلموا ان اہل البیت نجوم اہل الارض فقدموہم ولا تقدموہم}جان لو میرے اہل بیت  اہل زمین کے لئے روشن ستارے کے مانند ہیں ان کی اطاعت و پیروی کرنااور ان سے آگے نہ بڑھ جانا۔

10۔سہل بن حنیف نے کہا:{انی سمعت رسول الله قال : امامکم من بعدی علی ابن ابی طالب و هو انصح الناس لامتی}میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا میرے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام تمہارا امام ہے  جو میری امت کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ ہے ۔

11۔ابو ایوب انصاری نے کہا :{قد سمعتکم کما سمعنا فی مقام بعد مقام من نبی اللهﷺ انہ علی اول بہ منکم}پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکئی بار سن چکےہو جس طرح ہم نے سنا ہے کہ وہ {حضرت علی علیہ السلام} خلافت کے لئے تم سے زیادہ حقدارہے۔

12۔زید بن وہب کی گفتگو کے بعد ایک گروہ نےبھی اسی طرح کی گفتگو کی ۔
امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب دیکھا کہ خلافت و امامت کے راستے میں بہت بڑے بڑے انحرافات آ ر ہے ہیں جن کے آثار یکے بعد دیگرے معاشرے میں نمایاں ہو رہےتھے تو موقع سے فائدۃ اٹھاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کی تبلیغ شروع کردی مثلا  ایک دن ابوذر مسجد میں  اہل بیت کے فضائل اس طرح سے بیان کررہے تھے:علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں ۔اے پیغمبر کی امت جو ان کے بعد حیران و سرگردان ہو چکی ہے اگر تم اس فرد کو مقدم کرتے جس کو خدا وند متعال نے مقدم کیا تھا  اور اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت و وراثت کا اقرار کرتےتو یقینا مادی اور معنوی حالات بہت بہتر ہوتے لیکن چونکہ تم لوگوں نےحکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے اس لئے اپنے کئے کا مزہ چکھو۔   

امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب سے عثمان نے  خلافت سنبھالی اسی وقت سے انہیں انحرافات کا احساس ہونے لگا اسی لئے یعقوبی لکھتاہے :عثمان کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی مقداد بن اسود کو مسجد میں دیکھا جو نہایت غم و اندوہ کی حالت میں کہہ رہے تھے: مجھے قریش پر بڑاتعجب ہوا جنہوں نے اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہبری اورخلافت کو چھین لیا حالانکہ دین خدا سے سب سے زیادہ آگاہ ،سب سے پہلے ایمان لانےوالے یعنی پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ان کے درمیان تھےانہوں نے اس کام میں امت کی بھلائی اور بہتری کو نہیں دیکھا بلکہ دنیا کو اپنی آخرت پر مقدم کر دیا۔ عثمان کے بعد مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کےہاتھوں پر امت اسلامی کےرہبر کی حیثیت سے بیعت کی اور حضرت علی علیہ السلا م کوجو خدا کی طرف سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ذریعے  مقام امامت وخلافت پر فائز ہوئے تھے پچیس سال کے بعد یہ منصب سپرد کیا گیا ۔بعض افراد کی بےتوجہی سے
اتنے عرصے تک مسلمانوں کی رہبری کو آپ ؑسے سلب کیا گیا اور آپ ؑنے بھی اسلام و مسلمین کے مصالح کی خاطر طاقت سے کام نہیں لیا لیکن افسوس اب بہت دیر ہو چکی تھی اور اتنے عرصے میں حکومت و خلافت بہت سارے انحرافات کا شکار ہو چکی تھی اور بہت سارے امکانات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے اور یوں معاشرے کو قرآن و سنت کےمطابق ہماہنگ بنانا بہت مشکل کام ہو گیا تھا  لیکن حضرت علی علیہ السلام جو رضایت خدا اور اسلام و مسلمین کے مصالح کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے لوگوں کی بیعت قبول کرنے پر مجبور تھے ۔

جیسا کہ آپ  ؑنے فرمایا :{ لو لاحضور الحاضر و قیام الجۃ بوجود الناصر و ما اخذ الله علی العلماء الا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم لالقیت حبلہا علی غارباا و اخرہا بکاس اولہا و لالفیتم دنیاکم ہذہ ازہد عندی من عفطۃ عنز} اگر بیعت کرنےوالوں کی موجودگی اورمدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نےعلماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول نے سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتنا پاتے ۔ لیکن کچھ جاہل ،نادان اور پست فطرت افرادنے کچھ چیزوں کےذریعے عصمت و طہارت کے اس پھلدارتناور درخت کو پھلنے ،پھولنے اور امت اسلامی کی رہبری کرنے نہیں دئیے  ۔

1۔ امت اسلامی پر مسلسل کئی جنگیں تحمیل کی گئیں ۔
2۔ حضرت علی علیہ السلام کو شہید کر کےجامعہ اسلامی کو ایک بے بدیل رہبر سےمحروم کر دیا گیا جیساکہ آپ ؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :{فلما نہضت بالامر نکثت طائفہ و مرقت اخری و قسط آخرون}جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا  تو ایک گروہ نے بیعت تور ڈالی اور دوسرا دین سےنکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا ۔یہاں ناکثین سے مراد اصحاب جمل اور مارقین سے مراد خوارج نہروان اور قاسطین سے مراد معاویہ اور اس کے پیروکار ہیں ۔حضرت علی  علیہ اسلام اس مطلب کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہ دنیا طلبی کےباعث اتنے فتنے برپا ہوئے فرماتے ہیں :گویا انہوں نے کلام خداکو نہیں سنا تھا جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:{تلْکَ الدَّارُالاَخِرَۃُ نجَعَلُہَالِلَّذِينَ لَايُرِيدُونَ عُلُوًّافیِ الاَرْضِ وَلَافَسَادًاوَالْعَاقِبۃُ لِلْمُتَّقِين} آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بلا دستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور {نیک}انجام تو تقوی والوں کےلئے ہے۔ اس کے بعد آپ ؑفرماتے ہیں :خدا کی قسم ان لوگوں نےاس آیت کوسنا تھا اور یادکیاتھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دہج نے انہیں لبھا  دیا ۔{ ولکنہم حلیت الدنیا فی اعینہم و راقہم زبرجہا } اس عرصےمیں اگرچہ شیعیان اپنے عقیدے کے اظہار میں آزاد تھے اور اس سلسلے میں حکومتی افراد اور دوسرےلوگوں سے تقیہ نہیں کرتے تھے۔لیکن مذکورہ حوادث و وقایع کی وجہ سے وہ اپنےعقائد کی نشرواشاعت اور اپنے افکار پر مکمل طور پر عمل نہ کرسکے لیکن حضرت علی علیہالسلام نے اس فرصت سے استفادہ کرتےہوئے اپنے معصومانہ رفتارو کردار کے ذریعے حقیقی اسلام کو لوگوں تک پہنچایا اور اس کےعلاوہ آپ ؑنے بہت سارے علوم اور معارف عالیہ بیان فرمائے جو آج بھی دین اسلام کےگرانقدر علمی و دینی سرمایہ اور میراث شمار ہوتےہیں  بلکہ بشریت و انسانیت کےلئے ایک فرہنگ و تمدن ہیں ۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ الامامۃ و السیاسۃ ،ج1 ،ص 18۔
 2۔ایضا ۔
  3۔شیخ الصدوق ،الخصال ،باب12 ،حدیث 4۔
 4۔تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 67 – 68 ۔
5۔ تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 57۔
 6۔نہج البلاغۃخطبہ شقشقیہ ۔
 7۔ترجمہ نہج البلاغہ :علامہ مفتی جعفر حسین ۔
 8۔قصص،83۔
  9۔نہج البلاغہ ،خطبہ شقشقیہ،

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree